لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

الف نظامی

لائبریرین
"اس سب" کا مقصد کیا ہے؟
غربت کا خاتمہ؟
مساوات؟
انصاف؟
یا یہ سب کچھ؟

باتوں سے خوش ہو لینا ہماری عادت ہوگئی ہے اور اچھے کام کی باتیں کر لینے کو ہم اصل کام کے قائم مقام سمجھ لیتے ہیں۔ اس عادت کو چھوڑو ، کام کرو کام!
ملفوظ از حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ ( بانی تبلیغی جماعت)​

بحوالہ: "ملفوظات حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ" ، صفحہ ۳۴ ، مؤلف: حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ
 

جاسمن

لائبریرین
شاید یہ لوگ کام بھی کرتے ہوں۔۔۔
وکیلوں کا کوئی ایسا گروپ تشکیل دیا ہو جو بغیر فیس لیے انصاف کی فراہمی میں مدد دیتا ہو۔
غریبوں کی عملی مدد کرتے ہوں۔ کسی کو روزگار سے لگاتے ہوں، کسی کی دوا کا بندوبست کرتے ہوں۔
کچی آبادیوں میں کوئی میڈیکل کیمپ لگاتے ہوں۔
غریبوں کے بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کا کوئی منصوبہ زیر تکمیل ہو۔۔۔۔
گمان اچھا ہی رکھنا چاہیے۔۔۔۔:)
 

الف نظامی

لائبریرین
شاید یہ لوگ کام بھی کرتے ہوں۔۔۔
وکیلوں کا کوئی ایسا گروپ تشکیل دیا ہو جو بغیر فیس لیے انصاف کی فراہمی میں مدد دیتا ہو۔
غریبوں کی عملی مدد کرتے ہوں۔ کسی کو روزگار سے لگاتے ہوں، کسی کی دوا کا بندوبست کرتے ہوں۔
کچی آبادیوں میں کوئی میڈیکل کیمپ لگاتے ہوں۔
غریبوں کے بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کا کوئی منصوبہ زیر تکمیل ہو۔۔۔۔
گمان اچھا ہی رکھنا چاہیے۔۔۔۔:)
بالکل اچھا گمان رکھنا چاہیے۔
شاید یہ لوگ کام بھی کرتے ہوں
 

جاسمن

لائبریرین
ماشاءاللہ۔
اللہ ان کاموں میں مزید برکتیں عطا فرمائے۔ وسائل و افرادی قوت عطا فرمائے۔ قبول و منظور کرے۔ آمین!
 

جاسم محمد

محفلین
فیض میلہ، مہنگی جیکٹ اور سستی سوچ
’یہ مت دیکھو کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ کہنے والا کیا پہنا ہوا ہے۔ لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی ہے تو بات منہ پر مار دو۔ عورت ہوکر لیدر جیکٹ پہنی ہوئی ہے تو منہ توڑ کے عبرتِ زمانہ کے لیے کلمہ چوک پہ رکھ دو۔‘

فرنود عالم
صحافی، تجزیہ کار
ہفتہ 23 نومبر 2019 9:15

54486-1826429605.jpg



کتاب کے بیچ سے بات کرنے کی بجائے ہم نے کہانی لیدر جیکٹ پر ڈال دی ہے۔ لیدر جیکٹ کتنی ہی وزنی کیوں نہ ہوجائے، وہ ہماری بات میں کتنا وزن ڈال پائے گی؟ (ویڈیو سکرین گریب)

مجھے آج تک فیض میلے میں شرکت کا موقع نہیں ملا۔ افسوس ہے! ہر بار اس میلے میں جگمگ ستاروں کو جھلملاتا دیکھتا ہوں تو افسوس بڑھ جاتا ہے۔ بنیاد کمرشل ہو یا نان کمرشل، ہر اُس محفل کو دیکھ کر طبعیت جی اٹھتی ہے جس میں ترقی پسند رجحانات رکھنے والے ہنستے بولتے اور ناچتے گاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا جہاں میں ترقی پسندوں کے اکٹھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ ہمیں یہ خزانے شاید ہی خرابوں میں ملیں۔ اب سال میں ایک آدھ بار ہی سہی، بہشت کی جانب کوئی کھڑکی کھلی دیکھ لیں تو لپک کے اتنی سانس کھینچ لیتے ہیں کہ پورے جنم کو کافی ہوجاتی ہے۔ فیض فرما گئے ؎

حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے

فیض میلہ تو پچھلے سال بھی ہوا تھا۔ یہ سارے جھمیلے جو اِس سال ہوئے، پچھلے برس کے میلے میں بھی ہوئے تھے۔ میں پشتو اتنڑ، بلوچی چاپ، سرائیکی جھومر، سندھی ناچڑ اور پنجابی بھنگڑے کی بات نہیں کر رہا۔ اُنہی انقلابی نعروں کی بات کر رہا ہوں جن سے ایشیا لال ہو نہ ہو، مجھ جیسے کاہلوں کے کان ضرور لال ہوگئے۔ پچھلے برس یہی نعرے تھے، ڈھول کی یہی تھاپ تھی، یہی ردھم تھا، ایسی ہی روانی تھی، یہی مقام تھا، اتنی ہی تعداد تھی اور یہی آہنگ و بانکپن تھا۔ مگر ویڈیو وائرل ہوئی، کسی نے خبر لی اور نہ کسی نے حرفِ دشنام ارزاں کیا۔ آج وہی جوان اُسی مقام پر اسی تعداد، اُنہی نعروں، اُسی انداز اور اُسی ترنگ کے ساتھ سرفروشی کی تمنا ظاہر کرتے دکھائی دیے تو سوشل میڈیا کی ہر دیوار یروشلم کی دیوارِ گریہ بن گئی۔ یہ ناوکِ دشنام فقیہِ شہر کی ہوتی تو چلو کوئی بات تھی۔ قیامت تو یہ ہے کہ یہ طرزِ ملامت اپنوں کی اور کچھ اپنے جیسوں کی ہے۔ یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح۔ آخر کیوں؟

اِس کیوں کے اُتنے ہی جواب ہوسکتے ہیں جتنے کہ منہ ہیں۔ میری رائے میں پچھلے برس کے نعروں کو جانے اس لیے دیا گیا کہ اُس میں مرکزی کردار ایک لڑکا تھا۔ اِس بار کے نعروں پر زمانہ اس لیے حرف گیر ہوا کہ یہاں مرکزی حیثیت ایک لڑکی کو حاصل تھی۔ میری اِس بات کو کسی جامد پیمانے پر پرکھ کر بہ سہولت مسترد کیا جاسکتا ہے۔ ضرور کیجیے گا، مگر اتنا کہنے کی اجازت مجھے پھر بھی چاہیے ہوگی کہ پاسبانِ حرم کے شعور سے یہاں کوئی شکایت نہیں ہے۔ عقل پرستوں کے لاشعور سے شکوہ آن پڑا ہے۔ ہم نصابی طور پر تو یہ جان گئے ہیں کہ عورت کا مرکزی مقام کوئی قابلِ گرفت بات نہیں ہوتی۔ نصاب سے مگر باہر جاکر اِس بات کو تسلیم کرنے میں ہمیں ابھی بھی نفسیاتی دشواریوں کا سامنا ہے۔ ہم دراصل اُس بات پر ناراض ہیں جو ہم کہہ نہیں پا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے بیچ سے بات کرنے کی بجائے ہم نے کہانی لیدر جیکٹ پر ڈال دی ہے۔ لیدر جیکٹ کتنی ہی وزنی کیوں نہ ہوجائے، وہ ہماری بات میں کتنا وزن ڈال پائے گی؟

ہمیں بچپن میں عورت کے حوالے سے جو پڑھایا، سمجھایا گیا اور دکھایا گیا وہ فرسودہ قرار پاکر بھی ہمارے لاشعور سے چمٹا ہوا ہے۔ لاشعور سے چمٹی ہوئی نفرتوں میں ایک نفرت وہ بھی ہے جو ہم خوش حال اور آسودہ حال لوگوں سے کرتے ہیں۔ ہمارے زندگی کے بہت سارے دکھ ہیں۔ کسی بھی شخص کو اچھی گاڑی میں دیکھ لیں تو خیال کرتے ہیں کہ ہمارے دکھوں کا ذمہ دار یہی شخص ہے۔ ہماری کچھ نا آسودگیاں ہیں جو ہمیں ورثے میں ملی ہیں اور خود پر ہم نے طاری کرلی ہیں۔ کسی کو آسودہ شبستان میں سیہ مستیاں کرتا دیکھ لیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئی ہیں۔ ہمارے دوستوں میں کوئی شخص اچانک کسی بیش قیمت گاڑی کا مالک بن جائے، پھر چاہے وہ کتنا ہی خاک نشین ہو، ہمیں لگتا ہے کہ سالا مغرور ہوگیا ہے۔ ایسے میں کچھ نہ بن پڑا تو بزرگوں نے غربت وافلاس کو گلوریفائی کردیا۔ درویشی اور فقیری کی اوڑھنیاں اوڑھ کر اپنی لاپروائی اور غفلت کو ہم نے جواز مہیا کردیا۔ اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کسی ترقی پسند کارکن کے لاپتہ ہونے پر جس طرح اہل خانہ کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ بچہ مذہبی تھا، اب لوگوں کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم جدی پشتی غریب غربا ہیں۔

