ٹائپنگ مکمل توزک اردو

شمشاد

لائبریرین
51

(پسر سلطان صلاح الدین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگتراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کردیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔

مجبور ہوکر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستر گز سے کم نہ ہوگا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔ عبداللطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا۔ کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیونکہ عالم قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں۔ اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔(شبلی نعمانی)۔۔۔۔۔۔۔۔

52

مولویہ عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی

بزم قدرت

دنیا کی سب محفلیں تغیرات زمانہ سے درہم و برہم ہو جاتی ہیں۔ مگر خدا کی مرتب کی ہوئی محفل جس میں انقلابات عالم سے ہر روز ایک نیا لطیف پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ہمیشہ آباد رہی اور یونہیں قیامت تک جمی رہے گی۔ یہ وہ محفل ہے جس کی رونق کسی کے مٹانے سے نہیں مٹ سکتی۔ وہ پر غم واقعات اور وہ حسرت بھرے سانحے جن سے ہماری محفلیں درہم وہ برہم ہوجایا کرتی ہیں۔ ان سے بزم قدرت کی رونق اور دو بالا ہوجاتی ہے۔ ہماری صحبت کا کوئی آشنا حرماں نصیبی میں ہم سے بچھڑ کے مبتلاے دشت غربت ہوجاتا ہے۔ تو برسوں ہماری انجمنیں سونی پڑی رہتی ہیں۔ ہمارے عشرت کدوں کا کوئی زندہ دل نذر اجل ہوجاتا ہے تو سالہا سال کے لیے ماتم کدے ہوجاتے ہیں۔ مگر جب ذرا نظر کو وسیع کرو اور خاص صدمات کو خیال چھوڑ کے عالم کو عام نظر سے دیکھو۔ تو اس کی چہل پہل ویسی ہی رہتی ہے بلکہ نئی نسل کے دو چار پرجوش زندہ دل ایسے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ دنیا کی دلچسپیاں ایک درجہ اور ترقی کر جاتی ہیں۔ ایک شاعر کا قول ہے۔

دنیا کے جو مزے ہیں۔ ہرگز یہ کم نہ ہوں گے
چرچے یہی رہیں گے۔ افسوس! ہم نہ ہوں گے

جس نے کہا ہے بہت خوب کہا ہے۔ بزم قدرت ہمیشہ یونہیں دلچسپیوں سے آباد رہے گی۔ ہاں ہم نہ ہونگے اور ہماری جگہ زمانہ ایسے اچھے نعم البدل لاکے بیٹھا دیگا

53

کہ ہماری باتیں محفل والوں کو پھیکی اور بے مزہ معلوم ہونے لگیں گی۔

الغرض یہ محفل کبھی خالی نہیں رہی۔ کوئی نہ کوئی ضرور رہا۔ جو اس بزم کی رونق کو ترقی دیتا رہا۔ اسی مقام سے یہ نازک مسئلہ ثابت کیا جاتا ہے۔ کہ زمانہ کی عام رفتار ترقی ہے ایک قوم آگے بڑھتی اور دوسری پیچھے ہٹتی ہے۔ تنزل پذیر قوم کے لوگ اپنے مقام پر جب اطمینان سے بیٹھتے ہیں۔ زمانہ اور ملک کی شکاتیوں کا دفتر کھول دیتے ہیں اور ان کو دعویٰ ہوتا ہے کہ زمانہ تنزل پر ہے۔ مگر اصل پوچھئے۔ تو تنزل صرف ان کی غفلتوں اور راحت طلبیوں کا نتیجہ ہے۔ دنیا اپنی عام رفتار میں ترقی ہی کی طرف جارہی ہے۔

اے وہ لوگو! جو شکایت زمانہ میں زندگی کی قیمتی گھڑیا فضول گزران رہے ہو۔ ذرا بزم قدرت کو دیکھو تو کس قدر دل کش اور نظر فریب واقع ہوئی ہے۔ تمہارے دل میں وہ مذاق ہی نہیں پیدا کہ ان چیزوں کی قدر کرسکو۔ یہ وہ چیزیں ہے کہ انسانی جوش کو بڑھاتی ہیں اور طبیعت میں وہ مفید حوصلے پیدا کرتی ہیں۔ جن سے ہمیشہ نتیجے پیدا ہوئے اور پیدا ہونگے۔ اندھیری رات میں آسمان نے اپنے شب زندہ دار دوستوں کی محفل آراستہ کی ہے۔ تارے کھلے ہوئے ہیں۔ اور اپنی بے ترتیبی اور بے نظمی پر بھی عجب بہار دکھا رہے ہیں۔ دیکھو ان پیارے خوش نما تاروں کی صورت پر کیسی زندہ دلی اور کیسی تری و تازگی پائی جاتی ہے؟ پھر یکایک مہتاب کا ایسا حسین اور نورانی مہمان مشرق کی طرف سے نمودار ہوا۔ اور یہ گورے گورے تارے اپنی بے فروغی پر افسوس کرکے غائب ہونے لگے۔ ماہتاب آسمان کے نیلگوں اطلسی

54

دامن میں کھیلتا ہوا آگے بڑھا۔ وہ اگرچہ ہماری طرح دل داغدار لیکے آیا تھا۔ لیکن خوش خوش آیا۔ اور ہمارے غربت کدوں کو روشن کرکے بزم قدرت میں نہایت لطیف اور خوشگوار دلچسپیاں پیدا کرکے خوشی خوشی صحن فلک کی سیر کرتا ہوا مغرب کی طرف گیا اور غائب ہوگیا۔

ابھی آسمان کو اس مہمان کا انتظار تھا۔ جس سے نظام عالم کا سارا کاروبار چل رہا ہے۔ اور جس کی روشنی ہماری زندگیوں کی جان اور ہماری ترقیوں کا ذریعہ ہے۔ آفتاب بڑی آب و تاب سے ظاہر ہوا۔ رات کا خوبصورت اور ہم صحبت چاند اپنے اترے ہوئے چہرہ کو چھپا کے غائب ہوگیا۔ اور آسمان کا اسٹیج بزم قدرت کے دلفریب ایکٹروں سے خالی ہوگیا۔

خواب شب کا مزہ اٹھانے والوں کی آنکھیں کھل کھل کے افق مشرق کی طرف متوجہ ہوئی ہیں۔ آفتاب کی شعاعیں آسمان کے دور پر چڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ مرغان سحر کے نغمہ کی آواز کانوں میں آئی ہے۔ اور آنکھیں مل کے دیکھا ہے تو ہماری نظر کی خیرگی نہ تھی۔ شمع حقیقت میں جھلملارہی ہے۔ یک بیک وفور طرف نے ایک ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ گھنٹے بجے ہیں۔ چڑیاں چہچہائیں۔ موذنوں نے اذانیں دیں۔ اور تمام جانوروں کی مختلف آوازوں نے ملکر ایک ایسا ہمہمہ پیدا کردیا ہے کہ نیچر کی رفتار میں بھی تیزی پیدا ہوگئی۔ باغ نیچر کے چابکدست کاریگر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ نسیم سحر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آئی اور ضابط و متین غنچوں کے پہلو گد گدانے لگی۔ الغرض قدرت نے اپنی پوری بہار کا نمومہ آشکارا کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔(عبدالحلیم شرر)۔۔۔۔۔۔۔۔

55

خان بہادر۔ شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ

وارن ہیسٹنگز کے اخلاق و عادات

شاید ہی کوئی دوسرا مدبر و منتظم ملکی ایسا گزرا ہو کہ جس کی تفضیح اور ہجو اس مبالغہ سے اور تعریف اس شد و مد سے ہوئی ہو۔ اور اس کی ساری زندگی کے افعال اور اعمال کی تحقیقات ایسی شہادت تحریری سے ہوئی ہو۔ مگر اس کی نسبت لکھنے والے طرف دار اور متعصب تھے۔ اگر نظر انصاف سے دیکھئے تو اس کی یہ بھلائیاں اور برائیاں معلوم ہونگی۔ جو ہم نیچے لکھتے ہیں۔ اس کی فطانت اور فراست و ذہانت کے سب دوست دشمن قائل ہیں۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا۔ کہ وہ بیدار مغز اور ہوشیار دل ایسا تھا۔ کہ امور خطیر اور معاملات عظیم کے انصرام اور سر انجام کرنے کی اس میں قابلیت اور لیاقت تھی۔ برسوں تک اس نے ایک سلطنت بزرگ اور مملکت عظیم کا نظم و نسق کیا۔ سوائے ذہین اور قابل ہونے کے وہ محنت شعار اور جفاکش پرلے درجہ کا تھا۔ کاہلی اس سے کروڑوں کوس دور رہتی تھی۔ اس کے جانشین جو ہوئے۔ ان میں دو چار قابلیت اور لیاقت میں تو ہم پلہ ہوئے مگر محنت مشقت و کار گزاری میں اس سے کہیں ہلکے تھے۔ یہی پہلا عالی دماغ تھا۔ جس نے یہ سوچا کہ انگریزی گورنمنٹ سب سے علیٰحدہ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ

56

وہ اور ہندوستانی رئیسوں سے آمیزش اور سازش کرے۔ یہی باب فتح و نصرت کی کنجی ہے۔ یہی وہ روشن عقل تھا کہ اس شاہراہ پر انگریزی گورنمنٹ کو رستہ دکھایا۔ جس پر چلنے سے وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئی۔ گو یہ خیالات اس وقت انگلستان میں عام نہ تھے مگر بری بھلی طرح سے تجربہ ہوکر آخر کار وہی صحیح ثابت ہوگئے۔

اس نے انگریزی صوبوں کے حسن انتظام میں اپنی عقل و ذہن کو بہت خرچ کیا۔ انقلابوں کے طوفان نے سارے ملک میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ کسی سلطنت کا چراغ روشن نہ تھا۔ شمع افسردہ کی طرح سب میں دھواں نکل رہا تھا۔ مالی اور دیوانی عدالتوں کا بہت برا حال تھا۔ وہ نام کی عدالتیں تھیں۔ حقیقت میں اس کے طفیل وہ ظلم و ستم ہوتے تھے کہ قلم لکھ نہیں سکتا۔ اگر زمیندار تھا۔ تو ادارے مالگزاری کے لیے سر اس کا گنجہ بنایا جاتا تھا۔ اگر ساہوکار تھا۔ تو وہ شکنجے میں پھنسا ہوا تھا۔ غرض سارے زمانے کی عافیت تنگ تھی۔ اس نے ان سب عدالتوں کی اصلاح کی۔ گو ان کو اس نے درجہ کمال تک نہیں پہنچایا۔ اور نہ ان کو اچھا بنایا۔ مگر وہ ایک بنیاد اس کی ایسی ڈال گیا کہ پھر اس پر اوروں کو ردے لگا کر عمارت بنانی آسان ہوگئی۔ کوئی حکومت کا کارخانہ ایسا نہ تھا۔ کہ جس کی طرف اس نے توجہ نہ کی ہو۔ اور ان میں بہت سی مفید باتوں کا موجد نہ ہو۔

اس نے اپنی سرکار کی ہوا خواہی اور خیر اندیشی میں بھی کوئی دقیقہ

57

فرو گزاشت نہیں کیا۔ مگر اس میں اس نے اخلاق کی نیکی پر خیال نہیں کیا۔ جس وقت سرکار نے روپیہ مانگا۔ تو اس کے سر انجام کرنے میں کسی بات کا آگا پیچھا نہیں سوچا۔ از راہ ظلم و تعدی جو دولت کا سامان کیا۔ اہل انگلستان نے اس کو بے سر و سامانی سمجھا۔ اس کی طبیعت کا خمیر ایسا تھا کہ وہ عدالت اور صداقت کو ضرورت کے وقت کچھ چیز نہیں سمجھتا تھا اور مروت و فتوت کو انسانیت میں داخل نہیں جانتا تھا۔ "گر ضرورت بود روا باشند" پر عمل تھا۔ وہ خود رائی کے سبب بر خود غلط اتنا تھا کہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ ہر کام اس کا ایک راز سر بستہ اور سر پوشیدہ تھا۔ کسی کام کی اصل و حقیقت کھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ گو اس کے ظاہر ہوجانے سے نقصان نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہر کام کو بڑے پیچ پاچ سے کرتا تھا۔ غرض اس میں جو خوبیاں تھیں۔ وہ تحسین کے قابل تھیں اور جو برائیاں تھیں وہ نفریں کے لائق۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ رعایا پروری۔ سپاہ کی دلداری۔ لوگوں کو اپنا کرلینا۔ رفاہیت عباد اور معموری بلاد کا خیال یہ سب خوبیاں اس میں ایسی تھیں کہ وہ ایک طوطی خوش رنگ کی طرح خوش نما معلوم ہوتی تھیں۔ مگر اپنی سرکار کی نمک شناسی کے سبب سے اس کی گنجینہ آمائی۔ دولت افزائی ایسی ایک بلی اس میں تھی کہ وہ اس طوطی خوش رنگ کو نوچے کھاتی تھی۔ مگر اس بلی کے بھنبھوڑنے کے لیے اس کے پاس ایک کتا بھی موجود تھا۔ جو اس کی خود پرستی و خود رائی تھی۔

58

غرض یہ فضائل اور رذائل اس میں کام کررہے تھے۔ جو ایک بڑے بند مکان میں طوطی اور بلی اور کتا کام کریں۔ ہیسٹنگز صاحب کی سب سے زیادہ تعریف اس بات میں تھی کہ اس نے سارے کارخانوں اور کاموں کے لیے خود ہی مقدمات کو ترتیب دیا اور اس بات کو سر انجام کیا۔ جب وہ ولایت سے ہندوستان آیا۔ تو طفل مکتب تھا۔ نوکری ملی تو تجارت کے کارکانے میں۔ کبھی اس کو اہل علم اور منتظمان ملکی کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی۔ جتنے اس کے یہاں جلیس و انیس تھے۔ اس میں کوئی اس سے زیادہ صاحب لیاقت نہ تھا۔ کہ اپنی لیاقت کو بڑھاتا۔ بلکہ اس کو خد استار بن کر سب کو لیاقت کا سبق پڑھانا پڑا۔ وہ سب کا رہنما تھا اور اس کا رہنما فقط اس کی عقل و دانش کا نور تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد ذکاء اللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔

ادب

ادب کے معنی اس کی ریاضت محمودہ اور کوشش وسعی کے ہیں۔ جس سے کسب فضیلت ہو۔ ہر چیز کی حد نگہداشت کو اور ہر فعل محمودہ کی تعظیم کو بھی ادب کہتے ہیں۔

تو اپنے نفس کو وہ ادب سکھا کہ بے ادب اسے دیکھ کر با ادب ہوجائیں۔ جو ادب سکھانے کا ذوق رکھتا ہے۔ وہ بے ادبوں کو اپنا ہی سا بنالیتا ہے۔ جیسے آہوے وحشی جو گھر میں دانہ کھاتا ہے۔ وہ اور

59

آہوؤں کو پکڑ لاتا ہے۔ جو اپنے اخلاق کی بنیاد ادب پر رکھتا ہے۔ اس کا فکر استاد ہوجاتا ہے۔ بزرگی کی جڑ ادب سے مستحکم ہوتی ہے۔

