چینی بحران کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش، جہانگیر ترین کے ملوث ہونے کا انکشاف

آورکزئی

محفلین
EYjo4YdXsAAg8qp
 

جاسم محمد

محفلین
ذکر موجود ہے:
معاون خصوصی نے کہا کہ چینی کی قیمت میں اگر صرف ایک روپیہ اضافہ کرکے بھی 5.2 ارب روپے منافع کمایا جاتا ہے، پاکستان میں تقریباً 25 فیصد گنا ان رپورٹڈ (غیر دستاویزی شکل میں) ہے جس سے اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا، پانچ برسوں میں 88 شوگر ملز کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی، ان شوگر ملز نے 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا اور 12 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈز واپس لئے یوں صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا۔
جہانگیرترین گروپ کی شوگر ملز اوورانوائسنگ اور ڈبل بلنگ میں ملوث ہیں، شہزاد اکبر - ایکسپریس اردو

۵ سال پہلے کس کی حکومت تھی؟ تحریک انصاف حکومت نے دو سالوں میں شوگر مافیا کو ۳ ارب کی سبسڈی دی مان لیا غلط کیا۔ باقی 26 ارب کی سبسڈی کس کی حکومت نے دی تھی؟ بڑا چینی چور کون ہوا؟
 

جاسم محمد

محفلین
شوگر مافیا کی چیخیں

جہانگیرترین نے چینی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا
ویب ڈیسک جمعرات 21 مئ 2020

2043517-jahangirtareen-1590069225-376-640x480.JPG

پورا پاکستان جانتا ہے کہ اپنے کسان کو گنے کی پوری قیمت ادا کرتا ہوں، جہانگیر ترین۔ فوٹو، فائل


اسلام آباد: حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے چینی بحران پر تشکیل دیے گئے تحقیقاتی کمشین کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا۔

جہانگیر ترین نےاپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پورا ٹیکس ادا کرتا ہوں اور خود پر لگے تمام الزامات کا جواب دے کر خود کو سچا ثابت کروں گا۔ میں اپنے تمام تر ٹیکسزایمانداری سے ادا کرتا ہوں مجھ پر کاروبار کے لئے دو طرح کے کھاتے بنانے کا الزام سرا سر جھوٹ پر مبنی ہے۔

ان کا کہان تھا کہ پورا پاکستان جانتا ہے میں اپنے کسان کو گنے کی پوری قیمت ادا کرتا ہوں۔میں نے ہمیشہ دیانت داری سے کاروبار کیا ہے۔ پورا ٹیکس اداکرتا ہوں اور تمام الزامات کا جواب دوں گا۔ایف آئی اے رپورٹ میں مجھ پر لگائے گئے الزامات جھوٹ کا پلندا ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت نے گزشتہ برس چینی کی برآمد کے باعث پیدا ہونےو الے بحران کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ ہونے کے بعد اسے عام کردیا ہے۔ اس رپورٹ میں چینی کی برآمد پر حکومتی سبسڈی سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں حکومت کے اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ جہانگیر ترین کا نام بھی شامل ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن والے کہتے ہیں شوگر مافیا کو سبسڈی دینا چوری ہے۔ اپنے دور حکومت میں ۲۵ ارب روپے کی سبسڈی خود اسی شوگر مافیا کو دی تھی۔ وہ چوری نہیں تھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کے پاس اپنی ایک بھی شوگر مل نہیں اس لئے وہ شوگر مافیا سے سیاسی انتقام لے رہاہے: اپوزیشن کا متوقع ردعمل
 

