سیاسی منظر نامہ

محفل کا سرور امریکہ میں ہے۔ ہم نہیں مانتے کہ اس پر پاکستانی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہاں پاکستانی محفلین اپنی استطاعت کے مطابق ہی محفل پر آئیں
آہا، سمجھے۔ یہ آپ کے مراسلے کا جواب نہیں تھا۔ یہ پی ٹی اے کا ایس ایم ایس ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
گڈ اور بیڈ طالبان کے بعد گڈ اور بیڈ سیاستدان
207003_581958_updates.jpg

فوٹو: فائل

چینی حکومت پی ٹی آئی کی قیادت سے چار وجوہات کی بنا پر شاکی تھی۔ اول اس بنیاد پر کہ عمران خان کے بیٹے برطانیہ کے شہری ہیں۔

دوم اس بنیاد پر کہ نواز شریف اور بالخصوص شہباز شریف ان کے فیورٹ تھے کیونکہ انہوں نے سی پیک پر ویسے کیا جیسے چینیوں نے چاہا۔

سوم اس بنیاد پر کہ چینی صدر کو سی پیک کے حوالے سے انتہائی اہم دورہ پاکستان پی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا تھا اور چہارم اس بنیاد پر کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور پختونخوا کی حکومت نے مسلم لیگ(ن) کی دشمنی میں سی پیک کے حوالے سے چینیوں کے لئے ناپسندیدہ رویہ اختیار کیا تھا۔

انتخابات کے بعد بڑی مشکل سے ان کے چین کے ساتھ تعلقات استوار کئے گئے لیکن ان کے وزرا کے بیانات اور رویے سے چین بدظن ہوگیا۔ دوبارہ چین کے ساتھ وعدے وعید ہوئے لیکن درمیان میں آئی ایم ایف آٹپکا۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران امریکہ اور آئی ایم ایف کا مطالبہ رہا کہ سی پیک کے معاہدوں کی تفصیلات اس کے ساتھ شیئر کی جائیں۔

اب آئی ایم ایف کے نمائندے وزیر خزانہ بنے اور آئی ایم ایف ہی کے نمائندے چیئرمین ایف بی آر بنے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک کے حوالے سے چین کا رویہ سرد مہری کا شکار ہوگیا ہے لیکن عمران خان صاحب پھر بھی زندہ باد ہیں کیونکہ وہ گڈ سیاستدان ہیں اور باقی بیڈ سیاستدان ہیں۔ وہ پھر بھی محب وطن ہیں لیکن زرداری اورنواز شریف خاکم بدہن مودی کے یار ہیں۔

مودی ہٹلر کا پیروکار آج سے نہیں سالوں سے ہے۔ مسلمانوں کےقاتل کا خطاب اسے آج نہیں کئی سال پہلے ملا تھا جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ مسلمان اور پاکستان کا دشمن نمبرون وہ پہلے دور حکومت میں بھی تھا۔

اس کے انتخابی منشور میں بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا نکتہ شامل تھا لیکن وزیراعظم عمران خان نے فرمان جاری کیا کہ مودی کے دوبارہ منتخب ہونے سے مسئلہ کشمیر کے حل کا امکان بڑھ جائے گا تاہم وہ پھر بھی زندہ باد ہیں جبکہ ان کے مخالف سیاستدان مودی کے یار ہیں کیونکہ وہ گڈ سیاستدان ہیں اور ان کے مخالفین بیڈ۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے ضمن میں پاکستان سے بھی بعض کوتاہیاں ضرور سرزد ہوئی ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کی بے وفائیوں کا پلڑا بہت بھاری ہے۔ پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا لیکن اپنی سرزمین کو کبھی امریکہ کے لئے ایران کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا بلکہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ امریکہ کے ساتھ اس کے رابطے کے لئے استعمال ہوتا رہا۔

ایران افغانستان کے تناظر میں بھارت کا اسٹرٹیجک پارٹنر رہا اور اس کی سرزمین سے کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس اور دہشت گرد پاکستان آئے لیکن پاکستانی سرزمین اس واضح انداز میں ایران کے خلاف کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ ایران الزام لگاتا رہا لیکن پاکستان تردید کرتا رہا۔

اب وزیراعظم عمران خان نے ایرانی سرزمین پر جاکر اعتراف کیا کہ پاکستانی سرزمین ایران کے حلاف استعمال ہوئی لیکن وہ پھر بھی زندہ باد ہیں جبکہ ان کے مخالف سیاستدان مردہ باد ہیں کیونکہ وہ گڈ اور ان کے مخالفین بیڈ سیاستدان ہیں۔

قندھار سے طالبان خود نکلے تھے یا پھر امریکی سی آئی اے اور یونیکال کمپنی نے نکالے لیکن اس تاریخی حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ انہیں طاقتور اور کابل کا حاکم بنانے میں پاکستان اور سعودی عرب کا کلیدی رول تھا تاہم یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ القاعدہ کو بنانے میں پاکستان یا کسی اور ملک کی ایجنسی کاکوئی کردار نہیں تھا۔

القاعدہ کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب سوویت یونین افغانستان سے نکل رہا تھا۔ اس کے لوگوں نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کےدنوں میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی سے انفرادی حیثیت میں مدد اور ٹریننگ لی ہوگی لیکن تب وہ مجاہدین کا حصہ تھے البتہ تاریخی طور پراس بات کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ پاکستانی ایجنسیوں نے القاعدہ کو بنایا یا اس کے لوگوں کو ٹریننگ دی لیکن ہمارے وزیراعظم امریکہ میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ القاعدہ کو ہم نے بنایا اور اسے ٹریننگ دی۔ تاہم وہ پھر بھی زندہ باد ہیں اور ان کے مخالف مردہ باد ہیں کیونکہ وہ گڈ سیاستدان ہیں اور ان کے مخالفین بیڈ۔

پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے تنازع کو اگر ایک فقرے میں بیان کیا جائے تووہ یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کےساتھ اپنی سرحد کو مستقل سرحد کہتا ہے جبکہ افغان حکومت اسے مستقل سرحد کی بجائے ڈیورنڈ لائن کہتی ہے۔

