سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
Options
اعزاز سید
10 نومبر ،2019

جب سے مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا کا دھرنا جاری ہے، حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ سب کے تضادات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔

حکومت کو سب سے زیادہ نقصان ہر بات پر ردعمل فراہم کرتے ترجمانوں نے پہنچایا ہے جبکہ مولانا کی ’استعفیٰ لے کر ہی جائوں گا‘ والی ضد انہیں عملی طور پر ایک بند گلی میں لے گئی ہے لیکن اس سب کے باوجود مولانا نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔

بظاہر آہنی دکھنے والے مولانا فضل الرحمٰن کو معلوم ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی کی سیاست کا سب سے بڑا دائو لگا کر اسلام آباد پہنچے ہیں۔ آزادی مارچ اور دھرنے سے قبل وہ محض جوڑ توڑ کے ماہر ایک ایسے شاطر سیاستدان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے جو ہر وقت صرف اقتدار کی جستجو میں ہی رہتا مگر اب ملکی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کے تمام طبقے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہ عوامی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔

انہوں نے عملی طور پر انتخابی سیاست کے سب سے بڑے مرکز پنجاب میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت اسلامی کو پیچھا چھوڑ دیا ہے، اگر وہ اس احتجاج سے کچھ حاصل کر پائے تو آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت پنجاب میں بھی جلوہ گر ہونے کے لیے تیار ہوگی۔

جو مقبولیت مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت کو آج ملی ہے وہ ان کی ساری زندگی کی سیاست پر بھاری ہے مگر جیسا کہ اوپر کہا کہ وہ بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں لہٰذا اب ان کے پاس تین ہی آپشنز ہیں۔

اول، مولانا فضل الرحمٰن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں اتنی خلیج پیدا کر دیں کہ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑ جائے۔ ایسا عمل مولانا کی مکمل فتح اور عمران خان کی مکمل شکست ہوگا لیکن عملی طور پر یہ فوری ممکن نہیں۔ کم سے کم ممکنات میں یہ ہے کہ مولانا کوئی ایسا معاہدہ کر لیں کہ جو لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہو کہ انہوں نے واقعی اس احتجاج سے کچھ حاصل کیا ہے۔

ان کے ہاتھ میں صرف کوشش ہے، نتائج بہرحال ان کی دسترس سےبہت دور کسی اور کے مرہونِ منت ہیں۔دوم، مولانا فضل الرحمٰن کسی مقصد کے حصول کے بغیر اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیں اور پورے ملک کے لاک ڈائون کے لیے یہ کہتے ہوئے اگلی تاریخ دے دیں کہ موجودہ حکومت کے خلاف ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ ایسی صورت میں واپسی پر وہ اپنی سیاست کا لاشہ ہی کندھے پر لے کر جائیں گے۔

سوم، تیسرا اور آخری راستہ ٹکرائو کا ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت مولانا کے کنٹینر پر پشتون قوم پر مظالم اور ان کے لیے انصاف کی آواز اٹھانے والوں کو بھی دعوت دی جا سکتی ہے۔ ایسے میں دھرنے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد دگنی ہو جائے گی اور مولانا کو نئی طاقت بھی ملے گی۔

ان کے پاس یہ راستہ ہوگا کہ وہ ملک بھر میں لاک ڈائون کا اعلان کرتے ہوئے طاقت کے شراکت دار کمزور ترین فرد پر تند و تیز تقریر کا حملہ کریں اور اپنے کارکنوں کو لیکر آگے بڑھیں، لاٹھی کھائیں اور گرفتار ہو جائیں۔ اس اقدام سے اقتدار کے شراکت داروں میں سے کسی ایک کے پائوں سے زمین کھسکنے کے امکان کے ساتھ مولانا کا پابندِ سلاسل ہونا بھی بعید از قیاس نہیں۔ ایسے میں پیدا ہونے والا سیاسی تنازع حکومت کو تو کمزور کرے گا ہی لیکن مولانا کی گرفتاری سے ان کی عزت و سیاست کو دوام مل جائے گا۔

سیاستدان کا رہنما بننا صرف اسی صورت ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے اصولوں کے لیے خوف کے پل سے گزرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ خوف کو قابو میں لانے کی جرات ہونی چاہئے۔ مولانا کے تین آپشنز تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ایک ایسی صورت کے لیے ماحول بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے جس میں اپوزیشن، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سب کے لیے win winیا جیت کا اعلان ہو۔

آزادی مارچ کی طرف سے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ایک فورم کی تشکیل کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اگر اس فورم پر طاقت کے تمام شراکت دار ایک ہی جگہ ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھ کر آئین پر مکمل عملدرآمد کا اعادہ کر لیں اور اس بات کا اعلان کر دیں کہ تمام جماعتیں اور ادارے آئین میں درج دائرہ کار کے اندر رہ کر ہی اپنا کردار ادا کریں گے تو یہ سب سے بڑی قومی کامیابی ہوگی۔ اس وعدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے متفقہ طور پر غیر جانبدار افراد کی ایک قومی کمیٹی بھی تشکیل دی جا سکتی ہے۔

ایسا کرنے کے لیے مرکزی کردار اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تکبر اور اَنا، طاقت و اختیار کی دو ناجائز اولادیں ہیں جن سے اکثر حکمران چھٹکارا نہیں پا سکتے اور یہی دونوں ان کے اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکلنے کی وجہ بن جاتی ہیں۔ اقتدار میں آکر جو حکمران ان پر قابو پا جاتا ہے وہ امر ہو جاتا ہے مگر تاریخ میں بھی اس آپشن پر عملدرآمد کرنے والے حکمران کم ہی پائے جاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوازشریف نے ڈیل کی ہے یا سیاست؟
10/11/2019 وسی بابا

دہشت گردی کی لہر عروج پر تھی ۔ اک سیاسی محفل میں تب کے اہم ترین سیاسی عہدیدار نے کہا تھا ۔ پاکستان کے دو اہم مسلے ہیں ۔ دہشت گردی اور سول ملٹری تعلقات ۔ اس کا ہمارے پاس سب سے اچھا سیاسی جواب نوازشریف ہیں۔

ہم ان کی حمایت کریں گے ۔ اس کی ہر قیمت ادا کریں گے۔ پھر ہم نے پی پی کو پنجاب اور کے پی سے پسپا ہوتے اندرون سندھ تک محدود ہوتے دیکھا ۔ اس کے بعد نوازشریف کا پانامہ بھی ہوتے دیکھا گیا۔

ہم اک عالمی نظام میں رہتے ہیں۔ ہماری ڈیپ سٹیٹ اپنے ریجن میں بہت سے عزائم رکھتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ بہت سے عالمی منصوبوں کی مزاحمت کرتی ہے۔

ہماری سیاسی جماعتیں سوچ کے حساب سے عالمی الائنمنٹ کے زیادہ نزدیک ہیں۔ سیاسی حکومت اپنی انٹرنیشنل حمایت کے بل پر چلتی ہے۔ پاکستان کے اندر ایک مانیٹرنگ ٹول کے طور پر کام کرتی ہے۔

ہم نے پچھلے دس سال میں دو ماڈل دیکھے۔ آصف زرداری کی پی پی حکومت ۔ سر جھکائے مدہم انداز میں بغیر کسی کو چیلنج کیے ، سب کو ساتھ ملائے چلتی رہی۔ بدقسمتی سے اس حکومت نے اتنے سمجھوتے کیے کہ کارکردگی متاثر ہوئی اپنے ہی وزن سے ڈوب بھی گئی، غیر متعلق ہو کر محدود بھی ہو گئی۔

نوازشریف آتے ہیں، میگا پراجیکٹ شروع کرتے ہیں ۔ ووٹر سرمایہ دار سول بیوروکریسی ، سب کو ساتھ ملا کر اک کے بعد دوسری ٹکر مارنے لگ جاتے ہیں اپنے حریف اداروں کو۔ ڈیپ سٹیٹ کے ڈیزائن متاثر کرتے ہیں۔ کبھی بیٹھے بٹھائے قابو آ جاتے ہیں۔ کبھی چاروں ٹانگوں سے پکڑ کر باہر بھجوائے جاتے ہیں ۔ پھر آتے ہیں کہانی دہرائی جاتی ہے ۔ انجام ہر بار ایک ہی ہوتا ہے۔

پرانی سیاسی قیادت سے تھک کر انہیں تھکا کر آخر کار کپتان کے تبدیلی ماڈل پر ہاتھ رکھا گیا۔ یہ ماڈل کارکردگی کے حوالے سے بوجھ اور مقبولیت کے حوالے سے اب بھی اثاثہ ہے ۔ لیکن عدم کارکردگی کا بوجھ اتنا بڑا ہے کہ اب اٹھائے نہیں اٹھ رہا۔ یہ اک الگ کہانی ہے ۔ واپس چلتے ہیں۔

پاکستانی سیاسی جماعتیں ایک عالمی مانیٹر کا سا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ مقبولیت بھی رکھتی ہیں ۔ ووٹر کو ساتھ رکھنے کے لیے اس کا بھی کچھ دال دلیہ کرتی ہیں۔ ڈیپ سٹیٹ کے ریجنل عزائم پر بھی ایک روک لگاتی ہیں۔

یہ ریجنل عزائم اتنے بھی غلط نہیں ہیں ۔ ہمیں بہت سے حقیقی سیکیورٹی تھریٹ ہیں ۔ ان کا کچھ تدارک تو بنتا ہے۔ کیسے اور کتنا اس پر اختلاف رہتا ہے۔

اب ہوا یہ ہے کہ سیاسی مانیٹر رخصت ہو چکا ۔ اس کی جگہ اپنے نکے نے لے لی ہے۔ کپتان کی آمد سے اس کو لانے والوں نے اک سکھ کا سانس لیا تھا۔

یہ شاید نہیں سوچا گیا تھا کہ ایسا ہونے سے کسی اور کا سانس ضرور خشک ہو جائے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سول رٹ کمزور ہوئی ہے تو ایف اے ٹی ایف کی صورت اک نئے مانیٹر سے سامنا ہے۔

اسے نہ دبایا جا سکتا ہے نہ بھگایا جا سکتا ہے۔ اس کی بس ماننی ہے ۔ سر جھکا کر اس کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔

ایف ای ٹی ایف کے مطالبات آئی ایم ایف نے اپنے قرض فراہمی پروگرام سے جوڑ دیے ہیں۔ پاکستان کا نیا سیاسی انتظام اس کو لانے والے ایک نئی مشکل صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ معاشی پریشر بہت زیادہ ہے جسے اب بہت محسوس کیا جا رہا ہے۔

یہ تو ابھی ہماری ایک حقیقت ہے۔ نوازشریف کے دور میں ہم نے تین کام کیے سی پیک شروع کیا ۔ ایسا کرتے وقت امریکی انٹرسٹ کو مسلم لیگی حکومت نے نظر انداز کیا۔ ہم نے نئے پاور پلانٹ لگائے سعودی تیل سے ہم قطری ایل این جی پر شفٹ ہوئے۔ یہ دوسرا جرم تھا۔ گوادر میں اتنا کام نہیں ہوا جتنا شور مچا ۔ اس سے متحدہ عرب امارات میں بے چینی بڑھی۔

