ایک کہانی

سید رافع

محفلین

صرف ایک بھی ملنا دشوار ہے۔

کراچی کی اردو اسپیکنگ کمیونٹی میں دوسری شادی مرد کے لیے طعنے کا باعث ہوتی ہے۔ جبکہ باکرہ، طلاق یافتہ یا بیوہ (بچوں یا بغیر بچوں والی) کا رشتہ کراچی کی اردو بولنے والی کمیونٹی میں سخت ناگواری سے منع کر دیا جاتا ہے۔ بے حد دین داری کی شرط لگا دیں تو آپ کو جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی، دعوت اسلامی، تبلیغی جماعت، جماعت الدعوہ، خانقاہ اشرفیہ یا دارلعلوم کورنگی سے وابستہ گھرانوں کی لڑکیاں ملیں گی لیکن ان میں بھی طلاق یافتہ، بیوہ یا پھر کسی نسوانی عیب میں مبتلا خاتون کا رشتہ ملے۔ بعض ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبوں میں اعلی تعلیم یافتہ سادات و غیر سادات گھرانوں کی لڑکیاں بھی بے حد سلجھی ہوئی دین دار ہیں لیکن وہاں بھی دوسری شادی سخت عار سمجھی جاتی ہے چاہے لڑکی باکرہ، طلاق یافتہ یا بیوہ (بچوں یا بغیر بچوں والی) ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وہ گھرانے ہیں جہاں کی بے حد دین دار خاتون کی مجھے تلاش ہے۔

کراچی میں پٹھان اور پنجابی آبادی بھی ہے۔ پٹھان آبادی میں سادات و غیر سادات گھرانے دونوں ہیں۔ یہ پٹھان گھرانے باکرہ لڑکی کی ایسی جگہ بھی شادی کر دیتے ہیں جہاں دوسری شادی کی ضرورت ہو۔ کراچی میں دوسری شادی کا سب سے بڑا حصہ انہی گھرانوں میں ہیں۔ لیکن یہ کراچی کا سب سے پسماندہ اور کم تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ زیادہ تر ٹرانسپورٹ یا مزدور پیشہ ہے۔ پنجابی گھرانوں کا دوسری شادی کے ضروتمند کے لیے رشتہ دینے کا ملتا جلتا رویہ ہے۔

ویسے ایک اور ہو جائے تو دو ہو جائیں گی۔ دو کو ایک پر فضیلت ہے۔ ایک کا تذکرہ کلام الہی میں بعد میں ہے۔

4:3 ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)

بلکہ تین کو یہاں تک کہ چار کو بھی ایک پر فضیلت ہے ورنہ ایک کا ذکر سب سے آخر میں نہ آتا۔

یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ آج کل کے تیز رفتار دور میں کسی پر کہیں کوئی ظلم نہ ہو جائے۔

4:3 تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔



لڑکی وہ بھی باکرہ سے نکاح زیادہ فائدہ مند ہے۔ وہ آپ کے ساتھ کھیلتی، ہنستی بولتی رہتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر سے گھر کی جانب جلدی جانے کی وجہ دریافت فرمائی تو سیدنا جابر نے عرض کیا کہ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا شادی شدہ (بیوہ یا طلاق یافتہ)عورت سے ۔تو میں نے عرض کیا کہ شادی شدہ عورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی تاکہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی ۔''(صحیح الصحیح بخاری کتاب النکاح باب تزویج الثیبات رقم الحدیث 5079)

لڑکی کا مطلب ہے عمر 15 سے 27 سال تک ہو چاہے باکرہ ہو یا طلاق یافتہ یا بیوہ ہو۔ خاتون 27 سے 40 سال تک۔ جبکہ ادھیڑ عمر خاتون 40 سے 48 سال تک۔

آج کل طلاق کی زیادتی کی وجہ سے کثیر تعداد میں لڑکیاں موجود ہیں۔ ان میں سے بعض بے حد دین دار ہیں۔


میری پیدائش 1974 کی ہے۔ سو کوئی 46 سال عمر ہوئی۔ یہ کوئی زیادہ عمر تو نہیں! :)

ویسے شادی کے وقت اگر عمر میں دولہا 5 سال تک بڑا ہو تو لڑکی کے لیے ہی اچھا ہے۔ یہ عام شادی کے لیے پرانا قاعدہ ہے۔ زیادہ عمر کی خاتون سے شادی اس وقت اچھی ہوتی ہے جب آپکو اپنی بیوی کے انتقال کے بعد اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے کسی خاتون کی ضرورت ہو جو انکی تربیت کر سکے۔ ان زیادہ عمر کی خواتین کو آپ بھی انکے بچوں کی تربیت کی خاطر نکاح میں لے سکتے ہیں۔ ایسی شادی میں فوکس آپ نہیں بلکہ آپ کے یا خاتون کے بچے ہوتے ہیں۔