ہوتے ہوتے اب ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی کی بات پر تب تک اعتبار ہی نہیں آتا جب تک وہ میر کی طرح پراگندہ حال نہ ہو۔ پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس شاعر کوئی شعر کہہ دے تو شعر اپنے معانی کھودیتا ہے۔ جوتوں پر دھول اور ویسٹ کوٹ پر سلوٹیں نہ پڑی ہوں تو لگتا ہے صاحب حقیقت سے بہت دور ہیں۔ نتیجتاً تازہ زمانے کے شاعروں نے خود پر تقریباً لازم ہی کرلیا ہے کہ چوڑی قمیصیں پہنیں گے، بالوں میں ہر گز کنگھی نہیں کریں گے اور جتنا ممکن ہوسکے نہانے سے گریز کریں گے۔ مقام سگریٹ نوشی کے لیے کتنا ہی ناموزوں ہو، اپنے سنکی ہونے کا یقین دلانے کے لیے ایک بار سگریٹ جلانے کی کوشش ضرور کریں گے۔ ایش ٹرے کے ہوتے ہوئے بھی ایش چائے کے کپ یا فرش پر جھاڑیں گے۔ کوشش کریں گے کہ جب بات کریں تو منہ سے کیپسن اور گولڈ لیف کے بھپکے ضرور آئیں۔ انہیں لگتا ہے ایسا نہیں ہوگا تو چاہنے والوں تک شعر ٹھیک سے پہنچ نہیں پائے گا۔

عمران خان آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ مغربی تہذیب وتمدن میں پلے بڑھے ہیں۔ زندگی میں جو پہنا جاسکتا تھا، انہوں نے پہنا۔ جو اتارا جاسکتا تھا، انہوں نے اتارا۔ اب جب معاملہ اپنے ہی دیس میں آن پڑا ہے تو علامہ اقبال کی طرح اپنی پشیمانی کا اظہار مغرب کی طرف تھوک کر کرنا پڑ رہا ہے۔ مغرب میں رہ کر بھی مغرب سے متاثر نہ ہونے کا دعویٰ اس معاشرے میں منہ مانگے دام بکتا ہے۔ خواہ یہ دعویٰ آپ عمر کے آخری حصے میں کیوں نہ کر رہے ہوں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے بھی خان صاحب کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک بغیر استری کے کپڑے پہننا ہے۔ آپ اپنے دُکھ درد کسی کارکن کے سامنے رکھ دیں، وہ جھٹ سے خان صاحب کا دامن سامنے رکھ دے گا، یہ دیکھیں میرے قائد کے دامن میں دو موریاں ہیں۔ بھٹو صاحب نے جس طرح سوشل ازم کے ساتھ اسلام لگادیا تھا، اسی طرح اپنی شخصیت کے ساتھ کھلا گریبان اور لٹکے ہوئے آستین جوڑنے پڑے۔ آج بلاول بھٹو پر بھی ایک بڑی تہمت یہ ہے کہ باہر کے پڑے ہیں اور آسودہ خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ اسی واسطے پینٹ کوٹ مستقل بنیادوں پر انہیں ترک کرنا پڑا ہے۔ تقریر کے دوران آستین لٹکالیتے ہیں تاکہ سند رہے کہ اُن کی تعمیر میں بھی ایک صورت خرابی کی مضمر ہے۔ پی پی پی اپنی کوئی نسبت رہی ہو یا نہ رہی ہو، مگر بے نظیر بھٹو پر ہم جان و تن فدا رہے۔ اُن کی شخصیت کی خوبصورتی ہی یہ رہی کہ ہزار دکھ جھیل کر بھی کبھی منیر نیازی کی طرح اکتائے ہوئے رہنے کی عادت نہیں ڈالی۔ وقت بے وقت جذباتی حملے نہیں کیے۔ اپنے ہونٹ اور آنکھوں میں کبھی سوگ کے رنگ نہیں بھرے۔ سادگی کا مہنگا ترین فیشن بھی اختیار نہیں کیا۔ کاجل سُرخی لگانے پر کبھی عذر میں مبتلا نہیں ہوئیں۔ یعنی ؎