امریکہ سعودیہ امارات سے دور جا کر ہم نے چین قطر اور ترکی کو نزدیک کیا، اور روس کو بھی ، اسے قریب لانے کے لیے ایک طویل عمل کا آغاز ہوا ، اس حوالے سے سب سے بولڈ سٹیپ آصف زرداری نے لیا تھا ۔ خیر سے نئے پرانے یہ سب دوست اب پاکستان میں اقتصادی مفادات رکھتے تھے ۔ سب پر ہی اثر پڑ رہا تھا۔ کہتے ہیں متحدہ عرب امارات کے خصوصی تعاون، سعودیہ کی لاتعلقی اور کسی حد تک امریکی خواہش نے نوازشریف کا حقیقی پانامہ کیا۔

عمران خان حکومت میں آئے تو انہوں نے اپنے بیانات اور عملی اقدامات غیر ضروری حرکتوں سے دوست ملکوں کو پہلےتنگ اور پھر اپنا مخالف ہی کر لیا ۔ ہم نے ایک سال میں جلدی جلدی بلاک بھی بدلے کبھی ایک طرف گئے کبھی دوسری طرف۔ اب سب ہی ناراض ہیں۔

مولانا فضل الرحمن اسلام آباد آئے بیٹھے ہیں ۔ انکے پر امن مارچ نے حکومت کی ساری گیس نکال دی ہے۔ سیاستدانوں کو جب اچھی طرح گھیر کر انہیں دیوار سے لگایا گیا ۔ ان کے لیے کوئی سیاسی راہ کھلی نہ چھوڑی گئی۔ تو ان سیاستدانوں نے پھر سیاست کی ۔ انہوں نے اپنے ایک سیاسی ساتھی کو آگے کر دیا ، جس کے ساتھ سختی سے کوئی معاملہ کرنے کا سوچتے ہول اٹھتے ہیں۔ نرمی نرمی اور بس نرمی کا ہی سوچا جا رہا ہے۔

مولانا اس وقت تک جو حاصل کر چکے ہیں ۔ وہ ان کی جماعت کے لیے اگلے کئی الیکشن میں کام آئے گا۔ مولانا پاکستان کے کسی بھی عہدے کے لیے سامنے آئیں ان کی کوئی مخالفت نہیں ہوگی۔

نواشریف اب علاج کے لیے پاکستان سے باہر جا رہے ہیں۔ نوازشریف بیمار ضرور ہیں ۔ وہ وزیراعظم بننے کے لیے اب بھی پر عزم ہیں۔ وہ مریم نواز کو اپنے ساتھ لے جانا چاہیں گے۔ وہ اپنی بیماری میں بھی سیاسی جنگ خود لڑ رہے ہیں۔

نوازشریف کے حوالے سے ڈیل کی خبریں آئیں گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے نئے دوست ان کے کام آئے ہیں ۔ تین اہم ملکوں نے بار بار ان کے لیے بات کی ہے۔

ترکی نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچانے کے لیے ووٹ دیا ہے۔ کارکے کے ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کا تنازعہ بھی ایسے طے کرایا ہے کہ اب ہمیں کوئی پیسے نہیں دینے۔ یہ دو سو ارب نہ کہیں آئے نہ گئے ۔ لیکن کام ضرور آ گئے ہیں۔ ترک صدر نے حال ہی میں اپنا دورہ پاکستان منسوخ کیا تو ایک طرح سے حکومت نے سکھ کا سانس لیا ۔ ترک صدر نوازشریف سے ملاقات پر مسلسل اصرار کر رہے تھے ۔

نوازشریف اب جب علاج کے لیے باہر جائیں گے ۔ تو وہاں وہ اپنے معاملات سیدھے کرنے کی کوشش کریں گے ۔ شہباز شریف پنڈی کے جتنے مرضی پھیرے لگاتے رہیں ، سفارتی بیرونی معاملات ہینڈل کرنا ان کے بس کی بات نہیں ۔

نوازشریف نے ڈیل نہیں سیاست کی ہے۔ مشکل حالات میں اپنے لیے راستہ بناتے جا رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن اپنا مارچ جاری رکھیں اس کو ملک بھر میں پھیلا دیں یا گھر لے جائیں ۔ اقتصادی حالات اس حکومت کو قدموں پر گرا دیں گے، فروری تک یہ نئی مشکلات میں گھر کے بیٹھی ہوگی ۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوشل میڈیا پر سیاسی شدت پسندی کی لہر
12/11/2019 عدنان خان کاکڑ

کیا آپ نوٹ کر رہے ہیں کہ سال ڈیڑھ سال پہلے سوشل میڈیا پر جو اچھے بھلے سمجھدار افراد معتدل ہوا کرتے تھے وہ سیاسی شدت پسندی کی لہر میں بہہ چکے ہیں؟ ایک لطف انگیز ماحول پر اب ہر طرف نفرت اور انتہا پسندی چھائی دکھائی دینے لگی ہے۔ پہلے موضوعات میں تنوع ہوا کرتا تھا اور اب بیشتر افراد صرف سیاست پر ایک شدت پسند پوزیشن لینے کے بعد خامہ فرسائی کرتے ہیں؟ کیا ہمیں اپنے اس رویے کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا سیاست کے علاوہ زندگی میں اور کچھ نہیں رکھا ہے؟

ہمارا ووٹ جمہوری حکمران لانے میں ایک چھوٹا سا کردار تو ادا کرتا ہے لیکن خواہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہو یا نون لیگ کی یا تحریک انصاف کی، حکومت بنانا یا گرانا محض ہمارے ووٹ کی قوت سے نہیں ہوتا۔ کبھی آپریشن مڈ نائٹ جیکال ہو جاتا ہے، کبھی آئی جے آئی بن جاتی ہے تو کبھی پاناما کا اقامہ ہو جاتا ہے۔ پچاس ساٹھ الیکٹ ایبل اچانک اپنا قبلہ بدل لیتے ہیں اور حکومت اچانک کسی دوسری پارٹی کی بن جاتی ہے۔

اس لئے اس معاملے میں اپنا خون جلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

عوام کو معاشی حوالے سے جتنا نچوڑ دیا گیا ہے اس کے بعد جلد ریلیف نہ دی گئی تو اس حکومت کا زیادہ مدت چلنا ممکن نہیں ہے۔ اگر معیشت جامد ہو تو محض ٹیکس یا بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ملک چلانا ناممکن ہوتا ہے۔ عوام کے لئے زندہ رہنا مشکل ہو جائے اور ان کا معیار زندگی گرتا رہے تو رد عمل آتا ہی ہے اور ایسے ردعمل کا سامنا کرنا کسی ظاہری یا باطنی ڈکٹیٹر کے لئے بھی آسان نہیں ہوتا۔

اس لئے سکون کریں۔ ہم اس سیاسی سٹیج پر محض تماشائی ہیں جس پر اداکار اپنے ڈائلاگ ادا کر رہے ہیں اور ہدایت کار پس پردہ موجود ہیں۔

سٹیج ڈرامے کے تماشائی آپس میں لڑتے اچھے نہیں لگتے۔ انہیں ڈرامے سے خود بھی لطف اندوز ہونا چاہیے اور باقیوں کو بھی اپنے اپنے پسندیدہ اداکار سے اٹیچ ہو کر لطف اندوز یا غمزدہ ہونے دیں۔ ہمیں کوئی لیڈر شدید ناپسند ہو سکتا ہے مگر اس کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد کے احترام میں ہمیں اس کے بارے میں مہذب رویہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔

ہنس کھیل کر وقت گزاریں۔ ہمارے لڑنے بھڑنے جلنے کڑھنے سے نہ نواز شریف نے ملک سے باہر جانا ہے اور نہ وہ مشہور 14 یا 200 ارب ڈالر دینے ہیں اور نہ ہی پاکستان نے نئی ریاست مدینہ بن جانا ہے۔ ہم بے حیثیت لوگ ہیں۔