ایسی شادی جس میں آپ کسی طلاق یافتہ لڑکی یا اس بھی اچھا کسی باکرہ لڑکی سے شادی کرتے ہیں تو شادی کا فوکس خود آپ کی اپنی ذات ہوتی ہے۔ آپ یہ شادی اس لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ کھیلتی، ہنستی بولتی رہے اور آپ اسکے ساتھ۔ اس طور سے زندگی اچھی گزرتی ہے۔ اس ضمن میں یہ جان لیجیے کہ کنواری عورتوں کی ترغیب دلانا سنت رسول ﷺ ہے۔ اگر مردوں کی بہتری کنواری کمر عمر لڑکیوں میں نہ ہوتی بلکہ بڑی عمر کی بیوہ، طلاق یافتہ میں ہوتی تو اس پر ترغیب نہ دلائی جاتی۔ لیکن اصل بات یہ ہے:

''کنواری لڑکیوں سے نکاح کرو اس لئے کہ وہ شیریں زبان ہوتی ہیں ، ان سے اولاد زیادہ ہوتی ہے اور وہ قلیل عطیہ پر خوش ہوجاتی ہیں'' (ابن ماجہ کتاب النکاح باب تزویج الابکار رقم الحدیث 1861حسنہ الالبانی ۔)
 

زیک

مسافر
لڑکی کا مطلب ہے عمر 15 سے 27 سال تک ہو

میری پیدائش 1974 کی ہے۔ سو کوئی 46 سال عمر ہوئی۔ یہ کوئی زیادہ عمر تو نہیں!
لڑکی کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔ میرے ایک دوست کا فارمولا ہے کہ اپنی عمر کو دو سے تقسیم کریں اور پھر اس میں سات جمع کر دیں۔ جو نتیجہ آئے وہ کم از کم عمر ہے جس سے آپ شادی کر سکتے ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
لڑکی کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔ میرے ایک دوست کا فارمولا ہے کہ اپنی عمر کو دو سے تقسیم کریں اور پھر اس میں سات جمع کر دیں۔ جو نتیجہ آئے وہ کم از کم عمر ہے جس سے آپ شادی کر سکتے ہیں۔

46/2 + 7 = 23 + 7 = 30 سال

30 سال کی باکرہ لڑکی 15 یا 18سال کی طلاق یافتہ یا بیوہ کی مانند ہی ہوتی ہے۔ جو لڑکیاں نسوانی عیب سے پاک ہوں وہ 30 سال کی عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں الا یہ کہ پی ایچ ڈی یا میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ 30 سال کی عمر تک باکرہ وہی لڑکیاں بچتی ہیں جن میں نسوانی حسن کی بے حد کمی ہو۔ یا کسی بیماری میں مبتلا ہوں۔
 

زیک

مسافر
46/2 + 7 = 23 + 7 = 30 سال

30 سال کی باکرہ لڑکی 15 یا 18سال کی طلاق یافتہ یا بیوہ کی مانند ہی ہوتی ہے۔ جو لڑکیاں نسوانی عیب سے پاک ہوں وہ 30 سال کی عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں الا یہ کہ پی ایچ ڈی یا میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ 30 سال کی عمر تک باکرہ وہی لڑکیاں بچتی ہیں جن میں نسوانی حسن کی بے حد کمی ہو۔ یا کسی بیماری میں مبتلا ہوں۔
اب سمجھ گیا کہ آپ کی اب تک شادی کیوں نہیں ہوئی
 

سید رافع

محفلین
اب سمجھ گیا کہ آپ کی اب تک شادی کیوں نہیں ہوئی

اپنی بیوی کے ساتھ رہنے کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ "ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو"۔ اسی اصول کے تحت صبر آتا ہے اور اس تصور سے کہ آگے جنت میں حوریں ہیں۔ ورنہ دنیا کی محبت انسان سے نا جانے کس راستے پر چلا دے۔

4:19 فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْ۔۔ًٔ۔ا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا
ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

