تہذیبی نرگسیت

فرخ منظور

لائبریرین
اصل مقصد کیا ہے؟
پاکستان اور بھارت کے پالیسی سازوں کا اصل مقصد ملکہ برطانیہ کی فرمان برداری تھا اور ہے۔ دو قومی نظریہ انگریز کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی شیطانی سوچ سے وجود میں آیا۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں غلبہ اسلام کی تحریکوں میں جان اس وقت پڑی جب سے ہندوستان وحرم میں انگریز اور اسکے حمایت یافتہ خوارج کی آمد ہوئی؟ کیا وجہ ہے کہ آج تک امریکہ و یورپ کی حمایت آل سعود کے ساتھ ہے جبکہ دوسری طرف وہ انہی کے زیر اثر چلنے والی غلبہ اسلام کی نام نہاد تحریکوں سے مسلمانوں کی زندگیوں کو اجیرن اور اپنی عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں؟ یہی نیٹو و امریکہ کی افواج کبھی طالبان، کبھی اسلامک اسٹیٹ سے نبرد آزما دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب کے چندےکو باآسانی ساری دنیا میں ان تنظیموں کے خام مال تیار کرنے والے مدارس تک پہنچاتی دکھائی دیتی ہیں؟ یہ صورتحال الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی ہے۔

مثال کے طور پراگر کوئی شخص یہ مان لے کہ میں ڈاکٹر ہوں تو ظاہر ہے وہ لوگوں کا علاج کرنا شروع کر دے گا۔ کچھ لوگ اپنے مضبوط اعصاب کی وجہ سے صحت مند ہو جائیں گے لیکن اکثریت موت کے منہ میں جائے گی۔ جلد یا بدیر ایسا جعلی ڈاکٹر حکومت کی گرفت میں آئے گا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ اس وقت ہو گا جب کوئی فردیا جماعت اس کام کو اپنے ذمے لے لیں کہ جو کام نبی یا آل نبی ﷺ کے کرنے کا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نبی ﷺ جیسا سمجھیں گے اور یہیں سے مغالطہ لگے گا کہ جو نبی ﷺکر سکتے ہیں وہ ہم بھی کر سکتے ہیں۔ جماعتیں بنائی جائیں گی لوگوں کو منظم کیا جائے گا اور پھر جو جو نہ کیا جائے وہ کم ہو گا۔

اب بھی دیر نہیں ہو ئی۔ یورپی ممالک میں بسے والے سیکولر مسلمان اور لبرل یورپی اگر چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں اسلامی غلبے کی تحریکوں کے نام پر ان سے فراڈ نہ کریں تو وہ اس بات پر زور دیں کہ حرم پر ایسے مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جو امام مہدی ؑکے ظہور تک دہشت گردی کے بجائے صبر اور حصول علم اور فروغ علم کو ترجیح دیں۔

یہ بھی فرما دیجیے کہ ہم مسلمانوں میں جو اتنے فرقے ہیں کیا یہ بھی انگریزوں کی ایجاد ہے اور ان کی تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کے اصولوں پر مبنی ہے؟
 

سید رافع

محفلین
مذہبی قیادت کا اضطراب
پاکستان میں مذہب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہےوہ محض اسلام کا ایک پروپگینڈہ ہے۔ کچھ لوگ اس بات پر چونکیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ اسلام کہ جس سے ہر لمحہ اللہ کی معرفت کا نیا علم حاصل ہو ناپید ہے۔ یہی بات پاکستان کی مذہبی قیادت کے اضطراب کا باعث ہے۔

موجودہ دور میں پروپگینڈے کے زور پر جھوٹ پورے زور و شور سے سچ بنایا جا رہا ہے۔ سود کی بدحواسی کو منافع کا ذریعہ بتایا جا رہا ہے، زنا کو نکاح سے خوبصورت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور جمہوریت کی اکثریت کو علم و فہم کی اقلیت پر برتر ثابت کیا جا رہا ہے۔ اس افراتفری کے ماحول میں اللہ کی پہچان کی محافل کیسے منعقد کی جائیں کہ جب چہار جانب سے مسلمانوں ہی نہیں انسانوں کی معیشت، معاشرت اور اطوار کو غلط طرز پر ڈھالا جا رہا ہے۔ اس حال میں فی الحال علمائے اسلام و مشائخ دین اسلام کے عقائد و نظریات اور ایمان کو لوگوں کے دلوں میں باقی رکھنے کی سعی بذریعہ پروپگینڈہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اصل اسلام نہیں ہے اور نہ ہی اس میں لوگوں کی اصل اصلاح ہے۔ یہی بات مسلمان علماء و مشائخ کو اضطراب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔

بات رہی غلبہ اسلام کی تحریکوں کی تو وہ تو ہیں ہی سرے سے غلط۔ ان سے جو بھی ظاہر ہو کم ہے۔ سیاسی، جہادی اور تبلیغی مذہبی قیادتوں سے جو جو کچھ ظاہر ہو رہا ہے وہ محض پروپگینڈہ ہے ۔ اس میں وہ نور و تزکیہ بے حد مدھم ہے جو جناب رسول اللہ ﷺ کے لائے ہو دین کی اصل تھی۔
 

سید رافع

محفلین
یہ بھی فرما دیجیے کہ ہم مسلمانوں میں جو اتنے فرقے ہیں کیا یہ بھی انگریزوں کی ایجاد ہے اور ان کی تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کے اصولوں پر مبنی ہے؟

اصولی طور پر مسلمانوں میں کوئی فرقہ نہیں۔ یہ بات بعض لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو لیکن اصل واقعہ یہی ہے۔

قصہ یہ ہے کہ علمی موشگافیاں اور علمی غلطی اور چیز ہیں اور فرقہ پرستی اور شئے ہے۔ چنانچہ چار مذاہب کی نوعیت اسی قسم کی ہے۔ صوفی اور سلفی میں فرق اس نوعیت کا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت میں کی اصل بھی یہی ہے۔

انگریزوں کی اصل تقسیم کرنا ہے جبکہ مسلمانوں کی اصل اکھٹا کرنا ہے۔ اب جو جو مسلمان اپنی غلطی یا فسق سے انگریزوں کی دولت، سائنس میں کامیابی یا اپنی بات منوانے میں حد سے نکلے انکو انگریزوں نے خوب تاک کر استعمال کیا۔ ان میں سرسید سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی اور موجودہ دور کے لبرل مسلمان سب شامل ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اصولی طور پر مسلمانوں میں کوئی فرقہ نہیں۔ یہ بات بعض لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو لیکن اصل واقعہ یہی ہے۔

قصہ یہ ہے کہ علمی موشگافیاں اور علمی غلطی اور چیز ہیں اور فرقہ پرستی اور شئے ہے۔ چنانچہ چار مذاہب کی نوعیت اسی قسم کی ہے۔ صوفی اور سلفی میں فرق اس نوعیت کا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت میں کی اصل بھی یہی ہے۔

انگریزوں کی اصل تقسیم کرنا ہے جبکہ مسلمانوں کی اصل اکھٹا کرنا ہے۔ اب جو جو مسلمان اپنی غلطی یا فسق سے انگریزوں کی دولت، سائنس میں کامیابی یا اپنی بات منوانے میں حد سے نکلے انکو انگریزوں نے خوب تاک کر استعمال کیا۔ ان میں سرسید سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی اور موجودہ دور کے لبرل مسلمان سب شامل ہیں۔

دراصل اسے ہی نرگسیت کہتے ہیں کہ بحثیت قوم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم نہ کرنا اور ان پر ہٹ دھرمی سے اڑے رہنا۔
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
 

سید رافع

محفلین
فحاشی اورعریانی کا سوال
جنس مخالف میں دلچسپی انسان کا طاقتور ترین جذبہ ہے۔ اسلام اس جذبے کو نکاح کا پابند کرنا چاہتا ہے جبکہ یورپ و امریکہ اس بات کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں۔ مغربی اقوام زنا، لواطت اور ہم جنس پرستی سے پیدا ہونے والے مسائل کو فرد کی آزادی سے کمتر مانتی ہیں۔ اسکے برعکس اسلام عورت کو عموماً گھر پر رہنے کو ترجیح دیتا ہے لیکن سودی معیشت و معاشرت کے رائج ہونے کے بعد یہ بات معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بات موجودہ دنیا کے تصوارت کے منافی ہے اسی لیے عورتوں کی ایک کثیر تعداد ہر ہر جگہ موجود ہے۔