آمد پہ تیری عطر وچراغ وسبو نہ ہوں

اتنا بھی بود وباش کو سادہ نہیں کیا

کسی اچھے بھلے معقول سیاسی کارکن سے پوچھ لیں کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل کیا ہے۔ کچھ دیر دماغ پر زور دینے کے بعد کہے گا، دو تین سو حرام خوروں کو چوک میں لٹکادو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اِن دو تین سو حرام خوروں میں اُس کے اپنے قبیلے کے علاوہ ہر فرد شامل ہوتا ہے۔ ہمارے کالم نگار اور اینکر بہت وثوق کے ساتھ چین میں قتل عام کی کچھ ایسی تاریخ سناتے ہیں جس کا خود چینی مورخین کو بھی علم نہیں ہوسکا ہے۔ کالم نگار اور اینکر جب اس طرح کے واقعات سناکر قتلِ عام کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو اپنے تئیں انہوں نے تصور کیا ہوتا ہے کہ قتلِ عام والے لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے صحافی مقتل میں منشی لگے ہوئے ہوں گے۔ مقتدرہ کے سالار پنڈی میں صحافیوں اور کراچی میں تاجروں سے گفتگو کے دوران کہتے ہیں، پانچ ہزار لوگ مارنے پڑیں گے تو ہی کچھ بدلاؤ آوے گا۔ ان پانچ ہزار میں بندوقچی کے علاوہ سب شامل ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں، چائنا نے پانچ سو لوگ مارے تھے میں کم از کم بھی پچاس لوگوں کو جیل میں ڈالنا چاہتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے وزیر اعظم ایک غلط سی نگاہ بھی کابینہ پر نہیں ڈالتے۔ جھوٹ سے پہلے درود شریف پڑھنے والے وزرا اٹھتے بیٹھتے پانچ سو لٹیرے نامزد کیے پھرتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ محرومی کے احساس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی نفسیات ہیں۔ ہم انہی لوگوں کا قتلِ عام چاہتے ہیں جن کی وجہ سے کاروبارِ مملکت چل رہا ہوتا ہے۔ ہم خود کتنے ہی خوش حال ہوجائیں، اپنے آپ میں ہم محکوم ہی ہوتے ہیں۔ حریف ہم سے کروڑوں روپے پیچھے کیوں نہ ہو، استعمار اور سامراج کی سازشوں میں اُس غریب کو ہم براہ راست حصہ دار سمجھتے ہیں۔ فیض فیسٹول کے جوانوں پر لیدر کی جیکٹ کا طعنہ کسنے والے بھی سیاسی کارکن ہی ہیں۔ یہ طعنہ انہوں نے ایپل لیپ ٹاپ کی مدد سے مارا ہوتا ہے، مگر میری طرح چونکہ عمر بھر انہوں نے خود کو غریب ہی کہا اور لکھا ہوتا ہے تو ایک دن اپنے غریب ہونے کا انہیں یقین بھی ہوچکا ہوتا ہے۔ بیسیوں بار اپنے اردو میڈیم صحافی اور شاعر دوستوں کو دیکھا کہ وہ انگلش میڈیم صحافیوں اور شاعروں پر ایئر کنڈیشنڈ ڈرائنگ رومز کا طعن کس رہے ہوتے ہیں۔ اسی لمحے دیکھتا ہوں تو ان کی چوڑی دیوار پر ڈیڑھ ٹن کا اے سی سولہ پہ چل رہا ہوتا ہے۔ خود فریبی کے اس گھن چکر سے ہم تب ہی نکل پاتے ہیں جب کوئی سرفروش زور سے ڈھول پیٹتا ہے یا کوئی لیدر پوش زور سے چلاتی ہے۔ کچھ نہیں ہوتا، بس گھبراہٹ میں ہم اپنا داخلی تضاد اُگل دیتے ہیں۔