انسان کا سعادت مند یا دین دار ہونا اسکا مقدر ہے۔ اس پر کلام کرنا بے فائدہ ہے۔ مثلاً عین ایک دین دار گھرانے میں ایک کافرہ لڑکی پیدا ہو سکتی ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں سورہ کہف میں ہے۔ یہاں تک کہ نبی کے یہاں بھی اسکا بیٹا کافر پیدا ہو سکتا ہے۔ اسکے برعکس عین امت محمدیہ ﷺ کے فرعون یعنیٰ ابو جہل کے گھر جناب عکرمہ بن ابو جہل پیدا ہو سکتے ہیں جو ایمان لا کر جہاد میں شہید ہوئے۔

18:80 اور وہ جو لڑکا تھا تو اس کے ماں باپ صاحبِ ایمان تھے پس ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (اگر زندہ رہا تو کافر بنے گا اور) ان دونوں کو (بڑا ہو کر) سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔

11:42 نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ ان سے الگ (کافروں کے ساتھ کھڑا) تھا: اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ۔

لیکن ایک سطحی تجزیہ یہ ہے۔ غور کیجیے گا کہ تقدیر کس قدر گہرا اور سیاہ سمندر ہے کہ ہم ذیل کی گفتگو میں خاندان، آباو اجداد کے کروموسوم، موسم اور علاقے کے اثرات، دوست و معاشرے کے اثرات، غذا اور اسکول کے اثرات اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ہیں سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہ لہر در لہر انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسی لیے مقدر پر ایمان لایا جاتا ہے۔ لفظ کیوں کے ذیل میں جو سوال آتے ہیں وہ اکثر مقدر پر ایمان کے علم میں کمزوری کے باعث ہوتے ہیں۔

سب سے مضبوط گھرانا وہ ہوتا ہے جہاں رشتے داری کا خیال سب سے زیادہ ہو۔ یہاں صرف بہترین لوگوں کو ہی رشتے ملتے ہیں کیونکہ یہ رشتے داروں مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ اور دیگر رشتے داروں کا مسلسل خیال رکھ کر خود کو بہترین ثابت کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ گھرانے اپنے سب رشتے داروں کے نقطہ نظر سے لڑکے کو دیکھتے ہیں اور اکثر معاملات میں مشورہ بھی لیتے ہیں۔ ایسے گھرانے کم ہیں لیکن ناپید نہیں ہیں۔ ان گھرانوں پر مشورے اور لحاظ کی ایک قوی تہہ چڑھی ہوتی ہے۔ ان گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے صرف خاص عقیدت مندی کی وجہ سے رشتہ ملتا ہے۔ یا لڑکی ہی نسوانی حسن سے محروم ہو۔ لیکن عموماً ان گھرانوں کی لڑکیاں خوب تربیت یافتہ ہوتی ہیں۔ اور اگر دینی تربیت کا انتظام ہے تو خوب دین دار ہوتی ہیں۔ یہ ایک اچھی رفیق حیات ثا بت ہو سکتی ہیں کیونکہ انکی تربیت پر پورا گھرانا لگا ہوا تھا۔شادی کے بعد آپکو اسکی بہت کم ہی تربیت کرنا ہو گی۔

اس سے کمزور گھرانا وہ ہوتا ہے جہاںصرف گھر کے افراد سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ مثلاً ماں باپ، بیٹا، بیٹی، دادا، دادی۔ ان گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے صرف خاص عقیدت مندی کی وجہ سے رشتہ ملتا ہے۔ یا لڑکی ہی نسوانی حسن سے محروم ہو۔ ان گھرانوں کی لڑکیا ں بھی خوب دین دار اور اگر جدید تعلیم کا انتظام ہے تو باشعور بھی ہوتی ہیں۔ یہ ایک اچھی رفیق حیات ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ انکی تربیت پر پورا گھرانا لگا ہوا تھا۔ شادی کے بعد آپکو اسکی بہت کم ہی تربیت کرنا ہو گی۔

