خلیل الرحمان قمر کو نوبیل انعام دیا جائے

جاسم محمد

محفلین
’خلیل الرحمان قمر کو نوبیل انعام دیا جائے‘
اقبال خورشید31 جنوری
2020

آئیے ماضی میں چلتے ہیں۔

یہ پی ٹی وی کا سنہری دور ہے۔ لاہور سینٹر سے ‘الف نون‘ شروع ہونے کو ہے، کچھ برس بعد کراچی مرکز ‘خدا کی بستی’ نامی شاہکار ڈراما ٹیلی کاسٹ کرے گا۔ پھر ‘پت جھڑ کے بعد’، ‘وارث’، ’جھوک سیال’ اور ’ایک محبت سو افسانے’ ظاہر ہوں گے ۔

جناب، یہ وہ دور ہے، جب ڈرامے کو وقار ڈراما نگار بخشتا تھا۔ چائے خانوں میں، بسوں بازاروں میں تذکرہ ان ڈراموں کا کچھ یوں ہوا کرتا: ’کمال احمد رضوی کے قلم سے نکلا کھیل ہے، اشفاق احمد کا ڈراما ہے بھائی، اسکرپٹ امجد اسلام امجد نے لکھا ہے‘۔

ہدایتکار لاکھ اہم، مگر ذکر اس کا ڈراما رائٹر کے بعد ہی ہوتا۔ اداکار بے چارے کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ اس کی قسمت کا کُلّی انحصار ڈراما نگار اور ہدایتکار کی ابرو کی جنبش پر ہوا کرتا۔




مگر پھر حالات بدلنے لگے۔ پُراسرار ٹڈی دل نے اس زرخیز کھیت کا رخ کر لیا۔ ڈراما نگار کی قسمت پر تاریکی چھانے لگی۔ وہ ماضی میں جاتا گیا۔ اسٹوڈیو میں اجنبی ہوگیا۔

ہاں، حسینہ معین اور نور الہدیٰ شاہ کے نام ضرور سنائی دیے، مگر ان کی ساکھ تو سنہری دور کے اختتامی برسوں ہی میں مستحکم ہوچکی تھی۔ نئے آنے والوں کے لیے سنّاٹا تھا۔ ویرانی سی ویرانی تھی۔ ایسی ویرانی کہ گھر کو دیکھ کر دشت یاد آئے۔

مگر جیسا کہ ایک گیانی نے کہا تھا: ’پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر’ اور ‘بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا’، تو آخر ایک رات بادل چھٹ گئے۔ چاند نکل آیا۔ ہر سو چاندی پھیل گئی اور اس کی روشنی نے ڈراما نگاری کو منور کردیا، بیاناں میں ایک پکار سنائی دی: خلیل الرحمٰن قمر کی منظر میں آمد ہوچکی تھی۔

وہی خلیل الرحمٰن قمر، جسے آمد ہوتی ہے، مکالمے اترتے ہیں اور جو اترنے والے مکالمے کو جوں کا توں ناظرین کے سامنے پیش کردیتا ہے، اور پھر ناظرین انہیں کہیں اپنے دل کے نہاں خانوں میں حرکت کرتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

وہی خلیل الرحمٰن قمر، جسے یقین ہے کہ صرف تاریخ ہی اس کی بابت حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور جسے اعتماد ہے کہ کل آپ کے ہمارے بچے اس کا لکھا ڈراما پڑھیں گے۔

صاحبو، یہ وہی خلیل الرحمٰن قمر ہے، جس کے حیران کر دینے والے دبنگ اعتماد نے روشن خیال اور فیمنسٹ طبقات میں کھلبلی مچا دی۔ جو تنِ تنہا کئی تنظیموں، تنازعات اور بیانیوں سے ٹکرا گیا۔ (اس سے قبل ایسا اعتماد صرف جناب عمران خان میں دکھائی دیا تھا)۔

شاید آپ راقم کے الفاظ کو طنز یا استہزائیہ خیال کریں، مگر ایک بار، فقط ایک بار دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں، کیا اس شیر دل انسان نے طوفانوں کے اس دور میں ڈراما رائٹر کی عزت بحال نہیں کی؟ ورنہ تو ڈراما نگار ’دو ٹکے کا آدمی تصور کیا جاتا تھا‘۔

کل تک فقط شاعر اور ادیب تنک کر ناقد سے یہ کہہ سکتے تھے کہ ’جناب آپ نے مجھے پڑھا نہیں ہے!’ لیکن خلیل الرحمٰن قمر کی آمد کے بعد اب ایک ڈراما نگار بھی کہہ سکتا ہے، جناب بڑبڑ کرنے سے پہلے مجھے پڑھ کر آئیں۔ (یعنی ٹی وی سے نشر ہونے والا میرا ڈراما دیکھیں)


