آورکزئی

محفلین
اپنا دھرنا اسلام آباد سے اٹھا کر ننکانہ صاحب لے آئیں۔
EIqff-N0-W4-AAadt-N.jpg

اپ لوگوں کے ہمنوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم پٹھان تو جب خوشحال گڑھ پل سے گزرتے ہیں ہمارا سناختی کارڈ چیک کیا جاتا ہے۔۔۔۔ اور یہاں اپکے ہمنوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اپ لوگوں کے ہمنوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم پٹھان تو جب خوشحال گڑھ پل سے گزرتے ہیں ہمارا سناختی کارڈ چیک کیا جاتا ہے۔۔۔۔ اور یہاں اپکے ہمنوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حد ہو گئی خان صاحب، اس میں پٹھانوں کی کیا تخصیص ہے۔ میں روزانہ سیالکوٹ کینٹ میں مختلف چیک پوسٹوں پر آٹھ دس بار شناختی کارڈ چیک کرواتا ہوں اور اسی طرح ہزاروں لوگ اور بھی۔
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
سیاسی دھرنے میں فوج کا کوئی کردارنہیں، ترجمان پاک فوج
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1871189-asif-1573053686-100-640x480.jpg

ہم جن کاموں میں مصروف ہیں وہ کام ہمیں اجازت نہیں دیتاہم سیاسی ایکٹویٹی میں شامل ہوں، ترجمان پاک فوج (فوٹو: فائل)

راولپنڈی: ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دھرناسیاسی ایکٹویٹی ہےاس میں فوج کو کوئی کردارنہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ دھرنا سیاسی ایکٹویٹی ہے اس میں فوج کا کوئی کردارنہیں، ہم جن کاموں میں مصروف ہیں وہ کام ہمیں اجازت نہیں دیتا ہم سیاسی ایکٹویٹی میں شامل ہوں، فوج بطور ادارہ کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہیں۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ میں جب بھی بولتا ہوں اداروں کیلئے بولتا ہوں اپنی ذات کیلئے نہیں بولتا، جو بھی بیان دیتا ہوں ادارے کی ترجمان کی حیثیت سے دیتا ہوں، 2014 کے دھرنے میں پاک فوج نے حکومت کا ساتھ دیا تھا، لیکن انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں، چیف الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی تعیناتی میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہوتا، فوج کی خواہش نہیں ہوتی کہ الیکشن میں کوئی کردار ادا کریں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاک فوج کشمیر کی 70 سالہ جنگ اور 20 سال سے سیکیورٹی کے کاموں میں مصروف ہے اور قربانیاں دے رہی ہے وہ دیگر کاموں پر توجہ نہیں دیتی، حکومت اور فوج نے کشمیر کےمعاملے پر کبھی سمجھوتہ کیا ہے اور نہ کرے گی۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ بھارت سے آنے والے سکھ یاتری صرف کرتارپور تک محدود رہیں گے، کرتار پور بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے یکطرفہ راستہ ہے، کرتار پور میں ملکی سیکیورٹی یا خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، سکھ یاتریوں کی پاکستان میں انٹری قانون کےمطابق ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
موجودہ حکمرانوں کو ایک دن بھی برداشت نہیں کرسکتے، مولانا فضل الرحمان
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1871107-fazal-1573051095-419-640x480.jpg

ایک سال میں3بجٹ پیش کرکےمحصولات کاہدف حاصل نہیں کرسکے،فضل الرحمان فوٹو: فائل

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کوایک دن بھی برداشت نہیں کرسکتے۔

آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ میرےلیے تکلیف دہ مرحلہ تھا جب کارکن بارش میں بھیگ رہے تھے۔ بارش میں کارکنوں کی استقامت کوسلام پیش کرتاہوں، یہ بارش حکمرانوں کے لیے بھی ایک پیغام تھا کہ یہ اجتماع تماش بینوں کا اجتماع نہیں، آنے والے امتحانوں کو بھی اسی استقامت سے عبورکریں گے۔ موجودہ حکمرانوں کوایک دن بھی برداشت نہیں کرسکتے، ناکام حکومت کوگرانے کے لیے ہم یہ مشقت برداشت کررہے ہیں۔ ہم اسی طرح ڈٹے رہے تو یقیناً اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے، 12 ربیع الاول کو اس اجتماع کو سیرت طیبہ کانفرنس میں تبدیل کریں گے۔

