نحیف جسم پہ ہجرِگران ٹوٹ پڑا

نحیف جسم پہ ہجرِگران ٹوٹ پڑا
میں ماند پڑرہا تھا آسمان ٹوٹ پڑا
میں بوسہ گاہ تھا لیکن کیا نہ تونے خیال
مزار نور پہ توبے کران ٹوٹ پڑا
میں تیری مانگ ستارے سے بھر رہا تھا مگر
عدو کے ساتھ ہوا آسمان ٹوٹ پڑا
تمہارے عشق کی دولت میں تھی چمک اتنی
خوشی کو لوٹنے سارا جہان ٹوٹ پڑا
حسین وار سی آنکھوں نے رخ کیا دل کا
حسین سمت ہمارا بھی دھیان ٹوٹ پڑا
ہرایک لمس کے لذت پہ تو رہا غالب
ہراک یقین پہ تیرا گمان ٹوٹ پڑا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نحیف جسم پہ ہجرِگران ٹوٹ پڑا
میں ماند پڑرہا تھا آسمان ٹوٹ پڑا
میں بوسہ گاہ تھا لیکن کیا نہ تونے خیال
مزار نور پہ توبے کران ٹوٹ پڑا
احسن بھائی ، گران اور بے کران سرے سے اردو الفاظ ہی نہیں ہیں ۔ اردو میں گراں اور بےکراں استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن ان الفاظ کی ترکیبِ اضافی بناتے وقت نون غنہ کو نون معلنہ میں بدل دیا جاتا ہے تاکہ اس نون پر اضافت لگائی جاسکے ۔جیسے کوہِ گرانِ غم ، دشتِ بیکرانِ عشق وغیرہ ۔
سید علی رضوی صاحب نے ان الفاظ کو درست استعمال نہیں کیا ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
احسن بھائی ، گران اور بے کران سرے سے اردو الفاظ ہی نہیں ہیں ۔ اردو میں گراں اور بےکراں استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن ان الفاظ کی ترکیبِ اضافی بناتے وقت نون غنہ کو نون معلنہ میں بدل دیا جاتا ہے تاکہ اس نون پر اضافت لگائی جاسکے ۔جیسے کوہِ گرانِ غم ، دشتِ بیکرانِ عشق وغیرہ ۔
سید علی رضوی صاحب نے ان الفاظ کو درست استعمال نہیں کیا ۔
بھائی جان تھوڑی سی رعایت کر لیں ہو سکتا ہے کوئی صورت نکلتی ہو اور آپ اس سے بےخبر ہوں ہو سکتا ہے کسی نے ایسا کچھ لکھ دیا ہو
(شاعر کے لیے جہاں تک ممکن ہو، بغیر ترکیب نون غُنّہ کا اعلان کرے. گو اعلان نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن فصاحت اعلان ہی میں ہے)
 
احسن بھائی ، گران اور بے کران سرے سے اردو الفاظ ہی نہیں ہیں ۔ اردو میں گراں اور بےکراں استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن ان الفاظ کی ترکیبِ اضافی بناتے وقت نون غنہ کو نون معلنہ میں بدل دیا جاتا ہے تاکہ اس نون پر اضافت لگائی جاسکے ۔جیسے کوہِ گرانِ غم ، دشتِ بیکرانِ عشق وغیرہ ۔
سید علی رضوی صاحب نے ان الفاظ کو درست استعمال نہیں کیا ۔
حالاں کہ محترم سید علی رضوی صاحب اپنے اِن اشعار میں دیگر الفاظ کی
خوبصورت بندشوں ،نادر خیالات اور پختہ مضامین سے منجھے ہوئے شاعر٭
معلوم ہوتے ہیں بلکہ یقینی طور پر ایک مشاق شاعر ہیں مگرنجانے کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭(تاہم: ۔۔میں تیری مانگ ستارے سے بھر۔۔۔الخ
نون غنہ کونون معلنہ بنانے پر مصر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے اقبال کے ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر ایک لمس کے لذت پہ۔۔۔۔الخ
اِس اصرار سے نبرد آزما ہونے کی صورت نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ شاید ٹائپنگ کی لغزشیں ہوں گی)
وائے ناکامی !متاعِ کارواں جاتا رہا۔۔۔۔کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
کہیں بھی تو کاروان اور زیان کی گنجائش نہیں اور آج تک کسی نے اس شعر کے اِن
الفاظ کے اس طرح سے استعمال پر فصیح اور غیر فصیح یا فصیح اور زیادہ فصیح۔۔۔۔۔
کی بحث نہیں چھیڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم!
 
