لاہور میں وکلاء کا امراض قلب کے اسپتال پر حملہ، آپریشن تھیٹر میں توڑ پھوڑ

جاسم محمد

محفلین
اس واقعے میں وکلاء بلا شبہ ظالموں میں شامل ہیں۔
معاملہ اب اتنا بھی سادہ نہیں۔ ہمیں دوسری طرف کا موقف سنے بغیر سارا الزام وکلا پر نہ ڈالنا چاہئے۔ پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہاں تک حالات پہنچے کیسے؟
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹروں کے احتجاج کے دوران ایک وکیل کی ماں کا علاج نہ کرنے پر وکیلوں اور ڈاکٹروں کے مابین لڑائی ہوئی تھی۔ ان وکیلوں نے ڈاکٹروں پر کیس کر دئے اور پھر حکومت نے درمیان میں پڑ کر معاملات ٹھیک کر وائے۔ اس حوالہ سے سیٹلمنٹ آخری مراحل میں تھی کہ ینگ ڈاکٹر عرفان نے وکیلوں سے ہونے والی میٹنگ کا احوال تضحیک آمیز لہجہ کے ساتھ پبلک کر دیا۔ جس کے بعد وکلا مزید مشتعل ہو ئے اور ہسپتال پر حملہ کر دیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
معاملہ اب اتنا بھی سادہ نہیں۔ ہمیں دوسری طرف کا موقف سنے بغیر سارا الزام وکلا پر نہ ڈالنا چاہئے۔ پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہاں تک حالات پہنچے کیسے؟
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹروں کے احتجاج کے دوران ایک وکیل کا ماں کا علاج نہ کرنے پر وکیلوں اور ڈاکٹروں کے مابین لڑائی ہوئی تھی۔ ان وکیلوں نے ڈاکٹروں پر کیس کر دئے اور حکومت نے درمیان میں پڑ کر معاملات ٹھیک کر وائے۔ اس حوالہ سے حتمی سیٹلمنٹ چل رہی تھی کہ ڈاکٹر رضوان نے وکیلوں سے ہونے والی میٹنگ کا احوال تضحیک کے ساتھ پبلک کر دیا۔ جس کے بعد وکلا مشتعل ہو ئے اور ہسپتال پر حملہ کر دیا۔
تو ان پر زیادہ سے زیادہ کیس بنتا تھا، نہ کہ قانون خود ہاتھ میں لے لیا جاتا۔ ارے بھئی، جواز تو ہر بات کا ہی برآمد کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ درست ہو یا غلط۔
 

جاسم محمد

محفلین
تو ان پر زیادہ سے زیادہ کیس بنتا تھا، نہ کہ قانون خود ہاتھ میں لے لیا جاتا۔ ارے بھئی، جواز تو ہر بات کا ہی برآمد کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ درست ہو یا غلط۔
جواز کہاں دیا ہے؟ صرف حقائق بیان کر رہا ہوں کہ یہ معاملات اس حد تک کیسے پہنچے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہم بھی یہی کہتے ہیں واقعے کی مکمل تحقیق سے قبل کسی سیاسی پارٹی پہ بھی الزام عائد کرنا درست نہیں لیکن اللہ بھلا کرے 'پروپیگنڈہ' سیل کا!
وکیلوں کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا کلچر تحریک انصاف نے فروغ نہیں دیا۔ یہ سب ن لیگ اور پی پی پی کی باقیات ہیں۔
 

جان

محفلین
بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا کلچر
تحریک انصاف نے بحیثیت مجموعی نفرت اور ایگریشن کے کلچر کو فروغ دیا ہے جو کہ فرقہ واریت، بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی جڑ ہیں۔ بات پھر سیاست کی طرف چل نکلے گی، بہتر یہی ہے کہ اسی واقعے تک محدود رہا جائے!
 