پوری دنیا بھی پاکستان کی ہمنوا بن کر اسے سرحد مانتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ یا کسی اور عالمی فورم پر یہ تنازع کی صورت میں موجود نہیں۔ عملاً افغان حکومت بھی اسے سرحد تسلیم کرتی ہے کیونکہ اسی سرحد کے آر پار دونوں کے امیگریشن حکام موجود ہیں اور جب قبائلی علاقہ جات سے بھی افغانستان میں کوئی کارروائی ہوتی ہے تو افغان حکومت احتجاج کرتی ہے کہ پاکستانی سرزمین اس کے خلاف استعمال ہوئی۔ ہاں البتہ افغانستان کے اندر یہ ایک سیاسی اور جذباتی ایشو ہے۔

اب ہمارے وزیراعظم نے امریکہ میں ارشاد فرمایا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئی باقاعدہ سرحد موجود نہیں۔ ان کے اس بیان کو آج تک افغان میڈیا میں یوں کیش کیا جارہا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے افغان حکومت کے موقف کی حمایت کردی لیکن وہ پھر بھی زندہ باد ہیں کیونکہ وہ گڈ سیاستدان ہیں جبکہ ان کے مخالفین بیڈ۔

کسی زمانے میں گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کا تذکرہ ہوتا تھا لیکن اب پاکستان میں سیاستدان بھی گڈ سیاستدان اور بیڈ سیاستدان میں تقسیم کردئیے گئے ہیں۔بیڈ سیاستدان معمولی سی غلطی کرے تو ناقابل معافی لیکن گڈ سیاستدانوں کو کچھ بھی کرنے اور کہنے کی اجازت ہے۔

ابھی تو صحافی بھی گڈ اور بیڈ میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ گڈصحافیوں کو کچھ بھی کہنے اور کرنے کی اجازت ہے لیکن بیڈ صحافیوں کے لئے اصول مختلف ہے۔

اب تو دھرنے بھی گڈ اور بیڈ ہوگئے ہیں۔ گڈ سیاستدانوں کے دھرنے بھی گڈ اور حلال ہوتے ہیں جبکہ بیڈ سیاستدانوں کے دھرنے بھی بیڈ اور حرام ہوتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف: فرد سے علامت تک
26/10/2019 خورشید ندیم

نواز شریف اب ایک فرد نہیں، ایک علامت کا نام ہے: مزاحمت کی علامت۔

یہ عام لوگ ہی ہوتے ہیں جنہیں کوئی ایک واقعہ، ایک نعرہ مستانہ، فرد سے علامت بنا دیتا ہے۔ تاریخ کے کسی موڑ پر وہ جرأتِ رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ماہ و سال سے اٹھ جاتے ہیں۔ پھر تاریخ انہیں اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔ علامت بننا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ اس کی ایک قیمت ہے جو دینا پڑتی ہے۔ یہ اعزاز ملتا ہے تو کبھی اقتدار کی قربانی سے اور کبھی جان کے عوض۔

تاریخ کے صفحات جن لوگوں کے تذکرے سے روشن ہیں، ان میں سے اکثر عام لوگ ہی تھے۔ دو آنکھیں، دو کان، دو ہاتھ۔ کسی لمحے انہوں نے ایک عہد کیا اور پھر اس کو نبھانے کے لیے خود کو داؤ پر لگا دیا۔ در حقیقت، تاریخ دو طرح کے لوگوں بناتے ہیں۔ ایک وہ جو خدا کی طرف سے کوئی سند یا صلاحیت لے کر نمودار ہوتے اور پھر ان کی کوشش یا فکر سے وقت کا دھارا ایک نئے رخ پر بہنے لگتا ہے۔ دوسرے وہ جو اپنی عزیمت یا استقامت سے زمانے کا چلن بدل دیتے ہیں۔ نواز شریف دوسری طرح کے لوگوں میں شامل ہیں۔ وہ خاص آدمی نہیں تھے لیکن ان کی عزیمت نے انہیں معاصر اہلِ سیاست سے ممتاز کر دیا۔

ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن

اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

نواز شریف ایک عام آدمی ہیں۔ اتنے ہی نیک جتنا کوئی عام آدمی ہوتا ہے۔ اتنے ہی گناہ گار جتنا ایک عام آدمی ہوتا ہے۔ عام آدمی دیوتا ہوتا ہے نہ شیطان۔ حالات انہیں ایک ایسے مقام پر لے آئے جہاں وہ چاہتے تو ایک عام آدمی ہی کی طرح جیتے۔ اعجاز شاہ صاحب کے الفاظ میں، وہ چوتھی بار بھی پاکستان کے وزیر اعظم بن جاتے۔ شاہ صاحب درست کہتے ہیں۔ اگر وہ مزاحمت نہ کرتے تو آج ملک کے وزیر اعظم ہوتے۔ وہ وزیر اعظم بن جاتے تو کیا ہوتا؟ ان کو آسودگی کے چند سال مزید مل جاتے، مگر وہ علامت نہ بن پاتے۔

انہوں نے ایک خاص لمحے میں مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ آسودگی کی زندگی پر جیل کی صعوبتوں کو ترجیح دی۔ اقتدار ہی نہیں گیا، ان کی زندگی بھی داؤ پر لگ گئی۔ خاندان بکھر گیا۔ بیٹی پر تعیش محلات سے نکلی اور تکلیف دہ حوالات جا پہنچی۔ یہ نواز شریف کا اپنا انتخاب تھا۔ یقیناً یہ آسان فیصلہ نہیں تھا۔ وہ اس کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہو گئے اور یوں فرد سے علامت بن گئے۔

یہ اب کوئی راز نہیں کہ ان سے ”ڈیل‘‘ کی بہت کوشش کی گئی۔ لوگ ‘ این آر او‘ ہاتھ میں لیے پھرتے رہے۔ سفارشیں کراتے رہے کہ وہ اسے قبولیت سے نوازیں۔ نواز شریف نے ہر بار انکار کیا۔ سادہ سی بات ہے۔ اگر باہر رہنا ان کی ترجیح ہوتا تو وہ ملک میں آتے کیوں؟ اس معاملے میں وہ اپنے بھائی کی سننے پر آمادہ ہوئے نہ سیاسی رفقاء کی۔ سیاسی رفیق بھی ریاست کی قوت کے سامنے کمزور پڑتے گئے۔ نواز شریف لیکن ڈٹے رہے۔ یہ عزیمت اور استقامت کا راستہ تھا۔ علامت بننا تاریخ میں کبھی آسان نہیں رہا۔

