ٹائپنگ مکمل توزک اردو

مقدس

لائبریرین
۷۶۔

ہے مزاج اہل عالم یہ قریب اعتدال
ساتوں اقلیمیں ہیں گویا ان بخط استوا

رکھیگا تعویذ اور گندا کوءی کیوں اپنے پاس
باغ عالم میں یہی عالم جو صحت کا رہا

دیگا طاوَس اپنے بال و پر سے سارے نقوش دھو
پھینک دیگی توڑ کر گنڈا گلے سے فاختا


(۳)

پائے نہ ایسا ایک بھی دن خوشتر آسماں
کھاءے اگر ہزار برس چکر آسماں

ہے بادہ نشاط و طرب سے لبالب آج
اک عمر سے پڑا تھا تہی ساغر آسماں

سیکھے نہ اس طرح کا تماشا جہان میں
گر ہو تمام چشم تماشاگر آسماں

اترا رہا ہے عطر سے عیش و نشاط کے
سچ ہے زمیں پہ پانوں رکھے کیونکر آسماں

افراط انبساط سے کیا عجب۔ اگر
مثل حباب جامے سے ہو باہر آسماں

شادی کی اس کی دھوم ہے آج آسمان تک
تابع زمانہ جس کا ہے فرماں بر آسماں

فرزند شاہ یعنی جواں بخت ذی وقار
تسلیم کو ہے کس کے جھکاتا سر آسماں

ہے اس کی بارگاہ میں مانند چوبدار
حاضر عصاے کاہکشاں لیکر آسماں

اس بیاہ کی نوید سے ہے اس قدر سرور
ہے پیر ۔ پر جوانوں سے ہے بہتر آسماں

پھرتا ہے اہتمام می شادی کے رات دن
مقدور کیا! کہ ٹحیر سکے دم بھر آسماں

فرد حساب صرف سے اس بیاہ کی ہو کم
گو لاکھ جمع و خرچ کا ہو دفتر آسماں

خواجہ الطاف حسین حالی

ہے عید یہ کس جشن کی یا رب۔ کہ سراسر
ہے جیوبلی ہے جیوبلی اک ایک کی زباں پر

یہ عہد کہ گزرے ہین برس جس کو پچاس اب
ست جگ سے ہء یہ ہند کے حق میں کہیں بہتر

وہ دور تعصب تھا، یہ ہے دورہ اخلاق
وہ جنگ کا موجد تھا۔ یہ ہے صلح کا رہبر

۷۷۔

اس دور خجستہ میں وہ سب بجھ گئے شعلے
تھی جن کی جہاں سوز لپٹ آگ سے بڑھکر

اس عہد نے وہ خون بھرے ہاتھ کئے قطع
جو پھیرتے تھے بیٹیوں کے حلق پہ خنجر

بیٹوں کی طعح چاہتے ہیں بیٹیوں کو اب
جو لوگ روا رکھتے تھَ خونریزی دختر

جب بیٹیوں نے زندگی اس طرح پائی
دی زندگی ایک اور انھیں علم پڑھا کر

اس عہد نے کی آکے غلاموں کی حمایت
انساں کو نہ سمجھا کسی انسان سے کمتر

دی اس نے مٹا ہند سے ہوں رسم ستی کی
گویا وہ ستی ہو گئی خود عہد کہن پر

نابود کیا اس نے زمانہ سے ٹھگی کو
ایک قہر تھا اللہ کا جو نوع بشر پر

اس عہد میں انساں ہی نہیں ظلم سے محفوظ
مظلوم نہ اب بیل۔ نہ گھوڑا ہے۔ نہ خچر

اے نازش برانیہ۔ اے فکر برنزک
اے ہند کے گلہ کی شباں۔ ہند کی قیصر

سچ یہ ہء کہ فاتح کوئی تجھ سا نہیں گزرا
محمود نہ تیمور۔ ہنیبل نہ سکندر

تسخیر فقط اگلوں نے عالم کو کیا تھا
اور تو نے کیا ہے دل عالم کو مسضر

بند اپنے فرائض میں مسلماں ہیں۔ نہ ہندو
معمور مساجد ہیں۔ تو آباد ہیں مندر

بجتا ہے فقط چرچ میں اتوار کا گھنٹا
سنکھ اور اذاں گونجتے ہیں روز برابر

گو منت قیصر سے ہے ہر قوم گرانبار
احساں مگر اسلام پہ ہیں اس کے گراں تر

اب ہند میں کشمیر سے تا راس کماری
ہر قوم کے ہیں پیرو جواں متفق اس پر

امید نہیں ہند کے راحت طلبوں کو
راحت کی کسی سایہ میں جز سایہ قیصر

گر برکتیں اس عہد کی سب کیجیے تحریر
کافی ہء نہ وقت اس کے لئے اور نہ دفتر

ہے ان یہ دعا حق سے کہ آفاق میں جب تک
آزادی و انصاف حکومت کے ہیں رہبر

قیصر کے گھرانے پہ رہے سایہ یزداں
اور ہند کی نسلوں پہ رپے سایہ قیصر

۷۸۔

قطعات

خواجہ الطاف حسین حالی

(۱) بے تمیزی ابناے زماں

ازرہ فخر آبگینہ سے یہ ہیرے نے کہا
ہے وجود اے مبتذل تیرا برابر اور عدم

جنس تیری کس میرس اور قدر و قیمت تیری ہیچ
تیرے پانے کی خوشی کچھ اور نہ گم ہونے کا غم

سے کے دھوکا ےو اگر الماس بنجائے تو کیا!
امتحاں کے وقت کھل جاتا ہے سب تیرا بھرم

مسکرا کر آبگینہ نے یہ ہیرے سے کہا
گو کہ ہے رتبہ ترا مجھ سے بڑا اے محترم

مجھ میں اور تجھ میں مگر کر سکتے ہیں جو امتیاز
ہیں مبصر ایس اس بازار ناپرساں میں کم