آخری تدوین:
بھائی جان تھوڑی سی رعایت کر لیں ہو سکتا ہے کوئی صورت نکلتی ہو اور آپ اس سے بےخبر ہوں ہو سکتا ہے کسی نے ایسا کچھ لکھ دیا ہو
(شاعر کے لیے جہاں تک ممکن ہو، بغیر ترکیب نون غُنّہ کا اعلان کرے. گو اعلان نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن فصاحت اعلان ہی میں ہے)
ان ’’کسی‘‘ کا تعارف بمع حوالہ بھی کروا دیجیے تاکہ دیگر بھی استفادہ کرسکیں۔ جزاک اللہ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے لگتا ہے کہ جیسے اضافت کے لیے نون ظاہر کر لیا جاتا ہے اسی طرح بحر و قافیہ کے شعری تقاضے کے تحت بھی "جائز" ہونا چاہیے ۔ اگرچہ اولی تو نون غنہ ہی ہے ۔اور بیان کا اصل خاص حسن اسی سے نکھرے گا۔ لیکن اسے مطلق ناجائز و غلط کہنا کچھ زیادتی ہے ہاں بیان کا ضعف البتہ کہہ سکتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کلاسیکل قدیم لہجات میں ( خواہ متروک ہی کیوں نہ ہوں ) یہ موجود بھی ہو ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بھائی جان تھوڑی سی رعایت کر لیں ہو سکتا ہے کوئی صورت نکلتی ہو اور آپ اس سے بےخبر ہوں ہو سکتا ہے کسی نے ایسا کچھ لکھ دیا ہو
(شاعر کے لیے جہاں تک ممکن ہو، بغیر ترکیب نون غُنّہ کا اعلان کرے. گو اعلان نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن فصاحت اعلان ہی میں ہے)
رضوی صاحب ، رعایت ہی رعایت ہے ۔ آپ جو چاہے اورجیسا چاہے لکھئے ۔ کوئی آپ کا قلم نہیں روک سکتا۔ راحل بھائی نے ایک سوال پوچھا تو میں نے اپنے ناقص علم وفہم کے مطابق اپنی رائے پیش کردی ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شاید کسی نے ان دو الفاظ (گران اور بے کران) کو نون معلنہ کے ساتھ استعمال کیا ہو اور میں اس سے بے خبر ہوں تو عرض ہے کہ ایسا ہونا بالکل ممکن ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ۔ کوئی بھی شخص زبان کے بارے میں عالمِ کُل ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور میں تو اردو کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں ۔ میں کیا اور میری بساط کیا ۔ لیکن اصول یہ ہے کہ کسی بھی لسانی بحث میں ذاتی رائے اور ذاتی پسند و ناپسند کا مقام دلیل کے بعد آتا ہے ۔ لسانی مباحث میں دلیل اور نظیر مقدم رکھی جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ زبان اور اس کے اصول میں اور آپ تو گھر بیٹھ کر نہیں بناتے ۔ یہ تو اہلِ زبان میں رائج چلن اور رواج سے بنتے ہیں ۔ محققین اور شارحینِ لسانیات تو بس ان اصولوں کو تحریری شکل میں منضبط کرنے کا کام کرتے ہیں ، وہ خود تو کوئی اصول نہیں گھڑتے ۔ چنانچہ عرض یہ ہے کہ آپ ان دو الفاظ کی کوئی نظیر پیش کردیجئے ۔ یا تو ان الفاظ کا وجود کسی اردو لغت سے دکھادیجئے یا پانچ سات اشعار ایسے پیش کردیجئے کہ جن میں انہیں استعمال کیا گیا ہو ۔ میں انتہائی شکریے کے ساتھ اپنی ناقص رائے سے رجوع کرلوں گا اور آپ کا ممنون رہوں گا کہ آپ نے میرے علم میں اضافہ فرمایا ۔ انسان اسی طرح ایک دوسرے سے سیکھتا اور سکھاتا ہے اور اس محفل پر میرے آنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے ۔
جہاں تک فصیح اور غیر فصیح کی بحث کا تعلق ہے تو وہ بعد کی بات ہے ۔ فصیح اور غیر فصیح کا سوال تو اُن الفاظ کے بارے میں اٹھتا ہے کہ جو زبان میں رائج ہوں ، لوگ انہیں بولتے برتتے ہوں۔ کسی بھی لفظ کے فصیح اور غیر فصیح ہونے کی دلیل اس زبان کے مستند زبان دانوں یعنی شعرا اور اُدبا کے ہاں سے لی جاتی ہے اور اس بارے میں اکثریتی رائے کو استثناء پر ترجیح دی جاتی ہے ۔ پہلے آپ ان دو الفاظ کا استعمال ثابت کردیں تو پھر فصیح اور غیر فصیح کے مسئلے پر بھی بات ہو جائے گی ۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھے لگتا ہے کہ جیسے اضافت کے لیے نون ظاہر کر لیا جاتا ہے اسی طرح بحر و قافیہ کے شعری تقاضے کے تحت بھی "جائز" ہونا چاہیے ۔ اگرچہ اولی تو نون غنہ ہی ہے ۔اور بیان کا اصل خاص حسن اسی سے نکھرے گا۔ لیکن اسے مطلق ناجائز و غلط کہنا کچھ زیادتی ہے ہاں بیان کا ضعف البتہ کہہ سکتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کلاسیکل قدیم لہجات میں ( خواہ متروک ہی کیوں نہ ہوں ) یہ موجود بھی ہو ۔
عاطف بھائی ، نہایت ادب و احترام اور عاجزی کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے مسئلۂ مذکور پر اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے ۔ الحمدللہ، آپ کے علم و تبحر کا صرف میں ہی نہیں بلکہ پوری محفل معترف ہے۔ میں آپ کے نیاز مندوں اور خوشہ چینوں میں سے ہوں اور مجھے آپ کی وسیع النظری اور فراخیِ مشرب کا بھی خوب علم ہے ۔ اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے ، آپ کے علم و ہنر میں مزید اضافہ فرمائے اور ہمیں اس سے مستفید ہونے کے مسلسل مواقع عطا فرمائے ۔ اس مسئلے پر آپ سے اختلاف کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں زبان کے معاملے میں بوجوہ روایت پرستی اور اصول پرستی کا قائل ہوچکا ہوں ۔ اردو اگرچہ اب بھی بنیادی طور پر برصغیر ہی کی زبان ہے لیکن اس کے بولنے والے آہستہ آہستہ اب دنیا کے ہر براعظم میں پھیل چکے ہیں ۔ گمان غالب ہے کہ اس وقت اردو بولنے والوں کی تقریباً آدھی (یا ایک تہائی سے زیادہ تعداد) ان لوگوں کی ہے کہ جن کی مادری زبان اردو نہیں۔ ویسے تو اردو مسلسل ہی تبدیلی کے انتہائی سست رو مگر ناگزیر عمل سے گزرتی آرہی ہے لیکن پچھلے تیس چالیس سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اس میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اور ان میں سے اکثر تبدیلیاں خوش آئند نہیں معلوم ہوتیں۔ لفظوں کا استعمال بدل رہا ہے ، محاورے تبدیل ہورہے ہیں ، زبان کے بنیادی اصولوں سے انحراف عام نظر آتا ہے۔ شاعر اور ادیب کہ جن کا کام زبان کی نفاست اور فصاحت کو برقرار رکھنا اور اسے مزید نکھارنا ہوتا ہے وہ خود گرامر اور بنیادی اصولوں سے بے پروا یا منحرف نظر آتے ہیں ۔ اس لسانی تنزل اور اس کی وجوہات پر تفصیلاً لکھنےکے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا جس کا یہاں محل نہیں ۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مانا زبان میں تبدیلی ناگزیر ہے اور زبان غیر محسوس طریقے پر آہستہ آہستہ اپنا رخ خود ہی متعین کرتی رہتی ہے ۔یہ بھی مانا کہ عوام کے درمیان اس تبدیلی کو روکنا اور اس کے آگے بند باندھنا تقریباً نا ممکن ہے کہ اس کے لئے تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر دور رس منصوبہ بندی اور ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس صورتحال میں ہم یہ اہتمام تو کرسکتے ہیں کہ اپنے اپنے محدود دائروں میں کم ازکم شعرا اور اُدبا کے درمیان زبان کی درستی اور زبان کے مستند اصولوں کی بالادستی پر اصرار کیا جائے۔ یہی شعرا اور اُدبا آگے چل کر معاشرے میں مختلف سطحوں پر زبان کی ترویج و تشہیر کا کام کرتے ہیں اور طلبا میں زبان کا معیار قرار پاتے ہیں۔ ( آخر ہم نے بھی تو اردو زبان شعرا اور ادبا کی تحریروں سے ہی سیکھی ہے اور اب بھی سیکھتے ہیں۔) اب ہماری یہ کوششیں کس حد تک بارآور ہوں گی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی کسی کوشش کے بغیر بہتری کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں ۔

