لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

فرقان احمد

محفلین
سرخوں کا زمانہ ۶۰، ۷۰ کی دہائی تھی۔ پوری دنیا نے ان کے نظریات اپنا کر اپنی معیشتیں تباہ کرکے مسترد کر دیے ہیں۔ پاکستان انوکھا ملک ہے جہاں سرخے دوبارہ زندہ ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں :)
کوئی مقبول نظریہ ایسی آسانی سے مٹ نہیں سکتا۔ نظریے سے وابستہ افراد تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہو، یوں ہی شمع جلائے رکھتے ہیں۔ انہیں بھی سانس لینے کا موقع عنایت کیا جاوے!
 
سرخوں کا زمانہ ۶۰، ۷۰ کی دہائی تھی۔ پوری دنیا نے ان کے نظریات اپنا کر اپنی معیشتیں تباہ کرکے مسترد کر دیے ہیں۔ پاکستان انوکھا ملک ہے جہاں سرخے دوبارہ زندہ ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں :)
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ سفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔

ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی مقبول نظریہ ایسی آسانی سے مٹ نہیں سکتا۔ نظریے سے وابستہ افراد تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہو، یوں ہی شمع جلائے رکھتے ہیں۔ انہیں بھی سانس لینے کا موقع عنایت کیا جاوے!
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
اس حساب سے تو نظام شریعت والا نظریہ بھی بہت عظیم ہے البتہ عملی طور پر اس کے نتائج ہر مسلم ملک میں صفر بٹا صفر ہیں :)
 
اس حساب سے تو نظام شریعت والا نظریہ بھی بہت عظیم ہے البتہ عملی طور پر اس کے نتائج ہر مسلم ملک میں صفر بٹا صفر ہیں :)
مسلم دنیا میں خلفائے راشدین کے بعد تمام مسلمان سربراہوں نے "نظامِ شریعت" کانام اپنے ذاتی اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا۔ امیر المومنین کو ابھی ہم بھولے تو نہیں ہیں جن کے ریفرنڈم کا تذکرہ سن کر آج بھی شرم آتی ہے۔ اگر آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں تو میں امیر المومنین۔

دنیا کے سیاسی نظام کا حل اب سوشلزم ہی میں ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
دنیا کے سیاسی نظام کا حل اب سوشلزم ہی میں ہے ۔
پاکستان میں سوشل ازم کا حال
EKkKcaYWwAU9OnE.png

 

الف نظامی

لائبریرین
پچھلے کئی سالوں سے جو سرخیے اور دو نمبر انقلاب کے حامی اپنی اپنی سرنگوں میں منہ چھپائے بیٹھے تھے
وہ بھی سٹوڈنٹس کے بینر تلے سرخ انقلاب کے لیے نکل پڑے۔۔
ورنہ ایسے لوگوں کا کھاتہ گول ہو چکا تھا
اللہ بھلا کرے سٹوڈنٹس کا کہ ایسے لوگوں کو بھی نعرے لگانے،سیلفیاں بنانے اور لمبی لمبی انقلابی تقاریر کرنے کا موقع مل گیا۔۔
اب چاہے اس کا کریڈٹ ترقی پسند لیں یا پھر سرخیے
اگرچہ سٹوڈنٹس کے مطالبات زیادہ تر جائز ہیں مگر سرخ سرخ کا نعرہ سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ جو ماڈرن طبقہ آج سڑکوں پہ نکلا حقیقت میں اصل سرخ انقلاب ان کے ہی خلاف تھا لیکن یہ بےچاری یوتھ کیا جانیں۔۔
پاکستان کسی بھی ازم کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور یہ بات بونے دانشوروں کی سمجھ میں آ جانی چاہیے

یا تو اسے صرف اسلام کے نام پر چلنے دیا جائے (جو اس کا اصل مقصد ہے) یا پھر اس قوم کے شعور کی سطح بلند کی جائے تاکہ یہ اچھے برے میں تمیز کر سکے۔۔۔
بہرحال کل کے احتجاج کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستان سرخ ہونے کے لیے نہیں بنا اور نہ یہ نعرہ کامیاب ہو سکا۔۔
کالم نگری:آغر ندیم سحر
 