پاکستان سابق سوویت یونین سے بڑا ملک نہیں

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ نااہل حکمران ایک سال میں 3 بجٹ پیش کرکے محصولات کاہدف حاصل نہیں کرسکے، اگر ایک اور بجٹ ان نااہلوں نے پیش کیا تو پاکستان معاشی طور پر بیٹھ جائے گا، پاکستان سابق سوویت یونین کے مقابلے میں بڑا ملک نہیں، جہاد افغانستان میں سوویت یونین اقتصادی ناکامی کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔

یوم اقبال اور رنجیت سنگھ

سربراہ جے ہو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ 9 نومبر کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا یوم پیدائش ہے، اسی روز ہم کرتارپور کوریڈور کا افتتاح کررہے ہیں، حج پر اخراجات 5 لاکھ روپے کردیئے گئے اور سکھوں کے لئے پاکستان میں انٹری مفت ہوگی۔ کیا ہم آئندہ یہ دن اقبال ڈے کی بجائے رنجیت سنگھ اور بابا نانک کے دن کے طور پر تو نہیں منائیں گے۔

وزارت خارجہ خاموش کیوں ہے؟

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ افغانستان میں سفارتی عملے کے ساتھ ناروا سلوک پر وزارت خارجہ خاموش ہے، کس طرح لوگ باہر جاکر ملک کی خدمت کریں گے؟


نوکریوں کا وعدہ کیوں کیاگیا؟

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کہا گیا کہ لوگ حکومت سے نوکری کی آس نہ لگائیں، 400 اداروں کو ختم کرنے کی بات کی گئی، اس سے ہزاروں لوگ بےروزگار ہوں گے، کیا ایک کروڑ نوکریاں دینے کا جھوٹا وعدہ کیوں کیا گیا؟ 50لاکھ گھر بنانے کی بات کرکے 50 لاکھ گرادیئے گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی الیکشن دھاندلی سے متعلق مولانا فضل الرحمان کے تمام الزامات مسترد کر دئے ہیں۔ مولانا ن لیگ اور پی پی پی کے ترجمان بننے جا رہے تھے۔ ہر جگہ سے ذلیل ہو گئے۔

الیکشن کمیشن نے فارم 45 سے متعلق مولانا فضل الرحمان کا دعویٰ مسترد کر دیا
ویب ڈیسک بدھ 6 نومبر 2019
1870918-ecp-1573041964-935-640x480.jpg

توقع ہے کہ مستقبل میں غیرمصدقہ اورفرضی حوالہ جات سے اجتناب برتا جائے گا، ندیم قاسم فوٹو: فائل


اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے فارم 45 سے متعلق جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بیان کو مسترد کردیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر الیکشنز ندیم قاسم نے کہا ہے کہ یہ درست نہیں کہ 95 فیصد پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ پولنگ ایجنٹس کے دستخطوں کے بغیر ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی کسی بھی رپورٹ میں ایسے اعداد وشمارجاری نہیں کیے۔ توقع ہے کہ مستقبل میں غیرمصدقہ اورفرضی حوالہ جات سے اجتناب برتا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ انہیں الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں، الیکشن کمیشن خود کہتا ہے کہ 95 فیصد نتائج پر پریزائیڈنگ افسران کے دستخط نہیں، دستخط نہیں ہیں تو الیکشن خودبخود کالعدم ہو جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان "لبرل مولویوں" کی منطق بھی عجب تضادات سے بھری ہوئی منطق ہے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کچھ بھی کہنے کو تیار ہو جاتے ہیں:

مثال کے طور پر کبھی یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی اصل طاقت کے محور ہیں، ہر 'سلیکشن' یہی کرتے ہیں ان کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پرندہ بھی پر نہیں مارتا۔ انہوں نے 1988ء کے الیکشن کے بعد بے نظیر کو سمجھوتوں پر مجبور کیا، بے نظیر کو ادھورا اقتدار دیا، بے نظیر سےزبردستی صدر کا عہدہ اور حکومت کی اہم عہدے وزاتیں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو دلوائیں، بے نظیر کو سیکورٹی رسک قرار دیا، بے نظیر کو کبھی کہوٹہ لیبارٹری نہ جانے دیا وغیرہ وغیرہ۔