چونکے مذہبی قیادتیں سودی معیشت میں پروپگینڈے کے ذریعے اسلامی احکام مسلمانوں میں رائج کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اس لیے مسلمان مرد کرخت اور مسلمان عورتیں جبر کا شکار ہوتی جا رہیں ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل موجودہ دور کے بے اصل اور بودے نظریے' اکثریت جو کہے ٹھیک ہے' سے ظاہر ہوا ہے۔ اس نظریے نے علم و تہذیب کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جو اکثریت میں ہے وہ جو چاہے کہے اور من مانے فیصلے کرے چاہے اصل علم اس کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جمہوریت اور سودی معیشت دونوں ہی مغرب کی پیداوار ہیں ۔ پاکستان کی مذہبی قیادت پر یہ الزام رکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نےتذکیہ نفس کے بجائے پروپگینڈے کے ذریعے جمہور کی رائے کیوں ہموار کی؟
 

سید رافع

محفلین
دراصل اسے ہی نرگسیت کہتے ہیں کہ بحثیت قوم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم نہ کرنا اور ان پر ہٹ دھرمی سے اڑے رہنا۔
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں

آپ نے جلدی کی۔

چلیں من و عن آپ ہی کی بات تسلیم کر لیتے ہیں۔ مسلمانوں میں درجنوں فرقے ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ دن و رات ایک دوسرے کے علماء کو مارتے ہیں اور خوں ریزی کر کے ماہانہ کئی سو لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ ان فرقوں کے درمیان اختلاف کبھی ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ ان فرقوں کا کل کا کل ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہے۔ ان فرقوں کا اختلاف علمی و روحانی نہیں بلکہ دنیا کی جلن کی خاطر ہے اور اسی دنیا کے چندے کی خاطر یہ مسلمانوں کو گمراہ کر کے انکو ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں۔

بحثیت قوم اوپر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کر لینے کے باوجود اس حقیقت پر کوئی فرق نہیں آتا کہ مسلمان تو برے ہیں لیکن اسلام برا نہیں۔ اب معلوم نہیں میں اس وقت اسلام کو ڈیفنڈ کر رہا ہوں یا مسلمان کو؟ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ مسلمان بمقابلہ کس کے کتنے برے ہیں؟ اور اچھے مسلمان ہونے کے لیے کیا کریں؟

اب معلوم نہیں جتنا اسلام موجودہ دور کے برے مسلمان نے اختیار کیا ہے وہ چھوڑ دے یا پھر دن و رات اچھے اسلام کو اختیار کرنے کی کوشش میں لگا رہے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ نے جلدی کی۔

چلیں من و عن آپ ہی کی بات تسلیم کر لیتے ہیں۔ مسلمانوں میں درجنوں فرقے ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ دن و رات ایک دوسرے کے علماء کو مارتے ہیں اور خوں ریزی کر کے ماہانہ کئی سو لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ ان فرقوں کے درمیان اختلاف کبھی ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ ان فرقوں کا کل کا کل ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہے۔ ان فرقوں کا اختلاف علمی و روحانی نہیں بلکہ دنیا کی جلن کی خاطر ہے اور اسی دنیا کے چندے کی خاطر یہ مسلمانوں کو گمراہ کر کے انکو ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں۔

بحثیت قوم اوپر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کر لینے کے باوجود اس حقیقت پر کوئی فرق نہیں آتا کہ مسلمان تو برے ہیں لیکن اسلام برا نہیں۔ اب معلوم نہیں میں اس وقت اسلام کو ڈیفنڈ کر رہا ہوں یا مسلمان کو؟ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ مسلمان بمقابلہ کس کے کتنے برے ہیں؟ اور اچھے مسلمان ہونے کے لیے کیا کریں؟

اب معلوم نہیں جتنا اسلام موجودہ دور کے برے مسلمان نے اختیار کیا ہے وہ چھوڑ دے یا پھر دن و رات اچھے اسلام کو اختیار کرنے کی کوشش میں لگا رہے؟
اچھا ہے آپ نے خود ہی ساری تفصیل بیان کر دی۔ اب مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔ خوش رہیے۔ :)
 

