آج کی تازہ بہ تازہ گرم خبریں

جاسم محمد

محفلین
دیوالیہ تو ہو چکا ہے، بس اعلان باقی ہے۔ شرحِ نمو تو اب ٪2 سے کم ہو گئی ہے۔
آپ دیوالیہ پن کی تعریف سے ہی نابلد ہیں۔
ممالک دیوالیہ پن کا شکار اس وقت ہوتے ہیں جب ان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم رہ جاتے ہیں کہ وہ بیرونی ادائیگیاں جیسے قرضوں کی واپسی اور امپورٹس کے اخراجات ادا کرنے کی مزید سکت نہیں رکھتے۔
Screenshot-2020-02-10-Sovereign-default-Google-Search.png

پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں یہ ملک صرف دو بار دیوالیہ ہوا ہے یا دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ پہلی بار 1998-1999 جب نواز شریف کی دوسری حکومت ختم ہوئی تھی۔ اور دوسری بار 2018-2019 جب نواز شریف کی تیسری حکومت ختم ہوئی تھی۔
Defaults-chart.png


 

زیرک

محفلین
نااہل کو نااہل ملے کر کر لمبے ہاتھ
دوہری شہریت کے معاملے پر نااہل شدہ سابق وزیر تجارت و سینیٹر ہارون اختر اور چند دیگر اقتصادی ماہرین نے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے۔ملاقات کے بعد ہارون اختر نے معاشی حقائق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، معیشت کے کسی شعبہ میں ترقی نہیں ہو رہی ہے، وزیراعظم کو معیشت کی حقیقی تصویر نہیں دکھائی جا رہی۔"۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی پالیسیوں کا جائزہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ کہنا درست نہیں کہ بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ کم ہو رہی ہیں، پاکستان نے روپے کی قدر گرائی، ٹیکس مراعات دیں مگر برآمدات نہیں بڑھیں، دوسری طرف بنگلا دیش نے ایکسپورٹرز کو نہ تو مراعات دیں نہ کرنسی ڈی ویلیو کی۔ پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کے باوجود ٹیکس وصولیوں میں اضافہ نہیں ہو رہا، درآمدات میں کمی کی وجہ سے ٹیکس محاصل میں کمی نہیں ہوئی۔
وزیراعظم عمران خان سے ہارون اختر اور اقتصادی ماہرین کی ملاقات
ساتھ ساتھ یہ خبریں گرم ہیں کہ سپریم کورٹ سےدوہری شہریت کے معاملے پر نااہل شدہ سابق وزیر تجارت سینیٹر ہارون اختر خان کو وزیراعظم عمران خان اپنا معاون خصوصی برائے ایف بی آر بنانے والے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ن لیگ کی حکومت میں ہارون اختر خان نے وزیر کی حیثیت سے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا تھا۔ جہانگیر ترین کے قریبی ہونے کے ساتھ ساتھ موصوف بھی 3 عدد شوگر ملز کے مالک بتائے جاتے ہیں جن میں کمالیہ شوگر ملز، لیہ شوگر ملز اور تاندلیانوالہ شوگر ملز شامل ہیں۔
اسے کہتے ہیں "نااہل کو نااہل ملے کر کر لمبے ہاتھ" ایک ماشاءاللہ سے دہری شہریت رکھنے پر سپریم کورٹ سے نااہل ہے دوسرا قدرتی طور پر نااہل، اللہ بھی بندے سے کیسے انقام لیتا ہے، عمران خان ا ن لیگیوں کو کرپٹ کہا کرتا تھا، اب بھینس کیچڑ میں پھنسی ہے تو چاٹ رہا ہے۔ جہاں تک نااہلی کی بات ہے تو آپ کا یقین نہ آئے تو چودھری نثار علی خان سے پوچھ لیں یا لنک دیکھ لیں، جو عمران خان کے بچپن اور دورِ طالب علمی کا دوست رہ چکا ہے۔
 