اور کبھی فرماتے ہیں کہ بے نظیر 1988ء میں اقتدار میں آنے کے بعد چند مہینوں ہی میں اتنی طاقتور تھی کہ زبردستی آئی ایس آئی چیف سے اس کی مخالفت اور مرضی کے بغیر جلال آباد آپریشن کروا دیا۔

اللہ اکبر۔ پتا نہیں انہوں نے جان کس کو دینی ہے!

لبرل vs مولانا
یاسر پیر زادہ

انگریزی لغت کے مطابق لفظ ’لبرل‘ سے مراد ایسا شخص ہے جو اصلاحات کا حامی ہو، نئے خیالات اور تصورات کے بارے میں کھلا ذہن رکھتا ہو، دوسروں کے نظریات اور عقائد کا احترام کرتا ہو، روایتی سوچ کا پابند نہ ہو، دقیانوسی اور فرسودہ خیالات کو ناپسند کرتا ہو، آزاد ذہن کا مالک ہو۔ ہمارے ہاں مگر لبرل کا مطلب یہ نہیں لیا جاتا، ہم ایسے شخص کو لبرل سمجھتے ہیں جو ملک میں جنسی بےراہ روی کا فروغ چاہتا ہو، فحاشی کا داعی ہو، شراب پر پابندی کا مخالف ہو، ڈانس پارٹیوں کا شیدائی ہو وغیرہ۔

فی الحال مگر ہم لبرل کی اصل تعریف پر ہی اکتفا کریں گے کیونکہ اگر ہم لوگوں کے کہنے پر چل پڑے تو ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو ہر قدامت پسند کو مولوی یا انتہا پسند کہتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسی بات نہیں۔

لبرلز کی یاد آج اِس لیے آئی کہ کچھ دنوں سے یہ بیچارے پھر طعنوں کی زد میں ہیں اور وجہ بہت دلچسپ ہے۔ ہوا یہ ہے کہ اِن لبرل خواتین و حضرات کے نظریات و خیالات ایک ایسے شخص نے چرا لیے ہیں جو اِن سے یکسر مختلف ہے، اِس شخص کی شاندار داڑھی ہے، سر پر عمامہ ہے اور جسم پر شلوار، قمیض اور واسکٹ ہے۔

یہ شخص پکا مذہبی ہے، اسلام کا داعی ہے، اس کے زیر انتظام سینکڑوں مدارس چلتے ہیں، قدامت پسند مذہبی جماعت کا سربراہ ہے، عورتوں کی آزادی کا مخالف ہے، مخلوط تعلیم کو مناسب نہیں سمجھتا، شرعی پردے کو لازم قرار دیتا ہے، عریانی اور فحاشی کو معاشرے کی بےراہ روی کی وجہ گردانتا ہے اور جدید مغربی دنیا کے تصورات، جیسے ہم جنس پرستوں کی شادی یا مرد عورت کا بغیر نکاح کے اکٹھے رہنا، کا شدید ترین مخالف ہے اور دیگر معتدل جماعتوں کے برعکس اِن باتوں کو شخصی آزادی کی آڑ میں اجازت دینے کا بھی قائل نہیں۔

ایسے شخص کو ہماے لبرل بھائی بہنوں نے آج کل سر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے، دن رات مولانا کی بلائیں لے رہے ہیں، ان کے بیانات کو چوم چاٹ کر ٹویٹ کر رہے ہیں اور ان کی وڈیوز یوں شئیر کر رہے ہیں جیسے’’تھڑے ہوئے‘‘ لڑکے ایک دوسرے کو مخصوص وڈیوز بھیجتے ہیں، ان کا بس نہیں چل رہا کہ اپنا گٹ اپ بھی مولانا صاحب جیساکر لیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ چمکتار کیسے ہوا، مولانا کی کایا کلپ ہوئی یا لبرل حضرات نے سروں پر صافے باندھ لیے، آخر اس ملن کے پیچھے وجہ کیا ہے؟

وجہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ لبرل چاہے جیسے بھی ہوں آخری تجزیے میں جمہوریت پسند ہی ہوتے ہیں، آئین کی حکمرانی میں یقین رکھتے ہیں، شخصی آزادی کے قائل ہوتے، عوام کے حقِ حکمرانی کا مطالبہ کرتے ہیں اور آزاد مملکت میں رہنا چاہتے ہیں جو کسی آئین، قانون اور ضابطے کے تحت چلتی ہو نہ کہ کسی آمر کی خواہشات کے طابع ہو۔

وہ نام نہاد لبرل جو بظاہر حرکتیں اور باتیں آزاد خیالی کی کرتے ہیں مگر وقت آنے پر کسی آمر کی گود میں چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں انہیں کسی بھی لغت میں لبرل نہیں کہا جاتا بلکہ پنجابی میں ان کے لیے بہت برا لفظ ہے۔

یہ وہی دو نمبر لبرل تھے جنہوں نے12 اکتوبر 1999کو سڑکوں پر بھنگڑا ڈالا تھا جبکہ اصلی اور وڈے لبرل وہ تھے جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز اٹھائی تھی چاہے وہ داڑھیوں والے مرد تھے یا دوپٹہ اوڑھنے والی عورتیں۔

کسی بھی سوسائٹی کو پابندیوں میں جکڑنا، ملک میں اختلاف رائے کو دبانا یا لوگوں کو اندیکھے خوف میں رکھنا زیادہ عرصے تک ممکن نہیں ہوتا، کم از کم ہمارے ملک کی تاریخ یہی بتاتی ہے، مگر ایسے میں مزاحمت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، لوگ مختلف قسم کے استعارے تلاش کرتے ہیں، علامتی افسانے لکھتے ہیں اور مبہم قسم کی شاعری کرکے حریت پسندی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ حق ایسے ادا نہیں ہوتا۔

اِس کے لیے ہر قسم کی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر دو ٹوک بات کرنا پڑتی ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں، اور یہ ہر کسی کے بس میں بھی نہیں، خاص طور سے لبرلز کے بس میں تو بالکل نہیں، یہ لوگ کوئی منظم طاقت ہیں نا ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی قسم کا انقلاب برپا کر سکیں اس لیے یہ بیچارے اِدھر ُادھر دیکھتے رہتے ہیں کہ کون ہے جو اِس ملک میں آئین کی بالادستی کی بات کررہا ہے۔ چلیں اسی کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔

لبرلز نے یہی ہاں میں ہاں مولانا کے ساتھ ملائی ہے۔ مولانا نے دراصل انہیں زبان دے دی ہے، اِسی لیے لبرل ان کے صدقے واری جا رہے ہیں، ایسا بالکل نہیں کہ وہ مولانا کے طرزِ زندگی سے متاثر ہو گئے ہیں یا مستقبل میں کسی لبرل خاتون کا ارادہ مولانا سے انسپائر ہو کر شٹل کاک برقع پہننے کا ہے۔

بات صرف اتنی ہے کہ اِس وقت ملک میں ایک سیاسی میدان موجود تھا، کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اِس میدان میں کسی کو للکارتا، مولانا نے صرف یہ کیا کہ خالی میدان میں اتر آئے، جگہ ہی جگہ تھی، سب انہیں مل گئی، ایسی ہی صورتحال کے لیے نپولین نے کہا تھا کہ فرانس کا تاج شاہراہ پر پڑا تھا میں نے اٹھا کر سر پر پہن لیا مگر پاکستان کا تاج یوں آسانی سے سر پر نہیں سجایا جا سکتا، اِس کے لیے قربانی دینا پڑے گی۔

سیاسی میدان ابھی بھی خالی ہے، مولانا فی الحال صرف نیٹ پریکٹس کر رہے، لبرل اور جمہوریت پسند طبقات اُن کی شاٹس پر تالیاں بجا رہے ہیں حالانکہ کہ ان میں سے کچھ کا دل نہیں چاہ رہا ہے کہ مولانا کو داد دیں مگر مصیبت یہ ہے کہ مولانا کے علاوہ کوئی بیٹنگ کے لیے تیار ہی نہیں، کسی کی کمر میں درد ہے تو کوئی ویسے ہی ان فٹ ہے۔