تو لالہ و گل کی طرح تھوڑا سا خندہ کر۔ کہ سب کو مطبوع ہو۔ نہ یہ کہ ایسے قہقہے لگائے کہ سب کو بیہودہ معلوم ہوں۔ بے خرد جس کو مزاح کہتے ہیں۔ وہ خرد مندوں کے نزدیک نبرد و سلاح ہے۔ اگر تمہاری ڈاڑھی کوؤں کے پروں کی سی سیاہ ہو تو بڈھوں کی بگلا سی سفید ڈاڑھی کی ہنسی نہ اڑاؤ۔ اگر تم سمن عارض اور گلعذار ہو۔ تو زنگی کے سامنے آئینہ رکھ کر اسے نہ چڑاؤ۔ کیونکہ کوئی بدصورت دنیا میں بے مصلحت نہیں ہوتا۔ ایک چینی جس کا رنگ سرخ و سفید تھا ایک زنگی پر ہنسا۔ تو زنگی نے جواب دیا کہ میرا ایک نقطہ تیرے چہرے کے لیے زیب ہے اور تیرا ایک نقطہ میرے لیے ایک عیب ہے۔ تجھے چاہیے کہ جو تیرا عیب بیں ہو۔ تو اس کا ہنر دیکھ۔ جو تجھے زہر دے تو اس کو نبا دے۔ جو تجھے مارے تو اسے آب حیات پلا۔ تاکہ تیری عقل سلامت پسند ہو۔ اور تیرے خطبہ اخلاق میں بآواز بلند پڑھا جائے۔ خدا سے توفیق ادب کی دعا مانگ۔ کیونکہ ادب کے بغیر لطف رب سے آدمی محروم رہتا ہے۔ بے ادب اپنے لئے برا نہیں ہوتا۔ بلکہ اوروں کے لیے بھی برا نمونہ بنتا ہے۔ ادب انسان کو معصوم بناتا ہے۔ گستاخی اور بے باکی غموں کا ہجوم رکھتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد ذکاء اللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔

60

حیا

حیا بھی طرح طرح کی ہوتی ہے۔ اور بے حیائی بھی قسم قسم کی۔ سب سے زیادہ سخت بے حیائی محبت میں اندھا ہونا ہے۔ جس میں اکثر انسان مبتلا ہیں۔ ایک شخص جو سرشت انسان سے بڑا ماہر ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ" آدمی اپنے سے سب کے بعد محبت کرے۔" مگر دنیا میں بہت سے آدمی ایسے دیکھنے میں آتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے اپنے سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ان صفات کا یقین کرتے ہیں۔ جو درحقیقت اس میں نہیں ہوتیں۔ اور اپنی ذات کی قدر و منزلت و قیمت میں مبالغہ کرتے ہیں۔ یہی سخت عیب ہے جس سے انسان جو اپنے آپ سے دھوکا کھا جاتا ہے۔ اور ذلت اٹھاتا ہے۔ خلق کی نظروں میں حقیر ہوجاتا ہے۔ جب آدمی خود ستائی کرتا ہے اور اس طرح اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس سے معلوم ہو کہ وہ کوئی بڑی قابلیت و قدر منزلت کا آدمی ہے۔ تو ضرور اس کی ہنسی ہوتی ہے۔ ہم کو چاہیے کہ جب کوئی دوسرا شخص ہماری تعریف کرے تو اس کو حیا و شرم کے ساتھ قبول کریں۔ ظاہر اور باطن دونوں میں فروتنی اور عجز و انکسار اختیار کرنا چاہیے۔ جب آدمی اپنی نیک صفات کو۔ جو حقیقت میں اس کے اندر ہیں۔ نمود کے ساتھ دکھائے گا۔ تو شیخی کرکری ہوجائیگی۔

غرور کرنا بڑی بے حیائی ہے۔ مغرور بڑا بے حیا ہوتا ہے۔ مغرور اپنی نخوت کے زور سے مصیبتوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ اپنے دگنے

61

زور سے اپنے شرکش دل کے ٹکڑے کرتا ہے۔ نرم پورا ہوا کے جھونکھوں کے آگے سر جھکاتا ہے اور اس کے تمام زور کو اپنے سے دور کردیتا ہے اور خود قائم رہتا ہے۔ ایسے ہی فروتن۔ متواضع۔ منکسر اور عجز و انکسار سے بلاؤن کو سر پر سے ٹال دیتا ہے۔

سفلے کم ظرف نا شائستہ اپنی اصلی لیاقتوں کی شیخیاں بگھارا کرتے ہیں۔ سچے مہذب اور شائستہ اپنے عجز و ناتوانی کو ظاہر کیا کرتے ہیں۔ علم میں جو لوگ تھوڑی لیاقت رکھتے ہیں۔ وہی اپنے عالم ہونے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ مگر حقیقت میں جو عالم علم دستگاہ اور حقیقت آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آگے بہ نسبت پیچھے کے زیادہ دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے میں یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ہم کیا جانتے ہیں بلکہ یہ کہ کیا نہیں جانتے۔ جتنا ان کا علم بڑھتا ہے۔ اتنا ہی ہی اپنی جہالت کے علم سے ان کی حیا زیادہ ہوتی ہے۔ وہ سمندر کے تیراک ہوتے ہیں ایک عمق کے بعد دوسرا عمق ان کے آگے ہوتا ہے۔ اس کی تھاہ کبھی ان کو نہیں ملتی۔ یہ کم علم ندی نالوں کے تیراک ہوتے ہیں۔ کہ جلدی سے تھاہ کو پاکے خوش ہوجاتے ہیں اور اس پر گھمنڈ اور فخر کرتے ہیں۔ عالموں کی نظروں کے روبرو۔ پہاڑ پر پہاڑ اور ایک ہمالہ پر دوسرا ہمالہ آتا جاتا ہے۔ جس سے اس کا منظر فراخ ہوتا جاتا ہے۔ جتنا یہ منظر وسیع ہوتا ہے۔ اتنی ہی ان کو حیا اپنی کوتاہ نظری کی بڑھتی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد ذکاء اللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔

62

محنت

ہر بشر کے پیچھے سب حالتوں میں محنت کرنے کا فرض لگا ہوا ہے۔ خواہ وہ کسی جماعت کا ہو۔ جو شریف شرافت نسبی اور شرافت حقیقی تعلیم وہ تہذیب کے سبب رکھتا ہے۔ وہ اپنے دل سے اس امر کو اپنے اوپر فرض سمجھتا ہے کہ بہبود عوام اور رفاہ انام میں سعی کرکے محنت میں اپنا حصہ لوں۔ اس کو ہرگز یہ گوارے خاطر نہیں ہوتا کہ میں اوروں کی محنت سے کھاؤں پیوں۔ میں فراغت سے رہوں اور اس کا معاوضہ خود محنت کرکے اپنی سوسائٹی کو نہ دوں۔ عالی خیال نیک کردار اس تصور سے بھاگتا ہے کہ یونہیں بیٹھا رہے۔ اور دعوتیں اڑایا کرے۔ اور اس کا معاوضہ کچھ نہ دے۔ نکما پن اور سستی نہ کوئی عزت ہے نہ کوئی منفعت ہے۔ اس سے فرومایہ اور کمینہ طبائع راضی ہوجاویں۔ مگر عالی ہمت تو ایسی حالت کو مذلت سمجھتے ہیں اور حقیقی عزت اور عظمت سے اسے بعید جانتے ہیں۔

ایک دانشمند بلند خرد جو خود جدوجہد میں مجتہد تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو جو مدرسہ میں پڑھتا تھا۔ یہ پند سود مند ارقام فرماتا ہے کہ"اے میرے پیارے بیٹے! تیرے دل پر اس بات کا نقش شدت سے زور دیکر نہیں جما سکتا کہ ہر امیر۔ شریف۔ غریب۔ فقیر کی شرط زندگی محنت ہے۔ غریب کسان روٹی اپنی پیشانی کی عرقریزی سے کماتا ہے۔ اور امیر اپنی شکار کی جستجو میں سعی کرکے اپنی سستی کو کھوتا ہے۔

63

جیسے گہیوں کے کھیت میں بغیر ہل چلائے کاشتکار کو کچھ پیداوار ہاتھ نہیں لگتا۔ ایسے ہی مزرعہ دل میں تخم علم بغیر محنت کے بار آور نہیں ہوتا۔ مگر ہاں ان دونوں میں اتنا فرق ضرور ہے کہ ایسے اتفاقات اور واقعات پیش آسکتے ہیں۔ کہ ایک کسان کھیت بوئے اور وہ اس کی پیدا وار سے محروم رہے اور کوئی دوسرا آدمی اس سے متمتع ہو۔ مگر علم میں یہ نہیں ہوسکتا۔ کہ آتش زدگی یا وقوع حادثات سے کوئی شخص اپنے مطالعہ علمی کی ریاضت کے ثمر سے محروم ہوجائے اور یہ ثمر دوسرے کو ملجائے۔ اس کے تحصیل علم کی تکمیل اور توسیع خاص اسی کی ذاتی منفعت کے لیے ہے۔ اسی واسطے میرے پیارے بچے محنت کر اور وقت کو اچھی طرح کام میں لا۔ لڑکپن میں ہمارے قدم ہلکے ہوتے ہیں اور دل ملائم۔ اس میں علم خوب جڑ پکڑ سکتا ہے۔ آدمی کی بھی عمریں مثل فصلوں کے ہوتی ہیں کہ اگر ایک فصل کی کاشت میں غفلت کیجئے تو دوسری فصل میں حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ پس اگر ہم اپنی طفلی اور جوانی جو خریف و ربیع کی فصلیں ہیں۔ ضائع کردینگے۔ تو بڑھاپا ہمارا کہ کھرسا کا موسم ہے۔ نہایت خوار اور ذلیل ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد ذکاء اللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔

64

شمس العلما مولوی سید محمد حسین آزاد

سید محمد حسین نام۔ آزاد تخلص۔ دہلوی۔ فن شعر میں ابراہیم ذوق کے شاگرد۔ علوم عربیہ و فارسیہ میں حظ وافی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی و فارسی کے پروفیسر تھے۔ اردو میں ان کی نثر پایہ عالی رکھتی ہے۔ تشبیہ و تمثیل کا استعمال نہایت خوبی و لطافت سے کرتے ہیں۔

اردو اور انگریزی انشا پردازی پر کچھ خیالات

اگر زبان کو فقط اظہار مطالب کا وسیلہ ہی کہیں۔ تو گویا وہ ایک اوزار ہے کہ جو کام ایک گونگے بچارے یا بچے نادان کے اشارے سے ہوتے ہیں۔ وہی اس سے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایک معمار ہے کہ اگر چاہے تو باتوں باتوں میں ایک قلعہ فولادی تیار کردے۔ جو کسی توپ خانے سے نہ ٹوٹ سکے۔ اور چاہے۔ تو ایک بات میں اسے خاک میں ملادے۔ جس میں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ زبان ایک جادوگر ہے۔ جو کہ طلسمات کے کارخانے الفاظ کے منتروں سے تیار کردیتا ہے اور جو اپنے مقاصد چاہتا ہے۔ ان سے حاصل کرلیتا ہے۔ وہ ایک نادر مرصع کار ہے۔ کہ جس کی دستکاری کے نمونے کبھی شاہوں کے سروں کے تاج اور کبھی شہزادیوں کے نو لکھے ہار ہوتے ہیں۔ کبھی علوم و فنون کے خزانوں کے زر و جواہر اس کے قوم کو مالا مال کرتے ہیں۔ وہ ایک چالاک عیار ہے۔ جو ہوا پر گرہ لگاتا ہے اور دلوں کے

65

قفل کھولتا اور بند کرتا ہے۔ یا مصور ہے کہ نظر کے میدان میں مرقع کھینچتا ہے۔ یا ہوا میں گلزار کھلاتا ہے۔ اور اسے پھول۔ گل۔ طوطی و بلبل سے سجا کر تیار کردیتا ہے۔

اس نادر دستکار کے پاس مانی اور بہزاد کی طرح مو قلم اور رنگوں کی پیالیاں دھری نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن اس کے استعاروں اور تشبیہوں کے رنگ ایسے خوش نما ہیں کہ ایک بات میں مضمون کو شوخ کرکے لال چہچہا کردیتا ہے۔ پھر بے اس کے کہ بوند پانی اس میں ڈالے۔ ایک ہی بات میں اسے ایسا کردیتا ہے کہ کبھی نارنجی۔ کبھی گلناری۔ کبھی آتشی۔ کبھی ایسا بھینا بھینا گلابی رنگ دکھاتا ہے کہ دیکھ کر جی خوش ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بو قلموں اور رنگا رنگ اور پھر سرتاپا عالم نیرنگ۔

جس زبان میں ہم تم باتیں کرتے ہیں۔ اس میں بڑے بڑے نازک قلم مصور گزر گئے ہیں۔ جن کے مرقعے آج تک آنکھوں اور کانوں کے رستے سے ہمارے تمہارے دلوں کو تازہ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج کل گویا ان کے قلم گھس گئے ہیں اور پیالیاں رنگوں سے خالی ہوگئی ہیں۔ جس سے تمہاری زبان کوئی نئی تصویر یا باریک کام کا مرقع تیار کرنے کے قابل نہیں رہی۔ اور تعلیم یافتہ قومیں اسے سن کر کہتی ہیں کہ یہ نا کامل زبان ہر قسم کے مطالب ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔

میرے دوستوں! یہ قول ان کا حققیت میں بیجا نہیں ہے۔ ہر ایک زبان تعلیم یافتہ لوگوں میں جو عزت پاتی ہے۔ تو دو سبب سے پاتی ہے۔ اول

66

یہ کہ اس کے الفاظ کے خزانے میں ہر قسم کے علمی مطالب ادا کرنے کے سامان موجود ہوں۔ دوم اس کی انشا پردازی ہر رنگ اور ہر ڈھنگ میں مطالب کے ادا کرنے کی قوت رکھتی ہو۔ ہماری زبان میں یہ دونوں صفتیں ہیں۔ مگر ناتمام ہیں۔ اور اس کے سبب ظاہر ہیں۔

علمی مطالب ادا کرنے کے سامانوں میں جو وہ مفلس ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تم جانتے ہو۔ کل ڈیڑھ سو برس تخمیناً اس کی ولادت کو ہوئے۔ اس کا نام اردو خود کہتا ہے کہ میں علمی نہیں۔ بازار کی زبان ہوں۔ اٹھنے بیٹھنے۔ لین دین کی باتوں کے لیے کام میں آتی ہوں۔ سلاطین چغتائیہ کے وقت تک اس میں تصنیف و تالیف کا رواج نہ تھا۔ مگر خدا کی قدرت دیکھو۔ کہ ایک بچہ شاہجہاں کے گھر میں پیدا ہوا اور انگریزی اقبال کے ساتھ ستارہ چمکے۔ جب صاحب لوگ یہاں آئے۔ تو انہوں نے ملکی زبان سمجھ کر اس کے سیکھنے کا ارادہ کیا۔ مگر سوائے چند دیوانوں کے اس میں نثر کی کتاب تک نہ تھی۔ ان کی فرمائش سے کئی کتابیں۔ کہ فقط افسانے اور داستانیں تھیں۔ تصنیف ہوئیں۔ اور انہی کے ڈھب کی صرف و نحو بھی درست ہوئی۔ 1835 عیسوی سے دفتر بھی اردو ہونے شروع ہوئے۔ 1836 عیسوی میں ایک اردو اخبار جاری ہوا۔ 1842 میں دہلی کی سوسائٹی میں علمی کتابیں اسی زبان میں ترجمہ ہونے لگیں اور اردو نے برائے نام زبان کا تمغا اور سکہ پایا۔ اب خیال کرنا چاہیے کہ جس زبان کی تصنیفی عمر کل ستر بہتر برس کی

67

ہو۔ اس کی بساط کیا۔ اور اس کے الفاظ کے ذخیرے کی کائنات کیا۔ پس اس وقت ہمیں اس کی کمی الفاظ سے دل شکستہ ہونا نہ چاہیے۔

میرے دوستو! کسی زبان کو لفظوں کے اعتبار سے مفلس یا صاحب سرمایہ کہنا بیجا ہے۔ ہر زبان اہل زبان کے با علم ہونے سے سرمایہ دار ہوتی ہے۔ اور کسی ملک والے یہ کہنا کہ علمی تصنیف یا بات چیت میں اپنے ہی ملک کے الفاظ بولیں۔ بالکل بیجا ہے۔