زیرک

محفلین
آپ دیوالیہ پن کی تعریف سے ہی نابلد ہیں۔
ممالک دیوالیہ پن کا شکار اس وقت ہوتے ہیں جب ان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم رہ جاتے ہیں کہ وہ بیرونی ادائیگیاں جیسے قرضوں کی واپسی اور امپورٹس کے اخراجات ادا کرنے کی مزید سکت نہیں رکھتے۔
پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں یہ ملک صرف دو بار دیوالیہ ہوا ہے یا دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ پہلی بار 1998-1999 جب نواز شریف کی دوسری حکومت ختم ہوئی تھی۔ اور دوسری بار 2018-2019 جب نواز شریف کی تیسری حکومت ختم ہوئی تھی۔
مجھے دیوالیہ پن تعریفوں کا علم ہے، نہ ہی میں نے یہ کہا ہے کہ ایسا پہلی بار ہونے جا رہا ہے۔
٭حکومت اپنے ریونیوز سے قرض اتارنے کی پوزیشن میں نہیں، ریونیو سے قرض اتارے تو ملک نہیں چلا سکتی، ملک چلائے تو قرض نہیں اترتا۔
٭٭جس طرح موجودہ حکومت قرض لے کر قرض کی واپسی کر رہی ہے وہ ٹیکنیکل بنک کرپسی میں آتا ہے۔
٭٭٭امپورٹس پر فلڈ بنک تب ہی لگتا ہے جب معاملہ کلوز ٹو ڈیتھ ہوتا ہے۔
٭٭٭٭پاکستان اگر آج بچ رہا ہے تو بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی رقوم کی وجہ سے ہے، دعا کرو کہ وہ قربانی دیتے رہیں۔
اس وقت حکومت داخلی طور پر 3 منفی اور بیرون ملک پاکستانیوں کی وجہ سے ایک مثبت پوائنٹ پہ اٹکی ہوئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ کہنا درست نہیں کہ بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ کم ہو رہی ہیں، پاکستان نے روپے کی قدر گرائی، ٹیکس مراعات دیں مگر برآمدات نہیں بڑھیں، دوسری طرف بنگلا دیش نے ایکسپورٹرز کو نہ تو مراعات دیں نہ کرنسی ڈی ویلیو کی۔
بنگلہ دیش کی معیشت پاکستانی معیشت کی طرح امپورٹس پر استوار نہیں ہے۔ بلکہ وہاں حکومت نے سخت ریفارمز (اپوزیشن اور صحافیوں کو جیلوں میں بند) کر کے پوری معیشت کو ایکسپورٹس پر استوار کر لیا ہے۔ اس کے باوجود بنگالی کرنسی پچھلی دس سالوں میں گرائی گئی ہے۔
Opposition: 10,500 Arrests Ahead of Bangladesh Poll
Screenshot-2020-02-10-Bangladeshi-Taka-2008-2020-Data-2021-2022.png
 

زیرک

محفلین
بنگلہ دیش کی معیشت پاکستانی معیشت کی طرح امپورٹس پر استوار نہیں ہے۔ بلکہ وہاں حکومت نے سخت ریفارمز (اپوزیشن اور صحافیوں کو جیلوں میں بند) کر کے پوری معیشت کو ایکسپورٹس پر استوار کر لیا ہے۔ اس کے باوجود بنگالی کرنسی پچھلی دس سالوں میں گرائی گئی ہے۔
کرنسی کی قدر گرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اس کی کئی وجوہات ہیں مخالف کرنسی کی قدر کا بڑھنا، اپنی کرنسی کی قدر کا گر جانا یا اپنے ریونیوز کی کمی وجہ سے معاشی ریٹنگ کا کم کرنا۔ اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے کہ جب قرض لینے کے لیے کرنسی کی قدر گرائی جاتی ہے تو ایک تو بیٹھے بٹھائے پچھلا قرض بڑھتا ہے، قرض پہ سود بڑھتا ہے، اور سب سے بڑھ کر بارگیننگ یا ڈیلنگ میں قرض لینے والا اپنی بات نہیں منوا سکتا۔ دوسرا نئے قرض پر بھی نئی شرح سے سود اور اقساط میں اضافہ سے مشکل کھڑی ہو جاتی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
٭٭جس طرح موجودہ حکومت قرض لے کر قرض کی واپسی کر رہی ہے وہ ٹیکنیکل بنک کرپسی میں آتا ہے۔
حکومت کی آمدنی:
ایکسپورٹس+بیرون ملک سے آنے والا زرمبادلہ: 22+20 = 42 ارب ڈالر
حکومت کے اخراجات:
امپورٹس: 60 ارب ڈالر
فرق: 60-42= 18 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ
اب اس میں سابق حکومت کے لئے ہوئے قرضوں کی واپسی کی قسط شامل کر لیں تو سالانہ خسارہ 28 ارب ڈالر ہو جاتا ہے۔
یہ ریکارڈ خسارہ کس نے پورا کرنا تھا؟ عمران خان نے ؟ جنرل باجوہ نے؟ یا ان مفرور حکمرانوں نے جو ملک کو اس دیوالیہ پن کے دہانے چھوڑ کر گئے تھے۔
یاد رہے کہ 2013 میں جب ان مفروروں کو حکومت ملی تھی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صرف 3 ارب ڈالر تھا، ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر، جبکہ بیرونی قرض کی سالانہ قسط4 ارب ڈالر تھی۔