اس طویل جملۂ معترضہ کے بعد زیرِ بحث موضوع پر واپس آتے ہوئے عرض یہ ہےکہ گریزان اور بے کران کو قافیے کی خاطر روا رکھنے میں قباحت یہ ہے کہ اس سے کئی اور بدعات کا دروازہ کھل جائے گا ۔ یعنی انگریزی کی اصطلاح میں ایک floodgateکھل جائے گا کہ جس کے آگے پھرکوئی بند باندھنا بہت مشکل ہوگا ۔ پھر قافیے کی خاطر دھیان اور مچان کو دھیاں اور مچاں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی باتیں روا ہونے لگیں تو پھر غزلیہ شاعری کا حسن شدید متاثر ہو نے کا خدشہ ہے۔ جو لوگ قافیے کی پابندی پسند نہیں کرتے ان کے لئے آزاد نظم یا نظم معریٰ کی اصناف موجود ہیں۔ غزل کا پاجامہ اور واسکوٹ اتار کر اسے جانگیہ اور سولا ہیٹ پہنانے کی کوشش نہ کی جائے تو میری ناقص رائے میں بہتر ہوگا ۔
ویسے جانگیہ ، سولا ہیٹ اور بیچ سینڈل پہن کر ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے غزل کہنے کی کیا بات ہے ! :):):)
 
عاطف بھائی ، نہایت ادب و احترام اور عاجزی کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے مسئلۂ مذکور پر اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے ۔ الحمدللہ، آپ کے علم و تبحر کا صرف میں ہی نہیں بلکہ پوری محفل معترف ہے۔ میں آپ کے نیاز مندوں اور خوشہ چینوں میں سے ہوں اور مجھے آپ کی وسیع النظری اور فراخیِ مشرب کا بھی خوب علم ہے ۔ اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے ، آپ کے علم و ہنر میں مزید اضافہ فرمائے اور ہمیں اس سے مستفید ہونے کے مسلسل مواقع عطا فرمائے ۔ اس مسئلے پر آپ سے اختلاف کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں زبان کے معاملے میں بوجوہ روایت پرستی اور اصول پرستی کا قائل ہوچکا ہوں ۔ اردو اگرچہ اب بھی بنیادی طور پر برصغیر ہی کی زبان ہے لیکن اس کے بولنے والے آہستہ آہستہ اب دنیا کے ہر براعظم میں پھیل چکے ہیں ۔ گمان غالب ہے کہ اس وقت اردو بولنے والوں کی تقریباً آدھی (یا ایک تہائی سے زیادہ تعداد) ان لوگوں کی ہے کہ جن کی مادری زبان اردو نہیں۔ ویسے تو اردو مسلسل ہی تبدیلی کے انتہائی سست رو مگر ناگزیر عمل سے گزرتی آرہی ہے لیکن پچھلے تیس چالیس سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اس میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اور ان میں سے اکثر تبدیلیاں خوش آئند نہیں معلوم ہوتیں۔ لفظوں کا استعمال بدل رہا ہے ، محاورے تبدیل ہورہے ہیں ، زبان کے بنیادی اصولوں سے انحراف عام نظر آتا ہے۔ شاعر اور ادیب کہ جن کا کام زبان کی نفاست اور فصاحت کو برقرار رکھنا اور اسے مزید نکھارنا ہوتا ہے وہ خود گرامر اور بنیادی اصولوں سے بے پروا یا منحرف نظر آتے ہیں ۔ اس لسانی تنزل اور اس کی وجوہات پر تفصیلاً لکھنےکے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا جس کا یہاں محل نہیں ۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مانا زبان میں تبدیلی ناگزیر ہے اور زبان غیر محسوس طریقے پر آہستہ آہستہ اپنا رخ خود ہی متعین کرتی رہتی ہے ۔یہ بھی مانا کہ عوام کے درمیان اس تبدیلی کو روکنا اور اس کے آگے بند باندھنا تقریباً نا ممکن ہے کہ اس کے لئے تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر دور رس منصوبہ بندی اور ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس صورتحال میں ہم یہ اہتمام تو کرسکتے ہیں کہ اپنے اپنے محدود دائروں میں کم ازکم شعرا اور اُدبا کے درمیان زبان کی درستی اور زبان کے مستند اصولوں کی بالادستی پر اصرار کیا جائے۔ یہی شعرا اور اُدبا آگے چل کر معاشرے میں مختلف سطحوں پر زبان کی ترویج و تشہیر کا کام کرتے ہیں اور طلبا میں زبان کا معیار قرار پاتے ہیں۔ ( آخر ہم نے بھی تو اردو زبان شعرا اور ادبا کی تحریروں سے ہی سیکھی ہے اور اب بھی سیکھتے ہیں۔) اب ہماری یہ کوششیں کس حد تک بارآور ہوں گی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی کسی کوشش کے بغیر بہتری کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں ۔

اس طویل جملۂ معترضہ کے بعد زیرِ بحث موضوع پر واپس آتے ہوئے عرض یہ ہےکہ گریزان اور بے کران کو قافیے کی خاطر روا رکھنے میں قباحت یہ ہے کہ اس سے کئی اور بدعات کا دروازہ کھل جائے گا ۔ یعنی انگریزی کی اصطلاح میں ایک floodgateکھل جائے گا کہ جس کے آگے پھرکوئی بند باندھنا بہت مشکل ہوگا ۔ پھر قافیے کی خاطر دھیان اور مچان کو دھیاں اور مچاں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی باتیں روا ہونے لگیں تو پھر غزلیہ شاعری کا حسن شدید متاثر ہو نے کا خدشہ ہے۔ جو لوگ قافیے کی پابندی پسند نہیں کرتے ان کے لئے آزاد نظم یا نظم معریٰ کی اصناف موجود ہیں۔ غزل کا پاجامہ اور واسکوٹ اتار کر اسے جانگیہ اور سولا ہیٹ پہنانے کی کوشش نہ کی جائے تو میری ناقص رائے میں بہتر ہوگا ۔
ویسے جانگیہ ، سولا ہیٹ اور بیچ سینڈل پہن کر ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے غزل کہنے کی کیا بات ہے ! :):):)
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ بہت خوب!

