ناروے میں اسلام مخالف ریلی

جاسم محمد

محفلین
یہ صرف مسلمان کرتے ہیں یا دیگر تارکین وطن بھی؟؟؟
تیسری دنیا سے سری لنکا، ویتنام، تھائی لینڈ، چین، بھارت وغیرہ کے تارکین وطن بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں البتہ ان کے حالات مسلم دنیا سے آئے تارکین وطنوں جتنے خراب نہیں ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
البتہ یا تو آپ بھی دہریوں کے رنگ میں رنگے جا چکے ہیں بس ابھی تک رنگ چوکھا نہیں چڑھا یا پھر ڈرپوک ہیں کہ مرمت نہیں تو کم از کم مذمت ہی کر سکیں۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مکروہ فعل شدید قابل مذمت ہے۔
میں ذاتی طور پر بھی کتب جلانے کے حق میں نہیں کہ مجھے اس کی راکھ سے جرمن نازیوں کی بدبو آتی ہے۔ بہرحال جب تک قوانین اس قسم کے آزادی اظہار اور احتجاج کو لگام نہیں ڈالتے۔ اس حوالہ سے مزید کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
ہم جس معاشرہ میں رہتے ہیں اس کی اکثریت لادین اور سیکولر ہے۔ قانون سازی میں مذہب کا ایک نکتہ تک شامل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آئندہ اگر ایسا کوئی احتجاج ہوا تو پھر یہی تاریخ دہرانے کی کوشش کی جائے گی :(
 

جاسم محمد

محفلین
ملٹی کلچرل ازم کو اس واقعے کی ذمہ داری لینی چاہیے اور سفید و سیاہ کے درمیان مساوات و مواخات قائم کرنی چاہیے۔
یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ ناروے کی اکثریت آج دہریہ ہے۔ اس لئے ملک کے آئین و قانون میں کسی خاص اقلیت کے جذبات کو مجروح ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
The country where most people don't believe in God
 

الف نظامی

لائبریرین
واضح رہے کہ ناروے میں ہی 2011 میں ایک اسلام مخالف شخص آندریس بریوک نے فائرنگ کرکے 77 افراد کو قتل کردیا تھا۔ عدالت نے اسے 21 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
Anders Behring Breivik - Wikipedia

----
یورپ کے بدلتے حالات میں جہاں عمومی طور پہ سارا یورپی سماج متاثر ہوسکتا ہے وہاں مسلمانوں کے لیے زیادہ بڑا چیلنج ہے۔ یورپ میں 21 ملین مسلم رہتے ہیں۔ اس حساس موڑ پر ان کی زیادہ تر تگ و دو دائیں بازو کی جماعتوں اور سفید فام نسل پرستوں پہ تنقید تک محدود ہے۔ سیکولرازم اور انسانی حقوق کی اصطلاحوں کا سہارا لے کر تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ یہ نعرے بائیں بازو کی جماعتیں بھی لگا چکی ہیں اس کے باوجود شناخت پسند سیاست مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ سخت گیر جماعتیں معیشت اور امن سے جڑے پیچیدہ سوالات کا سادہ سا جواب دیتی ہیں جس پہ یورپ کا عام آدمی یقین کر رہا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اپنے تحفظ اور حقوق کے لیے یورپ اور اس کی عوام کے ساتھ براہ راست مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جوروایتی طرز سے ہٹ کر اور نئے اسلوب میں ہو۔ مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ یورپ کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ اس کے لیے مسلم دنیا کا کردار بھی اہم ہے۔
----
’میں نے بھی بطور غیر ملکی کسی نہ کسی اندازمیں نسل پرستی کا سامنا کیا ہے خواہ وہ بس میں لوگوں کے جملے ہوں، یا شلوار قیمض میں دیکھ لوگوں کا ردعمل لیکن میرے خیال میں اس کا بریگزٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو نسل پرست ہیں وہ ہیں۔ نسل پرستی کے جذبات ہمیشہ سے موجود تھے لیکن اب وہ زیادہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔
---
’میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا تعلیم کےاختتام پر میں اپنے کریئر کا آغاز یہاں سے کرنا چاہوں گی جہاں صورتحال اتنی مبہم ہے۔ پہلے میں سوچ رہی تھی کہ اپنے کریئر کا آغاز کے ابتدائی چند سال میں یہیں گزاروں گی لیکن اب میں سوچ رہی ہوں کہ کیا مجھے ایسی جگہ رہنا چاہیے، جہاں ساری توجہ ملکی اور غیر ملکی ہونے پر مرکوز ہے۔ اب تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں برطانیہ میں کسی ملازمت کے لیے درخواست ہی نہیں دوں گی۔ یہ ایک لحاظ سے اچھا ہے کہ دوسرے ملکوں کا ٹیلنٹ اب یہاں نہیں ٹھہرے گا اور دوسرے ملکوں کو اس سے یقیناً فائدہ ہو گا۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
ناروے کی اکثریت کو دہریہ کہنا کسی طور صحیح نہیں ہے جب پچاس فیصد سے زائد نارویجین وہاں کے چرچ کے ممبر ہیں۔