Screenshot-2020-02-10-Pakistan-Trade-Summary-2013-WITS-Text.png
 

جاسم محمد

محفلین
بالکل سچ ہے۔ عموما جب معیشت پھیلتی ہے تو اس سے ملک کی ایکسپورٹس بڑھتی ہیں، جس سے آمدن اور ٹیکس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ن لیگ حکومت میں معیشت قریبا 6 فیصلہ سالانہ کے حساب سے پھیلی لیکن اس سے ایکسپورٹس میں کوئی اضافہ ہوا نہ ہی ملک کی آمدن اور ٹیکس وصولی میں کوئی خاص بہتری دیکھنے کو ملی۔ معاشی زبان میں اسے جعلی یا مصنوعی شرح نمو کہتے ہیں جس سے وقتی طور پر لوگوں کو روزگار مل جاتا ہے، مہنگائی بھی کم ہو جاتی ہے لیکن پھر بالآخر یہی پالیسی ملک کا دیوالیہ نکالتی ہے۔
 

زیرک

محفلین
حکومت کی آمدنی:
ایکسپورٹس+بیرون ملک سے آنے والا زرمبادلہ: 22+20 = 42 ارب ڈالر
حکومت کے اخراجات:
امپورٹس: 60 ارب ڈالر
فرق: 60-42= 18 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ
اب اس میں سابق حکومت کے لئے ہوئے قرضوں کی واپسی کی قسط شامل کر لیں تو سالانہ خسارہ 28 ارب ڈالر ہو جاتا ہے۔
یہ ریکارڈ خسارہ کس نے پورا کرنا تھا؟ عمران خان نے ؟ جنرل باجوہ نے؟ یا ان مفرور حکمرانوں نے جو ملک کو اس دیوالیہ پن کے دہانے چھوڑ کر گئے تھے۔
یاد رہے کہ 2013 میں جب ان مفروروں کو حکومت ملی تھی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صرف 3 ارب ڈالر تھا، ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر، جبکہ بیرونی قرض کی سالانہ قسط4 ارب ڈالر تھی۔
یہ چار گراف ہی ملے ہیں؟ یاد رکھو میں نے کبھی پچھلی حکومتوں کو قرض کے معاملے میں بری الذمہ قرار نہیں دیا، ٹیکسوں کا نظام سادہ بنانا ہو گا، جب تک ٹیکسز کا بوجھ ساری اکائیوں پر نہیں ڈالا جاتا، تب تک ریونیوز اوپر نہیں جا سکتے۔ باقی کالم میں تفصیل موجود ہے کہ سنگل ٹیکس سسٹم لائیں، سسٹم جتنا سادہ ہو گا اتنا خریدار اور حکومت کو فائدہ ہو گا فی الحال تاجر فائدے سمیٹ رہا ہے کیونکہ پرانا دفتری عملہ آئی ایم ایف اور نئی معاشی ٹیم کے جگاڑ نہیں سمجھ پا رہا، حکومت جتنی جلدی یہ بات سمجھ جائے بہتر ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب تک ٹیکسز کا بوجھ ساری اکائیوں پر نہیں ڈالا جاتا، تب تک ریونیوز اوپر نہیں جا سکتے۔
پاکستان عظیم انتہاؤں کا ملک ہے۔ یہاں مرغی سے سونے کا انڈہ حاصل کرنے کے چکر میں مرغی کا ہی گلا دبا دیا جاتا ہے۔
جب اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا وقت تھا تو ان کی ساری املاک پکڑ کر نیشنلائز کر دی گئی تھی۔ اور اب جب کہ اشرافیہ جو مافیا بن چکا ہے کی املاک نیشلائز کرنے کا وقت ہے تو ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ :)