ویسے جانگیہ ، سولا ہیٹ اور بیچ سینڈل پہن کر ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے غزل کہنے کی کیا بات ہے !

آپ کا مطلب ہے "ویسے جانگیہ ، سولا ہیٹ اور بیچ سینڈل پہنے کسی شوخ حسینہ کو دیکھ کر ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے غزل کہنے کی کیا بات ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ بہت خوب!
آپ کا مطلب ہے "ویسے جانگیہ ، سولا ہیٹ اور بیچ سینڈل پہنے کسی شوخ حسینہ کو دیکھ کر ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے غزل کہنے کی کیا بات ہے
جانگیہ اور بیچ سینڈل کے بیچ میں یہ اضافی شوخ عنصر آپ نے خود ڈالا ہے ، میں نے ایسا بالکل نہیں کہا تھا ۔ :)
ویسے آپ کو میری سوکھی اور روکھی پھیکی شاعری دیکھ کر ایسا نہیں محسوس ہوتا کہ یہ غزلیں کسی خانقاہ کے سامنے بیٹھ کر کہی گئی ہیں ؟! :D:D:D
 
عاطف بھائی ، نہایت ادب و احترام اور عاجزی کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے مسئلۂ مذکور پر اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے ۔ الحمدللہ، آپ کے علم و تبحر کا صرف میں ہی نہیں بلکہ پوری محفل معترف ہے۔ میں آپ کے نیاز مندوں اور خوشہ چینوں میں سے ہوں اور مجھے آپ کی وسیع النظری اور فراخیِ مشرب کا بھی خوب علم ہے ۔ اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے ، آپ کے علم و ہنر میں مزید اضافہ فرمائے اور ہمیں اس سے مستفید ہونے کے مسلسل مواقع عطا فرمائے ۔ اس مسئلے پر آپ سے اختلاف کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں زبان کے معاملے میں بوجوہ روایت پرستی اور اصول پرستی کا قائل ہوچکا ہوں ۔ اردو اگرچہ اب بھی بنیادی طور پر برصغیر ہی کی زبان ہے لیکن اس کے بولنے والے آہستہ آہستہ اب دنیا کے ہر براعظم میں پھیل چکے ہیں ۔ گمان غالب ہے کہ اس وقت اردو بولنے والوں کی تقریباً آدھی (یا ایک تہائی سے زیادہ تعداد) ان لوگوں کی ہے کہ جن کی مادری زبان اردو نہیں۔ ویسے تو اردو مسلسل ہی تبدیلی کے انتہائی سست رو مگر ناگزیر عمل سے گزرتی آرہی ہے لیکن پچھلے تیس چالیس سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اس میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اور ان میں سے اکثر تبدیلیاں خوش آئند نہیں معلوم ہوتیں۔ لفظوں کا استعمال بدل رہا ہے ، محاورے تبدیل ہورہے ہیں ، زبان کے بنیادی اصولوں سے انحراف عام نظر آتا ہے۔ شاعر اور ادیب کہ جن کا کام زبان کی نفاست اور فصاحت کو برقرار رکھنا اور اسے مزید نکھارنا ہوتا ہے وہ خود گرامر اور بنیادی اصولوں سے بے پروا یا منحرف نظر آتے ہیں ۔ اس لسانی تنزل اور اس کی وجوہات پر تفصیلاً لکھنےکے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا جس کا یہاں محل نہیں ۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مانا زبان میں تبدیلی ناگزیر ہے اور زبان غیر محسوس طریقے پر آہستہ آہستہ اپنا رخ خود ہی متعین کرتی رہتی ہے ۔یہ بھی مانا کہ عوام کے درمیان اس تبدیلی کو روکنا اور اس کے آگے بند باندھنا تقریباً نا ممکن ہے کہ اس کے لئے تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر دور رس منصوبہ بندی اور ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس صورتحال میں ہم یہ اہتمام تو کرسکتے ہیں کہ اپنے اپنے محدود دائروں میں کم ازکم شعرا اور اُدبا کے درمیان زبان کی درستی اور زبان کے مستند اصولوں کی بالادستی پر اصرار کیا جائے۔ یہی شعرا اور اُدبا آگے چل کر معاشرے میں مختلف سطحوں پر زبان کی ترویج و تشہیر کا کام کرتے ہیں اور طلبا میں زبان کا معیار قرار پاتے ہیں۔ ( آخر ہم نے بھی تو اردو زبان شعرا اور ادبا کی تحریروں سے ہی سیکھی ہے اور اب بھی سیکھتے ہیں۔) اب ہماری یہ کوششیں کس حد تک بارآور ہوں گی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی کسی کوشش کے بغیر بہتری کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں ۔