جاسم محمد

محفلین
ملک کے طول و ارض میں پھیلے مافیاز کا احتساب نہ کرو تو عمران خان نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ احتساب کرنا شروع کر دو تو انتقام لے رہا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
کابینہ نے شوگر مافیا کے سخت دباؤ کے باوجود یہ انکوائری رپورٹ پبلک کی ہے۔ تحریک انصاف کا اس حوالہ سے ۳۰ اکتوبر ۲۰۱۱ کے بعد تاریخی دن ہے: علی زیدی
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ہے اصل لفافہ جزنلسٹ جسے کوئی ماہ ڈیڑھ ماہ پہلے یہ خواب آیا تھا کہ پاکستان سے کرونا ختم ہورہا ہے۔
وہ خبر اسے اسٹیبلشمنٹ ذرائع نے دی ہوگی۔ اپوزیشن ذرائع سے خبریں موصول کرکے چھاپنے والے صحافی کی بھی انوکھی منطق پڑھ لیں۔
انکوائری عمران خان نے کروائی، جاری کابینہ نے کی اور نیب کی کاروائی کے بعد ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی عمران خان لگائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم عمران خان نے چند ہفتے قبل چینی سکینڈل کے حوالے سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پر فرانزک کمیشن قائم کرکے تحقیقاتی رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ رپورٹ شائع کرنے کی ڈیڈ لائن 25 اپریل مقرر کی گئی۔

رپورٹ میں کچھ تاخیر ہوئی اور 25 تاریخ کو لیگیوں نے ہمیشہ کی طرح مٹھائی تقسیم کرنا شروع کردی ۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے خاص دوست جہانگیر ترین کو بچانے کیلئے یہ رپورٹ کبھی شائع کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔

یہ مٹھائی چند دن تک یونہی بٹتی رہی - کل کابینہ کے اجلاس میں عمران خان نے فیصلہ کیا کہ انکوائری رپورٹ جاری کردی جائے اور آج یہ رپورٹ شائع کردی گئی۔ رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین، خسرو بختیار، چوہدری برادران، شریف خاندان اور زرداری گروپ کی شوگر ملوں نے چینی کا بحران پیدا کیا اور پچھلے کئی سال سے یہ قومی خزانے کو چونا لگاتے آئے ہیں۔

چند ایک دلچسپ باتیں جو رپورٹ میں ہائی لائٹ کی گئیں:

ویسے تو تمام شوگر ملیں کرپٹ ہوچکیں لیکن ان کو حرام راستہ دکھانے والی کوئی اور نہیں بلکہ العریبیہ مل تھی جس نے کچی پرچی پر گنا خریدنے اور چینی بیچنے کا رواج ڈالا - العریبیہ شوگر مل شہبازشریف خاندان کی ملکیت ہے۔

پچھلے پانچ سال میں شوگر ملوں نے مجموعی طور پر قومی خزانے میں دس ارب کا ٹیکس جمع کروایا لیکن سبسڈی کے نام پر 29 ارب روپے حکومت سے وصول کئے۔ سب سے کم سبسڈی موجودہ حکومت کے دور میں دی گئی اور سب سے زیادہ ن لیگ کے دور میں جاری کی گئی۔

شوگر ملیں کسانوں سے کم قیمت پر گنا خریدتی ہیں لیکن اوور انوائسنگ کرکے اپنی کاسٹ یعنی اخراجات زیادہ ظاہر کرتی ہیں۔ اسی طرح جب چینی بیچنے کی باری آتی ہے تو بے نامی خریداروں کو انڈرانوائسنگ کرکے چینی بیچتی ہیں یعنی کم قیمت ظاہر کرتی ہیں۔ یوں ان کی مجموعی آپریٹنگ انکم کاغذات کی حد تک کم رہتی ہے اور یہ ہر سال حکومت سے اربوں کی سبسڈی ڈکار جاتے ہیں۔

شریف خاندان اور زرداری گروپ نے اپنے ادوار میں اپنی ہی ملوں کو ایک سال میں دو دو مرتبہ سبسڈی دی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان نے اپنے اکتوبر 2011 کے مشہور جلسے میں کہا تھا کہ بزنس مین جب بھی حکومت میں آئے گا، مال بنائے گا۔ شریف خاندان اور زرداری نے جس طرح اپنے ادوار میں اپنے اپنے کاروباری فوائد سمیٹے، چینی سکینڈل کی فرانزک رپورٹ نے اس کی ایک معمولی سی جھلک دکھا دی ہے۔

لیگیوں میں اگر گڑبڑ نہ ہوتی تو وہ پانامہ لیکس آنے کے بعد سمجھ جاتے کہ ان کا لیڈر کرپٹ ہے، لیکن وہ آج تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ لندن فلیٹس بھینسوں کا دودھ بیچ کر بنائے گئے تھے۔

دوسری طرف انصافیوں کا کردار ملاحظہ ہو، جہانگیر ترین جو کہ انتہائی مقبول لیڈر تھا، اس کا نام اس رپورٹ میں آنے کے بعد ایک بھی انصافی اس کا دفاع نہیں کررہا۔