اپنی پارٹی اور لیڈر پر جگت لگے تو جگت لگانے والے سے مل کر ہنسیں۔ مخالف پارٹی یا لیڈر پر اچھا فقرہ چست کریں تو مزید ہنسیں۔ مخالف لیڈر یا اس کے حامی کی توہین سے گریز کریں۔ ایک مہذب پھبتی ایک گالی سے کہیں زیادہ تاثیر رکھتی ہے اور ماحول بھی مکدر نہیں ہوتا۔
اور یاد رکھیں کہ انسانیت، سیاست پر مقدم ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جمہوریت مررہی ہے؟
رؤف کلاسرا
آج کل ہمارے دوست اکبر چوہدری ورجینیا‘ امریکہ سے آئے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں ان کا ڈیرہ عامر متین کے گھر ہوتا ہے‘ وہیں محفلیں جمتی ہیں۔ اکبر چوہدری شاندار آدمی ہیں‘ عمران خان کے کینسر ہسپتال کے لیے انہوں نے بہت چندہ اکٹھا کیا تھا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد لوگ پاکستان میں ایسے کاموں کے لیے عطیات دینے سے ڈرتے تھے تو انہوں نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے سینیٹر الگور سے دو تین ہزار ڈالرز کا عطیہ لیا اور وہ اس کی کاپیاں لوگوں کو دکھا کر پیسے اکٹھے کرتے تھے‘ تاکہ ان کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔
عامر متین بتانے لگے کہ پچھلے دنوں کانگریس میں کشمیر پر جو سماعت ہوئی ‘ اس میں اکبر چوہدری اور دیگر نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس محفل میں نظام الدین مہمند بھی موجود تھے‘ جو امریکہ میں ڈاکٹر ہیں اور اب اسلام آباد شفٹ ہورہے ہیں۔ اچانک ڈاکٹر نظام نے پوچھ لیا کہ کیا بات ہے ‘پاکستانی میڈیا نے کشمیر ایشو پر کانگریس میں ہونے والی سماعت کو اہمیت نہیں دی؟ میں نے کہا :آپ نے بڑا مشکل سوال پوچھ لیا ہے‘ دنیا بھر میں میٖڈیا کے لیے کام کرنا مشکل ہورہا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ وجہ کیا ہے؟ میرا جواب تھا کہ میڈیا اس وقت دنیا کے پاپولر لیڈروں کے ہاتھوں مشکل کا شکار ہے‘ پچھلے دنوں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں انہی خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ دنیا میں جمہوریت مررہی ہے اور پاپولر لیڈر جمہوریت کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ عوام ان لیڈروں کے رومانس میں پڑ کر شدید استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسے لیڈرز خود کو کسی کے آگے جواب دہ نہیں سمجھتے‘ جس کے باعث جمہوریت کمزور ہوکر مررہی ہے۔ میں نے بات جاری رکھی: یہی دیکھ لیں اس وقت دنیا پر تین پاپولر لیڈر حکمرانی کررہے ہیں اور وہ میڈیا کو پسند نہیں کرتے۔ تینوں کی کوشش ہے کہ پورے معاشرے اور میڈیا کو کنٹرول کیا جائے۔ امریکہ میں دیکھ لیں‘ وہاں ٹرمپ اور میڈیا میں لڑائی چل رہی ہے اور لڑائی کی وجہ ٹرمپ کا وہ پہلا ایگزیکٹو آرڈر تھا جس کے تحت چھ مسلمان ملکوں سے لوگ امریکہ نہیں آسکتے تھے‘ کیونکہ یہ امریکن رائٹ ونگ کا ایجنڈا تھا۔ میڈیا سمجھتا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کو کمزور کررہے ہیں اور امریکہ کا جو کلچر رہا ہے ان روایتوں کے خلاف کام ہورہا ہے ۔ ٹرمپ کو تین سال ہو چکے ہیں اور ہر روز ٹرمپ یا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف لکھ یا بول رہے ہوتے ہیں‘ لیکن امریکہ میں ادارے بہت مضبوط ہیںاس لیے ٹرمپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ دوسری طرف آپ بھارت کو دیکھ لیں جہاں میڈیا اور معاشرے کو مودی حکومت نے کنٹرول کر لیا ہے۔ بھارت کے نوبل انعام یافتہ امرتا سین نے لکھا کہ اس کے دوست جب بھارت سے اسے امریکہ فون کرتے ہیں تو وہ مودی حکومت کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا‘ لیکن اچانک سب کی آوازوں میں خوف ابھر آیا ہے۔ سب ڈرتے ہیں کہ حکومت کو پتہ چل گیا کہ وہ اس کے خلاف رائے کا اظہار کررہے ہیں تو کارروائی ہوگی۔ امرتا سین کا کہنا ہے کہ یہ بہت خطرناک ٹرینڈ ہے‘ جب لوگ آپ سے ڈر کے مارے بات نہیں کرتے۔
مودی حکومت نے اپنی پارٹی کے ہندوتوا نعرے کی بنیاد پر جس بھارتی معاشرے کی بنیاد رکھی ہے اس کو حکومت سے بہت سپورٹ ملی ہے‘اوپر سے مودی حکومت نے سوشل میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بھارت میں میڈیا اور لبرل آوازوں کو کنٹرول کرنے کا ایک ہی طریقہ نکالا گیا کہ جو بھی مودی یا حکومت کے خلاف بات کرے اس پر سوشل میٖڈیا کی ٹیمیں چڑھ دوڑتی ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ بھارت میں ان لوگوں کے خلاف سو سے زائد مقدمے درج کر کے وارنٹ جاری ہوئے جنہوں نے مودی کو خط لکھا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں پر ہونے وا لے حملوں پر انہیں تشویش ہے۔ اس پر ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا کہ ان مشہور لوگوں نے وہ خط لکھ کر بھارت کو بدنام کیا ‘ کیونکہ وہ خط عالمی اخباروں میں بھی چھپا۔ بھارت میں یہ تبدیلی اچانک آئی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں آپ کو صاف نظر آئے گا کہ عدالتوں سے لے کر میڈیا اور معاشرے تک‘ سب پر مودی حکومت نے اپنا کنٹرول کر لیا ہے۔ بھارت میں اپوزیشن بھی ایسے ختم ہوچکی ہے جیسے پاکستان میں اب اس کا وجود نظر نہیں آتا اور یہ بات کسی بھی جمہوریت کے لیے بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ اب یہ خوفناک رجحا نات پاکستان میں بھی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ عمران خان میڈیا کی طاقت کی بنیاد پر ابھرے تھے‘لیکن انہیں بھی میڈیا اسی طرح برا لگتا ہے جیسے دنیا کے دیگر ملکوں میں وہاں کے لیڈروں کو۔ عمران خان صاحب نے پہلے دن ہی میڈیا کے خلاف محاذ کھول لیا تھا ۔ مبینہ طور پر ان کی حکومت اور پارٹی سوشل میڈیا کو ہتھیار کے طور پر مخالفین کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت اور وزیروں کی کرپشن پر کوئی بات نہ کرے‘ سوال نہ کرے‘ اور جو کرے گا اس کی خیر نہیں۔ پاکستان میں اس بات کا نوٹس نہیں لیا گیا کہ عمران خان بار بار امریکہ اور چین میں کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس اگر وہ طاقت ہوجو چینی لیڈروں کے پاس ہے تو وہ پاکستان کی تقدیر بدل دیں‘ مطلب یہ تھا کہ انہیں میڈیا ‘ عدالتیں‘ پارلیمنٹ اور معاشرے کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسے اختیارات چاہئیں ‘جس کے بعد ہر کوئی انہیں جواب دہ ہو‘ لیکن وہ کسی کو جواب دہ نہ ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب وزیراعظم صاحب سے ہم صحافیوں اور اینکرز کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے باقاعدہ نام لے کر کہا کہ اگر عامر متین‘ رئوف کلاسرا اور محمد مالک ان کی حکومت پر تنقید نہ کریں تو معیشت ٹھیک ہوجائے گی ۔ ہم حیرت سے تکتے رہ گئے کہ اگر میڈیا ان کی حکومت کی غلطیاں نہ نکالے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
یہ بات طے ہے کہ پاپولر لیڈرشپ اداروں اور ان کے کردار پر یقین نہیں رکھتی‘ چاہے وہ امریکہ ہو‘ بھارت یا پاکستان۔ ان سب کے مزاج ایک جیسے ہیں۔ حکمران سمجھ لیتا ہے کہ اسے لوگوںنے ووٹ دے کر کامیاب کیا ہے اور اب اس کے پاس مینڈیٹ ہے کہ وہ جو چاہے کر گزرے ‘اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی سوال پوچھا جائے گا ۔ پاکستان میں یہ رجحانات غیرمحسوس انداز میں اسی طرح شروع ہورہے ہیں جیسے بھارت میں۔ وہاں بھی جب اس طرح کے واقعات شروع ہوئے اور ہم نے بھارتی دوستوں کو یہ کہنا شروع کیا کہ ان کا معاشرہ اور جمہوریت کسی اور طرف چل پڑے ہیں تو بھارتی دوست ہمارا مذاق اڑاتے اور کہتے تھے کہ گاندھی جی اور نہرو کا اتنا اثر ہے کہ ہندوستان میں ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔یہ زیادہ عرصے کی بات نہیں۔ میں نے اپنے ٹی وی پروگرامز میں بھی دو سال پہلے کہا تھا کہ بھارت کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی‘ کیونکہ مودی جی خود بھارتی جمہوریت اور معاشرے کے بڑے دشمن بن کر ابھریں گے۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ دو سال کے اندر اندر یہ سب کچھ ہو جائے گا مگر آج دنیا بھر کا میڈیا بھارت کے بارے میں جو رپورٹس اور تبصرے شائع کررہا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔ ایک مغربی کالم نگار کو پڑھ رہا تھا جس نے لکھا تھا کہ حیرانی ہوتی ہے کہ ہم بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھتے رہے اور وہاں تو اب لوگ بات کرتے ڈرتے ہیں۔
شاید آپ کو لگے کہ میں زیادہ ردعمل دے رہا ہوں ‘لیکن پاکستان میں وہ نشان دھیرے دھیرے ابھرنا شروع ہورہے ہیں کہ حکمران یا پارٹی کے سیاسی لیڈروں پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ لوگوں کے ذہنوں میںیہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ ان کا لیڈر بہت مہان چیز ہے جو غلط کام کرہی نہیں سکتا‘ لہٰذا جو اس پر تنقید کرتے ہیں وہ سزا کے قابل ہیں۔ ایک عام حکمران کو ایک مہاتما بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مقصد بادشاہوں ‘ راجوں‘ مہاراجوں اور شہزادوں کے دور سے نکل کر عام انسان کو یہ حق دینا تھا کہ ان کے حکمران انہیں جواب دہ ہوں گے‘ لیکن جمہوریت کا یہ نیا خوفناک روپ وہی پرانا دور واپس لا رہا ہے جب رعایا کو بادشاہ سے سوال کرنے یا تنقید کا حق نہیں تھا‘ کہ جو کرے گا اسے لٹکا دیا جائے گا۔
کسی نے درست لکھا تھا کہ ہر دور کے اپنے اپنے فاشسٹ اور فاشزم ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نیب کا اسحاق ڈار سے 50 کروڑ روپے نقد اور جائیداد کی ریکوری کا دعویٰ


قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے 50 کروڑ روپے کی نقد رقم اور جائیداد کی ریکوری کا دعویٰ کیا ہے۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب لاہور آفس کا دورہ کیا جہاں ڈی جی نین لاہور شہزاد سلیم نے انہیں میگا کرپشن کے مقدمات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

اس موقع پر چیئرمین نیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ نیب لاہور نے اسحاق ڈار کے بینک اکاؤنٹس سے 50 کروڑ روپے کی رقم برآمد کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی ہے اور اس کے ساتھ لاہور گلبرگ میں اسحاق ڈار کا کروڑوں روپے مالیت کا چار کنال کا گھر بھی پنجاب حکومت کے حوالے کیا جارہا ہے۔

چیئرمین نیب نے بتایا کہ گھر فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم حکومت کے خزانے ميں جمع کرائی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب پاور ڈیویلپمنٹ کے سابق چیف فنانشل آفیسر اکرام نوید سے ایک ارب روپے کی جائیدادیں برآمد کرکے پنجاب حکومت اور ایرا حکام کے حوالے کردی گئيں ہیں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب افسران کی وابستگی کسی سیاسی جماعت، گروہ یا فرد سے نہیں، ان کا مقصد صرف اور صرف ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہے، میگا کرپشن کے مقدمات کی تحقیقات میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نیب کسی کا چہرہ نہیں کیس دیکھ کر اپنی تحقیقات کا قانون اور شواہد کی بنیاد پر آغاز کرتا ہے، جن کیسز میں شہادتیں موجود ہیں وہاں ٹھوس اورمضبوط کیس بنائے جائیں، نیب افسران کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فرائض آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر انجام دیں، چند ماہ میں نیب نے 71 ارب کی خطیر رقم قومی خزانےمیں جمع کرائی جس میں بڑا کردار نیب لاہور کا ہے۔

نیب لاہور کے ڈی جی شہزاد سلیم نے چیئرمین نیب کو شہبازشریف، حمزہ شہباز، سلمان شہباز و دیگرکیخلاف مبینہ منی لانڈرنگ و آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی تحقیقات پربریفنگ دی۔

اس کے علاوہ چوہدری شوگر ملز کیس میں ملزم نوازشریف، مریم نواز، ملزم یوسف عباس اور ملزم عبدالعزیز کیخلاف مبینہ منی لانڈرنگ کی انکوائری پر بریفنگ دی گئی۔