الف نظامی

لائبریرین
آزادی و انقلاب کے امام --- صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم
یوں تو تاریخ کے پردے پر بے شمار شخصیتیں ابھریں اور ایک وقت میں تو اپنی شخصیت کی گھن گرج سے انہوں نے پوری دنیا کو لرزہ بر اندام کر دیا ، بعض وہ تھیں جو مسند علم کی وارث ٹھہریں ، کچھ طبیعات اور سائنس کی امام بنیں ، ایسی بھی جو اخلاق و تصوف کے حوالے سے دنیا کی مرشد قرار پائیں ، لیکن ان میں سے بہت سے تاریخ کے دھارے کے ساتھ بہہ گیئں ۔کچھ کو زمانے کی کروٹیں نگل گیئں۔بعض حوادث روزگار کی نذر ہو گیئں۔کئی ایک عالمی تبدیلیوں کی ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔چند نصابی کتابوں کی زینت بنیں اور اکثر یادِ ماضی کا حوالہ ،داستانِ پارینہ اور دلچسپ قصہ بن گئیں،اگرچہ ایک بڑی تعداد ایسے رجال کار کی ہے جنہوں نے تاریخ،سمت،وقت،سوچ،ذہن اور جذبات کو پوری طرح قبضے میں لیکر خود کو مقام امر پر فائز کرلیا انہیں میں ایک روشن نام جناب حسین کا ہے،چودہ صدیاں بیت چلیں مگر آپ کا نمایاں نام اور تاریخی کام بجاے گہنانے کے اور نکھرتا چلا جاتا ہے اور وقت کی رفتار بتاتی ہے کی مستقبل میں مزید نکھرے گا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو!!
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
جناب حسین اب ایک فرد بشر، ایک آدم زاد، ایک خاندان کے روشن چراغ،ایک دور کی بہتر شخصیت ہی نہیں رہے بلکہ گردشِ زمانہ اب انہیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ ان کا نام جذبہ حریت اور ان کی شخصیت بذاتِ خود تحریک اور انقلاب بن گئی ہے۔ریگ گرم پر بہنے والے ان کے خون کے چھینٹے کاروانِ شوق کے لئے نقوش منزل قرار پائے ہیں اور ان کا مقتل سجدہ گاہِ عاشقاں کا مرتبہ اختیار کرگیا ہے اور ان کی باتیں فلسفہ انقلاب کا درجہ پاچکی ہیں،ہمارے ہاں کے روایت پرستانہ مزاج اور شعبدہ پسند رجحان نے ان تاریخی شخصیتوں کو محض گرمئی تقریر،فنِ خطابت،مجادلہ و مناظرہ اور فرقہ وارانہ بحثوں کی نذر کردیا ہے، ورنہ ہماری تاریخ جہد و عمل،علم و فضل،عظیم شخصیتوں،نامور ہستیوں اورنادرِ روزگار افرد کے اعتبار سے جتنی مالدار، روشن نامدار اور وقیع ہے،اتنی کسی اور مذہب ،فلسفہ اور تہذیب کی تاریخ قابلِ رشک نہیں۔
ذرا ایک نظر ڈالئے حکمرانوں میں خلفاء راشدین،مجاہدہ و فقر میں خانوادہ اہل بیت،ایثار ووفا میں حضراتِ صحابہ،تفقہ وتدبر میں ائمہ اربعہ ،روایت میں محدثین،فلسفہ و حکمت میں اما م غزالی ،رازی،بوعلی،ا بن رشد،فارابی،البیرونی اور کندی ؒزہد وتصوف میں شیخ جیلان،بایزید بسطامی،فضیل بن عیاض،فاتحین میں محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی،اور نورالدین زنگی ، مصنفین میں ابن تیمیہ اور ابن القیم ،شعراء ادباء میں مولانا روم،شیخ سعدیؒ عمر خیام،حافظ شیرازی،حکمتِ دین کے حوالے سے ابنِ خرم اور شاہ ولی اللہ ایسے نام محض نمایاں افراد نہیں بلکہ یہ گرامی قدر شخصیات ایک پوری تاریخ،بھرپور تہذیب،اور کامل فلسفہ ہیں۔اتنا عظیم سرمایہ رکھنے والی قوم اب بھی مناظروں،شعبدوں ،حکایتوں اور افسانوں میں گھری ہوئی ہے،سچ ہے کہ جب مذہب گورکھ دہندہ،تاریخ وتحقیق روایت،حقیقت افسانہ، اور علم فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ جائے تو جلیل اقدر شخصیتوں کے ساتھ ایسی ہی بے انصافی ہوتی ہے۔ موجودہ معاشرے میں امام حسین کے کام کو اتنی توجہ نہیں مل رہی جتنی ان کے نام سے فرقہ بندی کو مل رہی ہے حالانکہ عظیم شخصیتیں کسی فرقے کا حوالہ نہیں بلکہ پوری قوم کا مقدس ورثہ ہوتی ہیں۔