جاسم محمد

محفلین
یہ نا اہلی ہے؟ ماڈل ٹاؤن لاہور میں 14 لاشیں اور بلدیہ ٹاؤن کراچی میں 258 لاشیں گرانےوالے آج دندناتے پھر رہے ہیں۔ جبکہ انصافی حکومت میں ذمہ داران اگلے ہی دن جیلوں میں ہیں۔ خدارا بغض عمران اور فوج سے اب باہر آجائیں اور ملک کو آگے لے کر چلیں۔
جان فرقان احمد عبدالقیوم چوہدری

لاہور: امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 250 وکلا کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج
رانا بلال | علی وقار | ویب ڈیسک | حسیب بھٹیاپ ڈیٹ 12 دسمبر 2019

لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں مبینہ طور پر ڈاکٹروں اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنانے، ہسپتال کی املاک اور پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچانے پر 250 سے زائد وکلا کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کردی گئیں جبکہ وکلا کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی۔

ڈان نیوز کو موصول پولیس دستاویز کے مطابق گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں 52 وکلا کو گرفتار کیا گیا تھا۔

دستاویز کے مطابق وکلا کو آج لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

گزشتہ روز وکلا نے چند ہفتے قبل پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں مار پیٹ کا شکار ہونے والے وکلا کے ایک گروہ کا بظاہر بدلہ لینے کے مشن پر عمل کرتے ہوئے پی آئی سی میں پرتشدد مظاہرہ کیا تھا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کلپ میں کچھ ڈاکٹروں کو اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، جس میں مبینہ طور پر وکلا کا 'مذاق' اڑایا گیا تھا۔

لاہور کے ہسپتال پر دھاوا بولنے والوں میں اکثر سیاہ لباس اور ٹائی میں ملبوس نوجوان تھے جنہوں نے ہسپتال کی حدود میں کسی شخص کو نہیں بخشا جہاں امراض قلب کے کئی مریض ہر وقت زیرِ علاج ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور: وکلا کا امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 3 مریض جاں بحق

صورتحال اس وقت مزید خراب ہوئی جب مشتعل گروہ نے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ پر کچھ ڈاکٹروں کو تلاش کرتے ہوئے دھاوا بولا تھا جبکہ خطرے کے پیشِ نظر ڈاکٹرز فرار ہوگئے تھے۔

ڈاکٹروں کی غیر موجودگی میں کچھ مریضوں کی حالت بگڑنے پر ایک لڑکی اور عمر رسیدہ خاتون سمیت پی آئی سی کے 3 مریض جاں بحق ہوگئے تھے۔

گزشتہ روز پہلی ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) پی آئی سی کی شکایت پر شادمان پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی جس میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ملک مسعود کھوکر، لاہور بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر اعجاز بسرا اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدارتی امیدوار رانا انتظار کو وکلا کی قیادت کرنے، انہیں اشتعال دلانے اور ہدایات دینے پر نامزد کیا گیا ہے کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے سمیت، جو بھی ان کی راہ میں آئے، بچ کر نہیں جاسکے۔

ایف آئی آر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی جانب سے ثاقب شفیع شیخ کی شکایت پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 322 (قتل و غارت گری)، 452 (زخمی کرنے، حملے یا حبس بے جا کے لیے تیاریوں کے بعد کسی جگہ بے جا مداخلت کرنے)، 352 (سرکاری ملازم کو فرائض کی انجام دہی سے منتشر کرنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ قوت کا استعمال)، 186، 354 (کسی خاتون کی بے حرمتی کے ارادے سے اس پر حملہ کرنا)، 148 (فسادات، مہلک ہتھیاروں سے لیس ہونا)، 149 (غیرقانونی عمل)، 337-ایچ (2) (غفلت کے نتیجے میں زخمی کرنے) اور 395 (ڈکیتی) کے تحت درج کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے شکایت کنندہ کے مطابق گزشتہ دوپہر وہ اپنے دفتر میں موجود تھے کہ چوکی انچارج نے ٹیلیفون آپریٹر کے ذریعے آگاہ کیا کہ 200 سے 250 مرد اور خواتین وکلا پی آئی سی کی طرف آرہے ہیں۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اطلاع موصول ہونے کے بعد انہوں نے پی آئی سی کے ایمرجنسی وارڈ میں وکلا کی آمد سے متعلق سیکیورٹی الرٹ کے لیے پہنچے والے ڈاکٹروں کو آگاہ کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ تقریبا آدھے گھنٹے بعد 200 سے 250 وکلا پی آئی سی کے ایمرجنسی گیٹ پر تعینات پولیس کی بھاری نفری کو دھکے دیتے ہوئے ایمرجنسی گیٹ کو توڑ کر زبردستی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہوئے جن میں سے کچھ کے پاس اسلحہ اور ڈنڈے بھی تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق کئی گروہوں میں تقسیم وکلا انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو)، آپریشن تھیٹر اور ریڈیالوجی سمیت پی آئی سی کے مختلف ڈپارٹمنٹس میں داخل ہوئے تھے جہاں انہوں نے سیکیورٹی گارڈز، طبے عملے اور ڈاکٹروں کو زد و کوب کیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ وکلا نے ہسپتال کے قیمتی آلات بھی توڑے جس سے ہسپتال میں زیرِ علاج مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔

ایف آئی آر کے مطابق ہسپتال میں تباہی کے نتیجے میں مریضوں کو دی جانے والی طبی سہولیات معطل ہوگئیں جو 3 مریضوں کی اموات کا باعث بنی۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ پارکنگ لاٹ میں موجود ڈاکٹروں کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق وکلا کی جانب سے ہسپتال میں تعینات 2 سیکیورٹی گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جنہیں تشویشناک حالت میں علاج کے لیے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اس میں مزید کہا گیا وکلا کے ایک گروہ نے نرسز ہسپتال میں داخل ہو کر وہاں بھی توڑ پھوڑ کی، وکلا نے عملے کو ہراساں کیا، نرسز ہسپتال کی انچارج کے ساتھ بدتمیزی کی اور ان کے گلے میں پہنا ہوا لاکٹ چھین لیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق صورتحال بے قابو ہونے پر پولیس کی مزید نفری پی آئی سی پہنچی اور جب انہوں نے وکلا کو ہسپتال سے باہر نکالنا چاپا تو ان میں سے کچھ نے فائرنگ شروع کردی۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ واقعہ تقریبا 2 گھنٹے تک جاری رہا جبکہ زخمیوں اور آلات کو نقصان پہنچنے سے متعلق معلومات بعد میں دی جائیں گی۔

واقعے کی دوسری ایف آئی آر درج
مذکورہ معاملے پر پولیس نے دوسری ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج کی ہے اس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

شکایت کنندہ انسپکٹر سید انتخاب حسین کے مطابق پستول اور ڈنڈوں سے لیس وکلا ان کی پولیس گاڑی کے پاس آئے اور انہیں جان سے مار دینے کی نیت سے ان پر فائرنگ کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوتے ہی وہ گاڑی میں بیٹھے اور فوری طور پر وہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس دوران ان کی گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور وکلا نے گاڑی کو گھیرلیا اور اسے نقصان پہنچانا شروع کردیا۔

شکایت کنندہ انسپکٹر نے کہا کہ مظاہرین میں سے ایک نے کہا کہ پولیس کی گاڑی کو آگ لگادو اور پولیس عہدیداران کو جان سے مار ڈالو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین نے پولیس کی گاڑی پر فائرنگ اور اسے آگ لگائی۔

گزشتہ روز انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 290 (عوام کو تکلیف پہنچانے)، 291 (حکم کے باجود پریشانی کا باعث بنے رہنے )، 148 (فسادات، مسلح ہتھیار سے لیس ہونے)، 353 (حملہ)، 324 (اقدام قتل)، 436 (گھر وغیرہ تباہ کرنے کے مقصد سے آگ یا دھماکا خیز مواد کا استعمال) اور 186 (سرکاری ملازم کے عوامی کاموں میں رکاوٹ بننے) کے تحت وکلا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

وکلا کےخلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست
دوسری جانب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں حملہ کرنے والے وکلا کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی۔

درخواست ایڈووکیٹ طارق اسد نے دائر کی جس میں میں وفاق، سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی آئی سی اور اس کے عملے پر وکلا کا حملہ آرٹیکل 16 کی خلاف ورزی ہے، پی آئی سی کی عمارت سمیت مریضوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ وکلا کے حملے سے قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔

درخواست میں حملے میں ملوث وکلا کے خلاف سخت کارروائی کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو وکلا اور پنجاب بار کے عہدیداران واقعے میں ملوث تھے ان کے لائسنس معطل کیے جائیں، جبکہ املاک کو ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی واقعے میں ملوث وکلا سے کرایا جائے۔

پی آئی سی میں سروسز معطل
وکلا کے مظاہروں کے ایک روز بعد کورونری کیئر یونٹ (سی سی یو) کے علاوہ پی آئی سی میں تمام سروسز معطل ہیں۔

علاوہ ازیں ہسپتال میں صفائی کا کام جاری ہے جبکہ مریضوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

گزشتہ روز گرینڈ ہیلتھ الائنس نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا اور 24 گھنٹے میں پارلیمنٹ میں سیکیورٹی بل آرڈیننس پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وزیر قانون پنجاب راجا بشارت اور صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد مستعفی ہوں۔

پی آئی سی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یاسمین راشد نے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹروں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہسپتال کا دورہ کیا تھا۔

یاسمین راشد نے کہا کہ حکومت تمام ذمہ داران کو سزا دلوانے کی یقینی کوشش کرے گی۔

دوسری جانب میو ہسپتال کے عملے نے مذکورہ واقعے کے خلاف واک کا انعقاد کیا تھا۔

وکلا کی جانب سے گزشتہ روز حملے میں ملوث افراد کی خلاف ہڑتال کی گئی اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

پنجاب بار کونسل کے مطابق وکلا آج (12 دسمبر کو) عدالتوں میں موجود نہیں ہوں گے۔

علاوہ ازیں وکلا کی گرفتاری کے خلاف لائرز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا تھا، جس کے اراکین لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس کے لیے نامزد مامون رشید شیخ سے بھی ملاقات کریں گے۔

معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب چند روز قبل کچھ وکلا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں ایک وکیل کی والدہ کے ٹیسٹ کے لیے گئے، جہاں مبینہ طور پر قطار میں کھڑے ہونے پر وکلا کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔

اسی دوران وکلا اور ہسپتال کے عملے کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا اور مبینہ طور پر وہاں موجود وکلا پر تشدد کیا گیا۔

مذکورہ واقعے کے بعد دونوں فریقین یعنی وکلا اور ڈاکٹرز کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ایک دوسرے پر مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا تاہم بعد ازاں ڈاکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

اس مقدمے کے اندراج کے بعد وکلا کی جانب سے کہا گیا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کریں، ابتدا میں ان دفعات کو شامل کیا گیا بعد ازاں انہیں ختم کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ واقعے پر معافی مانگ لی گئی اور معاملہ تھم گیا۔

تاہم گزشتہ روز ینگ ڈاکٹرز کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک ڈاکٹر کو اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے دیکھا گیا، جس میں مبینہ طور پر وکلا کا 'مذاق' اڑایا گیا تھا، جس پر وکلا نے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر کے خلاف مہم شروع کردی۔

اس معاملے پر بدھ کو ایوان عدل میں لاہور بار ایسوسی ایشن کا اجلاس عاصم چیمہ کی سربراہی میں ہوا جس میں مزید کارروائی کے لیے معاملے کو جمعرات تک ملتوی کردیا گیا، تاہم کچھ وکلا نے بدھ کو ہی ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پی آئی سی کا رخ کیا۔
 
56211561-86-C2-44-C2-BD64-3470-DFA27-B8-E.jpg
وائرل ہوئی یہ تصویر 2007 لائرز موومنٹ کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف نے بحیثیت مجموعی نفرت اور ایگریشن کے کلچر کو فروغ دیا ہے جو کہ فرقہ واریت، بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی جڑ ہیں۔ بات پھر سیاست کی طرف چل نکلے گی، بہتر یہی ہے کہ اسی واقعے تک محدود رہا جائے!
تحریک انصاف کی کسی سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے۔ قومی چوروں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا دفاع ہرگز نہ کیا جائے گا۔ اور نہ ہی ان کے فروغ سے قائم غنڈہ گردی کا کلچر کا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ نا اہلی ہے؟ ماڈل ٹاؤن لاہور میں 14 لاشیں اور بلدیہ ٹاؤن کراچی میں 258 لاشیں گرانےوالے آج دندناتے پھر رہے ہیں۔ جبکہ انصافی حکومت میں ذمہ داران اگلے ہی دن جیلوں میں ہیں۔ خدارا بغض عمران اور فوج سے اب باہر آجائیں اور ملک کو آگے لے کر چلیں۔
جان فرقان احمد عبدالقیوم چوہدری