پنجاب پاورڈویلپمنٹ کمپنی کیس میں ملزم اکرام نوید کیخلاف مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی تحقیقات پر بھی چیئرمین نیب کو بریفنگ دی گئی۔

اس موقع پر چیئرمین نیب نے ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی سربراہی میں نیب لاہورکی کارکردگی کوسراہا۔

اسحاق ڈار کیس کا پسِ منظر
واضح رہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کر رکھا ہے جس میں انہیں مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا کیس احتساب عدالت میں چل رہا ہے اور وہ کئی پیشیوں پر احتساب عدالت میں پیش بھی ہوئے تاہم وہ نومبر 2017ء میں علاج کی غرض سے لندن گئے تھے اور اس کے بعد سے وطن واپس نہیں آئے۔

نیب نے اسحاق ڈار کو انٹرپول کی مدد سے وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ سپریم کورٹ نے بھی انہیں 8 مئی 2018 کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا تاہم ان کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ بیماری کے باعث اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔

اس کے علاوہ اسحاق ڈار کے خلاف پارک اکھاڑ کر رہائش گاہ کے لیے سڑک بنانے کا کیس بھی چل رہا ہے اور اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے ایل ڈی اے حکام کو پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

سابق وزیر خزانہ کو وطن واپس لانے کے لیے ایف آئی اے کی جانب سے ریڈ وارنٹ جاری کرتےہوئے انٹرپول کو درخواست دی گئی تھی تاہم 7 نومبر کو انٹرپول نے حکومت پاکستان کی درخواست پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گرفتاری کیلئے ریڈ نوٹس جاری کرنے سے انکار کردیا اور انہیں کلین چٹ دیتے ہوئے ڈیٹا حذف کرنےکی ہدایت کردی۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف فیصلہ کریں: عمران خان کو گرانا ہے یا جمہوریت کو بچانا؟
18/11/2019 سید مجاہد علی



جو بات اس وقت ہر زبان پر آچکی ہے اس کا اندیشہ بہت دیر سے محسوس کیا جارہا تھاکہ تحریک انصاف کی حکومت قومی اہداف پورے کرنے میں ناکام ہے اور اس نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سیاسی مناقشت اور تصادم کا ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت، سماجی و سیاسی رویے اور اہم قومی مسائل نظرانداز ہوئے ہیں۔

اس سیاسی صورت حال میں موجودہ حکومت کو بوجھ اور عمران خان کو ایک جذباتی اور غیر مؤثر لیڈر سمجھا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں موجودہ حکومت کی تبدیلی کی بات کوٹھوں چڑھ چکی ہے۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا کہ اس حکومت کو جانا ہے تاہم اس کی روانگی کے طریقہ اور وقت کے بارے میں اختلاف رائے موجود ہے۔ یہ صورت حال ملک میں جمہوریت کے منصوبے اور سیاسی استحکام کے لئے بری خبر ہے۔ اگرچہ اس کی ذمہ داری عمران خان اور تحریک انصاف پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن انہیں ’سزا‘ دے کر نہ تو ووٹ کی توقیر میں اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ملکی سیاست سے تصادم کا خاتمہ ہوگا جو بظاہر تمام موجودہ مسائل کی جڑ ہے۔

عمران خان نے جس طرح اقتدار میں رہتے ہوئے سیاسی دشمنی کو انجام تک پہنچانے کے ایجنڈے کو ہی اہم سمجھا ہے، وہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بھی اپنے اس مقصد کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ بلکہ شاید وہ زیادہ خرابی کا سبب بنیں گے۔ ان کے سیاسی عزائم اور ہتھکنڈوں کے بارے میں غلط فہمی میں رہنا درست نہیں ہوگا ۔ یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ ان کا ایک قابل ذکر ووٹ بنک موجود ہے اور حکومت کی ناکامیوں کے باوجود وہ بدستور اپنے لیڈر کی حمایت کرتا ہے۔ لہذا اس حکومت کو کسی مصنوعی طریقے سے ہٹانے کا کوئی بھی عمل دراصل عمران خان کی سیاسی اپیل میں اضافہ کرے گا۔ شاید یہی وہ پہلو ہے جو کسی فوری تبدیلی کے راستے کا پتھر بنا ہؤا ہے۔

حکومت کی تبدیلی کے جو دو طریقے قابل عمل ہوسکتے ہیں، ان میں پہلا ان ہاؤس تبدیلی کا منصوبہ ہے۔ کسی پارلیمانی جمہوری نظام میں یہ طریقہ اختیار کرنا کوئی معیوب بات نہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاست اصولوں یا منشور کی بجائے ذاتیات اور گروہی مفادات کے لئے کی جاتی ہو ، وہاں ان ہاؤس تبدیلی کو جمہوری روایت کی سربلندی سمجھنا بھی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ اندیشہ ہے کہ یہ طریقہ اسی وقت کامیاب ہوسکے گا جب نام نہاد ’مقتدر حلقے‘ عمران خان کی حکومت کو اتنا بڑا بوجھ سمجھنے لگیں گے کہ ان کی تبدیلی کو ناگزیر قرار دیا جائے۔ ایسی صورت میں محض عمران دشمنی کی بنیاد پر ایسی کسی تبدیلی کی حمایت درحقیقت سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی حیثیت کو تسلیم اور قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔

پارلیمنٹ کے اندر ممکنہ تبدیلی کی خبریں اس وقت عمران خان کے حامی اینکر اور رپورٹر سامنے لارہے ہیں۔ اس حوالے سے شہباز شریف کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین کے کردار کو اہمیت دی جارہی ہے۔ شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کا نظریاتی مخالف سمجھا جاتا ہے۔ نواز شریف ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگا کر یہ مطالبہ سامنے لائے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائیندوں کوبااختیار بنایا جائے اور پارلیمنٹ کو خود مختاری سے کام کرنے کا موقع ملے تاکہ سیاسی عمل اور انتظامی فیصلوں میں غیر منتخب اداروں کا کردار آئین کی مقرر کردہ حدود میں ہی رہے۔ ملک میں جمہوریت کے احیا کے لئے ، یہ اہم ترین مؤقف ہے۔ اس مؤقف کو کسی حد تک عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے حوالے سے بھی ایک مضبوط رائے سامنے آئی ہے۔ یقیناً عسکری حلقے بھی اس صورت حال کا نوٹس لے رہے ہوں گے کیوں کہ کوئی بھی ادارہ عوام کی رائے کو مسترد کرکے تادیر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔

تاہم مسلم لیگ(ن) اپنے قائد نواز شریف کی قیادت میں ’متحد‘ ہونے کے باوجود بطور جماعت ان کے راستے پر چلنے سے خائف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک چونکہ نواز شریف کا مرہون منت ہے لہذا ان کی رائے کے خلاف پارٹی میں کوئی باغیانہ آواز تو سامنے نہیں آئی لیکن پارٹی لیڈر تصادم سے گریز کی پالیسی کا مشورہ دے کر مسلم لیگ (ن) کو بے عمل بنانے اور غیر مؤثر کرنے میں کردار ادار کرتے رہے ہیں۔ اس رائے کی قیادت نواز شریف ہی کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کر رہے ہیں جو طاقتور حلقوں کے ساتھ ’مل جل کر کام کرنے‘ کی پالیسی کو ہی سب سے مناسب طریقہ سمجھتے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے سیاسی مؤقف میں اس بُعد کے باوجود ابھی تک وہ دونوں ایک ہی سیاسی مقصد کے لئے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

نواز شریف بوجوہ، جن میں ان کی نااہلی کے علاوہ گرفتاری اور قید کی صورت حال بھی شامل ہے، پارٹی کی ان مقاصد کے لئے واضح رہنمائی نہیں کر سکے جن کی وجہ سے ان کے خیال میں انہیں موجودہ مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی اسی تصویر کا ہی ایک رخ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ملنے والے موجودہ عدالتی ریلیف کو شہباز شریف کی معجز نمائی قرار دیا جاتا ہے۔ سلمان شہباز نے طاقت ور حلقوں سے اپنے والد کے مراسم کے حوالے سے ایک ٹوئٹ پیغام کرکے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ مشکل میں ڈالا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ اس ٹوئٹ کی وجہ سے ہی عمران خان نے اس معااملہ کو لٹکانے کا فیصلہ کیا اور سات ارب روپے سے زائد رقم کے بانڈ دینے کی شرط عائد کی گئی۔

عمران خان کی حکومت گرانے کا دوسرا طریقہ براہ راست فوجی مداخلت کا آپشن ہے۔ پاکستان کو معاشی، سفارتی اور سیاسی لحاظ سے جن مشکلات کا سامنا ہے، ان کے ہوتے یہ امکان نہیں کہ فوج براہ راست مداخلت کا آپشن استعمال کرے گی۔ خاص طور سے جب وہ سیاسی ڈوریاں ہلا کر مطلوبہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ تاہم ماضی کی افسوسناک تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اس آپشن کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کے حامی بھی ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں جن کی وجہ سے فوج مداخلت پر مجبور ہو جائے۔ اسے ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں آئینی نظام کی خواہش کرتے ہوئے بھی غیر آئینی طریقے کا خوف ہر کس و ناکس پر طاری رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیاں اور لیڈر بوقت ضرورت خاص سیاسی ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے غیرآئینی ہتھکنڈوں کو درست سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں۔ ملک کی سیاسی قوتیں حقیقی آئینی انتظام پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی پارٹی کوئی بھی ’مفاہمت‘ کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔

یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ اگر عمران خان کو ان ہاؤس تبدیلی کا اندیشہ محسوس ہؤا تو وہ اسمبلیاں توڑ کر نیا الیکشن کروانے کی کوشش کریں گے۔ یہ طریقہ جمہوری کہا جاسکتا ہے لیکن عمران خان بمشکل یہ طریقہ اختیار کریں گے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نئے انتخاب میں ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کو ایسے سنہرے خواب دکھا دیے جائیں کہ وہ اس انتہائی اقدام کی طرف پیش قدمی کو ہی اپنے لئے سیاسی بقا کا واحد راستہ سمجھیں۔ اس صورت میں جو بھی تبدیلی رونما ہو ، اس میں ہارنے والا فریق بہر حال ناخوش رہے گا اور احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس طرح جمہوریت اور ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیل کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ملک کی سیاسی طاقتیں اگر عوام دوستی کے دعوے میں دیانت دار ہیں اور ملک میں واقعی آئینی طریقہ حکومت کو ہی واحد راستہ کے طور پر قبول کرنے کی خواہش توانا ہوئی ہے تو اس میں عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی ان ہاؤس تبدیلی یا دوسری طرح کی سازش یا کوشش کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ خاص طور سے نواز شریف پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عوامی حکمرانی کے نظریہ کی لاج رکھنے کے لئے یہ واضح کریں کہ ووٹ کو عزت دو کا مطلب عمران خان کی حکومت گرانا نہیں ہے بلکہ کسی بھی منتخب پارٹی کو اپنی مدت پوری کرنے اور اپنے منشور کے مطابق تبدیلیاں کرنے کے حق کو یقینی بنانا ہے۔