اس طویل جملۂ معترضہ کے بعد زیرِ بحث موضوع پر واپس آتے ہوئے عرض یہ ہےکہ گریزان اور بے کران کو قافیے کی خاطر روا رکھنے میں قباحت یہ ہے کہ اس سے کئی اور بدعات کا دروازہ کھل جائے گا ۔ یعنی انگریزی کی اصطلاح میں ایک floodgateکھل جائے گا کہ جس کے آگے پھرکوئی بند باندھنا بہت مشکل ہوگا ۔ پھر قافیے کی خاطر دھیان اور مچان کو دھیاں اور مچاں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی باتیں روا ہونے لگیں تو پھر غزلیہ شاعری کا حسن شدید متاثر ہو نے کا خدشہ ہے۔ جو لوگ قافیے کی پابندی پسند نہیں کرتے ان کے لئے آزاد نظم یا نظم معریٰ کی اصناف موجود ہیں۔ غزل کا پاجامہ اور واسکوٹ اتار کر اسے جانگیہ اور سولا ہیٹ پہنانے کی کوشش نہ کی جائے تو میری ناقص رائے میں بہتر ہوگا ۔
ویسے جانگیہ ، سولا ہیٹ اور بیچ سینڈل پہن کر ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے غزل کہنے کی کیا بات ہے ! :):):)
۔۔۔چلیں اِس بہانے ایک رواں موضوع پر موزوں ترین نثر پڑھنے کو ملی
بے شک۔۔۔۔۔ محترم و مکرم جناب ظہیر احمد ظہیر صاحب کی سخنوری تو
بے شمار معتقدین پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہی ہے مگر نثر بھی کمال رتبہ
کی حامل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا تو عقیدہ ہو چلا ہے کہ شاعر کی پہچان اُس
کی نثر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جیسے طالبِ علم اپنے سوال اور استاد جواب سے
پہچانا جاتا ہے ایسے ہی شاعر کا حقیقی تعارف اُس کی لکھی عبارتیں ہیں۔۔۔۔
محترم ظہیر صاحب ، ربِ کریم آپ کے قلم کو چارچاند لگائے ،آپ نظم اور
نثر دونوں ہی میدانوں میں سورج کی طرح جگمگائیں۔۔۔۔۔آمین ثم آمین!
بھلا ہو اِس انٹر نیٹ کا جس کے بعض مقامات پر اُردُو کا وہ حال ہے
’جیسے ہاری
فوج سے بچھڑا ایک سپاہی،اپنی پسپائی پر گم صم،جسم کے اوپر تیغ سےلکھی

تحریروں پر نادم سوچ رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زخم شماری سے کیا حاصل!‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(راج نرائن رازؔ)
۔طالبِ دعا:
شکیل احمد خان
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ظہیر بھائی ۔ آپ کے فرمودہ فرامین سے مجھے ایک سو سے ذرا زیادہ اتفاق ہے، اور آپ کے اختلاف کے پس پردہ بھاری مصلحتوں اور منفعتوں کے حامل ہو نے میں کچھ شک نہیں ہے ۔ یہ سراسرآپ کی عالی ظرفی کا اظہار ہے کہ آپ ہم جیسوں کے سطحی اور انتہائی محدود مطالعے سے بنے پدی کے شوربے میں بھی تبحر دیکھ لیتے ہیں جو دونوالوں کو بھی کافی نہ ہو۔ آپ کے قلم اور لب و لہجے کا مزاج عالی جس روایت پسندی اور اور اصول پرستی کا امین ہے، میں اس کے سنہرے نقوش کے اولین مداحوں میں سے ہوں اور اس کی قدردانی کے احساس کو اپنی لسانی خوش بختی سمجھتا ہوں ۔ان نفیس اصولوں کا انحراف میری سماعت اور طبیعت پر اسی قدر گراں گررتا ہے جتنا کہ ان مسلمہ اصول کا احترام اور لگاؤ قلب میں ہے۔ ہماری زبان کی تراکیب میں دیگر لفظی مہارتوں کی طرح نون اور غنہ کی باریکیاں یقیناً جس کاریگری کی متقاضی ہیں وہ بلا شک و ارتیاب لسانی ذوق کی لطافتوں کے تجربات اور احساسات پر منحصر ہیں (خصوصاً آج کے ماحول میں جس کا آپ نے اجمالی ذکر کیا ۔) میں انہی مباحث میں سے اپنی فکر کو گوشوں کو روشن کرنے کوشش کرتا ہوں ۔ البتہ اپنے مزاج سے کچھ تاثر پیش کر دیتا ہوں جیسا کہ یہاں کیا ۔
جب ہم اضافت کے لیے نون کا اظہار کرلیتے ہیں تو وزن اور بحر سے ہم آہنگ کر نے کے لیے کیوں نہیں ۔ اس کے لیے شاید کسی متقدمین کی بنیاد البتہ درکار ہو گی ۔ احساس یہ ہے کہ ایسا کچھ استعمال کسی لفظ میں ضرور رہا ہے ۔ اقبال کی مشہور نظم شاہین کا شعر دیکھیں۔

کیا میں نے اس خاکداں سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

غالب بھی آشیانے یاآشیاں کو آشیان کر نے پر راضی ہیں ۔ جب کہ ہم اردو میں آشیانہ یا آشیاں ہی استعمال کرتے ہیں ۔
یا پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے

ہم اردو میں ہمیشہ فغاں کہتے ہیں کوئی فغان نہیں کہتا ۔
میر صاحب کہتے ہیں ۔
اٹھ جائے رسم نالہ و آہ و فغان سب
اس تیرہ روزگار میں تو میر اگر نہ ہو
(جب کہ فغاں کی شکل میں سب کو بہ آسانی سبھی کیا جاسکتا ہے)
اسی طرح شاید سودا کے ہاں کارواں، کاروان استعمال ہوا ہے۔