ویسے اس رپورٹ میں جو کچھ سامنے آیا ہے وہ ہمارے لئے نئی بات نہیں ہونی چاہیئے۔ نوازشریف، زرداری، چوہدری برادران، یہ وہ تین بڑے خاندان ہیں جو پچھلے پینتیس برس سے کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ رہے ۔ ۔ ۔ انہی لوگوں نے کرپشن کی تھی تو ملک کا یہ حال ہوا ۔ ۔ ۔

آج افطاری کے وقت دل سے عمران خان کیلئے دعائیں نکلی ہیں۔ اللہ تعالی نے تمام انصافیوں کو سرخرو کیا ۔ ۔ ۔ اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ، کم ہے!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
کیا چینی کمیشن رپورٹ پاکستان کے مسائل ختم کردے گی؟
22/05/2020 سید مجاہد علی

حکومت نے چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ جاری کردی ہے اور ملک میں چینی کے 9 کارخانہ داروں کو اس کاروبار میں بے قاعدگیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کمیشن رپورٹ کی تفصیلات بتائیں اور اسے اپنی حکومت کا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ ان کے بقول ماضی میں کوئی حکومت ایسا کمیشن قائم کرنے اور اس کی رپورٹ عام کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکی۔

اس تفصیلی رپورٹ میں چینی کے کاروبار کے ان تمام نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے جو پاکستان کے کسی بھی کاروبار میں موجود ہوسکتے ہیں اور ملکی نظام کی کمزوری اور بدعنوانی کی وجہ سے ان نقائص کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ شوگر کمیشن رپورٹ پر تحریک انصاف کے نمائیندے خواہ جتنی بھی سیاسی پوائینٹ اسکورنگ کرلیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی کہ ملک میں معاملات کنٹرول کرنے کا نظام غیر مؤثر ہے اور رشوت یا ذاتی مفاد کے لئے کاروبار کرنے والے عناصر کو من مانی کرنے کی اجازت دی جاتی۔ یہ نظام ہمیشہ سے خراب تھا لیکن موجودہ حکومت بھی دو برس کی مدت میں اس کی اصلاح کے لئے کوئی انقلابی اقدامات کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال کے شروع میں جب ملک میں آٹے اور چینی کا بحران پیدا ہؤا تھا تو حکمران پارٹی میں شامل متعدد افراد پر الزام عائد ہؤا ۔ وزیر اعظم کو اسی دباؤ کی وجہ سے اس بحران کے پس پردہ عوامل کی تحقیقات کروانے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

گندم اور چینی کے بحران پر ابتدائی رپورٹ گزشتہ ماہ کے شروع میں سامنے آئی تھی۔ اس بارے میں ابہام موجود ہے کہ حکومت نے وہ رپورٹیں خود عام کرنے کا فیصلہ کیا تھا یا بعض میڈیا چینلز میں اس کے بارے میں معلومات عام ہونے کے بعد حکومت کو مجبوراً ان رپورٹوں کو جاری کرنا پڑا تھا۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اس وقت بھی گندم اور چینی کے بحران پر جاری ہونے والی رپورٹوں پر اپنے ٹوئٹ پیغامات میں تبصرہ کرتے ہوئے اسے اپنی حکومت کا شاندار کارنامہ قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ عذر تراشتے ہوئے کہ وہ اس معاملہ کی فورنزک رپورٹ آنے کے بعد متعلقہ لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گے اور کسی کو بھی عوام کی قیمت پر منافع خوری کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ فورنزک رپورٹ 25 اپریل کو سامنے آجائے گی۔ تاہم بعد میں کابینہ نے تحقیقات کرنے والے کمیشن کو مزید تین ہفتے کی مہلت دے دی۔ اس طرح یہ تفصیلی رپورٹ اب سامنے آئی ہے۔ شہزاد اکبر کے بقول کابینہ نے اس پر غور کرنے کے بعد اسے من و عن ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عام قاری مختصر یا تفصیلی رپورٹ میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں کرسکتا۔ مہینہ بھر قبل ملزمان کی طرف نشاندہی ہوجانے کے بعد وزیر اعظم کو اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے آخر کون سی تفصیلات کا انتظار تھا؟ تفصیلی یا فورنزک رپورٹ دیکھنے کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلی رپورٹ میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے برآمد پر سبسڈی دینے کا فیصلہ بنیادی نکتہ تھا جس سے وزیر اعظم کے قریب ترین سیاسی ساتھی جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار نے خاص طور سے استفادہ کیا تھا۔ تفصیلی رپورٹ میں اس معاملہ کو چینی کی پیدا وار ، گنا پیدا کرنے والے کاشتکاروں کے ساتھ زیادتی ،شوگر ملز کی ہیرا پھیری ، ٹیکس چوری اور سبسڈی سے فائدہ اٹھانے کی تفصیلات بتائی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس میں شہباز شریف اور آصف زرداری کو گھسیٹنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سوال وفاقی حکومت کی کوتاہی اور پنجاب حکومت کے سبسڈی دینے کا تھا لیکن الزام کا پھندا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گردن میں فٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معاملہ اس سال جنوری کے دوران اچانک گندم اور چینی کے بحران کے بارے میں تھا اور جواب یہ درکار تھا کہ کن لوگوں نے اس کا اہتمام کیا اور اس سے مالی فائدہ اٹھایا تاہم تفصیلی رپورٹ میں ایک خاص صنعت کے زیر و بم کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے ان بنیادی اہمیت کے سوالوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