نواز شریف کے لئے عمران خان کے حق حکمرانی کی تائiد کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن تیس سالہ سیاست کے بعد انہوں نے ووٹ کو اہمیت دینے اور جمہوری انتظام میں اداروں کی عدم مداخلت کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کی روشنی میں انہیں عمران خان کے رویہ اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود موجودہ حکومت کو غیر جمہوری طریقوں سے ختم کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کرنا ہوگا۔ انہوں نے اگر شہباز شریف کے ’نظریہ ضرورت‘ کے مطابق ایک بار پھر وقتی سیاسی فائدے کے لئے کسی سطح پر مصالحت کا کوئی راستہ قبول کیا تو وہ ملک میں جمہوری انقلاب برپا کرنے کا نادر موقع گنوا بیٹھیں گے۔

مستقبل کے پاکستان میں ووٹ ہی کو فیصلہ کن قوت قرار دلوانے کے لئے آج تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو روکنا اہم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں نواز شریف کے علاوہ کوئی سیاسی شخصیت یا قوت یہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ نواز شریف کے لئے ایک سخت گیر سیاسی مخالف کے زوال میں حصہ دار بننا اہم ہے یا وہ واقعی اپنے جمہوری نظریے پر قائم رہیں گے خواہ اس کے لئے انہیں عمران خان جیسے ناکام اور منتقم مزاج شخص کو ہی وزیر اعظم کیوں نہ ماننا پڑے۔ عمران خان کو گرانے اور جمہوریت کو بچانے کے دو بظاہر لازم و ملزوم اقدامات میں جمہوری اصولوں کی دیوار حائل ہو گئی ہے اور یہ وہی اصول ہیں جن کی بالادستی کا پرچم اٹھا کر نواز شریف جی ٹی روڈ پر نکلے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مستقبل کے پاکستان میں ووٹ ہی کو فیصلہ کن قوت قرار دلوانے کے لئے آج تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو روکنا اہم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں نواز شریف کے علاوہ کوئی سیاسی شخصیت یا قوت یہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ نواز شریف کے لئے ایک سخت گیر سیاسی مخالف کے زوال میں حصہ دار بننا اہم ہے یا وہ واقعی اپنے جمہوری نظریے پر قائم رہیں گے خواہ اس کے لئے انہیں عمران خان جیسے ناکام اور منتقم مزاج شخص کو ہی وزیر اعظم کیوں نہ ماننا پڑے۔ عمران خان کو گرانے اور جمہوریت کو بچانے کے دو بظاہر لازم و ملزوم اقدامات میں جمہوری اصولوں کی دیوار حائل ہو گئی ہے اور یہ وہی اصول ہیں جن کی بالادستی کا پرچم اٹھا کر نواز شریف جی ٹی روڈ پر نکلے تھے۔
بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔
 

جاسم محمد

محفلین
بلی اور کبوتر کا کھیل شروع ہو گیا ہے
17/11/2019 رؤف کلاسرا

حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ شاید عمران خان صاحب کو بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ ان کے ہاتھ سے معاملات نکل سکتے ہیں۔ ابھی صحافیوں اور اینکرز سے ان کی جو آخری ملاقات ہوئی تھی اس میں وہ بڑے اعتماد سے بتا رہے تھے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ ہورہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم ایک ہی پیج پر ہیں۔ اگرچہ کچھ صحافیوں کا یہ خیال ہے کہ جب سے پاکستان جیسے ملک میں یہ معجزہ رونما ہوا ہے اس سے ہوسکتا ہے یہ دو ادارے فائدے میں رہے ہوں ’لیکن باقی اداروں کو بہت جھٹکے لگے ہیں۔

سب سے بڑا جھٹکا پارلیمنٹ اور میڈیا کو لگا ہے۔ پہلے دن سے ہی حکمران جماعت نے پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے لینا بند کردیا اور میڈیا پر بھی چڑھائی شروع کر دی۔ حکمران جماعت کا خیال ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ ہے تو پھر آپ کو پارلیمنٹ اور میڈیا کی فکر کی ضرورت نہیں ہے‘ اسی لیے عمران خان پارلیمنٹ میں آپ کو نظر نہیں آتے۔ اپوزیشن نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور وہ جو چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ آپ کو بیکار لگے ’وہی کچھ ہورہا ہے۔

پارلیمنٹ میں اب کچھ کرنے اور دیکھنے کو نہیں رہ گیا۔ حکومت کو اس کی پروا نہیں رہی۔ ہاں اس وقت بہت پروا شروع ہوگئی جب خواجہ آصف‘ جو کچھ عرصے سے خاموشی سے وقت گزار رہے تھے ’اچانک قومی اسمبلی میں گرجے اور خوب گرجے۔ انہوں نے جس انداز سے تقریر کی اس کے بعد کسی کو شک نہ رہا کہ معاملات عمران خان صاحب کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور بعض اہم باتیں بالا بالا طے ہوچکی ہیں‘ جن کا عمران خان کو علم نہیں ہے۔ اس لیے عمران خان اور ان کے وزیر بھی فورا ًچونکے کہ وہ کیا بات ہے ’جس کا انہیں علم نہیں ہے‘ جبکہ خواجہ آصف کو علم ہے ’لہٰذا اور کچھ سمجھ نہ آیا تو عمران خان نے فورا ًنواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں کچھ ایسی شرائط ڈال دیں جن سے فوری طور پر نواز کیمپ کو جھٹکے لگے‘ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سب کچھ طے ہوچکا تھا ’لہٰذا نواز شریف کو بیرون ملک جانے سے نہیں روکا جاسکے گا۔

لیکن اس دفعہ عمران خان بھی تل گئے کہ نہیں کچھ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اب بھی ملک کے وزیراعظم ہیں‘ یوں نواز شریف کی روانگی رک گئی اور اس پر یقینا خواجہ آصف اور سلمان شہباز کا قصور لگتا ہے ’جو اپنی خوشی نہ چھپا سکے اور سب کچھ اُگل دیا۔ اس لیے خواجہ آصف اگلے روز پارلیمنٹ میں نئے انداز میں نواز شریف کی روانگی کی بھیک مانگ رہے تھے۔

خواجہ آصف اور عمران خان کا معاملہ بہت پرانا ہے اور دشمنی تقریباً ذاتی ہوچکی ہے۔ عمران خان نے خواجہ آصف کے خلاف کابینہ میں ان کے دبئی میں ماہنامہ پندرہ لاکھ روپے پر نوکری کرنے کے معاملے کو نہ صرف اٹھایا بلکہ ایف آئی اے کو کیس بھیجا۔ یہیں بس نہ کی بلکہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو بلا کر دو تین دفعہ کہا گیا کہ وہ خواجہ آصف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کریں ’تاہم بشیر میمن نے انکار کر دیا‘ جس پر انہیں زبردستی چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ اس لیے جب خواجہ آصف کو اندر کی خبر کا پتہ چلا کہ معاملات طے ہوگئے ہیں تو وہ اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے سب باتیں تقریباً کھول کر اپنی تقریر میں کر دیں جس سے سب ہنگامہ شروع ہوا اور اب تک تھمنے میں نہیں آرہا۔

اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو پرویز الٰہی نے درمیان میں اچانک انٹری ماری اور عمران خان کو واضح پیغام دیا کہ وہ نواز شریف کی روانگی میں مشکلات کھڑی نہ کریں ورنہ نواز شریف کو کچھ ہوگیا تو ساری عمر وہ بھگتیں گے۔ اب یہ بھی سب کو پتہ ہے کہ چوہدری صاحبان بغیر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے میدان میں نہیں اترتے۔ وہ سمجھدار لوگ آرام سے اپنی باری اور اپنے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ اب انہیں احساس ہوا ہے کہ وقت ہے ’مولانا کے دھرنے کا فائدہ اٹھایا جائے اور عمران خان جو انہیں ڈیرہ سال سے گھاس نہیں ڈال رہے تھے‘ انہیں اپنا اصل سیاسی رنگ دکھایا جائے۔

مولانا کے دھرنے بارے جو پہلے کئی شکوک تھے کہ اسے کچھ اہم لوگوں کی حمایت حاصل ہے وہ شک اب یقین میں بدلتے جارہے ہیں کیونکہ عمران خان کے بارے بتایا جارہا ہے کہ وہ نواز شریف کے معاملے پر اپنے دوستوں کی بات نہیں مان رہے تھے لہٰذا انہیں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس لیے چوہدری صاحبان کا رول اہم حیثیت اختیار کر گیا۔ اگرچہ چوہدریوں اور عمران خان کے تعلقات بیس برس سے کبھی اچھے نہیں رہے ’لیکن حکومت میں رہتے ہوئے بھی وہ تعلقات بہتر نہ ہوسکے جس کے کچھ مناظر ہمیں نظر آرہے ہیں۔

پرویز الٰہی اب تک ارشد شریف، ندیم ملک اور سلیم صافی کو انٹرویوز دے چکے ہیں جن میں وہ عمران خان کے لیے بڑے بڑے اشارے اور پیغام چھوڑ رہے ہیں۔ ان کا جھکاؤ واضح طور پر نواز شریف کیمپ کی طرف ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک سمجھدار اور اچھا سیاستدان بنا کر پیش کررہے ہیں۔ پرویز الٰہی کیمپ کو عمران خان پر یقینا غصہ ہے‘ وہ ان کے برخوردارر مونس الٰہی کو وزیر بنانے پر تیار نہیں ہوئے۔ عمران خان کو ایک ہی اعتماد تھا کہ جن لوگوں نے چوہدریوں کو ان کے ساتھ ملایا ہے وہی انہیں ملائے رکھیں گے اور انہیں یہ اعتماد تھا کہ وہ طاقتیں ان کے ساتھ کھڑی ہیں ’لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔

عمران خان کو اندازہ نہ تھا کہ جو اس کے سب سے بڑے حامی ہیں ان کا اعتماد بھی عمران خان سے ختم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ یوں پہلے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی جھلک کرائی گئی تو ساتھ ہی چوہدری پرویز الٰہی کو اچانک سامنے لایا گیا کہ وہ عمران خان کوسیاست کی نزاکتیں سمجھائیں اور اب دھیرے دھیرے عمران خان کے سب سیاسی حلیف بھی نواز شریف کی روانگی پر یک زبان ہوتے جارہے ہیں۔ چوہدریوں اور شریفوں کو قریب لایا جارہا ہے۔