عربی بھی ایک علمی زبان تھی۔ مگر دیکھ لو۔ اس میں سارے لفظ تو عربی نہیں۔ صدہا رومی۔ صدہا یونانی۔ صدہا فارسی کے لفظ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور زبان فارسی کا تو کچھ ذکر ہی نہیں۔ انگریزی زبان آج علوم کا سر چشمہ بنی بیٹھی ہے۔ مگر اس زبان کے لفظوں کا طوفان آرہا ہے۔ زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے اہل ملک میں علم آتا ہے۔ پھر علمی اشیا کے لیے الفاظ یا تو اس علم کے ساتھ آتے ہیں یا وہیں ایجاد ہوجاتے ہیں۔

علمی الفاظ کا ذخیرہ خدا نے بناکر نہیں بھیجا۔ نہ کوئی صاحب علم پہلے سے تیار کرکے رکھ گیا۔ جیسے جیسے کام اور چیزیں پیدا ہوتی گئیں۔ ویسے ہی ان کے الفاظ پیدا ہوئے اور ہوتے جاتے ہیں۔ اول خاص و عام میں علم پھیلتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے الفاظ بھی عام ہوتے ہیں۔ مثلاً ریل کا انجن اور اس کے کارخانے کے صدہا الفاظ ہیں۔ کہ پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب کارخانے ہوئے۔ تو ادنےٰ ادنےٰ

68

ناخواندے سب جان گئے۔ اگر بے اس کے وہ الفاظ یہاں ڈھونڈتے یا پہلے یاد کراتے۔ تو کسی کی سمجھ میں بھی نہ آتے۔ اس طرح مثلاً میجک لینٹرن اس وقت یہاں کوئی نہیں جانتا۔ خواہ اس کا یہی نام لیں۔ خواہ فانوس جادو کہیں۔ خواہ اچنبھے کا تماشا کہیں۔ ہرگز کوئی نہیں سمجھے گا۔ لیکن اگر مشاہدے میں عام ہوجائے اور گھر گھر میں جاری ہوجائے۔ تو الٹے سے الٹا اس کا نام رکھ دیں۔ وہی بچے بچے کی زبان پر مشہور ہوجائے گا اور وہی سب سمجھیں گے۔

انگریزی میں جو علمی الفاظ ہیں مثلاً ٹیلیگراف یا ایلکٹریسٹی وغیرہ وغیرہ ان میں بھی بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنے اصل معنیٰ پر پوری دلالت نہیں کرتے۔ مگر چونکہ ملک میں علم عام ہے اور وہ چیزیں عام ہیں۔ اس لیے الفاظ مذکورہ بھی ایسے عام ہیں کہ سب بے تکلف سمجھتے ہیں۔ پس لفظوں کی کوتاہی ہماری زبان میں اگر ہے۔ تو اس سبب سے ہے کہ وہ بے علمی کے عہد میں پیدا ہوئی اور اسی عہد میں پرورش اور تربیت پائی۔ اب اس کی تدبیر ہوسکتی ہے۔ تو اہل ملک ہی سے ہوسکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ خود علوم و فنون حاصل کرو۔ اپنے ملک میں پھیلاؤ اور بھائی بندوں کو اس سے آگاہ کرو۔ جب اس میں سب قسم کے کاروبار ہونگے۔ تو ان کے الفاظ بھی ہونگے۔ ملک کے افلاس کے ساتھ زبان سے بھی افلاس کا داغ مٹ جائیگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد حسین آزاد)۔۔۔۔۔۔۔۔

69

تذکرہ ملک الشعرا خاقانی ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ

جب وہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف چلا۔ تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا۔ جن کی خوشبو شہرت عام بنکر جہاں میں پھیلی اور رنگ نے بقائے دوام سے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ وہ تاج سر پر رکھا گیا۔ تو آب حیات اس پر شبنم ہوکر برسا۔ کہ شادابی کو کملاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرائی کا سکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا۔ کہ اس پر نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چناچہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا۔ وہ باغ برباد ہوگیا۔ نہ ہم صفیر رہے۔ نہ ہم داستان رہے۔ نہ اس بولی کے سمجھنے والے رہے۔ جو خراب آباد اس زبان کے لیے ٹکسال تھا۔ وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے۔ شہر چھاؤنی سے بدتر ہوگیا۔ امرا کے گھرانے تباہ ہوگئے۔ گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہوکر حواس کو بیٹھے۔ وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں؟ جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں۔ آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ بالی نے اس قسم کی ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں۔ وہ اور اور اصل کی شاخیں ہیں۔ انہوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسا۔

70

کیسا مبارک زمانہ ہوگا۔ جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہونگے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفلی میں ہوگی۔ صرف نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہونگی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہونگے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ وہ رابطہ ان کا عمروں کے ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات میں بعض باتوں کے لکھنے کو سمجھیں گے۔ مگر کیا کروں جی یہ ہی چاہتا ہے کہ حرف اس گراں بہا داستان کا نہ چھوڑوں۔ یہ شاید اس سبب سے ہو کہ اپنے پیارے اور پیار کرنے والے بزرگ کی ہر بات پیاری ہوتی ہے۔ لیکن نہیں۔ اس شعر کے پتلے کا رونگٹا بھی بیکار نہ تھا۔ ایک صنعت کاری کی کل میں کونسے پرزے کو کہہ سکتے ہیں! کہ نکال ڈالو۔ یہ کام کا نہیں۔ اور کونسی حرکت اس کی ہے۔ جس سے کچھ حکمت انگیز فائدہ نہیں پہنچتا ہے اسی واسطے میں لکھونگا اور جو بات ان کے سلسلہ حالات میں مسلسل ہوسکے گی۔ اس کا ایک حرف نہ چھوڑونگا۔

شیخ مرحوم کے والد شیخ محمد رمضان ایک غریب سپاہی تھے۔ مگر زمانہ کے تجربہ اور بزرگوں کی صحبت نے انہیں حالات زمانہ سے ایسا با خبر کردیا تھا۔ کہ ان کی زبانی باتیں کتب تواریخ کے قیمتی سرمائے تھے۔ وہ دلی میں کابلی دروازے کے پاتے رہتے تھے۔ اور نواب لطف علی خان نے
 

شمشاد

لائبریرین
71

انہیں متعبر اور با لیاقت شخص سمجھ کر اپنی حرم سرا کے کاروبار سپرد کر رکھے تھے۔ شیخ علیہ الرحمتہ ان کے اکلوتے بیٹھے تھے کہ 1204 ہجری میں پیدا ہوئے۔ اس وقت کسے خبر ہوگی کہ اس رمضان سے وہ چاند نکلے گا۔ جو آسمان سخن پر عید کا چاند ہوکر چمکے گا۔ جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو حافظ غلام رسول نام ایک شخص بادشاہی حافظ ان کے گھر پاس رہتے تھے۔ محلہ کے اکثر لڑکے انہیں کے پاس پڑھتے تھے۔ انہیں بھی وہیں بٹھا دیا۔ حافظ غلام رسول شاعر بھی تھے۔ شوق تخلص کرتے تھے۔ اگلے وقتوں کے لوگ جیسے شعر کہتے ہیں۔ ویسے شعر کہتے تھے۔ محلہ کے شوقین نوجوان دلوں کی امنگ میں ان سے کچھ کچھ کہلوا لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ غرض ہر وقت ان کے ہاں یہی چرچا رہتا تھا۔

شیخ مرحوم خود فرماتے تھے کہ وہاں سنتے سنتے مجھے بہت شعر یاد ہوگئے۔ نظم کے پڑھنے اور سننے میں دل کو ایک روحانی لذت حاصل ہوتی تھی اور ہمیشہ اشعار پڑھتا پھرا کرتا تھا۔ دل میں شوق تھا اور خدا سے دعائیں مانگتا تھا۔ کہ الٰہی! مجھے شعر کہنا آجائے۔ ایک دن خوشی میں آکر خود بخود میری زبان سے دو شعر نکلے۔ اور یہ فقط حسن اتفاق تھا۔ کہ ایک حمد میں تھا۔ ایک نعت میں۔ مجھے اتنا ہوش تو کہاں تھا۔ کہ اس مبارک مہم کو خود اس طرح سمجھ کر شروع کرتا۔ کہ پہلا حمد میں ہو اور دوسرا نعت میں۔ جب یہ خیال بھی نہ تھا۔ کہ اس قدرتی اتفاق کو مبارک فال

72

سمجھوں۔ مگر ان دو شعروں کے موزوں ہوجانے سے۔ جو خوشی دل کو ہوئی۔ اس کا مزہ اب تک نہیں بھولتا۔ انہیں کہیں اپنی کتاب میں۔ کہیں جا بجا کاغذوں پر رنگ برنگ کی روشنائی سے لکھتا تھا۔ ایک ایک کو سناتا تھا اور خوشی کے مارے پھولوں نہ سماتا تھا۔ غرضکہ اس عالم میں کچھ کہتے رہے اور حافظ جی سے اصلاح لیتے رہے۔

اسی محلہ میں میر کاظم حسین نام ایک ان کے ہم سن ہم سبق تھے۔ بیقرار تخلص کرتے تھے اور حافظ غلام رسول ہی سے اصلاح لیتے ھتے۔ مگر ذہن کی جودت اور طبیعت کی براقی کا یہ عالم تھا۔ کہ کبھی برق تھے۔ اور کبھی باد و باراں۔ انہیں اپنے بزرگوں کی صحبت میں اچھے اچھے موقعے ملتے تھے۔ شیخ مرحوم اور وہ اتحاد طبعی کے سبب اکثر ساتھ رہتے تھے اور مشق کے میدان میں ساتھ ہی گھوڑے دوڑاتے تھے۔

ایک دن میر کاظم حسین نے غزل لاکر سنائی۔ شیخ مرحوم نے پوچھا۔ یہ غزل کب کہی؟ خوب گرم شعر نکالے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ ہم تو شاہ نصیر کے شاگرد ہوگئے۔ انہیں سے یہ اصلاح لی ہے۔ شیخ مرحوم کو بھی شوق پیدا ہوا۔ اور ان کے ساتھ جاکر شاگرد ہوگئے۔

سلسلہ اصلاح جاری تھا۔ مشاعروں میں غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ لوگوں کی واہ واہ طبیعتوں کو بلند پروازیوں کے پر لگاتی تھی۔ کہ رشک

73

جو تلا میذ الرحٰمن کے آئینوں کا جوہر ہے۔ استاد شاگردوں کو چمکانے لگا۔ بعض موقع پر ایسا ہوا۔ کہ شاہ صاحب نے زن کی غزل کو دیکھ کر بے اصلاح پھیر دیا اور کہا کہ طبیعت پر زور ڈالکر کہو۔ کبھی کہدیا۔ یہ کچھ نہیں۔ پھر سوچکر کہو۔ بعض غزلوں کو جو اصلاح دی۔ اس سے بے ادائی پائی گئی۔ ادھر انہیں کچھ تو یاروں نے چمکادیا۔ کچھ اپنی غریب حالت نے یہ آزردگی پیدا کی۔ کہ شاہ صاحب اصلاح میں بے توجہی یا پہلو تہی کرتے ہیں۔ چناچہ اس طرح کئی غزلیں پھیریں۔ بہت سے شعر کٹ گئے۔ زیادہ تر قباحت یہ ہوئی۔ کہ شاہ صاحب کے صاحبزادے شاہ وجیہ الدین منیر تھے۔ جو براقی طبع میں اپنے والد کے خلف الرشید تھے۔ ان کی غزلوں میں توارد سے۔ یا خدا جانے کس اتفاق سے وہی مضمون پائے گئے۔ اس لیے انہیں زیادہ رنج ہوا۔

اگرچہ ان کی طبیعت حاضر۔ فکر رسا۔ بندش چست۔ اس پر کلام میں زور۔ سب کچھ تھا۔ مگر چونکہ یہ ایک غریب سپاہی کے بیٹے تھے۔ نہ دنیا کے معاملات کا تجربہ تھا۔ نہ کوئی ان کا دوست ہمدرد تھا۔ اس لیے رنج اور دل شکستگی حد سے زیادہ ہوتی تھی۔ اسی قیل و قال میں ایک دن سودا کی غزل پر غزل کہی۔ "دوش نقش پا۔ آغوش نقش پا"۔ شاہ صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے خفا ہو کر غزل پھینک دی کہ استاد کی غزل پر غزل کہتا ہے! اب تو مرزا رفیع سے بھی اونچا اڑنے لگا۔ ان دنوں میں ایک جگہ مشاعرہ ہوتا تھا۔ اشتیاق نے بیقرار کرکے گھر سے

74

نکالا۔ مشاعرہ میں جاکر غزل پڑھی۔ وہاں بہت تعریف ہوئی۔ اس دن سے جرات زیادہ ہوئی اور بے اصلاح مشاعرہ میں غزل پڑھنے لگے۔ اب کلام کا چرچا زیادہ تر ہوا۔ طبیعت کی شوخی اور شعر کی گرمی سننے والوں کے دلوں میں اثر برقہ کی طرح دوڑنے لگی۔ اس زمانہ کے لوگ منصف ہوتے تھے۔ بزرگان پاک طینت جو اساتذہ سلف کے یاد گار باقی تھے۔ مشاعرہ میں دیکھتے۔ تو شفقت سے تعریفیں کرکے دل بڑھاتے۔ بلکہ غزل پڑھنے کے بعد آتے تو دوبارہ پڑھوا کر سنتے۔

اکبر شاہ بادشاہ تھے۔ انہیں تو شعر سے کچھ رغبت نہ تھی۔ مگر مرزا ابو ظفر ولیعہد کہ بادشاہ ہوکر بہادر شاہ ہوئے۔ شعر کے عاشق شیدا تھے اور ظفر تخلص سے ملک شہرت کو تسخیر کیا تھا۔ اس لیے دربار شاہی میں جو جو کہنہ مشق شاعر تھے۔ وہیں آکر جمع ہوتے تھے۔ اپنے اپنے کلام سناتے تھے۔ مطلع اور مصرع جلسہ میں ڈالتے تھے۔ ہر شخص مطلع پر مطلع کہتا تھا۔ مصرع پر مصرع لگا کر طبع آزمائی کرتا تھا۔ میر کاظم حسین بیقرار۔ کہ ولیعہد موصوف کے ملازم خاص تھے۔ اکثر ان صحبتوں میں شامل ہوتے تھے۔ شیخ مرحوم کو خیال ہوا کہ اس جلسہ میں طبع آزمائی ہوا کرے۔ تو قوت فکر کو خوب بلند پروازی ہو۔ لیکن عہد میں کسی امیر کی ضمانت کے بعد بادشاہی اجازت ہوا کرتی تھی۔ جب کوئی قلعہ میں جانے پاتا تھا۔ چناچہ میر کاظم حسین کی وساطت سے یہ قلعہ میں پہنچے اور اکثر دربار ولیعہدی میں جانے لگے۔

75

شاہ نصیر مرحوم۔ کہ ولیعہد کی غزل کو اصلاح دیا کرتے تھے۔ دکن چلے گئے۔ میر کاظم حسین ان کی غزل بنانے لگے۔ انہیں دنون میں جان انفسٹن صاحب شکار پور سندھ وغیرہ سے سرحدات لیکر کابل تک عہد نامے کرنے کو چلے۔ انہیں ایک میر منشی کی ضرورت ہوئی۔ کہ قابلیت و علمیت کے ساتھ امارت خاندانی کا جوہر بھی رکھتا ہو۔ میر کاظم حسین نے اس عہدہ پر سفارش کے لیے ولیعہد سے شقہ چاہا۔ مرزا مغل بیگ ان دنوں میں مختار کل تھے۔ اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ جس پر ولیعہد کی زیادہ عنایت ہو اس کو سامنے سے سرکاتے رہیں۔ اس قدرتی پیچ سے میر کاظم حسین کو شقہ سفارش آسان حاصل ہوگیا اور وہ چلے گئے۔