لاہور: امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 250 وکلا کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج
رانا بلال | علی وقار | ویب ڈیسک | حسیب بھٹیاپ ڈیٹ 12 دسمبر 2019

لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں مبینہ طور پر ڈاکٹروں اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنانے، ہسپتال کی املاک اور پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچانے پر 250 سے زائد وکلا کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کردی گئیں جبکہ وکلا کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی۔

ڈان نیوز کو موصول پولیس دستاویز کے مطابق گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں 52 وکلا کو گرفتار کیا گیا تھا۔

دستاویز کے مطابق وکلا کو آج لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

گزشتہ روز وکلا نے چند ہفتے قبل پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں مار پیٹ کا شکار ہونے والے وکلا کے ایک گروہ کا بظاہر بدلہ لینے کے مشن پر عمل کرتے ہوئے پی آئی سی میں پرتشدد مظاہرہ کیا تھا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کلپ میں کچھ ڈاکٹروں کو اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، جس میں مبینہ طور پر وکلا کا 'مذاق' اڑایا گیا تھا۔

لاہور کے ہسپتال پر دھاوا بولنے والوں میں اکثر سیاہ لباس اور ٹائی میں ملبوس نوجوان تھے جنہوں نے ہسپتال کی حدود میں کسی شخص کو نہیں بخشا جہاں امراض قلب کے کئی مریض ہر وقت زیرِ علاج ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور: وکلا کا امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 3 مریض جاں بحق

صورتحال اس وقت مزید خراب ہوئی جب مشتعل گروہ نے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ پر کچھ ڈاکٹروں کو تلاش کرتے ہوئے دھاوا بولا تھا جبکہ خطرے کے پیشِ نظر ڈاکٹرز فرار ہوگئے تھے۔

ڈاکٹروں کی غیر موجودگی میں کچھ مریضوں کی حالت بگڑنے پر ایک لڑکی اور عمر رسیدہ خاتون سمیت پی آئی سی کے 3 مریض جاں بحق ہوگئے تھے۔

گزشتہ روز پہلی ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) پی آئی سی کی شکایت پر شادمان پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی جس میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ملک مسعود کھوکر، لاہور بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر اعجاز بسرا اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدارتی امیدوار رانا انتظار کو وکلا کی قیادت کرنے، انہیں اشتعال دلانے اور ہدایات دینے پر نامزد کیا گیا ہے کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے سمیت، جو بھی ان کی راہ میں آئے، بچ کر نہیں جاسکے۔