تیرے جوہر گو نہیں موجود اپنی ذات میں
تجھ سے اے المس لین اچھے پڑ رہتے ہیں ہم

(۲) جس قوم میں افلاس ہو اس میں بخل اتنا بدنما نہیں جتنا اسراف

حالی سے کہا ہم نے کہ ہے اس کا سبب کیا
جب کرتی ہو تم کرتے ہو مسرف کی مذمت

لیکن بخلاف آپ نے سب اگلے سخنور
جب کرتے تھے کرتے تھے بخیلوں کو ملامت

اراف بھی مذموم ہے۔ پر بخل سے کمتر
ہے جس سے انساں کو بالطبع عداوت

حالی نے کہا روکے نہ پوچھو سبب اس کا
یاروں کے لئے ہے یہ بیاں موجب رقت

کرتے تھے بخیلوں کو ملامت سلف اس وقت
جب قوم میں اراط سے تھی دولت و ثروت

وہ جانتے تھے قوم ہو جس وقت تونگر
پھر اس میں نہیں بخل سے بدتر کوئی خصلت

اور اب کہ نہ دولت ہے نہ ثروت نہ اقبال
گھر گھر پہ ہے چھایا ہوا افلاس و فلاکت
 

مقدس

لائبریرین
۷۹۔

ترغیب سخاوت کی ہے اب قوم کو ایسی
پرواز کی ہے چیونٹوں کو جیسے ہدایت

(۳) بے اعتدالی

تم اے خود پرستو! طبعیت کے بندو!
ذرا وصف اپنے سنو کان دھر کے

نہیں کام کا تم کو اندازہ ہر گز
جدھر ڈھل گئے۔ ہو رہے بس ادھر کے

جا گانے بجانے پہ آئی طبعیت
تو چیخ اٹھے دو دن میں ہمسائے گھر کے

جو مجرے میں بیٹھو۔ تو اٹھو نہ جب تک
کہ اٹھ جائیں ساتھی سب ایک ایک کر کے

اگر پل پڑے چوسر اور گنجفہ پر
تو فرصت ملے شاید اب تم کو مر کے

پرا مرغ بازی کا لپکا۔ تو جانو
کہ بس ٹھن گئے عزم جنگ تتر کے

چڑھا بھوت عشق و جوانی کا سر پر
تو پھر گھاٹ کے آپ ہیں اور نہ گھر کے

جو ہے تم کو کھانے کا چسکا۔ تو سمجھو
کہ چھوڑینگے اب آپ دوزخ کو بھر کے

جو پینے پے آوَ۔ تو پی جاوَ اتنی
رہین پانوں کے ہوش جس میں۔ نہ سر کے

جو کھانا تو بیحد۔ جو پینا تو ات گت
غرض یہ کہ سرکار ہیں پیٹ بھر کے

میرزا اسد اللہ خان غالب

(۱)
اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل و نظیر
اے جہانداد کرم شیوہ بے شبہ و عدیل

پانوں سے تیرے ملے فرق ارادت اورنگ
فرق سے تیرے کرے کسب سعادل اکلیل

تیرا انداز سخن شانہ زلف الہام
تیری رفتار قلم جنبش بال جبریل

تجھ سے عالم پہ کھلا رابطہ قرب کلیم
تجھ سے دنیا میں بچھا مائدہ بذل خلیل

بسخن اوج دہ مرتبہ معنی و لفظ
بکرم داغ نہ ناصیہ قلزم و نیل

۸۰۔

تاترے وقت میں ہو عیش و طرب کی توفیر
تاترت عہس میں ہو رنج و الم کی تقلیل

ماہ نے چھوڑ دیا ثور سے جانا باہر
زہرہ نے ترک کیا حوت سے کرنا تحویل

تیری دانش مری اصلاح مفاسد کی رہیں
تیری نخشش میرے انجاح مقاصد کی کفیل

تیرا اقاب ترحم مرے جینے کی نوید
تیرا انداز تغافل مرے مرنے کی دلیل

بخت ناساز نے چاہا ۔ کہ ندے مجکو اماں
چرخ کجباز نے چاہا۔ کہ کرے مجکو ذلیل

پیچھے دالی ہے زر رشتہ اوقات میں گانٹھ
پہلے ٹھونکی ہے بن ناخن تدبیر میں کیل

تپش دل نہیں بے رابطہ خوف عظیم
کشش دم نہیں بے ضابطہ جر ثقیل

فکر میری گہر اندوز اشارات کثیر
کلک میری رقوم آموز عبارات قلیل

میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدیق تو ضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل

نیک ہوتی میری حالت تو نہ دیتا تکلیف
جمع ہوتی میری خاطر تو نہ کرتا تعجیل

قبلہ کون و مکاں خستہ نوازی میں یہ دیر
کعبہ امن و اماں عقدہ کشائی میں یہ ڈھیل

(۲)

اے شاہ جہانگیر۔ جہاں بخش۔ جہانداد
ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گونہ بشارت

جو عقدہ دشاور کہ کوشش سے نہ وا ہو
تو وا کرے اس عقدہ کو ۔ سو بھی باشارت

ممکن ہے؟ کرے حضر سکندر سے ترا ذکر
گراب کو نہ دے چشمہ حیواں سے طہارت

آصف کو سلیماں کی وزارت سے شرف تھا
ہے فخر سلیماں۔ کو کرے تیری وزارت

ہے نقش مریدی ترا فرمان الہی
ہے داغ غلامی تیرا تو قیع امارت

تو آب سے گر سلب کرے طاقت سیلاں
تو آگ سے کر دفع کرے تاب شرارت

ڈھنوڈے نہ ملے موجہ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتش سوزان میں حرارت

۸۱۔


ہے گرچہ مجھے نکتی سرائی میں لوغل
ہے گرچہ مجھے سحر طرازی میں مہارت

کیونکر نہ کروں مدح کو میں ختم دعا پر؟
قاصر ہے حکایت میں تری میری عبارت

نو روز ہے آج۔ اور وہ دن ہے۔ کہ ہوئے ہیں
نظارگی صبعت حق اہل بصارت

تجکو شرف مہر جہانتاب مبارک
غالب کو ترے عتبہ عالی کی زیارت

شیخ ابراہیم ذوق

(۱)

خسرو! سن کے ترا مژدی جشن نو روز
آج ہے بلبل تصویر تلک زمزمہ سنج

خبر عیش تری سے ہے چمن کو جا کر
زرگل پیک صبا پائے نہ کیونکر پارنج

بادہ جوش جوانی کی ہے گویا اک موج
تن پیران کہن سال پہ ہر چین شکنج

چند قطرے سے ہین شبنم کے وہ بلکہ کمتر
آگے ہمت کے تری گوہر شہوا کے گنج

حسن نیست سے ہے تو یوسف مصر بخشش
دست حاتم میں بجا ہے، کہ جو دیں تیغ و ترنج

شش جہت پر ہے غالب ترا سر ہنجہ امن
فتنے کو اٹھنے میں جوں نرد ہے کیا کیا شش و پنج!

