نبی اکرمﷺ نے مباہلے کا چیلنج کس کو دیا تھا؟

ابن آدم

محفلین
یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی؟
الله سبحانہ وتعالی نے کن لوگوں کے ذریعہ قرآن کو محفوظ کیا؟
آپ تک الله کا محفوظ کردہ قرآن کیسے پہنچا ؟
اگر آپ کو روایات پر شک ہے تو کس چیز نے آپ کو یقین دلایا کہ جو قرآن آج آپ پڑھ رہے ہیں وہ وہی ہے جو الله جل جلالہ نے نازل فرمایا؟
یہ بہت اہم بنیادی سوال ہے جس پر ہر انسان کو سوچ و بچار کرنی چاہیے. سوره بقرہ کی دوسری اور تیسری آیت ہی کہتی کہ اس کتاب (قرآن مجید) میں کوئی شک نہیں... ان لوگوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں.
پھر دوسرے مقامات پر آپ کو ملتا ہے کہ اگر یہ غیر الله کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے تضادات ہوتے.

اب ان دو سوالات ہیں، پہلا یہ کہ غیب پر ایمان سے کیا مراد ہے، اور اس پر تفسیروں اور دوسری جگہوں پر بہت بحث موجود ہیں کہ یہ الله، آخرت ہے اور بھی چیزیں پر بحث ہے. الله اس لئے نہیں ہو سکتے کہ الله غیب نہیں بلکہ ہر جگہ موجود ہیں. قیامت یا آخرت اس لئے نہیں ہو سکتی کہ اس پر آگے ہی ایمان لانے کو کہا گیا ہے. تو ایک نکتہ جو مجھے بہتر لگا ہے وہ یہ کہ یہ قرآن کے غیب سے انے پر ایمان ہے.

بنی اسرائیل کو جب تختیاں ملی تھیں تو حضرت موسیٰ کے ساتھ ان کی قوم کے سردار بھی گئے تھے اور الله کی طرف سے تختیاں اتری تھیں. جب کہ نبی کریم (ص ) کے تو سینے پر قرآن نازل ہو رہا تھا جو کہ اس وقت کے صحابہ کرام (رض) بھی نہیں دیکھ سکتے تھے. تو یہ ہمارے ایمان کی بنیاد ہے. تو اس وقت کے صحابہ کرام (رض) بھی اس پر ایمان رکھتے تھے کہ یہ الله کی طرف سے نازل ہو رہا ہے جب کہ ان کے پاس اس پر ایمان رکھنے کے لئے نبی کریم (ص) کے قول کے سوا کوئی چیز نہیں تھی. ابو جہل اور دیگر مشرکین نے نبی کریم(ص) کے قول کو نہیں مانا اور وہ ہمیشہ معجزہ مانگتے رہے اور الله نے بار بار ان کو قرآن میں مشرکین کو کہا کہ ہم نبی کریم(ص) کو معجزہ نہیں دیں گے. تو ہم میں اور

اس کی ایک اہم وجہ ہے کہ نبی کریم (ص) رہتی دنیا تک کے لیے نبی اور رسول ہیں. اور معجزہ ایک خاص وقت اور لوگوں کے لئے تو ہو سکتا ہے لیکن بعد والوں کے لئے نہیں. حضرت موسیٰ (ع) کو معجزات ملے لیکن ان کی قوم میں نبیوں کی لڑی بھی چلتی رہی.

تو ہم میں اور صحابہ کرام (رض) میں ایک چیز مشترک ہے کہ ہم بھی اس قرآن کو غیب سے مان رہے ہیں اور وہ بھی اس کو غیب سے مانتے تھے لیکن ایک چیز ہمارے لئے مشکل ہے کہ ان کے درمیان نبی کریم (ص) تھے اور ہمیں نبی کریم پر بھی ایمان اس قرآن سے ہی لانا ہے. اگر آپ بخاری کی روایت کی وجہ سے قرآن کو مان رہی ہیں تو آپ کا ایمان بخاری پر ہے نہ کہ قرآن پر. اگر آپ ابن اسحاق کی سند پر قرآن کو مان رہی ہیں تو آپ کا ایمان ابن اسحاق پر نہ ہوا؟ میرے لئے قرآن کی بات اور پھر قرآن کا یہ دعوی کے یہ اگر غیر الله کی طرف سے ہوتی تو اس میں تضاد ہوتے، قرآن پر ایمان کے لیے کافی ہے. اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی تاریخ اور حدیث اور سب چیزوں کو جھٹلایا جائے لیکن قرآن کی بات کو فوقیت دی جائے. قرآن کو حدیث یا تاریخ کا تابع نہ کیا جائے.

جیسے صلات الوسطی پر جس وقت غور کیا تو تفسیر طبری میں اس پر ٢٥ سے زائد صفحات روایات سے بھرے ہوئے ہیں جس میں فجر، ظہر، عصر، مغرب، اور وتر تک ہر نماز کے لئے روایت ہے. تو کیا نبی کریم (ص) فرق فرق صلات الوسطی بتا سکتے تھے؟ تو اب اس میں کوئی ایک نماز تو ہو گی تو وہ کونسی ہے اور غلط روایات کونسی ہے اس کا تعین کرنے کے لئے قرآن کو دیکھا جائے گا.

امید ہے کہ میں اپنی بات کو آپ تک پہنچا سکا ہوں گا
 

سید رافع

محفلین
۔اہلِ سنت کی ایک کثیر تعداد کے مطابق قرآن کے بعد اس دنیا میں صحیح ترین کتب بخاری و مسلم ہیں، اس ساری رام کہانی سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بخاری اور مسلم بھی شیعوں نے گھڑی ہوئی ہیں
بخاری بنو امیہ کے دور میں لکھی گئی اور اس وقت حق کتابوں میں لکھنا اور کہنا بے حد پر خطر تھا۔ حکومتی سرکردگی میں جعلی احادیث معاشرے میں پھیلائی جاتیں۔ یہ وہ دور تھا کہ جب حکمران حسین کے خون سے اپنی تلوار رنگ کر فارغ ہوئے تھے اور اہل بیت علیہ السلام پر زندگی تنگ کیے ہوئے تھے۔ کسی کو قید میں رکھتے تو کسی کو زہر دیتے۔ عمر بن عبد العزیز کی خلافت سے قبل برسرمنبر جناب علی علیہ السلام کو لعنت کی جاتی۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔ اول یہ کہ حدیث ایک انتہائی پرخطر راستہ ہے۔ اس پر مذہب کھڑا کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ سو اگر کوئی حدیث پر خوب غور و خوض کی دعوت دے رہا ہے تو اسے قبول کریں۔ دوئم اگر بخاری میں اہل بیت کی شان میںمباہلہ کی روایات مل جاتیں ہیں تو یہ کافی و شافی ثبوت ہونا چاہیے۔ کیونکہ جن حالات میں یہ کتب ترتیب دی گئیں اس میں اہل بیت کے موافق کچھ بھی پایا جانا ایک معجزہ ہی ہے۔