محرومی کی اسی نفسیات سے ایک اور کمبختی نے جنم لیا ہے۔ مذہب کی طرح غربت بھی اب خیر سے کوالیفیکیشن بن گئی ہے۔ اون کے سویٹر میں پیدا ہونے والے بچے بھی سگرٹ کے دھویں کا چھلہ بناکر بہت کرب کے ساتھ کہتے ہیں، میں سیلف میڈ ہوں۔ اگر کوئی ہے بھی، تو کیا پرچے میں اس کے پانچ اضافی نمبر دے دیے جائیں؟ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اب نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے امیدوار زیرلب یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم سیلف میڈ ہیں۔ ہمارے شعورِ عام میں اس کا واضح مطلب اب یہ بن چکا ہے کہ جس طرح کسی احمدی ماں کے ہاں جنم لینا شہری کا قصور ہے اسی طرح امیر باپ کے ہاں جنم لینا ایک قابلِ دست اندازیِ زمانہ جرم ہے۔ یعنی یہ مت دیکھو کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ کہنے والا کیا پہنا ہوا ہے۔ لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی ہے تو بات منہ پر مار دو۔ عورت ہوکر لیدر جیکٹ پہنی ہوئی ہے تو منہ توڑ کے عبرتِ زمانہ کے لیے کلمہ چوک پہ رکھ دو۔
 

جاسم محمد

محفلین
آہا۔۔۔ پھر تو سوشل میڈیا جدید سرخوں سے بھرا پڑا ہے۔ ;)
سُرخے، لنڈے کے لبرل: پاکستان کو نوجوان قیادت کی ضرورت ہے۔ وہی پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
عمران خان: یہ ہے پاکستان کی نوجوان قیادت:
سُرخے، لنڈے کے لبرل: :notlistening:

سُرخوں، لنڈے کے لبرلز کو اگر عمران خان سے اتنا شدید بغض نہ ہوتا تو وہ لیدر جیکٹ کی بجائے مراد سعید کو نوجوانوں کا لیڈر مانتے۔
 
فیض میلہ، مہنگی جیکٹ اور سستی سوچ
جو قوم اپنی ماں کی عزت نہیں کرتی، وہ قوم دنیا بھر میں ذلیل اور خوار ہوتی ہے۔ یہ لڑکی آج نہیں تو کل ضرور اس قوم کے بچوں کی ماں بنے گی، اس کی جیکٹ جیسی بھی ہو، اس کو مکمل طور پر ڈھانپتی ہے ، لیکن بیڑہ غرق ہو اس سوچ کا کے قوم کی کسی ماں کی کوئی عزت نہیں، کسی بہن کی کوئی عزت نہیں ، کسی بیوی کی کوئی عزت نہیں۔ اگر بولے تو زبان کاٹ دو، ورنہ گلا کاٹ دو، تو پھر یہی سلوک ان بکواسیوں کی ماؤں کے ساتھ بھی ہوگا۔

یہ وہی لوگ اور ان کے حمایتی ہے ہیں جنہوں نے نمرتا کو قتل کیا
انہی لوگوں اور اسی طرح کی سوچ رکھنے والوں نے اس بچی کو سڑک پر ننگا گھمایا۔
اور یہی وہ نظامی ، بریلوی، دیوبندی ، مصطفوی گروپ ہیں جن کی سوچوں کے پرچار کے باعث اس لڑکی کو ننگا گھمایا گیا

کب ختم ہوگی یہ ناجائز سوچ ، کب ہمارے نبی اکرم کی گواہی پوری ہوگی کہ ایک نوجوان عورت سونا اچھالتی چلی جائے گی، اور اس کو ہراساں کرنے والا کوئی نا ہوگا؟

کب مسلمان اپنی ہی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کرنا سیکھیں گے؟

کب مہنگی جیکٹ پہن کر سستا سوچنا بند کریں گے ؟
 
آخری تدوین:
ایوب خان کی آمریت کے خلاف سب سے پہلے طلباء اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ہمیں یاد ہے، ڈاؤ میڈیکل کالج سے نکلنے والے طلبا کے جلوس کو ہم نے اپنے گھر کی بالکونی سے دیکھا تھا۔
 
آخری تدوین:
نظامی ، بریلوی، دیوبندی ، مصطفوی گروپ کی کس سوچ کو اس کے خاوند نے رہنما اصول بنا کر ننگا گھمایا ؟