انہیں مختلف خانوں میں رکھ کر نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں اپنے عمل و اخلاق کا پیمانہ بنایا جانا چاہیے۔یومِ عاشورہ اور واقعہ کربلا ایک دن ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک بھر پور تاریخ اور حیات آفرین جزبہ ہے جسے محض فضائل ومصائب میں الجھا دیا گیا ہے۔جناب امام حسین نے اپنے دور میں سیاست کو فرعونی،معیشت کو قارونی اور معاشرت کو یزیدی بنتے دیکھا تو آپ نے پوری طاقت اور جرات سے صدأے احتجاج اور نوائے انقلاب بلند کی کی خدا کی اس دھرتی پر خلافت و امارت کے نام پر شخصی آمریت کا تسلط ناقابلِ برداشت ہے وہ حکومت میں احتساب،معاشرت میں اخلاق اور معیشت میں انصاف کے علمبردار تھے کیونکہ ان کے نزدیک سیاست محمدیؐ منافقت سے پاک ،معیشت محمدیؐ استحصال سے منزہ اور معاشرت محمدیؐ لاقانونیت سے مبرا تھی۔ وہ حکمِ حاکم کے نہیں حکم ِ خدا اور رسولؐ کے قائل تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ خدا کی زمین پر خدا کے بس سے پیارے بندے حضور محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے ذریعے خدائی احکام کی پیروی کرنے والے لوگوں کی پیروی کرنے والے لوگوں کی حکومت ہونی چاہیے نہ کہ جاہلی جذبوں کے ساتھ قومی حکومت قائم کرکے شخصی اطاعت کو رائج کیا جائے۔یہی وہ جذبہ حریت اور نظریہ انقلاب تھا جو جناب امام کو مدینہ منورہ کے پرسکون ماحول اور مسجد نبوی کی پرنور فضاؤں اور روضہ رسول ﷺ کی پرکیف قربتوں سے نکال کر لق و دق اور بے آب وگیاہ وادی کی طرف کشاں کشاں لے آیا اور زندگی بھر کی پونجی چٹیل میدان کی نذر کر دی۔
آج تک دنیاکے باطل نظاموں کے ترجمان اس دستور کو رائج کرنے اور اس کے فلسفے کو منوانے پر تلے ہوئے ہیں کہ طاقت ہی حق ہے مگر جناب امامِ حسین نے اس روش کے خلاف چلتے ہوئے نعرہ انقلاب بلند کیا کہ طاقت نہیں دراصل حق طاقت ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ تلواروں کی جنگ جیتنے والے مقدر کی بازی ہار گئے اور بنجر زمین پر گھر کا گھر لٹا دینے والے انسانیت کی آبرو بن گئے۔
مدینہ منورہ میں قیام، مسجد نبوی کی امامت ، روضہ رسولﷺ کی مجاورت اور روحانی سیادت کوئی معمولی اعزاز نہ تھا جس سے جناب حسین دستبردار ہوگئے بلکہ یہ سب کچھ اس بات کا حتمی اور بڑا ثبوت ہے کہ یہ ایک عظیم اور تاریخی مشن تھا جس کی تکمیل کے لیے یہ صدمے گوارا کرنا لازم تھے ورنہ کون گوشہ عافیت چھوڑ کر میدان رزم کا رُخ کرتا ہے اور کون روح پرور فضاؤں کو ترک کر کے لو کے تھپیڑے سہتا ہے ۔ہمارے مذہبی حلقوں نے واقعہ کربلا کی جزیات تک کو تو نگاہ میں رکھا ، مجالس مصائب پر توجہ دی مگر امام پاک کی انقلابی روح اپنے اندر جذب نہیں کی۔
ہو کا عالم ہو،جبر کا دور دورہ ہو،ہوسِ زر نے لوگوں کو مصلحت کیش بنا رکھا ہو،آمریت نے رعایا کو بے دست وپا کردیا ہو،جاہ طلبی زندگی کا مشن اور قربتِ اقتدار معاشرے کامجموعی مزاج بن چکا ہو ،ایسے میں جناب امام کا نعرہِ قلندرانہ بلند کرنا اور کاخ و ایوان حکومت سے جاٹکرانا آپ کے تاریخی کردار کی بلند مثالی ہے۔جناب امام کے کردار کی اس تاریخی عظمت کے حوالے سے جب ہم اپنے معاشرے کا مجموعی چلن دیکھتے ہیں اور بالخصوص مذہبی گروہ بندی پر نظر ڈالتے ہیں تو اپنی کج فہمی پر ندامت ہوتی ہے۔
امام حسین نے اپنے بے مثال مجاہدانہ کردار کے ذریعے دنیائے جبر میں ہر خطہِ زمین کو کربلا اور ہر دن کو یومِ عاشورہ بنا دیا۔ اب قیامت تک آنے دو کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں گے۔ ایک کردار یزیدی ہوگا جو جبر کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا کردار حسینی ہےجو صبر اور ایثار کی مثال بنا رہے گا ،ظاہر ہے اب ہر مسلمان خواہ کسی مسلک کا ہو اپنے لیے حسینی کردار کا انتخاب کرئے گا،یعنی جبر کے مقابلہ میں صبر ،جفا کے مقابلے میں وفا،استکبار کے مقابلہ میں ایثار،طاقت کے مقابلہ میں استقامت اور مطلق العنانی کے مقابلہ میں جرأت ایمانی کا مظاہرہ اور یہی اسوہ حسین اور درس کربلا ہے۔
ازخورشید احمد گیلانی مرحوم
 

