غزل: خداوندا ہلالِ نو مہِ کامل نہ بن جائے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

”پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے“
خداوندا ہلالِ نو مہِ کامل نہ بن جائے

وفائے دوست محرومِ شکیبائی نہ کر ڈالے
مسيحا جس کو بننا ہے، وہی قاتل نہ بن جائے

بڑی مشکل سے میں نے کائناتِ دل کو بدلا تھا
مگر یہ ہو کے محرومِ سکوں پھر دل نہ بن جائے

میں تیرے شوق کی قوت کا منکر تو نہیں لیکن
محبت کے شناور، آرزو ساحل نہ بن جائے

توجہ ان کی وجہِ راحتِ غم ہے مگر اے دل
جسے آسان سمجھا ہوں وہی مشکل نہ بن جائے

عزیزؔ اس دور میں ہے زندگی کا حق فقط اس کو
جو منزل پر ہو اور آسودۂ منزل نہ بن جائے

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
 
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
خداوندا ہلالِ نو مہِ کامل نہ بن جائے

وفائے دوست محرومِ شکیبائی نہ کر ڈالے
مسيحا جس کو بننا ہے، وہی قاتل نہ بن جائے

بڑی مشکل سے میں نے کائناتِ دل کو بدلا تھا
مگر یہ ہو کے محرومِ سکوں پھر دل نہ بن جائے

میں تیرے شوق کی قوت کا منکر تو نہیں لیکن
محبت کے شناور، آرزو ساحل نہ بن جائے

توجہ ان کی وجہِ راحتِ غم ہے مگر اے دل
جسے آسان سمجھا ہوں وہی مشکل نہ بن جائے

عزیزؔ اس دور میں ہے زندگی کا حق فقط اس کو
جو منزل پر ہو اور آسودۂ منزل نہ بن جائے

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
خوبصورت خوبصورت۔ شریکَ محفل کرنے پر شکریہ قبول فرمائیے۔
 
Top