جناب آپ قرآن کے مقابلے میں روایت کو لا رہے ہیں تو پھر خود ہی سوچیں کہ جب آپ نے قرآن کو روایت کے تابع کر دیا ہے
یہ غیر ضروری سختی ہے۔ قرآن بھی تو انہی اصحاب نے جمع کیا جنہوں نے قرآن جمع کیا۔

بہت سی روایات اس لیے بنائی گئی ہیں کہ قرآن جس کی حفاظت کا ذمہ الله نے لیا ہوا ہے اس میں کیسے نقب لگایا جائے، تو روایت بنا کر اس کے قرآن سے ہٹ کر مطالب نکالے گئے
متفق۔ لاکھوں موضوع احادیث اس پر گواہ ہیں۔

بھائی صاحب مدلل بات کرنا ہو تو مجہول کا صیغہ استعمال نہیں کرنا چاہیے
عمومی طور پر تو یہ بات ٹھیک ہی ہے کہ موضوع احادیث ہیں۔

جناب ایک کام تو یہ ہے کہ میں راویوں کے حالات زندگی پڑھنا شروع کر دوں، ان پر مختلف لوگوں کی جرح پڑھوں، علم الرجال کی کتابیں کھنگالوں اور اس راوی پر انگلی رکھوں جس نے جھوٹی روایات گھڑی ہی
یہ قرآن کو قرآن سے سمجھنے کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ قرآن کو قرآن سے بھی سمجھا جا سکتا ہے لیکن پھر آپ نماز سے لے کر حج تک کی تفصیلات میں بہت ہی دقت میں پڑ جائیں گے۔ آپ کو سچے اور جھوٹے حالات احادیث اور رجال کی کتابوں سے زیادہ کہیں نہیں ملیں گے۔

اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں قرآن کو سمجھوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے
قرآن کو اگر سمجھیں گے تو بلحاظ طہارت ہدایت ملے گی۔ لیکن اگر قرآن کو سنت سے سمجھیں گے تو قرآن کی مراد سمجھ میں آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ خوارج مراد قرآن نہیں سمجھ پائے جب انہوں نے کہا کہ حکم اللہ کے لیے ہے۔ اسی لیے قتل کیے گئے جبکہ قرآن پڑھتے اور تہجد ادا کرتے۔

ایسے لوگوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑوایا جائے۔
ایک شخص اگر قرآن سے کچھ لے کر آئے تو اسکا عدل کے ساتھ علمی محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ علم بڑھے۔ علم بڑھے گا تو گروہ کم ہوں گے۔ علم ہی نہیں ہو گا تو گروہ بندی زیادہ ہو گی۔ یہ گفتگو کی تکلیف تو 2020 کی امت رسول ﷺ کو اٹھانی ہی پڑے گی۔

اگر قرآن کی بات کرنا لوگوں لڑوانا ہے تو پھر ہمیں شاید اسلامی فورم نہیں رکھنا چاہیے
انسان کی اپنی تحقیق ہو تو سال ہا سال بعد بھی اس قدر بڑا مضمون پورے علمی احاطے کے ساتھ نہیں لکھ سکتا چہ جائیکہ اس کو حق ہی سمجھ لے۔ حق منکسر المزاجی کی طرف لے جاتا ہے۔

آپ کے اس مراسلے سے علم ہو گیا کہ آپ سنت اور حدیث کی شرعی حجیت کے قائل نہی
جلدی کر دی آپ نے فیصلہ سنانے میں۔ ان سے سوال ہی کر لیتے کہ کیا آپ سنت اور حدیث کی شرعی حجیت کے قائل ہیں؟

نصرانیوں اور مسلمانوں کا تو خدا ہی الگ ہے۔
نصرانی تو اب بھی 2020 میں بھی یہی کہتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر صحیح روایات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سورہ بقرہ تین ہجری میں مکمل ہو گئی تھی؟
متفق۔

کیا آپ نے نعوز باللہ قرآن پاک پر کوئی کاپی رائٹ کروا رکھا ہے جو آپ کی من پسند تشریح کے علاوہ ہر تشریح شان نزول پر ڈاکہ تصور ہوگا؟
آپ قرآن یا سنت رسول ﷺ سے دلیل لایا کریں۔ یوں کہنا تو کھلی سیاسی چال ہے۔

یہاں تو آپ خود اللہ تعالیٰ پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ قرآن پاک کی حفاظت میں خدانخواستہ ناکام رہا اگر کوئی انسان اس میں اتنی آسانی سے نقب لگا سکتا ہے۔
ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ : ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔ ورنہ لوگ لاکھوں موضوع احادیث کو استعما ل کر کے بھی اپنا مذہب کھڑا کر لیتے ہیں جیسا کہ قادیانیوں اور بہائیوں نے کیا۔

الله نے جب مشرکوں اور یہودیوں کو قرآن جیسی چیز بنا کر لانے کا کہا تو یہ کہا کہ ایسی دس سورتیں بنا لاؤ تو اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ سورت ایک متعین وقت میں اترتی تھی
قرآن میں چھوٹی اور بڑی سورتیں ہیں۔ چھوٹی ایک ساتھ نازل ہوتی جبکہ بڑی سورتیں موقع با موقع۔

اگر آپ بخاری کی روایت کی وجہ سے قرآن کو مان رہی ہیں تو آپ کا ایمان بخاری پر ہے نہ کہ قرآن پر.
یہاں آپ سختی میں پڑ گئے اور حق سے ڈگمگا گئے۔ قدم ثابت رکھیں خوب جم کر کہیں کہ ہم قرآن جن پر نازل ہوا یعنی رسول اللہ ﷺ انکو بھی مانتے ہیں اور قرآن کو بھی مانتے ہیں۔ اور ان دونوں میں فرق نہیں کرتے۔ ورنہ قرآن ہی بات ہے تو اللہ کہتا ہے کہ "یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْراً وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلاَّ الْفَاسِقِیْن﴾․(البقرہ:26) گم راہ کرتا ہے خدائے تعالیٰ اس مثال سے بہتیروں کو اور ہدایت کرتا ہے۔ اور گم راہ نہیں کرتا اس مثال سے مگر بد کاروں کو۔ سو قرآن و حدیث میں ایک ہی قسم کے خطرات ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ کل مومنین و مومنات کو بدکاری اور فسق سے بچائے تا کہ ہم گمراہ نہ ہوں۔ آمین
 

