بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
سوچیے!!!
ہم نے دو نو عمر بچوں کو لیا، ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا۔ شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو روپے اور مزدور بچہ دیڑھ سو روپے کما کر لایا۔اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔
دراصل بحیثیت قوم ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ چھوٹے ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں۔
ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو وہ اپنی جائز ضروریات پوری کر کے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا۔
کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں اور بھیک کے لیے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں۔ مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو گداگر نہیں۔ اس ملک میں لاکھوں طالب علم ، مریض ، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں۔ صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرانے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔
یاد رکھیے ، بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی، بلکہ بڑھتی ہے۔ خیرات دیں، منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ تاکہ حق دار کو اس کا حق ملے۔ اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی۔۔۔
(منقول)
 

سیما علی

لائبریرین
سوچیے!!!
ہم نے دو نو عمر بچوں کو لیا، ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا۔ شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو روپے اور مزدور بچہ دیڑھ سو روپے کما کر لایا۔اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔
دراصل بحیثیت قوم ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ چھوٹے ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں۔
ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو وہ اپنی جائز ضروریات پوری کر کے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا۔
کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں اور بھیک کے لیے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں۔ مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو گداگر نہیں۔ اس ملک میں لاکھوں طالب علم ، مریض ، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں۔ صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرانے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔
یاد رکھیے ، بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی، بلکہ بڑھتی ہے۔ خیرات دیں، منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ تاکہ حق دار کو اس کا حق ملے۔ اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی۔۔۔
(منقول)
سر بہت حساس موضوع ہے ۔اور
اس معاشرتی ناسور کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ غربت اور بے روزگاری کو ختم کیا جائے، جن خواتین اور بچوں کا سرپرست نہیں، ریاست ان کے گزر بسر کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ حکومت بھکاری مافیا سے نمٹنے کے لیے قانون کے مطابق سخت سے سخت کارروائی کرے، تاکہ اس میں کمی ہوسکے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ پیشہ ور بھکاریوں کی مدد نہ کریں، بلکہ ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ پیشہ ور بھکاریوں کی بجائے ان لوگوں کی مدد کی جائے جو آپ کے خاندان، رشتہ دار، اڑوس پڑوس اور معاشرے میں غربت اور تنگ دستی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہوں، مگر اپنی خودداری کی خاطر کسی سے بھیک نہ مانگتے ہوں۔وہ ہمارے لئے زیادہ محترم ہونا چاہیے۔
 
Top