احمدی اقلیت اور ہمارے علما کا رویہ

سید رافع

محفلین
وضاحت کے لیے پوچھ رہا ہوں کہ غیر مسلم اور کافر کا ایک ہی معنی ہے یا دونوں میں کوئی فرق ہو گا؟

مسلم کے معنیٰ فرمان بردار کے اور کفر کےچھپانا اور مٹا ناکےہیں۔

مثال کے طور پر ایک پاکیزہ گلاس پانی کا ہے اور فرمان یہ ہے کہ جو پانی پیے گا اسکی پیاس بجھے گی۔

جو شخص اس فرمان کو نہ مانے وہ غیرمسلم اور جوپانی میں سے ایک ذرہ بھی منرل کا نکال یا ڈال دے اور اسکی اصل ترکیب کو مٹا دے وہ کافر۔
 

سید رافع

محفلین
عقلِ عام کی روشنی میں دیکھا جائے تو مثال کے طور پر ایک شخص پر خدا کا پیغام مکمل واضح ہو گیا اور اب وہ جانتے بوجھتے اس کا انکار کر رہا ہے تو اسے قرآن کی اصطلاح میں کافر ہی کہا جائے گا۔
لیکن ایک شخص تک پیغام پہنچا ہی نہیں یا واضح ہی نہیں ہوا تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ اسے اسی درجہ میں نہ رکھا جائے۔
اس لیے پوچھا۔

اگردل و زبان دونوں سے انکار کر رہا ہے تو کافر۔ اگرصرف دل میں انکار کر رہا ہے تو منافق۔ اگر انکار کی نوعیت اللہ کے ساتھ کسی اور کو سانجھا قرار دینا ہے تو مشرک جسکا درجہ کافر نیچے لیکن منافق سے اوپر ہوتا ہے۔ منافق کافر اور مشرک سے نیچے ہے۔

کافر اور مشرک تقسیم شہروں میں ضروری ہے تاکہ سرکاری عہدوں، جمعہ جماعت اور دیگر معاملات اللہ کے ماننے والوں کے ہاتھ میں رہیں۔

اگر کوئی بدو شہر سے دور جنگل یا ویرانے میں بکریاں چراتا ہو یا کھیتی باڑی کرتا ہو تو اس کو اللہ کا تعارف پیش کیا جائے گا۔ ایسے لوگ عموما سیدھے سادے اور سلامتی سے قریب ہوتے ہیں سو جلد اللہ کو مان لیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرح کے خانہ بدوش اپنے قبیلے کے ساتھ جنگ پر اتر آتے ہیں سو ان سے ویسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ کافر کے ساتھ۔
 

سید رافع

محفلین
یہاں ذہن میں کچھ تحفظات موجود ہیں۔
پیغام پہنچنے اور اس پر شرحِ صدر ہو کر ایمان لانے میں فرق ہے۔ پیغمبروں کا بھی معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف پیغام پہنچایا ہی نہیں بلکہ اسے آخری درجے میں واضح کر دیا۔ اور ہر قوم کے لیے اس کی مدت بھی مختلف رہی ہے۔ اس کے بعد پیغمبروں کی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے فیصلے کے تحت انہیں دنیا میں ہی عذاب کی سزا دی گئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا علم صرف اور صرف اللہ ہی کو ہے۔
اب خدا کا آخری پیغام پہنچ چکا ہے، اس پر تو اتفاق کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا کے ہر انسان پر حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اور اگر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو ہر غیر مسلم کو کافر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
(اس مراسلے کو محض طالب علمانہ گزارشات پر ہی محمول کیا جائے۔)

پیغمبرقوموں میں اس وقت بھیجے جاتے ہیں کہ جب رفع فساد عام صلح پسند لوگوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہو۔ مثلا فرعون نے رب ہونے کا دعویٰ کیا تو موسیؑ تشریف لائے۔ یہ ایک دوسری بات ہے کوئی ایمان لاتا ہے کہ نہیں جبکہ پیغمبر آخری درجے میں حجت تمام کر دے۔ مثلا موسیؑ کے اتمام حجت کے بعد بھی فرعون ایمان نہ لایا۔

اللہ نے ایک پورا لشکر اس دنیا میں کافروں کا بنایا ہے۔ یہ کافر ہی رہیں گے۔ سو غیر مسلم رہیں گے۔
اسی طرح نےاللہ نے ایک پورا لشکر اس دنیا میں مومنوں کا بنایا ہے۔ یہ مومن ہی رہیں گے۔ سومسلم رہیں گے۔
اب موجودہ دنیا ہو جس میں امریکہ، یورپین اور ایشین ممالک ہوں یا سابقہ دنیا جب قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں تھیں ہمیشہ سے حق کی تشہیر عام بھی تھی اور خود انسان کے ضمیر کے طور پر فطرتا اندر موجود بھی تھی۔ سو حجت آج کی طرح ہمیشہ سے تمام رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اللہ نے ایک پورا لشکر اس دنیا میں کافروں کا بنایا ہے۔ یہ کافر ہی رہیں گے۔ سو غیر مسلم رہیں گے۔
اسی طرح نےاللہ نے ایک پورا لشکر اس دنیا میں مومنوں کا بنایا ہے۔ یہ مومن ہی رہیں گے۔ سومسلم رہیں گے۔
جب سارا کام اللہ نے ہی کرنا ہے تو انسان کو ہدایت پانے یا گمراہی میں پڑے رہنے کا اختیار ہی کیو ں دیا؟
 