ابن آدم

محفلین
بخاری بنو امیہ کے دور میں لکھی گئی اور اس وقت حق کتابوں میں لکھنا اور کہنا بے حد پر خطر تھا۔ حکومتی سرکردگی میں جعلی احادیث معاشرے میں پھیلائی جاتیں۔ یہ وہ دور تھا کہ جب حکمران حسین کے خون سے اپنی تلوار رنگ کر فارغ ہوئے تھے اور اہل بیت علیہ السلام پر زندگی تنگ کیے ہوئے تھے۔ کسی کو قید میں رکھتے تو کسی کو زہر دیتے۔ عمر بن عبد العزیز کی خلافت سے قبل برسرمنبر جناب علی علیہ السلام کو لعنت کی جاتی۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔ اول یہ کہ حدیث ایک انتہائی پرخطر راستہ ہے۔ اس پر مذہب کھڑا کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ سو اگر کوئی حدیث پر خوب غور و خوض کی دعوت دے رہا ہے تو اسے قبول کریں۔ دوئم اگر بخاری میں اہل بیت کی شان میںمباہلہ کی روایات مل جاتیں ہیں تو یہ کافی و شافی ثبوت ہونا چاہیے۔ کیونکہ جن حالات میں یہ کتب ترتیب دی گئیں اس میں اہل بیت کے موافق کچھ بھی پایا جانا ایک معجزہ ہی ہے۔


یہ غیر ضروری سختی ہے۔ قرآن بھی تو انہی اصحاب نے جمع کیا جنہوں نے قرآن جمع کیا۔


متفق۔ لاکھوں موضوع احادیث اس پر گواہ ہیں۔


عمومی طور پر تو یہ بات ٹھیک ہی ہے کہ موضوع احادیث ہیں۔


یہ قرآن کو قرآن سے سمجھنے کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ قرآن کو قرآن سے بھی سمجھا جا سکتا ہے لیکن پھر آپ نماز سے لے کر حج تک کی تفصیلات میں بہت ہی دقت میں پڑ جائیں گے۔ آپ کو سچے اور جھوٹے حالات احادیث اور رجال کی کتابوں سے زیادہ کہیں نہیں ملیں گے۔


قرآن کو اگر سمجھیں گے تو بلحاظ طہارت ہدایت ملے گی۔ لیکن اگر قرآن کو سنت سے سمجھیں گے تو قرآن کی مراد سمجھ میں آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ خوارج مراد قرآن نہیں سمجھ پائے جب انہوں نے کہا کہ حکم اللہ کے لیے ہے۔ اسی لیے قتل کیے گئے جبکہ قرآن پڑھتے اور تہجد ادا کرتے۔


ایک شخص اگر قرآن سے کچھ لے کر آئے تو اسکا عدل کے ساتھ علمی محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ علم بڑھے۔ علم بڑھے گا تو گروہ کم ہوں گے۔ علم ہی نہیں ہو گا تو گروہ بندی زیادہ ہو گی۔ یہ گفتگو کی تکلیف تو 2020 کی امت رسول ﷺ کو اٹھانی ہی پڑے گی۔


انسان کی اپنی تحقیق ہو تو سال ہا سال بعد بھی اس قدر بڑا مضمون پورے علمی احاطے کے ساتھ نہیں لکھ سکتا چہ جائیکہ اس کو حق ہی سمجھ لے۔ حق منکسر المزاجی کی طرف لے جاتا ہے۔


جلدی کر دی آپ نے فیصلہ سنانے میں۔ ان سے سوال ہی کر لیتے کہ کیا آپ سنت اور حدیث کی شرعی حجیت کے قائل ہیں؟


نصرانی تو اب بھی 2020 میں بھی یہی کہتے ہیں۔


متفق۔


آپ قرآن یا سنت رسول ﷺ سے دلیل لایا کریں۔ یوں کہنا تو کھلی سیاسی چال ہے۔


ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ : ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔ ورنہ لوگ لاکھوں موضوع احادیث کو استعما ل کر کے بھی اپنا مذہب کھڑا کر لیتے ہیں جیسا کہ قادیانیوں اور بہائیوں نے کیا۔


قرآن میں چھوٹی اور بڑی سورتیں ہیں۔ چھوٹی ایک ساتھ نازل ہوتی جبکہ بڑی سورتیں موقع با موقع۔


یہاں آپ سختی میں پڑ گئے اور حق سے ڈگمگا گئے۔ قدم ثابت رکھیں خوب جم کر کہیں کہ ہم قرآن جن پر نازل ہوا یعنی رسول اللہ ﷺ انکو بھی مانتے ہیں اور قرآن کو بھی مانتے ہیں۔ اور ان دونوں میں فرق نہیں کرتے۔ ورنہ قرآن ہی بات ہے تو اللہ کہتا ہے کہ "یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْراً وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلاَّ الْفَاسِقِیْن﴾․(البقرہ:26) گم راہ کرتا ہے خدائے تعالیٰ اس مثال سے بہتیروں کو اور ہدایت کرتا ہے۔ اور گم راہ نہیں کرتا اس مثال سے مگر بد کاروں کو۔ سو قرآن و حدیث میں ایک ہی قسم کے خطرات ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ کل مومنین و مومنات کو بدکاری اور فسق سے بچائے تا کہ ہم گمراہ نہ ہوں۔ آمین

پہلی بات بخاری سمیت حدیث کی تمام مشہور کتابیں بنو عباس کے دور میں لکھی گئی نہ کہ بنو امیہ کے دور میں.
دوسری بات حضرت حسین کے پوتے اور حضرت زین العابدین کے بیٹے حضرت زید نے اپنی کتاب مسند زید ابن علی میں جنگ نہروان کا تو ذکر کیا ہے لیکن جنگ کربلا کا ذکر نہیں کیا. مزید یہ کہ حضرت زین العابدین نے ہر موقعہ پر بنو امیہ کا ساتھ دیا اور بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بھی استوار کیں. تو یا تو یہ مانا جائے کہ حضرت حسین کے بیٹے اور پوتوں نے ہی ان کا خون بیچ دیا یا پھر یہ مانا جائے کہ ابو مخنف کے قصے کی نہ کوئی سند ہے اور اس کو نہ ہی چھیڑا جائے. کیونکہ حضرت حسین کو آج بھی شہید نینوا بھی کہا جاتا ہے اور اس قصہ میں وہ اکیلے شہید ہوئے اور یہ غیر مسلموں سے جنگ تھی. یہ بحث موضوع سے مطابقت نہیں رکھتی تو اس کو رہنے دیا جائے.

باقی سنت اور حدیث میں واضح فرق ہے. اور سنت کی مثال نماز ہے. آپ خود سوچیں آپ نے نماز کیسے سیکھی؟ کیا آپ کے والدین آپ کے ساتھ حدیث کی کتاب لے کر بیٹھے اور پھر نماز سکھائی یا پھر آپ نے ان کو دیکھ کر کچھ سیکھ لی اور کچھ انھوں نے بتا دی؟ عرب حج کرتے تھے جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور ان کے پاس نہ کوئی صحیفہ موجود تھا اور نہ ہی کوئی دوسری روایت کی کتاب لیکن حضرت ابراہیم (ع) کی سنت جو ہوتی بھی سال میں ایک دفعہ تھی اور بہت کم لوگوں سے شروع ہوئی تھی وہ چلی آ رہی تھی. تو نماز، اذان، رکعتیں ایسی سنتیں ہیں جو دن میں کئی بار ادا کی جاتی ہیں تو نبی کریم(ص) کی وفات کے ساتھ صحابہ کرام (رض) کو بھول نہیں گئی تھیں. (اگرچہ کچھ روایات ایسا تاثر دیتی ہیں) اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو نبی کریم (ص) سکھا کر گئے تھے اور جو ہوتی بھی پبلک میں تھیں تو ان کی وجہ سے قرآن کو روایات کے تابع کرنے کی دلیل میری نظر میں ٹھیک نہیں لیکن جو بھی روایت قرآن سے مطابقت رکھے گی مجھے اس کو ماننے میں کوئی تردد نہیں. لیکن روایت کو ماننے میں قرآن کا انکار نہیں کر سکتا. الله ہم سب کو ہدایت پر چلنے کی توفیق دے. امین
 

سید رافع

محفلین
پہلی بات بخاری سمیت حدیث کی تمام مشہور کتابیں بنو عباس کے دور میں لکھی گئی نہ کہ بنو امیہ کے دور میں.