‘ پوسٹ ٹرتھ‘ سے عبارت سیاسی بیانیے نے کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنایا اور پھر ابلاغ کی ساری کوششیں اس نکتے پر مرتکز کر دیں کہ نواز شریف کو کرپشن کی علامت بنا دیا جائے۔ ‘سٹیٹس کو‘ کی قوتوں کو اندازہ تھا کہ وہی ان کے راستے میں مزاحم ہو سکتے ہیں۔ نوزائیدہ سیاسی ذہن اس کا شکار ہوئے کہ ” پوسٹ ٹرتھ‘‘ کا ہدف ہمیشہ نیم خواندہ لوگ ہی ہوتے ہیں۔

نواز شریف اللہ کے ولی کبھی نہیں تھے نہ اب ہیں۔ وہ ایسے ہی ایک کاروباری آدمی ہیں جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی، ان کے خلاف اگر کچھ ہاتھ آیا تو ”اقامہ‘‘۔ عدالت نے سزا اقامہ پر دی مگر ”پوسٹ ٹرتھ‘‘ کا کمال دیکھیے کہ عوامی مقدمہ پاناما کا بنا۔ ”آف شور‘‘ کمپنیاں تو یہاں عمران خان سمیت سب نے بنائیں۔ پھر پچیس سال پرانے ”منی ٹریل‘‘ مانگے گئے۔ قطری شہزادے کے خط کو ”پوسٹ ٹرتھ‘‘ کی قوت سے ان کے خلاف ہتھیار بنا دیا گیا‘ مگر جمائما خان کا ایفی ڈیوٹ نظر انداز ہوا جو عدالتِ عظمیٰ میں پیش کیا گیا۔

مکرر عرض ہے کہ نواز شریف کو میں فرشتہ نہیں سمجھتا، لیکن انہیں کرپشن کی علامت بنانا ”پوسٹ ٹرتھ‘‘ کا کمال ہے۔ یہ اسی نظام کی عطا ہے جس میں بی آر ٹی پشاور جیسے کرپشن اور نا اہلی کے مقدمے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ جہانگیر ترین کو بھی اسی عدالت عظمیٰ نے تاحیات نااہل کیا لیکن وہ کرپشن کی علامت نہیں بنے۔ آج بھی امورِ حکومت اور فیصلہ سازی میں شریک ہیں۔

پوسٹ ٹرتھ نے نواز شریف کو کرپشن کی علامت بنانا چاہا مگر وقت نے انہیں مزاحمت کی علامت بنا دیا۔ یہ مزاحمت کسی فرد یا ادارے کے خلاف نہیں، اس سوچ کے خلاف ہے جو عوام کے حقِ اقتدار کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ جو آئین کو کاغذ کا ایک چیتھڑا سمجھتی ہے۔ جو قومی مفاد کی تعریف ایک مخصوص گروہ کا استحقاق جانتی ہے، عوام کے نمائندوں کا نہیں۔ یہ سوچ ریاستی اداروں میں پائی جاتی ہے اور سول بیوروکریسی میں بھی۔ صحافت میں اس کے علم بردار موجود ہیں اور مذہبی طبقات میں بھی۔

یہ سوچ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں پہلے سے موجود تھی۔ سیاسی حرکیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب تک کوئی سوچ پنجاب میں جڑ نہیں پکڑتی، قومی بیانیہ نہیں بنتی۔ نواز شریف کی وجہ سے یہ سوچ پنجاب میں بھی اب ایک مقبول بیانیہ بن چکی ہے۔ نواز شریف کے حق میں دوسروں صوبوں سے توانا آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ان کے لیے ہمدردی کی ایک لہر ہے جو ملک بھر میں پھیل رہی ہے۔ یہ وفاق کے لیے نیک شگون ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ انشااللہ پاکستان کو مضبوط اور متحد کرنے کی بنیاد بنے گا۔

ہماری تاریخ اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر چکی کہ یہ ریاستی ادارے نہیں، قومی سیاسی جماعتیں ہیں جو وفاق کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ آمروں نے اپنے اقتدار کے لیے قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا اور علاقائی و لسانی جماعتوں کو ابھارا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے جس طرح کراچی کو برباد کیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کا کردار ہے۔ 1979ء سے 2007ء تک، پیپلز پارٹی نے وفاق کو متحد رکھنے کے لیے شاندار کردار ادا کیا۔ بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت معمولی واقعات نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی نے ان نازک موقعوں پر سندھ کو سنبھالا دیا۔ آصف زرداری نے ”پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ بلند کر کے، قومی خدمت سرانجام دی۔ ‘پوسٹ ٹرتھ ‘ کا ایک کمال یہ ہے کہ اس نے زرداری صاحب کی مبینہ کرپشن کو بھولنے نہیں دیا لیکن اُن کے اِس کردار کو عوامی یادداشت سے محو کرا دیا۔

وفاق کے لیے یہی خدمت آج نواز شریف سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے مخالفین سرتوڑ کوشش میں رہے کہ نواز شریف کو کرپشن یا پھر فوج کے خلاف ایک علامت کے طور پر پیش کریں۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے کے خلاف یہ مقدمہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ وہ محبِ وطن عوامی قوتوں کے نمائندہ ہیں۔ ان کا بیانیہ ہی پاکستان کو متحد رکھ سکتا ہے۔ دیگر صوبوں میں ان کی پذیرائی اس کا بین ثبوت ہے۔ میرا تاثر ہے کہ اگر ملک کے سیاسی نظم کو اس بیانیے پر استوار کر دیا جائے تو یہاں علیحدگی پسند تحریکیں مہینوں میں دم توڑ دیں۔

آج بھی کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ نواز شریف کو کرپشن کی علامت بنائے رکھیں۔ یوں ان کا بیانیہ پس منظر میں چلا جائے اور قومی سطح پر بحث کا موضوع نہ بنے۔ میری خواہش ہو گی کہ جنہیں نواز شریف پسند نہیں، وہ ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، اس بیانیے پر ضرور غور کریں۔ یہ بیانیہ ہی پاکستان کو متحد رکھنے کی ضمانت ہے۔ جس دن سندھ، کے پی، پنجاب اور بلوچستان کے عوام میں یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے، پاکستان کسی خارجی جبر کے بغیر ہی متحد ہو جائے گا۔

بشکریہ: روز نامہ دنیا
 

جاسم محمد

محفلین
366_014933_reporter.JPG
حامد میر
ریاست کو اصل خطرہ
207257_9245690_updates.JPG

