جاسم محمد

محفلین
اپنے اپنے جتھے …اپنے اپنے نعرے
روؤف کلاسرا

اسلام آباد پھر دھرنوں کی زد میں ہے ۔ میرے اینکر دوست رحمن اظہر نے کہا:چلیں شہر کے ہنگاموں سے دور مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہائکنگ کرتے ہیں۔ کہنے لگا:اب میں نے ان دھرنوں پہ حیران ہونا چھوڑ دیا ہے ‘ اب ان میں کوئی کشش یا نئی بات نہیں رہی‘ یہی دیکھ لو پچھلی دہائی میں ہر دو سال بعد ایک دھرنا یا لانگ مارچ اسلام آباد ضرور پہنچا ہے ۔ رحمن اظہر نے بتایا کہ اس نے پہلا دھرنا وہ کور کیا تھا جب نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے نام پر لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے اب پاکستان بدل جائے گا۔ اس نے اتنے لوگ پہلی دفعہ سڑکوں پر اکٹھے دیکھے تھے ‘جو جذبے اور جوش سے بھرے نعرے لگا رہے تھے ۔ رحمن اظہر کو وہ سب جوش اپنے اندر محسوس ہوا۔ وہ نیا نیا فیصل آباد سے آکر لاہور دنیا ٹی وی میں رپورٹنگ کی جاب کر رہا تھا۔ اس کیلئے یہ بڑی بات تھی کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ باہر نکل آئے جو جنرل مشرف کے ہاتھوں برطرف ہونے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی چاہتے تھے ۔ یہ پہلی تحریک تھی جو اس ملک کے ججوں کی بحالی کیلئے برپا کی گئی ۔
ماضی میں ججوں کے حوالے سے عام لوگوں میں زیادہ احترام نہیں تھا‘ خصوصاً جب سے بھٹو کو پھانسی اور جنرل ضیا کا مارشل لاء جائز قرار دیا گیا تھا۔پھر 1990 ء کی دہائی میں جس طرح سیاسی حکومتیں توڑی گئیں اور عدالتوں نے انہیں بحال نہیں کیا (ماسوائے نواز شریف کی پہلی حکومت کے ) اس سے بھی لوگوں کا اعتبار کم ہوا ۔ اعتزاز احسن نے بھی کئی دفعہ یہ بات کی تھی کہ ایک ہی طرح کی صورتحال میں بینظیر بھٹو کی حکومت بحال نہ کی گئی‘ جبکہ نواز شریف کو بحال کیا گیا ۔ مطلب اس وقت کی عدالتیں آزاد نہ تھیں اور کسی دبائو میں کوئی وزیراعظم بحال ہوجاتا تو کوئی گھر جاتا۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب جنرل مشرف کے مارشل لاء کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا بلکہ اسے یہ بھی حق دیا گیا کہ وہ آئین میں مرضی کی تبدیلیاں کر لیں۔ اس لیے جب عوام کی ایک بڑی تعداد ججوں کے حق میں باہر نکلی تو بہت سے لوگوں کو لگا کہ پورا پاکستانی معاشرہ اب بدل رہا ہے ۔ لوگوں کا جوش و خروش بھی کچھ اور تھا‘ لوگ برسوں کا غصہ نکالنا چاہتے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہو ۔ لوگ اس لیے بھی باہر نکلے تھے کہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف ملک چھوڑ گئے تھے اور جنرل مشرف کو مزاحمت کرنے کے لیے کوئی نہ تھا‘ یوں جب چیف جسٹس چوہدری نے جنرل مشرف کو'' ناں‘‘ کی تو وہ مزاحمت کا نشان بن کر ابھرے ۔ لوگوں کو لگا کہ کوئی تو ہے جو مشرف کے آ گے ڈٹ گیا ہے۔ یوں لوگ افتخار محمد چوہدری کے پیچھے چل پڑے‘ حالانکہ وہی افتخار چوہدری جنرل مشرف کی مہربانی سے چیف جسٹس بنے تھے اور ان کے قریبی سمجھے جاتے تھے ۔ رحمن اظہر کا کہنا تھا کہ جب اس نے لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا تو اسے لگا کہ اب پاکستان بدل رہا ہے۔ جس انقلاب کی باتیں اس نے بزرگوں سے سنی تھیں یا انقلاب فرانس کی کہانیاں پڑھی تھیں‘ وہ انقلاب اب دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
میں جہاں مارگلہ پہاڑیوں کے درمیان پتھروں پر چلنے کی کوشش کررہا تھا ‘وہیں رحمن اظہر کی ان باتوں کو بھی غور سے سن رہا تھا کہ ایک نوجوان جب پہلے دھرنے یا لانگ مارچ کو کور کرنے نکلا تو اس کے کیا جذبات تھے ؟اب میں اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھاکہ ان دس برسوں میں رحمن اظہر کے اندر دھرنوں یا لانگ مارچ کے حوالے سے وہ جذبہ کیوں نہیں رہا ؟ ان دس برسوں میں کیا ہواہے کہ اس وقت جب اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن دھرنا دیے بیٹھے ہیں‘ رحمن اظہر میرے ساتھ مارگلہ ہلز پر دو تین گھنٹے کی ہائکنگ کا پلان بنا رہا ہے تا کہ مونال اور پیر سوہاہ پہنچ کر کسی کیفے پہ بیٹھ کے اسلام آباد کو دیکھا جائے‘ چاروں طرف پھیلی بے پناہ خوبصورتی کو انجوائے کیا جائے اور ڈھلتی شام کی خنکی میں کافی پی جائے ۔
رحمن اظہر کہہ رہا تھا کہ اس کے بعد طاہر القادری لانگ مارچ اسلام آباد لائے تو اس وقت تک اُسے اندازہ ہوچکا تھا کہ لانگ مارچ کے پیچھے کچھ اور قوتیں ہوتی ہیں‘ پس پردہ کچھ اور کھلاڑی ہوتے ہیں جن کے عوام کو استعمال کرنے کے کچھ اور مقاصد ہوتے ہیں‘ لیکن پھر بھی رحمن اظہر کا خیال تھا کہ مولانا قادری اس انقلاب کو پورا کرنے آرہے تھے‘ جو شاید پچھلے لانگ مارچ میں ادھورا رہ گیا ۔ رحمن اظہر پھر فیلڈ میں موجود تھا اور طاہرالقادری کے دھرنے کو کور کررہا تھا۔ نواز شریف کے لانگ مارچ کا اپنا ہجوم تھا تو قادری صاحب کے کارواں کے لوگ کچھ اور تھے ۔ وہی ہوا کچھ دن قادری صاحب نے خوب سماں باندھا‘ تقریروں نے رنگ جمایا ہوا تھا‘ ہر کوئی ٹی وی سکرین کے آگے بیٹھا ہوا تھا اور قادری صاحب کی لفاظی عروج پہ تھی۔ مولانا نے بھی پھر وہی روٹ لیا اور کچھ دن بعد ڈیل کر کے لوٹ گئے ۔ رحمن اظہر کو پہلی دفعہ جھٹکا لگا اور وہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ دھرنے اور لانگ مارچ کی کہانی کچھ اور ہے۔ جو سامنے نظر آتا ہے اس کے پیچھے کچھ اور ہے ۔ یوں رحمن اظہر کا رومانس کم ہونا شروع ہوا‘ لیکن ابھی بھی یہ سب ختم نہیں ہوا تھا۔ ایک نوجوان آدمی کا رومانس اور خواب اتنی جلدی ختم نہیں ہوتے ۔ اس لیے جب عمران خان اپنا جلوس لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تو اس وقت تک رحمن اظہر کو سمجھ آچکی تھی کہ اس نے زیادہ بیقرار یا آئیڈیلزم کا شکار نہیں ہونا۔ اس نے ایک رپورٹر کی حیثیت سے رپورٹ کرنا تھا‘ تاہم اس کو اس دفعہ نئی بات نظر آئی تو اُسے پھر یوں لگا کہ شاید وہ انقلاب سے جلدی مایوس ہوگیا ہے‘ ورنہ ابھی چنگاری راکھ میں موجود تھی۔ دھرنے میں بچوں اور عورتوں کی شمولیت نے یہ امیدیں جگا دی تھیں کہ اس دفعہ نئی چیزیں ہورہی ہیں۔ یوں ایک سو چھبیس دن تک ایک نیا سیاسی سرکس لگا رہا اور پورا ملک یہی سمجھے بیٹھا تھا کہ عمران خان نواز شریف سے استعفیٰ لیے بغیر نہیں جائیں گے ۔ اتنی دیر تک مولانا قادری بھی پیچھے پہنچ گئے اور یوں پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے ۔ ان دھرنوں سے کچھ نہ نکلا۔ نہ نواز شریف کی حکومت گری اور نہ ہی عمران خان وزیراعظم ہاؤس کو خالی کرا سکے ۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس دوران درجن بھر لوگ ہنگاموں میں مارے گئے ‘ سو سے زائد زخمی ہوئے ‘ دھرنے پر گولی چلی‘ آنسو گیس اور لاٹھی چارج میں عوام نے مار کھائی۔ آخر وہ دھرنا بھی اپنے نتائج حاصل کیے بغیر ختم ہوگیا۔
اب رحمن اظہر کو اس حد تک مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے دلچسپی ضرور ہے کہ وہ ایک صحافی ہے ‘ اسے سب حالات سے خود کو باخبر رکھنا ہے ‘لیکن وہ اس دھرنے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھ رہا‘ کیونکہ پچھلے دس برسوں میں وہ ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کے دھرنے دیکھ چکا ہے ‘ رہی سہی کسر اب مولانا کے دھرنے نے پوری کر دی ہے ۔ سوال وہی ہے کہ اگر عمران خان تمام تر طاقت اور قوتوں کی تمام تر حمایت کے باوجود نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکے تو مولانا‘ جنہیں ایسی قوتوں کی حمایت حاصل نہیں ‘وہ کیسے کر پائیں گے ؟ میں نے کہا: رحمن اظہر یہ بات اگر ہم سمجھ رہے ہیں کہ ایسے استعفیٰ کوئی نہیں دیتا تو کیا مولانا جیسا زیرک بندہ نہیں جانتا؟ یا پھر یہ سب دھرنے کچھ قوتیں اس لیے کراتی ہیں کہ حکومت سے کچھ مرضی کی باتیں منوائی جا سکیں اور اس کام کے لیے کچھ لوگوں کو Rent a Crowd کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ؟ نواز شریف سے کر طاہرالقادری‘ عمران خان اور اب مولاناتک‘ سب یہی کرتے آئے ہیں۔ ہجوم کو ایک بڑا مقصد دے کر لایا جاتا ہے‘ کبھی عدالتوں کو آزاد کرانے کا‘ کبھی ملکی نظام ٹھیک کرانے کا اور کبھی اسلام کا بول بالا کرنے کا نعرہ دے کر۔ وہ جو کل دھرنے دیتے تھے وہ آج وزیراعظم ہاؤس میں ہیں‘ جن کے خلاف دھرنے ہوتے تھے وہ مولانا کے ساتھ کنٹینر پر چڑھے ہوئے ہیں‘ تاکہ وزیراعظم ہاؤس پر دوبارہ قابض ہوں۔ یہ وہ سرکس ہے جس کے دائرے میں ہم سب گھوم رہے ہیں۔ اقتدار کا کھیل ہے جو بڑے لوگ کھیلتے ہیں اور عوام کو اس انقلاب کے باردو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
سب کے اپنے اپنے جتھے اور اپنے اپنے نعرے ... منزل اقتدار ۔
 