چند روز بعد ایک دن شیخ مرحوم جو ولیعہد کے ہاں گئے۔ تو دیکھا کہ تیر اندازی کی مشق کررہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی شکایت کرنے لگے۔ میاں ابراہیم۔ استاد تو دکن گئے۔ میر کاظم حسین ادھر چلے گئے۔ تم نے بھی ہمیں چھوڑ دیا۔ اس وقت ایک غزل جیب سے نکالکر دی کہ ذرا اسے تو بنادو۔ یہ وہیں بیٹھ گئے اور غزل بناکر سنائی۔ ولیعہد بہادر بہت خوش ہوئے۔ اور کہا کہ بھئی کبھی کبھی تم آکر ہماری غزل بنا جایا کرو۔ غرض چند روز اصلاح جاری ہی اور آخر کو سرکار ولیعہد سے چار روپیہ مہینہ بھی ہوگیا۔

چند سال بعد انہوں نے ایک قصیدہ کہکر اکبر بادشاہ کے دربار

76

میں سنایا۔ جس کے مختلف شعروں میں انواع و اقسام کے ضائع بدائع صرف کئے تھے۔ مطلع اس کا یہ ہے۔

جب کہ سرطان و اسد مہر کا ٹھہرا مسکن
آب و ایلولہ ہوئے نشو و نمائے گلشن

اس پر بادشاہ نے خاقانی ہند کا خطاب عطا کیا۔ اس وقت شیخ مرحوم کی عمر 19 برس تھی۔

اواخرکر ایام میں ایک بار بادشاہ (بہادر شاہ) بیمار ہوئے۔ جب شفا پائی اور انہوں نے ایک قصیدہ غرا کہہکر نذر گزرانا۔ تو خلعت کے علاوہ خطاب خان بہادر اور ایک ہاتھی مع حوضہ نقرئی انعام ہوا۔ پھر ایک بڑے زور شور کا قصیدہ کہکر گزرانا جس کا مطلع یہ ہے۔

شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت
نشہ علم میں سرمست غرور و نخوت

24 صفر 1271 ہجری جمعرات کا دن تھا۔ 17 دن بیمار رہکر وفات پائی۔

مرنے سے تین گھنٹے پہلے یہ شعر کہا تھا۔

کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔(محمد حسین آزاد)۔۔۔۔۔۔۔۔

77

مرزا اسد اللہ خان غالب

اسد اللہ خان نام۔ مرزا نوشہ عرف۔ چندے اسد پھر غالب تخلص کیا۔ سرکار شاہی سے نجم الدولہ دبیرالملک خطاب تھا۔ سرکار انگریزی سے پنشن پاتے تھے۔ اکبر آباد مولد و وہلی مسکن۔ 1869 عیسوی میں بعمر 73 سال راہی ملک بقا ہوئے۔ ان کا کلام زیادہ تر فارسی ہے۔ اردو میں ایک مختصر دیوان اور ایک مجموعہ رقعات ہے۔ اس زمانہ میں مقفی نویسی کی وبا عام ہورہی تھی۔ مرزا نے بھی اس کی رعایت کی۔ مگر محاورہ کو اندھا کانا نہیں بننے دیا۔ اس کے علاوہ لمبے چوڑے القاب و آداب اور تکلفات لایعنی سے انشا اردو کو پاک کیا۔ وہ اپنے رقعات کی نسبت خود فرماتے ہیں "میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنادیا ہے۔ ہزار کوس سے بزبان قلم باتیں کیا کرو۔ ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو"۔

خط 1

برخوردار! تمہارا خط پہنچا۔ لکھنو کا کیا کہنا ہے! ہندوستان کا بغداد تھا۔ اللہ اللہ! وہ سرکار امیر گر تھی۔ جو بے سرو پا وہاں پہنچا۔ امیر بن گیا۔ اس باغ کی یہ فصل خزاں ہے۔ میں بہت خوشی سے تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ اردو کا دیوان غاصب نا انصاف سے ہاتھ آگیا۔ اور میں نے نور چشم منشی شیو نراین کو بھیج دیا۔ یقین کلی ہے کہ چھاپنگے۔ جہاں تم ہوگے۔ ایک نسخہ تم کو پہنچ جائے گا۔ طریقہ سعادت مندی یہ ہے کہ ہم کو اپنی خیر و عافیت کا طالب جانکر جہاں جاؤ۔ وہاں سے خط لکھتے رہو اور اپنے مسکن کا پتا ظاہر کرتے رہو۔ ہم تم سے راضی ہیں اور چونکہ تمہاری خدمت اچھی طرح نہیں کی۔ شرمندہ

78

بھی ہیں۔

راقم اسد اللہ خان
مرقومہ شنبہ روز عید مطابق 30 جون 1860 ء

خط 2

اجی مرزا تفتہ! تم نے روپیہ بھی کھویا اور اپنی فکر کو میری اصلاح کو بھی ڈبویا۔ ہائے! کیا بری کاپی ہے! اپنے اشعار کی اور اس کاپی کی مثال جب تم پر کھلتی کہ تم یہاں ہوتے اور بیگمات قلعہ کو پھرتے چلتے دیکھتے۔ صورت ماہ دوہفتہ کی سی اور کپڑے میلے۔ پائچے لیرلیر۔ جوتی ٹوٹی۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ بے تکلف سنبلستان ایک معشوق خوبرو ہ ہے۔ بد لباس ہے۔ بہرحال دونوں لڑکوں کو دونوں جلدیں دیدیں۔ اور معلم کو حکم دیا۔ کہ اسی کا سبق دے۔ چناچہ آج سے شروع ہوگیا۔

مرقومہ صبح سہ شنبہ 9 ماہ اپریل 1861 (غالب)

خط 3

او میاں سید زادہ آزاد! دلی کے عاشق دلدادہ!

اردو بازار کے رہنے والے! حسد سے لکھنو کو برا کہنے والے! نہ دل میں مہر و آرزم۔ نہ آنکھ میں حیا و شرم۔ نظام الدین ممنون کہاں؟ ذوق کہاں؟ مومن خان کہاں؟ ایک آزردہ سو خاموش۔ دوسرا غالب۔ وہ بیخود و مدہوش۔ نہ سخنوری رہی۔ نہ سخندانی۔ کس برتے پر تتا پانی۔

79

ہائے دلی! وائے دلی! بھاڑ میں جائے دلی! سُنو صاحب! پانی پت کے رئیسوں میں ایک شخص ہیں احمد حسین خان ولد سردار خان ولد دلاور خان اور نانا اس احمد حسین خان کے غلام حسین خان ولد مصاحب خان۔ اس شخص کا حال از روے تحقیق مشرح اور مفصل لکھو۔ قوم کیا ہے؟ معاش کیا ہے؟ طریق کیا ہے؟ عمر کیا ہے؟ لیاقت ذاتی کا کیا رنگ؟ طبیعت کا کیا ڈھنگ ہے؟ بھائی لکھ اور جلدی لکھ۔ (غالب)

خط 4

بھائی! تم کیا فرماتے ہو؟ جان بوجھ کر انجان بنے جاتے ہو۔ واقعی غدر میں میرا گھر نہیں لٹا۔ مگر میرا کلام میرے پاس کب تھا۔ کہ نہ لٹتا؟ ہاں بھائی ضیاءالدین خان صاحب اور ناظر حسین مرزا صاحب ہندی اور فارسی نظم و نثر کے مسودات مجھ سے لیکر اپنے پاس جمع کرلیا کرتے تھے۔ سو ان دونوں گھروں پر جھاڑو پھر گئی۔ نہ کتاب رہی۔ نہ اسباب رہا۔ پھر اب میں اپنا کلام کہاں سے لاؤں؟ ہاں تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ مئی کی گیارہویں 1857 سے جولائی کی اکتیسویں 1858 تک پندرہ مہینے کا اپنا حال میں نے نثر میں لکھا ہے۔ اور وہ نثر فارسی زبان قدیم میں ہے۔ کہ جس میں کوئی لفظ عربی نہ آئے۔ اور ایک قصیدہ فارسی متعارف عربی و فارسی ملی ہوئی زبان میں حضرت فلک رفعت جناب ملکہ معظمہ انگلستان کی ستائش میں

80

اس نثر کے ساتھ شامل ہے۔ یہ کتاب مطیع مفید خلائق آگرہ میں منشی نبی بخش صاحب حقیر اور مرزا حاتم علی بیگ مہر اور منشی ہر گوپال تفتہ کے اہتمام میں چھاپی گئی ہے۔ فی الحال مجموعہ میری نظم و نثر کا اس کے سوا اور کہیں نہیں۔ اگر جناب منشی امیر علی خان صاحب میرے کلام کے مشتاق ہیں۔ تو نسخہ موسوم بہ دستنبو مطبع مفید خلائق آگرہ سے منگالیں۔ (غالب)

خط 5

خان صاحب عالی شان مردان علی خان صاحب کو فقیر غالب کا سلام۔ نظم و نثر دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ آج اس فن میں تم یکتا ہو۔ خدا تم کو سلامت رکھے۔ بھائی جفا مونث ہونے میں اہل دہلی و لکھنو کو باہم اتفاق ہے۔ کبھی کوئی نہ کہیگا کہ جفا کیا ہے۔ ہاں بنگالہ میں جہاں بولتے ہیں کہ ہتھنی آیا۔ اگر جفا کو مذکر کہیں تو کہیں۔ ورنہ ستم و ظلم و بیداد مذکر اور جفا مونث ہے بے شبہ و شک۔
والسلام۔ (غالب)

خط 6

بندہ نواز! زبان فارسی میں خطوط کا لکھنا پہلے سے متروک ہے۔ پیرانہ سری و ضعف کے صدموں سے محنت پژوہی وہ جگر کاوی کی قوت مجھ میں نہیں رہی۔ حرارت غریزی کو زوال ہے اور یہ حال ہے۔

81

مضمحل ہوگئے قوےٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں

کچھ آپ ہی تخصیص نہیں۔ سب دوستوں کو جن سے خط کتابت رہتی ہے۔ اردو ہی میں نیاز نامے لکھا کرتا ہوں۔ جن جن صاحبوں کی خدمت میں آگے میں نے فارسی زبان میں خظوط و مکاتیب لکھے اور بھیجے تھے۔ ان میں سے جو صاحب الے الآن ذی حیات و موجود ہیں۔ اس سے بھی عندالضرورت اسی زبان میں مکاتبت و مراسلت کا اتفاق ہوتا ہے۔ پارسی مکتوبوں۔ رسالوں۔ نسخوں اور کتابوں کے مجموعے شیرازہ بستہ ہوکر اطراف و اقصائے عجم میں پھیل گئے۔ حال کی نثروں کو کون فراہم کرنے جائے۔ جاں کنی کے خیالات نے مجھکو ان کی تحریر سے دست بردار و آزاد سبک دوش کردیا۔ جو نثریں کہ مجموع ویک جا ہوکر جہاں جہاں منتشر ہوگئی ہیں۔ اور آئندہ ہوں۔ انہیں جناب احدیت جلست عظمتہ مقبول قلوب اہل سخن و مطوع طبائع ارباب فن فرمائے۔ میں اب انتہائے عمر ناپائدار کو پہنچکر آفتاب لب بام اور ہجوم امراض جسمانی و آلام روحانی سے زندہ درگور ہوں۔ کچھ یاد خدا بھی چاہیے۔ نظم و نثر کی قلمرو کا انتظام ایزد دانا و توانا کی عنایت و اعانت سے خوب ہوچکا۔ اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی و قائم رہیگا۔ پس امید وار ہوں۔ کہ آپ انہیں نذور محقرہ یعنی تحریرات روز مرہ اردوے سادہ و سرسری کوتا امکان غنیمت جان کر قبول فرماتے رہیں۔ اور درویش دلریش و فرو ماندہ کشاکش

82

معاصی کے خاتمہ بخیر ہونے کی دعا مانگیں۔ اللہ بس ماسوےٰ ہوس۔ تعقید معنوی کو حضور خود جانتے ہونگے۔ اس کی توضیح و تفصیل میں تحصیل حاصل و تطویل لا طائل کی صورت نظر آتی ہے۔ لہذ خامہ فرسائی بروئے کار نہیں آتی۔ (غالب)

خط 7

سبحان اللہ! سر آغاز فصل میں ایسے ثمر ہائے پیش رس کا پہنچنا نوید ہزار گونہ میمنت و شادمانی ہے۔ یہ ثمر رب النوع اشمار ہے۔ اس کی تعریف کیا کروں۔ کلام اس باب میں کیا چاہتا ہوں کہ میں یاد رہا اور اہدا کا آپ کو خیال آیا۔ پروردگار آپ کو با ایں ہمہ رواں پروری و کرم گستری وی یاد آوری سلامت رکھے۔ جمعہ کے دن دوپہر کے وقت کہار پہنچا اور اسی وقت جواب لیکر اور آم کے دو ٹوکرے دیکر روانہ ہوگیا۔ یہاں اسے اس کو حسب الحکم کچھ نہیں دیا گیا۔ (غالب)

خط 8

جناب قاضی صاحب کو میری بندگی پہنچے۔ مکرمی مولوی غلام غوث خان صاحب بہادر میر منشی کا قول سچ ہے۔ اب تندرست ہوں۔ پھوڑا پھنسی کہیں نہیں۔ مگر ضعف کی وہ شدت ہے کہ خدا کی پناہ! ضعف کیونکر نہ ہو؟ برس دن صاحب فراش رہا ہوں۔ ستر برس کی

83

عمر۔ جتنا خون بدن میں تھا۔ بے مبالغہ آدھا اس میں سے پیپ ہوکر نکل گیا۔ سن کہاں؟ جو اب پھر تولید دم صالح ہو۔ بہر حال زندہ اور ناتوں آپ کی پرسشہاے دوستانہ ممنون احسان۔
والسلام مع الاکرام۔ (غالب)

خط 9

پیر و مرشد! نواب صاحب کا وظیفہ خوار۔ گویا اس در کا فقیر تکیہ دار ہوں۔ مسند نشینی کی تہنیت کے واسطے رام پور آیا۔ میں کہاں اور بریلی کہاں! 13 اکتوبر کو یہاں پہنچا۔ بشر حیات آخر دسمبر تک دہلی جاؤنگا۔ نمائش گاہ بریلی کی سیر کہاں اور میں کہاں! خود اس نمائش گاہ کی سیر میں۔ جس کو دنیا کہتے ہیں دل بھرگیا۔ اب عالم بیرنگی کا مشتاق ہوںِ۔ (غالب)

خط 10

قبلہ! آپ بے شک ولی صاحب کرامت ہیں۔ کم و بیش ایک ہفتہ گزرا ہوگا۔ کہ ایک امر جدید مقتفی اس کا ہوا۔ آپ کو اس کی اطلاع دوں۔ خانہ کاہلی خراب! آج لکھوں۔ کل لکھوں۔ اب کون لکھے؟ کل صبح لکھوں گا۔ صبح ہوئی۔ غالب! اس وقت نہ لکھ۔ سہ پہر کو لکھیو۔ آج دوشنبہ 23 جولائی کی بارہ پر دو بجے ہرکارہ نے