ایسا گھرانا جہاں ماں یا باپ کا انتقال ہو چکا ہو وہاں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے لڑکی کچھ چھان پھٹک کے بعد مل جاتی ہے۔ ان گھرانوں میں لڑکی کی تربیت کا معقول انتظام نہیں ہوتا الا یہ کہ رشتے دار مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ لڑکی سے بے حد مخلص ہوں۔عموماً لڑکی اگر دین دار ہو بھی تو اسکے تصوارت خام ہوں گے ۔ اگر جدید تعلیم یافتہ ہے تو امکان ہے کہ اپنی تربیت کا انتظام نہ کر پائی ہو گی۔ خاص کر اگر صرف باپ ہو تو وہ اپنے بزنس یا جاب کی وجہ سے زائد توجہ شاید ہی دے پائے۔ اصل ہے کہ لڑکی پر کتنی توجہ دی گئی ہے اور اسکو کتنے مخلص رشتے میسر ہیں۔ اس کو ان مخلص لوگوں نے تربیت کے کن کن مراحل سے گزارا گیا ہے۔اگر ماں زندہ ہے اور باپ نہیں تو لڑکی گھریلو ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگر ماں یا باپ نے شادی کر لی ہے تب نئی آنے والی ماں یا باپ کی اپنی تربیت پر یتیم بچوں کی تربیت کا درومدار ہوتا ہے۔ نئے ہونے والے بچوں اور شادی سے قبل کے بچوں میں توازن رکھنا خوب صبر اور توجہ مانگتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایسے گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے لڑکی مل جاتی ہے۔

اسی سے ملتا جلتا گھرانا وہ ہوتا ہے کہ اگر باپ دوسری شادی کر لے۔ ایسے گھرانوں میں کیونکہ باپ نے خود دوسری شادی کی ہوتی ہے چنانچہ وہ بھی کسی دوسری شادی کے خواہشمند فرد کو رشتہ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ چھان پھٹک ہوتی ہے۔ رشتے داروں مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ سے مشورہ بھی ہوتا ہے ۔

اگر آپ شادی کے لیے ہر شرط ہٹا دیں تو دنیا بھر کی لڑکیاں آپکی کی دسترس میں ہیں۔ سکھ، ہندو، عیسائی خاص کر یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسڑیلیا کےعیسائی اور دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمان۔ ایسے میں آپ پر تربیت کی ذمہ داریاں بے حد بڑھ جائیں گی۔ مثلاً لڑکی کو مسلمان کرنا۔ بچوں کو مسلمان رکھنا۔ بچوں کے نانا نانی کے مذہب اور ان ممالک کے اثر ات سے بچوں کو محفوظ و مطمئن رکھنا۔ یہ سخت جدوجہد والا صبر آزما کام ہے۔ جاب، بزنس اور اس دور کی تیز رفتاری کے باعث ایسی شادی میں سرخرو ہونا بے حد دشوار ہے الا یہ کہ عورت سابقہ انبیاء کی اولادوں میں سے ہو۔ حق کو قبول کرنے والی ہو۔ جدید تعلیم سے آراستہ ہو اور خوب باشعور ہو۔ اپنے کئیرئیر سے زیادہ بچوں کو توجہ اور وقت دینا اہم سمجھتی ہو۔ اسلام کو دل وجان سے چاہتی ہو۔ لغو سے دور ہو۔
 

زیک

مسافر
اپنی بیوی کے ساتھ رہنے کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ "ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو"۔ اسی اصول کے تحت صبر آتا ہے اور اس تصور سے کہ آگے جنت میں حوریں ہیں۔ ورنہ دنیا کی محبت انسان سے نا جانے کس راستے پر چلا دے۔

4:19 فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْ۔۔ًٔ۔ا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا
ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

انسان کا سعادت مند یا دین دار ہونا اسکا مقدر ہے۔ اس پر کلام کرنا بے فائدہ ہے۔ مثلاً عین ایک دین دار گھرانے میں ایک کافرہ لڑکی پیدا ہو سکتی ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں سورہ کہف میں ہے۔ یہاں تک کہ نبی کے یہاں بھی اسکا بیٹا کافر پیدا ہو سکتا ہے۔ اسکے برعکس عین امت محمدیہ ﷺ کے فرعون یعنیٰ ابو جہل کے گھر جناب عکرمہ بن ابو جہل پیدا ہو سکتے ہیں جو ایمان لا کر جہاد میں شہید ہوئے۔

18:80 اور وہ جو لڑکا تھا تو اس کے ماں باپ صاحبِ ایمان تھے پس ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (اگر زندہ رہا تو کافر بنے گا اور) ان دونوں کو (بڑا ہو کر) سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔

11:42 نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ ان سے الگ (کافروں کے ساتھ کھڑا) تھا: اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ۔

لیکن ایک سطحی تجزیہ یہ ہے۔ غور کیجیے گا کہ تقدیر کس قدر گہرا اور سیاہ سمندر ہے کہ ہم ذیل کی گفتگو میں خاندان، آباو اجداد کے کروموسوم، موسم اور علاقے کے اثرات، دوست و معاشرے کے اثرات، غذا اور اسکول کے اثرات اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ہیں سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہ لہر در لہر انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسی لیے مقدر پر ایمان لایا جاتا ہے۔ لفظ کیوں کے ذیل میں جو سوال آتے ہیں وہ اکثر مقدر پر ایمان کے علم میں کمزوری کے باعث ہوتے ہیں۔