کل تک اداکار سب سے اہم ہوتا تھا، ڈراما اسی سے منسوب ہوا کرتا، لیکن خلیل الرحمٰن قمر کی منظر میں آمد کے بعد اب اداکار محض ایک کردار رہ گیا ہے، ڈراما رائٹر کے ہاتھ میں کٹھ پتلی۔

کل تک مقبول ڈراموں کے ہیرو ہیروئن ٹاک شوز میں چہکتے مہکتے دکھائی دیتے تھے، خلیل الرحمٰن قمر کی آمد کے بعد ڈراما نگار بھی دھڑلے سے ٹاک شو کے منچ پر یہ کہہ سکتا ہے، ‘مجھ پر مقدمہ کرنا ہے تو کردیں ، I don't care۔‘

تو صاحبو، اب ڈراما رائٹر اور اپنی اساس میں رائٹر ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون عورت ہے اور کون عورت نہیں ہے؟

رائٹر فیصلہ کرے گا کہ وفا اور حیا معاشرے میں کتنی اہم ہیں اور کس مقدار میں دستیاب ہونی چاہییں؟ رائٹر فیصلہ کرے گا کہ مٹھی کھولی جائے یا بند رکھی جائے؟ رائٹر فیصلہ کرے گا کہ حق کیسے اور کیوں کر مانگا جائے؟ رائٹر فیصلہ کرے گا کہ ان ملک دشمن طبقات، ان لبرلز اور فیمنسٹوں کا قبلہ کیسے درست کیا جائے؟

اور یہ سب ہوا خلیل الرحمٰن قمر کی منظر میں آمد کے بعد۔ ورنہ کل تک تو ڈراما نگاری کی صنعت پر تاریکی چھائی تھی اور اسکرپٹ کی روح اندیشوں پر تیر رہی تھی۔ مگر اب سب کچھ بدل گیا۔

آپ کا ہاتھ کہاں ہے؟ اسے ایک بار اپنے دل پر رکھ لیجیے۔

کیا یہ سچ نہیں کہ ’میرے پاس تم ہو’ نے گزشتہ 10 برس میں مقبولیت کے سارے ریکارڈز توڑ دیے؟ سب سے زیادہ بزنس کیا؟ سب سے زیادہ موضوع بحث بنا؟ ٹیوٹر ٹرینڈز میں ٹاپ پر رہا؟

کیا یہ سچ نہیں کہ ‘میرے پاس تم ہو’ پر لاکھوں ٹک ٹاک ویڈیوز بنیں؟ میمز بنے؟ فیس بک پر لوگوں نے مستقل اس پر باتیں کی؟ کیا مہوش اور دانش کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ نہیں تھا؟ کیا ‘میرے پاس تم ہو’ نے’ ایوینجرز‘ سے زیادہ بزنس نہیں کیا؟


سچ تو یہ ہے کہ ایسا ہوا اور یہ سب خلیل الرحمٰن قمر کے طفیل ممکن ہوا۔

خلیل الرحمٰن قمر نے آخر میں دانش کو مار دیا، بے شک اس معاشرے میں ‘دانش ‘کی موت واقع ہوچکی ہے۔ دانش کو مار کر خلیل الرحمٰن قمر نے خود کو سچا حقیقت نگار ثابت کردیا۔ ایک تگڑا ترقی پسند۔

ایسی حقیقت نگاری اس سے قبل ہمیں فقط ٹالسٹائی کے ‘اینا کارینینا’ اور فلائبر کے ‘مادام بواری’ میں دکھائی دی۔

مگر خلیل الرحمٰن قمر ٹالسٹائی اور فلائبر سے یوں ایک قدم آگے رہا کہ ان بزرگوں کے روایتی بیانیے میں بُری عورت کی موت واقع ہوئی، مگر ادھر دانش نے مر کر مردانہ قربانی کی لازوال داستان رقم کردی۔

کیا یہ داستان اس قابل نہیں کہ اسے قومی داستان قرار دیا جائے؟ نصاب کا حصہ بنایا جائے؟ آسکر میں بھیجا جائے؟

اور کیا یہ داستان نوبیل انعام کی حقدار نہیں؟

آپ کا ہاتھ کہاں ہے؟ اسے ایک بار پھر دل پر رکھ لیں اور جواب دیں۔ کیا ہم عہد خلیل میں زندہ نہیں ہیں؟
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
’خلیل الرحمان قمر کو نوبیل انعام دیا جائے‘
اقبال خورشید31 جنوری
2020