برادر محترم، آپ کا سوال اچھا ہے، اور میں بہت ہی احترام اور محبت سے اس کا جواب دے رہا ہوں۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان قرار نہیں دیتے اور طرح طرح کے برانڈ نام استعمال کرتے ہیں، ان کے پاس کیا سوچ ہے؟ خود آگہی کے لئے یہ سوال اہم ہے۔ یہ سوچ ہم کو بغداد شریف کے پیروی کرنے والے فرقے وافر مقدار میں فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالی کا فرمان قراں حکیم ہم کو عورتوں کی مساوی عزت کرنا سکھاتا ہے۔ اس دھاگے کو ہی لے لیجئے۔ اس آرٹیکل کا لکھنے والا، اس لڑکی کی جیکٹ کو نشانہ بنا کر طرح طرح کے سوچ کے زاویوں کا پرچار کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ محترم خواتین کو حقیر قرار دینا ہے۔ آپ کسی بھی زاویئے سے اس محترم خاتون کی جیکٹ دیکھ کر اس کی سوچ کو سستا قرار نہیں دے سکتے۔ لیکن یہ لوگ جو ایسے آرٹیکل لکھتے ہیں ، عورتوں کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے ۔ یہ لڑکی کل کسی کی ماں بنے گی، جو گالی اس کو دی جارہی ہے ، کیا اس آرٹیکل کا لکھنے ولا کل یہی گالی اپنی ماں کے لئے سن سکے گا، اس لڑکی کی اولاد کے منہہ سے؟

ان فرقوں کی سوچ ہے کہ
1۔ عورتیں اندرون خانہ رہیں، نوکری، تعلیم ، احتجاج، کاروبار کسی طور بھی ان خواتین کا حق نہیں ہے۔
2۔محترم خواتین، ان فرقوں کے مولویوں کا لباس پہنیں۔ دوپٹے سے اپنے آپ کو ڈھانپیں، اگر جیکٹ سے ڈھانپا تو گناہ کیا
3۔ عورتوں کو زیادہ تعلیم نا دی جائے ، اور تو ار قرآن حکیم کی کچھ سورتیں ان کو پڑھانے پر پابندی ہے۔
4۔ عورت کو کسی بے معمولی بے پردگی پر قتل کردیا جائے یا سنگسار کردیا جائے
5۔ عورت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اور اس کو شوہر کی غلامی پر مجبور کیا جائے۔
6۔ عورت کو یہودی قسم کے پردے میں بند کیا جائے نا کہ قرآن حکیم کے فرمان کے مطابق مناسب طریقے سے ڈھانپنے پر زور دیا جائے۔
7۔ قرآن حکیم کے تراجم میں بھانجی ماری جائے اور آیات کا ترجمہ توڑ مڑوڑ کر اس طرح کیا جائے کہ جس سے عورت کو سرتاپا چادر میں ، مہںہ اور سر ڈھانپ کر ، شدید شرمندگی کی حالت میں باہر جانے پر مجبور کیا جائے
8۔ عورتوں کا یونیفارم، مولوی طے کریں گے۔


آپ کو ان نکات میں سے کس نکتے کا ریفرنس ، ان فرقوں کی کتب سے درکار ہے؟ مجھے فراہم کرکے خوشی ہوگی ۔ لیکن اس سے آپ میں خود آگہی نہیں آئے گی بلکہ آپ اپنے موقف کا دفاع کریں گے۔

اب آپ سے صرف یہ سوالات :
1۔ کیا عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے؟ اگر ہے تو وہ کیوں نہیں جا پاتی ہیں؟
2۔ کیا آپ کے خیال میں رسول اکرم بھی اسی طرح نماز پڑھاتے تھے ؟ تو پھر باقی مشاورت کب اور کہاں ہوتی تھی؟
3۔ کیا اس مشاورت میں عورتیں شریک ہوتی تھیں؟ اگر نہیں ہوتی تھیں تو کیا وہ محترم خواتین، بناء کسی ہدایت کے بغیر کسی سمجھ کے جنگوں مٰں شرک ہوتی تھیں؟

رب کریم ہم کو جاہلوں میں سے ہونے سے بچائے۔

والسلام
 
ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ
ویب ڈیسک | عمران گبول | طوبی مسعود | غالب نہاداپ ڈیٹ 29 نومبر 2019
Facebook Count56
Twitter Share
0

PSC@PSCollective_

https://twitter.com/PSCollective_/status/1200224316396318722

Final locations of #StudentsSolidarityMarch organised by Students Action Committee today.