سب سے مضبوط گھرانا وہ ہوتا ہے جہاں رشتے داری کا خیال سب سے زیادہ ہو۔ یہاں صرف بہترین لوگوں کو ہی رشتے ملتے ہیں کیونکہ یہ رشتے داروں مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ اور دیگر رشتے داروں کا مسلسل خیال رکھ کر خود کو بہترین ثابت کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ گھرانے اپنے سب رشتے داروں کے نقطہ نظر سے لڑکے کو دیکھتے ہیں اور اکثر معاملات میں مشورہ بھی لیتے ہیں۔ ایسے گھرانے کم ہیں لیکن ناپید نہیں ہیں۔ ان گھرانوں پر مشورے اور لحاظ کی ایک قوی تہہ چڑھی ہوتی ہے۔ ان گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے صرف خاص عقیدت مندی کی وجہ سے رشتہ ملتا ہے۔ یا لڑکی ہی نسوانی حسن سے محروم ہو۔ لیکن عموماً ان گھرانوں کی لڑکیاں خوب تربیت یافتہ ہوتی ہیں۔ اور اگر دینی تربیت کا انتظام ہے تو خوب دین دار ہوتی ہیں۔ یہ ایک اچھی رفیق حیات ثا بت ہو سکتی ہیں کیونکہ انکی تربیت پر پورا گھرانا لگا ہوا تھا۔شادی کے بعد آپکو اسکی بہت کم ہی تربیت کرنا ہو گی۔

اس سے کمزور گھرانا وہ ہوتا ہے جہاںصرف گھر کے افراد سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ مثلاً ماں باپ، بیٹا، بیٹی، دادا، دادی۔ ان گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے صرف خاص عقیدت مندی کی وجہ سے رشتہ ملتا ہے۔ یا لڑکی ہی نسوانی حسن سے محروم ہو۔ ان گھرانوں کی لڑکیا ں بھی خوب دین دار اور اگر جدید تعلیم کا انتظام ہے تو باشعور بھی ہوتی ہیں۔ یہ ایک اچھی رفیق حیات ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ انکی تربیت پر پورا گھرانا لگا ہوا تھا۔ شادی کے بعد آپکو اسکی بہت کم ہی تربیت کرنا ہو گی۔

ایسا گھرانا جہاں ماں یا باپ کا انتقال ہو چکا ہو وہاں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے لڑکی کچھ چھان پھٹک کے بعد مل جاتی ہے۔ ان گھرانوں میں لڑکی کی تربیت کا معقول انتظام نہیں ہوتا الا یہ کہ رشتے دار مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ لڑکی سے بے حد مخلص ہوں۔عموماً لڑکی اگر دین دار ہو بھی تو اسکے تصوارت خام ہوں گے ۔ اگر جدید تعلیم یافتہ ہے تو امکان ہے کہ اپنی تربیت کا انتظام نہ کر پائی ہو گی۔ خاص کر اگر صرف باپ ہو تو وہ اپنے بزنس یا جاب کی وجہ سے زائد توجہ شاید ہی دے پائے۔ اصل ہے کہ لڑکی پر کتنی توجہ دی گئی ہے اور اسکو کتنے مخلص رشتے میسر ہیں۔ اس کو ان مخلص لوگوں نے تربیت کے کن کن مراحل سے گزارا گیا ہے۔اگر ماں زندہ ہے اور باپ نہیں تو لڑکی گھریلو ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگر ماں یا باپ نے شادی کر لی ہے تب نئی آنے والی ماں یا باپ کی اپنی تربیت پر یتیم بچوں کی تربیت کا درومدار ہوتا ہے۔ نئے ہونے والے بچوں اور شادی سے قبل کے بچوں میں توازن رکھنا خوب صبر اور توجہ مانگتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایسے گھرانوں میں لڑکے کو دوسری شادی کے لیے لڑکی مل جاتی ہے۔

اسی سے ملتا جلتا گھرانا وہ ہوتا ہے کہ اگر باپ دوسری شادی کر لے۔ ایسے گھرانوں میں کیونکہ باپ نے خود دوسری شادی کی ہوتی ہے چنانچہ وہ بھی کسی دوسری شادی کے خواہشمند فرد کو رشتہ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ چھان پھٹک ہوتی ہے۔ رشتے داروں مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، تایا ،چچا ،پھوپھی، ماموں، خالہ سے مشورہ بھی ہوتا ہے ۔