فورنزک رپورٹ کی تفصیلات دیکھنے کے بعد اور کٹہرے میں جہانگیر ترین اور مونس الہیٰ کے ساتھ شہباز شریف اور آصف زرداری سے تعلق والے اومنی گروپ کو کھڑا دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ابتدائی رپورٹ میں ملزموں کی نشاندہی کے باوجود ، وزیر اعظم کو ملزموں کو سیاسی طور سے نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کرنے کی بجائے سزا دینے کے لئے فورنزک رپورٹ کا انتظار کیوں تھا۔ اب شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ ’ چینی بحران میں ملوث تمام عناصر کے خلاف فوجداری مقدمات ایف آئی اے اور نیب کو بھجوائے جائیں گے۔شوگر ملز سے وصولی بھی کی جائے گی‘۔ یعنی نہ نو مل تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ البتہ اس تفصیلی رپورٹ کی بنیاد پر شہزاد اکبر نے ایک بار پھر اپنی حکومت اور وزیر اعظم کی سیاسی مارکیٹنگ کے لئے ’پریس کانفرنس شو ‘ منعقد کیا اور لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ یہ سب کیا دھرا سابقہ حکمرانوں کا ہے جن کے بچے اور ساتھی اب تفصیلی رپورٹ میں ملزم قرار پائے ہیں۔ ماضی کی تہوں سے یہ بات تو تلاش کرلی گئی ہے کہ مراد علی شاہ نے اومنی گروپ کو سبسڈی دی تھی لیکن یہ ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا کہ عثمان بزدار نے حال ہی میں کس کے دباؤ یا کسے خوش کرنے کے لئے چینی کی برآمد پر سبسڈی کا فیصلہ کیا تھا۔ حالانکہ کسی دوسرے صوبے نے ایسی کوئی سبسڈی فراہم نہیں کی تھی۔

معاملہ جنوری کے بحران کا تھا لیکن مقدمہ گزشتہ پانچ برس کے دوران چینی کی پیدا وار، گنے کی خریداری، دوہرے اکاؤنٹ رکھنے اور ذاتی مفاد کے لئے سبسڈی دینے تک پہنچا دیا گیا۔ اصل سوال کا جواب اب بھی غائب ہے۔ ملک میں چینی کی قلت کے زمانے میں وفاقی حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت کیوں دی تھی؟ مان لیا جائے کہ کسی بھی بنیاد پر وفاقی کابینہ اور اقتصادی رابطہ کمیٹی غلطی کی مرتکب ہوسکتی ہے لیکن دیانت دار وزیر اعظم اور ان کے وفادار معاونین کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ یہ غلطی انہی سے سرزد ہوئی تھی اور عوام کے لئے ایک خاص وقت میں تکلیف اور مشکل پیدا کرنے میں وہ خود بھی چینی سے دولت کمانے والے لوگوں ہی کی طرح ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کی عثمان بزدار کو چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے کا ’حکم یا مشورہ‘ کس نے دیا تھا۔ ان دو سوالوں کا جواب بین السطور سابقہ رپورٹ میں بھی موجود تھا اور تازہ رپورٹ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے ۔ تاہم معلومات کے ہجوم، اعداد و شمار کے انبار اور شہزاد اکبر کے جوش خطابت میں ان پہلوؤں کو دبا دیا گیا ہے۔