اب شہریت کو مشکوک بنانے کی روایت ڈال دی گئی ہے: فائل فوٹو حافظ حمد اللہ

ریاست ماں کے بجائے بدمعاش بن جائے تو اپنے لئے محبت نہیں بلکہ نفرت پیدا کرتی ہے۔ یہی وہ نفرت تھی جس نے 1971میں پاکستان کو دو لخت کیا۔


کون نہیں جانتا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکہ میں بنائی گئی اور مسلم لیگ کی پہلی حکومت بھی بنگال میں قائم ہوئی اور 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کے بارے میں قرارداد پیش کرنے کا اعزاز بھی ایک بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق کو حاصل ہوا لیکن جب پاکستان بن گیا تو بنگالیوں نے ناانصافی کی شکایت کی۔

اُن کی شکایت دور کرنے کے بجائے اُنہیں ریاست کا باغی قرار دے دیا گیا اور یوں پاکستان توڑ دیا گیا۔ افسوس کہ یہ ریاست اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں اور آج بھی لوگوں کو زبردستی غدار اور باغی بنانے پر تُلی بیٹھی ہے۔

پہلے تو صرف حب الوطنی مشکوک بنائی جاتی تھی اب شہریت کو مشکوک بنانے کی روایت ڈال دی گئی ہے۔

26 اکتوبر کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللّہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ افغان ہیں۔

اس اعلان کے فوراً بعد ایک اور ادارے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے تمام ٹی وی چینلز کو تحریری ہدایات جاری کیں کہ حافظ حمداللہ کو ٹی وی پروگراموں میں مدعو نہ کیا جائے کیونکہ وہ پاکستانی نہیں۔

اوپر تلے دو ریاستی اداروں کے اعلانات سے واضح ہو گیا کہ اصل مسئلہ حافظ حمداللّہ کی شہریت نہیں بلکہ مختلف ٹی وی چینلز پر اُن کی گفتگو تھی۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں جے یو آئی کی نمائندگی کر رہے تھے اور 27 اکتوبر سے شروع ہونے والے آزادی مارچ کے ساتھ ساتھ نواز شریف کا بھی دفاع کر رہے تھے۔

مختلف ریاستی اداروں نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی تقاریر اور انٹرویوز دکھانے پر غیر علانیہ سنسر شپ عائد کر دی تھی۔ اس سنسر شپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ حافظ حمداللّہ، مولانا عطاء الرحمٰن، مولانا عبدالغفور حیدری، اکرم درانی اور حافظ حسین احمد سمیت جے یو آئی ایف کے کئی رہنما مختلف ٹاک شوز پر جلوہ افروز ہونے لگے اور حکومت کے وزراء کو آڑے ہاتھوں لینے لگے۔

حافظ حمداللّہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ ایم اے پولیٹیکل سائنس بھی ہیں۔ بلوچستان کے وزیرِ صحت رہے، پھر چھ سال تک سینیٹ کے رکن رہے اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس وقت کس کو کس انداز اور کس لب و لہجے میں کیا جواب دینا ہے لہٰذا فصاحت و بلاغت اور جرأت کا امتزاج بن کر سامنے آئے تو اُنہیں چپ کرانے کے لئے ریاست کے قانون کو ناجائز اسلحے کے طور پر استعمال کیا گیا اور اُن کی پاکستانی شہریت پر گولی چلا دی گئی۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ حافظ حمداللّہ کی شہریت کے بارے میں ریاست کے موقف میں کتنی صداقت ہے؟ حافظ حمداللّہ 1968میں بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں پیدا ہوئے، اُن کے والد مولانا ولی محمد ایک سرکاری اسکول میں اُستاد تھے۔

مولانا ولی محمد کے کچھ رشتہ دار افغانستان میں رہتے تھے۔ 1975میں انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ بنوایا اور 1976میں افغان قونصلیٹ کوئٹہ سے ویزا حاصل کر کے افغانستان گئے۔ اُن کا پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور اس پر افغانستان کا ویزا ابھی تک محفوظ ہے۔

چمن کے بہت سے لوگ بغیر ویزے کے افغانستان آتے جاتے ہیں کیونکہ اُن کی زمینیں اور کاروبار افغانستان میں ہے لیکن مولانا ولی محمد 1976میں بھی ویزا لے کر افغانستان گئے۔ اگر وہ افغان نہیں تو اُن کا بیٹا حافظ حمداللہ کیسے افغان بن گیا؟

اگر حافظ حمداللّہ افغان شہری تھے تو نادرا کو 2002 میں کیوں پتا نہ چلا جب وہ بلوچستان کے وزیرِ صحت بنے؟ حافظ حمداللّہ کا ایک بیٹا پاکستان آرمی میں نوجوان آفیسر ہے۔

اگر باپ افغان تھا تو یہ نوجوان پاکستان آرمی میں کیسے بھرتی ہوا؟ سچ یہ ہے کہ حافظ حمداللّہ کے والد بھی پاکستانی تھے، وہ خود بھی پاکستانی ہیں اور اُن کی پوری اولاد پاکستانی ہے۔ جن لوگوں نے انہیں افغان قرار دیا ہے، اُن کا ذہن پاکستانی نہیں ہے، وہ لوگ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ذہن سے نہیں بلکہ جنرل ایوب خان کے ذہن سے سوچتے ہیں جس نے فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا تھا۔

جس دن ریاستی اداروں نے حافظ حمداللّہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کی اور پاکستان کے ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں اُن کی شرکت پر پابندی لگائی اُسی دن حکومت کے ایک ڈپٹی کمشنر نے اپوزیشن کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا جس میں طے پایا کہ جے یو آئی 31 اکتوبر کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوگی بلکہ پشاور موڑ پر جلسہ کرے گی۔ ایک طرف یہ معاہدہ کیا گیا، دوسری طرف حافظ حمداللّہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کی گئی، تیسری طرف مولانا فضل الرحمٰن کو میڈیا پر کم سے کم دکھانے کا دباؤ بھی موجود ہے۔

ایک طرف حکومت کے وزراء جے یو آئی سے مذاکرات کرتے ہیں دوسری طرف الزام لگاتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ نے مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹا دی ہے۔ حکومت کی بھی سمجھ نہیں آتی۔