سید رافع

محفلین
یہ کونسا ان تک مخصوص ہے ہر مذہبی طبقہ دوسروں کو ایسا ہی کہتا آیا ہے۔ مجھے تو (اس بات میں) تمام ہی سچے معلوم ہوتے ہیں

یہ بات مذہبی ہی نہیں بلکہ ظن و تخمیہ لگانے والے لوگوں تک کو لاحق ہے۔ مثلا حکمرانوں، سیاست دانوں، سائنسدانوں کو۔

مذہب تو خیر حق ہوتے ہیں کہ حق گو اور سچا ان کی سچائی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔
 

فہد مقصود

محفلین
اس پوری بات کا مقدمہ ہی غلط ہے۔ یہ پورا کا پورا بیان خلط مبحث ہے۔ وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے نہ کہ مسلمانوں کا مسلمہ عقیدہ۔ تفصیل یہاں دیکھیں۔

بھائی صاحب مجھے ویکیپیڈیا کا ربط دینے سے پہلے میں چاہوں گا کہ آپ میرے اس دھاگے کا مطالعہ فرمائیں۔
مذہبی عقائد اور نظریات
 

سید رافع

محفلین
مشرق وسطی سے باہر کسی نبی رسول کا ذکر تو کہیں نہیں ملتا

قرآن، انجیل اور توریت امام الناس سیدنا ابراہیم ؑ اور انکی مقدس آل کا تذکرہ ہے یا پھر جستہ جستہ دیگر اولعزم رسولوں کا۔ یہ مشرق وسطیٰ میں ہی رہے۔ مشرق وسطہ سے باہر کے انبیاء، مثلا امریکی انبیاء، کی تفصیلات جاننے کے لیے انکی مذہبی اور تاریخی کتاب کا حوالہ دینا پڑے گا۔ ویسے اسرئلیات کے تحت المستدرک للحاکم میں آدم ؑ کا اولین وطن ہندوستان بھی بتایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
مرزا قادیانی کو جھوٹا، کذاب، کافر کچھ بھی کہہ لیں۔ اس سے متعلق افواہیں اور کہانیاں گھڑ لیں۔ ان سب چیزوں سے کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔
البتہ اگر ان الزامات کو بنیاد بنا کر آپ ریاست یا حکومت کو مجبور کر دیں کہ وہ قادیانیوں کے خلاف قانون سازی کرے۔ ان کو دیگر پاکستانیوں جیسے حقوق سے محروم رکھا جائے یا ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے تو یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ ریاست و حکومت کے سامنے ملک کے تمام شہری بلا کسی مذہبی تفریق کے مساوی ہیں۔
پاکستان جو قادیانی اقلیت کیساتھ کر چکا ہے۔ آجکل وہی کام بھارت مسلم اقلیت کے ساتھ کر رہا ہے۔ جیسے پاکستان میں قادیانی اقلیت کے خلاف قانون سازی ہوئی ہے۔ وہی کچھ بھارت مسلم اقلیت کے خلاف قانون سازی کرکے حاصل کر رہا ہے۔ ملک کی کسی بھی مذہبی کمیونٹی کو اس طرح ریاستی لیول پر قانون سازی کے ذریعہ نشانہ بنانا ریاست اور حکومت دونوں کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اگر آپ کی نظر میں بھارت جو مسلم اقلیت کے ساتھ کر رہا ہے وہ غلط ہے تو پھر آپ کو پاکستان کی قادیانی اقلیت کے حق میں بھی آواز بلند کرنی چاہئے۔ ریاست و حکومت کا یہ کام نہیں کہ اپنے ملک کے شہریوں کے مابین مذہبی تنازعات و اختلافات میں فریق بنے۔

ریاست تو اکثریت کی بات مانتی ہے، سو آج آپ کی اکثریت ہے تو قرار داد مقاصد کا اثر کم ہو گا۔
 

سید رافع

محفلین
قادیانی نہ تو خود کو کافر و غیر مسلم مانتے ہیں نہ ہی دیگر مسلمانوں کو غیر مسلم کہتے ہیں۔ البتہ جو مسلم و غیر مسلم مرزا قادیانی کو نہیں مانتے، ان کے اس انکار پر ان کو کافر کہتے ہیں۔
یہ آپ نے کان کو دوسری طرف سے پکڑا ہے۔ بھلا کون مسلمان ہو گا جو مرزا کو مانے!
 