اس دوران میں وزیر اعظم عمران خان سے آرمی چیف کی ملاقات ہوئی جس کی تصویروں سے صاف لگ رہا ہے کہ معاملات کچھ گمبھیر ہیں‘ جن پر دونوں کو گفتگو کرنی ہے۔ امتیاز گل بہت اہم صحافی ہیں ’انہوں نے جو اس ملاقات پر ٹوئٹ کیا ہے اس میں انہوں نے واضح لکھا ہے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف میں ملاقات کا صرف ایک ہی ایجنڈا تھا اور وہ تھا نواز شریف کی بیرون ملک روانگی۔ اب جو کچھ لاہور ہائی کورٹ میں ہفتے کے روز ہوا اور جس طرح وفاقی حکومت اپنے پرانے موقف میں تبدیلی لانے پر راضی ہوئی اس سے صاف لگ رہا ہے کہ امتیاز گل کی خبر درست ہے اور عمران خان کو سمجھایا گیا ہے کہ کوئی ایسی ضد نہ کی جائے جس کی قیمت بعد میں سب کے لیے ادا کرنی مشکل ہوجائے۔ اب اس دوران یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد وزیراعظم دو دن کی چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نارمل چھٹی پر ہوں‘ لیکن جس طرح کے حالات میں وہ چھٹی پر جارہے ہیں اس کے بعد یقینا سوالات ذہنوں میں اٹھیں گے۔

بہرحال حکومت میں اٹھنے والے اس نئے بحران کا سب سے بڑا فائدہ شریف خاندان اور چوہدری پرویز الٰہی اٹھانے کے موڈ میں لگ رہے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ مولانا کو بھی انہوں نے کچھ باتوں پر راضی کر کے بھیجا ہے کہ وہ کچھ ماہ صبر کریں۔ ہوسکتا ہے تین ماہ بعد وہ بھی ان کے ساتھ کھلے عام کھڑے ہوں اور درمیان میں کچھ ضامن بھی پڑے ہیں جنہوں نے مولانا کو کہا کہ کچھ دن اور انتظار کر لیں۔ ہوسکتا ہے اس دوران عمران خان نے زیادہ ردعمل دیا تو پنجاب میں عثمان بزدار کو گرانے کے لیے چوہدری کچھ اہم اقدامات لیں۔

بہرحال یہ بات طے ہے کہ خواجہ آصف اگرچہ جذباتی ہوکر راز اگل بیٹھے ہیں ’جو ہمیں پتہ ہے وہ آپ کو پتہ نہیں ہے‘ لیکن اندورنی کہانی یہ ہے کہ جو اسلام آباد کی غلام گردشوں میں چل رہا ہے اس کا عمران خان اور ان کی پارٹی کو واقعی پتہ نہیں ہے ’کیونکہ جس طرح حالات بدلتے جا رہے ہیں وہ ان سے نہ صرف بے خبر ہیں بلکہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے مطمئن ہیں کہ بلا ٹل گئی ہے۔

اندر کی خبر یہ ہے کہ بلا ٹلی نہیں ہے ’بلکہ وہ بلا بے خبر اور مطمئن کبوتر کی طرف دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے چل پڑی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ بلی کبوترکی گردن دبوچنے میں کتنا وقت لیتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
نیب کا شریف فیملی کی مختلف انڈسٹریز منجمد کرنے کا حکم
ویب ڈیسک پير 25 نومبر 2019
1894506-shehbazfamily-1574686210-142-640x480.jpg

احکامات ڈی جی نیب لاہور کی جانب سے جاری کیے گئے۔ فوٹو: فائل


لاہور: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں نیب کی جانب سے شریف فیملی کی مختلف انڈسٹریز کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق نیب لاہور کی جانب سے شہباز شریف فیملی کے خلاف زیر تحقیقات آمدن سے زائد اثاثہ جات ودیگر کیسز میں مختلف انڈسٹریز کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں، احکامات ڈی جی نیب لاہور کی جانب سے جاری کیے گئے، جن پر فوری عمل درآمد کیے جانے کی تاکید کی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق نیب لاہور کی جانب سے احکامات ایس ای سی پی اور شریف خاندان کے افراد علاوہ ان کے فائنینشل ایڈوائزرز کو بھی جاری کردیئے گئے ہیں، مستقبل میں فریز کردہ انڈسٹریز سے شہباز شریف، حمزہ شہباز، سلمان شہباز، نصرت شہباز اپنے کاروبار سے منافع کے حصول کے حقدار نہیں ہوں گے۔

نیب کی جانب سے منجمد ہونے والی انڈسٹریز میں چنیوٹ انرجی لمیٹڈ، رمضان انرجی، شریف ڈیری اور کرسٹل پلاسٹک شامل ہیں اور دیگر ملز میں العریبیہ، شریف ملک پروڈکٹس، شریف فیڈ ملز، رمضان شوگر ملز اور شریف پولٹری شامل ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بلاگ
02 دسمبر ، 2019
436_051048_reporter.JPG
ارشاد بھٹی
ماشاء اللّٰہ، چشم ِ بدّ دور!
209378_4756144_updates.jpg

فوٹو: فائل

ماشاء اللّٰہ چشم ِ بدّدور، بحرانوں، سازشوں میں ہم خود کفیل ہو چکے، ایک بحران ختم نہیں ہوتا دوسرا سر پر، ایک سازش کی گتھی ابھی پوری طرح سلجھ نہیں پاتی، دوسری سازش سر پر، سازشوں، بحرانوں کی میراتھن ریس، پوری قوم دوڑے جارہی، ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّدور، حکومت بمقابلہ اپوزیشن، نالائقی بمقابلہ کرپشن، مفادات بمقابلہ مفادات، ڈنگ ٹپاؤ بمقابلہ چل چلاؤ، اپنا قائدِ انقلاب نقلیں اتار رہا، اپنا سقراط ایک بار پھر موقع واردات سے کھسک چکا، زہر کا پیالہ عوام کو پینا پڑ رہا، انقلاب رانی فرما چکی، جان ہے تو جہان ہے، سیاست تو ہوتی رہے گی، ووٹ کو عزت دو مگر سانوں اجازت دیو۔

ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّدور، ایک مقبوضہ کشمیر ہوا کرتا تھا، کسی مقبوضہ وادی میں کرفیو بھی لگا تھا، کوئی کشمیر ہماری شہ رگ بھی تھا، اقوام متحدہ میں دھانسو تقریر بھی ہوئی تھی، پوری قوم ایل اوسی کراس کرنے کے موڈ میں بھی تھی، ماشاء اللّٰہ چشم ِ بدّدور، اک احتساب بھی تھا، بلاامتیاز، بلاتفریق، لٹی دولتیں بھی آنا تھیں، اشتہاریوں، مفروروں کو بھی واپس لانا تھا، مہنگائی ختم کرنا تھی۔

بے روزگاری کا گلا بھی گھوٹنا تھا، وہ کلبھوشن، وہ فٹیف، وہ آئی ایم ایف شرطیں، ماشاء اللہ چشم ِ بدّور، نیا پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان، ریاست مدینہ، کیا چند قدم بھی چل پائے، نئے پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان، ریاستِ مدینہ کی طرف، چند قدم بھی، چھوڑیں، دو قدم ہی، ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّدور، زبانیں ایسیں، زبانی درازیاں یوں، زبان فتنے ایسے، وزیراعظم فرمائیں، مولانا ڈیزل، اوئے چورو، اوئے ڈاکوؤ، اوئے بے شرمو، اوئے نقلی بیمارو، اوئے دیسی منڈیلے، اوئے بارش آٹا ہے تو پانی آٹا ہے، جب زیادہ بارش آٹا ہے تو زیادہ پانی آٹا ہے، نواز شریف کہیں، یہ منہ اور مسور کی دال، اللّٰہ کسی کو کم ظرف دشمن نہ دے۔

آصف زرداری فرمائیں، عمران خان تمہاری پارٹی میں تو تمہاری عورتیں اپنی محفوظ نہیں، بلاول بھٹو کہیں، تم بےغیرت ہو، مولانا فضل الرحمٰن فرمائیں، اوئے یہودی ایجنٹ، اوئے ہمیں بھی علیمہ خان کی وہ سلائی مشین لادو، ہم بھی 70ارب کمانا چاہتے ہیں۔

ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّدور، یہ تسلیم کیا جارہا، بلکہ خود عمران خان مان رہے، 16مہینے ہوگئے، پنجاب پرفارم نہ کرسکا، مگر پھر بھی سائیں بزدار سرخرو ہوا، مطلب یہ مان کر کہ پنجاب میں گورننس مسائل، یہ بتایا جارہا، سائیں بزدار قیادت باکمال، یعنی یہ ایسے ہی، ڈاکٹر مرض کی تشخیص نہ کر سکا۔

دوائی نے اثر نہ کیا، مگر ڈاکٹر، دوائی بےمثال، یہ ایسے ہی، 16میچوں میں کھلاڑی صفر پر آؤٹ مگر کھلاڑی بے مثال، عمران خان کی نگرانی، سائیں بزدار کی وژن بھری لیڈر شپ، پنجاب رُل گیا، نزلہ بیوروکریسی پر، قصور وار افسر شاہی، بتایا جارہا، یہ بیوروکریسی شریفوں سے رابطے میں، یہ ہڈ حرامی پر اتری ہوئی، سائیں بزدار کی ناکامی کی وجہ یہ بیوروکریٹس، ورنہ سائیں تو اس وقت تک پنجاب کو یورپ بنا چکے ہوتے۔

ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّدور، سائیں بزدار نے بڑی چالاکی سے 16مہینے گزارے، شروع کے 4 مہینے، مجھے کوئی وزیراعلیٰ ہی تسلیم ہی نہیں کرتا، کوئی سیریس ہی نہیں لیتا، عمران خان اسی مسئلے پر لگے رہے، اگلے 4مہینے، جب صوبے میں 5 وزیراعلیٰ، میری کون سنے گا، عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری سرور، شاہ محمود قریشی، علیم خان، جہانگر ترین کو لیفٹ، رائٹ کیا، اگلے 4ماہ، وزیر میری بات ہی نہیں مانتے، عمران خان وزراء کے پیچھے پڑگئے۔

اوئے عثمان بزدارتمہارا باس، تم سب اسی کو جوابدہ ہو، اگلے 4ماہ، بیوروکریسی بہت سازشی، ہر کام روک کر بیٹھی ہوئی، افسر شاہی شریفوں کی وفادار، اب عمران خان بیوروکریسی اکھاڑ پچھاڑ کر رہے، اب آگے دیکھیے، سائیں بزدار کا نیا بہانہ کیا ہوگا، دیکھتے ہیں کہ یہ دھکا اسٹارٹ گاڑی اسٹارٹ ہوپاتی ہے یا نہیں، گاڑی سے ایک لطیفہ یاد آگیا، سردار کا ڈرائیور گاڑی روک کر بولا، پٹرول ختم ہو گیا، اب گاڑی آگے نہیں جا سکتی، سردار بولا، پٹرول ختم، گڈی اگے نہیں جا سکدی تے فیر پچھاں موڑ لے (گاڑی آگے نہیں جاسکتی تو واپس چلو)۔