نہ بجھے آب سے آتش، نہ خس آتش سے جلے
ایک سے ایک موافق۔ کہ مرنجان و مرنج

تیرے منصوبے کے تابو ہیں سب احکام نجوم
صفحی تقویم کا گویا ہےبساط شطرنج

لایا ہے معنی رنگیں سے یہ لعل خوشرنگ
ذوق جو مدح و ثبا میں ہے ترء گوہر سنج

خسروا ہوتا ہے اس رنگ سے معلوم یہ رنگ
رنگ نوروز جو ہے اب کے برنگ نارنج

بزم رنگیں میں تری رنگ طرب ہو ہر روز
اور تو خاطر اقدس پہ کبھی آئے نہ رنج
 

مقدس

لائبریرین
۸۲۔

مسدسات

میر ببر علی انیس


میر ببر علی نام۔ انیس تخلص۔ میر حسن دہلوی کے نامور پوتے۔ لکھنو میں تعلیم و تربیت پائی۔ مرثیہ گوئی و متثیہ خوانی ان کی چار دانگ ہند میں مشہور و مسلم تھی۔ فصاحت بیان اور لطافت محاورہ میں ان کا کلام اس پایہ بلند پر پہنچا ہے۔ کہ جس کی نظیر نہیں۔

صفت صبح

طے کر چکا جو منزل شب کاروان صبح
ہونے لگا افق سے ہویدا نشان صبح

گردوں سے کوچ کرنے لگے اختران صبح
ہر سوئی ہوئی بلند صداے اذان صبح

پنہاں نظر سے روے شب تار ہو گیا
عالم تمام مطلع انوار ہو گیا

یوں گلشن فلک سے ستارے ہوے رواں
چن لے چمن سے پھولوں کو جس طرح باغباں

آئی بہار میں گھل مہتاب پر خزاں
مرجھا کے گر گئے ثمر و شاخ کہکشاں

دکھلائے طور باد سحر نے سمسو کے
پژمردہ ہو کے رہ گئے غنچے نجوم کے

چھپنا وہ ماہتاب کا۔ وہ صبح کا ظہور
یاد خدا میں زمزمہ پردازی طیور

وہ رونق اور وہ سرد ہوا ۔ وہ فضا ۔ وہ نور
خنکی ہو جس سے چشم کو اور قلب کو سرور

انساں زمیں پے محو ۔ ملک آسمان پر
جاری تھا ذکر قدرت حق ہر زبان پر

وہ سرخی شفق کی ادھر چرخ پر بہار
وہ بار و درخت ۔ وہ صحرا ۔ وہ سبزہ زار

۸۳۔

شبنم کے وہ گلوں پے گہرہاے سے آبدار
پھولوں سے سب بھرا ہوا دامان کوہسار

نافے کھلے ہوے وہ گلوں کی شمیم کے
آتے تھے سرد سرد وہ جھونکے نسیم کے


غریب الوطنی


ہوتے ہیں بہت رنج مسافر سفر میں
راحت نہیں ملتی کوئی دم آٹھ پہر میں

سو شغل ہوں پو دھیان لگا رہتا ہے گھر میں
پھرتی ہے سدا شکل عزیزوں کی نظر میں

سنگ غم فرقت دل نازک پے گراں ہے
اندوہ غریب الوطنی کا ہش جاں ہے

گو راہ میں ہمراہ بھی ہو راحلہ و زاد
جاتی نہیں افسردگئ خاطر ناشاد

جب عالم تنہائی میں آتا ہے وطن یاد
ہر گام ہے دل مثل جرس کرتا ہے فریاد

اک آن غم و رنج سے فرصت نہیں ہوتی
منزل پہ بھی آرام کی صورت نہیں ہوتی

ہمراہ سفر میں ہوں اگر حامی و ناصر
منزل ہی کمر کھولکے سوتے ہیں مسافر

جب ہو سفر خوف و پریشانی خاطر
شب جاگتے ہی جاگتے ہو جاتی ہے آخر

ہر طرح مسافر کے لیےرنج و تعب ہے
رہ جائے پس قافلہ تھک کر۔ تو غضب ہے

دکھ دیتے ہیں ایک ایک قدم پاتوں کے چھالے
منزل پہ پہنچنے کے بھی پڑ جاتے ہیں لالے

ہاتھوں سے اگر بیٹھ کے کانٹوں کو نکالے
ڈر ہے ۔ کہ بڑھ نہ جائیکہیں قافلے والے

داماندوں کے لینے کو بھی آتا نہیں کوئی
تھک کر بھی جو بیٹھے ۔ تو اٹھاتا نہیں کوئی


۸۴۔

صفت تیغ

تھا صورت آئینہ تمام اس کا بدن صاف
خوں پیتی تھی۔ پر دیکھو تو منہ صاف دہن صاف

چلتی تھی جو سن سن۔ یہ نکلتا تھا سخن صاف
ہوں میں تو وہ جاروں۔ کہ کر دیتی ہوں رن صاف

نااہل ہی۔ نامراد ہیں۔ ناپاک ہیں اعدا
میں برق غضب ہوں۔ خس و خاشاک ہیں اعدا

مغفر سے جھلم کاٹ کے گردن میں در آئی
گردن سے سرکنا تھا۔ کہ جوشن میں در آئی

جوشن سے گزرنا تھا۔ کہ بس تن میں در آئی
تن سے ابھی اتری تھی ۔ کہ توسن میں در آئی

بچتا کوئی کیا تیغ قضا رنگ کے نیچے
اک برق غضب کوند گئی تنگ کے نیچے

پیری کبھی ۔ کہ خون میں نہا کر نکل آئی
ٹھیری کبھی۔ غوطہ کبھی کھا کر نکل آئی

کاٹی جوزرہ ۔ موج میں جا کر نکل آئی
منجدھار سے دو ہاتھ لگا کر نکل آئی

کیا ڈر اسے طوفاں کا ۔ جو چالاک ہو ایسا
جب باڑھ پہ دریا ہو ۔ تو پیراک ہو ایسا

دم بھر نہ ٹھہرتی تھی۔ عجب طرح کا دم تھا
تیزی پہ جسے ناز تھا۔ سر اس کا قلم تھا

ناگن میں نہ یہ زہر۔ نہ افعی میں یہ سم تھا
یہ فتح کی جویا تھی۔ قداسواسطے خم تھا

بد اصل تکبر کے سخن کہتے ہیں اکثر
جو صاحب جو ہر ہیں۔ جھکے رہتے ہیں اکثر

(2)