اگر آپ شادی کے لیے ہر شرط ہٹا دیں تو دنیا بھر کی لڑکیاں آپکی کی دسترس میں ہیں۔ سکھ، ہندو، عیسائی خاص کر یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسڑیلیا کےعیسائی اور دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمان۔ ایسے میں آپ پر تربیت کی ذمہ داریاں بے حد بڑھ جائیں گی۔ مثلاً لڑکی کو مسلمان کرنا۔ بچوں کو مسلمان رکھنا۔ بچوں کے نانا نانی کے مذہب اور ان ممالک کے اثر ات سے بچوں کو محفوظ و مطمئن رکھنا۔ یہ سخت جدوجہد والا صبر آزما کام ہے۔ جاب، بزنس اور اس دور کی تیز رفتاری کے باعث ایسی شادی میں سرخرو ہونا بے حد دشوار ہے الا یہ کہ عورت سابقہ انبیاء کی اولادوں میں سے ہو۔ حق کو قبول کرنے والی ہو۔ جدید تعلیم سے آراستہ ہو اور خوب باشعور ہو۔ اپنے کئیرئیر سے زیادہ بچوں کو توجہ اور وقت دینا اہم سمجھتی ہو۔ اسلام کو دل وجان سے چاہتی ہو۔ لغو سے دور ہو۔
بیگم کی تربیت پر تو اتنا کچھ لکھ دیا اور شوہر کی تربیت کا ذکر ہی نہیں
 

سید رافع

محفلین
بیگم کی تربیت پر تو اتنا کچھ لکھ دیا اور شوہر کی تربیت کا ذکر ہی نہیں

بیگم اور شوہر کسی نہ کسی گھرانے کے ہی ہوں گے۔ اگر اس گھرانے کا سرمایہ سچ ہے تو لڑکا ہو یا لڑکی خیر ہی خیر ہے ورنہ نقصان ہی نقصان ہے۔ جیسا قابل قدر دین دار گھرانا ہو گا، لڑکا اور لڑکی اس تربیت کے نتیجے میں صحیح بیگم و شوہر ہی بنیں گے۔ شوہر کے لیے اصل قاعدہ یہ ہے کہ

4:19 اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو۔

آج کل لوگ ویلفیر فنڈ میں دینے ہی کو صدقہ سمجھتے ہیں اور بلاوں کے ٹلنے کا سبب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ بہترین صدقہ بیوی پر خرچ کرنا ہے۔ ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ بیوی پر خرچ کرنا صدقوں میں بہترین صدقہ ہے۔ اس سے سب سے زیادہ بلائیں ٹلتی ہیں۔ کالا بکرے کا صدقہ دینے سے قبل یہ دیکھ لیں کہ بیوی کو خوش رنگ کپڑے، بچوں کو اچھی کتابیں، کھلونے، تفریح اور من پسند غذا مل رہی ہے۔ سب سے پہلے خرچ میں فیملی کو خوب مستفید کریں۔ پھر اقرباء یعنی ماں باپ، بہن بھائی، انکے بچے، پھر بیوی کے بہن بھائی اور انکے بچے۔ پھر کہیں جا کر دیگر رشتے دار اور پڑوسی و دوست وغیرہ، پھر دیگر غرباء و مساکین۔

حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جو مسلمان اپنے اہل یعنی بیوی اور اقرباء پر کچھ خرچ کرتا ہے اور اس میں ثواب کی توقع رکھتا ہے تو اس کا یہ خرچ اس کے حق میں (بڑا مقبول) صدقہ ہو جاتا ہے۔ (بخاری ومسلم و مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ بہترین صدقہ کا بیان ۔ حدیث 429)


اور یہ مضمون بار بار شوہر کو ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ بہتر دینار وہ ہے جو کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ بہترین صدقہ کا بیان ۔ حدیث 431)

اور اچھے طرح گزر بسر کے باوجود شوہر کو کوئی چیز بیوی کی ناپسند ہو تو قاعدہ یہ ہے کہ

4:19 اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔

لوگ شاید کامل مومن بننے کے لیے نوافل پڑھتے ہوں لیکن کامل اخلاق کا تو تب پتہ چلتا ہے جب انسان بیوی کے لیے بہترین ثابت ہو۔ بیوی اسکے اخلاق کی گواہی دے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو‘‘۔ (ترمذی جلد 1 صفحہ 349)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین

شہوت تو قوت ہے۔ ایک شدید جذبہ ہے۔ جو قرآن میں شہوتوں میں اولین مقام پاتا ہے۔ نہ مال، نہ دولت، نہ بچے، نہ کھیت نہ مال مویشی۔ سب سے بڑھ کر عورت سے محبت کی شہوت۔ اس قوت کی حد نکاح ہے۔ اس کا حد سے نکل جانا نکاح سے نکل جانا ہے۔

قرآن تو اللہ کو بھید کو پہچاننے کی کتاب ہے۔ پھر وہ کون سابھید ہے جو گوری رنگ اور بڑی بڑی آنکھوں والی عورت میں پوشیدہ ہے؟

44:54 اور ہم انہیں گوری رنگت والی کشادہ چشم حوروں سے بیاہ دیں گے

آپ تو قرآن کو توحید کا بھید جاننے کے لیے غور و فکر کریں۔ لیکن ایسا کیا ہے کہ راز کلام الہی سے یہ نکلے کہ نہ صرف وہ عورتیں گوری اور بڑے آنکھوں والی ہوں گی بلکہ وہ ایسی ہیں کہ جیسا پوشیدہ موتی؟

56:22-23 اور ان کے لیے گوری گوری بڑی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی۔ جیسے پوشیدہ رکھا ہوا موتی۔

اور کیا سبب ہے کہ انکی آنکھوں کی دلکشی کو دن و رات پڑھنے کا وظیفہ تاقیامت بنا دیا جائے؟

52:20 اور ہم گوری رنگت (اور) دلکش آنکھوں والی حوروں کو اُن کی زوجیت میں دے دیں گے۔

کیا توحید کا بھید ہے جو ان عورتوں کے کنوارہ بتانے میں پوشیدہ ہے؟

56:36 پھر ہم نے اِن کو کنواریاں بنایا ہے

کیا سبب ہے کہ توحید مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ یہ بات دل میں قرار نہ کر جائے کہ یقین رکھو کہ وہ عورتیں تم سے ٹوٹ کر محبت کرنے والی ہوں گی۔

56:37 جو خوب محبت کرنے والی ہم عمر (ازواج) ہیں

اور رسول اللہ ﷺ جو کہ صاحب معراج ہیں اپنے صحابہ کو ان عورتوں کے تھوک کی شیرنی کی حقیقت بتا کر ایمان پختہ فرمائیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر حور سمندر میں تھوک دے تو اس کے لعاب دہن کی شیرینی سے سمندر میٹھا ہوجائے۔ (ابن ابی الدنیا )

معلوم نہیں زعفران کی بھینی بھینی خوشبو کی تخلیق بیان کرنا کیا فائدہ دیتا ہے؟

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : "حورعین" کو زعفران سے بنایا گیا ہے۔ (البدورالسافرہ:۲۰۱۶۔ طبرانی:۷۸۱۳)

اور کیا وجہ ہے کہ طرح طرح کی دل خوش کن خوشبوں سے معطر عورتوں کا تذکرہ کیا گیا؟

ابن مبارک نے زید بن اسلم کا بیان نقل کیا ہے کہ اللہ نے حوروں کو مٹی سے نہیں بنایا ، بلکہ ان کا تخلیقی قوام مشک ، کافور اور زعفران کا ہے۔ (البدورالسافرہ:۲۰۱۸، باحوالہ ابن المبارک)

رسول اللہ ﷺ کی ان بشارتوں کا کیا حاصل ہے؟

حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ اگر حور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان کر دے تو اس کے حسن کی وجہ سے دنیا دیوانی ہوجائے، اور اگر حور اپنی اوڑھنی نکال دے تو سورج اس کے سامنے ایسا معلوم ہو جیسے سورج کے سامنے ایک بےنور بتی، اور اگر حور اپنا چہرہ نمودار کر دے تو اس کے حسن سے زمین و آسمان کے درمیان کی ساری فضا چمک جائے۔ (ابن ابی الدنیا )

اور

حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک، ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دوست کے لیے ایسی بیوی ہے جس کو آدم و حواء (انسان) نے نہیں جنا؛ بلکہ اس کوزعفران سے پیدا کیا گیا ہے (یعنی وہ جنت میں تخلیق کی گئی ہے، ماں باپ کے واسطے سے پیدا نہیں ہوئی)۔ (حادی الارواح:۳۰۳)


اور

ابن ابی الحواری فرماتے ہیں کہ حورعین کو محض قدرتِ خداوندی سے (کلمہ کن سے) پیدا کیا گیا ہے، جب ان کی تخلیق پوری ہوجاتی ہے توفرشتے ان پرخیمے نصب کردیتے ہیں۔ (حادی الارواح:۳۰۵۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۱۱)


