دیئے گئے شعر کی دھنائی کریں

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
آپ کے ہم نام نے بھی برسوں پہلے ایسا ہی کچھ کہا تھا.
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

چلیں اب اس کی تشریح کریں۔
اس شعر کی دھنائی ہمارے سعود بھیا نے یوں کر کے قلم توڑ دیا! :)

یہاں شاعر یا کاتب یا پھر دونوں سے کچھ غلطی ہوئی لگتی ہے۔ غالباً شاعر نے "بے زر" کو غلطی یا ضرورت شعری کے تحت "بے زار" کہہ دیا اور ان کے کل وقتی کاتب اسے "بیزار" لکھ گئے۔

خیر یہ شعر مشہور صرّاف مشتاق زر اندوزی کا ہے۔ قصہ یوں ہے کہ وہ کسی مغالطے کے تحت کسی کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور بعد میں پتہ چلا کہ معشوقہ محض آٹھ گرام سونے کی انگوٹھی، سوا دو تولہ چاندی کی پائل اور ایک سو بارہ روپے نقد سکہ رائج الوقت کی مالکہ ہیں۔ اس پر جناب نے کف افسوس ملتے ہوئے مندرجہ بالا اشعار کہے۔

ویسے تک بندی کی جائے تو:

جب یہ گیہوں ہے اور وہ ہے دھان
پھر یہ مکئی اور باجرہ کیا ہے

اگلا شعر:

تم تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
 

شمشاد خان

محفلین
بیدل، غالباً یہ شاعر کا نام ہے، کہتے ہیں کہ زیست (کلاتھ سٹور) والوں کا لباس بڑا شاندار تھا، بہت عرصہ پہنا اور اب وہ بہت میلا ہو گیا تھا، اس لیے ہم نے اس الٹا کر کے پہن لیا۔ ایسے کرنے سے وہ نیا نیا لگنے لگا۔

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
 
بیدل، غالباً یہ شاعر کا نام ہے، کہتے ہیں کہ زیست (کلاتھ سٹور) والوں کا لباس بڑا شاندار تھا، بہت عرصہ پہنا اور اب وہ بہت میلا ہو گیا تھا، اس لیے ہم نے اس الٹا کر کے پہن لیا۔ ایسے کرنے سے وہ نیا نیا لگنے لگا۔

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
شاعر شمسی مہینے کی چودھویں کو یہ غزل لکھنے بیٹھا ہے، اس امید کے ساتھ کہ محبوب تاقیامت اس راز کو پہنچ نہ پائے گا کہ اس چودھویں رات کا پورے چاند سے کوئی لینا دینا نہیں. مزید برآں شمسی مہینے کی چودھویں کو اس بار اتفاق سے اماوس کی رات ہے. شاعر کے دوست اسے طعنے مار رہے ہیں کہ تمہارا محبوب جس کے پیچھے تمہارا خانہ خراب ہو گیا اس اماوس کے چاند سے کم نہیں اور شاعر اس شعر کو لکھ کر محبوب کو لکھی جانے والی چٹھی کا آغاز کر رہا ہے کہ 'ڈھولا! بتاؤ، اب میں ان سب کو کیا کہوں؟' :)

اگلا شعر
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے
 

شمشاد خان

محفلین
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے

شاعر کہتا ہے کہ میں ان سے کچھ ادھار مانگا تھا، وہ دینے بھی آ رہے تھے، پھر نجانے کیا سوچ کر وہ راہ سے پھر گئے۔ غالباً اجل نے انہیں میرے متعلق بتا دیا ہے اس لیے وہ تو اب کہاں آئیں گے۔

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
 
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے

شاعر کہتا ہے کہ میں ان سے کچھ ادھار مانگا تھا، وہ دینے بھی آ رہے تھے، پھر نجانے کیا سوچ کر وہ راہ سے پھر گئے۔ غالباً اجل نے انہیں میرے متعلق بتا دیا ہے اس لیے وہ تو اب کہاں آئیں گے۔

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اگرچہ شاعر کو علم ہے کہ مہد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرنا چاہیے. مگر اسے اس سارے سفر کے دوران کوۂی ایک بھی سبجیکٹ پسند نہیں آیا. شاعر اس شعر میں یہی عرض کر کے اپنی کم علمی کا قصور کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے. :)

اگلا شعر
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
 
آخری تدوین:

شمشاد خان

محفلین
شاعر قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا کی بات کر رہا ہے لیکن یہ پوچھ رہا ہے اس میں ڈوبا کیسے جا سکتا ہے؟
مزید وہ عشق اور بس کو آپس میں گُڈ مُڈ کر رہا ہے، خود بھی نہیں سمجھ رہا اور دوسروں کو بھی سمجھا نہیں پا رہا۔

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
 
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
شاعر اپنا تمام مال و اسباب لٹا بیٹھا ہے اور مزید اس کے پاس لٹانے کو کچھ نہیں. واقعہ یہ ہے کہ شاعر نے تاش کی بازی لگا رکھی تھی اور Queen کسی اور کو دینے سے کتراتا رہا یہاں تک کہ اپنی پائی پائی لٹا ڈالی. صبح ہوئی تو شاعر نے یہ شعر کہا جو کہ اس وقت اس کی کل متاع ہے.