س اسے شوخ چشمی کہہ لیجیے یہ آپ جیسے محترم استاد کی سرزنش و گوشمالی یا شفقت ومحبت کا امتحان ہے جس کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم ہے۔ ۔
سو اس صورت حال میں مجھے اسے یکسر ناجائز کہنے میں قدرے تامل ہوا ۔ میں یہاں ہر گز اس کی بے مہار تائید نہیں کر رہا، لیکن میرا خیال ہے کہ اس طرح کا استعمال یقیناً ہر کسی کا یارا نہیں (جیسا کہ یہاں دیکھا جاسکتا ہے گران اور کران میں) ۔یہ ایسا ہی ہے کہ جوہری ناقص ہیرے کو بھی ایسی مہارت سے استعمال کرے کہ اس کا نقص ظاہر نہ ہو
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ۔ آپ کے فرمودہ فرامین سے مجھے ایک سو سے ذرا زیادہ اتفاق ہے، اور آپ کے اختلاف کے پس پردہ بھاری مصلحتوں اور منفعتوں کے حامل ہو نے میں کچھ شک نہیں ہے ۔ یہ سراسرآپ کی عالی ظرفی کا اظہار ہے کہ آپ ہم جیسوں کے سطحی اور انتہائی محدود مطالعے سے بنے پدی کے شوربے میں بھی تبحر دیکھ لیتے ہیں جو دونوالوں کو بھی کافی نہ ہو۔ آپ کے قلم اور لب و لہجے کا مزاج عالی جس روایت پسندی اور اور اصول پرستی کا امین ہے، میں اس کے سنہرے نقوش کے اولین مداحوں میں سے ہوں اور اس کی قدردانی کے احساس کو اپنی لسانی خوش بختی سمجھتا ہوں ۔ان نفیس اصولوں کا انحراف میری سماعت اور طبیعت پر اسی قدر گراں گررتا ہے جتنا کہ ان مسلمہ اصول کا احترام اور لگاؤ قلب میں ہے۔ ہماری زبان کی تراکیب میں دیگر لفظی مارتوں کی طرح نون اور غنہ کی باریکیاں یقیناً جس کاریگری کی متقاضی ہیں وہ بلا شک و ارتیاب لسانی ذوق کی لطافتوں کے تجربات اور احساسات پر منحصر ہیں (خصوصاً آج کے ماحول میں جس کا آپ نے اجمالی ذکر کیا ۔) میں انہی مباحث میں سے اپنی فکر کو گوشوں کو روشن کرنے کوشش کرتا ہوں ۔ البتہ اپنے مزاج سے کچھ تاثر پیش کر دیتا ہوں جیسا کہ یہاں کیا ۔
جب ہم اضافت کے لیے نون کا اظہار کرلیتے ہیں تو وزن اور بحر سے ہم آہنگ کر نے کے لیے کیوں نہیں ۔ اس کے لیے شاید کسی متقدمین کی بنیاد البتہ درکار ہو گی ۔ احساس یہ ہے کہ ایسا کچھ استعمال کسی لفظ میں ضرور رہا ہے ۔ اقبال کی مشہور نظم شاہین کا شعر دیکھیں۔

کیا میں نے اس خاکداں سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

غالب بھی آشیانے یاآشیاں کو آشیان کر نے پر راضی ہیں ۔ جب کہ ہم اردو میں آشیانہ یا آشیاں ہی استعمال کرتے ہیں ۔
یا پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے

ہم اردو میں ہمیشہ فغاں کہتے ہیں کوئی فغان نہیں کہتا ۔
میر صاحب کہتے ہیں ۔
اٹھ جائے رسم نالہ و آہ و فغان سب
اس تیرہ روزگار میں تو میر اگر نہ ہو
(جب کہ فغاں کی شکل میں سب کو بہ آسانی سبھی کیا جاسکتا ہے)
اسی طرح شاید سودا کے ہاں کارواں، کاروان استعمال ہوا ہے۔

س اسے شوخ چشمی کہہ لیجیے یہ آپ جیسے محترم استاد کی سرزنش و گوشمالی یا شفقت ومحبت کا امتحان ہے جس کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم ہے۔ ۔
سو اس صورت حال میں مجھے اسے یکسر ناجائز کہنے میں قدرے تامل ہوا ۔ میں یہاں ہر گز اس کی بے مہار تائید نہیں کر رہا، لیکن میرا خیال ہے کہ اس طرح کا استعمال یقیناً ہر کسی کا یارا نہیں (جیسا کہ یہاں دیکھا جاسکتا ہے گران اور کران میں) ۔یہ ایسا ہی ہے کہ جوہری ناقص ہیرے کو بھی ایسی مہارت سے استعمال کرے کہ اس کا نقص ظاہر نہ ہو

عاطف بھائی ، بڑی اچھی گفتگو رہی ۔ آپ نے اپنی آخری سطور میں بہت کام کی بات کی ہے اور جائز و ناجائز کی اس بحث کا لب لباب نکال کر رکھ دیا ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ ہم دونوں اصلاً ایک ہی بات کررہے ہیں بس ذرا سا لب و لہجے کی شدت کا فرق ہے ۔ :):):)

اس گفتگو کو سمیٹے ہوئے بس ایک پہلو کی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں تاکہ کوئی ابہام نہ رہ جائے اور بعد میں پڑھنے والے اس لسانی بحث سے کوئی غلط نتیجہ نہ نکال لیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ فغان ، گران ، زیان ، نشان ، جہان وغیرہ کی طرز کے یہ تمام مفرد الفاظ اصل فارسی زبان میں تو اعلانِ نون کے ساتھ ہی لکھے جاتے ہیں ( اور اکثر فارسی علاقوں میں اعلانِ نون کے ساتھ بولے بھی جاتے ہیں) ۔ لیکن ہمارے لئے تو حجت اور دلائل اردو زبان کے اصول ہی ہیں۔ کسی لفظ پر بحث کے ضمن میں نظیر اردو زبان ہی سے لی جائے گی ، عربی یا فارسی سے نہیں۔ مسلم اورمستند قاعدہ ہے کہ جو لفظ عربی یا فارسی سے اردو میں آکر مستعمل ہوگیا اور زبان کا حصہ بن گیا تو پھر اس پر تمام قواعد اردو زبان کے لگیں گے ۔ اس لفظ کے معنی ، املا ، محلِ استعمال ، تذکیر و تانیث وغیرہ وغیرہ سب کے سب اردو نظائر کے تحت ہوں گے ۔
مندرجہ بالا یعنی زیرِ بحث قبیل کے الفاظ اردو میں دو طرح سے مستعمل ہیں۔ کچھ الفاظ تو اعلانِ نون اور نون غنہ دونوں کے ساتھ استعمال کئے گئے ہیں اور کچھ صرف نون غنہ کے ساتھ ۔ جہان ، نشان ، زبان ، بیان ، آشیان ، کاروان وغیرہ تو دونوں صورتوں میں استعمال کئے جاتے ہیں لیکن زیاں ، گراں ، فغاں وغیرہ مفرد صورت میں صرف نون غنہ کے ساتھ مستعمل ہیں ، خواہ نثر ہو یا نظم ۔ اگر کسی ایک آدھ جگہ کسی شاعر نے اس کے برخلاف استعمال کیا بھی ہے تو وہ استثنائی صورت کہلائے گا۔ جن الفاظ کے حوالے آپ نے دیئے ہیں ان کے بارے میں بھی وضاحت ضروری ہے۔ کاروان ، آشیان اور کرانہ تو اردو کے مستقل الفاظ ہیں ۔ کاروان کا لفظ غنہ اور بلا غنہ دونوں صورتوں میں اردو شعر اور نثر میں مستعمل ہے ۔کاروان (کہ عربی الاصل ہے) شعر کی نسبت اردو نثر میں بہت عام ملتا ہے ۔ شعری مثالیں میر کے ہاں سے دیکھئے:
نہ پوچھ خوابِ زلیخا نے کیا خیال لیا
کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا
نکلے ہے جنسِ حسن کسی کاروان میں
یہ وہ متاع نہیں کہ ہو ہر دکان میں
یعقوب کے نہ کلبۂ احزاں تلک گئے
سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے
سرچشمہ حسن کا وہ آیا نظر نہ مجھ کو
اس راہزن نے غافل کیا کاروان مارا
غفلت ہے اپنی عمر سے تم کو ہزار حیف
یہ کاروان جانے پہ تم مستِ خواب ہو
آدمی اب نہیں جہاں میں میرؔ
اٹھ گئے اس بھی کاروان سے لوگ
عالَم کے ساتھ جائیں چلے کس طرح نہ ہم
عالَم تو کاروان ہے ہم کاروانیاں
یک دست جوں صدائے جرس بیکسی کے ساتھ
میں ہر طرف گیا ہوں جدا کاروان سے