ایک اور لطیفہ بھی سن لیں، سردار جی تھرماس پکڑے جارہے تھے، رستے میں ایک دوست ملا، پوچھا، سردار جی، ایہہ کی شے اے؟ سردار جی، ایہہ تھرماس اے، اہیندے وچ گرم شے گرم تے ٹھنڈی شے ٹھنڈی رہندی اے، دوست نے پوچھا، سردار جی تُساں ہن اہیدے وچ کی رکھیا ہویا اے، سردار بولا، 4 کلفیاں تے 2 کپ چائے، یقین مانیے، ان دونوں لطیفوں کا بزدار صاحب یا بزدار گورننس سے کوئی تعلق نہیں۔

ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّدور، گزرے 16مہینوں میں بزدار حکومت کا حال یہ، perception ٹیسٹ، فیل، سیاسی ٹیم ورک ٹیسٹ، فیل، بیوروکریسی پرفارمنس ٹیسٹ، فیل، صحت، تعلیم اصلاحات ٹیسٹ، فیل، پولیس، پٹوار ٹیسٹ، فیل، صاف، شفاف گورننس ٹیسٹ، فیل، سادگی، بچت، پروٹوکول ٹیسٹ، فیل، ڈینگی ٹیسٹ، فیل، انصاف سے زراعت تک ریلیف ٹیسٹ، فیل۔

ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّدور، پولیس اصلاحات تو ایسی، سنا جارہا، پولیس کی جرابوں کا رنگ بدل دیا گیا، جرابوں کے بعد یہ سلسلہ نیچے سے اوپر جاتا ہوا ایک دن پولیس کیپ (ٹوپی) تک پہنچے گا اور پولیس اصلاحات مکمل ہوجائیں گی، ویسے بھی 16مہینوں میں 5آئی جی تبدیل ہوچکے، 16مہینوں میں عمران خان 9بار عثمان بزدار کی تعریف کرچکے۔

یہاں ایک اور لطیفہ یاد آگیا اور اس لطیفے کا بھی سائیں بزدار سے کوئی تعلق نہیں، شیخ کا بیٹا پہلی بار اپنی منگیتر کے ساتھ گھومنے گیا، واپس آیا تو شیخ نے پوچھا، کتنے پیسے خرچ کئے، شیخ کا بیٹا بولا ’’ابا 2ہزار‘‘ شیخ پریشان ہو کر بولا ’’اوئے اتنے زیادہ پیسے خرچ دیئے‘‘ بیٹا بولا ’’کیا کروں ابا اس کے پاس تھے ہی اتنے‘‘۔

ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّدور، نیب چیئرمین نے ہفتہ دس دن پہلے فرمایا، ہواؤں کا رخ تبدیل ہورہا، کدھر گئیں وہ ہوائیں، کہیں یہ ہوائیں ہوا تو نہیں ہو چکیں، ماشاء اللّٰہ چشمِ بدّور، اگر حکومت 5 سال پورے کرے تو بھی ساڑھے تین سال رہ گئے، وقت کم، مقابلہ سخت، جو پرفارمنس 16مہینوں کی، یہی حال آگے بھی رہا، اپوزیشن کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔

ماشاء اللّٰہ چشم بدور، آخری بات، میں اس قت سخت کنفیوژ، سمجھ نہیں آرہی، معاشی ٹیم، قانونی ٹیم یا کرکٹ ٹیم، قوم کو زیادہ مایوس کس ٹیم نے کیا، آپ ہی بتادیں، مایوس کرنے میں نمبرون ٹیم کونسی، کون سی ٹیم بزدار ٹرافی کی حقدار۔
 

جاسم محمد

محفلین
’’اُلٹا لٹکا دوں گا‘‘
حامد میر
02 دسمبر ، 2019

زیادہ پرانی بات نہیں۔ آصف علی زرداری پاکستان کے طاقتور صدر تھے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اُنہیں بار بار للکارا کرتے تھے۔ شہباز شریف کا وہ مائیک توڑ خطاب مجھے آج بھی یاد ہے جس میں اُنہوں نے لاہور کے بھاٹی چوک میں اپنے سامنے مجمع کو گواہ بنا کر اعلان کیا کہ اوئے آصف زرداری ہم تمہیں اسی چوک میں اُلٹا لٹکائیں گے اور تم سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے اور بھاٹی چوک میں ’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔

یہ وہی زرداری تھا جس نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا تو نواز شریف بہت حیران ہوئے۔

زرداری کو کہا گیا کہ صدر کے عہدے کو بےاختیار نہ کریں ورنہ آپ کے خلاف سازشوں میں تیزی آ جائے گی لیکن زرداری جواب میں کہتے کہ میں بےنظیر بھٹو بن کر سوچنے لگا ہوں اور میرے خیال میں صدر کے بجائے وزیراعظم کو بااختیار ہونا چاہئے کیونکہ وزیراعظم کو منتخب اسمبلی لے کر آتی ہے۔

اسی زرداری کی لائی گئی اٹھارہویں ترمیم کے باعث تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر پابندی ختم ہوئی اور 2013 میں نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اپنے دوست شہباز شریف کی طرح زرداری کو اُلٹا لٹکانے کی خواہشں میں مبتلا تھے لہٰذا اُنہوں نے 2015 میں ایف آئی اے کے ذریعہ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکائونٹس کا مقدمہ شروع کرایا۔

اس سے پہلے کہ کوئی آصف علی زرداری کو لٹکاتا پاناما اسکینڈل کے باعث ہر طرف ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ اب عمران خان صرف نواز شریف نہیں بلکہ آصف علی زرداری کو بھی اُلٹا لٹکانے کے اعلانات کرنے لگے۔

نواز شریف نااہل ہو کر جیل چلے گئے اور 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ وزیراعظم بننے کے بعد وہ بار بار یہ اعلان کرنے لگے کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ میں نواز شریف اور زرداری سے لوٹی ہوئی دولت واپس نکلوائوں گا۔

جب بھی پوچھا جاتا کہ مہنگائی کب کم ہوگی تو وہ مہنگائی کی ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر ڈال دیتے۔ ماضی کی حکومتوں سے لوٹی ہوئی رقم واپس نکلوانے کے لئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی بہت زور لگایا اور اپنی نگرانی میں ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن سے جعلی اکائونٹس کیس کی مزید تحقیقات کرائیں۔

عمران خان کی حکومت نے نواز شریف کے ساتھ ساتھ آصف زرداری کو بھی جیل میں ڈال دیا لیکن ابھی تک اُن کے خلاف ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

نواز شریف بیماری کے باعث جیل سے اسپتال آئے اور اسپتال سے لندن پہنچ گئے۔ آصف زرداری بھی بیمار ہیں لیکن وہ جیل سے صرف اسپتال تک پہنچے ہیں۔ اُن کے خلاف مقدمہ کراچی میں درج ہوا لیکن اُنہیں پنجاب کی ایک جیل میں رکھا گیا۔

آج کل وہ اسلام آباد کے ایک اسپتال میں نظر بند ہیں جہاں قریبی اہلِ خانہ کو بھی مشکل سے ملاقات کی اجازت ملتی ہے۔ آصف زرداری کے وکلاء نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے ایک درخواست تیار کی لیکن زرداری نے درخواست پر دستخط سے انکار کر دیا۔

وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی معالج تک رسائی چاہتے ہیں لیکن اُنہیں یہ اجازت نہیں دی جا رہی۔ اہلِ خانہ نے مطالبہ کیا کہ کم از کم اُنہیں کراچی منتقل کر دیں لیکن اُنہیں یہ رعایت بھی نہیں مل رہی۔

عمران خان کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری بہت زیادہ بیمار ہیں اور خدانخواستہ اُنہیں اسلام آباد میں کچھ ہو گیا تو بڑا نقصان ہو سکتا ہے لیکن عمران خان اس معاملے پر سنی ان سنی کر دیتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ زرداری کو رعایت دینے سے اُنہیں سیاسی نقصان ہو گا۔

وہ بشیر میمن کی جگہ واجد ضیاء کو لے آئے ہیں تاکہ ایف آئی اے آصف علی زرداری کو جلد از جلد اُلٹا لٹکانے کے انتظامات مکمل کرے۔ عمران خان کی زرداری سے نفرت بہت پرانی ہے۔

نفرت کی یہ کہانی عمران خان کی کتاب ’’پاکستان، اے پرسنل ہسٹری‘‘ میں موجود ہے جو 2011 میں شائع ہوئی تھی اس کتاب میں عمران خان نے لکھا ہے کہ وہ بےنظیر بھٹو کو آکسفورڈ یونیورسٹی سے جانتے تھے۔

انہوں نے بےنظیر بھٹو کا تعارف اپنے ایک کزن قمر خان سے کرایا لیکن جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آ گیا۔ بےنظیر بھٹو کی شادی قمر خان کے بجائے آصف علی زرداری سے ہو گئی۔

1989ء میں عمران خان شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر میں مدد کے لئے اپنے دوست طارق شفیع کے ہمراہ بلاول ہائوس کراچی میں آصف علی زرداری کو ملے۔ عمران خان لکھتے ہیں کہ زرداری نے میری بڑی آئو بھگت کی لیکن وہ زیادہ وقت طارق شفیع سے باتیں کرتے رہے اور اُنہیں کہا کہ آپ سندھ میں ٹیکسٹائل مل لگائیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو روزگار ملے اور اگر آپ مجھے 20 فیصد کا پارٹنر بنا لیں تو میں آپ کو بینکوں سے قرضہ بھی دلوا دوں گا۔

عمران خان کے بقول زرداری نے کینسر ہاسپٹل کے لئے کوئی مدد نہ کی۔ پانچ سال کے بعد جب اسپتال مکمل ہو گیا تو مجھے نوید ملک کے ذریعہ پیغام ملا کہ بےنظیر بھٹو اور زرداری اسپتال کا افتتاح کرنا چاہتے ہیں لیکن میں نے انکار کر دیا جس پر شاہی جوڑا مجھ سے ناراض ہو گیا حالانکہ وزیراعظم افتتاح کرتی تو اسپتال کو بہت فائدہ ہوتا۔

عمران خان نے یہ کتاب اپنے آٹو گراف کے ساتھ مجھے دی تھی۔ اس کتاب میں زرداری اور نواز شریف کے علاوہ اُنہوں نے پرویز مشرف پر بہت شدید تنقید کی تھی۔ پرویز مشرف کے بارے میں اُن کا موقف خاصا بدل گیا ہے کیونکہ یہ اُن کی سیاسی ضرورت ہے۔

کچھ غیر ملکی طاقتیں بدستور مشرف کا تحفظ کر رہی ہیں۔ نجانے مشرف نے غیر ملکی طاقتوں کی ایسی کیا خدمت کی ہے کہ وہ آج بھی اُس کے پیچھے کھڑی ہیں اور آصف علی زرداری نے ایسا کیا ہے کہ کچھ لوگ بیماری کی حالت میں بھی اُسے اُلٹا لٹکانے پر تلے بیٹھے ہیں؟