اگلا شعر:

فراز اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
 

شمشاد خان

محفلین
فراز، غالباً شاعر کا نام ہے، کچھ سودا خریدنے گئے تھے، اپنی طرف سے دکان پر ہی گئے تھے لیکن واسطہ جنوں سے پڑ گیا اور ان کو جن چمٹ گیا۔ اب وہ جن ان کو چین نہیں لینے دے رہا اور ان کے دن بڑی بے قراری سے کٹ رہے ہیں۔

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن
ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن
 
گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن
ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن
شاعر کا پالا ایسے دوستوں سے پڑا ہے جن کے ہونے سے ہر فتنہ سر اٹھاتا ہے اور آہستہ آہستہ دنیا و مافیہا دوزخ کا عملی نمونہ پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہے. شاعر اس شعر میں کہہ رہا کہ زندگی محض چار دن کی تھی، جو تمہارے قدم رنجہ فرمانے سے قبل گزر گئی. جب سے تمہاری صحبت میسر آئی ہے وہ گزری ہوئی زندگی جنت میں گزری ہوئی محسوس ہوتی ہے اور دنیا گول ہے، مجھے یقین ہے کہ ایک دن تم بھی ایسا ہی کچھ محسوس کرو گے!

اگلا شعر:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
 

شمشاد خان

محفلین
ہیرے (ہمارے محلے کا جوان لڑکا، جس کا نام تو جاوید ہے، لیکن عرف عام میں ہیرے کے نام سے جانا جاتا ہے) کا جگراس وجہ سے کٹ گیا کہ وہ چائے بہت پیتا تھا، لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس دفعہ اس نے چائے کی پتی کی بجائے کسی جنگلی پھول کی پتی کی چائے بنا کر پی لی اور اپنا جگر کاٹ بیٹھا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اس کو منع بھی کیا تھا لیکن اس نادان پر کسی کے کلام کا اثر ہی نہ ہوا۔

چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں
 
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں
اس شعر کے شاعر کا تعلق Pirates of Caribeans سے ہے. وہ مَن موجی ہے اور اس کا کام ہر اس لہر کی سواری کرنا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتا ہے کہ اسے بہا لے جائے گی. جب اسے کوئی بڑا آ کر سمجھاتا ہے کہ بیٹا تمہارے کھیلنے کودنے کے دن نہیں رہے تو وہ اس بابے کو پہچاننے سے یکسر انکار کر دیتا ہے اور اپنا کام جوش و خروش سے جاری و ساری رکھتا ہے.

اگلا شعر:
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے دل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
 

شمشاد خان

محفلین
اس شعر کے شاعر کا تعلق Pirates of Caribeans سے ہے. وہ مَن موجی ہے اور اس کا کام ہر اس لہر کی سواری کرنا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتا ہے کہ اسے بہا لے جائے گی. جب اسے کوئی بڑا آ کر سمجھاتا ہے کہ بیٹا تمہارے کھیلنے کودنے کے دن نہیں رہے تو وہ اس بابے کو پہچاننے سے یکسر انکار کر دیتا ہے اور اپنا کام جوش و خروش سے جاری و ساری رکھتا ہے.
زبردست ذومعنی تشریح کی ہے۔ موگیمبو خوش ہوا۔
 

شمشاد خان

محفلین
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے دل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

اس شعر میں خندہ اصل میں فرخندہ کا مختصر نام ہے۔ فرخندہ کا دل بلبلے بنانے والے کھلونے بنا کر بیچنے کو کرتا ہے لیکن اس کے گھر والے اس کی اس خواہش کو اس کی دماغی خرابی قرار دیتے ہیں۔

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
 
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
اس شعر کا شاعر موشن سِکنیس کا شکار ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ وہ بستر پر رہے اور کوئی اس کی چارپائی بھی نہ ہلائے. اس کی توجیہہ وہ کچھ یوں پیش کرتا ہے کہ میں جب باہر نکلتا ہوں تو دھوپ جاتے جاتے اپنے پنجے سمیٹ کر مجھ پر حملہ آور ہوتی ہے. اس سے ملنے والے زخم بے بہا ہیں. مجھے وہ زخم بستر پر لیٹ کر سکون سے گننے دیجیے اور مجھے گنتی نی بھلائیے! تاکہ سند رہیں اور بوقتِ ضرورت کام آئیں.

اگلا شعر:
بلبل کو باغبان سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
 

شمشاد خان

محفلین
بلبل کو مالی سے یا شکاری سے کوئی گلہ تو نہیں ہے لیکن شکایت ضرور ہے کہ وہ باغ میں سے آم یا امرود توڑنے نہیں دیتے، الٹا پکڑ کر قید کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

قورمے کے تھال میں ہم کو نظر آیا کباب
گلشنِ اردو میں کھل آیا ہے انگلش کا گلاب
(فقیر سعادت علی ثانی مرادآبادی)
 
Top