غزل: حسیں ہو اور پھر اس پر حسیں معلوم ہوتے ہو ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

حسیں ہو اور پھر اس پر حسیں معلوم ہوتے ہو
تم اپنے حسن میں حسنِ یقیں معلوم ہوتے ہو

بہت ہی دور رہتے ہو تم آغوشِ محبت سے
مگر پھر بھی مجھے بالکل قریں معلوم ہوتے ہو

حیا آلود رخساروں سے کر دیتے ہو راز افشا
نگاہِ شوق کی شرحِ مبیں معلوم ہوتے ہو

بدل دو گے تم اپنی سب وفاؤں کو جفاؤں میں
تم ایسے تو ہمیں ہرگز نہیں معلوم ہوتے ہو

چلے جاتے ہوتم بزمِ تمنا سے مگر مجھ کو
یہیں معلوم ہوتے ہو، یہیں معلوم ہوتے ہو

دلِ بیتاب، چشمِ شوق، محرومِ سکوں پہلو
جہاں ہم چاہتے ہیں تم وہیں معلوم ہوتے ہو

خدا کی راہ میں اے مشکلاتِ غم کے تلخابو!
ہمیں تم ایک جامِ انگبیں معلوم ہوتے ہو

زمانے کی کسی گردش سے یہ عالم نہیں بدلا
جہاں معلوم ہوتے تھے، وہیں معلوم ہوتے ہو

بڑے تم حامیِ دینِ متیں بنتے ہو اے واعظ!
مگر ہم کو تو مارِ آستیں معلوم ہوتے ہو

اِدھر ہے دامنِ تقویٰ، اُدھر ہے جلوۂ رعنا
بڑی مشکل میں اے قلبِ حزیں معلوم ہوتے ہو

عزیزؔ اس دور میں اور شاہدِ حق سے وفاداری؟
ہمیں تم یوں تو دیوانہ نہیں معلوم ہوتے ہو

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
 
Top