بجلی سی جو گر کر صف کفار سے نکلی
آواز بزن تیغ کی جھنکار سے نکلی
 

مقدس

لائبریرین
۸۵۔

گہہ ڈھال میں ڈوبی۔ کبھی تلوار سے نکلی
در آئی جو پیکاں میں۔ تو سو فار سے نکلی

تھے بند خطاکاروں پہ درامن و اماں کے
چلے بھی چھنپے جاتے تھے گوشوں میں کماں کے

افلاک پہ چمکی کبھی ۔ سر پر کبھی آئی
کوندی کبھی جوشن پہ۔ سپر پر کبھی آئی

گہہ پری گئی سینہ پہ۔ جگر پر کبھی آئی
تڑپی کبھی پہلو پہ ۔ کمر پر کبھی آئی

طے کر کے پھری۔ کونسا قصہ فرس کا؟
باقی تگا جو کچھ کاٹ۔ وہ حصہ تھا فرس کا

بےپانوں جدھر ہاتھ سے چلتی ہوئی آئی
ندی ادھر اک خوں کی ابلتی ہوئی آئی

دم بھر میں وہ سو رنگ بدلتی ہوئی آئی
پی پی کے لہو ۔ لعل اگلتی ہوئی آئی

ہیرا تھا بدن رنگ زمرد سے ہرا تھا
جوہر جو کہو! پیٹ جواہر سے بھرا تھا

سر ٹپکے۔ تو موج اس کی روانی کو نہ پہنچے
قلزم کا بھی دھارا ہو ۔ تو پانی کو نہ پہنچے

بجلی کی تڑپ شعلہ فشانی کو نہ پہنچے
خنجر کی زباں تیز زبانی و نہ پہنچے

دوزخ کے زبانوں سے بھی آنچ اسکی بری تھی
برچھی تھی۔ کتاری تھی۔ سروہی تھی۔ چھری تھی

موجود بھی ہر غول میں اور سب سے جدا بھی
دم خم بھی۔ لگاوٹ بھی۔ صفائی بھی۔ ادا بھی

اک گھاٹ پہ تھی آگ بھی۔ پانی بھی۔ ہوا بھی
امرت بھی۔ ہلاہل بھی۔ مسیحا بھی قضا بھی

کیا صاحب جوہر تھی۔ عجب ظرف تھا اس کا
موقع تھا جہاں جس کا۔ وہیں صرف تھا اس کا


۸۶۔

ہر ڈھال کے پھولوں کو اڑاتا تھا پھل اس کا
تھا لشکر باغی میں ازل سے عمل اس کا

ڈر جاتی تھی منہ دیکھ کے بزدل اجل اس کا
تھا قلعہ چار آئینہ گویا محل اس کا

اس در سے گئی۔ کھول کے در وہ نکل آئی
گہہ صدر میں بیٹھی۔ کبھی باہر نکل آئی

نیزوں پہ گئی برچھیوں والوں کی طرف سے
جا پہنچی کمانداورں پہ بھالوں کی طرف سے

پھر آئی سواروں کے رسالوں کی طرف سے
نہ تیغوں کی جانب کیا ڈھالوں کی طرف سے

بس ہو گیا دفتر نظری نام و نسب کا
لاکھوں تھے تو کیا! دیکھ لیا جائزہ سب کا

پہنچی جو سپرتک۔ تو کلائی کو نہ چھوڑاہر
ہاتھ میں ثابت کسی گھاٹی کو نہ چھوڑا

شوخی کو۔ شرارت کو۔ لڑائی کو نہ چھوڑا
تیزی کو۔ رکھائی کو۔ صفائی کو نہ چھوڑا

اعضا سے بدن قطع ہوئے جاتے تھے سب کے
قینچی سی زباں چلتی تھی، فقرے غضب کے

چار آئینہ والوں کو نہ تھا جنگ کا یارا
چورنگ تھے سینے۔ تو کلیجہ تھا دوپارا

کہتے تھے زرہ پوش نہیں تاب خدارا
بچ جائیں تو جانیں کہ ملی جان دوبارا

جوشن کو سنا تھا۔ کہ حفاظت کا محل ہے
اس کی نہ خبر تھی۔ کہ یہی دام اجل ہے

بدکیش لڑائی کا چلن بھول گئے تھے
ناؤک فگنی تیف فگن بھول گئے تھے

سب حیلہ گری عہد شکن بھول گئے تھے
بیہوشی میں ترکش کے دہن بھول گئے تھے

معلوم نہ تھا جسم میں جاں ہے ہے کہ نہیں ہے
چلاتے تھے قبضہ میں کماں ہے کہ نہیں ہے

۸۷۔

صفت اسپ

لکھتا ہے ادہم قلم اب سرعت عقاب
نعل اس کے ماہ نور ہین۔ تو سم رشک آفتاب

پستی میں سیل ہے۔ تو بلندی میں ہے سحاب
سرعت میں برق۔ گرم روانی میں جوے آب

اڑنے میں اس فرس کو پرندوں پر اوج ہے
اک شور تھا۔ قدم نہیں دریا کی موج ہے

نازک مزاج ۔ نسترن اندام۔ تیز رو
گردوں مسیر۔ بادیہ پیما و برق دو

اس کا نہ اک قدم۔ نہ زغندیں ہرن کی سو
دو روز سے نہ کاہ ملی تھی اسے۔ نہ جو

رفتار میں ہوا تھا۔ اشارے میں برق تھا
سرعت میں کچھ کمی تھی۔ نہ چھل بل میں فرق تھا

صر صر سے تند۔ بو سے سبکرو۔ ہوا سے تیز
چالاک فہم و فکر سے۔ ذہن رسا سے تیز

طاؤس و کبک و نسر و عقاب و ہما سئ تیز
جانے میں اڑ کے ہد ہد شہر سبا سے تیز

ذی جاہ تھا۔ سعید تھا۔ فیروز بخت تھا
رہوار کیا! ہوا پہ سلیماں کا تخت تھا

سمٹا۔ جما۔ اڑا۔ ادھر آیا۔ ادھر گیا
چمکا۔ پھرا۔ جمال دکھایا۔ ٹھہر گیا

تیروں سے اڑ کے برچھوں میں بےخطر گیا
برہم کیا صفوں کو۔ پروں سے گزر گیا

گھوڑوں کا تن بھی ٹاپ سے اس کی فگار تھا
ضربت تھی نعل کی۔ کہ سروہی کا وار تھا

(2)

کوتاہ و گرد و صاف۔ کنوتی کمر کفل
کیا خوش نما کشادگی سینہ و بغل!