84

آپ کا خط دیا۔ پلنگ پر پڑے پڑے خط پڑھا اور اسی طرح جواب لکھا۔ اگرچہ ڈاک کا وقت نہ رہا تھا۔ مگر بجھوادیا۔ کل روانہ ہو رہیگا۔ آپ کو معلوم رہے۔ کہ منشی حبیب اللہ ذکا اور نواب مصطفےٰ خان حسرتی کو کبھی اردو خط نہیں لکھا۔ ہاں ذکا کو غزل اصلاحی کے ہر شعر کے تحت میں منشا سے اصلاح سے آگہی دی جاتی ہے۔ نواب صاحب کو یوں لکھا جاتا ہے۔ "کہار آیا۔ خط لایا۔ آم پہنچے۔ کچھ بانٹے۔ کچھ کھائے۔ بچوں کو دعا۔ بچوں کی بندگی۔ مولوی الطاف حسین صاحب کو سلام۔ یہ تحریر اس ہفتہ میں گئی ہے۔ غرض کہ عامیانہ لکھنا اختیار کیا ہے۔ اب یہ عبارت جو تم کو لکھ رہا ہوں۔ یہ لائق شمول مجموعہ نثر اردو کہاں ہے؟ یقین جانتا ہوں۔ کہ ایسی نثروں کو آپ خود نہ درج کرینگے۔ کتاب کے باب میں سرمد کی رباعی کا شعر اخیر لکھدینا کافی ہے۔

عالم ہمہ مرآت جمال ازلی است
مے بائد دید و دم نمی باید زد

بوستان خیال کا ترجمہ موسوم بہ حدائق الانظار مغرض طبع میں ہے۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی دوست خریدار ہو۔ تو جتنے مجلد فرمائیے۔ اس قدر بجھوادوں۔ چھ روپیہ مع محصول ڈاک قیمت ہے۔ اسی مطبع میں جس حدائق لانظار کا انطباع ہوا ہے۔ اخبار بھی چھاپا جاتا ہے۔ اب ہفتہ کا دو ورقہ بھیجدونگا۔ بشرط پسند آپ توقیع خریداری لکھ بھیجئے۔ خط مجھ کو آیا۔ کچھ اردو زبان کے ظہور کا حال پوچھا تھا۔ اس کا

85

جواب لکھ بھیجا۔ نظم و نثر اردو طلب کی تھی۔ مجموعہ نظم بھیجدیا۔ نثر کے باب میں تمہارا نام نہیں لکھا۔ مگر یہ لکھا۔ کہ مطبع الہ آباد میں وہ مجموعہ چھاپا جاتا ہے۔ بعد انطباع و حصول اطلاع وہاں سے منگا کر بھیجدونگا۔ زیادہ حد ادب۔ نامہ جواب طلب۔ (غالب)

خط 11

قبلہ! پیری و صد عیب۔ ساتویں دہائی کے مہینے گن رہا ہوں۔ قولنج آگے دوری تھا۔ اب دائمی ہوگیا ہے۔ مہینہ بھر میں پانچ ساتھ بار فضول مجتعہ دفع ہوجاتے ہیں۔ اور یہی منشاء حیات ہے۔ غذا کم ہوتے ہوتے۔ اگر مفقود نہ کہو۔ تو بمنزلہ مفقود کہو۔ پھر گرمی نے مار ڈالا۔ ایک حرارت غریبہ جگر میں پاتا ہوں۔ جس کی شدت سے بھنا جاتا ہوں۔ اگر جرعہ جرعہ پیتا ہوں۔ مگر صبح سے سوتے وقت تک نہیں جاتا کہ کتنا پانی پی جاتا ہوں۔ میرے ایک رشتہ دار کے بھتیجے نے بوستان خیال کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ میں نے اس کا دیباچہ لکھا ہے۔ ایک دو ورقہ اس کا نہ بصورت پارسل بلکل بلف خط ہذا بھیجتا ہوں۔ آپکا مقصود دیباچہ ہے۔ سو نقل کرلیجئے۔ میرا مدعا اس دو ورقہ کے ارسال سے یہ ہے۔ اگر آپ کی پسند آئے اور اشخاص خریدنا چاہیں۔ تو چھ روپیہ قیمت اور محصول ذمہ خریدار ہے۔ (غالب)
۔۔۔۔۔۔۔۔(غالب)۔۔۔۔۔۔۔۔

86

از مؤلف

جنگ مرہٹہ و درانی

احمد شاہ والی کابل ہندوستان پر تین حملے کرچکا تھا اور صوبہ پنجاب کو ممالک محروسہ میں شامل کرکے نجیب الدولہ رہیلہ کو شاہ دہلی کی امداد کے لیے چھوڑ گیا تھا۔ مگر مغلیہ امرا کو خود غرضی اور نا اتفاقی کے مرض نے ایسا چرلیا تھا کہ ایک ایک کو کھائے جاتا تھا۔ ادھر عماد الملک وزیر دہلی مرہٹوں اور جاٹؤں کو نجیب الدولہ پر چڑھا لایا ادھر آدینہ بیگ خان سابق صوبہ دار پنجاب نے مرہٹوں اور سکھوں کی کمک لیکر درانیوں کو اٹک پار بھگا دیا۔ اب سواحل دکن سے وادی اٹک تک مرہٹوں کا پھریرا لہرا رہا تھا۔ اور ہندوستان کی کھونٹ کھونٹ میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ناچار نجیب الدولہ نے احمد شاہ کو عرضی لکھی۔ کہ حضور والا جلد تشریف لائیں اور ہماری ننگ و ناموس کو مرہٹوں کے دست تعدی سے بچائیں۔ ورنہ یہ قوم تخت مغلیہ کو الٹ دیگی اور ہمارا نام و نشان ہندوستان سے مٹا دیگی۔

اس عرضداشت کو پڑھ کر احمد شاہ پھر عازم ہند ہوا اور زیر دامن کوہ ہمالہ کوچ کرتا ہو۔ بلا تعرض سہارنپور تک آپہنچا۔ یہاں نجیب الدولہ اور حافظ رحمت خان وغیرہ سرداران رہیلہ باریاب ملازمت ہوئے اور درانی فوج کی کمک لے کر مرہٹوں کو نواح دہلی سے مار پیٹ کر نکال دیا

87

اور جب تک چنبل پار نہ ہوگئے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔

مرہٹوں کا سردار راگھو باجی ہندوستان سے جب اس ناکامی کے ساتھ واپس گیا۔ تو بھاؤ جو مرہٹوں کا وزیر اعظم سپہ سالار تھا اس کے دل میں غیظ و غضب کی آگ بھڑکی۔ اس وقت مرہٹوں کا اقتدار منتہائے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ آراستہ رسالے۔ باقاعدہ پلٹینیں اور عمدہ توپخانے ان کے پاس موجود تھے۔ ان کے دربار کی شان و شکوہ بھی مغلیہ دربار سے ہمسری کا دم بھرتی تھی۔ لہذا بھاؤ ایک لشکر عظیم فراہم کرکے بڑے کروفر کے ساتھ دلی کی طرف روانہ ہوا۔ تاکہ مغلیہ سلطنت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینک دے اور اس کاخ کہن کی اینٹ سے اینٹ بجادے۔ جب وہ دلی کے زیر فصیل آپہنچا۔ تو درانیوں کی قلیل جماعت ایک خفیف مقابلہ کے بعد پس پا ہوگئی۔ بھاؤ نے دلی پر قابض ہوکر مساجد و مقابر اور محلات شاہی کو خوب تاراج کیا۔ دربار عام کا نقرئی کٹہرا اکھڑوا کر بیگمات کا زیور تک اتروا کر گلا ڈالا۔ اگر سردار مانع و مزاحم نہ ہوتے تو بھاؤ آمادہ تھا کہ بسواس راؤ کو تخت دہلی پر بٹھائے اور چار دانگ ہند میں مرہٹوں کا سکہ چلائے۔ مگر یہ کام اس تک ملتوی کیا گیا۔ کہ درانیوں کو ہزیمت دیکر اٹک پار بھگا دیں اس لیے مرہٹوں کا لشکر آگے بڑھا اور کنج پورہ کے قلعہ کو جہاں معدودے چند درانی قابض و متصرف تھے محصور کرلیا۔

88

اس وقت احمد شاہ درانی گنگا کنارے انوپ شہر کے مقام پر چھاؤنی ڈالے پڑا تھا۔ اور شجاع الدولہ کو اپنی رفاقت پر مائل کررہا تھا۔ مرہٹوں کی یورش کے اخبار وحشت آثار سنکر اس نے چھاؤنی توڑی اور محصورین کنج پورہ کی اعانت کے لیے برسبیل استعجال روانہ ہوا۔ باغپت کے گھاٹ اس نے دریائے جمن کو عبور کرنا چاہا۔ مگر دریا تھا طغیانی پر اور اسباب گزارہ مفقود۔ ناچار اور آگے بڑھا اور کنج پورہ کے محاذات میں پہنچ کر اس نے ایک تیر ترکش سے نکالا۔ اس پر کچھ دم کرکے دریا میں پھینکا اور لشکر کو حکم دیا کہ فوراً گھوڑے دریا میں ڈالدو۔ وہ خدا کے حکم سے تم کو رستہ دیگا۔ اس تدبیر سے اس کا سارا لشکر پار اتر گیا۔ یہاں خبر لگی۔ ایک دستہ فوج مرہٹہ کا سنبھالکہ کے سرائے پر قابض ہے۔ لہذا قشون درانی کا ہراول ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا گیا۔ اور کامیاب ہوا۔ اگرچہ یہ چھوٹی سی فتح تھی۔ مگر درانی لشکر اس کو فال فیروزی سمجھ کر بہت خوش ہوا۔

اب درانیوں کی آمد سن کر مرہٹوں نے بھی کنج پورہ سے کوس مراجعت بجایا اور دونوں لشکر نواحی پانی پت میں خیمہ زن ہوئے۔ مرہٹؤں کے لاؤ لشکر کی بھیڑ بھاڑ اس قدر تھی کہ آج تک نو لکھ نیزہ زباں زد عوام ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنگ مہا بھارت کے بعد سر زمین ہند میں ایسا جمگھٹ فوجوں کا کبھی نہیں ہوا۔ خیر یہ سب مبالغہ سہی۔ مگر اس میں شک نہیں کہ مرہٹوں کی جمعیت مع بہیر و بنگاہ بقول

89

بعض تین لاکھ اور بقول بعض پانچ لاکھ کے قریب تھی۔ خاص قشون درانی چالیس ہزار اور ہندوستانی سرداروں کی ماتحت فوجیں پچاس ہزار تھیں۔ مرہٹوں کا توپخانہ دو سو توپوں سے زیادہ۔ مگر درانیوں کی طرف صرف تیس توپیں تھیں۔

کچھ عرصہ تک دونوں لشکر مقابل ہمدگر پڑے رہے اور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہیں۔ چناچہ ایک بار بھاؤ کے حکم سے گوبند رائے بندیلہ ایک دستہ فوج کا لیکر رہیلکھنڈو اودھ پر تاخت کرنے کے لیے نکلا۔ ہندوستانی سرداروں نے یہ خبر شاہ درانی کو پہنچائی۔ شاہ نے سردار عطائی خان کو جو قندھار سے تازہ وارد ہوا تھا۔ اس کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ سردار مذکور اپنے ماتحت سواروں اور کچھ رہیلوں کو ساتھ لے راتوں رات یلغار کرکے صبحدم گوبند رائے کی فوج پر ٹوٹ پڑا اور اس کو تہس نہس کرکے گوبند رائے کو سر شام تک بادشاہ کے سامنے لا رکھا۔ گاہ بیگاہ رسد لانے والے گروہوں میں بھی جھڑپ ہوجاتی تھی۔

غرض کئی مہینے تک پڑے پڑے طرفین کے سپاہی اور سردار تنگ آئے ادھر ہندوستانی سردار احمد شاہ سےملتجی ہوئے کہ ایک فیصلہ کی جنگ کیجئے۔ جو ہونا ہو سو ہو جائے۔ ادھر مرہٹے سردار بھاؤ سے متفاضی تھے کہ لشکر میں غلہ اور سامان کا قحط ہے۔ یوں فاقوں مرنے سے تو بہتر ہے کہ بر سر میدان لڑ کر مریں۔

آکر کار شجاع الدولہ کی وساطت سے مرہٹوں نے صلح کا پیغام بھیجا۔

90

احمد شاہ نے جواب دیا کہ جنگ و پیکار کا معاملہ میری رائے پر رکھو اور صلح کرنی ہو تو تم لوگ خود مختار ہو۔ جو اپنے حق میں مصلحت سمجھو کرو۔ شجاع الدولہ تو صلح و آشتی پر مائل تھا۔ الا نجیب الدولہ اڑ بیٹھا اور سب ہندوستانی سراداروں کو سمجھایا کہ اس وقت مرہٹے کورے نکل گئے تو یاد رکھنا۔ آئندہ تمہاری خیر نہیں۔ غرض صلح کا معاملہ جھمیلے میں پڑگیا۔ دو ٹوک فیصلہ قرار نہ پایا۔

ابھی پیک و پیام آجا رہے تھے کہ آخر شب کو جاسوسوں نے خبر دی کہ مرہٹوں کا لشکر زبردست حملہ کی تیاری میں مصروف ہے۔ یہ خبر شجاع الدولہ نے احمد شاہ درانی کو پہنچائی۔ وہ اپنے خیمہ سے ہتھیار لگائے باہر آیا اور فوج کو آگے بڑھنے کا حکم سنایا۔ مگر شاہ کو اس خبر کی صحت میں ہنوز تردد تھا کہ یکایک مرہٹوں کے توپخانے کی زبردست فیرنے اس کی تصدیق کردی۔

جب مرہٹوں کا توپخانہ بآہستگی آگے بڑھتا چلا آیا۔ یہاں تک کہ اس کے گولے درانی لشکر کے سر پر سے گزرنے لگے۔ تو مرہٹوں کے جنرل ابراہیم کردی نے فیر بند کرادی اور اپنی پلٹنوں آگے بڑھا کر سنگینوں سے حملہ کیا۔

اس حملہ نے روہیلوں کی صف کو جو درانیوں کے بازوے راست کی محافظ تھی بالکل زیر و زبر کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک تازہ دم فوج سے بسوال راؤ نے درانیوں کے قلب لشکر پر جہاں احمد شاہ
 

شمشاد

لائبریرین
181

اس لیے دھوکہ بازی اور شبہ کاری کو حکم دیا کہ ہمارے چلنے پھرنے کے لیے ایک سڑک تیار کرو،اس طرح کے ایچ پیچ اور ہیر پھیر دے کر بناو کہ شاہراہ صداقت جو خط مستقیم میں ہے اس سے کہیں نہ ٹکرائے چنانچہ جب اس نابکار پر کوئی حملہ کرتا تھا تو اسی کے رستے سے جدھر چاہتا تھا نکل جاتا تھا اور جدھر سے چاہتا تھا پھر آن موجود ہوتا تھا۔

ان رستوں سے اس نے ساری دنیا پر حملے شروع کردیے اور بادشاہت اپنی تمام عالم میں پھیلا کر دروغ شاه دیو زاد کا لقب اختیار کیا۔ جہاں جہاں فتح پاتا تھا ہوا و ہوس کو اپنا نائب چھوڑتا اور آپ فورا کھسک جاتا وہ اس فرمان روائی سے بہت خوش ہوتے تھے اور جب ملکہ کا لشکر آتا تھا تو بڑے گھاتوں سے مقابلے کرتے تھے جھوٹی قسموں کی ایک لمبی زنجیر بنائی تھی سب اپنی کمریں اس میں جکڑ لیتے تھے کہ ہر گز ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑیں گے مگر سچ کے سامنے جھوٹ کے پاؤں کہاں؟ لڑتے تھے اور متابعت کرکے ہٹتے تھے۔ پھر ادھر ملکہ نے منہ پھیرا ادهر باغی ہو گئے۔ ملکہ جب آسمان سے نازل ہوئی تھی تو سجھتی تھی کہ بنی آدم میرے آنے سے خوش ہوں گے۔ جو بات سنیں گے اسے مانیں گے اور حکومت میری تمام عالم میں پھیل کر مستقل ہوجائے گی۔ مگر یہاں دیکھا کہ گزارہ بھی مشکل ہے۔ لوگ ہٹ دھرمی کے بندے ہیں