حکومت کا وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑا ہو کر بھارتی وزیراعظم کو ہٹلر سے تشبیہ دیتا ہے اور کچھ دن بعد یہی حکومت کرتار پور راہداری پر اسی ہٹلر کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط بھی کرتی ہے۔ کیا نواز شریف اور آصف زرداری کو کرتار پور راہداری پر بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنے کی اجازت مل سکتی تھی؟

اس معاملے پر بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں اور اگر جواب نہ آئے تو یہ سوالات بارودی سرنگیں بن جائیں گے اور یہ بارودی سرنگیں پھٹنے لگیں تو بہت نقصان ہوگا۔ عمران خان کے دورِ حکومت اور اندازِ حکومت نے ریاست کے اندر موجود تضادات کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔

ریاست کا اصل مسئلہ کمزور معیشت نہیں بلکہ کمزور اخلاقی قدریں ہیں۔ یہ ریاست جھوٹ بھی بولتی ہے اور اپنا قانون خود اپنے پائوں تلے بھی روندتی ہے۔ جو کام عمران خان کے لئے 2014میں جائز تھا وہ 2019 میں فضل الرحمٰن کے لئے ناجائز ہے اور اگر حافظ حمداللّہ ریاستی اداروں کے اس دوغلے پن کو بے نقاب کرے تو اُس کی شہریت منسوخ کر دی جائے گی۔ اس ریاست کو حافظ حمداللّہ سے نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں سے خطرہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوئلوں کی دلالی
جاوید چوہدری پير 28 اکتوبر 2019

جان سی میکس ویل لیڈر شپ ٹرینر ہے‘ یہ مشی گن میں رہتا ہے‘ عمر 72 سال ہے‘ 100کتابوں کا مصنف ہے اور اس کی ایک کتاب ’’دی21 ار رفیوٹ ایبل لاز آف لیڈر شپ‘‘ لیڈر شپ کی بنیادی کتابوں میں شامل ہے‘ میکس ویل دنیا کے مختلف ملکوں میں لیڈر شپ کی ٹریننگ بھی دیتا ہے‘ مجھے چند برس قبل نیویارک میں اس کا سیشن اٹینڈ کرنے کا موقع ملا‘ وہ سیشن خاصا مہنگا تھا لیکن میں نے جو سیکھا وہ سیشن کی فیس سے کہیں قیمتی‘ کہیں مہنگا تھا‘ مثلاً میکس ویل نے ہال میں موجود شرکاء میں سے ایک صاحب کو اسٹیج پر بلایا‘ اسے اپنے سامنے کھڑا کیا‘ اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور اسے نیچے دبانا شروع کر دیا۔

وہ شخص تگڑا تھا‘ وہ اکڑ کر کھڑا رہا‘ میکس ویل نے پورا زور لگانا شروع کر دیا‘ وہ شخص دبنے لگا اور وہ آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا چلا گیا‘ میکس ویل بھی اسے دبانے کے لیے نیچے ہوتاچلا گیا‘ وہ شخص آخر میں تقریباً لیٹ گیا‘ میکس ویل نے اس کے بعد اسے اٹھایا اور ہم شرکاء سے مخاطب ہوا ’’ آپ نے دیکھا مجھے اس شخص کو دبانے کے لیے کتنا زور لگانا پڑا‘ دوسرا یہ جوں جوں نیچے جا رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ ساتھ نیچے جا رہا تھا۔

یہاں تک کہ ہم دونوں زمین کی سطح تک پہنچ گئے‘‘ وہ اس کے بعد رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا ’’ہم جب بھی زندگی میں کسی شخص کو نیچے دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو صرف ہمارا ہدف نیچے نہیں جاتا ہم بھی اس کے ساتھ زمین کی سطح تک آ جاتے ہیں جب کہ اس کے برعکس ہم جب کسی شخص کو نیچے سے اٹھاتے ہیں تو صرف وہ شخص اوپر نہیں آتا‘ ہم بھی اوپر اٹھتے چلے جاتے ہیں‘ ہمارا درجہ‘ ہمارا مقام بھی بلند ہو جاتا ہے‘‘ وہ اس کے بعد رکا اور بولا ’’جینوئن لیڈر کبھی کسی کو نہیں دباتا‘ وہ ہمیشہ دبے ہوؤں کو اٹھاتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ خود بھی اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے‘ وہ بلند ہوتا رہتا ہے‘‘۔

میکس ویل کی دبانے اور اٹھانے کی تھیوری میں بہت جان ہے‘ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو دوسروں کو دبانے والا ہر شخص ان کے ساتھ نیچے جاتا بھی نظر آئے گا اور اپنی ساری توانائیوں سے محروم ہوتا بھی‘ ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی یہ غلطی کر بیٹھے تھے‘ یہ پچھلے 14 ماہ سے صرف ایک ہی کام کر رہے ہیں اور وہ کام ہے اپوزیشن کو دبانا‘ میاں نواز شریف عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے جیل پہنچ چکے تھے‘ آصف علی زرداری کی باری پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد آئی لیکن حکومت کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا اور یہ دھڑا دھڑ جیلیں بھرتی چلی گئی۔

یہاں تک کہ آج ملک کی دونوں جماعتوں کی قیادت خاندان سمیت جیلوں اور حوالات میں پڑی ہے‘ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل جیسے لوگ بھی سی کلاس بھگت رہے ہیں مگر حکومت کے احتساب کی آگ اس کے باوجود ٹھنڈی نہیں ہو رہی‘ میں احتساب‘ انصاف اور برابری تینوں کا دائمی وکیل ہوں لیکن ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ برابری ہے‘ انصاف ہے اور نہ ہی احتساب ہے‘یہ سیدھا سادا انتقام اور رگڑا ہے‘ یہ لوگ اگر کرپٹ ہیں تو پھر ان کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ مقدمات بھی بننے چاہیے تھے اور وصولیاں بھی ہونی چاہیے تھیں۔

