حجاب اور مسلمان خواتین کی جدوجہد

عالمی طور پر حجاب وہ متنازعہ مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے مسلمان خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اپنے آپ کو آزاد اور خودمختار کہنے والی "مہذب دنیا" حجاب پر تنگ نظری کی بےنظیر مثال نظر آتے ہیں۔ اکثر یورپی ممالک میں حجاب پر شدید تنقید اور پابندی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر ستمبر گیارہ کے واقعے کے بعد سے تو بہت سے ایسے واقعات ہوئے جس میں خواتین سے حجاب نوچے بھی گئے۔ مسلمانوں کو مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام فوبیا کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں خواتین کو حجاب کےحوالے سے بہت مشکلات اٹھانی پڑی ہیں اور پڑ رہی ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرںیشل اور او آئی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمان بہت زیادہ نسلی تعصب کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ مسلمان خواتین جو حجاب لیتی ہیں ان کو بہت زیادہ تعصب کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغرب میں حجاب کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حجاب کو نا صرف ظلم بلکہ دقیانوسیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اس میں میڈیا نے بہت اہم منفی کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان خواتین کو جب بھی دکھایا جاتا ہے ساتھ ہی ان کو مظلوم، پسماندہ اور تعصب زدہ دکھایا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین کے حجاب کو خاص طور منفی طریقے سے دکھایا جاتا ہے۔ ایسے میں حجاب کی جدوجہد ان مجاہدہ خواتین کی جاری ہے۔ حجاب سے تعصب کی چند جھلکیاں درج ذیل ہیں:

حال ہی میں میکڈونلڈ میری لینڈ میں کام کرنے والی خاتون اسلام قبول کیا اور حجاب پہننا شروع کیا تو اسے مینیجرز کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔ جس پر اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک میں عیسائی تھی سب کا رویہ میرے ساتھ اچھا مگر جب میں نے اسلام قبول کیا اور حجاب شروع کیا تو رویے بدل گئے۔ مجھے نماز کی بریک کرنے کی اجازت تو ملی مگر ایک گندے سٹور میں پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔
میکڈونلڈ کے حوالے سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے 2017 میں لندن میں ایک مسلم باحجاب طالبہ کو آرڈر کرنے کے لئے قطار میں کھڑے ہونے سے روک دیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ پہلے وہ اپنا حجاب اتارے پھر قطار میں کھڑی ہو۔ اس طالبہ نے جوابا کہا کہ میں اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے یہ پہنا ہے اور میں کسی صورت نہیں اتاروں گی۔ بعد میں میکڈونلڈ نے اس پر معافی مانگی اور اس ملازم کو نوکری سے فارغ کرنے کا بھی کہا گیا۔

صرف میکڈونلڈ ہی نہیں مشہور و معروف سٹار بکس میں ایک باحجاب خاتون کا جب کافی کا آرڈر سرو کیا گیا تو اس پر مارکر سے اس کے نام عائشہ کے بجائے سے ISIS کے حروف لکھے گئے تھے۔ اور یہ سب جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اس پر بھی ان خاتون نے عدالت میں کیس کیا۔ عائشہ کہتی ہیں کہ جب میں نے یہ دیکھا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ کمپنی کی طرف سے معافی مانگی گئی اور کہا گیا کہ یہ نام ٹھیک طرح سے نا سننے کی وجہ سے ہوا۔ ان کو نئی کافی اور 25 ڈالر ادا کئے مگر عائشہ کا کہنا ہے کہ یہ اس تکلیف کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔
چکن ایکسپریس میں کام کرنے والی ایک نومسلمہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے کام پر آتے ہوئے حجاب لیا تو میرے مینجر نے اسے ریسٹورنٹ کے ڈریس کوڈ کے خلاف قرار دیا اور حجاب اتارنے کا مطالبہ کیا۔ میرے انکار پر مجھے گھر بھیج دیا گیا۔