الف نظامی

لائبریرین
قومیت : اسلامی قومیت
نسلی و لسانی و جغرافیائی قومیت تمہیں تقسیم کرے گی ، اسلامی قومیت ایک لڑی میں پرو دے گی۔ مواخات اور اخوت اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔

نظریہ ، آدرش ، نظام: اسلام
کیپیٹلزم ، سوشلزم ، کمیونزم ادھورے نظریات ہیں۔ سب سے کامل نظریہ و نظام اللہ کا نظام اسلام ہے۔ اس چمکتے سورج کی مدد سے ہر ظلمت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
مشہور ترقی پسند احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
 

الف نظامی

لائبریرین
مواخات اورطبقاتی کشمکش کا خاتمہ
نبی اکرمﷺ نے مہاجر اور انصار میں مواخات قائم کر کے طبقاتی کشمکش کا خاتمہ کر دیا۔
مواخات نہایت انقلابی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے کہ انسان کی فطرت میں جو کمزوریاں ہیں ان میں طبقاتی تفریق و امتیاز اور طبقاتی کشمکش اور عصبیت بہت خوف ناک ہے۔
عرب قبائل میں طبقاتی کشمکش اور عصبیت موجود تھی لیکن نبی اکرمﷺ نے مہاجرین اور انصار میں مواخات قائم کر کے ان کو بھائی بھائی بنا دیا۔

آج پاکستان میں موجود پنجابی ، پٹھان ، سندھی ، بلوچی ، سرائیکی ، مہاجر اور کشمیری سب لوگوں میں مواخات قائم کرنے کی ضرورت ہے ، جب سب مسلمان رشتہ اخوت میں جڑ جائیں گے تو باہمی نفرت و تعصب و کشمکش ختم ہو کر الفت و ایثار اور مساوات پیدا ہوگی اور معاشرہ امن کا نمونہ بنے گا۔

