لاہور میں وکلاء کا امراض قلب کے اسپتال پر حملہ، آپریشن تھیٹر میں توڑ پھوڑ

فرقان احمد

محفلین
حامد خان ، علی احمد کرد، رشید رضوی ، منیر ملک ، لطیف کھوسہ ، خالد رانجھا
یہ سب بڑے بڑے وکلا کہاں ہیں۔ وہ ان بدمعاشوں کی کھل کر مذمت کریں
جو مذمت نہ کرے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ جب معاملہ ظلم کا ہو تو انسان کو مظلوم کی بہرصورت طرف داری کرنی چاہیے۔ اس واقعے میں وکلاء بلا شبہ ظالموں میں شامل ہیں۔ ہر طرح کے تعصب سے بالا تر ہو کر اس واقعے کی مذمت کرنی چاہیے اور اہم عہدوں اور مرتبوں پر فائز شخصیات کی تو یہ کلیدی ذمہ داری ہے۔ آپ نے جن شخصیات کا نام لیا ہے، ان کی جانب سے کی گئی مذمت کی بہت زیادہ ویلیو ہو گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
وکیلوں میں صرف اعتزاز احسن نے اس عمل کی مذمت کی ہے۔ میرے نزدیک یہ شخص مزید معتبر ہوگیا ہے۔
بہتوں نے مذمت کی ہے نظامی صاحب! بابر ستار، سلمان اکرم راجا، سعد رسول وغیرہ کے ٹویٹر اکاؤنٹس ابھی دیکھے؛ سب نے مذمت کی ہوئی ہے۔ کوئی بھی معتبر فرد مذمت کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اب یہ تو ریسرچ کا معاملہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کس نے مذمت کی اور کس نے نہ کی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بہتوں نے مذمت کی ہے نظامی صاحب! بابر ستار، سلمان اکرم راجا، سعد رسول وغیرہ کے ٹویٹر اکاؤنٹس ابھی دیکھے؛ سب نے مذمت کی ہوئی ہے۔ کوئی بھی معتبر فرد مذمت کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اب یہ تو ریسرچ کا معاملہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کس نے مذمت کی اور کس نے نہ کی۔
ان سب کو سلام ہے لیکن میں فرسٹ ٹئیر first tier کےوکلا کی بات کر رہا ہوں۔
 

عدنان عمر

محفلین
بہتوں نے مذمت کی ہے نظامی صاحب! بابر ستار، سلمان اکرم راجا، سعد رسول وغیرہ کے ٹویٹر اکاؤنٹس ابھی دیکھے؛ سب نے مذمت کی ہوئی ہے۔ کوئی بھی معتبر فرد مذمت کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اب یہ تو ریسرچ کا معاملہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کس نے مذمت کی اور کس نے نہ کی۔
بعض افراد سچے دل سے اور بہتیرے اپنی فیس سیونگ کے لیے مذمت کرتے ہیں۔ اور سچ پوچھیں تو مذمتی بیانات کسی مظلوم کے آنسو پونچھ سکتے ہیں اور نہ اسے انصاف دلا سکتے ہیں۔ چند برس کوچۂ صحافت میں گزارنے کے بعد اور مذمت بازی کی تاریخ دیکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دوسرے بہت سے کیسوں کی طرح اس کیس میں بھی مذمت کے بجائے (قانونی/ ماورائے قانون) مرمت کی ضرورت ہے۔
ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بعض افراد سچے دل سے اور بہتیرے اپنی فیس سیونگ کے لیے مذمت کرتے ہیں۔ اور سچ پوچھیں تو مذمتی بیانات کسی مظلوم کے آنسو پونچھ سکتے ہیں اور نہ اسے انصاف دلا سکتے ہیں۔ چند برس کوچۂ صحافت میں گزارنے کے بعد اور مذمت بازی کی تاریخ دیکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دوسرے بہت سے کیسوں کی طرح اس کیس میں بھی مذمت کے بجائے (قانونی/ ماورائے قانون) مرمت کی ضرورت ہے۔
ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔۔
کسی برے فعل کے خلاف مذمت سے رائے عامہ ہموار ہوتی ہے اور حکومت بھی قانونی مرمت پر مائل ہوتی ہے ورنہ سیاست دان ہر گروہ سے بنا کر رکھنے (مک مکا)کے قائل ہوتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
کسی برے فعل کے خلاف مذمت سے رائے عامہ ہموار ہوتی ہے اور حکومت بھی قانونی مرمت پر مائل ہوتی ہے ورنہ سیاست دان ہر گروہ سے بنا کر رکھنے (مک مکا)کے قائل ہوتے ہیں۔
بجا فرمایا۔ دعا ہے کہ اب کی بار قانونی مرمت کے نام پر کاسمیٹک تبدیلی نہ آئے، اصلی تبدیلی آئے۔
 