آئیے ماضی میں چلتے ہیں۔

یہ پی ٹی وی کا سنہری دور ہے۔ لاہور سینٹر سے ‘الف نون‘ شروع ہونے کو ہے، کچھ برس بعد کراچی مرکز ‘خدا کی بستی’ نامی شاہکار ڈراما ٹیلی کاسٹ کرے گا۔ پھر ‘پت جھڑ کے بعد’، ‘وارث’، ’جھوک سیال’ اور ’ایک محبت سو افسانے’ ظاہر ہوں گے ۔

جناب، یہ وہ دور ہے، جب ڈرامے کو وقار ڈراما نگار بخشتا تھا۔ چائے خانوں میں، بسوں بازاروں میں تذکرہ ان ڈراموں کا کچھ یوں ہوا کرتا: ’کمال احمد رضوی کے قلم سے نکلا کھیل ہے، اشفاق احمد کا ڈراما ہے بھائی، اسکرپٹ امجد اسلام امجد نے لکھا ہے‘۔

ہدایتکار لاکھ اہم، مگر ذکر اس کا ڈراما رائٹر کے بعد ہی ہوتا۔ اداکار بے چارے کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ اس کی قسمت کا کُلّی انحصار ڈراما نگار اور ہدایتکار کی ابرو کی جنبش پر ہوا کرتا۔




مگر پھر حالات بدلنے لگے۔ پُراسرار ٹڈی دل نے اس زرخیز کھیت کا رخ کر لیا۔ ڈراما نگار کی قسمت پر تاریکی چھانے لگی۔ وہ ماضی میں جاتا گیا۔ اسٹوڈیو میں اجنبی ہوگیا۔

ہاں، حسینہ معین اور نور الہدیٰ شاہ کے نام ضرور سنائی دیے، مگر ان کی ساکھ تو سنہری دور کے اختتامی برسوں ہی میں مستحکم ہوچکی تھی۔ نئے آنے والوں کے لیے سنّاٹا تھا۔ ویرانی سی ویرانی تھی۔ ایسی ویرانی کہ گھر کو دیکھ کر دشت یاد آئے۔

مگر جیسا کہ ایک گیانی نے کہا تھا: ’پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر’ اور ‘بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا’، تو آخر ایک رات بادل چھٹ گئے۔ چاند نکل آیا۔ ہر سو چاندی پھیل گئی اور اس کی روشنی نے ڈراما نگاری کو منور کردیا، بیاناں میں ایک پکار سنائی دی: خلیل الرحمٰن قمر کی منظر میں آمد ہوچکی تھی۔

وہی خلیل الرحمٰن قمر، جسے آمد ہوتی ہے، مکالمے اترتے ہیں اور جو اترنے والے مکالمے کو جوں کا توں ناظرین کے سامنے پیش کردیتا ہے، اور پھر ناظرین انہیں کہیں اپنے دل کے نہاں خانوں میں حرکت کرتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

وہی خلیل الرحمٰن قمر، جسے یقین ہے کہ صرف تاریخ ہی اس کی بابت حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور جسے اعتماد ہے کہ کل آپ کے ہمارے بچے اس کا لکھا ڈراما پڑھیں گے۔

صاحبو، یہ وہی خلیل الرحمٰن قمر ہے، جس کے حیران کر دینے والے دبنگ اعتماد نے روشن خیال اور فیمنسٹ طبقات میں کھلبلی مچا دی۔ جو تنِ تنہا کئی تنظیموں، تنازعات اور بیانیوں سے ٹکرا گیا۔ (اس سے قبل ایسا اعتماد صرف جناب عمران خان میں دکھائی دیا تھا)۔

شاید آپ راقم کے الفاظ کو طنز یا استہزائیہ خیال کریں، مگر ایک بار، فقط ایک بار دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں، کیا اس شیر دل انسان نے طوفانوں کے اس دور میں ڈراما رائٹر کی عزت بحال نہیں کی؟ ورنہ تو ڈراما نگار ’دو ٹکے کا آدمی تصور کیا جاتا تھا‘۔

کل تک فقط شاعر اور ادیب تنک کر ناقد سے یہ کہہ سکتے تھے کہ ’جناب آپ نے مجھے پڑھا نہیں ہے!’ لیکن خلیل الرحمٰن قمر کی آمد کے بعد اب ایک ڈراما نگار بھی کہہ سکتا ہے، جناب بڑبڑ کرنے سے پہلے مجھے پڑھ کر آئیں۔ (یعنی ٹی وی سے نشر ہونے والا میرا ڈراما دیکھیں)