صحیح فرمایا آپ نے کہ بخاری بنو عباس کے دور میں لکھی گئی۔ امام بخاری 870 عیسوی میں پیدا ہوئے جبکہ بنو امیہ کی حکومت 744 عیسوی میں 126 سال پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جلدی کر دی آپ نے فیصلہ سنانے میں۔ ان سے سوال ہی کر لیتے کہ کیا آپ سنت اور حدیث کی شرعی حجیت کے قائل ہیں؟
آپ ان کا جواب بھی پڑھ لیتے تو آپ کو علم ہو جاتا کہ میں نے نتیجے پر پہنچنے میں کوئی جلدی نہیں کئی تھی، ان کے مراسلے کی ایک ایک سطر سے سب عیاں تھا، اور عبث مباحث میں کرتا نہیں۔

ویسے آپ کی معلومات کے لیے مزید عرض کر دوں کہ آج کل امت مسلمہ میں صرف دو مذاہب ایسے ہیں جو صحاح ستہ یا دیگر کتب احادیث کی حجیت کے قائل نہیں ، ایک شیعہ (وہ حدیث کی حجیت کے قائل ہیں لیکن صرف اپنی احادیث کے، بخاری مسلم ان کے نزدیک لا شی ہے اور صرف مناظروں میں ان کتب سے مخالف پر دلیل پکڑتے ہیں)، دوسرے وہ جو اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں اور ان کے مخالفین ان کو "پرویزی" یا "چکڑالوی" وغیرہ "القابات" سے یاد کرتے ہیں۔ آخر الذکر حضرات، حدیث کی شرعی حیثیت کے سرے سے قائل نہیں اس لیے حدیث کی کسی بھی کتاب کو مانتے بھی نہیں، ان کے نزدیک یہ سب اساطیر الاولین ہیں۔ اور ہر روایت چاہے وہ تاریخ کی کتب میں ہو یا احادیث کی کتب میں "فیک" ہے!

ابھی تک یقین نہیں تو صاحب لڑی سے خود براہِ راست سوال کر کے دیکھ لیں۔
 

سید رافع

محفلین
دوسری بات حضرت حسین کے پوتے اور حضرت زین العابدین کے بیٹے حضرت زید نے اپنی کتاب مسند زید ابن علی میں جنگ نہروان کا تو ذکر کیا ہے لیکن جنگ کربلا کا ذکر نہیں کیا.

حکمت تو صلحاء کا عام اسلوب رہا ہے۔اس کام سے رکتے ہیں جس سے فتنہ برپا ہو۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ نے حطیم کو کعبے کا حصہ قریش کے کفر کی طرف لوٹ جانے کی وجہ سے بوجہ حکمت نہ سر انجام فرمایا۔

مزید یہ کہ حضرت زین العابدین نے ہر موقعہ پر بنو امیہ کا ساتھ دیا اور بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بھی استوار کیں.

صلحاء بے حد حکیم المزاج ہوتے ہیں۔ سیدنا زین العابدین علیہ السلام اپنے والد ماجد سیدنا حسین علیہ السلام کے خروج پر امت کی خاموشی دیکھ چکے تھے۔ چنانچہ ایک نیا خروج ممکن نہیں تھا۔ یہ اسی نوعیت کے اقدام ہیں جیسا کہ سیدنا حسن علیہ السلام نے امیر معاویہ رض سے صلح کر کے کیے۔ جیسے کہ سیدنا حسن علیہ السلام دیکھ چکے تھے کہ جناب علی علیہ السلام کا امت نے صفین میں کیا ساتھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی دو صاحبزادیاں نکاح میں دیں۔ یہ سب بنو امیہ کو قریب لانے کے لیے ہی تھا۔ ورنہ بنو امیہ کے بڑے سرداروں کو بدر میں قتل کیا گیا۔ خاص کر عتبہ۔ یہ امیر معاویہ رض کا نانا تھا اور آپ کی والدہ ہندہ کا باپ۔

تو یا تو یہ مانا جائے کہ حضرت حسین کے بیٹے اور پوتوں نے ہی ان کا خون بیچ دیا یا پھر یہ مانا جائے کہ ابو مخنف کے قصے کی نہ کوئی سند ہے

رسول اللہ ﷺ نے جیسے وحشی رض کو باوجود سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا احد میں کلیجہ چبانے پر معاف فرما دیا یا عکرمہ بن ابی جہل رض جو کہ ابو جہل کا بیٹا تھا، اسکا اسلام فتح مکہ کے بعد قبول کر لیا ویسے ہی یہ عمل تھا۔ اہل بیت رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کا کامل نمونہ تھے۔

اور اس کو نہ ہی چھیڑا جائے. کیونکہ حضرت حسین کو آج بھی شہید نینوا بھی کہا جاتا ہے اور اس قصہ میں وہ اکیلے شہید ہوئے اور یہ غیر مسلموں سے جنگ تھی.
یہی آپ کا امتحان ہے کہ آپ نفس کی سنتے ہیں یا عدل کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں چاہے گواہی اپنے خلاف پڑے یا اپنے کسی رشتے دار کے خلاف۔

یہ بحث موضوع سے مطابقت نہیں رکھتی تو اس کو رہنے دیا جائے.
اس سے آپس میں ایک دوسرے کے فکری طور پر قریب آنے کا موقع ملے گا۔