فیاض الحسن چوہان صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب پر وکلاء تشدد کے بعد لوگوں نے ایک وکیل کو مارنا شروع کردیا۔ فیاض الحسن چوہان نے وکیل کو ببچایا۔​
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان کے تمام مدارس کے سرکردہ راہنماوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان بار کونسل کو خط لکھیں جس میں "وکلا تہذیبی ریفارمز " کا ذکر ہو۔
مولانا طارق جمیل صاحب کو چاہیے کہ وہ وکلا کی تربیت کے لیے خصوصی جماعتیں تشکیل دیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
معاشرہ اگر گولی سے ترقی پاتا تو ہٹلر کو آج دنیا اچھے لفظوں میں یاد کررہی ہوتی۔ معاشرے کی فلاح اگر باہمی نفاق میں ہوتی تو مشرقی و مغربی جرمنی کبھی بھی ایک نہ ہوتے۔ اگر معاشرتی ریخت میں بھلائی ہوتی تو دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا امن کے معاہدے نہ کررہی ہوتی۔ گولی یا تشدد یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کیا جلا رہے ہیں اور کیا ختم کر رہے ہیں۔ ان کا تو کام ہی تباہی ہے۔ معاشرے میں اگر بہتری کی کوشش کرنی ہے تو پھر دلیل کی مدد سے کی جاسکتی ہے۔ دلیل کی مدد سے مشکل سے مشکل معاملات بھی باہمی اتفاق و اتحاد سے طے کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کےلیے ضروری یہ ہے کہ دلیل سے بات کرنے کا سلیقہ سیکھا جائے اور دلیل کو موقع دیا جائے۔ اگر آپ دلیل کو موقع ہی نہیں دے رہے تو پھر کیا فائدہ آپ کے تعلیم یافتہ ہونے کا اور کیا حاصل معاشرے کے فرد ہونے کا۔ ایسے ہونے سے تو نہ ہونا ہی بہتر ہے۔
(شاہد کاظمی)
 

الف نظامی

لائبریرین
اس جھگڑے کے بعد زخمی وکیل علاج کے لیے ڈاکٹروں کے پاس پہنچے اور ڈاکٹر کیس کرنے کےلیے وکیلوں کے پاس۔ چوہان صاحب مفتے اچ ای رگڑے گئے۔
چوہدری صاحب ، سر ہمیں جھگڑا ختم کروانے والے ہر شخص کی تعریف کرنی چاہیے بلا تفریق سیاسی مسلک۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سیاسی فرقہ بندی اور مذہبی فرقہ بندی میں کوئی فرق نہیں۔ جمہوریت نے قوم کو گروہوں میں تقسیم کیا ہے جہاں دوسری سیاسی جماعت کی حکومت میں عوام پر کوئی آفت آئے تو اپوزیشن عوام کی فلاح کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے یہ سوچ کر خوش ہوتی ہے کہ اچھا ہوا اب حکومت پر تنقید ہوگی۔
 
Top