اسلامی اخوت اور اسلامی قومیت اپنائیں
باہمی تعلق مضبوط اور خوش گوار بنائیں
 
یا تو اسے صرف اسلام کے نام پر چلنے دیا جائے (جو اس کا اصل مقصد ہے)

ہی ہی ہی ہی ، ہی ہی ہی ہی ۔ ہی ہی ہی ہی ،
کچھ شرم آنی چاہئے ، ملاؤں کو کہ اسلام بغداد شریف سے لاتے ہیں اور نعرہ قرآن شریف کا لگاتے ہیں ؟؟؟

جس معیشیت کو اسلامی معیشیت کا نام دیتے ہیں، کون سے ممالک اس معیشیت میں کامیاب ممالک ہیں؟

قرآن کا معاشی نظام ، جن ممالک میں قائم ہے، وہ سب "غیر اسلامی ممالک " کہلاتے ہیں لیکن ٹیکس جمع کرتے ہیں اور اس ٹیکس سے اپنی معیشیت بہتر بناتے ہیں۔ اسلام کے نام جس بغدادی نظام کو پروموٹ کیا جاتا ہے، ایک بھی مثال آج کسی نام نہاد اسلامی ملک کی نہیں جو معاشی طور پر مظبوط ہو۔

بغدادی نظام کو اسلام کے نام پر قائم و دائم کرنے کے پیچھے دو سازشیں ہیں ۔
1۔ مسلمانوں کی ماؤں کو ان پڑھ بنا دو۔ تاکہ ایک ان پڑھ قوم نکل کر سامنے آئے۔
2۔ مسلمانوں کی معیشیت کو ڈھائی فی صد ٹیکس ، ملاء کو واجب الادا کا یقین دلا دو تاکہ معیشیت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔

اور آج بے چارہ مسلمان کچھ اس طرح برین واش ہوا ہے کہ نا اپنی مستقبل کی ماؤں کو تعلیم دیتا ہے اور نا ہی ٹیکس ادا کرتا ہے۔

بلے بلے ۔۔۔۔

اسلام کے نام پر ، بغداد شریف کا نظام قائم کرنے کی کوشش کا شکریہ ، اس کو اپنے پاس ہی رکھئے صاحب۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کیپیٹلزم ، سوشلزم ، کمیونزم ادھورے نظریات ہیں۔ سب سے کامل نظریہ و نظام اللہ کا نظام اسلام ہے۔ اس چمکتے سورج کی مدد سے ہر ظلمت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
کوئی ایسا ملک، علاقہ بتائیں جہاں اللہ کا نظام نافذ ہو۔ اور وہ واقعتا جنت نظر مقام بن گیا ہو۔
 
یہ لوگ پولیس والوں سے ، ملازموں سے، اور اپنے سے "کم تر" لوگوں سے انتہا کی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ اپنے ملازموں کو غلاموں کی طرح رکھتے ہیں اور بعض اوقات کتوں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ اور پھر ہر آئے دن سڑکوں پر نکل آتے ہیں ہمیں بتانے کہ ہمارا برتاؤ معاشرے کے نچلے طبقات سے کیسا ہونا چاہیے۔ پاکستان میں یہ جنگ نہ تو لبرل اور مذہبی لوگوں کے مابین ہے، نہ ہی پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں کے درمیان۔ جو جنگ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں وہ ان کے ساتھ ہے جو سمجھتے ہیں کہ وہ انگریزی کے سکولوں میں پڑھ کر، مغرب میں رہ کر، مغربی کلچر اپنا کر، ہم سے بہتر ہیں؛ یہ مغربیت تو صرف ظاہری ہے اپنی شناخت کو الگ کرنے کےلیے۔ لاشعوری طور پر انہیں بھی پتہ ہے ہمیں بھی کہ یہ ہم سے اس لیے لڑتے ہیں کیونکہ ہم پیسے میں اور طاقت میں ان سے کم ہیں۔