لیکن روایت کو ماننے میں قرآن کا انکار نہیں کر سکتا.
آپ نے صحیح فرمایا کہ نماز کی رکعتیں کتاب سے تھوڑی امت نے اپنے اپنے گھرانوں سے سیکھ لیں۔ دن میں جب پانچ دفعہ کوئی عمل کیا جائے تو وہ امت میں معروف نہ ہو تو اور کیا ہو۔ میں اس سے متفق ہوں۔ میں آپ کی توجہ اس طرف دلانا چاہ رہا تھا کہ حدیث کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ ایک لفظ میں جواب ہے جھوٹ۔ لوگ جھوٹ بول کر حدیث کو رسول اللہ ﷺ کی طرف معاذ اللہ منسوب کرتے۔ چنانچہ اس جھوٹ سے بہت سے گروہ متاثر ہوئے ہوں گے۔ آج بھی اس جھوٹ سے بہت سے گروہ متاثر ہیں۔ سو قرآن کی مراد سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس گروہ کی سنیں جو اہل بیت سے وابستہ ہو کیوں کہ انہوں نے سخت ترین اذیت جھیل کر بھی دین سے وابستہ رہے۔ آپ خود نماز میں درود پڑھ کر آل رسول کر بھجتے ہیں۔ اس دعا کا نتیجہ ہے کہ آل رسول ﷺ آپ کو قرآن کی صحیح مراد بتائیں گے۔ جیسا کہ قرآن کی تفسیر رسول اللہ ﷺ ہیں اسی طرح اس تفسیر اور مراد کو پوری طرح سمجھنے والے اہل بیت ہیں۔ روایت بظاہر متعارض نظر آتیں ہیں لیکن جب آل رسول ﷺ کی صحبت میں بیٹھیں گے تو صحیح اور غلط کی خوب خبر ہو جائے گی۔
 

سید رافع

محفلین
قرآن کی بات کو فوقیت دی جائے. قرآن کو حدیث یا تاریخ کا تابع نہ کیا جائے.

ابن آدم اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

دوسرے وہ جو اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں اور ان کے مخالفین ان کو "پرویزی" یا "چکڑالوی" وغیرہ "القابات" سے یاد کرتے ہیں۔ آخر الذکر حضرات، حدیث کی شرعی حیثیت کے سرے سے قائل نہیں اس لیے حدیث کی کسی بھی کتاب کو مانتے بھی نہیں، ان کے نزدیک یہ سب اساطیر الاولین ہیں۔ اور ہر روایت چاہے وہ تاریخ کی کتب میں ہو یا احادیث کی کتب میں "فیک" ہے!
 

سید رافع

محفلین
پہلی بات بخاری سمیت حدیث کی تمام مشہور کتابیں بنو عباس کے دور میں لکھی گئی نہ کہ بنو امیہ کے دور میں.

جب بنو امیہ کو بنی عباس کی تلواروں کا لقمہ بنے سو سال بیت چکے تھے!

مجھے یہ بات مناسب معلوم ہوئی کہ لکھ دوں کہ بنو عباس بنو امیہ سے زیادہ اہل بیت کے دشمن تھے۔ بخاری بنو امیہ سے بھی سخت تر دور میں لکھی گئی۔ چنانچہ اس میں اہل بیت کی موافقت کی اگر کوئی چیز آجائے تو یہ معجزہ ہی ہو گا۔
 
رسول اللہ ﷺ نے خود عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی دو صاحبزادیاں نکاح میں دیں۔ یہ سب بنو امیہ کو قریب لانے کے لیے ہی تھا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے وقت کچھ تو شرم کرلیتے؟
 

سید ذیشان

محفلین
جزاک الله، آپ نے بہت اچھے سوالات اٹھائے ہیں. اور ایسے ہی سوالات کے ساتھ قرآن کو رجوع کیا تھا اور الله سے دعا کی تھی. سوره مائدہ کے دور نزول پر ایک تحریر ہے جس پر اسی لحاظ سے بحث کی گئی ہے. پوری تحریر کو اس ٹوپک میں پیسٹ کرنا کچھ مناسب نہیں اس لئے اس کا لنک ہے. امید ہے کہ آپ سوچ کر اس پر مزید سوالات اور نکات اٹھائیں گے.

https://ia800801.us.archive.org/3/items/SurahMaidaAll/Surah-Maida-All.pdf
اس پر تو بعد میں بات کریں گے فی الحال تو آپ کے مضمون پر بات کرتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پورا مضمون آیت مباہلہ کے بارے میں لکھا لیکن اس میں پوری آیت نہیں پیش کی، نہ ہی اس کو سیاق و سباق میں دیکھا گیا۔

سورہ آل عمران کی چالیس نمبر آیت سے حضرت مریم ؑ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ہو بہو اسی انداز میں جسطرح سورہ مریم میں بیان کیا گیا ہے۔ (سورہ مریم وہی سورہ ہے جس کو حضرت جعفر طیارنے نجاشی کے دربار میں بیان کیا تھا۔ یہ یاد رہے کہ وہ بھی عیسائی تھے نہ کہ یہودی)۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰؑ کا اور ان کے معجزات کا ذکر ہے۔ اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عیسیٰؑ اللہ کے نبی ہی تھے اور جو لوگ ان کو خدا کا درجہ دیتے ہیں وہ غلط ہیں (کچھ شک نہیں کہ خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا رستہ ہے﴿ ۵۱آل عمران﴾)۔ عیسیٰؑ کے حواری یوں کہتے ہیں: "اے پروردگار جو (کتاب) تو نے نازل فرمائی ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور (تیرے) پیغمبر کے متبع ہو چکے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ ﴿۵۳آل عمران﴾"۔ یعنی کہ عیسیٰؑ خود فرماتے ہیں کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور ان کے حواری بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، اس کے بعد کفر کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ اس کے بعدیہ آیات ہیں:

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ {59}
الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ {60}
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ {61}

" عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے ﴿۵۹﴾ (یہ بات) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا ﴿۶۰﴾ پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں ﴿۶۱﴾" ماخذ

انگریزی ترجمہ:
[Yusufali 3:59] The similitude of Jesus before Allah is as that of Adam; He created him from dust, then said to him: "Be". And he was.
[Yusufali 3:60] The Truth (comes) from Allah alone; so be not of those who doubt.
[Yusufali 3:61] If any one disputes in this matter with thee, now after (full) knowledge Hath come to thee, say: "Come! let us gather together,- our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves: Then let us earnestly pray, and invoke the curse of Allah on those who lie!"
یہ تو اس کا سیاق و سباق ہے، صرف قرآن کی آیات سے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ آیات عیسائیوں کو یہ دلیل دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں کہ عیسیٰؑ اللہ کے نبی ہیں۔ یہودیوں کو مریمؑ اور عیسیٰؑ کے واقعے سے کیوں دلچسپی ہو گی کہ ان کو سمجھانے کے لئے یہ آیات نازل کی جائیں؟ ان کے لئے تو موسیٰؑ کے واقعات کا ذکر ہوگا جیسا کہ سورہ بقرہ میں بارہا کیا گیا ہے۔
یعنی ایک انٹرنیٹ یوزر کے کہنے پر ہم بہ یک وقت ان آیات کے ظواہر اور سیاق و سباق کو بھی پس پشت ڈال دیں اور روایات کے بھی منکر ہو جائیں۔ بہت دور کی کوڑی لائیں ہیں صاحب!