اور اسقدر تفصیلات

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حورعین کے متعلق سوال کیا گیا کہ ان کوکس چیز سے پیدا کیا گیا ؟ توآپ نے ارشاد فرمایا: تین چیزوں سے پیدا کی گئی ہیں، ان کا نچلا حصہ مشک (کستوری) کا ہے اور درمیانہ حصہ عنبر کا ہے اور اوپر کا حصہ کافور کا ہے، ان کے بال اور آبرو سیاہ ہیں نور سے ان کا خط کھینچا گیا ہے۔(تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸، بحوالہ ترمذی)


اور

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اور روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا اور کہا کہ مجھے بتاؤ اللہ تعالیٰ حورعین کوکس طرح سے تخلیق فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اے محمد! اللہ تعالیٰ ان کوعنبر اور زعفران کی شاخوں سے پیدا فرماتے ہیں؛ پھران کے اوپرخیمے نصب کردیے جاتے ہیں ، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کے پستانوں کوخوشبودار گورے رنگ کی کستوری سے پیدا کرتے ہیں اسی پرباقی بدن کی تعمیر کرتے ہیں۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸۱، بحوالہ ترمذی)

اور

حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حورِعین کو پاؤں کی انگلیوں سے اس کے گھٹنے تک زعفران سے بنایا ہے اور اس کے گھٹنوں سے اس کے سینے تک کستوری سے بنایا ہے اور اس کے سینے سے گردن تک شعلے کی طرح چمکنے والے عنبر سے بنایا اور اس کی گردن سے سر تک سفید کافور سے تخلیق کیا ہے، اس کے اوپر گلِ لالہ کی ستر ہزار پوشاکیں پہنائی گئی ہیں، جب وہ سامنے آتی ہے اس کا چہرہ زبردست نور سے ایسے چمک اُٹھتا ہے جیسے دنیاوالوں کے لیے سورج اور جب سامنے آتی ہے تواس کے پیٹ کا اندرونی حصہ لباس اور جلد کی باریکی کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے، اس کے سرمیں خوشبودار کستوری کے بالوں کی چوٹیاں ہیں، ہرایک چوٹی کواٹھانے کے لیے ایک خدمت گار ہوگی جو اس کے کنارے کواٹھانے والی ہوگی، یہ حور کہتی ہوگی یہ انعام ہے اولیاء کا، اور ثواب ہے ان اعمال کا جوبجالاتے تھے۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸۱، بحوالہ ترمذی)

اور

جب نمازی سلام پھیرتا ہے اور یہ نہیں کہتا : "اے اللہ! مجھے دوزخ سے نجات عطا فرما، اور مجھے جنت میں داخل فرما، اور مجھے حورعین سے بیاہ دے"، توفرشتے کہتے ہیں: افسوس! کیا یہ شخص بے بس ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دوزخ سے پناہ طلب کرے، اور جنت کہتی ہے: افسوس! کیا یہ شخص عاجز ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگے، اور حور کہتی ہے : یہ شخص عاجز آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرکے وہ اس کی حورعین سے شادی کردے۔ .(طبرانی، البدورالسافرہ:۲۰۵۸)

اور

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جب مسلمان نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تواس کے لیے جنت کوکھول دیا جاتا ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان سے پردے ہٹادیے جاتے ہیں اور حور اس کی طرف اپنا رُخ کرلیتی ہے جب تک وہ نہ تھوکے اور ناک نہ سنکے (کیوں کہ حوریں اس نزلہ زکام وغیرہ سے پاک ہیں اور اُن سے نفرت کرتی ہیں)۔ (طبرانی، البدور السافرہ:۲۰۵۸)

اور

حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوشخص تھوڑا کھانا کھاکر نماز پڑھتے ہوئے رات گزارتا ہے صبح تک حورعین انتظار میں رہتی ہیں (کہ شاید اللہ تعالیٰ اس نیک بندے کے ساتھ ہمیں بیاہ دے)۔

اور

ہناد نے حبان بن احیلہ کا قول نقل کیا ہے کہ دنیا والی عورتیں جب جنت میں جائیں گی تو (حسن میں) حورعین سے بڑھ کر ہوں گی۔

ان سب سوالوں کا جواب یہی ہے کہ دنیا سے ملتی جلتی آخرت کی نعمتوں کا استحضار ہر لمحہ رہے تو اللہ کے بھید جاننے میں یکسوئی رہتی ہے۔
 
Top