ڈیل کا تاثر درست نہیں ہے احتساب کا عمل جاری رہے گا، وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
یہ رقم تین الگ الگ کرنسیوں میں مانگی جا رہی ہے یا صرف سمجھانے کے لئے تین کرنسیوں کا ذکر کیا گیا ہے؟
یہ پیسے ابھی جمع نہیں کروانے۔ صرف اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دینا ہے کہ اگر نواز شریف واپس نہ آیا تو ان سے یا ورثا سے یہ پیسے وصول کئے جائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لاہور ہائیکورٹ کا نواز شریف کا نام ECL سے نکالنے کا حکم


لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو ان کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔

گزشتہ روز درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر لاہور ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست قابل سماعت ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت یہیں ہوگی۔

فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی درخواست کو آج سماعت کے لیے مقرر کیا۔

نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم
جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی جس میں نیب پراسیکیوٹر، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور شہبازشریف کے وکیل درخواست پر دلائل دیے۔

دوران سماعت شہباز شریف کی جانب سے عدالتی حکم پر تحریری ضمانت جمع کرائی گئی جس کے جواب میں سرکاری وکلا کی جانب سے بھی بعض اعتراضات اٹھائے گئے۔

جس پر عدالت نے خود ڈرافٹ تیار کرکے دونوں فریقین کو دیا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے عدالتی ڈرافٹ کو تسلیم کر لیا گیا جب کہ سرکاری وکلاء نے مؤقف اختیار کیا گیا کہ مسودے میں کوئی ضمانت نہیں طلب کی گئی اس لیے انہیں عدالتی ڈرافٹ پر تحفظات ہیں۔

تاہم، عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو علاج کی غرض سے 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔

عدالتی ڈرافٹ کا متن
وقفے کے بعد عدالت کی جانب سے تیار کردہ مجوزہ ڈرافٹ وفاقی حکومت اور شہباز شریف کے وکلاء کو فراہم کیے گئے۔ شہباز شریف اور احسن اقبال نے بھی ڈرافٹ کا جائزہ لیا۔

عدالتی ڈرافٹ کے متن میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے لیکن اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے۔

متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتی نمائندہ سفارت خانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کر سکے گا۔

ن لیگ نے عدالتی ڈرافٹ قبول، سرکاری وکلاء کا اعتراض
شہباز شریف کے وکیل اشتر اوصاف نے جیو نیوز کو بتایا کہ عدالت نے ن لیگ کی استدعا منظور اور حکومتی مؤقف رد کر دیا ہے۔

عدالتی ڈرافٹ سے متعلق سوال پر اشتر اوصاف نے کہا کہ ہمیں عدالتی ڈرافٹ قبول ہے تاہم ذرائع کا بتانا ہے کہ سرکاری وکیل نے عدالتی ڈرافٹ پر اعتراض اٹھایا ہے اور تھوڑی دیر بعد حکومتی وکلاء عدالت کو اپنے اعتراض سے آگاہ کریں گے۔
EJftf-TTWs-AA3-MTR.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
مورخ لکھے گا کہ 2007 کی عدلیہ آزادی کی تحریک محض مشرف کو گھر بھجوانے کا بندوبست تھا اس کا عدلیہ کی آزادی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا
EJg-Ee-CCWk-AIhh-Tc.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
کیا لاجواب نظام اور کیا بے مثال ملک ہےکہ کرپشن کیس میں ضمانت پر رھا ملزم نے کرپشن کیس کے مجرم کی ضمانت دی اور ضمانت منظور بھی ہو گئی۔۔(منقول)
 

جاسم محمد

محفلین
جس کے بچے عدالت سے فرار ہیں, جو خود ملزم ہے آج عدالت نے اس شخص کی یقین دہانی لے کر قومی چور کو چھوڑ دیا :ROFLMAO:
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف سے متعلق عدالتی حکم چیلنج کرنے کا فیصلہ کابینہ کرے گی، اٹارنی جنرل
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1884706-anwarmansoor-1573991580-928-640x480.jpg

سزا معطلی کا مطلب سزا ختم ہونا نہیں، عدالتی فیصلے کے مطابق نوازشریف علاج کراکے واپس آئیں گے، اٹارنی جنرل۔ فوٹو: پی آئی ڈی


اسلام آباد: اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا یہ عبوری حکم نامہ ہے تام عدالتی حکم چیلنج کرنے کا فیصلہ کابینہ کرے گی۔

اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر اور اٹارنی جنرل انور منصور خان نے پریس کانفرنس کی، اس دوران شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہونے والی وعدہ خلافی ہمارے سامنے ہیں، سپریم کورٹ سے یہ صادق اور امین نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے چکے ہیں، ان کے 2 صاحب زادے اور ان کے سمدھی بھی مفرور ہوچکے ہیں لہذا انڈیمنٹی کی شرط ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے رکھی گئی جب کہ عدالت نے انڈیمنٹی بانڈ کی جگہ بیان حلفی رکھ دیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ سزا یافتہ مجرم کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جاسکتا لہذا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک بار باہر جانے کی اجازت دی، کابینہ کے فیصلے میں 4 نکات تھے، فیصلہ کیا گیا کہ ایک دفعہ اجازت مخصوص مدت کے لیے ہوگی اور مدت پوری ہونے پر واپس آئیں گے، حکومت پر لازم تھا کہ ان کی واپسی یقینی بنائے کیوں کہ ماضی میں بھی یہ وعدہ خلافی کرچکے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے کابینہ کے فیصلے کو ہی برقرار رکھا ہے، انڈیمنٹی کی شرط کو معطل کیا گیا مسترد نہیں، بیان حلفی پر عمل درآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کا کیس بن سکتاہے اور اب واپس نہ آئے تو یہ عدالت کے مجرم ہوں گے۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ان کا ماضی ٹھیک نہیں اس لئے عدالت نے بیان حلفی لیا، عدالت نے 4 ہفتے کا وقت دیا ہے، توسیع کے لیے انہیں دوبارہ عدالت جانا پڑے گا، نوازشریف کی ضمانت کی تاریخ سے 4 ہفتے کا وقت شروع ہوگیا، جب کہ شورٹی بانڈز کا معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس حوالے سے عدالت فیصلہ کرے گی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کابینہ کی 3 شرائط میں سے 2 عدالت نے مان لی ہیں، عدالت نے 5 سوال بھی رکھ دیے ہیں، سزا معطلی کا مطلب سزا ختم ہونا نہیں، عدالتی فیصلے کے مطابق نوازشریف علاج کراکے واپس آجائیں گے۔

اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا یہ عبوری حکم نامہ ہے، ابھی عدالت نے میرٹ پر فیصلہ نہیں سنایا بلکہ انسانی ہم دردی کی بنیاد پر کیا، تحریری بیان تو زیادہ اہم ہے، عدالتی فیصلہ چیلنج کرنے کا فیصلہ کابینہ کرے گی، کل تک فیصلہ کریں گے کیا پچھلی اجازت پر ہی بیرون ملک بھیجیں گے۔
 
Top