Lahore
Istanbul Chowk to Punjab Assembly
2.00 pm

Islamabad
Press Club to D-Chowk
2.00 pm

Rawlakot
A) Degree college to Zaheer Chowk
10.30 am
B) Poonch University to Main Road
11.00 am


317

6:25 AM - Nov 29, 2019
Twitter Ads info and privacy

196 people are talking about this





ملک کے کچھ مقامات پر یہ مارچ صبح کے وقت میں شروع ہوا جبکہ دیگر شہروں میں اس کے آغاز کا وقت سہ پہر تھا۔

5de0f77dda647.jpg

مارچ کے شرکا نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے —فوٹو: طوبیٰ مسعود


کراچی
کراچی میں بھی طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا جارہا ہے، ریگل چوک صدر سے کراچی پریس کلب تک اس مارچ میں طلبہ سمیت سول سوسائٹی کے اراکین محمد حنیف، جبران ناصر اور دیگر شریک ہیں۔

مظاہرین نے ایٹریم مال کے بالمقابل فاطمہ جناح روڈ سے مارچ شروع کیا تو دکانداروں نے شٹر گرانا شروع کردیے، جس کے بعد مارچ اپنے راستے سے ہوتا ہوا کراچی پریس کلب پہنچ گیا۔

مارچ میں شریک طلبہ کی جانب سے 'ہم کیا چاہتے؟ آزادی!" کے نعرے لگائے گئے۔

اس موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جبران ناصر نے کہا کہ 'میں ہمارے مستقبل کی حمایت کے لیے باہر نکلا ہوں، طلبہ ہمارا مستقبل ہیں اور ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ اگر ہم ماضی کے کارناموں پر روشنی ڈالتے رہے تو ہمارا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوگا'۔

جبران ناصر کا کہنا تھا کہ 'ملک میں جو حقیقی اور نئی قیادت آتی ہے وہ آبپارا اور پنڈی کے راستوں کے ذریعے نہیں آئے گی بلکہ کالجز اور یونیورسٹیز سے آئے گی'۔

کراچی میں ہونے والے مارچ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی شریک ہوئے اور انہوں نے مبینہ طور پر طلبہ کو ہراساں کرنے میں ملوث ہونے پر بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔


#StudentsSolidartyMarch@SindhiBeing

https://twitter.com/SindhiBeing/status/1200393450274873345

#StudentsSolidarityMarch in Karachi Press Club...
پا بہ جولان چلو مست و رقصاں چلو


https://twitter.com/intent/like?tweet_id=1200393450274873345
5:37 PM - Nov 29, 2019
Twitter Ads info and privacy

See #StudentsSolidartyMarch's other Tweets





اسی طرح گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی مارچ میں شریک ہوئے اور انہوں نے علاقے میں سہولیات کی کمی اور ہائر ایجوکیشن پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔

اس حوالے سے ایک شریک طالبعلم کا کہنا تھا کہ 'گلگت بلتستان میں صرف ایک یونیورسٹی ہے اور وہ بھی غیرمعیاری ہے، ہم وہاں پڑھ نہیں سکتے اور اسے وجہ سے ہمیں کراچی آنا پڑا'۔

مارچ میں شامل شہر کی نجی جامعات کے طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ 'کیمپس میں قیمتیں بڑھنے، ڈریس کوڈ اور ہراساں کرنے پر' احتجاج کر رہے ہیں۔

لاہور
اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ میں شرکت کرنے کے ناصر باغ میں جمع ہوئے اور وہاں سے پنجاب اسمبلی کی طرف مارچ کیا۔

5de10c89b99d2.jpg

پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرے کا منظر — فوٹو: عمران گبول


5de10680d858f.jpg

پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرے کا منظر — فوٹو: عمران گبول


پشاور
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں طلبہ اور سول سوسائٹی کے اراکین نے پشاور پریس کلب سے احتجاجی ریلی نکالی اور صوبائی اسمبلی پہنچ کر شرکا پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔


Aima Khosa@aimaMK

https://twitter.com/aimaMK/status/1200348666151809024

Scenes from #StudentsSolidarityMarch coming in. This is Peshawar




547

2:39 PM - Nov 29, 2019
Twitter Ads info and privacy

164 people are talking about this





کوئٹہ
بلوچستان یونیورسٹی سمیت مختلف جامعات میں طلبہ تنظیموں پر سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے پابندی کے خلاف اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

احتجاجی ریلی میں مختلف طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔

ریلی کا آغاز بلدیہ لان سے ہوا اور شرکا مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے واپس بلدیہ لان پہنچے جہاں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

ریلی کے شرکا نے مختلف جامعات میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