جاسم محمد

محفلین
شہرِ خرابی
حامد میر07 نومبر ، 2019

پاکستان کا شہرِ اقتدار کنٹینروں کا دیار بن چکا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں کی طرف جانے والی شاہراہوں پر کنٹینروں کی بھرمار ہے۔ یہ بڑے بڑے کنٹینر اُس خوف کا اظہار کر رہے ہیں جو شہر کے ایک کونے میں دھرنا دینے والے ہزاروں باریش افراد کے نعروں نے پیدا کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں ملک کے دور دراز علاقوں سے آنے والے یہ باریش افراد کئی دن سے ’’گو عمران گو‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان وقفے وقفے سے یہ اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ کان کھول کر سُن لو میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ این آر او کی اصطلاح پاکستان کی سیاست میں جنرل پرویز مشرف نے متعارف کروائی تھی۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے آٹھ سال بعد 2007میں پیپلز پارٹی کے ساتھ قومی مفاہمت کے نام پر ایک معاہدہ کیا جس کے تحت پیپلز پارٹی کی قیادت پر قائم کئی مقدمات ختم ہو گئے۔ اس این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں متحدہ قومی موومنٹ بھی شامل تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے 17ججوں نے 16دسمبر 2009کے دن مشرف کے جاری کردہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کو منسوخ کر دیا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت دس سال قبل این آر او کو منسوخ کر چکی ہے لیکن ہمارے وزیراعظم ہر دوسرے دن بےقرار ہو کر للکارتے ہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ اُن کی یہ للکار شہرِ اقتدار کی سرکار کے اندر موجود کسی خوف کو چھپانے کی کوشش لگتی ہے۔ عمران خان بظاہر بڑے پُر اعتماد نظر آتے ہیں لیکن بند کمروں میں اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ کسی طریقے سے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مفاہمت کا راستہ نکالو۔ مولانا وزیراعظم کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں اُنہیں استعفیٰ نہیں ملے گا لیکن وہ حکومت کا اعتماد اور دبدبہ ختم کر چکے ہیں۔ شاید وہ کچھ دنوں میں واپس تو چلے جائیں لیکن اُن کی واپسی کے بعد عمران خان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی کیونکہ عمران خان کا اصل مقابلہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ نہیں ہے۔ عمران خان کا اصل مقابلہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ ہم نے یہ بار بار دیکھا ہے کہ اس شہرِ اقتدار میں جو بھی وزیراعظم بن کر آتا ہے وہ کچھ ہی عرصے میں اجنبی اجنبی سا ہو جاتا ہے۔ اُس کا چہرہ اور آواز تو پرانی ہوتی ہے لیکن اُس کا لب و لہجہ اور اندازِ فکر بدل جاتا ہے۔ وہ اپنا دشمن خود بن جاتا ہے اور جو بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کرے وہ اسے بھی اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ اُسے پرانے ساتھی بُرے اور نئے نئے لوگ اچھے لگنے لگتے ہیں کیونکہ وہ خوشامد کے فن میں بڑی مہارت رکھتے ہیں اور پھر جب یہ وزیراعظم رسوائیوں کا شکار ہو جاتا ہے تو یہ خوشامدی نئے حکمران کے گرد منڈلانا شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان کے شہرِ اقتدار میں آنے والے اکثر حکمران رسوائیوں کا شکار ہوئے اور یہ شہرِ اقتدار خود بھی بڑا بدقسمت ہے۔ نام تو اس کا اسلام آباد ہے لیکن اسلام کے ساتھ سب سے زیادہ دھوکے اسی شہر میں ہوتے ہیں۔ اس شہر کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اسلام آباد کی اصل تاریخ کو عوام سے چھپایا گیا۔ عوام کو بتایا گیا کہ سابق صدر ایوب خان نے 1960ء میں یہ شہر بسایا تھا۔ یہ درست ہے کہ جب اسلام آباد قائم ہوا تو ایوب خان پاکستان کے حکمران تھے لیکن اصل تاریخ مختلف ہے۔ یہ 26جولائی 1944ء کی بات ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ سرینگر سے راولپنڈی آ رہے تھے۔ اُن کے ساتھ گاڑی میں محترمہ فاطمہ جناح اور جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے رہنما چوہدری غلام عباس بھی موجود تھے۔ جب گاڑی بارہ کہو کے قریب مل پور پہنچی تو قائداعظمؒ نے چوہدری صاحب سے پوچھا کہ پاکستان کا دارالحکومت کہاں ہوگا؟ چوہدری صاحب نے کہا لاہور، قائداعظم نے اپنے دائیں جانب مارگلہ کی سرسبز پہاڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دارالحکومت یہاں ہوگا۔ پھر اُنہوں نے مل پور میں گاڑی روکی اور یہاں کے مقامی لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دارالحکومت اس سبزہ زار میں ہوگا۔ تحریک پاکستان کے کارکن مولانا محمد اسماعیل ذبیح کی کتاب ’’اسلام آباد... منزلِ مراد‘‘ میں اس شہر کی اصل تاریخ محفوظ ہے جس کے مطابق حکومت برطانیہ کی طرف سے شائع کردہ ٹرانسفر آف پاور کی دسویں جلد میں یہ لکھا ہے کہ مسلم لیگ کی طرف سردار عبدالرب نشتر نے حکومت برطانیہ کو مئی 1947میں یہ بتا دیا تھا کہ پاکستان کا دارالحکومت راولپنڈی میں ہوگا۔ کراچی کو پاکستان کا عارضی دارالحکومت بنایا گیا تھا، جب دارالحکومت کو راولپنڈی کے قریب منتقل کیا گیا تو اس کی اصل تاریخ چھپا لی گئی۔ دارالحکومت کا نام رکھنے کے لئے حکومت نے عوام سے تجاویز مانگیں۔ مولانا اسماعیل ذبیح نے شہر کا نام جناح آباد تجویز کیا لیکن عارف والا کے ایک اسکول ٹیچر عبدالرحمان امرتسری نے دارالحکومت کا نام اسلام آباد تجویز کیا۔ اُن کی تجویز قبول کر لی گئی اور حکومت پاکستان نے بطور انعام اُنہیں اسلام آباد میں ایک پلاٹ دینے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور وہ 1990ء میں وفات پا گئے۔ ایوب خان نے اس شہر کی تاریخ چھپائی اور جب وہ یہاں آئے تو رسوا ہو کر حکومت سے نکلے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جو بھی اس شہر اقتدار میں حکمران بن کر آتا ہے اُس کا مقدر رسوائیاں بنتی ہیں کیونکہ اس شہر میں ہونے والے اکثر فیصلوں سے عوام کے لئے خیر کی بجائے خرابی جنم لیتی ہے۔ اسلام کے نام پر بنائے گئے اس شہر میں ریاستِ مدینہ کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن ریاستِ مدینہ والا کام نظر نہیں آتا۔ جالب نے کہا تھا؎

اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
 

فرقان احمد

محفلین
بلی تھیلی سے باہر آگئی۔ شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بند اور ن لیگی نظریہ کے مطابق فیض آباد دھرنے کا الزام حساس اداروں پر لگانے والے جانبدار جج کے خلاف ریفرنس واپس لیا جائے، مولانا فضل الرحمان
یہ وہ والی بلی نہیں ہے۔ دیکھتے جائیے۔
 

آورکزئی

محفلین
سیاسی دھرنے میں فوج کا کوئی کردارنہیں، ترجمان پاک فوج
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1871189-asif-1573053686-100-640x480.jpg

ہم جن کاموں میں مصروف ہیں وہ کام ہمیں اجازت نہیں دیتاہم سیاسی ایکٹویٹی میں شامل ہوں، ترجمان پاک فوج (فوٹو: فائل)

راولپنڈی: ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دھرناسیاسی ایکٹویٹی ہےاس میں فوج کو کوئی کردارنہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ دھرنا سیاسی ایکٹویٹی ہے اس میں فوج کا کوئی کردارنہیں، ہم جن کاموں میں مصروف ہیں وہ کام ہمیں اجازت نہیں دیتا ہم سیاسی ایکٹویٹی میں شامل ہوں، فوج بطور ادارہ کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہیں۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ میں جب بھی بولتا ہوں اداروں کیلئے بولتا ہوں اپنی ذات کیلئے نہیں بولتا، جو بھی بیان دیتا ہوں ادارے کی ترجمان کی حیثیت سے دیتا ہوں، 2014 کے دھرنے میں پاک فوج نے حکومت کا ساتھ دیا تھا، لیکن انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں، چیف الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی تعیناتی میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہوتا، فوج کی خواہش نہیں ہوتی کہ الیکشن میں کوئی کردار ادا کریں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاک فوج کشمیر کی 70 سالہ جنگ اور 20 سال سے سیکیورٹی کے کاموں میں مصروف ہے اور قربانیاں دے رہی ہے وہ دیگر کاموں پر توجہ نہیں دیتی، حکومت اور فوج نے کشمیر کےمعاملے پر کبھی سمجھوتہ کیا ہے اور نہ کرے گی۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ بھارت سے آنے والے سکھ یاتری صرف کرتارپور تک محدود رہیں گے، کرتار پور بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے یکطرفہ راستہ ہے، کرتار پور میں ملکی سیکیورٹی یا خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، سکھ یاتریوں کی پاکستان میں انٹری قانون کےمطابق ہوگی۔

ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑا مزید صبر فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اگے اگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آورکزئی

محفلین
حد ہو گئی خان صاحب، اس میں پٹھانوں کی کیا تخصیص ہے۔ میں روزانہ سیالکوٹ کینٹ میں مختلف چیک پوسٹوں پر آٹھ دس بار شناختی کارڈ چیک کرواتا ہوں اور اسی طرح ہزاروں لوگ اور بھی۔

کینٹ میں ناں ۔۔۔؟؟؟
استاد المحترم اپ نے نہیں دیکھا کیا ہوا ہے یہاں۔۔ کیا ہوتا رہا ہے۔۔۔ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اللہ سب کو اپنے حفظ و آمان میں رکھیں۔۔ آمین۔۔۔
جب یہ اپنے ہی فوجی اپکے چادراور چاردیواری کی عزت پامال کریں تو اپ کی ری ایکشن کیا ہوگی؟؟ یہی فوجی اپکے گھر کے اندر جائیں مردوں کو ایک کمرے میں بند کرکے
عورتوں کو اپنے سامنے بیٹھا کر گندی گندی باتیں کرے ۔۔۔ ان سے اور۔۔۔۔۔۔۔۔ بس مزید یہاں نہیں لکھ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔
نتیجا یہی نکل رہا ہے کہ یہی غیور پشتون وغیرہ پہلے جب پاک فوج کی گاڑی جاتی تھی تو سالیوٹ کرتے تھے اب ان پہ تھوکتے ہیں اور ان کو دہشت گرد کہتے ہیں۔۔ کیوں ۔۔؟؟
یہ سنی سنائی بات نہیں کر رہا میں ۔۔۔ انکھوں دیکھا بتا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آورکزئی

محفلین
تازہ ترین۔
حکومت نے فضل الرحمان کے تین میں سے دو نکات مان لئے جس کے بعد مولانا نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا اور کارکنان نے واپسی کا سفر شروع کردیا۔ تمام معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹانے پر حکومت اور فضل الرحمان، دونوں خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

