زیادتی کےمجرموں کوسرعام پھانسی یا جنسی صلاحیت سے محروم کردیناچاہیے، وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
زیادتی کےمجرموں کوسرعام پھانسی یا جنسی صلاحیت سے محروم کردیناچاہیے، وزیراعظم
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
2080693-imrankhan-1600109568-537-640x480.jpg

کوئی گارنٹی نہیں کہ موجودہ آئی جی پنجاب بھی چل پائےگا، عمران خان فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سر عام پھانسی دینی چاہیے یا پھر انہیں جنسی صلاحیت سے ہی محروم کردینا چاہیے۔

نجی ٹی وی دیئے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ موٹر وے پر زیادتی کے واقعے نے پوری قوم کو ہلا دیا ہے۔ اس واقعے میں ملوث ایک ملزم ماضی میں گینگ ریپ میں ملوث رہ چکا ہے، اس طرح کے لوگوں سے نمٹنے کے لیے تازہ قانون سازی کی ضرورت ہے، میرے خیال میں تو انہیں چوک پر لٹکانا چاہیے۔ وہ حکومت میں آئے تھے تو ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے تناظر میں وہ سرِعام پھانسی کے حق میں تھے تاہم انہیں مشورہ دیا گیا کہ ایسا کرنے سے عالمی ردعمل ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں قتل کی طرح قانون میں جنسی جرائم کی بھی درجہ بندی ہونی چاہیے اور زیادتی کے مجرموں کو جنسی طور پر ناکارہ بنا دیا جانا چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اقتدار سنبھالا تو آئی جیز کی بریفنگ سے حیران ہوا کہ زیادتی کے کئی کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ معاشرے میں فحاشی بڑھے تو اس طرح کے جرائم بڑھتے ہیں، جس سے خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ زیادتی کرنیوالے جیل سے باہر آ کر پھر وہی کام کرتے ہیں، ایسے ملزمان پولیس کے پاس رجسٹرڈ ہونے چاہییں اور ان کی نگرانی کی جانی چاہیے، واقعے میں ملوث عابد علی جرائم پیشہ گینگ کا سرغنہ تھا جو کئی سال سے وارداتیں کر رہا تھا اگر اسے 2013 میں سخت سزا دی جاتی تو شاید موٹروے والا افسوس ناک واقعہ نہ ہوتا۔

پاکستان اور بھارت میں کورونا کی صورتحال

ملک میں کورونا کی صورت حال سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے کورونا کے معاملے پر وہی غلطی کی جو ہماری سیاسی جماعتیں مجھے کرنے کا کہہ رہی تھیں، جب کورونا وائرس شروع ہوا تو ابتدائی 2 ماہ کے دوران اپوزیشن مجھے مسلسل کہا کہ یورپ اور چین کی طرح مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے جب کہ میرا یہ موقف تھا کہ ہمارا ایک بڑا طبقہ دیہاڑی دار ہے جو صبح کماتے ہیں تو ان کے گھر میں شام میں چولہا جلتا ہے، بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر کچھی آبادیاں ہیں اگر ہم یورپ جیسا لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو ان کا کیا ہو گا۔ ہم نے بہت جلدی فیصلہ کیا کہ سخت لاک ڈاؤن نہیں کریں گے، ہم نے زراعت کھول دی، تعمیراتی صنعت کھول دی، پھر ہم نے ڈیٹا اکٹھا کر کے ہاٹ اسپاٹس دیکھے اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کرتے ہوئے ہاٹ اسپاٹس کو بند کرنے کی کوشش کی اور اس کی بدولت ہم قابو پانے میں کامیاب رہے لیکن سردیوں میں کورونا کی ایک اور لہر آ سکتی ہے لہٰذا ابھی بھی ہمیں احتیاط کرنی ہے۔

