بھارت میں نئے مسلم مخالف شہریت کے قانون کے بعد فسادات پھوٹ پڑے

جاسم محمد

محفلین
اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر صحیح معنوں میں عمل کرتا تو اسی ذاتی معاملے کی وجہ سے یہ موصوف صرف کنٹینر جوگے ہی رہتے، دعا دیں اصل حاکموں کو جن کے اشارے پر ان آرٹیکلز کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور ایک خر دماغ انسان کو ہمارے سر پر بٹھا دیا گیا، لیکن خیر یہ بات ن لیگ کے پٹواری ذہنیت والے لوگوں کی طرح جناب کو بھی سمجھ نہیں آئے گی۔
اگر کبھی آرٹیکل ۶۲، ۶۳ کا من و عن اطلاق ہوا تو قومی اسمبلی میں کوئی نظر ہی نہیں آئے گا :)
 

جاسم محمد

محفلین
حضور میں آپ کو محض اتنا مشورہ دوں گا کہ اس واقعہ پہ بغض نواز کو ایک طرف رکھ کر دو چار مختلف اینگلز سے مختلف الخیال مصنفوں کی اس واقعے پہ کتب پڑھیں! اصل سوال یہ ہے کہ نواز شریف بل کلنٹن کے پاس گیا ہی کیوں تھا، اس کا جواب ڈھونڈیں۔ کیا کسی سول حکمران میں اتنی ہمت ہے کہ فوج جنگ جیت رہی ہو اور سول حکمران باہر جا کر اسے انٹرپٹ کروائے اور زندہ سلامت پلٹ کے واپس آ جائے؟ یہ کام صرف اسی وقت ہوتے ہیں جب فوج کو ان کے 'ناکام ایڈونچرز' سے خلاصی دلائی جانی ہو!
آپریشن سرچ لائٹ فوج کا منصوبہ تھا جو مکمل فلاپ ہوا۔ ملک دو لخت ہوا۔ ۹۰ ہزار قیدیوں نے ہتھیار ڈالے۔ اس کے باوجود بھٹو نے ذمہ داران کو سزائیں دلوانے کی بجائے ان کے ساتھ مک مکا کر لیا۔ اور کشمیر بیچنے کے عوض تمام قیدی واپس بلوا لئے۔
اسی طرح کارگل پر حملہ فوج کا منصوبہ تھا۔ وہ بھی فلاپ ہوا۔ چیک پوسٹس خالی کرتے فوجیوں پر پیچھے سے بمباری ہوتی اور ان کی کوئی مدد نہ کی جا سکتی۔ یہاں بھی نواز شریف چاہتے تو ذمہ داران کو الٹا لٹکا دیتے لیکن وہ اپنا اقتدار بچانے امریکہ چلے گئے
 

زیرک

محفلین
اگر کبھی آرٹیکل ۶۲، ۶۳ کا من و عن اطلاق ہوا تو قومی اسمبلی میں کوئی نظر ہی نہیں آئے گا :)
پہلی بار تم نے یہ مانا ہے کہ سب کچرا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسمبلی نہیں دھندہ کرنے والوں کی کچرا کنڈی ہے اور ان کو غیر آئینی طریقے سے ہمارے سر پر مسلط کرنے والے ان سے بھی بڑےگندے لوگ ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلی بار تم نے یہ مانا ہے کہ سب کچرا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسمبلی نہیں دھندہ کرنے والوں کی کچرا کنڈی ہے اور ان کو غیر آئینی طریقے سے ہمارے سر پر مسلط کرنے والے ان سے بھی بڑےگندے لوگ ہیں۔
آپ شاید بھول رہے ہیں کہ جنہوں نے ۷۳ کا آئین لکھا وہ بھی کچرے کے ڈھیر تھے۔ پہلے اتنی محنت سے آئین بنایا اور پھر ساتھ ہی اپنے سیاسی مفاد کیلئے اس میں ترامیم شروع کر دی۔
 