182

اور ہوا و ہوس کے غلام ہیں، اور اس میں شک بھی نہیں کہ ملکہ کی خدمت آگے بڑھتی تھی، مگر بہت تھوڑی۔ اس پر بھی یہ دشوادی تھی کہ ذرا اس طرف سے ہٹی اور پھر بدعملی ہو گئی۔ کیونکہ ہوا و ہوس جھٹ بغاوت کا نقارہ بجا دشمن کے زیر علم جا موجود ہوتی تھی ہر چند ملکہ صداقت زمانی ان باتوں سے کچھ دبتی نہ تھی کیوں کہ اس کا زور کسی کے بس کا نہ تھا۔ مگر جب بار بار ایسے پاجی کمینے کو اپنے مقابلے پر دیکھتی تھی اور اس میں سوا مکر و فریب اور کمزوری و بےہمتی کے اصالت اور شجاعت کا نام نہ پاتی تھی تو گھٹتی تھی۔ اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتی تھی، جب سب طرح نا امید ہوئی تو غصہ ہو کر اپنے سلطان آسمانی کو لکھا کہ مجھے آپ اپنے پاس بلا لیجیے دنیا کے لوگ اس شیطان کے تابع ہو کر جن بلاؤں میں خوش ہیں ان ہی میں رہا کریں اپنے کیے کی سزا پا لیں گے۔ سلطان آسمانی اگرچہ اس عرضی کو پڑھکر بہت خفا ہوا ، مگر پھر بھی کوتاہ اندیشوں کے حال پر ترس کھایا اور سمجھا کہ اگر سچ کا قدم دنیا سے اٹھا تو جہان اندھیر اور تمام عالم تہ و بالا ہو جائے گا۔ چنانچہ اس خیال سے اس کی عرض نامنظور کی، ساتھ اسکے یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ میرے جگر کا ٹکڑا جھوٹے بداصلوں کے ہاتھوں یوں مصیبت میں گرفتار رہے اسی وقت عالم بالا کے پاک نہادوں کو جمع کر کے ایک انجمن منعقد کی۔ اس میں دو امر تنقیح طلب قرار پائے۔

(1)کیا سبب ہے کہ ملکہ کی کارروائی اور فرمانروائی دنیا میں

183

ہر دل عزیز نہیں۔

(2) کیا تدبیر ہے، جس سے اس کے آئین حکومت کو جلد اہل عالم میں رسائی ہو۔ اور اسے بھی ان تکلیفوں سے رہائی ہو۔

کمیٹی میں یہ بات کھلی کہ درحقیقت ملکہ کی طبعیت میں ذرا سختی ہے اور کارروائی میں تلخی ہے۔ صدر انجمن نے اتفاق رائے کر کے اسقدر زیادہ کہا کہ ملکہ کے دماغ میں اپنی حقیقت کے دعووں کا دھواں اسقدر بھرا ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ ریل گاڑی کی طرح سیدھے خط میں میں چل کر کامیابی چاہتی ہے جس کا زور طبیتوں کو سخت اور دھواں آنکھوں کو کڑوا معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو اس کی راستی سے نقصان اٹھانے پڑے ہیں۔ کبھی ایسے فساد اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جن کا سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ دور اندیشی اور اصلاح وقت کے بغیر کام نہیں چلتا۔ پس اسے چاہیے کہ جس طرح ہو سکے اپنی سختی اور تلخی کی اصلاح کرے، جب تک یہ نہ ہوگا، لوگ اس کی حکومت کو رغبت سے قبول نہ کریں گے کیونکہ دیو دروغ کی حکوت کا ڈھنگ بالکل اس کے بر خلاف ہے، اول تو اس میں فارغ البالی بہت ہے اور جو لوگ اس کی رعایا میں داخل ہو جاتے ہیں انہیں سوا عیش و آرام کے دنیا کی کسی بات سے خبر نہیں ہوتی دوسرے وہ خود بہروپیا، جو صورت سب کو بھائے، وہی بہروپ بھر لیتا ہے اور اوروں کی مرضی کا جامہ پہنے رہتا ہے، غرض

184

اہل انجن نے صلاح کر کے ملکہ کے طرز لباس بدلنے کی تجویز کی، چنانچہ ایک ویسا ہی ڈھیلا ڈھالا جامہ تیار کیا جیسا کہ جھوٹ پہنا کرتا تھا، اور وہ پہن کر لوگوں کوجل دیا کرتا تھا۔ اس جامہ کا مصلحت زمانہ نام ہوا، چنانچہ اس خلعت کو زیب بدن کر کے ملکہ پھر ملک گھیری کو اٹھی، جس ملک میں پہنچتی، اور آگے کو رستہ مانگتی ہوا و ہوس حاکم وہاں کے اسے دروغ شاه دیو زاد سمجھ کر آتے اور شہر کی کنجیاں نذر گزارتے، ادھر اس کا دخل ہوا ادھر ادراک آیا اور جھٹ وہ جامہ اتار لیا، جامے کے اترتے ہی اس کی اصلی روشنی اور ذاتی حسن و جمال پھر چمک کر نکل آیا۔

چنانچہ اب یہی وقت آگیا ہے یعنے جھوٹ اپنی سیاہی کو ایسا رنگ آمیزی کر کے پھیلاتا ہے کہ سچ کی روشنی کو لوگ اپنی آنکھوں کے لیے مضر سمجھنے لگے ہیں۔ اگر سچ کہیں پہنچ کر اپنا نور پھیلانا چاہتا ہے تو پہلے جھوٹ سے کچھ زرق برق کے کپڑے مانگ تانگ کر لاتا ہے، جب تبدیل لباس کر کے وہاں جا پہنچتا ہے تو وہ لفافہ اتار کر پھینک دیتا ہے پھر اپنا اصلی نور پھیلاتا ہے کہ جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے۔

185

شمس العلما مولوی نذیراحمد ایل۔ ایل۔ ڈی (ایڈنبرا)

شہنشاہی دربار تاج پوشی میں حضور و ایسرائے کی تقریر دلپذیر

ہز اکسلنسی وایسرائے کرسی سے اٹھ کر اہل دربار کی طرف متوجہ ہوئے اور تمام مجلس پر ایک خاموشی کا عالم طاری ہو گیا پھر آہستہ آہستہ اور نہایت اطمینان کے لہجے میں جناب ممدوح نے یہ سپیچ فرمائی جس کو دور سے دور کے تماشائی بھی جو امید تھیٹر کے کنارے پر جمے ہوئے تھے بخوبی سن سکے اگرچہ ان کا فاصلہ 130 گز کا تھا۔

"اے شہزادگان والا تبارورؤ ساء عالی وقار و متوطنان مملکت ہند! پانچ ماہ کا عرصہ ہوا کہ بادشاه انگلستان و شہنشاہ ہند ایڈورڈ ہفتم نے لندن میں انگلستان کا تاج شاہانہ سر پر رکھا اور عصائے حکومت کو دست مبارک میں لیا۔ اس وقت مملکت ہند کے صرف چند ہی وکیل اپنی خوش قسمتی سے حاضر تھے۔ لیکن آج شہنشاہ معظم نے اپنے الطاف خسروانہ سے تمام اہل ہند کو یہ موقع دیا ہے کہ ایسی خوشی میں شریک ہوں اور آج یہاں ہند کے دیگر حصص میں اس عالی شان تقریب کی خوشی میں کل روسا و امرا و سردار جو عمائد سلطنت ہیں اور تمام دیسی و یورپین حکام جن کے ہاتھ میں زمام حکومت ہے اور جو ایسی دانائی اور جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔ جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور کل انگریزی اور دیسی فوج جو ایسی نہایت اعلی درجہ

186

کی بہادری سے سرحد کی حفاظت کرتی ہے اور لڑائیوں میں اپناخون بہاتی ہے اور تمام باشندگان ہند بلا امتیاز ملت اور اپنے رسوم و رواج کے جو باوجود لاکھوں طرح کے جھگڑوں کے سلطنت برطانیہ کی اطاعت کے اظہار میں یک زبان میں ہیں، جمع ہیں صرف اس غرض سے کہ میں اعلی حضرت کی رسومات تاجپوشی کو ہندوستان میں ادا کروں۔ حضور ملک معظم نے مجھ کو بحثیت وایسرائے کے اس دربار کے منعقد کرنے کا حکم دیا ہے اور صرف اس امر کے اظہار کے لیے کہ اعلی حضرت کی نظروں میں اس دربار کی بڑی وقعت ہے۔ انہوں نے اپنے برادر حقیقی ہزرائل ہائنس ڈیسک آف کاناٹ کو اس جلسے میں شریک ہونے کی غرض سے روانہ فرما کر ہم کی عزت بخشی۔"

"چھبیس سال ہوئے کہ آج ہی کے دن اور اسی شہر میں جو ہمیشہ سے شاہانہ جلسوں اور دیگر رسوم کا مرکز رہا ہے، اور اسی مقام پر ملکہ وکٹوریہ مرحومہ کے خطاب قیصر ہند اختیار فرمانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دربار سے ملکہ آنجہانی کو ہندوستان کی رعایا کے ساتھ اپنی گہری محبت کا اظہار مقصود تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتلانا تھا کہ اب سلطنت انگریزی کے سایہ میں ان کے باہمی نفاق فرو ہو گئے اور وہ سب یک جہت ہیں ہم آج خدا کے فضل سے ایک چوتھائی صدی کے بعد بھی پہلے سے کہیں زیادہ متفق ہیں۔ یہ شہنشاه

187

جس کے اظہار اطاعت کے لیے آج ہم سب جمع ہوئے ہیں۔ اہل ہند کی نظروں میں کچھ کم عزیز نہیں ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے ان کی آواز سنی ہے وہ اب اس تخت پر جلوہ افروز ہوئے ہیں۔ جو صرف شان دار ہی نہیں بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ دیر پا ہے اور وہ حقیقت میں انگریزی سلطنت ہے جس کی بڑی قوت ہندوستان کی مقبوضات رعایا کی جاں نثاری حضور ملک معظم کی اطاعت پر مبنی ہے اور معترض اس سے منکر ہے وہ بالکل نادان ہے جیسا کہ ہندوستان اپنے قدیم افسانوں سے مالا مال ہے۔ ویسا ہی وہ اپنی خصلت وفاداری پر نازاں ہے جس کو مغرب نے از سر نو مشتعل کر دیا ہے مختلف صدیوں میں ہزار ہا لوگوں نے ہند کی خواستگاری کی مگر اس نے اپنے تئیں ایسی سلطنت کے حوالے کیا جس کو اس کی وفاداری پر پورا اعتماد تھا۔"

"تماشا جو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں دنیا میں ایسا اور کہیں ہونا ممکن نہیں معلوم ہوتا۔ میرا مطلب اس وقت اس عظیم الشان ازدحام سے ہی نہیں جس کو میں بےنظیر خیال کرتا ہوں بلکہ میری مراد اس مجمع کی غرض اصلی سے ہے اور ان اصحاب سے جن کے دلی ولولوں کا یہ اظہار کر رہا ہے سو سے زیادہ مختلف ریاستوں کے حکمراں جن کی رعایا کی کل آبادی 62 کڑور سے کم نہیں اور جن کی

188

عملداری کی حدود طول بلد کے 55 درجوں پر پھیلی ہوئی ہیں اس وقت اپنے ایک بادشاہ کی اطاعت کی توثیق کے لیے حاظر ہیں۔ ہم ان کے وفادارانہ جوش کی جس نے ان کو ہزاروں کوس سے باوجود بڑے بڑے فاصلوں کے دہلی کھینچ بلایا ہے، بڑی قدر کرتے ہیں۔ اور مجھ کو تھوڑی دیر میں بہت فخر حاصل ہو گا جب کہ میں خود ان کی زبان سے شہنشاہ ہند کی تہنیت کے پیغام سنوں گا، جو قومی افسر اور سپاہی اسوقت موجود ہیں یہ ہندوستان کی دو لاکھ تیس ہزار فرج سے انتخاب کیے گئے ہیں جنہیں اس بات پر ناز ہے کہ وہ شہنشاہ کی فوج ہیں۔ دیسی امرا عہده دار یا غیرعہده دار جو اس وقت موجود ہیں وہ 23 کڑور سے زیادہ آبادی کے قائم مقام ہیں اس حساب سے میرے خیال میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت دربار میں دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ کچھ بذات خود اور کچھ بذریعہ وکیلوں اور اپنے حکمرانوں کے جمع ہے سب کے دل میں ایک ہی جوش ہے اور سب کے سر تسلیم سریر سلطنت کے سامنے خم ہیں۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ آخر کون سی بات ہے جس نے اس جم غفیر کو کھینچ بلایا ہے۔ تو جواب دیا جائے گا بادشاہ کے ساتھ وفاداری یعنی ان کی عطوفت اور انصاف پر اعتماد اور ان کا یہ بھروسہ ایک خیالی بات نہیں بلکہ ان کے ذاتی تجربے کا نتیجہ اور ان کے دلی یقین کا اظہار ہے۔ کیونکہ ملک معظم کی گورنمنٹ نے اس وسیع آبادی کے اکثر حصوں کو حملوں اور بدامنی سے

189

آزادی دے دی ہے سیکڑوں کے حقوق کی وہ حفاظت کرتی ہے اور سیکڑوں کے واسطے معزز روزگار کے فراخ راستے کھول دیے ہیں اور تمام کے واسطے یکساں انصاف کرنے، ظلم سے بچانے اور تہذیب اور امن کی برکتوں کے پھیلانے میں کوشش کرتی ہے اور ایسی سلطنت پر قابض ہونا اول تو آسان کام نہیں، اور اس کی ایماندارانہ اور منصفانہ طور سے سنبھالنا اور بھی مشکل کام ہے اور سب میں اہم یہ امر ہے کہ سب کو مدبرانہ سیاست سے شیر و شکر کر دے، یہی مقاصد اور اغراض مد نظر ہیں جس لیے آج یہ دربار کیا گیا ہے، اب میرا یہ فرض ہے کہ آپ کے روبرو حضور ملک معظم کا وہ شفقت آمیز پیغام پڑھوں حبس کی بابت آئخضرت نے آپ کو سنانے کے لیے مجھے ارشاد فرمایا یے وہو ہذا۔"

مابدولت کو اس بات سے نہایت مسرت ہے کہ ہم اپنی ہندوستانی رعایا کو ایسے موقع جب کہ وہ مابدولت کی رسم تاجپوشی ادا کر رہے ہیں، پیغام تہنیت بھیجیں۔ لندن کی تاجپوشی کے جلسے میں ہندوستانی روسا اور قائم مقاموں کی ایک نہایت ہی قلیل تعداد شریک ہوئی تھی اس لئے مابدولت نے وائسراے اور گورنر جنرل کو اس امر کی ہدایت کی کہ دلی میں ایک بہت بڑا دربار منعقد کیاجائے تاکہ تمام دیسی روسا، امرا، حکام گورنمنٹ اور اہل ہند کو اس مبارک رسم کے ادا کرنے کا موقع ملے۔ جس وقت ما بدولت 1875ء میں ہندوستان

190

تشریف لے گئے تھے، اس زمانے سے ہند اور اہل ہند کی محبت ہمارے دل میں جا گزیں ہے۔ مابدولت کے خاندان اور تاج و تخت کے ساتھ ان کو دلی اور سچی محبت ہے وہ بھی ما بدولت پر خوب روشن ہے۔ گذشتہ چند سال کے عرصہ میں ان کی محبت اور جاں نثاری کی بہت سی شہادتیں ما بدولت کے سامنے گذر چکی ہیں اور مختلف معرکوں میں ہماری ہندوستانی افواج نے جو کار ہائے نمایاں کیے ہیں ان سے مابدولت بخوبی واقف ہیں۔"