 

سید ذیشان

محفلین
پہلی بات بخاری سمیت حدیث کی تمام مشہور کتابیں بنو عباس کے دور میں لکھی گئی نہ کہ بنو امیہ کے دور میں.
دوسری بات حضرت حسین کے پوتے اور حضرت زین العابدین کے بیٹے حضرت زید نے اپنی کتاب مسند زید ابن علی میں جنگ نہروان کا تو ذکر کیا ہے لیکن جنگ کربلا کا ذکر نہیں کیا. مزید یہ کہ حضرت زین العابدین نے ہر موقعہ پر بنو امیہ کا ساتھ دیا اور بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بھی استوار کیں. تو یا تو یہ مانا جائے کہ حضرت حسین کے بیٹے اور پوتوں نے ہی ان کا خون بیچ دیا یا پھر یہ مانا جائے کہ ابو مخنف کے قصے کی نہ کوئی سند ہے اور اس کو نہ ہی چھیڑا جائے. کیونکہ حضرت حسین کو آج بھی شہید نینوا بھی کہا جاتا ہے اور اس قصہ میں وہ اکیلے شہید ہوئے اور یہ غیر مسلموں سے جنگ تھی. یہ بحث موضوع سے مطابقت نہیں رکھتی تو اس کو رہنے دیا جائے.

ظاہری سی بات ہے کہ اس رام کہانی کے ثبوت بھی آپ نے قرآن سے لئے ہونگے یا خدانخواستہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی مقصد کے حصول کے لئے ضعیف سے ضعیف روایات کو بھی قبول کر لیا اور اپنے مقصد کے خلاف متواتر روایات کو بھی ترک کر دیا؟
 

سید رافع

محفلین
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے وقت کچھ تو شرم کرلیتے؟

رسول اللہ کی بیٹی رقيہ رضى اللہ تعالى عنہا عتبہ بن ابو لہب كى بيوى تھىیں اور ان كى بہن ام كلثوم رضى اللہ تعالى عنہا عتيبہ بن ابو لہب كى بيوى تھیں۔ سیدنا زینب رضی اللہ تعالی عنہا ابو عاص کی بیوی تھیں۔

یہ تینوں مرد کافر تھے۔ یہ شادیاں اسلام کے ابتدائی ایام میں ہوئیں۔ جب سورہ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب اور بیوی کے کہنے پر بلارخصتی دونوں بیٹیوں کو طلاق ہو گئی۔ جب کافر سے شادی کرنے کی ممانعت میں آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے ابو عاص سے سیدنا زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے علحیدگی کرا دی جب وہ ایمان لے آئے تو بیوی بھی واپس کر دی۔

بعد میں جناب عثمان دوالنورین کے لقب سے سرفراز ہوئے۔

سنن ابن ماجہ
کتاب: سنت کی پیروی کا بیان
باب: سیدنا عثمان غنی (رض) کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 110

ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عثمان ؓ سے مسجد کے دروازے پر ملے، اور فرمایا: عثمان! یہ جبرائیل ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شادی ام کلثوم سے رقیہ کے مہر مثل پر کردی ہے، اس شرط پر کہ تم ان کو بھی اسی خوبی سے رکھو جس طرح اسے (رقیہ کو) رکھتے تھے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٣٧٨٩، ومصباح الزجاجة: ٤٤) (ضعیف) (اس کی سند میں بھی عثمان بن خالد ضعیف راوی ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ گذشتہ حدیث ( ١٠٩ ) میں گزرا )
وضاحت: ١ ؎: ام کلثوم اور رقیہ ؓ دونوں نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیاں تھیں، اور پہلے دونوں ابولہب کے دونوں بیٹے عتبہ اور ربیعہ کے نکاح میں تھیں، دخول سے پہلے ہی ابولہب نے اپنے دونوں لڑکوں کو کہا کہ محمد ﷺ کی لڑکیوں کو طلاق دے دو، تو انہوں نے طلاق دے دی، اور نبی اکرم ﷺ نے پہلے ایک کی شادی عثمان ؓ سے کی، پھر ان کے انتقال کے بعد دوسری کی شادی بھی انہی سے کردی، اس لئے ان کا لقب ذوالنورین ہوا۔
 
آخری تدوین:

ابن آدم

محفلین
اس پر تو بعد میں بات کریں گے فی الحال تو آپ کے مضمون پر بات کرتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پورا مضمون آیت مباہلہ کے بارے میں لکھا لیکن اس میں پوری آیت نہیں پیش کی، نہ ہی اس کو سیاق و سباق میں دیکھا گیا۔

سورہ آل عمران کی چالیس نمبر آیت سے حضرت مریم ؑ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ہو بہو اسی انداز میں جسطرح سورہ مریم میں بیان کیا گیا ہے۔ (سورہ مریم وہی سورہ ہے جس کو حضرت جعفر طیارنے نجاشی کے دربار میں بیان کیا تھا۔ یہ یاد رہے کہ وہ بھی عیسائی تھے نہ کہ یہودی)۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰؑ کا اور ان کے معجزات کا ذکر ہے۔ اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عیسیٰؑ اللہ کے نبی ہی تھے اور جو لوگ ان کو خدا کا درجہ دیتے ہیں وہ غلط ہیں (کچھ شک نہیں کہ خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا رستہ ہے﴿ ۵۱آل عمران﴾)۔ عیسیٰؑ کے حواری یوں کہتے ہیں: "اے پروردگار جو (کتاب) تو نے نازل فرمائی ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور (تیرے) پیغمبر کے متبع ہو چکے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ ﴿۵۳آل عمران﴾"۔ یعنی کہ عیسیٰؑ خود فرماتے ہیں کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور ان کے حواری بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، اس کے بعد کفر کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ اس کے بعدیہ آیات ہیں:

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ {59}
الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ {60}
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ {61}

" عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے ﴿۵۹﴾ (یہ بات) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا ﴿۶۰﴾ پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں ﴿۶۱﴾" ماخذ

انگریزی ترجمہ:
[Yusufali 3:59] The similitude of Jesus before Allah is as that of Adam; He created him from dust, then said to him: "Be". And he was.
[Yusufali 3:60] The Truth (comes) from Allah alone; so be not of those who doubt.
[Yusufali 3:61] If any one disputes in this matter with thee, now after (full) knowledge Hath come to thee, say: "Come! let us gather together,- our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves: Then let us earnestly pray, and invoke the curse of Allah on those who lie!"
یہ تو اس کا سیاق و سباق ہے، صرف قرآن کی آیات سے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ آیات عیسائیوں کو یہ دلیل دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں کہ عیسیٰؑ اللہ کے نبی ہیں۔ یہودیوں کو مریمؑ اور عیسیٰؑ کے واقعے سے کیوں دلچسپی ہو گی کہ ان کو سمجھانے کے لئے یہ آیات نازل کی جائیں؟ ان کے لئے تو موسیٰؑ کے واقعات کا ذکر ہوگا جیسا کہ سورہ بقرہ میں بارہا کیا گیا ہے۔
یعنی ایک انٹرنیٹ یوزر کے کہنے پر ہم بہ یک وقت ان آیات کے ظواہر اور سیاق و سباق کو بھی پس پشت ڈال دیں اور روایات کے بھی منکر ہو جائیں۔ بہت دور کی کوڑی لائیں ہیں صاحب!
جناب بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے میری تحریر آدھی پڑھی، پوری پڑھ لیتے تو آپ کو یہ تیسرا نکتہ میں اپنے سوال کا جواب مل جاتا. تحریر کو بیحد چھوٹا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر بھی مجھے اندازہ ہے کہ لمبی ہے.