معیشت پر بات سنبھل کر کریں
05/02/2020 حبیب اکرم
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم پاکستان کے پلاننگ کمیشن میں کام کیا کرتے تھے۔ دنیا کی جانی مانی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ تھے اور معاشیات سے انہیں ایسا شغف تھا جو کہیں خال خال ہی ملا کرتا ہے۔ اپنی اعلیٰ تعلیم اور کام سے محبت کی وجہ سے وہ بہت تیزی سے ترقی پاتے ہوئے تیس برس کے ہونے سے پہلے ہی چیف اکانومسٹ کے درجے تک جا پہنچے تھے۔ پاکستان ساٹھ کی دہائی میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا ایسا ملک تھا جو ابھی آزاد معیشت سے ہم آہنگ نہ ہوا تھا‘ اس لیے یہاں کاروبار اور حکومت کے درمیان ایسا پراسرار تعلق تھا (اور کسی درجے میں آج بھی ہے) کہ جو شخص جتنا حکومت کے قریب رہتا اتنی ہی تیزی سے امیر ہوتا جاتا۔
ڈاکٹر محبوب الحق جدید معاشیات سے خوب واقف تھے بلکہ اس وقت چیف اکانومسٹ ہونے کے ناتے جو کچھ ہو رہا تھا کسی نہ کسی درجے میں اس کے حصہ دار بھی تھے۔ ایک ابھرتے ہوئے ملک کے چیف اکانومسٹ سے توقع ہوتی ہے کہ وہ منہ کھولنے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لے گا، اور ڈاکٹر محبوب الحق کو جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی کچھ کہا کرتے تھے۔ انیس سو اڑسٹھ میں معاشیات پر ایک سیمینار میں انہیں مدعو کیا گیا‘ جہاں پاکستانی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا، ”پاکستان کی معیشت پر صرف بائیس گھرانے قبضہ کیے ہوئے ہیں، بیاسی فیصد بینکنگ اور چھیاسٹھ فیصد صنعتیں ان کی ملکیت ہیں۔ یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ جیسے چاہیں معیشت کو اپنے حساب سے توڑ مروڑ لیتے ہیں‘‘۔
ان کا یہ بیان اگلے روز کے اخبارات میں چھپا تو ذوالفقار علی بھٹو‘ جو اس وقت تک جنرل ایوب خان کی مخالفت میں سرگرم ہوچکے تھے، یہ بیان لے اڑے۔ انہوں نے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے ساتھ بائیس خاندانوں کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا کہ مغربی پاکستان میں نہ صرف الیکشن جیت گئے بلکہ جب وزیراعظم بنے تو وہ بڑے سرمایہ کاروں کے خلاف اتنی نفرت پیدا کرچکے تھے کہ انہیں تمام بڑے کارخانے اور بینک سرکاری تحویل میں لینا پڑے۔ یہ ایسا اقدام تھا جس نے پاکستان کو تباہی، پسماندگی اور غربت میں ایسا دھکیلا کہ آج تک ابھر نہیں پا رہا۔
 

زیرک

محفلین
پاکستان عظیم انتہاؤں کا ملک ہے۔ یہاں مرغی سے سونے کا انڈہ حاصل کرنے کے چکر میں مرغی کا ہی گلا دبا دیا جاتا ہے۔
جب اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا وقت تھا تو ان کی ساری املاک پکڑ کر نیشنلائز کر دی گئی تھی۔ اور اب جب کہ اشرافیہ جو مافیا بن چکا ہے کی املاک نیشلائز کرنے کا وقت ہے تو ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ :)
اب سوال ملک بچانے اور اشرافیہ بچانے کا ہے، مقتدر قوتوں کو جلد فیصلہ کرنا ہو گا وگرنہ بعد میں اشرافیہ نے تو امریکا، کنیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ جرمنی فرانس وغیرہ نکل جانا ہے۔
ہاں اگر یہ اس منصوبے میں حصہ دار ہیں جس کے مطابق ملک کے حصے بخرے کرنے کا پروگرام ہے تو چپ بیٹھے رہیں، غریب تو آج تک بڑے بڑے لوگوں کے کتے نہلواتا آیا ہے،پھر ہم بھی ان بڑے لوگوں کو بھی انکل سام کے کتے نہلواتے دیکھیں گے۔
 