شہزاد اکبر نے برملا کہا ہے کہ اگر خسرو بختیار کا بھائی چینی کا کاروبار کرتا ہے تو اس کے لئے ان کے بھائی کو تو مورد الزام نہیں ٹھہریا جاسکتا۔ البتہ جہانگیر ترین کو محلاتی سازشوں کے نتیجہ میں چونکہ قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے لہذا ان پر الزامات کے چھینٹے پڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابتدائی رپورٹوں کے بعد بھی ان سطور میں یہ کہا جاچکا ہے کہ کوئی بھی کاروبار کرنے والا گروہ صورت حال، سرکاری قواعد اور سیاسی اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھائے گا۔ اب بھی یہی بات درست ہے۔ شوگر ملوں سے دولت کمانے کا طریقہ ہو یا تعمیراتی شعبہ میں مختلف ہتھکنڈوں سے حکومت کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ہو، اصل ذمہ دار ان وہ سیاسی قیادت ہوگی جو جان بوجھ کر ایسی بے قاعدگی کی اجازت دیتی ہے۔ جنوری میں پیدا ہونے والے بحران کا جواب بھی اسی وقت ملے گا جب یہ مان لیا جائے گا کہ وزیر اعظم نے اقتصادی رابطہ کمیٹی اور وفاقی کابینہ کے ذریعے ملک میں چینی کی قلت کے وقت اسے برآمد کرنے کی اجازت دی۔ پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اس پر سبسڈی دے کر اس نیک کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اب وزیر اعظم خود کوئی ذمہ داری قبول کرنے اور اپنے سیاسی وسیم اکرم کی جوابدہی کا اعلان کرنے کی بجائے اپوزیشن خاندانوں اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کو ملزم قرار دے کر داد وصول کرنا چاہتے ہیں۔

معاون خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں سیاسی خاندانوں کی منافع خوری کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو سیاسی نابغہ ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، وزیراعظم کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے‘۔ عمران خان اگر یہ بات جانتے ہیں تو یہ بھی بتادیں کہ جو سیاست دان دولت مند ساتھیوں کے وسائل پر زندگی گزارنے کا عادی رہا ہو اور ان کے فراہم کردہ فنڈز سے سیاسی ریلیاں کرتا رہا ہو ، ایسے ہی کاروباری دوستوں کے جہاز میں سفر کرتا رہا ہو اور پھر اسی جہاز میں موسم کے ساتھ رنگ بدلنے والے سیاسی عناصر کو بنی گالہ بلواکر ان کی پذیرائی کرتا رہا ہو، کیا وہ اس وقت بھی یہ بات جانتے تھے کہ سیاست میں روپیہ لگانے والا تاجر اپنی سرمایہ کاری منافع سمیت وصول کرے گا یا اس وقت وہ ’بھولے بادشاہ ‘ تھے۔ اسی کے ساتھ اگر شہزاد اکبر یہ بھی بتادیتے کہ کیا اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کو تاجروں ، صنعتکاروں اور مفاد یافتہ طبقات سے پاک کردیا گیا ہے؟