سید رافع

محفلین
افغان عراق مسئلے کی ترجیح
پاکستان کے لیے افغا نستان اور عراق ترجیح، اقبال کے کلام کوبطور آئیڈیل پیش کرنے سے بنے۔ دن رات لوگوں کے سامنے اقبال کو ایک عظیم مفکر ، ہیرو اور مصور پاکستان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو ان سے کہہ رہا ہے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے! نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر۔ اقبال نے صبر کرتے مسلمانوں کو سویا ہوا مسلمان تصور کیا ۔ مسلمان ہمیشہ سے بے حد بیدار اور محتاط قوم ہے۔ لیکن ان کے ذہنوں میں شکوہ جواب شکوہ کا پروپگینڈہ ایک کہانی کے طور پر گھولا گیا جبکہ انکے شکم سودی نظام سے حاصل ہو نے والی کمائی سے بھرے ہو ئے تھے۔ یوں روحانیت سے خالی بھولے بھالے مسلمانوں کے ہا تھوں تقسیم ہند کا عظیم سانحہ ہوا۔

اقبال کی فکر نے اسلام کو اسی طرح کا نقصان پہنچایا جس طرح کہ معاشرے کی روحانی سطح بلند کرنے میں جلدی نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہنچایا۔ تیمیہؒ، اقبال اور مودودی کے قویٰ مضبوط تھے اور عقل کی فراوانی تھی لیکن وہ اتنی ہی قوت کی عقل ِباطن سے محروم تھے۔ اسلام کا لطیف نظام محض سر کی عقل سے سمجھ نہیں آسکتا۔مثلاًنماز روزہ سے افضل ہے لیکن حیض کے بعد روزوں کی قضا ہے لیکن نماز کی قضا نہیں۔اسی ضمن میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور خوارج کے درمیان مناظرہ بھی دلیل صحیح ہونے لیکن مراد غلط ہونے کی واضح مثال ہے۔

اب جبکہ حرم شریف پر صبر کیے مسلمانوں کو برطانوی سرکردگی میں قتل کرا دیا جائے اور وہاں تیمیہ کے فلسفے سے متاثرہ لوگوں کا قبضہ ہو جائے اور برصغیر میں تقسیم سے قبل اور بعد اقبال کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جائے تو نہ چاہتے ہوئے بھی پروپگینڈے کے ذریعے وہ اذیت و مشقت بھرا کام مسلمانوں کے سر ڈالا جائے گا جو رسول اور آل رسول ﷺ کے کرنے کے کام ہیں اور وہ وقت آنے پر خودبخود سرانجام پا جائیں گے۔ ایسے میں عرب سے سید قطب اور اخوان المسلمون ہی ابھریں گے کیونکہ وہاں پروپگینڈے سے صبر کرتے مسلمانوں کو پہلے ہی ختم کیا جاچکا ہے جو علم کے وارثین تھے اور یہاں پاک و ہند میں مودودی کا ہی طوطی بولے گا کہ اقبال سوئے ہوئے مسلمانوں کو سکھا رہے ہیں نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری۔

اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ یورپی ممالک میں بسنے والے سیکولر مسلمان اور لبرل یورپین اسکالرز اقبال کے شاہین کے پروپگینڈےکا راز فاش کریں تاکہ دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔
 

سید رافع

محفلین
نرگسیت کا مرض
بات کو پیچیدہ اور خم دار بنانا ہو تو اس میں سائکالوجی اور سائکو بیبل کی ہزاروں نہیں لاکھوں اصلاحات استعمال کر ڈالیں۔

موجودہ سائکالوجی لاکھوں کیفیات و جذبات کوعنوان دینے یا اسکو بیماری بتانے کا نام ہے۔ امید ہے یہ جلد متروک سائنس بن جائے گی کہ اس انتہائی مہنگی سائنس سے معاشرے کو کوئی خاص فائدہ نہیں۔ بس یہ پتہ چل جاتا ہے کہ سائکالوجی کسی شخص کی کیفیات کو کیا نام دیتی ہے۔ معاشرے کو اصل فائدہ کندھا دینے اور دلاسہ دینے سے ہے۔ لوگوں کی بات توجہ سے سننے اور حل کرنے میں ہے۔ ایسے لوگ سائنس نہیں اسلام دے سکتا ہے جو کم ذہن رکھنے والوں کے ساتھ بھی انصاف سے پیش آئیں۔