زیرک

محفلین
تبدیلی کی ڈوبتی کشتی میں سوار ایک اور شیخ چلی نے مزید بوجھ اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے انڈوں کی ٹوکری کو لات مار کر باہر چھلانگ لگا دی ہے، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے بظاہر صحت کے مسائل کی وجہ سے حکومت کے ساتھ مزید کام کرنے سے معذرت کر لی، اصل وجوہات ہمیشہ دیر سے سامنے آیا کرتی ہیں اس لیے آپ بھی تھوڑا سا انتظار کیجئے۔ گزشتہ کل سے متبادل کی تلاش جاری ہیں، بدنام زمانہ 100 افراد کی لسٹ میں سارے نالائق ہیں اس لیے وہاں سے کسی کا نام نہیں ہو گا، اس بار جس کے نام کا قرعہ نکلنے کے چانسز ہیں ان میں ہمایوں اختر خان کا نام سر فہرست ہے۔ حکومت کی طرف سے فی الحال شبر زیدی کے جانے اور نئے چیئرمین کے آنے کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
سیاسی تلوار کی دھار پر سیاسی گیم پلان کی شروعات ہو گئی​
"احسان اللہ احسان کہاں ہے؟ اس حساس آپریشن کی تفصیلات فراہم کی جائیں جس میں احسان اللہ احسان بھاگا، آرمی پبلک اسکول کے شہداء کے والدین کی بات مجھے اب سمجھ آئی ھے پہلے مجھے ان کی بات پر یقین نہیں آتا تھا وہ والدین ٹھیک کہتے تھے کہ جی یہ حملہ تو خود کروایا گیا ہے"۔ سمجھو تو بڑا سنگین الزام لگا رہا ہے مشاہداللہ خان۔
یہ مت کہیئے گا کہ اس وقت نوازشریف کی حکومت تھی، ایسا کہنے سے کوئی بری الذمہ نہیں ہو جاتا؟ سب جانتے ہیں کہ حکومتیں گرانے والے مخصوص ادارے ایسے ڈرامے رچاتے رہتے ہیں، کبھی ڈرامے رچا کر کسی کو گرایا جاتا ہے اور کبھی ڈرامے سٹیج کر کے کسی کو لانے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اس فورم پر موجود حکومتی حامی اس طرے میں مت رہیں کہ موجودہ حکومت کو لانے والے اسے باہر کا رستہ نہیں دکھا سکتے، جس کسی کو گمان ہے کہ" کِلہ مضبوط ہے" وہ ذرا "پاکستان 3 " کے بارے میں پتا لگائے کہ وہ پچھلے 3 دن میں کہاں کہاں کا سفر کرتا رہا ہے؟ نائف ایج گیم از آن، کون کٹ کے گرے گا یہ وقت بتائے گا؟ خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ ڈائریکٹر ابھی بھی وہی پرانی شطرنجی گیم کھیل رہا ہے جو پچھلے 60 سالوں سے کھیلتا آ رہا ہے، حس تو یہ ہے کہ بار بار کی ناکامیوں کے بعد بھی ناکارہ کھلاڑیوں و اناڑیوں پر ہی جؤا کھیلنا بند نہیں کیا گیا۔ واہ میرے ملک تیرا بھی کیا نصیب ہے، خود اوروں کے اشاروں پر چلتے ہیں اور بے چارے ملک کو انگلیوں پر نچاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
تبدیلی کی ڈوبتی کشتی میں سوار ایک اور شیخ چلی نے مزید بوجھ اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے انڈوں کی ٹوکری کو لات مار کر باہر چھلانگ لگا دی ہے، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے بظاہر صحت کے مسائل کی وجہ سے حکومت کے ساتھ مزید کام کرنے سے معذرت کر لی، اصل وجوہات ہمیشہ دیر سے سامنے آیا کرتی ہیں اس لیے آپ بھی تھوڑا سا انتظار کیجئے۔ گزشتہ کل سے متبادل کی تلاش جاری ہیں، بدنام زمانہ 100 افراد کی لسٹ میں سارے نالائق ہیں اس لیے وہاں سے کسی کا نام نہیں ہو گا، اس بار جس کے نام کا قرعہ نکلنے کے چانسز ہیں ان میں ہمایوں اختر خان کا نام سر فہرست ہے۔ حکومت کی طرف سے فی الحال شبر زیدی کے جانے اور نئے چیئرمین کے آنے کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے استعفے کی تردید کردی
214085_3697622_updates.JPG