۸۸۔


سیماب کی طرح نہیں آرام ایک پل
پھرتا اس طرح، کہ پھرے جس طرح سے کل

راکب نے سانس لی۔ کہ وہ کوسوں روانہ تھا
تار نفس بھی اس کے لیے تازیانہ تھا

وہ جست و خیز و سرعت و چالاکی سمند
سانچے میں تھے ڈھلے ہوئے سب اسکے جوڑ بند

سم قرض ماہتاب سے روشن ہزار چند
نازک مزاج و شوخ وسیہ چشم و سر بلند

گر ہل گئی ہوا سے ذرا باگ۔ اڑ گیا
پتلی سواری کی نہ پھیری تھی۔ کہ مڑ گیا

آہو کی جست ۔ شیر کی آمد۔ پری کی چال
کبک دری خجل۔ دل طاؤس پائمال

سبزہ سبکروی میں قدم کے تلے نہال
اک دو قدم مین بھول گئے چوکڑی غزال

جو آگیا قدم کے تلے۔ گرد باد تھا
چھل بل غضب کے تھے، کہ چھلاوہ بھی گرد تھا

بجلی کبھی بنا۔ کبھی رہوار بن گیا
آیا عرق ۔ تو ابر گہر بار بن گیا

گہہ قطب۔ گاہ گنبد دوار بن گیا
نقطہ کبھی بنا۔ کبھی پرکار بن گی

حیراں تھے اس کے گشت ہی لوگ اس ہجوم کے
تھوڑی سی جا میں پھرتا تھا کیا جھوم جھوم کے

۸۹۔

ایک مثمن

از مولف

کیفیت قلعہ اکبر آباد

یارب! یہ کسی مشعل کشتہ کا دھواں ہے
یا گلشن برباد کی یہ فصل خزاں ہے

یا برہمی بزم کی فریاد و فغاں ہے
یا قافلہ رفتہ کا پس خیمہ رواں ہے

ہاں دور گزشتہ کی مہابت کا نشاں ہے
بانی عمارت کا جلال اس سے عیاں ہے

اڑتا تھا یہاں پرچم جم جاہی اکبر
بجتا تھا یہاں کوس شہنشاہی اکبر

باہر سے نظر ڈالئے اس قلعہ پہ یک چند
برپا ہے لب آب جمن صورت الوند

گویا کہ ہے اک سورما۔ مضبو۔ تنومند
یا ہند کا رجپوت ہے۔ یا ترک سمر قند

کیا بارہ سنگین کا پہنا ہے قزآگند!
رینی کا قزآگند پہ باندھا ہے کمر بند

مسدود ہے خندق سے رہ فتنہ و آشوب
ارباب تمرد کے لئے برج ہیں سرکوب

تعمیر در قلعہ بھی البتہ ہے موزوں
پرشوکت و ذی شان ہے اس کا رخ بیروں

کی ہے شعرا نے صفت طاق فریدوں
معلوم نہین اس سے وہ کمتر تھا کہ افزوں

گو ہمسر کیواں ہے۔ نہ ہم پلہ گردوں
محراب کی ہیئت سے ٹپکتا ہے یہ مضموں

پیلان گراں سلسلہ باہودج زریں

۹۰

اس در سے گزرتے تھے بصد رونق و تزئیں

اکبر سا کبھی مخزن تدبیر یہاں تھا
یا طنطنہ ذی رتبہ مشاہیر یہاں تھا

یا شاہجہاں مرجع توقیر یہاں تھا
یا مجمع ذی رتبہ مشاہیر یہاں تھا

القصہ۔ کبھی عالم تصویر یہاں تھا
دنیا سے سوا جلوہ تقدیر یہاں تھا

بہتا تھا اسی کاخ میں دولت کا سمندر
تھے جشن ملوکانہ اسی قصر کے اندر

وہ قصر معلی کہ جہاں عام تھا دربار
آئینہ نمط صاف ہین جس کے درو دیوار

وہ سقف زرامذود ہے مانند چمن زار
وہ فرش ہے مرمر کا مگر چشمہ انوار

اب بانگ نقیب اس میں۔ نہ چاؤش کی للکار
سرہنگ کمربستہ۔ نہ وہ مجمع حضار

کہتا ہے کبھی مرکز اقبال تھا میں بھی
ہاں! قبلہ گہ عظمت و اجلال تھا میں بھی

جب تک مشیت کو مرا وقر تھا منظور
نافذ تھا زمانہ میں مری جاہ کا منشور

شاہان معاصر کا معین تھا یہ دستور
کرتے تھے سفیران ذوی القدر کو مامور

تا میری زیارت سے کریں چشم کو پرنور
آوازہ مری شان کا پہنچا تھا بہت دور

اکناف جہاں میں تھا مرا دبدبہ طاری
تسلیم کو جھکتے تھے یہاں ہفت ہزاری

وہ چتر ۔ وہ دیہیم ۔ وہ سامان کہاں ہیں؟
وہ شاہ ۔ وہ نوئین۔ وہ خاقان کہاں ہیں؟

وہ بخشی و دستور۔ وہ دیوان کہاں ہیں؟
خدام ادب اور وہ دربان کہاں ہیں؟

وہ دولت مغلیہ کے ارکان کہاں ہیں؟
فیضی و ابوالفضل سے اعیان کہاں ہیں؟
 

مقدس

لائبریرین
۹۱۔
سنسان ہےوہ شاہ نشیں آج صد افسوس
ہوتے تھے جہاں خان و خوانین زمیں بوس