زرداری کو غلام اسحاق خان نے دو سال کے لئے جیل میں ڈالا، نواز شریف اور مشرف نے نو سال کے لئے جیل میں ڈالا اور اب وہ عمران خان کے قیدی ہیں۔

بارہ سال جیل میں گزارنے والے آصف علی زرداری سے اب تک کتنی رقم برآمد ہوئی ہے؟ اگر ایک روپیہ بھی برآمد ہوا ہے تو مجھے ثبوت کے ساتھ دکھا دیا جائے۔ آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات ضرور کریں، مقدمے بھی بنائیں لیکن اُنہیں اُن کی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کی سہولت تو دے دیں۔

کیا اُن کا قصور صرف یہ ہے کہ اُنہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ صدر کے تمام اختیارات وزیراعظم کو دے دیئے اور یہی اختیارات آج کل عمران خان کی اصل طاقت ہیں۔

آصف علی زرداری کو بُرا بھلا کہنا اور گالی دینا بہت آسان ہے اور گالی دینے والے کو بہت شاباش بھی ملتی ہے۔ اُسے اُلٹا لٹکا کر کوئی رقم نکلتی ہے تو ضرور نکلوا لیں لیکن ذرا یہ بھی سوچ لیں کہ ایک دفعہ پھر آپ کو کچھ نہ ملا تو کیا ہوگا؟

کم از کم تین چھوٹے صوبوں کے عوام کی اکثریت کی نظروں میں زرداری نہیں آپ اُلٹا لٹک جائیں گے اور ’’گو زرداری گو‘‘ ’’گو نواز گو‘‘ سے شروع ہونے والا معاملہ ’’گو عمران گو‘‘ پر ختم ہوگا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
’’اُلٹا لٹکا دوں گا‘‘
حامد میر
02 دسمبر ، 2019

زیادہ پرانی بات نہیں۔ آصف علی زرداری پاکستان کے طاقتور صدر تھے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اُنہیں بار بار للکارا کرتے تھے۔ شہباز شریف کا وہ مائیک توڑ خطاب مجھے آج بھی یاد ہے جس میں اُنہوں نے لاہور کے بھاٹی چوک میں اپنے سامنے مجمع کو گواہ بنا کر اعلان کیا کہ اوئے آصف زرداری ہم تمہیں اسی چوک میں اُلٹا لٹکائیں گے اور تم سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے اور بھاٹی چوک میں ’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔

یہ وہی زرداری تھا جس نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا تو نواز شریف بہت حیران ہوئے۔

زرداری کو کہا گیا کہ صدر کے عہدے کو بےاختیار نہ کریں ورنہ آپ کے خلاف سازشوں میں تیزی آ جائے گی لیکن زرداری جواب میں کہتے کہ میں بےنظیر بھٹو بن کر سوچنے لگا ہوں اور میرے خیال میں صدر کے بجائے وزیراعظم کو بااختیار ہونا چاہئے کیونکہ وزیراعظم کو منتخب اسمبلی لے کر آتی ہے۔

اسی زرداری کی لائی گئی اٹھارہویں ترمیم کے باعث تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر پابندی ختم ہوئی اور 2013 میں نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اپنے دوست شہباز شریف کی طرح زرداری کو اُلٹا لٹکانے کی خواہشں میں مبتلا تھے لہٰذا اُنہوں نے 2015 میں ایف آئی اے کے ذریعہ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکائونٹس کا مقدمہ شروع کرایا۔

اس سے پہلے کہ کوئی آصف علی زرداری کو لٹکاتا پاناما اسکینڈل کے باعث ہر طرف ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ اب عمران خان صرف نواز شریف نہیں بلکہ آصف علی زرداری کو بھی اُلٹا لٹکانے کے اعلانات کرنے لگے۔

نواز شریف نااہل ہو کر جیل چلے گئے اور 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ وزیراعظم بننے کے بعد وہ بار بار یہ اعلان کرنے لگے کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ میں نواز شریف اور زرداری سے لوٹی ہوئی دولت واپس نکلوائوں گا۔

جب بھی پوچھا جاتا کہ مہنگائی کب کم ہوگی تو وہ مہنگائی کی ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر ڈال دیتے۔ ماضی کی حکومتوں سے لوٹی ہوئی رقم واپس نکلوانے کے لئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی بہت زور لگایا اور اپنی نگرانی میں ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن سے جعلی اکائونٹس کیس کی مزید تحقیقات کرائیں۔

عمران خان کی حکومت نے نواز شریف کے ساتھ ساتھ آصف زرداری کو بھی جیل میں ڈال دیا لیکن ابھی تک اُن کے خلاف ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

نواز شریف بیماری کے باعث جیل سے اسپتال آئے اور اسپتال سے لندن پہنچ گئے۔ آصف زرداری بھی بیمار ہیں لیکن وہ جیل سے صرف اسپتال تک پہنچے ہیں۔ اُن کے خلاف مقدمہ کراچی میں درج ہوا لیکن اُنہیں پنجاب کی ایک جیل میں رکھا گیا۔

آج کل وہ اسلام آباد کے ایک اسپتال میں نظر بند ہیں جہاں قریبی اہلِ خانہ کو بھی مشکل سے ملاقات کی اجازت ملتی ہے۔ آصف زرداری کے وکلاء نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے ایک درخواست تیار کی لیکن زرداری نے درخواست پر دستخط سے انکار کر دیا۔

وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی معالج تک رسائی چاہتے ہیں لیکن اُنہیں یہ اجازت نہیں دی جا رہی۔ اہلِ خانہ نے مطالبہ کیا کہ کم از کم اُنہیں کراچی منتقل کر دیں لیکن اُنہیں یہ رعایت بھی نہیں مل رہی۔

عمران خان کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری بہت زیادہ بیمار ہیں اور خدانخواستہ اُنہیں اسلام آباد میں کچھ ہو گیا تو بڑا نقصان ہو سکتا ہے لیکن عمران خان اس معاملے پر سنی ان سنی کر دیتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ زرداری کو رعایت دینے سے اُنہیں سیاسی نقصان ہو گا۔

وہ بشیر میمن کی جگہ واجد ضیاء کو لے آئے ہیں تاکہ ایف آئی اے آصف علی زرداری کو جلد از جلد اُلٹا لٹکانے کے انتظامات مکمل کرے۔ عمران خان کی زرداری سے نفرت بہت پرانی ہے۔

نفرت کی یہ کہانی عمران خان کی کتاب ’’پاکستان، اے پرسنل ہسٹری‘‘ میں موجود ہے جو 2011 میں شائع ہوئی تھی اس کتاب میں عمران خان نے لکھا ہے کہ وہ بےنظیر بھٹو کو آکسفورڈ یونیورسٹی سے جانتے تھے۔

انہوں نے بےنظیر بھٹو کا تعارف اپنے ایک کزن قمر خان سے کرایا لیکن جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آ گیا۔ بےنظیر بھٹو کی شادی قمر خان کے بجائے آصف علی زرداری سے ہو گئی۔

1989ء میں عمران خان شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر میں مدد کے لئے اپنے دوست طارق شفیع کے ہمراہ بلاول ہائوس کراچی میں آصف علی زرداری کو ملے۔ عمران خان لکھتے ہیں کہ زرداری نے میری بڑی آئو بھگت کی لیکن وہ زیادہ وقت طارق شفیع سے باتیں کرتے رہے اور اُنہیں کہا کہ آپ سندھ میں ٹیکسٹائل مل لگائیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو روزگار ملے اور اگر آپ مجھے 20 فیصد کا پارٹنر بنا لیں تو میں آپ کو بینکوں سے قرضہ بھی دلوا دوں گا۔

عمران خان کے بقول زرداری نے کینسر ہاسپٹل کے لئے کوئی مدد نہ کی۔ پانچ سال کے بعد جب اسپتال مکمل ہو گیا تو مجھے نوید ملک کے ذریعہ پیغام ملا کہ بےنظیر بھٹو اور زرداری اسپتال کا افتتاح کرنا چاہتے ہیں لیکن میں نے انکار کر دیا جس پر شاہی جوڑا مجھ سے ناراض ہو گیا حالانکہ وزیراعظم افتتاح کرتی تو اسپتال کو بہت فائدہ ہوتا۔

عمران خان نے یہ کتاب اپنے آٹو گراف کے ساتھ مجھے دی تھی۔ اس کتاب میں زرداری اور نواز شریف کے علاوہ اُنہوں نے پرویز مشرف پر بہت شدید تنقید کی تھی۔ پرویز مشرف کے بارے میں اُن کا موقف خاصا بدل گیا ہے کیونکہ یہ اُن کی سیاسی ضرورت ہے۔

کچھ غیر ملکی طاقتیں بدستور مشرف کا تحفظ کر رہی ہیں۔ نجانے مشرف نے غیر ملکی طاقتوں کی ایسی کیا خدمت کی ہے کہ وہ آج بھی اُس کے پیچھے کھڑی ہیں اور آصف علی زرداری نے ایسا کیا ہے کہ کچھ لوگ بیماری کی حالت میں بھی اُسے اُلٹا لٹکانے پر تلے بیٹھے ہیں؟

زرداری کو غلام اسحاق خان نے دو سال کے لئے جیل میں ڈالا، نواز شریف اور مشرف نے نو سال کے لئے جیل میں ڈالا اور اب وہ عمران خان کے قیدی ہیں۔

بارہ سال جیل میں گزارنے والے آصف علی زرداری سے اب تک کتنی رقم برآمد ہوئی ہے؟ اگر ایک روپیہ بھی برآمد ہوا ہے تو مجھے ثبوت کے ساتھ دکھا دیا جائے۔ آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات ضرور کریں، مقدمے بھی بنائیں لیکن اُنہیں اُن کی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کی سہولت تو دے دیں۔

کیا اُن کا قصور صرف یہ ہے کہ اُنہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ صدر کے تمام اختیارات وزیراعظم کو دے دیئے اور یہی اختیارات آج کل عمران خان کی اصل طاقت ہیں۔

آصف علی زرداری کو بُرا بھلا کہنا اور گالی دینا بہت آسان ہے اور گالی دینے والے کو بہت شاباش بھی ملتی ہے۔ اُسے اُلٹا لٹکا کر کوئی رقم نکلتی ہے تو ضرور نکلوا لیں لیکن ذرا یہ بھی سوچ لیں کہ ایک دفعہ پھر آپ کو کچھ نہ ملا تو کیا ہوگا؟

کم از کم تین چھوٹے صوبوں کے عوام کی اکثریت کی نظروں میں زرداری نہیں آپ اُلٹا لٹک جائیں گے اور ’’گو زرداری گو‘‘ ’’گو نواز گو‘‘ سے شروع ہونے والا معاملہ ’’گو عمران گو‘‘ پر ختم ہوگا۔
آرمی چیف کی توسیع والا مسئلہ زداری صاحب کو رہائی دلا سکتا ہے!
 
Top