پھر اقامے کی بنیاد پر میاں نواز شریف کی حکومت ختم نہیں ہونی چاہیے تھی اور حکومت کو اب تک مال مسروقہ بھی برآمد کر لینا چاہیے تھا مگر یہ بھی نہ ہو سکا اور ملک میں انصاف اور احتساب بھی مذاق بن کر رہ گیا‘ آپ آج کسی سڑک پر کھڑے ہو کر کسی شخص سے پوچھ لیں وہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ساتھ حکومتی سلوک کو انتقام ہی کہے گا‘ یہ لوگ اگر کرپٹ تھے بھی تو یہ حکومتی حماقتوںسے 14 ماہ میں مجرم سے بے گناہ اور بے گناہ سے معصوم بن چکے ہیں‘ لوگوں کو اب ان پر ترس اور حکومت پر غصہ آ رہا ہے‘ رہا سہا بھرم میاں نواز شریف کی ضمانت نے اڑا دیا‘ عمران خان 19 سال سے کہتے آ رہے تھے میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا‘ یہ پچھلے 14ماہ سے یہ بھی کہہ رہے تھے میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا لیکن پھر یہ اپنے ہاتھوں سے میاں نواز شریف کو رہا کرنے پر بھی مجبور ہو گئے اور بیماری ہی سہی ’’این آراو‘‘ پر بھی مجبور ہو گئے۔

آصف علی زرداری‘ مریم نواز اور فریال تالپور کی ضمانت بھی اب زیادہ دور نہیں رہی‘ یہ لوگ بھی چند دن بعد اپنی مرضی کے اسپتال میں علاج کرا رہے ہوں گے لہٰذا حکومت نے گرد چھان کر کیا حاصل کر لیا‘ کتنے حجوں کا ثواب سمیٹ لیا؟ میرا خیال ہے حساب کا وقت آ گیا ہے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں واقعی بیمار ہیں‘میاں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کنٹرول نہیں ہو رہے‘ یہ خون لگنے کے بعد چند گھنٹے نارمل رہتے ہیں لیکن پھر ان کے پلیٹ لیٹس گرنا شروع ہو جاتے ہیں‘ ان کے دانتوں سے بھی خون رس رہا ہے اور جسم پر خون کے دھبے بھی نظر آ رہے ہیں۔

ڈاکٹروں نے ان کی کیموتھراپی بھی شروع کر دی ہے اور یہ بون میرو کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں لیکن یہ آپریشن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کے پلیٹ لیٹس ڈیڑھ لاکھ تک نہیں پہنچتے‘ ملک سے باہر جانا تو دور یہ سردست ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال بھی منتقل نہیں ہو سکتے‘ آصف علی زرداری کی رپورٹس بھی بہت خراب ہیں‘یہ عارضہ قلب‘ مہروں‘ ہائی بلڈ پریشر‘ شوگر اورپارکینسس میں مبتلا ہیں‘ حکومت عدالت میں ان کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت بھی نہیں کرے گی اور یہ انھیں کراچی شفٹ کرنے کی اجازت بھی دے دے گی‘ کیوں؟ کیوں کہ حکومت اچھی طرح جان چکی ہے اگر آصف علی زرداری کو راولپنڈی میں کچھ ہو گیا تو سندھ نفرت سے ابل پڑے گا اور وفاق اس نفرت کو کنٹرول نہیں کر سکے گا۔

میاں نواز شریف کی صحت کی مزید خرابی بھی حکومت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے گی اور اگر خدانخواستہ کسی ایک کی صحت مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے جڑ گئی تو آپ نتائج کا اندازہ خود کر لیجیے‘ پاکستان میں پچھلے دس برسوں سے ان ہونیاں ہو رہی ہیں‘ ایک اور ان ہونی اس وقت وفاقی دارالحکومت کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور یہ ان ہونی مولانا فضل الرحمن کا مارچ ہے‘ یہ مارچ بہر حال کسی نہ کسی کی تباہی کا باعث ضرور بن جائے گا‘ عمران خان اس کی زد میں آئیں گے یا پھر یہ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا باعث بن جائے گا ‘ مولاناکا اعتماد بہت خطرناک ہے‘ یہ پچھلے دو ماہ سے کہہ رہے ہیں ہم عمران خان کا استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔

یہ اعتماد‘ حکومت کی پریشانی‘ مارچ کی اجازت مل جانا اور میاں نواز شریف کی ضمانت بآواز کہہ رہی ہے حالات اب وہ نہیں ہیں جو چند ماہ پہلے تک تھے‘ چیزیں اور حالات کا رخ دونوں بدل رہے ہیں چناں چہ مولانا اگر پانچ دس لاکھ لوگوں کے ساتھ پنجاب میں داخل ہو گئے تو پھر بات ایک استعفے تک نہیں رہے گی‘ تین استعفے ہوں گے‘ مارچ کام یاب ہوتا ہے یا ناکام یہ فیصلہ چند دنوں میں ہو جائے گا تاہم یہ طے ہے مارچ کے بعد حالات یہ نہیں رہیں گے‘ حکومت اگر بچ بھی گئی تو بھی بری طرح معذور ہو چکی ہو گی اور یہ زیادہ دنوں تک اپنے قدموں پر کھڑی نہیں رہ سکے گی۔

عمران خان قوم کی امید تھے‘ حکومت کو بہرحال کام یاب ہونا چاہیے تھا مگر افسوس ان لوگوں نے خود گڑھے کھودے اور یہ خود ہی ان میں جا گرے‘ آپ جب کندھوںپر بیٹھ کر آئیں گے تو پھر آپ کندھوں کی بے وفائی کا رونا نہیں رو سکتے‘ آپ کو بہرحال ایک صفحے پر رہنا پڑتا ہے‘ آپ کو بنانے والوں کی طاقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے مگر عمران خان اب لیڈر بن رہے تھے‘ یہ خود کو اتھارٹی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔

چناں چہ ان کے ٹائروں سے ہوا نکلنا ضروری تھی اور یہ اب نکل رہی ہے‘ کندھوں پر چڑھنا عمران خان کی پہلی بڑی غلطی تھی‘ ان کی دوسری بڑی غلطی اپنی ساری توانائی اپوزیشن کو دبانے پر خرچ کردینا تھی‘ یہ جتنا زور میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو نیچے دبانے یا رگڑا لگانے پر لگاتے رہے‘ یہ اگر اتنی توجہ گورننس اور پرفارمنس پر دے دیتے تو آج مورخ تاریخ کو نئے زاویے سے لکھ رہا ہوتا‘ آج لوگ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو فراموش کر چکے ہوتے مگر افسوس عمران خان نے زرداری اور نواز شریف دونوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا‘ حکومت نے ثابت کر دیا یہ ملک ان کے بغیر نہیں چل سکتا‘ عمران خان نے کیا کیا؟ آپ صرف ایک واقعے سے اندازہ کر لیجیے۔