سنگاپور میں ان دنوں حجاب کی بحث زوروں پر ہے۔ وہاں کے لبرلز کا کہنا ہے کہ ہر ادارے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے ہاں ڈریس کوڈ متعارف کرائے اور اگر وہ حجاب کی اجازت نہیں دیتے تو یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔ ایک ڈا کٹر نے اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈنٹل کلینک میں کام کرتے ہوئے کہا گیا کہ میں حجاب اتار لوں یہ میرے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ تھا۔ پھر میں نے وہ نوکری چھوڑ دی۔ مجھے اکثر کہا جاتا ہے کہ اس حجاب کو اتارنے سے آپ زیادہ اچھی لگیں گی۔ تو میرا جواب یہی ہے کہ میرا دین مجھے اس کا حکم دیتا ہے میں اسی میں مطمئن ہوں۔
بہت ساری خواتین مجاہدہ اپنے حجاب پر ڈٹی رہی ہیں۔

*مختلف ممالک میں حجاب پر پابندی کے قوانین:-*
خود کو جمہوری، آزاد خیال، انسانی حقوق کے علمبردار اور مہذب دنیا کہلانے والے ممالک حجاب کے معاملے میں کس قدر تنگ نظر، متشدد، غیر جمہوری اور انسانی آزادی کے خود کس قدر قائل ہیں وہ مندرجہ ذیل ممالک میں لگی پابندیوں سے اندازہ لگا لیں۔

6 دسمبر 2016 کو جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے مکمل حجاب پر پابندی لگائی۔ اس سے پہلے حجاب پر ایسا سخت کوئی حکم نہیں تھا۔
اکتوبر 2017 کو آسٹریا نے نقاب اور حجاب پر پابندی لگائی اور قانون بنایا کہ عوامی مقامات، سکول، کالج اور ہسپتالوں میں اس کی قطعی اجازت نہ ہو گی۔
فرانس نے اپریل 2011 میں حجاب اور نقاب پر سخت پابندی لگائی۔ جس کی رو سے کوئی فراسیسی یا کوئی غیر ملکی شخص فرانس میں حجاب میں نہیں نکلے گا۔ 2016 میں برقینی پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ دوسری صورت میں 50 یورو کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
اٹلی میں 2015 میں برقعے پر اور حجاب نقاب اور برقینی پر پابندی لگائی گئی۔
سپین میں 2010 میں حجاب اور نقاب پر پابندی لگائی گئی۔ سب سے پہلے یہ پابندی بارسلونا کے شہر میں لگی۔
برطانیہ میں حجاب پر کوئی پابندی تو نہیں ہے مگر سکولوں نے اپنا ڈریس کوڈ وضع کیا گیا ہے۔ البتہ گاہے گاہے اس موضوع پر کچھ اسلام مخالف ممبر پارلیمنٹ کی بےچینی سامنے آتی رہتی ہے۔
ڈنمارک نے 2018میں یہ بل پاس کیا کہ کوئی بھی حجاب یا نقاب میں نظر آئے گا اسے سزا دی جائے گی۔
روس نے 2013 میں حجاب پر پابندی لگائی گئی۔ سرکاری عمارات میں حجاب کے ساتھ داخلہ قطعی ممنوع قرار دیا گیا۔
سوئٹزرلینڈ نے 2013 میں حجاب پر پابندی لگائی اور عوامی اجتماعات کی جگہ پر اسے منع کیا گیا۔
2016 میں بلغاریہ کی پارلیمنٹ نے حجاب پر پابندی لگائی اور ایسی خواتین جو حجاب پہنیں گی ان کو نہ صرف جرمانہ ہو گا بلکہ انہیں تمام مراعات سے محروم ہونا پڑے گا۔