فائل فوٹو: شبر زیدی
اسلام آباد: چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اپنے استعفے کی تردید کردی۔

جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین شبر زیدی نے کہا کہ عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا، فی الحال خرابی صحت کی وجہ سے ذمہ داریاں نہیں سنبھال رہا۔

واضح رہے کہ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی رواں ماہ دوسری مرتبہ رخصت پر گئے ہیں جس کی وجہ انہوں نے خراب صحت بتائی ہے جب کہ شبر زیدی کے عہدہ چھوڑنے کی خبریں بھی زیر گردش ہیں اور یہ اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم شبر زیدی کی جگہ اب کسی اور کو ایف بی آر کا چیئرمین لگائیں گے۔

گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی کنول شوذب نے انکشاف کیا کہ شبر زیدی کو مافیاز کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

شبر زیدی کے رخصت پر جانے کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر اور مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے بھی جانے کی خبریں زیر گردش تھیں جن کی کل وزیراعظم نے تردید کی ہے
 

جاسم محمد

محفلین
خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ ڈائریکٹر ابھی بھی وہی پرانی شطرنجی گیم کھیل رہا ہے جو پچھلے 60 سالوں سے کھیلتا آ رہا ہے، حس تو یہ ہے کہ بار بار کی ناکامیوں کے بعد بھی ناکارہ کھلاڑیوں و اناڑیوں پر ہی جؤا کھیلنا بند نہیں کیا گیا۔
جب جواری ہی اناڑی ہے تو اس نے نااہل ترین گھوڑے ہی آگے لانے ہیں :)
 

زیرک

محفلین
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے استعفے کی تردید کردی
فائل فوٹو: شبر زیدی
اسلام آباد: چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اپنے استعفے کی تردید کردی۔

جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین شبر زیدی نے کہا کہ عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا، فی الحال خرابی صحت کی وجہ سے ذمہ داریاں نہیں سنبھال رہا۔
شبر زیدی نے مزید کام سے معذرت کر لی ہے، سب ڈاکٹروں کے مشورے پر کیا گیا ہے، کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق پریشر میں کام کرنے سے ان کی بیماری مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ اس لیے اس نے فی الحال مزید کام سے معذرت کی ہے، صحت ٹھیک ہو گئی تو واپس آئیں گے ورنہ اللہ حافظ سمجھو۔
 

جاسم محمد

محفلین
شبر زیدی نے مزید کام سے معذرت کر لی ہے، سب ڈاکٹروں کے مشورے پر کیا گیا ہے، کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق پریشر میں کام کرنے سے ان کی بیماری مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ اس لیے اس نے فی الحال مزید کام سے معذرت کی ہے، صحت ٹھیک ہو گئی تو واپس آئیں گے ورنہ اللہ حافظ سمجھو۔
ظاہر ہے ہر کوئی عمران خان نہیں ہوتا جو مسلسل پریشر میں بھی 18 18 گھنٹے کام کر رہا ہے۔ نواز شریف تو کئی کئی ہفتے ملک سے بھاگے رہتے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو تم میری بات کی تصدیق کر رہے ہو، دیکھو یہ مرض بڑھ گیا تو عمران خان کا ایک حامی کم ہو جائے گا اور تمہارا وظیفہ بند ہو جائے گا۔
نواز شریف اور زرداری کے مردہ گھوڑے میں بار بار جان ڈالنے کے بعد پیچھے ایک ہی گھوڑا بچا تھا اس لئے اسے چن لیا گیا۔ اس میں عمران خان کا اپنا کوئی کمال نہیں۔
 
Top