پی ٹی آئی میں کچھ لوگ وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کاکردگی اور ان کی تبدیلی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ عثمان بزدارکی صرف ایک کمزوری ہے کہ میڈیا پر خود کو پروموٹ نہیں کرسکے ، وہ شہباز شریف کی طرح اربوں روپے خرچ نہیں کرتے، پی ٹی آئی میں بھی کچھ لوگ وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں وہ عثمان بزدار کو کم سمجھتے ہیں۔

آئی جی پنجاب کارکردگی دکھائیں گےتب ہی رہیں گے

آئی جی پنجاب کی تبدیلی اور سی سی پی او لاہور کی تعیناتی سے متعلق وزیر اعظم نے کہا کہ کوئی گارنٹی نہیں کہ موجودہ آئی جی پنجاب بھی چل پائیں گے، وہ کارکردگی دکھائیں گے تب ہی رہیں گے۔

ہرملک کی اپنی خارجہ پالیسی

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق وزیر اعظم نے کہا کہ ہرملک کی اپنی خارجہ پالیسی اور اپنے مفادات ہوتے ہیں، اسرائیل کو پوری دنیا تسلیم کرلے لیکن جب تک فلسطینی خود اسے تسلیم نہیں کرتے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
 

یاسر حسنین

محفلین
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سر عام پھانسی دینی چاہیے یا پھر انہیں جنسی صلاحیت سے ہی محروم کردینا چاہیے۔

نجی ٹی وی دیئے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ موٹر وے پر زیادتی کے واقعے نے پوری قوم کو ہلا دیا ہے۔ اس واقعے میں ملوث ایک ملزم ماضی میں گینگ ریپ میں ملوث رہ چکا ہے، اس طرح کے لوگوں سے نمٹنے کے لیے تازہ قانون سازی کی ضرورت ہے، میرے خیال میں تو انہیں چوک پر لٹکانا چاہیے۔ وہ حکومت میں آئے تھے تو ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے تناظر میں وہ سرِعام پھانسی کے حق میں تھے تاہم انہیں مشورہ دیا گیا کہ ایسا کرنے سے عالمی ردعمل ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں قتل کی طرح قانون میں جنسی جرائم کی بھی درجہ بندی ہونی چاہیے اور زیادتی کے مجرموں کو جنسی طور پر ناکارہ بنا دیا جانا چاہیے۔
 

یاسر حسنین

محفلین
اسکا مطلب ہے عوام پڑھی لکھی نہیں!
خدا جانے۔ شاید اسی وجہ سے ایک کروڑ نوکریاں امیدواروں کی منتظر ہیں کیونکہ عوام ”پڑھے لکھے“ نہیں ہیں۔
ویسے یہ تضاد دکھانے کی کوشش تھی کہ ایک طبقہ سزاؤں پر متفق ہے جبکہ دوسرا اسے تشدد اور نہ جانے کیا کیا سمجھتا ہے۔
ویسے بھی یہاں قانون صرف کمزور کے لیے ہے۔
 
خدا جانے نیازی صاحب کب کنٹینر پر سے نیچے اتریں گے۔ لگتا ہے ان کی نصف بہتر بھی انہیں یقین نہیں دلاسکیں کہ اب وہ وزیراعظم ہیں۔چوہدری فوادحسین نے درست کہا کہ ناگن چورنگی پر کھڑے عوام تو یہ باتیں کہہ سکتے ہیں، نام نہاد پڑھے لکھے لوگ دس پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے کی بات کریں تو یہ بات درست نہیں۔ قانون موجود ہے عدالتیں موجود ہیں۔ ایسے میں کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے یا مجرم کی سزا سے ذاتی تسکین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خدا جانے نیازی صاحب کب کنٹینر پر سے نیچے اتریں گے۔ لگتا ہے ان کی نصف بہتر بھی انہیں یقین نہیں دلاسکیں کہ اب وہ وزیراعظم ہیں۔چوہدری فوادحسین نے درست کہا کہ ناگن چورنگی پر کھڑے عوام تو یہ باتیں کہہ سکتے ہیں، نام نہاد پڑھے لکھے لوگ دس پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے کی بات کریں تو یہ بات درست نہیں۔ قانون موجود ہے عدالتیں موجود ہیں۔ ایسے میں کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے یا مجرم کی سزا سے ذاتی تسکین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔


وزیر اعظم سزائے موت کے حق میں نہیں ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے یہ تضاد دکھانے کی کوشش تھی کہ ایک طبقہ سزاؤں پر متفق ہے جبکہ دوسرا اسے تشدد اور نہ جانے کیا کیا سمجھتا ہے۔
ویسے بھی یہاں قانون صرف کمزور کے لیے ہے۔
تحریک انصاف میں بیک وقت لبرل اور قدامت پسند سوچ پائی جاتی ہے۔ فواد چوہدری اور شیریں مزاری پارٹی کا لبرل دھڑا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خدا جانے نیازی صاحب کب کنٹینر پر سے نیچے اتریں گے۔ لگتا ہے ان کی نصف بہتر بھی انہیں یقین نہیں دلاسکیں کہ اب وہ وزیراعظم ہیں۔چوہدری فوادحسین نے درست کہا کہ ناگن چورنگی پر کھڑے عوام تو یہ باتیں کہہ سکتے ہیں، نام نہاد پڑھے لکھے لوگ دس پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے کی بات کریں تو یہ بات درست نہیں۔ قانون موجود ہے عدالتیں موجود ہیں۔ ایسے میں کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے یا مجرم کی سزا سے ذاتی تسکین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
آپ کی پارٹی نے مخالفت کر دی۔۔۔
پیپلزپارٹی نے زیادتی کیس کے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کردی
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
2081104-pppsenatge-1600187186-381-640x480.jpg

آمر ضیاالحق نے سرعام پھانسی دی تو کیا اس سے زیادتی اور دیگر جرائم ختم ہو گئے تھے، سینیٹر رضاربانی


اسلام آباد: ایوان بالا میں بھی سانحہ موٹروے کی گونج سنائی دی۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ واقعے سے توجہ ہٹانے کیلئے پھانسی کی سزا کی بحث چھیڑی گئی۔

سانحہ موٹروے پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی بحث کی گئی، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ زیادتی کیس میں ملوث مجرم کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، کابینہ اراکین نے بھی سنگین سزاؤں کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کردیا۔

دوسری جانب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے بعد معمول کی کارروائی معطل کرکے سانحہ لاہور موٹروے پر بحث کی گئی۔

پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا سی سی پی او کو شاباشی کی تھپکی دے کر عورتوں کو پیغام دیا گیا کہ نئے پاکستان میں آپ محفوظ نہیں، عورت نے 130 پر کال تو ایک گھنٹے تک پولیس کیوں نہ آئی؟ انہوں نے کہا واقعے سے توجہ ہٹانے کے لیے پھانسی کی سزاوں کی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ماں تو نہ بن سکی، ڈائن بن گئی ہے، ظلم کے خلاف بات کرنے والوں کو غائب کر دیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ ہم سرعام پھانسی دیں گے کیا آمر ضیاالحق نے سرعام پھانسی دی تو اس سے ریپ اور جرائم ختم ہو گئے تھے۔

پی ٹی آئی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا زیادتی کے واقعات کو روکنے کیلئے قوانین میں ترامیم وقت کی ضرورت ہے، جنسی درندوں کی پشت پناہی کرنے والوں کو بھی مثالی سزا دینی ہو گی۔
 
آپ کی پارٹی نے مخالفت کر دی۔۔۔
عقلمندی اور سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ بھپرے ہوئے عوام کے جذبات کو مزید بھڑکا کر قوم کے شدت پسندانہ رویوں کو مزید بڑھاوا نہ دیا جائے۔ پولیس مقابلوں میں بے گناہوں کو مار کر گنتی پوری کرنے کے بجائے درست تفتیش کرکے تمام ثبوت عدالت میں پیش کیے جائیں اور وہاں سے سزاؤں کا اعلان کروایا جائے۔