۳)- تیسری آیت ٥٩ ہے جسکو بڑے طمطراق کے ساتھ الوہیت مسیح کے انکار کی دلیل کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے- یہی وہ آیت ہے جس پر عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کی پوری کہانی کھڑی ہے- کیونکہ باقی تو کسی ایک آیت سے بھی ادنی سا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس تقریر کے مخاطب عیسائی ہیں۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
" بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا"

کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں سے کہا گیا کہ اگر تم بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو پھر تو آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا مانو، کیونکہ اسکے تو ماں اور باپ دونوں ہی بیان نہیں کیے جاتے ۔

مگر آیت کے الفاظ اس مفروضے کی مکمل طور پر ابا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں الوہیت مسیح کا انکار نہیں کیا جا رہا بلکہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی پیدائشِ زیرِ بحث ہے۔ اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر مسلمانوں کا اختلاف یہودیوں سے ہے نہ کہ عیسائیوں سے، کیوںکہ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی ان کی غیر معمولی طور پر پیدا ہونے کے قائل ہیں ۔ مزید یہ کہ آیت نمبر ٦٤ بھی یہی واضح کر رہی ہے کہ الوہیت کا موضوع مباہلہ کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مباہلہ کے دونوں فریق توحید یعنی صرف ایک ہی خدا کے ہونے کے قائل ہیں.

حاصل کلام یہ کہ مباہلہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طور پر ہونے والی پیدائش کے موضوع پر تھا. اور حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کی زندگیوں کے احوال بھی اسی پس منظر میں بتائے گئے ہیں. آیت نمبر ٣٩ میں جب حضرت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو کہا گیا ہے کہ الله تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو الله کے ایک فرمان (حضرت عیسیٰ) کی گواہی دے گا۔

بہرحال میرا مقصد آپ سے اپنی بات منوانا نہیں بس پہنچانا ہے. آپ نے اپنا حساب دینا ہے مجھے اپنا حساب دینا ہے لیکن کسی وقت موقع ملے تو عیسائیوں کے پہلا اجلاس جو ہوا تھا جس کو کونسل اف نیس کہتے ہیں اس کو ضرور پڑھیے گا کہ ٣٠٠ سال میں عیسائی عقائد میں کتنی تبدیلی آ چکی تھی اور ان کے علماء نے متفقہ طور پر کس بات کو منظور کیا تھا اور شاید قرآن کی سوره مائدہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے
اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟... (آیت ١١٦)

اور میرا ماننا ہے کہ قرآن میں جو دوسری قوم کے واقعات ہیں وہ اصل میں ہم مسلمانوں کے لئے ہیں کہ یہ والی غلطیاں مت کرنا
 

فہد مقصود

محفلین
صلحاء بے حد حکیم المزاج ہوتے ہیں۔ سیدنا زین العابدین علیہ السلام اپنے والد ماجد سیدنا حسین علیہ السلام کے خروج پر امت کی خاموشی دیکھ چکے تھے۔ چنانچہ ایک نیا خروج ممکن نہیں تھا۔ یہ اسی نوعیت کے اقدام ہیں جیسا کہ سیدنا حسن علیہ السلام نے امیر معاویہ رض سے صلح کر کے کیے۔ جیسے کہ سیدنا حسن علیہ السلام دیکھ چکے تھے کہ جناب علی علیہ السلام کا امت نے صفین میں کیا ساتھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی دو صاحبزادیاں نکاح میں دیں۔ یہ سب بنو امیہ کو قریب لانے کے لیے ہی تھا۔ ورنہ بنو امیہ کے بڑے سرداروں کو بدر میں قتل کیا گیا۔ خاص کر عتبہ۔ یہ امیر معاویہ رض کا نانا تھا اور آپ کی والدہ ہندہ کا باپ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کا حضرت عثمان رضِ اللہ عنہ سے نکاح میں دینے کے لئے جو آپ نے وجہ تحریر کی ہے، اسے آپ نے کس کتاب میں پڑھا ہے؟؟؟ اگر تو آپ نے پڑھا ہے تو کیا آپ اس کتاب کا حوالہ دے سکتے ہیں؟؟؟ یا پھر یہ آپ کی اپنی دلیل ہے؟؟؟
 

سید ذیشان

محفلین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کا حضرت عثمان رضِ اللہ عنہ سے نکاح میں دینے کے لئے جو آپ نے وجہ تحریر کی ہے، اسے آپ نے کس کتاب میں پڑھا ہے؟؟؟ اگر تو آپ نے پڑھا ہے تو کیا آپ اس کتاب کا حوالہ دے سکتے ہیں؟؟؟ یا پھر یہ آپ کی اپنی دلیل ہے؟؟؟
اس سوال کا جواب تو موصوف خود دیں گے لیکن اسی سے متعلق ایک مختصر مضمون (تفسیر المیزان کے مصنف علامہ طباطبائی کا تحریر کردہ) جو کافی عرصہ پہلے نظر سے گزرا تھا، پیش خدمت ہے:

Discourse Seven: Why Did the Prophet Marry So Much?
 

ابن آدم

محفلین
ظاہری سی بات ہے کہ اس رام کہانی کے ثبوت بھی آپ نے قرآن سے لئے ہونگے یا خدانخواستہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی مقصد کے حصول کے لئے ضعیف سے ضعیف روایات کو بھی قبول کر لیا اور اپنے مقصد کے خلاف متواتر روایات کو بھی ترک کر دیا؟
جناب یہ اس لڑی کا موضوع نہیں ہے. آپ اس موضوع کی لڑی بنا لیں میں ضرور اس لڑی کو پڑھوں گا اور کسی نکات پر اعتراض ہو گا تو اس پر اپنی رائے رکھوں گا.

آپ ان کا جواب بھی پڑھ لیتے تو آپ کو علم ہو جاتا کہ میں نے نتیجے پر پہنچنے میں کوئی جلدی نہیں کئی تھی، ان کے مراسلے کی ایک ایک سطر سے سب عیاں تھا، اور عبث مباحث میں کرتا نہیں۔

ویسے آپ کی معلومات کے لیے مزید عرض کر دوں کہ آج کل امت مسلمہ میں صرف دو مذاہب ایسے ہیں جو صحاح ستہ یا دیگر کتب احادیث کی حجیت کے قائل نہیں ، ایک شیعہ (وہ حدیث کی حجیت کے قائل ہیں لیکن صرف اپنی احادیث کے، بخاری مسلم ان کے نزدیک لا شی ہے اور صرف مناظروں میں ان کتب سے مخالف پر دلیل پکڑتے ہیں)، دوسرے وہ جو اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں اور ان کے مخالفین ان کو "پرویزی" یا "چکڑالوی" وغیرہ "القابات" سے یاد کرتے ہیں۔ آخر الذکر حضرات، حدیث کی شرعی حیثیت کے سرے سے قائل نہیں اس لیے حدیث کی کسی بھی کتاب کو مانتے بھی نہیں، ان کے نزدیک یہ سب اساطیر الاولین ہیں۔ اور ہر روایت چاہے وہ تاریخ کی کتب میں ہو یا احادیث کی کتب میں "فیک" ہے!