چند روز پہلے سپریم کورٹ نے کورونا وائرس پر سوموٹو مقدمہ کی سماعت کے دوران وسائل کی فراہمی اور ان کے بے دردی سے اصراف پر متعدد سوال اٹھائے ہیں۔ چیف جسٹس نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والے کورونا ٹیسٹ ناقص ہوتے ہیں اور ان سے مرض کا تعین نہیں ہوسکتا۔ ایماندا روزیر اعظم اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کی دعوے دار حکومت کے لئے چیف جسٹس کے یہ سوال تازیانہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیرت ہے حکومت ان الزامات پر اپنی پوزیشن واضح کرنے، کورونا فنڈز کا درست آڈٹ پیش کرنے، مصارف میں گھپلوں کی وضاحت دینے کی بجائے چینی اسکینڈل کو آڑ بنا کر سیاسی چاند ماری کی مشق میں مصروف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ تفصیلی رپورٹ میں اس معاملہ کو چینی کی پیدا وار ، گنا پیدا کرنے والے کاشتکاروں کے ساتھ زیادتی ،شوگر ملز کی ہیرا پھیری ، ٹیکس چوری اور سبسڈی سے فائدہ اٹھانے کی تفصیلات بتائی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس میں شہباز شریف اور آصف زرداری کو گھسیٹنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
فورنزک رپورٹ کی تفصیلات دیکھنے کے بعد اور کٹہرے میں جہانگیر ترین اور مونس الہیٰ کے ساتھ شہباز شریف اور آصف زرداری سے تعلق والے اومنی گروپ کو کھڑا دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ابتدائی رپورٹ میں ملزموں کی نشاندہی کے باوجود ، وزیر اعظم کو ملزموں کو سیاسی طور سے نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کرنے کی بجائے سزا دینے کے لئے فورنزک رپورٹ کا انتظار کیوں تھا۔
یہ ہے اصل تکلیف ان جانبدار صحافیوں کو کہ انکوائری میں اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کا نام کیوں آ رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب ان جانبدار صحافیوں کے نزدیک شوگر مافیا بھی ہیرو کا درجہ پا گیا ہے۔ جس پر بھی عمران خان (ولن) کی حکومت میں ہاتھ ڈلے وہ ان سب کا ہیرو ہے
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان اگر ۳ ارب سبسڈی اور شوگر ایکسپورٹ کی اجازت نہ دیتا تو ہم نے جو شوگر مافیا کو ۲۵ ارب روپے کی سبسڈی دی تھی وہ بھی پکڑی نہ جاتی۔ اصل تکلیف یہ ہے
 

جاسم محمد

محفلین
پس ثابت ہوا کہ ن لیگ حکومت نے جو ۲۵ ارب روپے کی سبسڈی شوگر مافیا کو دی تھی وہ بالکل درست فیصلہ تھا۔ جبکہ اسی مافیا کو ۳ ارب روپے کی سبسڈی اس حکومت میں دینا سب سے غلط فیصلہ تھا
 

سید ذیشان

محفلین
اب ان جانبدار صحافیوں کے نزدیک شوگر مافیا بھی ہیرو کا درجہ پا گیا ہے۔ جس پر بھی عمران خان (ولن) کی حکومت میں ہاتھ ڈلے وہ ان سب کا ہیرو ہے
برادری کی سیاست کے مطابق تو یہ بات درست ہے۔ لیکن اصل دھوکا خان کو جہانگیر ترین نے دیا ہے کیونکہ خان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ تم تو صاف شفاف چلنے کی باتیں کر رہے تھے اور تمہارا قریبی ساتھی ہی اس فراڈ میں ملوث نکلا۔
 

جاسم محمد

محفلین
برادری کی سیاست کے مطابق تو یہ بات درست ہے۔ لیکن اصل دھوکا خان کو جہانگیر ترین نے دیا ہے کیونکہ خان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ تم تو صاف شفاف چلنے کی باتیں کر رہے تھے اور تمہارا قریبی ساتھی ہی اس فراڈ میں ملوث نکلا۔
یہ بات تو سب کو ہمیشہ سے معلوم تھی کہ جہانگیر ترین (شوگر مافیا) کیسے مشرف، زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں میں اربوں روپے کی سبسڈیاں لیتا رہا ہے۔ اسی لئے سب کو پورا یقین تھا کہ عمران خان کی حکومت کھڑی کرنے کے صلہ میں یہ مافیا بچ جائے گا لیکن خان نے ترین سے دوستی اور اس کے احسانات کی پرواہ کئے بغیر شوگر مافیا کو ایکسپوز کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود ولن عمران خان ہی رہے گا کیونکہ وہ ایک زمانہ میں شوگر مافیا کا دوست تھا
 

جاسم محمد

محفلین
اور وہ جو اپنے دور حکومت میں ۲۵ ارب روپے کی سبسڈی دی تھی تب کس کو فائدہ پہنچایا تھا؟ اپنے بچوں کی شوگر ملوں کو؟
 
Top