"مابدولت نہایت وثوق سے امید کرتے ہیں کہ تھوڑے عرصہ میں ہمارے فرزند دلبند شہزادہ ویلز اور ان کی بیگم صاحبہ پرنسز آف ویلز ہندوستان میں رونق افروز ہوں گے، اور ایسے ملک سے ذاتی واقفیت پیدا کریں گے جس کی بابت مابدولت کی یہ تمنا رہی ہے کہ وہ اس کو جا کر دیکھیں، اور خود ان کو بھی اس کی سیر کا بڑا اشتیاق ہے۔ اگر مابدولت کا تشریف لانا ہندوستان میں ممکن ہوتا تو نہایت خوشی سے آتے مگر چونکہ یہ بات نہ ہو سکی، اس لیے مابدولت اپنے برادر عزیز ڈیوک آف کاناٹ کو، جن کو ہندوستان کا بچہ بچہ جانتا ہے روانہ فرماتے ہیں، تاکہ جلسہ تاجپوشی میں شاہی خاندان کے قائم مقام بن کر شریک ہوں۔"

"جب سے کہ مابدولت اپنی والدہ مکرمہ و معظمہ ملکہ وکٹوریہ مرحومہ مغفورہ اول قیصر ہند کے تحت جانشین ہوئے ہیں، ہماری یہ تمنا رہی ہے کہ ہم انصاف

191

اور انسانیت کے وہی اصول برتیں جن سے حکومت کر کے ہماری مادر مشفق نے اپنی رعایا کے قلوب میں اپنی بزرگی اور عزت پیدا کر لی تھی، مابدولت اپنے تمام باج گزاروں اور اہل ہند کے ساتھ یہ وعدہ تجدید کرتے ہیں کہ ان کی آزادی کو قائم رکھیں گے، ان کے مراتب اور حقوق کی پاسداری کریں گے، اور ان کی بہبودی کی کوشش میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑیں گے۔ یہی اصول اور اغراض مابدولت کے مدنظر ہیں، اور خدا وند عالم کے فضل و کرم سے امید ہے کہ ان سے قلمر و ہند کو سرسبزی حاصل ہوگی اور ہندوستانی رعایا خوش وخرم رہے گی۔"

اے شہزادگان والا تبار! اور اے اہل ہند! یہ الفاظ اس ملک معظم کے ہیں کی جس کی رسم راجپوشی ادا کرنے کے لیے آج ہم سب جمع ہوئے ہیں۔ ان کا ہر حرف ان افسروں کے قلوب میں، جو ان کے خدمت گزار ہیں، محرک یا الہام کا اثر کرتا ہے اور ہر نکتہ خاص و عام کو بلند حوصلگی اور نیک نیتی کا سبق پڑھاتا ہے۔ یہ الفاظ ان صاحبان کے لیے، جو میرے یا میرے شرکاء کی طرح شہنشاہ معظم کی گورنمنٹ کے بالاصالت آلات ہیں، درستی اخلاق اور توسیع مملکت کے رہنما ہیں ہندوستان کا انتظام نرمی اور فیاضی سے کرنے کا خیال جیسا آجکل عروج پر ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وہ لوگ جنہوں نے زیادہ تکالیف برداشت کی ہیں وہ حقیقت میں زیادہ مستحق آفریں ہیں اور جنہوں نے زیادہ عمده کار نمایاں کیے ہیں ان کے حقوق بھی بڑے بڑے ہیں۔ ہندوستان

192

کے رؤسا نے مملکت کی گذشتہ لڑائیوں میں اپنے سپاہی اور تلواریں ہمارے نذر کیں اور دیگر مصائب میں بھی مثلا قحط و خشک سالی وغیرہ میں انھوں نے بڑی اولو العزمی اور بلند ہمتی ظاہر کی اب جو کچھ ان کو حاصل ہے اس سے زیادہ اور کیا دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بلاتردید کہی جا سکتی ہے کہ جو امن و عافیت ان کو حاصل ہے اس میں کبھی کسی طرح کا خلل نہیں آسکتا تاہم یہ بات ہمارے لیے نہایت باعث مسرت ہے کہ سرکار عالیہ ان قرضوں کا جو دیسی ریاستوں کو گذستہ قحط کے موقع پر دیے گئے ہیں یا سرکار ان کی کفیل ہوئی ہے۔ تین سال تک کوئی سود نہیں لے گی اور ہم کو امید ہے کہ وہ لوگ جن سے ایسا فیاضی کا سلوک گیا ہے اس بات کو بخوشی منظور کریں گے۔ اس عظیم الشان ملک میں اور جو کثیر التعداد جماعتیں اور فریق ہیں اور جن کی ترقی اور بہبودی ہماری دلی تمنا ہے ان کو بھی بہت جلد کسی ٹیکس کی کمی کا مژدہ سنائیں گے۔ سال حسابی کے وسط میں اعلان کرنا مناسب نہیں کیونکہ ایسے موقع پر تخمینہ کرنا بڑا دشوار کام ہے تاہم اگر موجودہ حالت قائم رہی اور جیسا کہ ہم امید کرتے ہیں۔ ہندوستان کی مالی بہبودی کا زمانہ شروع ہو گیا تو ہم کو اعتماد کامل ہے کہ ملک معظم کے عہد سلطنت کے اول ہی زمانے میں سرکار عالیہ رعایا ہند کے ساتھ کسی ٹیکس کی تخفیف کر کے ہمدردی اور شفقت کے خیالات ظاہر کرے گی اور جس وقت کہ مجھ کو ان کا مصیبت کا زمانہ اور اس

193

موقع پر ان کا صبر اور ان کی نمک حلالی یاد آتی ہے تو تخفیف ٹیکس کی تدابیر سوچنے میں مجھے نہایت خوشی ہوتی ہے۔ یہاں ان رعایتوں اور مہربانیوں کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں جن کا دربار سے خاص تعلق ہے وہ کہیں اور درج ہیں تاہم فوجی افسروں سے میں اتنا کہنے کا مجاز ہوں کہ آج سے انڈین سٹاف کور کا نام موقوف ہو گیا اور آپ سب کا ملک معظم کی ہندوستانی افواج سے متعلق ہیں۔"

"اے امراء عالی وقار و متوطنان ہند! جب ہم ہندوستان کے مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو بلاخطرخزاں اس ملک کی ترقی کا باغ سدا بہار نظر آتا ہے۔ ہندوستان کے متعلق کوئی ایسا مسئلہ نہیں خواہ وہ آبادی کا ہو یا تعليم کا خواہ محنت کا ہو یا معاش کا جس کو موجودہ تدابیر سے حل نہ کیا ہو۔ بہت سے مسائل کا حل تو اب ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔ اگر برطانیہ اور ہند کی متفق افواج سرحد پر مسلسل امن قائم رکھ سکتی ہیں اور اگر ہند کے فرمانرواؤں اور رعایا یورپین اور ہندوستانیوں،حاکموں اور محکوموں، میں اتحاد رہے اور موسم اپنی فیاضی میں مضائقہ نہ کرے تو آیندہ بھلا ہندوستان کی ترقی کس طرح رک سکتی ہے۔ ہندوستان بفضل کردگار ایک مستقل قحط ناک بدبخت اور نفاق سے بھرا ہوا ہندوستان نہیں ہو گا بلکہ اس کی تجارت کے چشمے جاری ہو جائیں گے اس کے باشندوں کی عقلیں بیدار

194

ہوجائیں گی۔ اس کی بہبود روز افزوں ہوگی اور آرام اور دولت کی ریل پیل ہوجائے گی میں اپنے ضمیر اور اپنے ملک کے مقاصد پر بھروسہ کرتا ہوں اور ساتھ ہی مجھ کو اس ملک کے بے انتہا ترقی کے سامان دیکھ کر یقین ہے کہ ترقی ضرور ہوگی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ مستقبل کبھی بصورت حال نہیں ہوسکتا جب تک کہ کسی بےنظیر حکومت کی عظمت نہ تسلیم کر لی جائے اور یہ بات صرف زیر سایہ سلطنت برطانیہ ہی ممکن ہے اور اب میں اس تقریر کو اختتام پر لانا چاہتا ہوں میں امید کرتا ہوں اہل ہند کو یہ مجمع عظیم مدت دراز تک یاد رہے گا اس اعتبار سے کہ یہاں ان کو ایک بڑی تقریب کے موقع پر اپنے شہنشاہ کی ذات اور ان کے خیالات سے معرفت تامہ حاصل ہوئی میں امید کرتا ہوں کہ لوگ جب جب اس تقریب کو یاد کریں گے ان کو فرحت و مسرت ہوگی اور زمانہ شاہ ایڈورڈ ہفتم کا عہد جس کا آغاز ایسا مسعود ہے تواریخ ہند اور سینہ اہل ہند میں محفوظ رہے گا ہم دعا کرتے ہیں کہ فرماروائے عالم اور قادر مطلق کی عنایت سے ان کی شہنشاہی اور قوت سالہائے دراز تک قائم رہے ان کی رعایا کی بہبودی روز بروز ترقی کرے۔ ان کے افسروں کے انتظام پر عقل اور نیکی کی مہر ثبت ہو۔ اور ان کی سلطنت کا استحفاظ و بہبود برقرار ہے۔"

یہ الفاظ کہہ کر وایسرائے پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے بحالیکہ تمام

195

مجمع کے نعرہ ہائے خوشی بلند تھے۔ انہوں نے ٹھیک آدھ گھنٹہ تک تقریر کی بادشاہ کا پیغام پہنچانے سے قبل انہوں نے وہ ٹوپی جو اب تک پہنے ہوئے تھے اتار لی تھی۔ اور جب اپنی تقریر کا اتنا حصہ ختم کر چکے تو پھر پہن لی پیغام شاہی جوش نعرہ ہاے خوشی کے ساتھ سنایا گیااور بقیہ تقریر کی خاص خاص ضروری مقامات کی تواضع بی اکثر نعرہ ہائے خوشی سے ہوئی۔

وائسرائے ابھی اچھی طرح دوبارہ کرسی پر بیٹھنے نہ پائے تھے کہ نقیب اور ترمچی گھوڑوں پر سوار پھر شہ نشین کے قریب گئے اور تان بجائی اس کے بعد وایسرائے کے اشارے سے میجر میکسول نے اپنی ٹوپی بلند کر کے بے انتہا بلند آوازی سے شاہ قیصر ہند کے لیے تین چیرز کی تحریک کی۔ ایک حرکت کے ساتھ سولہ ہزار آدمیوں کی تمام جماعت فی الفور کھڑی ہو گئی اور نعره ہائے سرور کا غل و شور تماشا گاہ عظیم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گونج اٹھا۔ جب یہاں کی آواز تھم گئی تو باہر کی جانب نعره ہائے خوشی پھر بلند کیے گئے اور فوج کے نعروں کا شور جو فاصلہ سے سنائی دیتا تھا۔ فوج کی لمبی قطاروں سے جو میدان میں قائم تھیں، سنائی دیا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اندر احاطہ کے زیادہ بلند نعروں کی گونج بھی ہے اور جواب بھی۔ پھر ایک مرتبہ ایمفی تھئٹر کے اندر اور باہر کے باجے والوں نے

196

قومی گت بجائی۔ اس کے بعد نقیب اور اس کے ہمراہی ترمچی اپنی آخری خدمت انجام دے کر رخصت ہوئے۔

(از تاریخ تاجپوشی)

197

شمس العلما شبلی نعمانی

میر انیس کی شاعری کی خصوصیات

فصاحت۔ علمائے ادب نے فصاحت کی یہ تعریف کی ہے کہ لفظ میں جو حروف آئیں، ان میں تنافر نہ ہو، الفاظ فصاحت نامانوس نہ ہوں۔ قواعد حرفی کے خلاف نہ ہوں۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ درحقیقت ایک قسم کی آواز ہے، اور چونکہ آوازیں بعض، شیریں، دلاویز، اور لطیف ہوتی ہیں مثلا طوطے اور بلبل کی آواز اور بعض مکروہ و ناگوار مثلا کوے اور گدھے کی آواز اس بنا پر الفاظ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں بعض شست، سبک، شیریں اور بعض ثقیل بھدے ناگوار، پہلی قسم کے الفاظ کو فصیح کہتے ہیں اور دوسرے کوغیر فصیح، بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ فی نفسہ ثقيل اور مکروہ نہیں ہوتے لیکن تحریر و تقریر میں ان کا استعمال نہیں ہوا ہے یا بہت کم ہوا ہے، اس قسم کے الفاظ بھی جب ابتداءً استعمال کیے جاتے ہیں تو کانوں کو ناگوار معلوم ہوتے ہیں، ان کو فن بلاغت کی اصطلاح میں غریب کہتے ہیں، اور اس قسم کے الفاظ بھی فصاحت میں خلل انداز خیال کیے جاتے ہیں۔

میر انیس کے کمال شاعری کا بڑا جوہر یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے اردو شعرا میں سے سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے

198

اور سیکڑوں مختلف واقعات بیان کرنے کی وجہ سے ہر قسم اور ہر درجہ کے الفاظ ان کو استعمال کرنے پڑے، تاہم ان کے تمام کلام میں غیر فصیح الفاظ نہایت کم پائے جاتے ہیں۔ اکثر جگہ عربی، فارسی کے الفاظ جو اردو زبان میں کم مستعمل ہیں، ضرورت سے لانے پڑے ہیں۔ لیکن اس قسم کے الفاظ جہاں آئے ہیں، فارسی ترکیبوں کے ساتھ آئے ہیں جن سے ان کی غرابت کم ہو گئی ہے، ورنہ اگر اردو کی خاص ترکیب میں ان الفاظ کا استعمال کیا جاتا تو بالکل خلاف فصاحت ہوتا۔ مثلا انگشتری، خاتم، رخ، باده ، ثنا و حسن، اور اس قسم کے سینکڑوں ہزاروں الفاظ ہیں جو بجاے خود فصیح ہیں لیکن ٹھیٹ اردو میں ان کا استعمال نہیں ہوتا۔ میر ضمیر ایک موقع پر کہتے ہیں ع زریت رسول کی خاطر جلائی نار + نار کا لفظ اس موقع پر نہایت نامانوس اور بیگانہ ہے لیکن یہی لفظ جب فارسی ترکیوں کے ساتھ اردو میں مستعل ہوتا ہے مثلا نار دوزخ، نار جہنم، تو وہ غرابت نہیں رہتی۔

فصاحت کے مدارج میں اختلاف ہے، بعض الفاظ فصیح ہیں، بعض فصیح تر بعض اس سے بھی فصیح تر، میر انیس صاحب کے کلام کا بڑا خاصہ یہ ہے کہ وہ ہر موقع پر فصیح سے فصیح الفاظ ڈھونڈھ کر لاتے ہیں۔

میرزا دبیر اور میر انیس کے ہم مضمون اشعار دیکھو، اگر میرزا صاحب

199

کے ہاں غریب اور ثقیل الفاظ ہوں گے تو ان کے مقابلہ میں میر صاحب کے ہاں فصیح الفاظ ہوں گے اور اگر میرزا صاحب کے ہاں فصیح الفاظ ہوں گے تو میر صاحب کے ہاں فصیح تر ہوں گے۔ میرزا دبیر کی تخصیص نہیں تمام مرثیہ گوئیوں کے مقابلہ میں میر انیس کایہی حال ہے۔

ہم مثال کے طور پر دو چار شعر نقل کرتے ہیں۔جن سے فصاحت اورفصاحت کے اختلاف مراتب کا اندازہ ہو سکے گا۔