کَرانہ کا لفظ کراں سے علیحدہ اور ایک مستقل لفظ ہے اور اس کے معنی بھی کنارہ کے ہیں ۔ یہ لفظ نوراللغات ، لغتِ عامرہ ، فیروزاللغات ، علمی لغت اور اردو بورڈ کی لغت کبیر میں مندرج ہے ۔ حوالے کے لئے اقبال کے یہ اشعار اور دیکھئے گا ۔
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات
وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا
ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمز آشکارا
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے ، فضائے گردوں ہے بے کرانہ
تاروں کی فضا ہے بے کرانہ
تو بھی یہ مقامِ آرزو کر

آشیان کے بارے میں عرض ہے کہ اصل لفظ تو آشیان ہی ہے ۔ فارسی اور اردو دونوں میں مستعمل ہے ۔ آشیانہ اس لفظ کی تصغیر ہے ۔ آشیان اور آشیانہ اردو شاعری میں مستعمل ہیں اور دونوں الفاظ نوراللغات (مؤلفہ ۱۹۱۷) اور امیر مینائی کی امیراللغات (مؤلفہ ۱۸۹۱) میں مندرج ہیں۔ لفظ آشیان کی سند میں یہ اشعار دیکھئے گا ۔
میرؔ کے اشعار:
دھڑکے ہے جی قفس میں غمِ آشیان سے
جلا کیونکر نہ ہو گا آشیانِ بلبلِ بے کس
برنگِ آتشِ خس پوش رنگِ گل دہکتا تھا
آتشِ رنگِ گل سے کیا کہیے
برق تھی آشیان پر آئی
ہزار حیف کہ دل خار و خس سے باندھے کوئی
خزاں میں برق گرے آشیان جل جاوے
آنے کا اس چمن میں سبب بیکلی ہوئی
جوں برق ہم تڑپ کے گرے آشیان سے
کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دلِ آرمیدہ تھا
رو آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ تھا
پڑتا ہے پھول برق سے گلزار کی طرف

غالبؔ کے اشعار:
خوں در جگر نہفتہ بہ زردی رسیدہ ہوں
خود آشیان طائر رنگ پریدہ ہوں
یاد رکھیے ناز ہائے التفات اولیں
آشیان طائر رنگ حنا ہوجائیے
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

مصحؔفی کے اشعار:
تری دہشت سے باغ میں صیاد
مرغ سب آشیان چھوڑ گئے
اس قدر گرتی ہے کہے تو یہ برق
ہے مرے آشیان پر عاشق
نہ میں رہنے والا ہوں باغ کا ، نہ صفیر سنج ہوں راگ کا
مجھے ڈھونڈے ہے سو وہ کس جگہ کہیں آشیانِ ہما نہیں

حاتؔم:
جو نکلی بیضے سے بلبل ، ہوئی اسیرِ قفس
نہ دیکھی کھول کے آنکھ آشیان کی صورت

نسیؔم:
لو آشیانِ تن کی طرف میل تک نہیں
دیکھو مزاج طائرِ رنگ پریدہ کے

متفرق شعرا کے اشعار :
کلیوں کو، میرے پھول ، مرے آشیان کو
تاڑا ہے صاعقوں نے مرے گلستان کو (حاوی)
آتش گل سے جلتی مثل شرر
عندلیب آشیان تک پہنچی(جوشش)
آشیان و چمن کے دل دادہ
تو کبھی وسعت قفس مت پوچھ(شاد عارفی)
ہو چلے ان کے لب نازک تبسم آشنا
برق سے کب تک بچے گا آشیان آرزو(طالب باغپتی)