یہ جنگ یک طرفہ ہے ، ایک طرف ہم ہیں کہ امن چاہتے ہیں اور ایک طرف وہ ہیں کہ پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ یہ بتانا کہ ہمارا عورتوں سے، خوجاسراؤں سے، قادیانیوں سے، طلباء سے کیا سلوک ہونا چاہیے محض ان کا طریقہ ہے ہم پر اپنا غلبہ جتانے کا ۔ اور ہاں، یہ ایک کلاس وار ہے اور ہر اس میں آپ کی کلاس ہی یہ تعین کرتی ہے کہ آپ کس طرف ہیں۔

یہ لوگ ہم پر اوقات تنگ کر کے ہم کو جنگ پر آمادہ کر رہے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
سب سے کامل نظریہ و نظام اللہ کا نظام اسلام ہے۔ اس چمکتے سورج کی مدد سے ہر ظلمت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
متفق۔ صرف ایک چیز کا اضافہ یا وضاحت کروں گا کہ اسلامی نظام یعنی دین صرف حکومتی سطح پر یا حکومت کی جانب سے لاگو ہونے والی چیز نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا اہم اور بنیادی جز تقویٰ ہے جس کو اپنے نفس پر لاگو کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے وہ اسلامی یا مسلم اکثریتی علاقے میں رہتا ہو یا دیارِ کفر میں۔ بالفاظِ دیگر دین کو اجتماعی ہی نہیں انفرادی سطح پر لاگو کرنا بھی فرض ہے۔
جو مسلمان اسلامی نظام کا مذاق اڑاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے تو ان سے گذارش ہے کہ وہ بطور مسلمان دین کو اپنی ذات پر ہی لاگو کرکے دیکھیں۔ اسلامی انقلاب کا ہدف اپنے نفس کو بنائیں۔ یہ مجھ سمیت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اتنا تو آپ مانتے ہیں نا، یا اس کے بھی انکاری ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
قومیت : اسلامی قومیت
نسلی و لسانی و جغرافیائی قومیت تمہیں تقسیم کرے گی ، اسلامی قومیت ایک لڑی میں پرو دے گی۔ مواخات اور اخوت اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔

نظریہ ، آدرش ، نظام: اسلام
کیپیٹلزم ، سوشلزم ، کمیونزم ادھورے نظریات ہیں۔ سب سے کامل نظریہ و نظام اللہ کا نظام اسلام ہے۔ اس چمکتے سورج کی مدد سے ہر ظلمت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
مشہور ترقی پسند احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
متفق۔ صرف ایک چیز کا اضافہ یا وضاحت کروں گا کہ اسلامی نظام یعنی دین صرف حکومتی سطح پر یا حکومت کی جانب سے لاگو ہونے والی چیز نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا اہم اور بنیادی جز تقویٰ ہے جس کو اپنے نفس پر لاگو کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے وہ اسلامی یا مسلم اکثریتی علاقے میں رہتا ہو یا دیارِ کفر میں۔ بالفاظِ دیگر دین کو اجتماعی ہی نہیں انفرادی سطح پر لاگو کرنا بھی فرض ہے۔
جو مسلمان اسلامی نظام کا مذاق اڑاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے تو ان سے گذارش ہے کہ وہ بطور مسلمان دین کو اپنی ذات پر ہی لاگو کرکے دیکھیں۔ اسلامی انقلاب کا ہدف اپنے نفس کو بنائیں۔ یہ مجھ سمیت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اتنا تو آپ مانتے ہیں نا، یا اس کے بھی انکاری ہیں؟
دونوں اطرف انتہا پسندی عام ہے۔ایک طرف سیکولرز ہیں تو دوسری طرف مذہب پسند۔
EKo14t7WsAEa_lc.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
یہ لوگ پولیس والوں سے ، ملازموں سے، اور اپنے سے "کم تر" لوگوں سے انتہا کی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ اپنے ملازموں کو غلاموں کی طرح رکھتے ہیں اور بعض اوقات کتوں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ اور پھر ہر آئے دن سڑکوں پر نکل آتے ہیں ہمیں بتانے کہ ہمارا برتاؤ معاشرے کے نچلے طبقات سے کیسا ہونا چاہیے۔ پاکستان میں یہ جنگ نہ تو لبرل اور مذہبی لوگوں کے مابین ہے، نہ ہی پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں کے درمیان۔ جو جنگ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں وہ ان کے ساتھ ہے جو سمجھتے ہیں کہ وہ انگریزی کے سکولوں میں پڑھ کر، مغرب میں رہ کر، مغربی کلچر اپنا کر، ہم سے بہتر ہیں؛ یہ مغربیت تو صرف ظاہری ہے اپنی شناخت کو الگ کرنے کےلیے۔ لاشعوری طور پر انہیں بھی پتہ ہے ہمیں بھی کہ یہ ہم سے اس لیے لڑتے ہیں کیونکہ ہم پیسے میں اور طاقت میں ان سے کم ہیں۔