*باحجاب مجاہدات:-*

کمال اتاترک کے ترکی میں حجاب پر پابندی تھی۔ 2008 میں اس میں نرمی کی گئی اور 2013 میں پابندی اٹھا لیا گیا۔
کچھ سال پہلے جب ترکی میں سیکولر حکومت تھی تو ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ مروی کواچی جب حجاب پہنے حلف اٹھانے کے لئے پارلیمنٹ میں داخل ہوتی ہیں تو ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ممبر پارلیمنٹ ان کو پارلیمنٹ سے نکل جانے کا کہتے ہیں یا حجاب اتارنے کا کہا جاتا ہے ان کو حلف لینے نہیں دیا جاتا۔ مگر وہ وقار کے ساتھ اپنے موقف پر جمی رہتی ہیں۔ وقت بدلا اور اسی ترکی میں حجاب پر پابندی ختم کر دی گئی۔ مروی کواچی کا اپنے حق پر کھڑے ہونا اتنی شدید مخالفت میں بھی کہ جب بڑے بڑوں کا قدم اکھڑ جاتے ہیں۔ بظاہر اس وقت تو ان کو پارلیمنٹ کی سیٹ سے ہاتھ دھونے پڑے مگر ترکی کی نئی حکومت آنے کے بعد اب ان کو ملائیشیا میں سفیر تعینات کیا ہے۔ ان کی ساری زندگی حجاب کے لئے جدوجہد میں گزری۔ اب ترک صدر کے ساتھ ہر بین الاقوامی دورے میں ان کی بیٹی فاطمہ ابو شباب مترجم کے طور پر ہوتی ہیں۔ ان کا باحجاب لباس ساری دنیا میں توجہ اور احترام کا مرکز بنا ہوتا ہے۔
اسی طرح کی ایک اور مثال رافعہ ارشد ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میرا سکالرشپ کا انٹرویو تھا تو میری فیملی اور دوستوں نے مجھے حجاب اتار کر جانے کا کہا اور خدشہ ظاہر کیا کہ حجاب کی وجہ سے سکالرشپ کا یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ مگر یہ میرے کیرئیر اور میری زندگی کا وہ لمحہ تھا کہ جب مجھے مضبوط رہنا تھا۔ نہ صرف وہ سکالرشپ بلکہ آج 17 سال بعد وہ پہلی باحجاب خاتون جج ہیں۔

میں نے جس قدر حجاب کرنے والی خواتین کی کہانیاں پڑھیں مجھے ان سے اور زیادہ محبت محسوس ہوئی۔ انہوں نے قربانیاں دیں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا مگر اپنے رب کے حکم کے خلاف نہیں گئیں۔ اس مخالفت کے دور میں ان کا اسلام پر اپنے حجاب پر اصرار ان کو صحیح معنوں میں مجاہدہ ہی تو بناتا ہے۔
 

زیک

مسافر
غور کریں کہ کیا مسلم ممالک میں ہر ایک کو اتنی مذہبی آزادی ہے جتنی مغرب میں مسلمانوں کو ہے؟
 
بسم اللہ الر حمن الرحیم
یہ بات بالکل صحیح ہے کے مسلمانوں کے ساتھ تعصب سے کام لیا جاتا ہے لیکن جہاں تک داڑھی اور حجاب برقع کا معاملہ ہے اس میں غیروں سے زیادہ ہم خود قصور وار ہیں ہم لوگوں کی تعداد دنیاکے اندر کروڑوں بلکہ عربوں میں ہے ان میں سے کتنے لوگ ہیں جو داڑھی رکھتے ہیں اور ہماری کتنی خواتین پردے کا احتمام کرتی ہیں
جو برقع اوڑھتی بھی ہیںں ان میں سے نوے فیصدی ایسا اوڑھتی ہیں کہ نہ اوڑھنا ایسے اوڑھنے سے کہیں بہتر ہے ہند کی اگر میں بات کروں تو یہاں کچھ فیصدی سکھ ہیں مگر اپنی داڈھی پگڑی کے ایسے پکے ہیں کہ ان کی وجہ سے قانون تک میں ترمیم کرنی پڑتی ہےنہ انہیں کوئی بیک ورڈ کہتا ہے نہ وہ تعصب کے شکار ہوتے ہیں ہماری اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر سب مرد داڑھی رکھیں اور سب خواتین پردے کا احتمام صحیح طریقے سے کریں تو کس کی ہمت ہے کہ ان کے حجاب اور داڈھی پر انگلی اٹھا سکے
 