زیرک

محفلین
ہمارے نالائق تر بادشاہ گروں کی قوم کو ہر دس بیس سال بعد لیڈرشپ کا نیا ماڈل دینے کے لیے بنائی گئی تجربے گاہ نے قوم کو لیڈر تو نہیں دئیے لیکن ان نالائقوں اور نالائقوں کے سرپرستوں کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستانیوں کو کو پوری دنیا میں گداگر قوم بنا کر رکھ دیا ہے، ورنہ یہ وہی پاکستان تھا جس نے شروع شروع میں امریکہ اور جرمنی جیسے ملکوں کو قرضے دئیے تھے تاکہ وہ اپنی معیشت کو استحکام دے سکیں۔
 

زیرک

محفلین
آپ شاید بھول رہے ہیں کہ جنہوں نے ۷۳ کا آئین لکھا وہ بھی کچرے کے ڈھیر تھے۔ پہلے اتنی محنت سے آئین بنایا اور پھر ساتھ ہی اپنے سیاسی مفاد کیلئے اس میں ترامیم شروع کر دی۔
آٹے میں نمک کے برابر اچھے کاموں کے عوض بڑے بڑے گناہِ عظیم معاف نہیں کیے جا سکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آٹے میں نمک کے برابر اچھے کاموں کے عوض بڑے بڑے گناہِ عظیم معاف نہیں کیے جا سکتے۔
آئین یا دستور اساسی قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ جب ۷۳ کا آئین آیا تو اس میں صاف صاف لکھا تھا کہ ہر پاکستانی کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور پھر اگلے ہی سال اس میں ترمیم کر دی گئی کہ پاکستانی قادیانیوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔
Second Amendment to the Constitution of Pakistan - Wikipedia

ایسے مضحکہ خیز سیاسی مفاد پر مبنی آئین کو تو اسی وقت کچرے کے ڈھیر میں پھینک دینا چاہیے تھا۔ معلوم نہیں جنرل ضیا نے آئین معطل کرنے میں تین سال مزید انتظار کیوں کیا۔
 

زیرک

محفلین
آئین یا دستور اساسی قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ جب ۷۳ کا آئین آیا تو اس میں صاف صاف لکھا تھا کہ ہر پاکستانی کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور پھر اگلے ہی سال اس میں ترمیم کر دی گئی کہ پاکستانی قادیانیوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔
Second Amendment to the Constitution of Pakistan - Wikipedia
قادیانیوں نے اس ترمیم کے نتیجے میں خود کو غیر مسلم نہیں مانا، اس بنیاد پر ان کو اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہلانے سے روکا گیا۔ ورنہ ان کو ان کے بنیادی مذہبی عقائد کی ادائیگی سے نہیں روکا گیا۔
ان کے لوگ تو پاکستان میں سب سے زیادہ اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔
اگر کبھی ملک میں کام نہیں ملتا تو اسی قانون کی آڑ لے کر یورپ، برطانیہ و امریکہ میں سیاسی پناہ بھی لے لیتے ہیں۔
قصہ مختصر اس ترمیم کے فائدے تو وہ خوب لپیٹ رہے ہیں لیکن نقصانات کے پیچھے چھپا قانونی لقونہ ختم کروانے سپریم کورٹ کیوں نہیں جاتے؟ یہ بات ان سے پوچھیئے گا ضرور۔
 

جاسم محمد

محفلین
قادیانیوں نے اس ترمیم کے نتیجے میں خود کو غیر مسلم نہیں مانا، اس بنیاد پر ان کو اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہلانے سے روکا گیا۔ ورنہ ان کو ان کے بنیادی مذہبی عقائد کی ادائیگی سے نہیں روکا گیا۔
ان کے لوگ تو پاکستان میں سب سے زیادہ اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔
اگر کبھی ملک میں کام نہیں ملتا تو اسی قانون کی آڑ لے کر یورپ، برطانیہ و امریکہ میں سیاسی پناہ بھی لے لیتے ہیں۔
قصہ مختصر اس ترمیم کے فائدے تو وہ خوب لپیٹ رہے ہیں لیکن نقصانات کے پیچھے چھپا قانونی لقونہ ختم کروانے سپریم کورٹ کیوں نہیں جاتے؟ یہ بات ان سے پوچھیئے گا ضرور۔
آئین یا اس میں کی گئی ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پارلیمان ریاست کا سب سے اونچا ستون ہے اور باقی سب اس کے نیچے آتے ہیں۔ آئین میں لکھا ایک ایک لفظ پتھر کی لکیر ہے جسے سپریم کورٹ انٹرپرٹ تو کر سکتی ہے، اسے معطل یا تحریف نہیں کر سکتی۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب سال پہلے تمام پاکستانیوں کو مذہبی آزادی دی گئی تھی تو محض ایک سال بعد سیاسی فوائد کیلئے اسی آئین میں تبدیلی کیونکر کی گئی۔ اور یوں آئین بنانے والوں نے اس غلط کو روش فروغ دیا کہ زیر اقتدار
ٹولہ جب چاہے اپنے مفاد میں آئین تبدیل سکتا ہے۔
جیسے نواز شریف نے ۱۹۹۷ میں دو تہائی اکثریت لیتے ساتھ ہی اپنے منصب وزارت عظمی پر لگے تمام آئینی چیکس اینڈ بیلنس ہٹاتے ہوئے امیر المومنین بننے کی کوشش کی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
16 دسمبر ، 2019
294_030154_reporter.jpg
نصرت امین
کیا ہندوستانی مسلمانوں کو سمجھنا اتنا مشکل ہے؟
210399_892720_updates.jpg