سید رافع

محفلین
ہو بہو یہی دلیل قادیانی دیتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی بعثت کے وقت صحیح العقیدہ مسلمان حق پر تھے۔ لیکن جب انھوں نےمرزا قادیانی کا انکارکیا تو وہ دائرہ حقیقی اسلام (قادیانیت) سے خارج ہو گئے۔ اب صرف وہ حقیقی مسلمان ٹھہرا جو مرزا قادیانی کا پیروکار ہے۔
اگر آپ اوپر یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں سے متعلق اس دلیل کو واقعتاً تسلیم کرتے ہیں تو قادیانیوں کی یہ دلیل بھی تسلیم کریں۔
جبکہ یہودی، عیسائی اور ہندووں کتابیں محمد عربیﷺ کے نام اور ان کے آنے کی خبروں سے بھری ہیں۔ اب آپ ایک ہی آیت لائیں کہ جہاں سے مرزا کے بطور نبی آنے کی دلیل قائم کی جا سکے۔
 

سید رافع

محفلین
محفل پر اسلام کے نام پر لاکھوں لوگوں کے قتل کی حمایت کیوں گوارا کی جاتی ہے؟ ایسے لعنتیوں کو معطل کیوں نہیں کیا جاتا؟
یہ تو محض خدشہ ہے جس کے پورا ہونے کی کوئی امید نہیں۔ آپ اس ہی ملک کا محاسبہ کرلیں کہ جو ایٹم بم گرا کر فی الحقیقت یہ "نیک" کام سر انجام دے چکا ہے۔ اور لسٹ اسکے بعد طویل ہے۔
 

سید رافع

محفلین
یہ سنی جنازہ تھا یا شیعہ؟ جناح کے دو جنازوں کا تو آپ کو علم ہو گا
دونوں ہی مسلمانوں کے مسلک ہیں۔ جناح شیعہ ہی تھے لیکن انکی اسلامی تعلیم اقبال نے کی جو مسلک سے بلند تھی۔ بقول جناح میں رسول اللہ ﷺ کے دور کا ایک عام مسلمان ہوں۔
 

سید رافع

محفلین
عجیب بات ہے لیکن یہودیوں اور مسیحیوں کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان کی مذہبی کتب کے مطابق اب کوئی اور نیا نبی یا رسول نہیں آسکتا۔ اور اسی لئے یہودی و مسیحی رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا پہلے دن سے انکار کرتے چلے آئے ہیں۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ کی پیش گوئی کی گئی توریت کی پانچویں کتاب ڈیوٹرانمی (کتابِ استثنا) میں(Deuteronomy):
اﷲتعالیٰ موسی سے فرماتا ہے ڈیوٹرانمی(کتابِ استثنا) کے سورةنمبر 18 آیت 18 میں:
میں تمھارے بھائیوں کے درمیان میں سے ایک پیغمبر پیدا کروں گا،جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا،اور میں اپنے الفاظ اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جو میں اسکوحکم دوں گا۔

تفصیل یہاں دیکھیں۔
 

سید رافع

محفلین
آپ ریاستی جبر سے قادیانی تو کیا کسی کا بھی مذہب تبدیل نہیں کر وا سکتے۔ یہی تو بنیادی اختلاف ہے۔
ریاست کا کام امن و امان قائم رکھنا تو ہے؟ کوئی اگر ایسا مذہب اختیار کرے جس سے ریاست میں جنگ و جدل کا خطرہ ہو تو آئین سازی کی جا سکتی ہے۔ مثلا کسی ریاست میں سب شراب پینا چاہتے ہوں اور یہ انکا مذہب بن گیا ہو تو یہ قانون سازی کی جاسکتی ہے کہ ڈرائیونگ سے قبل شراب کا استعمال حرام ہے۔
 

سید رافع

محفلین
آپ کی گائیڈ لائن کے مطابق قادیانی کاذب، کافر، زندیق ہوں گے۔ ان کے نظریات باطل ہوں گے۔ ایسا کہنا سمجھنا آپ کا حق ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں۔
اختلاف یہ ہے کہ اس سارے معاملہ میں آپ ریاست و حکومت کو کیوں فریق بنا رہے ہیں؟

ریاست اپنے مکینوں کو جھگڑے سے بچانے کے لیے میدان میں آتی ہے۔ مثلا اگر کسی نے کسی کی عزت کچھ کہہ یا لکھ کر خراب کی تو ہتک عزت کا مقدمہ ریاست کی قائم کردہ عدالت میں سنا جائے گا۔ ریاستی عدالت فیصلہ کرے گی اور حکومت فریق بن کر فیصلہ نافذ کرے گی۔ کچھ اسی نوعیت کا مقدمہ قادیانیوں کے لیے عدالت میں چلا اور فیصلہ ہوا۔
 
Top