24 اکتوبر کو مولانا طارق جمیل میاں نواز شریف کی عیادت کے لیے گئے‘ یہ ایک گھنٹہ اسپتال میں بیٹھے رہے‘ میاں نواز شریف نے اس دوران کوئی شکوہ نہیں کیا‘ یہ بھی نہیں کہا آپ کن لوگوں کے ساتھ مل کر ریاست مدینہ تلاش کر رہے ہیں لیکن جب مولانا اٹھنے لگے تو نواز شریف نے ان سے کہا ’’آپ بس ایک دعا کریں‘ اللہ تعالیٰ کسی کو دشمن دے تو اعلیٰ ظرف دے‘‘ یہ ایک فقرہ کافی ہے‘ افسوس حکومت احتساب بھی نہ کر سکی اور یہ اعلیٰ ظرفی سے بھی محروم ہو گئی‘ آخر اس کے ہاتھ راکھ اور خاک کے سوا کیا آیا؟یہ لوگ اپنی ساکھ بھی کھو بیٹھے اور یہ عوام کے اعتماد کی دولت سے بھی محروم ہو گئے‘ ہم نے آخر کوئلوں کی دلالی سے کیا پایا؟ اور اس دلالی میں اگر زرداری صاحب یا میاں صاحب کوکچھ ہو جاتا ہے تو پھر حکومت کہاں ہو گی؟ ذرا سوچیے اور بار بار سوچیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
PTI کے خلاف سازش کون کررہا ہے؟
رؤف کلاسرا