یاد رہے کہ مولانا کے مندرجہ ذیل تین مطالبات تھے:
1۔ وزیراعظم عمران خان استعفی دے۔
2۔ فی الفور نئے انتخابات کروائے جائیں
3۔ اسمبلیاں توڑ دی جائیں

حکومت نے پہلے دو مطالبات مانتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عمران خان مئی 2023کے آخری ہفتے میں استعفی دے دیں گے، پھر اسکے بعد اگست کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں الیکشن بھی کروادیئے جائیں گے۔
اسمبلیاں فوری طور پر توڑنے کا مطالبہ منظور نہیں کیا گیا۔ اس کیلئے 2023 تک انتظار کرنا ہوگا۔

مولانا نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین میں سے دو شرائط کی منظوری کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے دھرنہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
محب وطن پاکستانیوں کو مبارک ہو!!! بقلم خود باباکوڈا

اپکے اس پوسٹ کے جھوٹ کے لیے باباکوڈا کا نام کافی ہے۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑا مزید صبر فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اگے اگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ آگے کی بجائے اپنی جماعت کا پیچھا دیکھئے۔ 90 کی دہائی سے لے کر اب تک کبھی پی پی پی تو کبھی ن لیگ کے اتحادی رہے۔ اب عمران خان آگیا ہے تو "ملک بچانے کیلئے مزید مہلت نہیں دے سکتے"۔ کون لوگ ہو تسی؟
 

آورکزئی

محفلین
آپ آگے کی بجائے اپنی جماعت کا پیچھا دیکھئے۔ 90 کی دہائی سے لے کر اب تک کبھی پی پی پی تو کبھی ن لیگ کے اتحادی رہے۔ اب عمران خان آگیا ہے تو "ملک بچانے کیلئے مزید مہلت نہیں دے سکتے"۔ کون لوگ ہو تسی؟

پھر کہونگا۔۔۔۔۔۔ جاسم صاحب تھوڑی تکلیف پہنچے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ برداشت کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
لازم سی بات ہے کفتی کفایت اللہ صاحب کو اپ لوگ پسند ہی کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔ اپریشنز جو کر رہے ہیں غفورے باجوے اور نیازی کے۔۔۔۔۔۔ ہاہاہا
جو شخص پورے یقین سے کہتا ہو کہ Wikileaks میں Wiki جمائما خان کا کزن ہے ۔ اور پوری قوم اس پر کل پرسوں سے ہنس رہی ہو۔ وہ بیچارا کیا کسی کا آپریشن کرے گا َ:)
 

آورکزئی

محفلین
ہمیں تو کوئی تکلیف نہیں۔ آپ کا دھرنا بند گلی میں چلا گیا ہے۔ وہاں سے نکلنے کی کوشش کریں :)

اس لئے تو مجھے پی ٹی آئی والے اچھے لگتے ہیں۔۔۔ لطیفے بڑے اچھے اچھے سناتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور خود کو خوش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
 

آورکزئی

محفلین
جو شخص پورے یقین سے کہتا ہو کہ Wikileaks میں Wiki جمائما خان کا کزن ہے ۔ اور پوری قوم اس پر کل پرسوں سے ہنس رہی ہو۔ وہ بیچارا کیا کسی کا آپریشن کرے گا َ:)

بس یہی نظر انا تھا پوٹی ائی والوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے للکار کو کیوں نہیں سراہتے ؟؟ کیونکہ نکئے دا ابا پھر ناراض ہوجاتا ہے۔۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
بس یہی نظر انا تھا پوٹی ائی والوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے للکار کو کیوں نہیں سراہتے ؟؟ کیونکہ نکئے دا ابا پھر ناراض ہوجاتا ہے۔۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔۔۔
آج نکے دا ابا آپ کے مولانا کی سائیڈ پر ہو جائے تو سارا انقلاب زمین دوس ہو جائے۔ :)
 
Top