موجودہ دور کا خاصا یہ ہے کہ چہار جانب سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ پروپگینڈہ باقاعدہ ایک ہنر بن چکا ہے۔ ایسے میں ہر گروہ کا ایک ایجنڈہ ہے جس سے وہ دوسرے کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کے فیصلے عقل و علم کے بجائے اکثریت کے انتخاب پر ہونے لگے ہیں سو حکومتیں، کاروباری ادارے، ذرائع ابلاغ کے ادارے بلکہ شعراء و مصنفین تک کسی ایجنڈے کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس جھوٹ سے سر میں موجود عقل پر بوجھ پڑتا ہے جس کی وجہ سے بعض کھلی بحث کے بجائے دفاعی انداز اپناتے ہیں اور اپنی قدروں، مذہب اور نظریات پر اٹل رہتے ہیں۔

اسلام صرف دو اصلاحات پر مبنی ہے سچ اور جھوٹ۔ سچ صبر کا نام ہے اور جھوٹ بے صبری کا ۔ صبر کا اولین حصہ اس بات سے حاصل ہوتا ہے کہ آگے بھی مرنے کے نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔ اس صبر کے آثار چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں اور دل اور کھالیں نرم پڑ جاتیں ہیں۔ مسلمان ہمشہ سے انہی اثار سے لوگوں کا سچا اور جھوٹا ہونا جانتے آئے ہیں۔ سچ پر صبر کرنے کا نتیجہ بہادری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور بے صبری کا نتیجہ بزدلی کی صورت میں۔ بہادر انسان منکسر المزاج ہوتا ہے جبکہ بزدل دھوکے باز و خود گر ہوتا ہے۔ بہادری کے ساتھ عقل ِ کثیر ہو تو امام الناس بنتا ہے اور اگر بزدلی کے ساتھ عقل ہو تو بادشاہ بنتا ہے۔ المختصر ہر اچھی صفت سچ کے درخت کا پھل ہے اور ہر برا وصف جھوٹ کی جھاڑی کا ایک کانٹا ہے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
یکسانیت اور یک رنگی
اس میں کچھ کلام نہیں کہ پاکستان میں اسلام اپنے سے بڑوں کی اطاعت و فرمانبرادی پر قائم ہے۔ بڑوں کو لوگ اپنا مخلص اور باپ کا درجہ دیتے ہیں۔ اسی طرح احتراماً اور اسی بیان کردہ اخلاص اور سچائی کی وجہ سے لوگ اپنے سے قبل گزرےسچے لوگوں کی تحقیقات پر اعتماد رکھتے ہیں اور انہیں حزر جاں رکھتے ہیں۔

اسی کے برعکس امریکی معاشرہ ہے جہاں سائنس پر تحقیق زوروں پر ہے۔ وہاں آپ کی تحقیق اور سوال مروجہ نظریات یہاں تک قوانین کو تبدیل کر سکتا ہے۔ جس قدر باریک بینی سے اور جس قدر دور تک سائنسدان دیکھ اور سن پائے گا اسی قدر سائنس کی کتاب تبدیل بھی ہو گی اور آگے بھی بڑھے گی۔ پاکستان میں قرآن کی موجودگی اور سنت رسول ﷺ کی مثال کی وجہ سے کتاب کی تبدیلی کے یہ مسائل درپیش نہیں آتے۔

ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستان کے مدارس میں پڑھنے والے بچے غریب خاندانوں سے آتے ہیں جو بقیہ ساری زندگی مسجد و مدرسے کی آمدنی سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ علماء تقریر کرنے کے، موذن اذان دینے کے، نعت خواں نعت پڑھنے کے اور عالم کلاس لینے کا معاوضہ لیتا ہے اور اسی سے اپنا گزر اوقات کرتا ہے۔ یوں وہ اپنی مسجد کی انتظامیہ اور مدرسے کا پابندہو جاتا ہے۔ ان حالات میں اختلاف ایک طرح کی معاشی خود کشی ثابت ہوتی ہے۔

پاکستان یا سعودی عرب میں اسلام میں جہاں جہاں جبر نظر آتا ہے وہ اپنی روحانیت سے بڑھ کرمحض پر وپگینڈہ ہے۔ مسلمان روحانی ترقی حرام سودی بینک کے نوٹ جیب میں رکھ کر حاصل نہیں کر پاتے تو پروپگینڈے اور لگی بندھی مسلک کی تعلیمات سنانے پر اتر آتے ہیں۔ یہ سب تزکیہ نفس کے بجائے ذہن سازی کی فصل ہے جس کوہم جبر اور کرختگی کی صورت میں کاٹ رہے ہیں۔ اگر نرگسیت کچھ شئے ہے تو اسکی اصل یہی ہے۔
 

