ماہر القادری حمد: فکر و دانش کی ہے معراج خدا کا اقرار

فکر و دانش کی ہے معراج خدا کا اقرار
یہی وجدان کی آواز ہے فطرت کی پکار

علم کا نقطۂ آخر ہے یقیں کی تنویر
اسی تنور سے ہوتے ہیں منور افکار

عقل ایمان کے سائے ہی میں پاتی ہے فروغ
یہی جذبہ ہے جو کرتا ہے خودی کو بیدار

ہے متاعِ دل و جاں نورِ یقیں، حسنِ عمل
اسی ماحول میں ہوتے ہیں نمایاں کردار

بے یقینی کی خلش دل کو ہے پیغامِ اجل
نہ جراحت کی کوئی حد ہے نہ زخموں کا شمار

عقل گمراہ جو ہو جائے تو ہو منکرِ حق
جہل ہے جہل، حماقت ہے خدا کا انکار

آہ! وہ شعر و ادب جو ہو یقیں سے عاری
ہائے! افکار کے یہ خار و خس و گرد و غبار

دشتِ قرطاس و قلم کے یہ شغال و روباه
جہل و نادانی کے یہ کرگسِ گفتار و حمار

ذہن اور فکر ہیں تشکیک و تذبذب کے مریض
عقل کی سطح بہت پست ہے اور ناہموار

نقش کھنچتا نہیں جب تک کوئی نقاش نہ ہو
راہرو ہو تو ابھرتے ہیں قدم کے آثار

نہیں ممکن کوئی تکوین مکوّن کے بغیر
حَرَکت کا ہے محرّک کے ارادے پہ مدار

خلق اک فعل ہے جس کے لیے خالق ہے ضرور
نفسِ فن اپنی جگہ خود ہے دلیلِ فن کار

مادّے میں ہے ارادہ نہ تعقّل نہ شعور
خلق و ایجاد سے اس کو نہیں کوئی سروکار

ذره ذره کی شہادت کہ خدا ہے موجود
پتے پتے کو ہے صانع کی صنعت کا اقرار

اسی خلاق نے جوہر کو توانائی دی
پھول پتوں کو عطا جس نے کیے نقش و نگار

اس کی صنعت کے نمونے ہیں وہ نکہت ہو کہ رنگ
اس کی قدرت کے کرشمے ہیں خزاں ہو کہ بہار

اسی مالک، اسی خالق کی ہے سب حمد و ثنا
آبشاروں کا ترنم ہو کہ گلبانگِ ہزار

یہ کڑکتی ہوئی بجلی، یہ گرجتے بادل
یہ سمندر کی تہیں اور یہ پہاڑوں کا ابھار

کبھی گرمی، کبھی سردی، کہیں سایہ، کہیں دھوپ
کہیں جنگل، کہیں گلشن، کہیں ٹیلے، کہیں غار

مہ و کیوان و عطارد ہوں کہ پروین و زحل
گردشِ ارض و فلک ہو کہ ستاروں کے مدار

وہ لہکتا ہوا سبزہ ہو کہ تپتی ہوئی ریت
جیٹھ بیساکھ کی لو ہو کہ ہو ساون کی پھوار

فیل و سیمرغ و ابابیل ہوں یا مور و ملخ
ہم صفیرانِ چمن ہوں کہ غزالانِ تتار

ہو وہ حرکت کہ سکوں، حرف و نوا ہو کہ سکوت
وہ خلا ہو کہ ملا، نور ہو یا شعلۂ نار

یہ سب آیاتِ الٰہی ہیں ذرا غور سے دیکھ
اس کی پھر حمد بیان کر، اسی خالق کو پکار!

٭٭٭
ماہر القادریؒ
 

Ali gouhar

محفلین
فکر و دانش کی ہے معراج خدا کا اقرار
یہی وجدان کی آواز ہے فطرت کی پکار

علم کا نقطۂ آخر ہے یقیں کی تنویر
اسی تنور سے ہوتے ہیں منور افکار

عقل ایمان کے سائے ہی میں پاتی ہے فروغ
یہی جذبہ ہے جو کرتا ہے خودی کو بیدار

ہے متاعِ دل و جاں نورِ یقیں، حسنِ عمل
اسی ماحول میں ہوتے ہیں نمایاں کردار

بے یقینی کی خلش دل کو ہے پیغامِ اجل
نہ جراحت کی کوئی حد ہے نہ زخموں کا شمار

عقل گمراہ جو ہو جائے تو ہو منکرِ حق
جہل ہے جہل، حماقت ہے خدا کا انکار

آہ! وہ شعر و ادب جو ہو یقیں سے عاری
ہائے! افکار کے یہ خار و خس و گرد و غبار

دشتِ قرطاس و قلم کے یہ شغال و روباه
جہل و نادانی کے یہ کرگسِ گفتار و حمار

ذہن اور فکر ہیں تشکیک و تذبذب کے مریض
عقل کی سطح بہت پست ہے اور ناہموار

نقش کھنچتا نہیں جب تک کوئی نقاش نہ ہو
راہرو ہو تو ابھرتے ہیں قدم کے آثار

نہیں ممکن کوئی تکوین مکوّن کے بغیر
حَرَکت کا ہے محرّک کے ارادے پہ مدار

خلق اک فعل ہے جس کے لیے خالق ہے ضرور
نفسِ فن اپنی جگہ خود ہے دلیلِ فن کار

مادّے میں ہے ارادہ نہ تعقّل نہ شعور
خلق و ایجاد سے اس کو نہیں کوئی سروکار

ذره ذره کی شہادت کہ خدا ہے موجود
پتے پتے کو ہے صانع کی صنعت کا اقرار

اسی خلاق نے جوہر کو توانائی دی
پھول پتوں کو عطا جس نے کیے نقش و نگار

اس کی صنعت کے نمونے ہیں وہ نکہت ہو کہ رنگ
اس کی قدرت کے کرشمے ہیں خزاں ہو کہ بہار

اسی مالک، اسی خالق کی ہے سب حمد و ثنا
آبشاروں کا ترنم ہو کہ گلبانگِ ہزار

یہ کڑکتی ہوئی بجلی، یہ گرجتے بادل
یہ سمندر کی تہیں اور یہ پہاڑوں کا ابھار

کبھی گرمی، کبھی سردی، کہیں سایہ، کہیں دھوپ
کہیں جنگل، کہیں گلشن، کہیں ٹیلے، کہیں غار

مہ و کیوان و عطارد ہوں کہ پروین و زحل
گردشِ ارض و فلک ہو کہ ستاروں کے مدار

وہ لہکتا ہوا سبزہ ہو کہ تپتی ہوئی ریت
جیٹھ بیساکھ کی لو ہو کہ ہو ساون کی پھوار

فیل و سیمرغ و ابابیل ہوں یا مور و ملخ
ہم صفیرانِ چمن ہوں کہ غزالانِ تتار

ہو وہ حرکت کہ سکوں، حرف و نوا ہو کہ سکوت
وہ خلا ہو کہ ملا، نور ہو یا شعلۂ نار

یہ سب آیاتِ الٰہی ہیں ذرا غور سے دیکھ
اس کی پھر حمد بیان کر، اسی خالق کو پکار!

٭٭٭
ماہر القادریؒ
 
Top