کل تک اداکار سب سے اہم ہوتا تھا، ڈراما اسی سے منسوب ہوا کرتا، لیکن خلیل الرحمٰن قمر کی منظر میں آمد کے بعد اب اداکار محض ایک کردار رہ گیا ہے، ڈراما رائٹر کے ہاتھ میں کٹھ پتلی۔

کل تک مقبول ڈراموں کے ہیرو ہیروئن ٹاک شوز میں چہکتے مہکتے دکھائی دیتے تھے، خلیل الرحمٰن قمر کی آمد کے بعد ڈراما نگار بھی دھڑلے سے ٹاک شو کے منچ پر یہ کہہ سکتا ہے، ‘مجھ پر مقدمہ کرنا ہے تو کردیں ، I don't care۔‘

تو صاحبو، اب ڈراما رائٹر اور اپنی اساس میں رائٹر ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون عورت ہے اور کون عورت نہیں ہے؟

رائٹر فیصلہ کرے گا کہ وفا اور حیا معاشرے میں کتنی اہم ہیں اور کس مقدار میں دستیاب ہونی چاہییں؟ رائٹر فیصلہ کرے گا کہ مٹھی کھولی جائے یا بند رکھی جائے؟ رائٹر فیصلہ کرے گا کہ حق کیسے اور کیوں کر مانگا جائے؟ رائٹر فیصلہ کرے گا کہ ان ملک دشمن طبقات، ان لبرلز اور فیمنسٹوں کا قبلہ کیسے درست کیا جائے؟

اور یہ سب ہوا خلیل الرحمٰن قمر کی منظر میں آمد کے بعد۔ ورنہ کل تک تو ڈراما نگاری کی صنعت پر تاریکی چھائی تھی اور اسکرپٹ کی روح اندیشوں پر تیر رہی تھی۔ مگر اب سب کچھ بدل گیا۔

آپ کا ہاتھ کہاں ہے؟ اسے ایک بار اپنے دل پر رکھ لیجیے۔

کیا یہ سچ نہیں کہ ’میرے پاس تم ہو’ نے گزشتہ 10 برس میں مقبولیت کے سارے ریکارڈز توڑ دیے؟ سب سے زیادہ بزنس کیا؟ سب سے زیادہ موضوع بحث بنا؟ ٹیوٹر ٹرینڈز میں ٹاپ پر رہا؟

کیا یہ سچ نہیں کہ ‘میرے پاس تم ہو’ پر لاکھوں ٹک ٹاک ویڈیوز بنیں؟ میمز بنے؟ فیس بک پر لوگوں نے مستقل اس پر باتیں کی؟ کیا مہوش اور دانش کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ نہیں تھا؟ کیا ‘میرے پاس تم ہو’ نے’ ایوینجرز‘ سے زیادہ بزنس نہیں کیا؟


سچ تو یہ ہے کہ ایسا ہوا اور یہ سب خلیل الرحمٰن قمر کے طفیل ممکن ہوا۔

خلیل الرحمٰن قمر نے آخر میں دانش کو مار دیا، بے شک اس معاشرے میں ‘دانش ‘کی موت واقع ہوچکی ہے۔ دانش کو مار کر خلیل الرحمٰن قمر نے خود کو سچا حقیقت نگار ثابت کردیا۔ ایک تگڑا ترقی پسند۔

ایسی حقیقت نگاری اس سے قبل ہمیں فقط ٹالسٹائی کے ‘اینا کارینینا’ اور فلائبر کے ‘مادام بواری’ میں دکھائی دی۔

مگر خلیل الرحمٰن قمر ٹالسٹائی اور فلائبر سے یوں ایک قدم آگے رہا کہ ان بزرگوں کے روایتی بیانیے میں بُری عورت کی موت واقع ہوئی، مگر ادھر دانش نے مر کر مردانہ قربانی کی لازوال داستان رقم کردی۔

کیا یہ داستان اس قابل نہیں کہ اسے قومی داستان قرار دیا جائے؟ نصاب کا حصہ بنایا جائے؟ آسکر میں بھیجا جائے؟

اور کیا یہ داستان نوبیل انعام کی حقدار نہیں؟

آپ کا ہاتھ کہاں ہے؟ اسے ایک بار پھر دل پر رکھ لیں اور جواب دیں۔ کیا ہم عہد خلیل میں زندہ نہیں ہیں؟
اچھے لطیفے ہیں!
:)
 
Top