ابھی تک یقین نہیں تو صاحب لڑی سے خود براہِ راست سوال کر کے دیکھ لیں۔
میں سنت کا قائل ہوں لیکن حدیث سنت نہیں ہے. اور دوسری بات حدیث قرآن کے تابع ہے نہ کہ قرآن کا مطلب حدیث کی روشنی میں لے کر قرآن کو حدیث کا تابع کر دیا جائے. یعنی میں منکر قرآن نہیں ہوں.

باقی فقہ حنفی تو اکثر مقامات پر حدیثوں کے برخلاف ہی ہے. اور آج کی تاریخ میں تو سب سے بڑھ کر امام بخاری اور امام مسلم منکر حدیث ہیں کہ دونوں نے ایک دوسرے تقریباً ١٩٠٠ حدیثیں لیں صرف اور باقیوں کو رد کر دیا. تو اصل بحث یہی ہونی چاہیے کہ کیا قرآن کا یہ مطلب بیٹھ رہا ہے جو ہم لے رہے ہیں یا روایت کو بچانے کے لئے قرآن کے مطلب کو پس پشت ڈال رہے ہیں
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
باقی فقہ حنفی تو اکثر مقامات پر حدیثوں کے برخلاف ہی ہے. اور آج کی تاریخ میں تو سب سے بڑھ کر امام بخاری اور امام مسلم منکر حدیث ہیں کہ دونوں نے ایک دوسرے تقریباً ١٩٠٠ حدیثیں لیں صرف اور باقیوں کو رد کر دیا. تو اصل بحث یہی ہونی چاہیے کہ کیا قرآن کا یہ مطلب بیٹھ رہا ہے جو ہم لے رہے ہیں یا روایت کو بچانے کے لئے قرآن کے مطلب کو پس پشت ڈال رہے ہیں
یہ وہ باتیں ہیں جو علامہ غلام احمد پرویز نے اپنی کتاب "مقامِ حدیث" اور دیگر مضامین میں دہرائی ہیں، آپ ان کا نام لیتے ہوئے شرماتے کیوں ہیں! :)
 

ابن آدم

محفلین
یہ وہ باتیں ہیں جو علامہ غلام احمد پرویز نے اپنی کتاب "مقامِ حدیث" اور دیگر مضامین میں دہرائی ہیں، آپ ان کا نام لیتے ہوئے شرماتے کیوں ہیں! :)
جناب وہ سنت کو نہیں مانتے میں سنت کو مانتا ہوں کیونکہ میں نے نماز حدیث سے نہیں سنت سے سیکھی. دوسری بات وہ عربی کے لفظوں کے نئے معنی دیتے ہیں میں کہتا ہوں کہ عربی الفاظ کے معنی پہلے سے ہیں، نساء کا مطلب کوئی کمزور قوم گروہ نہیں بلکہ عورت ہے. باقی ہر کوئی اپنی پسند کی روایت لیتا ہے باقیوں کا انکار کرتا ہے، رفع یدین سجدوں میں بھی کرنے کی روایت ہے لیکن میں نے کسی کو کرتے دیکھا نہیں. مزید یہ ہے الله نے قرآن میں شیطان کی بھی ایک سچی بات کو سچ کہا ہے اور اس کی تائید کی تو اگر کچھ باتوں میں میری اور پرویز صاحب کی باتیں ملتی ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں اگر وہ حق ہیں. میرا مقصد قرآن کی شفاعت اور آخرت کی کامیابی کا حصول ہے.

میں نے پرویز صاحب کی اپنی تحریریں نہیں پڑھیں لیکن میں راشد شاز کو پڑھتا ہوں، حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب کو پڑھتا ہوں، علامہ اظہر میرٹھی صاحب کی کتب سے استفادہ کیا ہے اور مولانا مودودی کی کتب و تفسیر اور یہاں تک کے شیعوں کی تفسیریں بھی پڑھتا ہوں. لیکن اس کے بعد اپنا غور و فکر کرتا ہوں. تو بنیادی نکات ان کی کتابوں سے لیے ہیں.

ایک اور بات جس کا مجھے اب اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ اپنی کوئی سوچ نہیں رکھتے میں نے تین اور قرانی موضوعات پر پوسٹس کی تھیں. آپ نے اگر وہ پڑھی ہوتیں اور ان پر غور کیا ہوتا تو آپ یہ بات کرتے ہوئے رک ضرور جاتے. کیونکہ جس نے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو سمجھ کر پڑھا ہوتا ہے اس کو معلوم ہوتا ہے کہ غامدی اور پرویزی فکر میں کیا فرق ہے، اصلاحی اور مودودی کے نظریات کہاں موافق اور کہاں مختلف ہیں، مولانا آزاد اور سر سید باقیوں سے کیسے مختلف ہیں لیکن ایک اپنی سوچ نہ رکھنے والا اور پروپیگنڈا کے پیچھے چلنے والا ان سب کو منکر حدیث کہہ کر ایک ہی ترازو میں رکھ دے گا.
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور بات جس کا مجھے اب اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ اپنی کوئی سوچ نہیں رکھتے
ہر کسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ ہر کسی کو اپنی سوچ کی بدہضمی ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر وقت اور ہر جگہ آپ اپنی سوچ کی قے کرتے پھریں، جیسے کہ یہ والی قے:

حضرت حسین کو آج بھی شہید نینوا بھی کہا جاتا ہے اور اس قصہ میں وہ اکیلے شہید ہوئے اور یہ غیر مسلموں سے جنگ تھی.
آج تک ہر کسی نے یہی کہا، حتی کہ انہوں نے بھی یہی کہا کہ جو حضرت امام حسین کو خلیفۃ المسلمین اور امیر المومنین کا باغی کہتے ہیں، کہ امام حسین، یزید اور ابنِ زیاد کی فوج کے ہاتھوں جس کا کمانڈر ابنِ سعد تھا، کربلا کے دشت میں اپنے عزیز و اقارب اور رفقا کے ساتھ مقتول ہوئے۔ ایسی بدبو یا تو پرویزیوں کی "ذاتی سوچ" کے قے میں تھی یا آپ کے اوپر والے جملے میں ہے کہ امام حسین صرف اکیلے مقتول ہوئے تھے وہ بھی غیر مسلموں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے، لعنت اللہ علی الکاذبین!
 
Top