خیا ل رہے کہ یہ مضمون کسی طور مسلمانوں کی تعریف یا اِن کے یکطرفہ مفاد میں نہیں لکھا گیا ہے۔ اِس تحریرکا مقصد صرف مودی حکومت اور اس کے انتہا پسند حامیوں کو تاریخی تناظر میں دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والی مسلم آبادیوں کے عمومی سیاسی و سماجی روّیئے، رجحانات اور ان کی اجتماعی نفسیات یاد دلانا ہے جن میں اِ ن کمیونی ٹیز کا جبر کے خلاف عمومی رد عمل اور طاقتوردشمن سے نمٹنے کا طریقہ کار سر فہرست ہے۔

اگرچہ بھارتی حکومت کے تازہ اقدامات سے لگتا ہے کہ و ہ اِن تاریخی حقائق سے اچھی طرح واقف ہے، لگتا ہے کہ اقتدار کی طاقت کے سُرور میں وہ اصل نتائج سے سبق سیکھنے کے بجائے انتہا درجے کی لا پرواہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

یہاں یہ سچائی بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ مودی حکومت کے مسلم دشمن اقدامات کے پس منظر میں کم و بیش ایک ہزار سال تک ہندوستان پر راج کرنے والے زیادہ تر مسلم حکمرانوں کے غیر منصفانہ روئیے سے لیکر، کارگل تک کے واقعات کارفرما ہوسکتے ہیں ۔۔۔ اور نہیں بھی ہوسکتے اور اگر بی جے پی کا یہ سارا ظلم و ستم مسلمانوں کے خلاف تاریخی انتقام نہیں بھی ہے، تب بھی یہ برسر اقتدار جماعت، نتائج سے بے خبر، تاریخی ردّ عمل کی یہ نفسیات اپنے اقتدارکو مضبوط تر بنانے کے لیے یقیناًکامیابی سے استعمال کررہی ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں نے تقسیم کے وقت بنیادی طور پر دو وجوہات کے تحت پاکستان ہجرت کی تھی؛ پہلی وجہ تھی خود کو، اپنے عقائد سمیت، غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں انتہائی غیر محفوظ پاکر مسلم اکثریتی آبادیوں میں جابسنا اور دوسری وجہ تھے تعلیم، تجارت اور شہریت کے مساوی مواقعے۔
وسطی ایشیا، مشرق وسطی اور ہندوستان میں بسنے والی کم و بیش تمام مسلم کمیونی ٹیز کی تاریخ عمومی طور پر طاقتور دشمن کے خلاف کامیاب مسلح یا نظریاتی مزاحمت، بڑے پیمانے پر ہجرت، یلغار و حملہ (صحیح یا غلط) اور بغاوت سے جڑے واقعات پر مبنی ہے۔ مسلح مزاحمت یا جنگوں سے قطعہ نظر، جس طرح ضرورت پڑنے پر 1947میں تقسیم کے بعد بھارتی صوبوں میں بسے مسلمانوں نے پاکستان کی جانب سب سے بڑی ہجرت کرنے کی تاریخ بھی رقم کرڈالی تھی، اِسی طرح مودی حکومت کے پے در پے عاقبت نا اندیش اقدامات کے تناظر میں یہ امکان بڑھتا جارہا ہے کہ یوپی، بیہار، سی پی، راجھستان، گجرات، بنگال اور دیگر بھارتی صوبوں کے بے بس مسلمان ملک کے بالائی شمال مغربی علاقوں کی جانب ایک اور بڑی ہجرت کرکے موجودہ ہندوستان کے اندرونی لسانی و مذہبی خدوخال بدل ڈالیں۔یہ مذاق نہیں بلکہ تاریخی تناظر میں، اِس صورتحال کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔

اِس حوالے سے ماہ اگست میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے تحت جموں وکشمیر کو حاصل خاص حیثیت کے خاتمے کے بعد تارکین وطن کی شہریت سے متعلق متنازع بل کا پیش کیا جانا ایک انتہائی متوقع پیش رفت ہے۔ کیوں کہ ماضی کے برعکس، اب بھارت بھر میں بسے مسلمانوں کے لیے ملک میں پہلی بارکشمیر کی صورت میں ایک مسلم اکثریتی صوبہ موجود ہے جہاں وہ بڑے پیمانے پر ہجرت کرکے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں۔

اس وضاحت سے قبل کہ شہریت سے متعلق یہ متنازع بل متوقع کیوں تھا، یہ بیان کردینا ضروری ہے کہ اس نئے بل کے تحت بنگلادیش، پاکستان اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز پیش گئی ہے۔ یہ بل در اصل ملتی جلتی نوعیت کے ایک اور بھارتی قانون کی مجوزہ ترمیم ہے جو 1955میں نافذ کیا گیا تھا۔ موجودہ بل سال 2016 میں بھی پیش کیا جاچکا ہے لیکن چند ناگزیر وجوہات کے تحت معاملہ آگے نہیں بڑھ پایا تھا۔ اس بل پر اعتراض یہ ہے کہ تارکین وطن کی فہرست میں مسلم کمیونٹی شامل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بل بھارتی ایوان زیریں اور بالا سے منظوری کے باجود دنیا بھر کے مبصرین کے لیے متنازع بن گیا ہے۔

رہا سوال کہ بھارتی مسلمانوں کے ملک کے بالائی شمال مغربی حصوں میں ہجرت کے امکانات کیوں بڑھتے جارہے ہیں، اس کا جواب انتہائی سادہ ہے۔

یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ بالائی شمال مغربی ہند کے کم و بیش پورے خطے میں مسلم آبادی نہ صرف غیر مسلم آبادی کے برابر یا اس سے تجاوز کر سکتی ہے بلکہ ان علاقوں کے پاکستان سے جڑے ہونے کے سبب آزادی کی کسی نئی تحریک کے آغاز کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں نے تقسیم کے وقت بنیادی طور پر دو وجوہات کے تحت پاکستان ہجرت کی تھی؛ پہلی وجہ تھی خود کو، اپنے عقائد سمیت، غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں انتہائی غیر محفوظ پاکر مسلم اکثریتی آبادیوں میں جابسنا اور دوسری وجہ تھے تعلیم، تجارت اور شہریت کے مساوی مواقعے۔

اب آرٹیکل 370 کی تنسیخ بعد، نئے بھارتی قانون کے تحت، جموں وکشمیر بھارت کی وہ واحد یونین ہے جہاں مقامی مسلم آج بھی بھاری اکثریت میں ہیں، سو اب خاص طور پر یوپی، بیہار، سی پی، گجرات اور دیگر بھارتی ریاستوں اور یونینز میں ہندو توا کے زیر عتاب مسلم آبادیوں کے بڑے پیمانے پر جموں و کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں ہجرت کرکے سکونت اختیار کرنے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔

خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں انتہا پسند بی جے پی کو یہ خدشہ لاحق رہا ہے کہ ایک جانب کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں بدلنا نا ممکن ہوسکتا ہے اوردوسری جانب مسلمانوں کی اس ممکنہ اورغیر معمولی ہجرت سے جموں و کشمیر کے آس پاس واقع بھارتی علاقوں کی غیر مسلم اکثریت دیکھتے ہی دیکھتے اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ مٹ جانے کے خوف میں مبتلا انتہا پسندوں کا یہ احمقانہ خدشہ بھی سامنے آیا کہ آزاد کشمیر، بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے بڑے پیمانے پر ہجرت متوقع ہے اورایسی صورت میں ہندوستان ہجرت کرنے والے مسلمان جموں وکشمیر یا ملحقہ علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کرکے بالائی شمال مغربی ہندوستان میں نئے سر ے سے لسانی و مذہبی خد وخال (Ethno-Religious Demography) مرتب کر سکتے ہیں۔