وہ بارگہ خاص کی پاکیزہ عمارت
تاباں تھے جہاں نیر شاہی و وزارت

بڑھتی تھی جہاں نظم و سیاست کی مہارت
آتی تھی جہاں فتح ممالک کی بشارت

جوں شحنئہ معزول پڑی ہے وہ اکارت
سیاح کیا کرتے ہیں اب اس کی زیارت

کہتا ہے سخن فہم سے یوں کتبہ دروں گا
"تھا مخزن اسرار یہ تاجوروں کا"

اورنگ سیہ رنگ جو قائم ہے لب بام
بوسہ جسے دیتا تھا ہر اک زبدہ عظام

اشعار میں ثبت اس ہی جہانگیر کا ہے نام
شاعر کا قلم اس کی بقا لکھتا ہے مادام

پر صاگ نظر آتا ہے کچھ اور ہی انجام
سالم نہیں چھوڑے گی اسے گردش ایام

فرسودگی دہرنے شق اب تو کیا ہے
آئیندہ کی نسلوں کو سبق خوب دیا ہے

ہاں کس لئے خاموش ہے۔ او تخت جگر ریش؟
کس غم میں سیہ پوش ہے۔ کیا سوگ ہے درپیش؟

کملی ہے تری دوش پہ کیوں صوعت درویش؟
جوگی ہے ترا پنتھ، کہ صوفی ہے ترا کیش؟

بولا۔ زمانہ نے دیا نوش۔ کبھی نیش
صدیاں مجھے گزری ہیں یہاں تین کم و بیش

صدقے کبھی مجھ پر گہر و لعل ہوئے تھے
شاہان معظم کے قدم میں نے چھوئے تھے

رنگیں محل اور برج مثمن ک وہ انداز
صنعت میں ہی بے مثل تو رفعت میں سرافراز

یاں مطرب خوش لہجہ کی تھِ گونجتی آواز
کہ ہند کی دھرپت تھی۔ کبھی نغمہ شیراز


۹۲۔

اب کون ہے؟ بتلائے جو کیفیت آغاز
زنہار! کوئِ جاہ و حشم پر نہ کرے ناز

جن تاروں کے پرتو سے تھا یہ برج منور
اب ان کا مقابر میں تہ خاک ہے بستر
اس عہد کا باقی کوئی ساماں ہے۔ نہ اسباب

فوارے شکستہ ہیں۔ تو سب حوض ہیں بے آب
وہ جام بلوریں ہیں۔ نہ و ہ گوہر نایاب
وہ چلمن زرتار ۔ نہ وہ بستر کم خواب

ہنگامہ جو گزرا ہے۔ سو افسانہ تھا یا خواب
یہ معرض خدام تھا۔ وہ موقف حجاب

وہ بزم۔ نہ وہ دور۔ نہ وہ جام ۔ نہ وہ ساقی
ہاں ! طاق و رواق اور در و بام باقی

مستور سراپردہ عصمت میں تھے جا گل
سود ودہ ترک اور مغل ہی سے نہ تھے کل

کچھ خیری فرغانہ تھے۔ کچھ لالہ کابل
پھر مولسری ہند کی ان میں گئی مل جل

تعمیر کے انداز کو دیکھو بہ تامل
تاتار ی و ہندی ہے بہم شان و تجمل

سیاح جہاندیدہ کے بزدیک یہ تعمیر
اکبر کے خیالات مرکب کی ہے تصویر

درشن کے جھروکے کی پڑی تھی یہیں بنیاد
ہوتی تھی تو دلان میں کیا کیا دہش و داد

زنجیر عدالت بھی ہوئی تھی یہیں ایجاد
جو سمع شہنشاہ میں پہنچاتی تھی فریاد

وہ بور جیاں اور جہانگیر کی افتاد
اس کاخ ہمایوں کو بی تفصیل ہے سب یاد

ہر چند کہ بیکار یہ تعمیر پڑی ہے
قدراس کی مورخ کی نگاہوں میں بڑی ہے

اب دیکھئے وہ مسجد و حمام زنانہ
وہ نہر ۔ وہ حوض۔ اور وہ پانی کا خزانہ

۹۳۔

صنعت میں ہر اک چیز ہے یکتا ویگانہ
ہے طرز عمارت سے عیاں شان شہانہ

کیا ہو گئے وہ لوگ! کہاں ہے وہ زمانہ!
ہر سنگ کے لب پر ہء غم اندوز ترانہ

چغتائیہ گلزار کی یہ فصل خزاں ہے
ممتاز محل ہے نہ یہاں نور جہاں ہے

وہ قصر جہاں جودھ پوری رہتی تھی بائی
تھی دولت و ثروت نے کہاں دھوم مچائی

دیکھا اسے جا کر۔ تو بری گت نظر آئی
صحنوں میں جمی گھاس۔ تو دیواروں پہ کائی

گویا در و دیوار یہ دیتے ہیں دہائی
ممکن نہیں طوفان حوادث سے رہائی

جس گھر میں تھے نسرین و سمن یا گل لالہ
اب نسل ابابیل میں ہے اس کا قبالہ

وہ مسجد زیبا۔ کہ ہے اس بزم کی دلہن
خوبی میں یگانہ ہے۔ ولے سادہ و پر فن

محراب و در وبام ہیں سب نور کا مسکن
موتی سے ہیں دلان۔ تو ہے دو دسا آنگن

کافور کا تودہ ہے۔ کہ الماد کا معدن
یا فجر کا مطلع ہے۔ کہ خود روز ہے روشن

بلور کا ہے قاعدہ یا نور کا ہے راس
باطل سی ہوئی جاتی ہے یاں قوت احساس

ہاتھوں نے ہنرمند کے اک سحر کیا ہے
شانچہ عمارت کو مگر ڈھال دیا ہے

یاتار نظر س کہیں پتھر کو سیا ہے
مرمر میں مہ و مہر کا سا نور و ضیا ہے

نے شمع۔ نہ فانوس۔ نہ بتی۔ نہ دیا ہے
ہاں چشمہ خورشید سے آب اس نے پیا ہے

چلئے جو یہاں سے تو نظر کہتی ہے فی الفور
نظاری کی دو مجکو اجازت کوئی دم اور
 

مقدس

لائبریرین
۹۴۔

مسجد نے اشارہ کیا پتھر کی زبانی
اس قلعہ میں ہوں شاہجاں کی میں نشانی

کچھ شولت ماضی کی کہی اس نے کہانی
کچھ حالت موجود بایں سحر بیانی

"ان حجروں میں ہے شمع۔ نہ اس حوض میں پانی
فواروں کے دل میں بھی ہے ایک درد نہانی

تسبیح ۔ نہ تہلیل۔ نہ تکبیر و اذاں ہے
بس گوشہ تنہائی ہے اور قفل گراں ہے"