ایسے میں اکیلے مولانا صاحب کیا صرف نیٹ پریکٹس ہی کرتے رہیں گے یا ٹاس کرکے میچ بھی کھیلیں گے، جلد معلوم ہو جائے گا، بلی تھیلے سے باہر آنے والی ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
تازہ ترین۔
حکومت نے فضل الرحمان کے تین میں سے دو نکات مان لئے جس کے بعد مولانا نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا اور کارکنان نے واپسی کا سفر شروع کردیا۔ تمام معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹانے پر حکومت اور فضل الرحمان، دونوں خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

یاد رہے کہ مولانا کے مندرجہ ذیل تین مطالبات تھے:
1۔ وزیراعظم عمران خان استعفی دے۔
2۔ فی الفور نئے انتخابات کروائے جائیں
3۔ اسمبلیاں توڑ دی جائیں

حکومت نے پہلے دو مطالبات مانتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عمران خان مئی 2023کے آخری ہفتے میں استعفی دے دیں گے، پھر اسکے بعد اگست کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں الیکشن بھی کروادیئے جائیں گے۔
اسمبلیاں فوری طور پر توڑنے کا مطالبہ منظور نہیں کیا گیا۔ اس کیلئے 2023 تک انتظار کرنا ہوگا۔