سید رافع

محفلین
شما لی قبائل اور تہذیبی نرگسیت
یہ بات درست ہے کہ ایمان جانے سے قبل عقل جاتی رہتی ہے۔ معمولی نوعیت کی بات بھی بتنگڑ بن جاتی ہے۔ مثلاً قبائلی اس لیے نرگسیت میں مبتلا ہیں کہ وہ قبائلی لباس اور رواج پر یقین رکھتے ہیں۔ مغربی مرد اس لیے نرگسیت میں مبتلا ہیں کہ وہ جینز پہننے کو شلوار قمیض پر ترجیح دیتے ہیں۔ افریقی اس لیے نرگسیت میں مبتلا ہیں کہ وہ ناچتے اچکتے کودتے جنگلوں میں گھومتے ہیں۔

شمالی علاقہ جات ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔ جنگ ان کی تہذیب رہی ہے۔ پاکستان سے ہندوستان کی طرح جاگیردارنہ نظام کو ختم نہیں کیا گیا۔ یہ انکے قبائلی بنے رہنے کے کچھ اسباب ہیں۔ اسکے علاوہ جب زندگی کی ہر ماڈرن شئے انکے بازاروں میں دستیاب ہےتو وہ کیوں شہری لوگوں کی طرح کارپوریٹ کی غلامی اختیار کریں؟
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
نرگسی طیش
جب آپ کوئی اصطلاح ایجاد کر لیں تو اسکو چسپاں کرنے میں مزہ آتا ہے یہاں تک کہ اگر طبعیت میں انصاف پسندی نہ ہو تو آپ خود اسکا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اصول یہ ہوتا ہے کہ نقاد کو برا نہیں کہا جا سکتا۔ نرگسیت کو قبائلی لوگوں اور طالبان پر چسپاں کرنا کچھ اسی نوعیت کے مرحلے میں آ گیا ہے۔

طالبان اور قبائلی ایک کم پڑھی لکھی جنگجو قوم ہیں۔ جہاں قبائلی تہذیب، موسم اور پہاڑوں کی سختی نے انہیں جنگجو بنایا وہیں قریباً چار عشروں سے افغانستان میں جاری عالمی جنگوں نے ان کے سوچنے کا طریق ہی جارحانہ کر دیا ہے۔ جن مغربی قوموں نے ان سادہ طبعیت لوگوں کو روس جنگ میں استعمال کیا وہ ان کے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر چلے گئے۔ اب اگر انہوں نے مل جل کر اسلامی مدرسے قائم کرے اور وہاں سے فارغ التحصیل اساتذہ اور طالب علموں نے خلافت اور اسلامی طرز پر ایک نظامِ حکومت قائم کر لیا تو اس پر دنیا کو کیا اعتراض؟ اور اگر اعتراض ہے تو اسکے لیے اقوام متحدہ ہے، سلامتی کونسل ہے، عالمی عدالت ہے یا افغانی سفیر کی سفارت خانے میں طلبی ہے۔ اگران کی کورٹ دو گواہوں کی بنیاد پر عدالتی فیصلے کرنے لگی تو یہ معاملہ عالمی عدل و انصاف کی عدالت میں اٹھا کرصحیح کیا جا نا چاہیے یا ملک ہی پر بمباری کر دینی چاہیے؟ اگر اسلامی روایات کے تحت وہ عرب جنگجووں کو اپنے ملک میں اسلامی اور قبائلی روایات کے تحت مہمان بنا لیں یا سر آنکھوں پر بیٹھائیں اور امریکہ اگر ان لوگوں کو بغیر کسی مقدمے اور ثبوت کے اپنے حوالے کرنے کو کہے تو کیا یہ نرگسیت ہوئی؟ کیا یہ برابری کی سطح پر تعلقات ہوئے؟ ظاہر ہے اس پر افغان اگر نرگسیت کے 'نسوانی طعنے' سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں بلا چون و چرا امریکہ بلکہ اس سے بڑھ کر نقاد کی بات مان لینی چاہیے۔
 