جمگھٹ تھا کبھی یاں وزرا و امرا کا
مجمع تھا کبھی یاں صلحا و علما کا

چرچا تھا شب و روز یہاں ذکر خدا کا
ہوتا تھا ادا خطبہ سدا حمد و ثنا کا

اک قافلہ ٹھیرا تھا یہاں عز و علا کا
جو کچھ تھا گزر جانے میں جھونکاتھا ہوا کا

ہیں اب تو نمازی مرے باقی یہی دو تین
یا دھوپ ہے یا چاندنی یا سایہ مسکیں

وہ دور ہے باقی نہ وہ ایام و لیالی
وہ واقعہ حسی تھا سو ہے آج خیالی

ہر کو شک و ایواں، ہر اک منزل عالی
عبرت سے ہے پر اور مکینوں سے خالی

آقا نہ خداوند ۔ اہالی۔ نہ موالی
جز ذات خدا کوئی نہ وارث ہے۔ نہ والی

یہ جملہ محلات۔ جو سنسان پڑے ہیں
پتھر کا کلیجہ کئے حیران کھڑے ہیں

جب کند ہوئی دولت مغلیہ کی تلوار
اور لوٹ کیا جاٹ نے ایوان طلا کار

تب لیک جوتھا لشکر انگلش کا سپہدار
افواج مخالف سے ہوا برسر پیگا

یہ بارہ و برج اور یہ ایوان۔ یہ دیوار
کچھ ٹوٹ گئے ضرب سے لوگوں کی بہ ناچار

ہے گردش ایام کے حملوں کی کسے تاب

۹۵

پھر قلعہ اکبر ہی میں تھا کبا پر سرخاب!

آخر کو مخالف کی شکستہ ہوئی قوت
اونچا ہوا سرکار کے اقبال کا رایت

لہرانے لگا پھر علم امن و حفاظت
آثار قدیمہ کی لگی ہونے مرمت

یہ بات نہ ہوتی۔ تو پہنچتی وہی نوبت
دیوار گری آج۔ تو کل بیٹھ گئی چھت

حکام زماں کی کو نہ ہوتی نگرانی
رہ سکتی نہ محفوظ یہ مغلیہ نشانی

ارباب خرد چشم بصیرے سے کریں غور
اکبر کی بنا اس سے بھی پایندہ ہے اک اور

سردی کی جفا جس پے نہ گرمی کا چلے جوت
ہر چند گزر جائین بہت قرن۔ بہت دور

برسوں یونہیں پھرتے رہیں برج حمل و ثور
اس میں نہ خلل آئے کسی نوع۔ کسی طور

انجینیروں کی بھی مرمے سے بری ہے
وہ حصن حصین کیا ہے فقط ناموری ہے

او اکبر ذیجاہ! ترے عزت و تمکیں
محتاج مرمت ہے۔ نہ مستلزم تزئیں

کندہ ہیں دلوں میں تری الفت کے فرامیں
ہے تیری محبت کی بنا اک دژ روءیں

گو حملہ بےسود کرے بھی کوئی کم بیں
زائل نہیں ہونے کی ترے عہد کی تحسیں

پشتوں سے رعایا میں بہ آئین وراثت
قائم چلی آتی ہے ترے نام کی عظمت

بکرم کی سنھا کو تری صحبت نے بھلایا
اور بھوج کا دورہ تری شہرت نے بھلایا

ارجن کو تری جرات و ہمت نے بھلایا
کسری کو ترے دور عدالت نے بھلایا

اسکندر و جم کو تری شوکت نے بھلایا
پچھلوں کو۔ غرض تیری عنایت نے بھلایا

۹۶

آتے ہیں زیارت کو تو اب تک ہے یہ معمول
زائر تری تربت پہ چڑھا جاتے ہیں دو پھول

ہو کہنہ و فرسودہ ترا قلعہ تو کیا غم
شہرت ہے ترے نام کی سو قلعوں سے محکم

بھرتا ہے ہر اک فرقہ محبت کا ترے دم
لکھتے ہیں مورخ بھی تجھے اکبر اعظم

رتبہ ترا ہند کے شاہوں میں مسلم
یہ فخت ترے واسطے زنہار نہیں کم

گو خاک میں مل جاے ترے عہد کی تعمیر
ہے کتبہ عزت ترا ہر سینہ میں تحریر


۹۷

رباعیات

خواجہ الطاف حسین حالی

(۱)

چھوڑو کہیں جلد مال و دولت کا خیال
مہمان کوئی دن کے ہیں۔ دولت ہو۔ کہ مال

سرمایہ کرو وہ جمع۔ جس کو نہ کبھی
اندیشہ فوت ہو۔ نہ ہو خوف زوال

(۲)

موجود ہنر ہوں ذات میں جس کی ہزار
بدظن نہ ہو۔ عیب اس میں اگر ہوں دو چار

طاوَس کے پاے زشت پر کر کے نظر
کر حسن و جمال کا نہ اس کے انکار

(۳)
ہیں یار رفیق۔ پر مصیبت میں نہیں
ساتھی ہیں عزیز۔ لیک ذلت میں نہیں

اس بات کی انساں سے توقع عبث
جو نوع بشر کی خود جبلت میں نہیں

(۴)

ہیں جہل میں سب عالم و جاہل ہمسر
آتا نہیں فرق اس کے سوا ان میں نظر

عالم کو ہے علم اپنی نادانی کا
جاہل کو نہیں جہل کی کچھ اپنے خبر


از مولف

(۱)

تیزی نہیں منجملہ اوصاف کا کمال
کچھ عیب نہیں۔ اگر چلو دھیمی چال

خوگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی
ہاں! راہ طلب میں شرط ہے استقلال
 

مقدس

لائبریرین
۹۸

(۲)

گر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے
یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے

اپنے ہی لئے ہے سب نہ اوروں کے لئے
اپنے ہاتھوں نے کو کمائی کی ہے

(۳)

دین اور دنیا کا تفرقہ ہے مہمل
نیت ہی یہ موقف ہے تنفیح عمل

دنیاداری بھی عین دین داری ہے
مرکوز ہو فر رضاے حق عز و جل

(۴)

دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہر گز
ڈھونڈا۔ تو کہیں پتا نہ پایا ہر گز

کھونا پاتا ہے سب فضولی اپنی
یہ خبط نہ ہو مجھے خدایا ہر گز


امیر مینائی

(۱)
گھر کھدنے کی پوچھو نہ مصیبت ہم سے
روتی ہے لپٹ لپٹ کے حسرت ہم سے

یا ہم جاتے تھے گھر سے رخصت ہو کر
یا گھر ہوتا ہے آج رخصت ہم سے

(۲)
بالفرض حیات جادوانہ تم ہو
نالفرض۔ کہ آب زندگانی تم ہو

ہم سے نہ لو۔ تو خاک سمجھیں تم کو
لیں نام نہ پیاس کا۔ جو پانی تم ہو


غالب

(۱)
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تاشاہ شیوع دانش و داد کرے

۹۹
یہ دی گئی ہے رشتہ عمر میں گانٹھ
ہے صفر۔ کہ افزائش اعداد کرے

(۲)

ان سیم کے بیجوں کو کوئی کیا جانے؟
بھیجے ہیں جو ارمغاں شہ والا نے

گن کر دیوینگے ہم دعائیں سو بار
فیروزہ کی تسبیح کے ہیں یہ دانے

امیر انیس

(۱)

پرساں کوئی کب جوہر ذاتی کا ہے
ہر گل کو گلہ کم التفاتی کا ہے

شبنم سے کو وجہ گریہ پوچھی۔ تو کہا
رونا فقط اپنی بے ثباتی کا ہے

(۲)
جو شے ہے فنا اسے بقا سمجھا ہے
جو چیز ہے کم اسے سوا سمجھا ہے

ہے بحر جہاں میں عمر مانن حباب
غافل! اس زندگی کو کیا سمجھا ہے|؟

(۳)

ہشیار! کہ وقت ساز و برگ آیا ہے
ہنگام یخ و برف و تگرگ آیا ہے

محتاج عصا ہوئے تو پیری نے کہا
چلئے۔ اب چومدار مرگ آیا ہے

(۴)

گلشن میں پھروں۔ کہ سیر صحرا دیکھوں
یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں

ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہوں۔ کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں!

(۵)

انسان ہی کچھ اس دور میں پامال نہیں
سچ ہے کوئی آسودہ و خوش حال نہیں

۱۰۰

اندیشہ آشیان و خوف صیاد
مرغان چمن بھی فارغ البال نہیں

(۶)
ہر طرح سے یہ سراے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آںی جانی دیکھی

جو آکے نہ جاے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی

میر تقی

(۱)

ہم میرے سے کہتے ہیں۔ نہ رویا کر
ہنس کھیل کے ٹک چین سے بھی سویا کر

پایا نہیں جانے کا وہ در نایاب
کڑھ کڑھ کے عبث جان کو مت کھویا کر

(۲)
راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھئے
مائل دل تنگ کو قضا پر رکھئے

بندوں سے تو کچھ کام نہ نکلا اے میر
سب کچھ موقوف اب خدا پر رکھئے

(۳)

ملئے اس شخص سے جو آدم ہووے
ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے

ہو گرم سخن تو گرد آوے اک خلق
خاموش رہے تو ایک عالم ہووے
 

محمد وارث

لائبریرین
میری طرف سے فہیم اور مقدس آپ دونوں کو اس خوبصورت کام کیلیے بہت مبارک باد، زبانِ اردو کی اشاعت اور ترویج کیلیے آپ کی بے لوث سعی کا اجر رب العالٰمین ہی دے سکتا ہے، جزاک اللہ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھیا آپ کر لیں لیکن ڈانٹیے گا نہیں غلطیوں پہ پلیز
ہا ہا۔ پروف ریڈنگ ہوتی ہی اس لئے ہے کہ ٹائپنگ کی غلطیوں کو درست کیا جائے۔ ڈانٹنا کیوں ہے بھلا۔ :) اور یہ بتائیں کہ کیا یہ کتاب مکمل ہو چکی ہے؟ اور اسکا سکین شدہ متن کہاں ہے؟ اس کا بھی لنک دے دیجیے۔
 

فہیم

لائبریرین
ہا ہا۔ پروف ریڈنگ ہوتی ہی اس لئے ہے کہ ٹائپنگ کی غلطیوں کو درست کیا جائے۔ ڈانٹنا کیوں ہے بھلا۔ :) اور یہ بتائیں کہ کیا یہ کتاب مکمل ہو چکی ہے؟ اور اسکا سکین شدہ متن کہاں ہے؟ اس کا بھی لنک دے دیجیے۔

جی مکمل ہوچکی ہے پوری۔
اسکین متن پی ڈی ایف کی صورت میں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کرلیجئے۔

باقی ٹائپ شدہ مواد اسی تھریڈ میں ترتیب وار پوسٹ ہوا وا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ مجھے کچھ ایسا یاد آ رہا ہے کہ میں ای بک بنا چکا ہوں لیکن پرانی برقی کتابوں میں تو شامل نہیں ہے۔ دیکھتا ہوں اپنے سٹاک میں کہیں اس کی ورڈ فائل ہے یا نہیں
 
جاب سے آکر بھیجتی ہوں بھیا
مولوی اسمعیل کی مرتب کردہ توزک اردو خاصی ضخیم ہے۔ ٹائپ شدہ مندرجات کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کی ٹائپنگ مکمل نہیں ہوئی اور کسی وجہ سے تعویق کا شکار ہو گئی۔ یہ کتاب تقریباً پونے چار سو صفحات پر محیط ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
مولوی اسمعیل کی مرتب کردہ توزک اردو خاصی ضخیم ہے۔ ٹائپ شدہ مندرجات کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کی ٹائپنگ مکمل نہیں ہوئی اور کسی وجہ سے تعویق کا شکار ہو گئی۔ یہ کتاب تقریباً پونے چار سو صفحات پر محیط ہے۔
کیوں نہیں۔
بقول شعیب یہ مکمل نہیں، اسے مکمل کیا جا سکتا ہے۔
بھیا جو لنک ہمیں دیا گیا تھا اس میں 206 صفحات تھے۔۔۔ آپ اگر دوسرا لنک دیں تو اس کو مکمل کرتے ہم
 
Top