مولانا نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین میں سے دو شرائط کی منظوری کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے دھرنہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
محب وطن پاکستانیوں کو مبارک ہو!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
موجودہ ہنگامے کا اصل ہدف ’ایک پیج‘ ہے
ایاز امیر
مولانا فضل الرحمن نے وہ کر دکھایا ہے جو موجودہ صورتحال میں نا ممکن سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے قومی زندگی کے اُس نکتے کو تنازعے کے طور پر کھڑا کر دیا ہے جس کا ذکر شجرِ ممنوعہ تصور کیا جاتا تھا۔
رائج حکومتی بندوبست کے بارے میں نون لیگ اور پی پی پی کو اعتراض ہے‘ لیکن اُن کی قیادتیں اپنی پیشیوں اور مقدموں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ یہ والا نکتہ جو مولانا نے اُٹھایا ہے اِس کی ہمت اُن پارٹیوں میں نہیں تھی۔ رائج بندوبست کی بنیاد 'ایک پیج‘ ہے، یعنی حکومت اور دوسرے طاقت کے مرکز ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔ لگے ہاتھوں مولانا نے دیگر موضوعات کو چھوڑ کے اپنے احتجاج کا مرکزی نکتہ اِسی بنیاد کو بنایا ہے۔ وہ کسی اور چیز کے بارے میں بات نہیں کر رہے۔ نہ اسلام کا نعرہ بلند کر رہے ہیں‘ نہ معیشت کے بارے میں گھسی پِٹی باتیں کر رہے ہیں۔ اُن کا احتجاج اس محور کے گرد گھوم رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت شفاف انتخابات سے اقتدار میں نہیں آئی بلکہ درپردہ امداد کی بدولت اُسے ملک پہ ٹھونسا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ پچھلے انتخابات پی ٹی آئی نے تو نہیں کرائے تھے۔ کرانے والا انتظام اور تھا‘ لہٰذا جب مولانا کہتے ہیں کہ عمران خان غیر آئینی حکمران ہے تو اصل تنقید اُن کی اُن قوتوں پہ جاتی ہے جن کی زیر نگرانی انتخابات ہوئے۔
یہ بات دیگر سیاستدان بھی کہتے ہیں۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کے لقب کے موجد بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ یہ طعنہ اُنہوں نے ایجاد کیا۔ اِس طعنے کے پیچھے بھی وہی خیال ہے کہ عمران خان الیکشن شفاف طریقے سے نہیں جیتے بلکہ اُنہیں طرح طرح کے طریقوں سے جتوایا گیا اور پھر غیبی مدد سے اُنہیں وزیر اعظم بنایا گیا۔ بلاول کا تبصرہ البتہ الفاظ تک محدود رہا۔ کسی احتجاج کی سکت نہ نون لیگ میں تھی نہ پی پی پی میں۔ وہ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے یا احتجاج کی تیاری کرتے؟ دیگر الفاظ میں احتجاج کے حوالے سے دونوں بڑی پارٹیاں مفلوج ہو چکی تھیں۔ اسی لیے ملک میں ایک قسم کا تعطل تھا۔ یا وہ جو انگریزی کا لفظ ہے 'stalemate ‘۔ عمران خان آئے روز اپوزیشن جماعتوں پہ پھبتیاں کستے۔ باہر دوروں پہ بھی جاتے تو اُن کا اولین موضوع کرپشن ہوتا۔ ساتھ ہی یہ تاثر بہت مضبوط تھا کہ اُنہیں کوئی ہلا نہیں سکتا کیونکہ وہ اور دیگر طاقتیں ایک پیج پر ہیں۔ یہ وہ stalemate یا جمود تھا جس کا کوئی توڑ نظر نہیں آتا تھا۔
اِس جمود کو توڑا ہے تو مولانا فضل الرحمن نے اور اِس انداز سے کہ وہ جو موضوع شجرِ ممنوعہ تھا‘ اُن کے آزادی مارچ کے تناظر میں ملک کا نمبر 1 سیاسی ایشو بن کے سامنے آ گیا ہے اور پی ٹی آئی والوں کے پاس اِس کا کوئی جواب نظر نہیں آتا۔ نواز لیگ اور پی پی پی کے پچھلے انتخابات کے بارے میں جو بھی اعتراضات تھے اُنہوں نے بہرحال الیکشن نتائج کو مان لیا تھا۔ نہیں مانے تو مولانا فضل الرحمن‘ لیکن اُن کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں مل رہی تھی۔ عمران خان تو مولانا کا مذاق ہی اُڑاتے تھے۔ اُنہیں سنجیدگی سے کبھی نہیں لیا۔ لیکن اِس مارچ اور اسلام آباد کے پڑاؤ نے پرانی صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ یہ کمال کی بات ہے کہ جن الیکشن نتائج کو عمومی طور پہ قوم نے مان لیا تھا اُن پہ مولانا نے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ حکومت تو اِس نکتے پہ بات کرنے کی روادار نہ تھی لیکن جو مجمع اسلام آباد میں بیٹھ چکا ہے اس کے بعد حکومت مولانا سے بات کرنے پہ مجبور ہو گئی ہے۔ کچھ اور مولانا حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں اُن کیلئے یہ بھی بڑی کامیابی ہے۔