سید رافع

محفلین
چت بھی میرا پٹ بھی میرا
نرگسیت اگر کچھ ہے تو وہ اسلام کے دفاع کو برے مسلمان کا دفع سمجھ لینا ہے۔ ہر دورمیں مسلمانوں میں نہایت پاکباز، باکردار ، عالم رہے ہیں اور بدکردار، شقی القلب ، بدفطرت لوگ بھی شامل رہے ہیں۔اب اسلام کے دفاع کو امت مسلمہ کے شقی لوگوں کا دفاع سمجھ لیا جائے تو یہ ناانصافی کی بات ہے۔ ایسے لوگوں کو امت کے علماء خوب آڑے ہاتھوں لیتے آئے ہیں اور ایک ذرہ گمراہی پر اکھٹے نہیں ہوتے۔

رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کے دور کے مسلمانوں نے اگر ملک فتح کیے، قوموں کو ذمی بنایا یا میدان جنگ میں حربی عورتوں کو اپنے نکاح میں لے کر لونڈی بنایا تو اس پرانصاف کی دلیل قرآن سے ہے۔ جبکہ اگر یہی کام اسرائیل و امریکہ کریں تو ان کے پاس کوئی الہامی کتاب دلیل کے لیے نہ ہوگی۔ اگر اس دور میں بھی کسی مسلمان نے کوئی ناانصافی کی تو اس سے کڑا معاملہ کیا گیا۔ اب جبکہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت موجود ہے، امریکی ڈرون حملے اور کسی ملک پر قبضہ عالمی عدل و انصاف کے خلاف ہے۔


جہاں تک مغل بادشاہوں اور پاکستان کے حکمرانوں کا اسلام سے تعلق ہے، وہ اسی دور کا مذید تنزل ہے جو بنی امیہ کے دور حکومت سے شروع ہوا تھا۔ وہ دور مسلمان حکمرانوں کی شقی القلبی اور مکر کا مظہر ہے۔لیکن کیا ہندوستان پر800 برس محض تلوار کے زور پر حکومت کرنا ممکن ہے؟ کیا بغیر عدل وانصاف اور مذہبی رواداری کے یہ ممکن تھا؟ کیا ایک حد تک مسلمانوں کا یہ خوف سچ ثابت نہ ہوا کہ جب انگریز یہاں سے چلے جائیں گے تو بعض متعصب ہندو ان سے انتقام لیں گے؟ کیا قائد اعظم جیسا ہندو مسلم اتحاد کا حامی اگر ہندو وں کی سرکردہ سیاسی شخصیات کو آئینی حقوق پر راضی کر سکا ؟ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے ناچاہتے ہوئے بھی دو قومی نظریہ اور پاکستان کا وجود میں آنا حق بجانب ہو جاتا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
تلون مزاجی
احمد شاہ ابدالی کومرہٹوں پر مقابلے کی دعوت شاہی مسجد دہلی کے منبر پر رام کی مورتی لگانے کی وجہ سے دی گئی۔ لیکن یہ بات کرنا حقائق سے نظریں چرانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان، افغانستان اور ایران کے طول و عرض بلکہ دنیا بھر میں سینکڑوں ریاستیں، سلطنتیں ، مملکتیں ، شاہی اور نوابی سلاسل پھیلے ہوئے تھے جو ایک دوسرے سے نبرد آزما رہتے تھے۔ ان میں بہت سارے مسلمان حکمران تھے لیکن ایک تعداد مرہٹے، ہندووں، سکھ اور ناجانے کون کون سے مذاہب کے حکمرانوں کی تھی جو زمین کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے۔ سوال یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مذہب کو پامال کرنا صرف اس دور کے مسلمانوں ہی کاتو شیوہ نہ تھا؟ اگر اس دور میں مسلمانوں نے ناانصافیاں کیں تو کیا اس بنیاد پر پوری مسلمان امت کو تلون مزاج کہنا ٹھیک ہو گا؟ جس طرح مسلمانوں کی ناانصافی پر دیگر قوموں کو اقدام کا حق ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی پورا حق ہے کہ وہ ناانصافی کے جواب میں زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کر نے کی کوشش کریں۔

بات یہ ہے کہ اگر کسی کو گمراہ کرنا ہو تو اس سے صرف ایک اصل حقیقت اوجھل کر دو۔ مثلاً اگر موسیؑ کے مقابلے میں فرعون کو لانا ہو تو دونوں کو مرد بتلاو۔ اب آپ لاکھ زور لگائیں لیکن فرعون کو آنکھ، چہرے ، کانوں والے بولتےموسیؑ ہی طرح پائیں گے۔ آپ کہیں گے کہ اتنی محنت سے ایک مرد فرعون نے بنی اسرئیل کو غلام بنایا تو وہ کیونکر ان غلاموں کو ایک مردموسیؑ کے ساتھ جانے دے۔ یوں انسانی ضمیر، علم، رسولوں کے سلسلے کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ یہ فساد کی جھاڑی کا اولین کانٹاہے جسکا بیج ضمیر فروشی ہے۔