رہی بات قرآن جلانے کی تو یہ جلانے والوں کی مرضی لیکن یہ کام کرنے والے لوگ فار رائٹ سے تعلق رکھتے ہیں جو امیگرنٹس کو بری نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ تعصب ہی بنیادی وجہ ہے۔

ناروے میں مسلم آبادی شاید 5 فیصد کے قریب ہے جو کہ کچھ زیادہ تعداد نہیں۔

مذہب کی توہین کے خلاف قوانین بالکل غلط ہوتے ہیں اور انہیں ختم کرنا ضروری ہے۔ کسی بھی مذہب سے اختلاف ہر شخص کا حق ہے۔ ہاں تمیز اور تہذیب سے اس حق کو استعمال کرنا بہتر ہے۔

بہت بیوقوف ہیں وہ مسلمان جو ان شعبدہ باز قرآن جلانے والوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ایسے مسلمان شاید پاکستان یا افغانستان میں بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ ویسے اکثر یورپین مسلمان (جاسم اور برطانوی پاکستانیوں کو چھوڑ کر) کافی حد تک یورپ میں سیٹ ہیں اور عجیب و غریب خیالات نہیں رکھتے

آخری بات یہ کہ جس مضمون سے لڑی کا آغاز ہوا اس میں کہیں ذکر نہیں کہ کتنے لوگ اس اسلام مخالف جلسے میں شامل تھے۔ یہ نہ ہو پتا چلے دو چار لوگ ہی تھے
 

جاسم محمد

محفلین
ناروے کی اکثریت کو دہریہ کہنا کسی طور صحیح نہیں ہے جب پچاس فیصد سے زائد نارویجین وہاں کے چرچ کے ممبر ہیں۔
چرچ کے ممبر نارویجن بچے پیدائش کے وقت از خود بن جاتے ہیں جب تک بڑے ہو کر اپنا نام اس رجسٹر سے خارج نہ کریں۔ اس کی عملی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہی ہے جو نیچے بیان کی گئی ہے۔
For first time, majority in Norway don’t believe in God
 

فاخر رضا

محفلین
دنیا دو حصوں میں بٹ رہی ہے
Either you are with us or against us
یہ بات ہمیں بش نے سکھائی تھی، ہم تو بہت چین سے رہ رہے تھے.
 

جاسم محمد

محفلین
آخری بات یہ کہ جس مضمون سے لڑی کا آغاز ہوا اس میں کہیں ذکر نہیں کہ کتنے لوگ اس اسلام مخالف جلسے میں شامل تھے۔ یہ نہ ہو پتا چلے دو چار لوگ ہی تھے
چونکہ یہ دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم ہے اس لئے ان کی حمایت میں لوگ باہر نہیں آتے۔ الٹا ان کے خلاف بائیں بازو کی لبرل جماعتیں بڑی تعداد میں کاؤنٹر احتجاج کیلئے آتی ہیں۔ جن میں مشتعل مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں۔ جو قرآن پاک کی بے حرمتی ہوتے ہی فوری حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ قبل یہ لوگ ہمارے شہر بھی احتجاج کرنے آئے تھے۔ اور اسی طرح قرآن پاک جلانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن پولیس نے روک دیا تو غصہ میں اسے زمین پر پٹخ دیا۔ جس پر مشتعل مسلمانوں نے روایتی حملہ کر دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور کچھ نہیں تو ٹیلی نار ہی کا بائیکاٹ کرو :)
آپ کی مرادیں پوری ہوئی۔ ناروے پورے ملک میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ سب لوگ موبائل سم جہاد میں شامل ہو کر ثواب کمائیں۔
ZNvQ5el.png
 
Top