یہ جنگ یک طرفہ ہے ، ایک طرف ہم ہیں کہ امن چاہتے ہیں اور ایک طرف وہ ہیں کہ پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ یہ بتانا کہ ہمارا عورتوں سے، خوجاسراؤں سے، قادیانیوں سے، طلباء سے کیا سلوک ہونا چاہیے محض ان کا طریقہ ہے ہم پر اپنا غلبہ جتانے کا ۔ اور ہاں، یہ ایک کلاس وار ہے اور ہر اس میں آپ کی کلاس ہی یہ تعین کرتی ہے کہ آپ کس طرف ہیں۔

یہ لوگ ہم پر اوقات تنگ کر کے ہم کو جنگ پر آمادہ کر رہے ہیں۔
78045103_1462069317293270_1058740701530947584_o.jpg
 
اور ہاں، یہ ایک کلاس وار ہے
درست فرمایا آپ نے نے۔ یہ دراصل طبقاتی جنگ ہے۔ یہ محروموں کی آسودہ حالوں سے جنگ ہے۔ اسے لبرل اور مذہبی شدت پسندوں کی جنگ کہنا یا اسے کوئی اور نام دینا درست نہیں۔ ہاں اگر محروموں میں طلباء ، خواتین اور مذہبی اقلیتیں بھی شامل ہیں تو کیوں نہیں۔

البتہ خوشحال طبقے کے بچوں کو اپنی صفوں میں دیکھ کر بدظن نہ ہوں، یہ بھی آپ کے شانہ بہ شانہ ان طبقاتی نا انصافیوں کے خلاف جنگ لڑنے آئے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بورژوا طبقے کو للکار رہے ہیں۔
دراصل ان نعروں پر تنقید کرنے والے پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل ہو گئے اور 'لیدر جیکٹ، برگر اور ممی ڈیڈی بچے' وغیرہ کہتے رہے جو کہ انہی کے لیول کی اصطلاحیں ہیں، حالانکہ شاید وہ کہنا یہ چاہتے تھے اگر یہ بورژوا کو للکار رہے ہیں تو یہ خود کہاں کے پرولتاری ہیں؟

'ایشیا سرخ ہے' حوالے سے لمز کا نام بھی سامنے آیا یا ایسے ہی کالجز کا، پرولتاریہ کا بچہ کہاں یہاں ہوتا ہے؟ اول تو وہ کالج کا منہ دیکھتے ہی نہیں اور اگر دیکھتے بھی ہیں تو سب سے "نکمے" کالجز کا۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ مڈ ل اور اپر مڈل کلاس کے بچے ہیں اور ان کا جوش و خروش قبضہ مافیا کے خلاف ہے، وہ قبضہ مافیا جو سیاسی حوالے سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر قابض ہے اور معاشی حوالے سے زمین اور زر پر قابض ہے۔ اور یہ دونوں مالک اپنے علاوہ کسی کو آگے آنے نہیں دیتے، حکومتوں اور بیوروکریسی اور دولت پر وہی خاندان قابض ہیں جو تقسیم کے وقت بھی تھے بلکہ اس سے پہلے بھی اور کسی دوسرے کو اس "گروپ" میں گھسنے نہیں دیتے۔
 
Top