محمد وارث

لائبریرین
غور کریں کہ کیا مسلم ممالک میں ہر ایک کو اتنی مذہبی آزادی ہے جتنی مغرب میں مسلمانوں کو ہے؟
مغرب تو دُور کی بات ہے، ہندو پاک میں بڑی دلچسپ بلکہ نازک صورتحال ہے۔ ایک جماعت ہے جو دونوں طرف ہے، پاکستان میں ان کا کہنا ہے کہ سیکولرازم کا مطلب کفر ہے اگر یہاں سیکولرازم رائج کیا گیا تو خون کی ندیاں بہا دیں گے، ہندوستان میں کہتے ہیں کہ سیکولرازم ناقابل تردید حقیقت ہے اگر سیکولر ازم کو چھوڑا گیا تو خون کی ندیاں بہا دیں گے!
 
بسم اللہ الر حمن الرحیم
مسلمانوں کی طرح کوئی دوسرا مذہب میری نظر میں ایسا نہیں ہے جہاں فرض، واجب، سنت ، مستحسن، نفل، جائز ، مکروہ تنزیہی، مکروہ تحریمی، حرام اتنے سارے درجات ہوں ہمارے یہاں جو ضروری ہے وہ ضروری ہے جو ضروری نہیں ہے اس کے بھی درجات مقرر ہیں پر دوسرے مذاہب میں ایسا نہیں ہے وہ اپنی ضرورت کے حساب سے مذہب پر چلتے ہیں اور وقت کے ساتھ مذہب کے احکامیں تبدیلی کر لیتے ہیں کوئی ہندو یہ نہیں کہہ سکتا مجھے آج اسی وقت مندر میں جانا ضروری ہے اگر دس منٹ لیٹ ہو گیا تو پھر پوجا نکل جائےگی ایسے ہی اسلام کے علاوہ دوسرے سب مذاہب کی بات ہے پر ہمارے یہاں نمازوں کے اوقات مقرر ہیں اور نہ صرف عبادات کی رہنمائی اسلام نے کی ہے بلکہ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے اسلام عبادات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ زندگی کیسے جینی ہے سونے جاگنے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے شادی بیاہ کرنے مرنے جینے کاروبار لین دین کرنے یہاں تک کہ پیشاب لیٹرین کرنے تک کا طریقہ بتاتا ہے یہ دین فطرت ہے یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اس کے ہر حکم پر پوری طرح سے عمل کیا جا سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ ان احکام پر عمل کر کے کون کتنا نفع حاصل کرتا ہے یہ عمل کرنے والے پر ہے
اسلام کے ماننے والوں کو اگر پردہ کرنا ہے تو کرنا ہے نماز پڑھنی ہے تو پڑھنی ہے( جنگ میں بیماری میں مجبوری میں سفر میں جو گنجائش ہے وہ آدمی حاصل کر سکتا ہےوہ بھی اپنی مرضی سے نہیں)دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کے احکام کی ایسی پابندی نہیں کرتے تو جب وہ خود اپنی مرضی کے مطابق اپنے دین میں تبدیلی کر سکتے ہیں تو مسلم ممالک ان کو ایسی آزادی نہ بھی دیں تو انکا ایسا نقصان نہیں ہے جیسا مسلمانوں کو اپنے دین پر چلنے کی مکمل آزادی نہ ملنے پرخسارا اور پریشانی ہے


مجھے نثر میں دو سطر لکھنے کا اتفاق بھی بہت کمی سے ہوتا ہے زبان وبیان میں کجھ غلطی کر گیا ہوں تو معاف فرمادیں