ایف آئی آر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی جانب سے ثاقب شفیع شیخ کی شکایت پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 322 (قتل و غارت گری)، 452 (زخمی کرنے، حملے یا حبس بے جا کے لیے تیاریوں کے بعد کسی جگہ بے جا مداخلت کرنے)، 352 (سرکاری ملازم کو فرائض کی انجام دہی سے منتشر کرنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ قوت کا استعمال)، 186، 354 (کسی خاتون کی بے حرمتی کے ارادے سے اس پر حملہ کرنا)، 148 (فسادات، مہلک ہتھیاروں سے لیس ہونا)، 149 (غیرقانونی عمل)، 337-ایچ (2) (غفلت کے نتیجے میں زخمی کرنے) اور 395 (ڈکیتی) کے تحت درج کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے شکایت کنندہ کے مطابق گزشتہ دوپہر وہ اپنے دفتر میں موجود تھے کہ چوکی انچارج نے ٹیلیفون آپریٹر کے ذریعے آگاہ کیا کہ 200 سے 250 مرد اور خواتین وکلا پی آئی سی کی طرف آرہے ہیں۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اطلاع موصول ہونے کے بعد انہوں نے پی آئی سی کے ایمرجنسی وارڈ میں وکلا کی آمد سے متعلق سیکیورٹی الرٹ کے لیے پہنچے والے ڈاکٹروں کو آگاہ کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ تقریبا آدھے گھنٹے بعد 200 سے 250 وکلا پی آئی سی کے ایمرجنسی گیٹ پر تعینات پولیس کی بھاری نفری کو دھکے دیتے ہوئے ایمرجنسی گیٹ کو توڑ کر زبردستی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہوئے جن میں سے کچھ کے پاس اسلحہ اور ڈنڈے بھی تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق کئی گروہوں میں تقسیم وکلا انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو)، آپریشن تھیٹر اور ریڈیالوجی سمیت پی آئی سی کے مختلف ڈپارٹمنٹس میں داخل ہوئے تھے جہاں انہوں نے سیکیورٹی گارڈز، طبے عملے اور ڈاکٹروں کو زد و کوب کیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ وکلا نے ہسپتال کے قیمتی آلات بھی توڑے جس سے ہسپتال میں زیرِ علاج مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔

ایف آئی آر کے مطابق ہسپتال میں تباہی کے نتیجے میں مریضوں کو دی جانے والی طبی سہولیات معطل ہوگئیں جو 3 مریضوں کی اموات کا باعث بنی۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ پارکنگ لاٹ میں موجود ڈاکٹروں کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق وکلا کی جانب سے ہسپتال میں تعینات 2 سیکیورٹی گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جنہیں تشویشناک حالت میں علاج کے لیے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اس میں مزید کہا گیا وکلا کے ایک گروہ نے نرسز ہسپتال میں داخل ہو کر وہاں بھی توڑ پھوڑ کی، وکلا نے عملے کو ہراساں کیا، نرسز ہسپتال کی انچارج کے ساتھ بدتمیزی کی اور ان کے گلے میں پہنا ہوا لاکٹ چھین لیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق صورتحال بے قابو ہونے پر پولیس کی مزید نفری پی آئی سی پہنچی اور جب انہوں نے وکلا کو ہسپتال سے باہر نکالنا چاپا تو ان میں سے کچھ نے فائرنگ شروع کردی۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ واقعہ تقریبا 2 گھنٹے تک جاری رہا جبکہ زخمیوں اور آلات کو نقصان پہنچنے سے متعلق معلومات بعد میں دی جائیں گی۔

واقعے کی دوسری ایف آئی آر درج
مذکورہ معاملے پر پولیس نے دوسری ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج کی ہے اس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

شکایت کنندہ انسپکٹر سید انتخاب حسین کے مطابق پستول اور ڈنڈوں سے لیس وکلا ان کی پولیس گاڑی کے پاس آئے اور انہیں جان سے مار دینے کی نیت سے ان پر فائرنگ کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوتے ہی وہ گاڑی میں بیٹھے اور فوری طور پر وہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس دوران ان کی گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور وکلا نے گاڑی کو گھیرلیا اور اسے نقصان پہنچانا شروع کردیا۔

شکایت کنندہ انسپکٹر نے کہا کہ مظاہرین میں سے ایک نے کہا کہ پولیس کی گاڑی کو آگ لگادو اور پولیس عہدیداران کو جان سے مار ڈالو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین نے پولیس کی گاڑی پر فائرنگ اور اسے آگ لگائی۔

گزشتہ روز انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 290 (عوام کو تکلیف پہنچانے)، 291 (حکم کے باجود پریشانی کا باعث بنے رہنے )، 148 (فسادات، مسلح ہتھیار سے لیس ہونے)، 353 (حملہ)، 324 (اقدام قتل)، 436 (گھر وغیرہ تباہ کرنے کے مقصد سے آگ یا دھماکا خیز مواد کا استعمال) اور 186 (سرکاری ملازم کے عوامی کاموں میں رکاوٹ بننے) کے تحت وکلا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