مارچ کے شرکا کی حمایت کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کی۔

اپنی ٹوئٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے لکھا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ طلبہ یونین کی حمایت کی ہے، شہید محترمہ بیظیر بھٹو کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے اقدام کو جان بوجھ کر معاشرے کو ناکارہ بنانے کے لیے کالعدم کیا گیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے لکھا کہ آج طلبہ، یونینز کی بحالی، پڑھنے کے حق پر عمل درآمد، سرکاری جامعات کی نجکاری کے خاتمے، جنسی ہراسانی کے قانون کے نفاذ، طلبہ کی رہائش اور کمپسز کے ڈی ملیٹرائزیشن کے لیے طلبہ یکجہتی مارچ میں شریک ہورہے ہیں۔


BilawalBhuttoZardari

✔@BBhuttoZardari

https://twitter.com/BBhuttoZardari/status/1200333153434587136

The PPP has always supported Student unions. The restoration of student unions by SMBB was purposely undone to depoliticize society. Today students are marching in the #StudentSolidarityMarch for the restoration of unions, implementation of right to education, 1/2


2,156

1:38 PM - Nov 29, 2019
Twitter Ads info and privacy

1,027 people are talking about this





اپنے ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'طلبہ کی نئی نسل کی جانب سے پرامن جمہوری عمل کے لیے سرگرمی کا جذبہ اور تڑپ واقعی متاثر کن ہے۔

اس سے قبل ملک بھر میں پی ایس سی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی اور دیگر مطالبات کے لیے قومی سطح پر ایک (اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی) قائم کی گئی تھی۔

پنجاب، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر سے طلبہ تنظیموں کے نمائندے اس ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں۔

اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے اپنے مارچ کے انتظامات کے لیے گزشتہ 3 ہفتوں سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں کارنر میٹنگ کا انعقاد کیا جارہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے طلبہ کو مایوس کیا اور بے سمت چھوڑ دیا ہے اور ہائر ایجوکیشن بجٹ کو تقریباً نصف تک کم کردیا ہے جبکہ پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں لے آئی ہے جہاں تعلیم پر بہت کم رقم خرچ کیا جاتا ہے۔

5de0fccd131a9.jpg

طلبہ مختلف مطالبات لیے سڑکوں پر نکل آئے —فوٹو: عمران گبول


اس حوالے سے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور سے جرنلزم میں گریجویشن کرنے والے اور اس ایونٹ کے منتظمین میں سے ایک حیدر کلیم کا کہنا تھا کہ 'ہمیں سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کرنے کی وجہ وہ حلف نامہ ہے جس پر داخلے کے وقت ہر طلبہ کو دستخط کرنا ہوتے ہیں، بنیادی طور پر طلبہ یونین پر کوئی پابندی نہیں لیکن کچھ مخصوص احکامات کے ذریعے پابندیاں عائد ہیں لہٰذا طلبہ کیمپس میں مظاہرے یا سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے'۔

پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی آر ایس ایف) اور پی ایس سی کے منتظم حیدر کلیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مارچ کے شرکا کے بہت سے مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ ان پابندیوں کو ہٹایا جائے جس نے طلبہ کو یونینز بنانے سے روکا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حلف نامے کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا جارہا تھا لیکن وہاں اس معاملے کے حل ہونے کی کم امید تھی۔

کراچی کی ریگل چوک سے پریس کلب تک ہونے والے اس مارچ میں شامل ایک پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم نے ڈان کو بتایا کہ بنیادی طور پر ہمارے 10 مطالبات ہیں لیکن ہر صوبے یا یونٹ کی جانب سے ضرورت کے مطابق فہرست میں مزید اضافہ کیا گیا۔

اس مارچ سے قبل بین الاقوامی جامعات میں پڑھنے والے کچھ پاکستانی طلبہ لیڈرز نے مارچ کی حمایت میں آواز بلند کی تھی۔
 

فرقان احمد

محفلین
اب جب کہ فیض کے جانشین و متاثرین تک اپنی دکان بڑھا گئے تو اس اکٹھ کو موجودہ بوسیدہ نظام کے خلاف محض علامتی احتجاج تصور کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب جب کہ فیض کے جانشین و متاثرین تک اپنی دکان بڑھا گئے تو اس اکٹھ کو موجودہ بوسیدہ نظام کے خلاف محض علامتی احتجاج تصور کیا جائے۔
سرخوں کا زمانہ ۶۰، ۷۰ کی دہائی تھی۔ پوری دنیا نے ان کے نظریات اپنا کر اپنی معیشتیں تباہ کرکے مسترد کر دیے ہیں۔ پاکستان انوکھا ملک ہے جہاں سرخے دوبارہ زندہ ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں :)
 
Top