جیسا کہ آپ نے لکھا کہ میر نے ایک شعر میں فغان باندھا ہے تو اسی طرح میر نے اپنے ایک شعر میں زیاں کو بھی زیان باندھا ہے ۔
تم ہم سے صرفہ ایک نگہ کا کیا کیے
اغماض ہم کو اپنے ہے جی کے زیان سے
میر کے دواوین میں ان دو مثالوں کے علاوہ کہیں اور زیان اور فغان مفرد صورت میں نہیں ملتے ۔ میر کے علاوہ کسی اور شاعر کے ہاں بھی ان کی کوئی مثال تلاش کے باوجود مجھے نہیں ملی۔ سو میری رائے میں اس واحد مثال کو استثنائی صورت جاننا چاہئے ۔ میر نے چونکہ بے تحاشا لکھا ہے اور بے شمار جگہوں پر عام زبان و بیان سے ہٹ کر بالکل نرالا اسلوب اور بندشِ الفاظ کو اختیار کیا ہے اس لئے میر کی ہر بات حجت نہیں ہے ۔ حجت اور دلیل تو اس طرزِ عمل کو مانا گیا ہے کہ جس پر اساتذہ کی اکثریت کاربند رہی ۔
سو حاصلِ کلام وہی ہے کہ جو آپ نے اپنے مراسلے کے آخر میں لکھا۔ اختراع اور جدت کا دروازہ بند نہیں ہے لیکن ایسا کرنے کے لئے پہلے شاعر کو زبان کے مروجہ مسلم و مستند اصولوں پر عبور دکھانا ہوگا۔ زبان و بیان کی پختگی کا ثبوت دینا ہوگا اور پھر شاعری بھی ایسی کرنا ہوگی کہ جو اس اختراع اور جدت کا قرار واقعی جواز بن سکے ۔ جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آتا ہے بعض لوگ اپنی کم مائیگی اور سہل پسندی کو اختراع اور جدت کا نام دے کر جو چاہے اور جیسا چاہے لکھ دیتے ہیں تو یہ کوئی مناسب بات نہیں ہے ۔ اس روش کو قبول کرنے سے زبان ترقی کے بجائے بگاڑ کی طرف جاسکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
عاطف بھائی ، میری کوئی بات اگر نامناسب لگی ہو تو میں پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔ آپ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں اور مجھے بہت عزیز ہیں ۔ اس ساری گفتگو سے مقصود ایک لسانی مسئلے کو اجاگر کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ ان شاء اللہ کل آپ کو اپنے" طلسمی دور" کی نظم پڑھوا کر بور کریں گے ۔ :):):)
اس وقت تو یہاں سونے کا وقت ہورہا ہے ۔ سو شب بخیر!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی ، میری کوئی بات اگر نامناسب لگی ہو تو میں پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔ آپ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں اور مجھے بہت عزیز ہیں ۔ اس ساری گفتگو سے مقصود ایک لسانی مسئلے کو اجاگر کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ ان شاء اللہ کل آپ کو اپنے" طلسمی دور" کی نظم پڑھوا کر بور کریں گے ۔ :):):)
اس وقت تو یہاں سونے کا وقت ہورہا ہے ۔ سو شب بخیر!
آپ کی بات انتہائی مناسب بر محل اور بروقت لگی اور ایسے "نازک"وقت کی ضرورت بھی ہے۔
ایسی باتیں جو فکر کے دریچے کھولتی ہیں بہر حال خوش آئند ہوتی ہیں ۔ اختلاف تو جمہوریت کا حسن ہے اس کا اعتراف ہمارے عظیم سیاسی لیڈران تک کرتے ہیں۔ اختلاف کا ہر میدان میں ہونا ایک فطری مظہر ہے خواہ اہل اصول و قواعد ہوں یا اہل لغات، یہ فطری عمل رکنے کا نہیں ۔ ایسی بحثیًں ضرور کہیں نہ کہیں فائدہ پہنچاتی ہیں۔ لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ فی الحال یہاں ہمارے درمیان تو وہ اختلاف ہے ہی نہیں ۔ مجھے ایک حنفی صاحب علم کی بات یاد اگئی ۔ بر سبیل مزاح ہے کوئی اس کا گلط مطلب نہ اخذ کر لے لیکن وسیع القلبی کی امید کی بنیاد پر لکھ دیتا ہوں ۔ کسی مسئلے کی بابت فرماتے ہیں کہ اس معاملے میں یقینا امام شافعی کا استنباط درست ہے لیکن عمل ہم حنفی مسلک پر کریں گے کیوں کہ ہم حنفی ہیں ۔ :)
اب ہمیں بور ہونے کا اشتیاق بڑھ رہا ہے ۔ لہٰذا جلد از جلد اس بوریت کا سامان بہم پہنچائیں ۔ :)
 
گفتگو سمیٹ دی گئی ہے جو اس بات پر ختم ہوئی کہ ایسی بعض صورتیں ماضی میں دستیاب ہیں مگر بہت شاذ ہیں سو ان سے گریز بہتر ہے حالانکہ میں نے یہ پڑھ رکھا تھا کہ
رشید حسن خان نے لکھا ہے کہ :
*”اعلان یا اخفا سے متعلق اصل معیار ذوقِ سلیم ہوگا۔ مصرعے کی روانی اور اس کا آہنگ اگر اخفا کا متقاضی ہو تو وہی صحیح ہے۔ اور اگر اعلان کا طالب ہو تو وہی درست ہے۔ لفظ مفرد ہو یا مرکب، کچھ فرق نہیں پڑتا“*
[زبان اور قواعد - صفحہ 288]

اور پھر نصیر ترابی صاحب کا یہ کلیہ کہ

”فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا، لہٰذا بعض اساتذہ کے نزدیک اضافت کے ساتھ نون کا اعلان بھی جائز سمجھا گیا ہے. مثلاً غالب کا یہ مصرع
1f618.png

*؏" نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے"*
شعریات ۔ صفحہ نمبر 167 - پیرا ماؤنٹ پبلشنگ انٹر پرائز، کراچی، پاکستان]

اور پھر اسی تحریر سے ایک مزید ٹکڑا

(شاعر کے لیے جہاں تک ممکن ہو، بغیر ترکیب نون غُنّہ کا اعلان کرے. گو اعلان نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن فصاحت اعلان ہی میں ہے“*)
[دورِ شاعری ۔ صفحہ نمبر 158 - ناشر : سید حسن اکمال، سیکرٹری "انجمن محافظِ اردو" لکھنؤ]

اب بتائیں میرے لیے کیا حکم ہے کیا میں مسلک شافعی درست ہونے کے با وجود مسلک حنفی ہے اختیار کروں
 
(شاعر کے لیے جہاں تک ممکن ہو، بغیر ترکیب نون غُنّہ کا اعلان کرے. گو اعلان نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن فصاحت اعلان ہی میں ہے“*)
میرے خیال میں یہ حکم ان الفاظ کے لیے ہوگا جو قبلہ ظہیر بھائی کے ارشاد کے مطابق اعلان و اخفا دونوں کے ساتھ رائج ہیں.
 
ماشاء اللہ، کیا زبردست علمی مذاکرہ ہوا ہے. لطف اگیا.
جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور قبلہ سید عاطف علی بھائی کا تہہ دل سے شکریہ کہ انہوں نے وقت نکال کر اتنی تفصیل سے اپنا اپنا موقف بیان کیا.

دیگر احباب جو اس نادر علمی بحث سے محظوظ و مستفید ہوئے ہوں، برائے مہربانی میرا کمیشن بذریعہ ایزی پیسہ مجھے بھیج دیں کہ اس قمیتی مذاکرے کا محرک یہ ناچیز بنا :D:D:D
 
Top