وکلا کےخلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست
دوسری جانب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں حملہ کرنے والے وکلا کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی۔

درخواست ایڈووکیٹ طارق اسد نے دائر کی جس میں میں وفاق، سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی آئی سی اور اس کے عملے پر وکلا کا حملہ آرٹیکل 16 کی خلاف ورزی ہے، پی آئی سی کی عمارت سمیت مریضوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ وکلا کے حملے سے قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔

درخواست میں حملے میں ملوث وکلا کے خلاف سخت کارروائی کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو وکلا اور پنجاب بار کے عہدیداران واقعے میں ملوث تھے ان کے لائسنس معطل کیے جائیں، جبکہ املاک کو ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی واقعے میں ملوث وکلا سے کرایا جائے۔

پی آئی سی میں سروسز معطل
وکلا کے مظاہروں کے ایک روز بعد کورونری کیئر یونٹ (سی سی یو) کے علاوہ پی آئی سی میں تمام سروسز معطل ہیں۔

علاوہ ازیں ہسپتال میں صفائی کا کام جاری ہے جبکہ مریضوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

گزشتہ روز گرینڈ ہیلتھ الائنس نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا اور 24 گھنٹے میں پارلیمنٹ میں سیکیورٹی بل آرڈیننس پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وزیر قانون پنجاب راجا بشارت اور صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد مستعفی ہوں۔

پی آئی سی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یاسمین راشد نے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹروں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہسپتال کا دورہ کیا تھا۔

یاسمین راشد نے کہا کہ حکومت تمام ذمہ داران کو سزا دلوانے کی یقینی کوشش کرے گی۔

دوسری جانب میو ہسپتال کے عملے نے مذکورہ واقعے کے خلاف واک کا انعقاد کیا تھا۔

وکلا کی جانب سے گزشتہ روز حملے میں ملوث افراد کی خلاف ہڑتال کی گئی اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

پنجاب بار کونسل کے مطابق وکلا آج (12 دسمبر کو) عدالتوں میں موجود نہیں ہوں گے۔

علاوہ ازیں وکلا کی گرفتاری کے خلاف لائرز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا تھا، جس کے اراکین لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس کے لیے نامزد مامون رشید شیخ سے بھی ملاقات کریں گے۔

معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب چند روز قبل کچھ وکلا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں ایک وکیل کی والدہ کے ٹیسٹ کے لیے گئے، جہاں مبینہ طور پر قطار میں کھڑے ہونے پر وکلا کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔

اسی دوران وکلا اور ہسپتال کے عملے کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا اور مبینہ طور پر وہاں موجود وکلا پر تشدد کیا گیا۔

مذکورہ واقعے کے بعد دونوں فریقین یعنی وکلا اور ڈاکٹرز کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ایک دوسرے پر مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا تاہم بعد ازاں ڈاکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

اس مقدمے کے اندراج کے بعد وکلا کی جانب سے کہا گیا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کریں، ابتدا میں ان دفعات کو شامل کیا گیا بعد ازاں انہیں ختم کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ واقعے پر معافی مانگ لی گئی اور معاملہ تھم گیا۔

تاہم گزشتہ روز ینگ ڈاکٹرز کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک ڈاکٹر کو اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے دیکھا گیا، جس میں مبینہ طور پر وکلا کا 'مذاق' اڑایا گیا تھا، جس پر وکلا نے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر کے خلاف مہم شروع کردی۔

اس معاملے پر بدھ کو ایوان عدل میں لاہور بار ایسوسی ایشن کا اجلاس عاصم چیمہ کی سربراہی میں ہوا جس میں مزید کارروائی کے لیے معاملے کو جمعرات تک ملتوی کردیا گیا، تاہم کچھ وکلا نے بدھ کو ہی ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پی آئی سی کا رخ کیا۔
سر! ذرا بلدیہ ٹاؤن کے ذمہ داران اور ان کے حامیان کے نام تو لکھیے نا تاکہ ہم جان پائیں کہ وہ کہاں دندناتے پھر رہے ہیں اور کہاں اٹھکیلیاں فرما رہے ہیں!
 
Top