لہذا یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ بالائی شمال مغربی ہند کے کم و بیش پورے خطے میں مسلم آبادی نہ صرف غیر مسلم آبادی کے برابر یا اس سے تجاوز کر سکتی ہے بلکہ ان علاقوں کے پاکستان سے جڑے ہونے کے سبب آزادی کی کسی نئی تحریک کے آغاز کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ یہ خدشہ بھی سروں پر منڈلا تا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر ہجرت کرکے آنے والے یہ مسلم شہری بھارتی شہریت حاصل کرنے کے بعد، نئے بھارتی قانون کے تحت، جموں وکشمیر میں جائیدادوں کے مالک بھی بن سکتے ہیں۔ اِن تمام خدشات کو ہمیشہ کے لیے دور کرنا مودی حکومت کے لیے ایک سیاسی ضرورت بن گیا تھا، لہٰذا شہریت سے متعلق اس بل کا پیش ہونا اب ناگزیر تھا۔

تاریخ اور تازہ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو غیر بھارتی مسلمانوں کو شہریت اور ویزا نہ دینا، کوئی دو دہائیوں سے بھارتی حکومتوں کی روایت بنا ہوا ہے۔ پاکستانی نژاد کینیڈین حضرت طارق فتح آخری خبریں آنے تک بھارتی میڈیا پر پاکستان سے اپنی تمام تر نفرت کے مسلسل اظہار کے باجود، بھارتی شہریت حاصل نہیں کرسکے تھے۔ خیال ہے کہ تمام پاکستانیوں اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والے طارق فتح کو بھارتی شہریت کے حصول میں دشواری اس لیے بھی اٹھانا پڑرہی ہے کہ وہ بنیادی طور پرایک ایسے پاکستانی مسلمان ہیں جن کے پاس کینیڈین پاسپورٹ بھی ہے۔

بھارت کی ایک غیر اعلانیہ پالیسی کے تحت، کسی بھی کینیڈین نیشنل پاکستانی مسلمان کے لیے بھارتی شہریت تو کُجا، بھارتی ویزے کا حصول بھی کم و بیش ناممکن ہے۔ ٹورنٹو میں مقیم پاکستانی نژاد بہت سے کینیڈین شہری اس پریشانی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی نژاد کینیڈین مسلم درخواست گزاروں کو انڈین ہائی کمیشن میں تلقین کی جاتی رہی ہے کہ اگر وہ پاکستانی شہریت سے دستبردار ہوجائیں تو انہیں بھارتی ویزا جاری کیا جاسکتا ہے۔

اِس سال اگست میں آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد وادی کی آسیب زدہ صورتحال پر مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے معروف اسلامی اسکالر محمد سخی خان راٹھور سے رابطہ رہا، انہوں نے بارہا گفتگو میں حالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ شہریت سے متعلق بل پیش ہونے پر ان سے ایک بار پھر رابطہ ہوا، تو ا ن کا کہنا تھا کہ درحقیقت مودی راج میں اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے وہ سب غیر آئینی ہے۔ انہوں کہا کہ اُنہیں ہندوستان سے پناہ محبت ہے کیوں کہ یہ غریب نواز کا ہندوستان ہے۔ ”حالات کتنے ہی کٹھن ہوں۔۔۔ ہم (کشمیری اور ہندوستانی مسلمان) اپنی جگہ مکمل وکامل ہیں۔ میں فی الحال خود کوئی مضمون لکھنے سے قاصر ہوں لیکن دعا ہے کہ حق کہنے اور لکھنے والے تا قیامت سلامت رہیں۔“

ہندوستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر مسلم تارکین وطن کی شہریت سے متعلق یہ مذکورہ بل کی بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا اور ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا سے اس بل کی منظوری شمالی بھارت میں مودی راج کے زیر سایہ شدت اختیار کرتی ہوئی ’ہندو توائی فضا‘ کا نتیجہ ہے۔ بے جی پی بلاشبہ برسر اقتدار ہونے کے ساتھ ساتھ آج بھی ہندوستان کی سب سے طاقتور جماعت ہے، لہذا مذکورہ بل کا ایوان بالا میں بھی منظور ہوجانا، دنیا کے لیے کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ البتہ مہاراشٹرا کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی غیر متوقع شکست، ایک نئے سیاسی منظرنامے کی شروعات قرار دی جارہی ہے۔
 

زیرک

محفلین
چپ کا روزہ رکھے پاکستانی مرد نما لیڈروں سے تو ایک بنگالی عورت ممتا بینر جی (چیف منسٹر بنگال) زیادہ "مرد" نکلی جس نے کولکتہ میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مارچ کے دوران مودی کی فاشسٹ دلی سرکار کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ "اگر وفاقی حکومت میں ہمت ہے تو ان کی حکومت ختم کردے لیکن ان کی ریاست میں یہ قانون ان کی لاش پر سے گزر کر ہی لاگو ہو گا۔ جب تک میں زندہ ہوں ریاست میں شہریت قانون اور این آر سی پر عملدرآمد نہیں ہونے دوں گی، آپ چاہیں تو میری حکومت ختم کردیں یا مجھے جیل میں ڈال دیں لیکن میں اس کالے قانون پر کبھی عملدرآمد نہیں کروں گی"۔
 
کیا ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں:-

ا۔ نئے شہریت قانون سے متاثر ہونے والے 3 مسلم ممالک کے پناہ گزینوں کی تعداد ؟


ب۔ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والے 6 مذاہب کے پناہ گزینوں کی تعداد ؟
 

زیرک

محفلین
کیا ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں:-
ا۔ نئے شہریت قانون سے متاثر ہونے والے 3 مسلم ممالک کے پناہ گزینوں کی تعداد ؟
ب۔ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والے 6 مذاہب کے پناہ گزینوں کی تعداد ؟
ایڈے تسی بہادر شاہ ظفر کہ "ہم" کا صیغہ استعمال کریں ، ویسے تسلی رکھیں گنتی جاری ہے۔
 
نفرتوں کا اثر دیکھوجانوروں کا بٹوارہ ہوگیا
گائے ہندو ہوگئی اور بکرا مسلمان ہوگیا

یہ پیڑ یہ پتے یہ شاخیں بھی پریشاں ہوجائیں
اگر پرندے بھی ہندو اورمسلمان ہوجائیں

سوکھے میوے بھی یہ دیکھ کر حیران ہوگئے
نجانے کب ناریل ہندو اور کھجورمسلمان ہوگئے

جس طرح سے دھرم مذہب کے نام پہ ہم رنگوں کوبھی بانٹتے جارہے ہیں
کہ ہرا مسلمان کا ہے اور لال ہندو کا رنگ ہے

تو وہ دن دورنہیں جب ساری کی ساری ہری سبزیاں مسلمانوں کی ہوجائیں گی
اور ہندوؤں کے حصے بس ٹماٹر اور گاجرہی آئیں گے

اب یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ تربوز کس کے حصوں میں آئےگا
یہ تو بیچارہ اوپر سے مسلمان اور اندر سے ہندو رہ جائے گا

:):)
 
آخری تدوین:
اگر آپ تنقید برائے اصلاح کر رہے ہیں تو ساتھ یہ بھی بتائیں کہ عمران خا ن کو کیا کرنا چاہئے تھا۔ او آئی سی سے لے کر اقوام متحدہ تک ہر عالمی پلیٹ فارم پر حکومت نے مسئلہ کشمیر پر آواز بلند کی تھی۔ آپ پھر بھی خوش نہیں۔
عمران خان نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا ’یہ مجھے بتا دیں کہ میں اور کیا کروں؟ کیا میں حملہ کردوں ہندوستان پر`۔
’کیا میں حملہ کر دوں ہندوستان پر۔۔۔؟‘
بالآخر ہندوستان نے ایک سپر پاور بننا ہے۔ اس پر حملہ پاکستان کی بےوقوفی ہی ہوگی۔
 
Top