( اللہ پاک تو جانتا ہے میرا ارادہ کسی کا دل دکھانے کا نہیں ہے یا اللہ میرے قلم میں وہ تاثیر عطا فرما دے کہ حق بات کسی کا دل دکھائے بنا لکھ سکوں وہ انداز عطا کر دے نثر لکھوں یا نظم لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے۔۔
یا اللہ ہم سب کو ہدایت اور اپنی رضا سے نواز دے
آمین)
 
بسم اللہ الر حمن الرحیم
یہ بات بالکل صحیح ہے کے مسلمانوں کے ساتھ تعصب سے کام لیا جاتا ہے لیکن جہاں تک داڑھی اور حجاب برقع کا معاملہ ہے اس میں غیروں سے زیادہ ہم خود قصور وار ہیں ہم لوگوں کی تعداد دنیاکے اندر کروڑوں بلکہ عربوں میں ہے ان میں سے کتنے لوگ ہیں جو داڑھی رکھتے ہیں اور ہماری کتنی خواتین پردے کا احتمام کرتی ہیں
جو برقع اوڑھتی بھی ہیںں ان میں سے نوے فیصدی ایسا اوڑھتی ہیں کہ نہ اوڑھنا ایسے اوڑھنے سے کہیں بہتر ہے ہند کی اگر میں بات کروں تو یہاں کچھ فیصدی سکھ ہیں مگر اپنی داڈھی پگڑی کے ایسے پکے ہیں کہ ان کی وجہ سے قانون تک میں ترمیم کرنی پڑتی ہےنہ انہیں کوئی بیک ورڈ کہتا ہے نہ وہ تعصب کے شکار ہوتے ہیں ہماری اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر سب مرد داڑھی رکھیں اور سب خواتین پردے کا احتمام صحیح طریقے سے کریں تو کس کی ہمت ہے کہ ان کے حجاب اور داڈھی پر انگلی اٹھا سکے
بالکل درست بات ہے۔ مگر ہمیشہ تھوڑی تعداد ہی تو اللہ کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔ اکثریت تو گمراہی کے راستے پر آنکھیں بند کئے بھاگے جارہی ہے۔ اور غور کریں تو نو مسلم بہنیں حجاب کو اسلام کا لازم جزو سمجھ کر اپنائی ہیں۔ جبکہ ہم جو پیدائشی مسلمان ہیں ہمارے لئے پردہ آپشنل ہو جاتا۔۔۔
 

زیک

مسافر
پاکستان کی بات کریں تو حقوق اگرچہ مل نہیں رہے وہ الگ بحث ہے مگر کسی خاتون کا حجاب نوچا نہیں گیا۔
پھر مسلمانوں کو چاہیئے کہ پاکستان جیسے مسلمان ملک میں رہیں کیوں کافر ملک جانا چاہتے ہیں؟