میرزا دبیر (ع) کس نے نہ دی انگوٹھی رکوع و سجود میں
میر انیس(ع) سائل کوکس نے دی ہے انگوٹھی نماز میں
میرزا دبیر (ع) آنکھوں میں پھرے اور نہ مردم کو خبر ہو
میر انیس (ع) آنکھوں میں یوں پھرے کہ مژ کو خبر نہ ہو
میرزا دبیر (ع) رویا میں بھی حسین کو رویا ہی کرتے ہیں
میر انیس(ع) حسرت ہے کہ خواب میں بھی رویا کیجیے
میرزا دبیر (ع) جیسے مکان سے زلزلہ میں صاحب مکاں
میر انیس (ع) جیسےکوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فصاحت سے متعلق ایک بڑا دهوکا یہ ہوتا ہے کہ چونکہ فصاحت کے یہ معنی ہیں کہ لفظ ساده، آسان، کثیر الاستعمال ہو، اس لیے لوگ متبذل اور سوتی الفاظ کو بھی فصیح سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ ان دونوں میں سفید و سیاہ کا فرق ہے، میرزا صاحب جہاں واقعہ نگاری

200

اور معاملہ بندی میں میر انیس کی تقلید کرتے ہیں، اکثر ان کے کلام میں مبتذل لفظ آجاتے ہیں۔

مثلا جہاں حضرت شہر بانو علیہ السلام نے حضرت عباس علیہ السلام کی لاش پر نوحہ پڑھا ہے شہر بانو علیہ السلام کی زبان سے فرماتے ہیں ع ہے ہے مرے دیور مرے دیور مرے دیور، اور ایک جگہ فرماتے ہیں ع ناڑہ تو ان کی سالگرہ کا نکال لا۔

ابتذال کی صاف اور بین مثال نظیر اکبر آبادی کا کلام ہے اگر یہ ممیز نہ ہوتا تو سادگی اور صفائی میں نظیر کا کلام میر انیس یا میر تقی سے ٹکر کھاتا۔

ابتذال کے معنی عام طور پر یہ سمجھے جاتے ہیں کہ جو الفاظ عام لوگ استعمال کرتے ہیں وہ متبذل ہیں۔ لیکن یہ صحیح نہیں، سینکڑوں الفاظ عوام کے مخصوص الفاظ ہیں لیکن سب میں ابتذال نہیں پایا جاتا، ابتذال کا معیار مذاق صحیح کے سوا اور کوئی چیز نہیں۔ مذاق صحیح خود بتا دیتا ہے کہ یہ لفظ مبتذل، پست اور سوقیانہ ہے۔

میر صاحب کو اگرچہ واقعہ نگاری کی وجہ سے نہایت چھوٹی چھوٹی چیزوں اور ہر قسم کے جزئی جزئی واقعات اور حالات کو بیان کرنا پڑتا ہے لیکن یہ ان کی انتہا درجہ کی قادرالکلامی ہے کہ پھر بھی ان کی شاعری کے دامن پر، ابتذال کا دھبہ نہیں آنے پایا۔

201

كلام کی فصاحت یہ بجث مفرد الفاظ سے تعلق تھی، لیکن کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں، بلکہ یہ بھی ضرور ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے ان کی ساخت، ہیئت، نشست، سبکی اور گرانی کے ساتھ اس کو خاص تناسب اور توازن ہو۔ ورنہ فصاحت قائم نہ رہے گی۔

میر انیس کا مصرع ہے ع فرمايا آدمی ہے کہ صحرا کا جانور، صحرا اور جنگل ہم معنی ہیں اور دونوں فصیح ہیں،

میر انیس نے جا بجا ان دونوں لفظوں کو استعمال کیا ہے اور ہم معنی ہونے کی حیثیت سے کہا ہے، لیکن اگر اس مصرعہ میں صحرا کے بجائے جنگل کا لفظ استعمال کیا جاتا تو یہی لفظ غیر فصیح ہوجائے گا۔

میر صاحب کا ایک شعر ہے۔

طائر ہوا میں مست، ہرن سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں

یہاں جنگل کے بجائے صحرا لاو تو مصرعہ کا مصرعہ پھس پھسا ہو جاتا ہے۔

شبنم اور اوس ہم معنی ہیں اور برابر درجہ کے فصیح ہیں۔ لیکن میر صاحب کے اس شعر میں

کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا

اگر اوس کے بجائے شبنم کا لفظ لاياجائے تو فصاحت خاک میں مل جائے گی، لیکن اوس کا لفظ جو اس موقع پر اس قدر فصیح ہے

202

اس مصرعہ میں ع

شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے

شبنم کے بجائے لاو تو فصاحت بالکل ہوا ہو جائے گی۔

اس میں نکتہ یہ ہے کہ ہم لفظ چونکہ ایک قسم کا سُر ہے اس سے یہ ضرور ہے کہ جن الفاظ کے سلسلہ میں وہ ترکیب دیا جائے، ان آوازوں سے اس کو خاص تناسب بھی ہو ورنہ گویا دو مخالف سُروں کو ترکیب دینا ہو گا۔ نغمہ اور راگ مفرد آوازوں یا سُروں کا نام ہے ہر سُر بجائے خود دلکش اور دلاویز ہے، لیکن اگر دو مخالف سُروں کو باہم ترکیب دے دیا جائے تو دونوں مکروہ ہو جائیں گے۔

راگ کے دلکش اور موثر ہونے کا گر یہی ہے کہ جن سُروں سے اس کی ترکیب ہو ان میں نہایت تناسب اور توازن ہو۔

الفاظ بھی چونکہ ایک قسم کی صورت اور سُر ہیں اس لیے ان کی لطافت شیرینی اور روانی، اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب تک گردوپیش کے الفاظ بھی لے میں ان کے مناسب ہوں۔

میرزا دبیر صاحب کا مشہور مصرعہ ہے ع زیر قدم والده فردوس بریں ہے، اس میں جتنے الفاظ ہیں یعنے زیر، قدم، والده، فردوس، بریں سب بجائے خود فصیح ہیں، لیکن ان کے باہم ترکیب دینے سے، جو مصرعہ پیدا ہوا ہے وہ اس قدر بھدا

203

اورگراں ہے کہ زبان اس کا تحمل نہیں کرسکتی، شاید تم کو خیال ہو کہ مصرعہ کی ترکیب چونکہ فا رسی ہوگئی ہے۔ اس لیے ثقل پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں سیکڑوں شعروں میں، اس قسم کی فارسی ترکیبیں ہیں، لیکن یہ ثقل نہیں پایا جاتا۔ مثلا میرانیس صاحب کہتے ہیں

میں ہوں سردار شاب چمن خلد بریں
میں ہوں خالق کی قسم دوش محمد کا مکیں

پہلے مصرعہ میں فارسی کی ترکیب کے علاوہ توالی اضافات بھی موجود ہے، لیکن یہ بھدا پن اور ثقل نہیں ہے۔

جب کسی مصرعہ یا شعر کے تمام الفاظ میں ایک خاص قسم کا تناسب، متوازن اور توافق پایا جاتا ہے، اس کے ساتھ وہ تمام الفاظ بجائے خود بھی فصیح ہوتے ہیں تو وہ پورا مصرعہ یا شعر فصیح کہا جاتا ہے، اور یہی چیز ہے جس کو بندش کی صفائی، نشست کی

خوبی، ترکیب کی دلآویزی، برجستگی سلاست اور روانی سے تعبیر کرتے ہیں یہی چیز ہے جس کی نسبت خواجہ حافظ فرماتے ہیں

آنرا کہ خوانی استاد گر بنگری بہ تحقیق
صنعت گر بہت اما شعر رواں نہ دارد

الفاظ کے توازن و تناسب سے کلام میں جو فرق پیدا ہو جاتا ہے وہ ایک خاص مثال میں آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ میرانیس حضرت علی اکبر علیہ السلام کے اذان دینے کی تعریف میں ایک موقع پر اس طرح فرماتے

204

ہیں۔ ع

تھا بُلبُل حق گو کہ چہکتا تھا چمن میں

اسی مضمون کو میر صاحب دوسرے موقع پر اس طرح ادا کرتے ہیں ع

بلبل چہک رہا تھا ریاض رسول میں

وہی مضمون ہے، وہی الفاظ ہیں، لیکن ترکیب کی ساخت نے دونوں شعروں میں کس قدر فرق پیدا کر دیا ہے۔

میر انیس کا تمام کلام اس خوبی سے معمور ہے اور ان کا ہر شعر اس وصف کا مصداق ہے، نمونے کے طور پر ہم چند اشعار اس موقع پر نقل کرتے ہیں۔

تعریف میں چشمہ کو سمندر سے ملا دوں
قطرہ کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گل تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

ولہ
برہم ہوئی یہ سنتے ہی عباس علیہ السلام خوش خصال
غازی کو شیر حق کی طرح آ گیا جلال
قبضہ پہ ہاتھ رکھ کے یہ بولا علی علیہ السلام کا لال
اب یاں سے ہم کو کوئی ہٹا دے یہ کیا مجال
حملہ کریں چڑھا کے اگر آستین کو
ہم آسماں سمیت، الٹ دیں زمین کو

205

تھا فوج قاہرہ میں تلاطم کہ الحذر
تھیں موج کی طرح سب ادھر کی صفیں ادھر
چکر میں تھی سپاہ کہ گردش میں تھابھنور
پانی میں تھے نہنگ، ابھرتے نہ تھے مگر
فوجیں فقط نہ بھاگیں تھیں منہ موڑ موڑ کے
دریا بھی ہٹ گیا تھا کنارے کو چھوڑ کے
چھایا تھا سب پہ رعب علمدار نوجواں
تسلیم کو جھکے ہوئے تے فوج کے نشاں
گوشہ اماں کا ڈھونڈ رہی تھی ہر اک کماں
ترکش بھی تھے ہراس سے کھوئے ہوئے زباں
تیروں کا بیگاں تھا ارادہ گریز کا
منہ کند ہو گیا تھا ہر اک تیغ تیز کا

روزمره اور محاورہ جو الفاظ اور جو خاص ترکیبیں اہل زبان کی بول چال میں زیادہ مستعمل اور متداول ہوتے ہیں، ان کو روزمرہ کہتے ہیں، روزمرہ اگرچہ ایک جداگانہ وصف سمجھا جاتا ہے، لیکن درحقیقت وہ فصاحت ہی کا ایک فرد خاص ہے یہ ظاہر ہے کہ عام بول چال میں وہی الفاظ زبان پر آئیں گے جو سادہ اور صاف اور سہل الادا ہوں، اور اگر ان میں کچھ ثقل اور گرانی بھی ہو تو رات دن کی بول چال اور کثرت استعمال سے وہ منجکر صاف ہو جاتے ہیں۔ ابو العلا معزی جو ایک ملحد شاعر تھا اس نے قرآن مجید کا جواب لکھا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ گویہ کلام بلیغ ہے لیکن اس میں کلام مجید کی سی روانی اور صفائی نہیں پائی جاتی، اس ملعون نے کہا ہاں ابھی تو نہیں، لیکن جب دو چار سو برس

206

نمازوں میں منجکر صاف ہو جائے گا تو روانی آ جائے گی۔

غرض روز مرہ کے فصیح ہونا لازم ہے میرانیس کے کلام میں نہایت کثرت سے روزمرہ اور محاورہ کا استعمال پایا جاتا ہے اور اس پر ان کو ناز بھی تھا چنانچہ فرماتے ہیں

مرغان خوش الحان چمن بولیں کیا
مر جاتے ہیں سن کے روزمرہ میرا

چونکہ میر انیس کا کوئی کلام اس سے خالی نہیں ہوتا، اس لیے ہم نمونہ کے طور پر صرف دو چار مثالیں نقل کرتے ہیں۔

حشر تک خلق میں یہ ذکر غم انگیز رہا
تو تو بچپن کے غلاموں سے بھی کچھ تیز رہا
تعریف کریں ڈر کے تو خورسند نہ ہونا
اعدا سے کسی بات میں تم بند نہ ہونا
زینب نے کہا جس میں رضائے شہ عالی
مالک ہیں وہی میں تو ہوں اک پالنے والی
صدقے کیے فرزند پھوپھی سوگ نشیں ہے
سمجھیں تو مرا حق ہی نہ سمجھیں تو نہیں ہے
زندہ نہ محمد ہے نہ اب عون ہے بیٹا!
تم بھی جو نہ پوچھو تو مرا کون ہے بیٹا!

ولہ
خادم جدا نہ تھا شہ گردوں سر پر سے
کس جرم پر حضور خفا ہیں حقیر سے

ولہ
کس کی مجال ہے جو کہے گا یہ کیا کیا
بی بی نے دی غلام کو رخصت بجا کیا

ولہ
کہتے تھے راہ میں نہ کہ وار اپنا چل گیا
افسوس ہے کہ ہاتھ سے دریا نکل گیا

207

حسن کلام کا ایک بڑا نکتہ یہ ہے کہ مضامین کی نوعیت کے لحاظ سے الفاظ استعمال کیے جائیں۔

لفظ چونکہ آواز کی ایک قسم ہے اور آواز کے مختلف اقسام ہیں۔ مہیب، پررعب، سخت، نرم، شیریں، لطیف، اسی طرح الفاظ بھی صورت اور وزن کے لحاظ سے تمام طرح کے ہوتے ہیں بعض نرم شیریں اورلطیف ہوتے ہیں، بعض سے جلالت اور شان ٹپکتی ہے، بعض سے درد اور غمگینی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر غزل میں سادہ، شیر سہل، اور لطیف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، قصیدہ میں زور اور شاندار الفاظ کا استعمال پسندیدہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح رزم، بزم، مدح وذم، فخر و ادعا، وعظ و پند، ہر ایک کے لیے جدا جدا الفاظ ہیں، شعراء میں سے جو اس نکتہ سے آشنا ہیں وہ ان مراتب کا لحاظ رکھتے ہیں اور یہ ان کے کلام کی تاثیر کا بڑا راز ہے، لیکن جو اس ذوق مراتب سے واقف نہیں ہیں یا ہیں لیکن ایک خاص رنگ ان پر اس قدر چڑھ گیا ہے کہ ہر قسم کے مضامین میں ایک ہی قسم کے الفاظ ان کی زبان سے ادا ہوتے ہیں، ان کا کلام بجز ایک خاص رنگ کے بالکل بے اثر ہوتا ہے۔ یہی نکتہ ہے کہ سعدی سے رزم اور فردوسی سے بزم نہیں نبھ سکی۔

میر انیس صاحب نے رزم، بزم فخر، ہجو، نوحہ سب کچھ لکھا ہے لیکن جہاں جس قسم کا موقع ہوتا ہے اسی قسم کے الفاظ نکلتے ہیں رزمیہ فخر

208

لکھتے ہیں تو فرماتے ہیں

طاقت اور دکھاؤں رسالت مآب کی
رکھدوں زمیں پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی

جلال اورغیظ کو ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں

کم تھا نہ ہمہمہ اسد کردگار سے
نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھار سے
کیاجانے کس نے روک دیا ہے دلیر کو
سب دشت گونجتا ہے یہ غصہ ہے شیر کو
تھا یہ بپھرا ہوا عباس مرا شیر جواں
سینہ حر پہ رکھے دیتا تھا نیزہ کی سناں
لرزہ چڑھا تھا رعب سے ہر نابکار کو
روکے تھا ایک شیر جری دس ہزار کو

ديکھو! ان اشعار میں جو الفاظ آئے ہیں، جس طرح، ان کے مفہوم میں غیظ و غضب ہے اسی طرح، الفاظ کی صورت و لہجہ سے بھی ہئیت اور غیظ و غضب کا اظہار ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top