نیازی صاحب کو چاہیے سستی شہرت حاصل کرنے کے بجائے مجرموں کو بمع ثبوت عدالت کے حوالے کریں۔ نہ ان کا کام دس پانچ ہزار لوگوں کو کو پھانسی پر لٹکانا ہے اور نہ ملزموں کی اعضاء بریدگی ان کا مینڈیٹ ہے۔

جب ان کے کام جنرل صاحب اور ان کی ٹیم سرانجام دیں گے اور یہ خود ان خرافات میں وقت ضائع کریں گے تو ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔
 
تمام ثبوت عدالت میں پیش کیے جائیں اور وہاں ان ثبوتوں کو ناکافی قرار دے کر ملزمان کو بری کر دیا جائے۔
جو آپ نے کہا ہر درد مند شہری یہی کہتا ہے۔ ہم تو ٹھہرے عوام، ہم یہی سوچتے ہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اندر آنے کیا ہورہا ہے۔

ہم پاکستانی نظام، عدالت ، آئین و قانون میں یقین کیوں نہیں رکھتے۔ ہم ہی میں سے کچھ طاقتور اور بااثر لوگ اسی آئین و قانون، عدالت اور نظام کو پائمال کرتے ہیں اور عوام میں اس تاثر کو بھی ہوا دیتے ہیں کہ اصل قصور اس نظام، عدالت قانون اور آئین کا ہے۔

اس ملک کی بہتر سالہ تاریخ میں تین مرتبہ آئین کو روندا گیا۔ پولیس آئے دن ماورائے عدالت ملزموں کو قتل کرتی ہے تاکہ گنتی پوری کی جاسکے۔ جن لوگوں کو عدالت سے بچانا مقصود ہوتا ہے ان کے خلاف پورے ثبوت پیش نہیں جاتے ۔ جج کا کام پیش کردہ حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ بعض فیصلوں میں چمک بھی آڑے آتی ہوگی لیکن یہ سب کچھ نظام میں یقین نہ رکھنے کا نتیجہ ہے۔

یہ بھی یاد رکھیے کہ بہت سے مجرموں کا چھوٹ جانا ایک بے گناہ کے پھانسی چڑھ جانے سے بہتر ہے۔

جو کچھ آپ نے کہا اسی وجہ کو استعمال کرتے ہوئے کچھ لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ انارکی ہوتا ہے۔ لاقانونیت ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرتی اس لاقانونیت کے نتیجے میں افغانستان بن جائے گا جو ہم میں سے کسی کے لیے گوارا صورتحال نہ ہوگی۔
 

بابا-جی

محفلین
یک رُخی سوچ فوجی قربت کا نتیجہ ہے۔ یہاں اپنے مُخالفین کو رگیدنے کے لیے غلط مُقدمے بنا کر پھانسی دی جا سکتی ہے۔ شواہد عدالت میں ٹھیک طرح پیش کر کے عُمدہ انداز میں مُقدمہ لڑنا چاہیے اور ایسے کیسز میں مُلزم کو صفائی کا بھرپُور موقع مِلنا چاہیے۔ عدالتیں ایسے مُقدمات کو جلد نپٹائیں۔
 

آورکزئی

محفلین
عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے درندوں کو سرعام پھانسی دے کر عبرت بنایا جا سکتا ہے۔ نامرد بنا کر اُنہیں معاشرہ میں چھوڑ دینا اُنہیں عبرت نہیں بناتا بلکہ وہ معاشرہ کے لیے زندہ رہنے تک خطرہ ہی بنے رہیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تمام ثبوت عدالت میں پیش کیے جائیں اور وہاں ان ثبوتوں کو ناکافی قرار دے کر ملزمان کو بری کر دیا جائے۔
اگر سارے جج ایسے انصاف کرنے لگے تو نظام عدل ٹھیک ہو جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر ججز خود ہی مظلوموں کو انصاف دلوانے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ صلح صفائی کے چکروں میں پڑ جاتے ہیں۔
 
Top