بعینہ یہی گمراہی آپ مسلمان اور دیگر قوموں کے بارے پھیلا سکتے ہیں کہ مسلمان بھی تو انسانوں کی ایک قوم ہی ہے۔قرآن اللہ کی سچی کتا ب ہے اور اسکے ماننے والے برحق ہیں کہ وہ اپنی حکومت قائم کریں۔ اگر ان میں کوئی غلطی ہے تو ان کو انکی کتاب کی طرف لوٹایا جاسکتا ہے اور ان پر فرض ہے کہ عدل کا معاملہ رکھیں۔ اسکے برعکس ہندووں یا عیسائی اگر اپنی کتاب کے ذریعے شہروں میں عدل قائم کرنا چاہیں گے تو نہیں کر پائیں گے۔ ان کو لازمی اپنی کتاب سے باہر نکلنا ہو گا۔ جس تفصیل سے موجودہ معاشروں کو مہذب بنانے کی تفصیلات قرآن میں درج ہیں کسی مذہب کی الہامی کتاب میں مذکور نہیں۔ صرف یہی ایک بات مسلمانوں کو اس بات کا حقدار بناتی ہے کہ لوگ ان سے جینے کا ڈھنگ سیکھیں۔
 

سید رافع

محفلین
احساس مظلومیت
مسلمانوںمیں اگر کسی شئے کا احساس ہے تو وہ پیغام محمدیﷺ ہے جو عدل پر مبنی ہے۔ وہ ابتدائی طور پر بھی اسی کو پھیلانے کے لیے نکلے تھے اور آج بھی اسی کام کے لیے مستعد ہیں۔ انگریز ایجادات کے بل بوتے پر قوموں پر حاوی ہے جس میں انسانیت کے لیے کو ئی پیغام نہیں الا یہ کہ معاش اور ایجاد کی فکر کرے۔ مسلمانوں میں اگر کسی قسم کا احساس مظلومیت ہے تو وہ ان دبتے انسانوں کے لیے ہے جو ایجاد کے میدان میں سہولیات نہ ہو کی وجہ سے آگے نہ جاسکے۔ اسی لیے وہ دوبارہ اس اجتماعی عدل کے نظام کو لانا چاہتے ہیں جس میں ہر قوم کو فطری انداز میں پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔ وہ یہ کام موجودہ عالمی قوانین کو ہاتھ میں لیے بغیر اور سودی نظام معیشت کو توڑے بغیر نہیں کرسکتےاس لیے وہ چپ سادھ لیتے ہیں۔ کچھ غلبہ اسلام کی ناکام کوشش کرتے ہیں، کچھ اسلامک بینکاری کا پیوند لگاتے ہیں اور کچھ اسی سودی نظام کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔

ہندوستان میں مسلمان ایک طویل عرصے سے رہتے آئے۔ انگریز نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کر کے یہاں بسنے والی قوموں میں ایک منفی مقابلے کی بنیاد رکھی۔ جو الزام انگریزوں کے سر رکھنا چاہیے کہ یہاں کے لوگ انہیں اسقدر ناپسند کرتے تھے کہ 200 سو سال بھی ہندوستان میں رہنے کے باوجود یہاں کے لوگوں میں اپنی جگہ نہ بنا سکے، وہ الزام مسلمانوں کے سر تھوپ کر محض جھوٹ کو سچ بنایا جاتا ہے۔ آج تک ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں ملکہ برطانیہ کی وفادار ہیں اور جو ایسا نہ کرے وہ جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ انگریز عالمی طور پر سخت ناانصاف قوم کے طور پر ابھرے ہیں جس کا مقصد انسانوں کو دوسرے انسانوں کا غلام بنانا ہے۔ اگر کوئی اس ناانصافی پر احتجاج کرے تو اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ یوں اس قوت دنیا بھر میں ظاہری ترقی کے باوجود دلوں میں سخت اندھیرا ہے۔
 
Top