ویسے میری بات آپ کو بالکل بھی سمجھ نہیں آئی۔
 

زیک

مسافر
بسم اللہ الر حمن الرحیم
مسلمانوں کی طرح کوئی دوسرا مذہب میری نظر میں ایسا نہیں ہے جہاں فرض، واجب، سنت ، مستحسن، نفل، جائز ، مکروہ تنزیہی، مکروہ تحریمی، حرام اتنے سارے درجات ہوں ہمارے یہاں جو ضروری ہے وہ ضروری ہے جو ضروری نہیں ہے اس کے بھی درجات مقرر ہیں پر دوسرے مذاہب میں ایسا نہیں ہے وہ اپنی ضرورت کے حساب سے مذہب پر چلتے ہیں اور وقت کے ساتھ مذہب کے احکامیں تبدیلی کر لیتے ہیں کوئی ہندو یہ نہیں کہہ سکتا مجھے آج اسی وقت مندر میں جانا ضروری ہے اگر دس منٹ لیٹ ہو گیا تو پھر پوجا نکل جائےگی ایسے ہی اسلام کے علاوہ دوسرے سب مذاہب کی بات ہے پر ہمارے یہاں نمازوں کے اوقات مقرر ہیں اور نہ صرف عبادات کی رہنمائی اسلام نے کی ہے بلکہ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے اسلام عبادات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ زندگی کیسے جینی ہے سونے جاگنے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے شادی بیاہ کرنے مرنے جینے کاروبار لین دین کرنے یہاں تک کہ پیشاب لیٹرین کرنے تک کا طریقہ بتاتا ہے یہ دین فطرت ہے یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اس کے ہر حکم پر پوری طرح سے عمل کیا جا سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ ان احکام پر عمل کر کے کون کتنا نفع حاصل کرتا ہے یہ عمل کرنے والے پر ہے
اسلام کے ماننے والوں کو اگر پردہ کرنا ہے تو کرنا ہے نماز پڑھنی ہے تو پڑھنی ہے( جنگ میں بیماری میں مجبوری میں سفر میں جو گنجائش ہے وہ آدمی حاصل کر سکتا ہےوہ بھی اپنی مرضی سے نہیں)دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کے احکام کی ایسی پابندی نہیں کرتے تو جب وہ خود اپنی مرضی کے مطابق اپنے دین میں تبدیلی کر سکتے ہیں تو مسلم ممالک ان کو ایسی آزادی نہ بھی دیں تو انکا ایسا نقصان نہیں ہے جیسا مسلمانوں کو اپنے دین پر چلنے کی مکمل آزادی نہ ملنے پرخسارا اور پریشانی ہے


مجھے نثر میں دو سطر لکھنے کا اتفاق بھی بہت کمی سے ہوتا ہے زبان وبیان میں کجھ غلطی کر گیا ہوں تو معاف فرمادیں

( اللہ پاک تو جانتا ہے میرا ارادہ کسی کا دل دکھانے کا نہیں ہے یا اللہ میرے قلم میں وہ تاثیر عطا فرما دے کہ حق بات کسی کا دل دکھائے بنا لکھ سکوں وہ انداز عطا کر دے نثر لکھوں یا نظم لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے۔۔
یا اللہ ہم سب کو ہدایت اور اپنی رضا سے نواز دے
آمین)
آپ کی اتنی لمبی تحریر سے تو واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کو کافر ملکوں سے دور رہنا چاہیئے
 

زیک

مسافر
نوٹ: میری رائے میں ہر شخص کو مذہبی آزادی کا مکمل حق ہے۔ یہ حق اسے مغرب خاص طور پر امریکہ میں مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کی نسبت کافی زیادہ ملتا ہے۔ کسی خاتون کو حجاب کرنے یا نہ کرنے سے کسی کو روکنے کا حق نہیں۔

نوٹ ۲: مغرب میں مسلمان خواتین کی بھاری اکثریت حجاب نہیں کرتی۔ ان کے حقوق کا بھی خیال کرنا چاہیئے
 
بسم اللہ الر حمن الرحیم

کیسے خیال رکھیں اور کون رکھے

کل نمازیوں سے بھی کہا جائے گا کہ مسلمان بے نمازیوں کا خیال کریں بہت خوب کہی یہ خیال تو ان خواتین کو رکھنا چاہیئے جو پردہ نہیں کرتی ہیں میں پہلے لکھ چکا ہوں ہمارے حجاب نوچے جانے کی وجہ ہم خود ہی ہیں
جو خواتین حجاب نہیں کرتی ہیں ان پر کون جبر کر رہا ہے جب کہ جو کرتی ہیں ان پر جبر ہو رہا ہے
 
آخری تدوین:
عجمیوں کے فورم میں عربوں کا ذکر؟
بسم اللہ الر حمن الرحیم
بہت خوب لاجواب ہے یہ عمل اس کے لئے آپ کا بہت بہت شکر گزار ہوں جس طرح ایک سرجن سارے اچھے بھلے جسم میں سے زخم کو ہی کرید کر ٹھیک کرتا ہے آپ نے بھی وہی کیا ہے ایک بار پھر شکریہ
 
Top