ایک پیج کا فارمولا کیا تھا؟ اِس کے پیچھے مقتدر حلقوں کے ذہنوں میں یہ خیال تھا کہ دونوں بڑی پارٹیاں کرپٹ ہیں اور اُنہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پہ پہنچا دیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان دو پارٹیوں کے علاوہ کوئی نیا چہرہ عنانِ اقتدار سنبھالے۔ ظاہر ہے کہ نیا چہرہ عمران خان کا ہی تھا۔ کوئی مانے نہ مانے سایوں اور اندھیروں سے جو اُن کی مدد ہو سکی وہ کی گئی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ واقفانِ حال اِس داستان سے بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی نواز لیگ اورپی پی پی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اِس پہ کوئی بڑا اعتراض کریں‘ کُجا یہ کہ کسی احتجاج کا سوچیں۔ لہٰذا بادل نخواستہ اُنہوں نے سب کچھ قبول کیا۔ عمران خان اور اپنی رسوائی دونوں کو قبول کیا۔ لیکن اُن کی مصیبتوں میں کوئی کمی نہ آئی اور احتساب کی جکڑ اُن کے گرد سخت ہوتی گئی۔ میاں نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اِس صورتحال کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے۔ کئی مداحین نے انہیں مزاحمت کی علامت کا درجہ بھی عطا کر دیا۔ لیکن اگر اُنہوں نے کوئی بات مانی نہیں تو موجودہ ایک پیج والے بندوبست کے خلاف کوئی بڑی آواز اُٹھانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ پچھلے تیرہ چودہ ماہ میں اِن کی جماعت بھیڑوں کے ایک ریوڑ کی طرح نظر آتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کا اِس سے بھی بُرا حال ہے۔ علمِ مزاحمت کسی نے صحیح طور پہ اُٹھایا ہے تو اُس نے جسے اُس کے ناقدین ایک خاص حوالے سے زیادہ سمجھنے کیلئے کبھی تیار نہ تھے۔
ایک تو کمال ہوشیاری سے مولانا اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد آنے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کے حامی کیسے منتشر ہوں گے؟ مولانا بھی اپنے پتے عقل مندی سے کھیل رہے ہیں۔ اسلام آباد پہنچ بھی گئے، باتیں بھی اُنہوں نے سخت کیں، ایک پیج کو بھی قومی موضوعِ بحث بنا دیا لیکن اشتعال کی حدوں کو نہیں چھوا۔ یہ ڈی چوک والا معاملہ تو بالکل فضول بات ہے۔ ڈی چوک کیوں جائیں؟ مولانا بہرحال شیخ الاسلام نہیں۔ جو کچھ کر رہے ہیں اپنی سوچ سمجھ کے مطابق کر رہے ہیں۔ کسی کے کٹھ پتلی نہیں بن رہے۔ وہ کبھی بھی ایسے احمق نہ تھے کہ سرکاری عمارات پہ حملے کرنے کی سوچیں۔ اُن کی سیاست ایسی نہیں رہی۔ کم از کم اُن میں وہ لااُبالی پن نہیں جو شیخ الاسلام کا ہمیشہ وتیرہ رہا۔ بات بھی اِس انداز سے کر رہے ہیں کہ اُن کی چبھنے والی تنقید کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ہر لمحہ مولانا حوالہ دیتے ہیں تو آئین اور قانون کا اور تلقین بھی کر رہے ہیں کہ آئینی تقاضوں کی پاسداری ہونی چاہیے۔ یہی چبھتی تنقید ہے کیونکہ جو سوال پچھلے انتخابات کے بارے میں اُٹھائے جا رہے ہیں‘ اُن کی بنیاد ہی یہی ہے کہ آئین سے انحراف کیا گیا۔ یعنی جن دائروں میں ہر ایک کو رہنا چاہیے تھا اُن سے تجاوز کیا گیا۔ جو اِس تنقید کی زد میں ہیں اُنہیں یہ باتیں اچھی تو نہ لگ رہی ہوں گی لیکن اُنہیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔
یہ مقصد نہیں کہ عمران خان استعفیٰ دیتے ہیں یا نہیں۔ مطالبہ کرنے سے کب کسی نے استعفیٰ دیا ہے۔ لیکن اِس بات کو اُجاگرکر کے کہ عمران خان غیر روایتی طریقوں سے اقتدار میں آئے مولانا نے دُکھتی رَگ پہ اُنگلی رکھی ہے۔ اور اپوزیشن جماعتوں کو ایک نیا نعرہ دے دیا ہے۔ اُن کا پڑاؤ یا دھرنا بھلے کل ختم ہو جائے اور اُن کے حامی اپنے گھروں کو لوٹ جائیں لیکن یہ نئی بات قومی سیاست میں آ چکی ہے۔ بلاول بیشک عمران خان کو سلیکٹڈ کہتے تھے لیکن سلیکٹرز (selectors) پر تو کوئی براہ راست اُنگلی نہ اُٹھاتے تھے۔ مولانا نے تقریباً صاف صاف بات کر دی ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ اَب تک تو مطالبہ ہوتا تھا کہ الیکشن اداروں کے زیر نگرانی ہوں۔ مولانا نے یہ مطالبہ کر ڈالا ہے کہ آئندہ کے الیکشن اداروں کے زیر نگرانی نہ ہوں۔ یعنی کوئی سلیکشن وغیرہ کا احتمال نہ ہو۔ موجودہ تناظر میں یہ بہت بڑی بات ہے۔
مولانا نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے سب سے مؤثر لیڈر ہیں۔ اُن کی جمعیت علمائے اسلام نون لیگ یا پیپلز پارٹی سے بڑی نہیں ہو گئی لیکن مولانا کا قد کاٹھ اس ہنگامے سے بڑھ گیا ہے۔
 
Top