اسد عمر کو پی ٹی آئی میں عمران خان کے بعد زیادہ پسند کیا جاتا رہا ہے۔ ہر پارٹی میں چند ایسے لوگ ضرور رہے ہیں جن پر آپ جتنی تنقید کر لیں وہ تعلقات خراب نہیں کرتے۔ میں ان صحافیوں میں سے ہوں جنہوں نے اسد عمر کے حوالے سے اپنے پروگرامز میں اچھی خبریں نہیں دیں‘ بلکہ تنقید کی۔ اگرچہ وزیر خزانہ کے طور پر انہوں نے اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی (ای سی سی) میں کچھ اچھے فیصلے کیے‘ لیکن گیس انفراسٹرکچر سیس کے تین سو ارب روپے معاف کرنے کا کام بھی انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ اسد عمر نے طاقتور مافیاز پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تھی‘ جن میں شوگر مافیا سرفہرست تھا۔ اسد عمر نے ایل این جی کے حوالے سے معاہدوں پر بریفنگ لی تو انہیں لگا کہ ایک ڈیل مشکوک صورتحال میں کی گئی تھی۔ اس ڈیل کی منظوری دلوانے والے اور کوئی نہیں ہمارے محبوب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی تھے۔ اسد عمر صاحب نے کابینہ کو تجویز دی کہ وہ اس معاہدے پر نظرثانی کرے؛ تاہم اس دوران وزیر قانون فروغ نسیم وزیر اعظم عمران خان کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ اس ڈیل کو ختم کیا گیا تو آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ طے پایا کہ کمپنی کے کنٹریکٹس کو دوبارہ نہیں کھولا جائے گا اور وہ اپنی طے شدہ رقم وصول کرتی رہے گی۔ یوں اس معاملے کو پھر کبھی نہ چھیڑا گیا۔
میں اپنے دوست ارشد شریف کا شو دیکھ رہا تھا‘ جس میں اسد عمر مہمان تھے۔ ارشد شریف نے اہم سوالات اسد عمر سے کیے اور اسد عمر نے بھی کھل کر جوابات دیے۔ اسد عمر نے انکشاف کیا کہ بڑے بڑے مافیاز کی عمران خان کابینہ تک رسائی ہے اور شوگر مل مافیا نے ان پر دبائو ڈلوایا تھا کہ وہ انہیں اربوں روپوں کی سبسڈی دیں‘ لیکن انہوں نے انکار کیا تو صوبوں کو کہہ کر اربوں روپے اس مافیاز کو دلوائے گئے۔ یقینا اسد عمر کو پتا چل گیا ہو گا کہ اس مافیا کو اربوں روپے سبسڈی دینے کی مزاحمت کرنے پر انہیں وزارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے‘ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ایک طاقتور گروپ ان کا دشمن ہو گیا تھا‘ جسے شوگر مافیا لیڈ کر رہا تھا۔ اس طرح ارشد شریف کا اہم سوال یہ تھا کہ الیکشن کے بعد آخر اوریجنل پی ٹی آئی کہاں غائب ہو گئی؟ اس پی ٹی آئی کو کس نے ہائی جیک کر لیا‘ جو الیکشن سے پہلے عوام اور میڈیا میں بہت پاپولر تھی؟ اچانک وہ لوگ کہاں غائب ہو گئے جو پارٹی کا اصلی چہرہ تھے؟
ارشد شریف کا یہ سوال سن کر یاد آیا کہ چند روز پہلے وزیر اعظم جناب عمران خان کی اینکرز اور صحافیوں سے ملاقات ہوئی تو یہ بات میں نے بھی محسوس کی۔ لگ رہا تھا کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد نئی پارٹی بنا لی ہو۔ اس اہم ملاقات میں عمران خان کے ارد گرد بیٹھے درجن بھر وزرا اور مشیروں میں سے ایک بھی پی ٹی آئی سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ عمران خان کے ارد گرد بیٹھے وزرا میں فردوس عاشق اعوان سے لے کر عمر ایوب‘ ندیم بابر‘ خسرو بختیار‘ ندیم افضل چن‘ یوسف بیگ مرزا‘ ثانیہ نشتر تک کسی کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں تھا۔ صرف ندیم افضل چن نے الیکشن سے پہلے پی پی پی چھوڑ دی تھی اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا‘ ورنہ دیگر وزرا کا تعلق دور دور تک پی ٹی آئی سے نہیں ہے۔ اچانک کیا ہوا کہ جو چہرے عمران خان نے عوام اور میڈیا کو دکھا کر ووٹ لیے تھے وہ سب سائیڈ پر ہو گئے یا کر دیے گئے؟ اب وہ لوگ عمران خان کے گرد جمع ہیں جن کا ان کی پارٹی یا ووٹر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ خود کو کسی کے آگے جواب دہ سمجھتے ہیں۔
عمران خان صاحب کے گرد ان لوگوں کے جمع ہونے سے پارٹی نے نقصان اٹھائے ہیں اور آج اگر ایک سال میں پارٹی کی یہ حالت ہو چکی ہے تو اس میں بھی ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے جو عمران خان کو ان کی پارٹی کے منشور اور کردار سے بہت دور لے گئے ہیں۔ ان پیرا شوٹرز نے عمران خان سے بڑی دشمنی کی اور پہلے دن سے ہی انہیں میڈیا سے دور کر دیا۔ عمران خان کو قائل کر دیا گیا ہے کہ جو بھی ان کی حکومت کے خلاف بات کرتا ہے یا سکینڈل بریک کرتا ہے اس کے ٹی وی شوز بند کرا دیں یا اینکرز پر دوسرے شوز میں جانے پر پابندی لگوا دیں یا چینلز کو ریاستی طاقت کے سہارے خاموش کرایا جائے۔ یہ سب مشورے دینے والے وہی ہیں جو باہر سے پارٹی پر نازل ہوئے ہیں یا نازل کرا دیے گئے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے‘ آپ کو کیسے علم ہے‘ یہی لوگ عمران خان کو مشورے دے رہے ہیں اور میڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات بگاڑ چکے ہیں؟ اس کا پہلا بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ عمران خان جو میڈیا کے ڈارلنگ تھے‘ آج ان میں اور میڈیا میں لڑائی چل رہی ہے‘ یہی دیکھ لیں پیمرا کے اس آمرانہ آرڈر کے بعد کہ اینکرز اپنی رائے نہیں دے سکتے یا دوسرے شوز میں نہیں جا سکتے‘ اس آرڈر کے خلاف حکومت کے کن وزرا نے مذمت کی اور کس نے دفاع کیا‘ تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اصل پی ٹی آئی کون سی تھی اور اصلی چہرے کون ہیں؟
پیمرا کے اس نوٹیفکیشن کی سب سے پہلے مذمت شیریں مزاری نے ٹویٹ کے ذریعے کی۔ اس کے بعد فواد چوہدری نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی‘ پھر وفاقی وزیر علی محمد نے حامد میر کے شو میں بڑی اچھی باتیں کیں اور بولے: جو اینکرز ہمیں اپوزیشن کے دنوں میں اچھے لگتے ہیں وہ حکومت میں کیوں برے لگنا شروع ہو جاتے ہیں؟ سینیٹر فیصل جاوید نے بھی پیمرا کے اس اقدام کو غلط قرار دیا۔ اسد عمر نے بھی ارشد شریف کے شو میں کھل کر پیمرا کے اس حکم پر تنقید کی۔ اب آپ یہ سب نام پڑھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ حکومت میں پی ٹی آئی کے اصلی اور پرانے لوگ کیا سوچتے ہیں۔ جب عمران خان یہ کہہ رہے تھے کہ تین اینکرز عامر متین‘ رئوف کلاسرا اور محمد مالک ان کی حکومت پر تنقید نہ کریں یا خاموش ہو جائیں تو معیشت درست ہو جائے گی تو اس وقت ان (عمران خان) کے گرد سب وہ لوگ بیٹھے تھے جن کا پی ٹی آئی سے دور دور تک تعلق نہ تھا۔ وہ ہر دور میں ہر حکمران کے وزیر رہے ہیں یا ان کے قریب رہے ہیں۔ وہ ہر دور میں فائدے اٹھا کر اگلی حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ تو پھر پی ٹی آئی کی ایک سال میں جو حالت ہو گئی ہے وہ کس نے کی ہے‘ کہ آج یہ پارٹی پہچانی ہی نہیں جا رہی؟ وہی عمران خان‘ جو اینکرز کو ہیرو اور بہادر سمجھتے تھے‘ آج ان پر برس رہے ہیں۔ تو پھر یہ سازش عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف کس نے کی ہے اور انہیں عوام اور میڈیا سے دور کر دیا ہے؟ جنہوں نے یہ سب پیرا شوٹرز پی ٹی آئی کے اندر اتارے‘ انہیں وزارتیں دلوائیں‘ میڈیا سے لڑایا اور پارٹی کا کردار خراب کر کے رکھ دیا‘ وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ شاید عمران خان صاحب کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی کہ ایک سال میں انہیں اس حالت میں کیسے پہنچا دیا گیا ہے کیونکہ انسانی کمزوری ہے کہ وہ اپنی غلطی نہیں مانتا اور دوسروں کو ذمہ دار سمجھتا ہے‘ حالانکہ غلطیاں اس کے اندر ہی موجود ہوتی ہیں۔
اب پوچھا جا رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کی شکل میں کیا سازش ہو رہی ہے اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟ گوتم بدھ سے پوچھا گیا: گرو! انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ برگد کے ہزاروں سال پرانے درخت کی نیچے نروان کی تلاش میں محو گوتم نے جواب دیا: انسانی کی اپنی خواہشات۔ ہمارے خلاف سازش کوئی نہیں کرتا‘ ہمارے اندر چھپی خواہشات ہی سازش کرتی ہیں اور ہم نتائج کی پروا کیے بغیر کوئی بھی سودا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں‘ جیسے انگریز ڈرامہ نگار کرسٹوفر مارلو کا کردار ڈاکٹر فاسٹس وقتی عیاشیوں اور جاہ و جلال کے لیے اپنی روح تک کا سودا شیطان سے کرنے پر تیار ہو گیا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
آپ کی حکومت ایکسپورٹروں کے کنٹینرز پکڑے گئی تو پھر ملک کا "تیل نکالنے" والی کمپنیوں میں نوکریاں تلاش کریں گے سب!
مولانا آج اس غاصب حکومت سے آپ سب کو آزاد کروانے اسلام آباد آ رہے ہیں۔ ایک بڑے مقصد کے سامنے ایسی چھوٹی موٹی قربانیوں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
پنجاب میں ’پٹواری‘ اب ’ولیج آفیسر‘ کہلائے گا، وزیراعلیٰ نے منظوری دے دی
207686_5316827_updates.jpg

پنجاب میں پٹواری عہدے کا نام بدل کر ولیج آفیسر رکھا جائے گا جبکہ اسے 14 واں اسکیل دیا جائے گا— فوٹو: فائل

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ’پٹواری‘ عہدے کا نام بدل کر ولیج آفیسر رکھنے اور انہیں 14 واں اسکیل دینےکی منظوری دے دی۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت وزیراعلیٰ آفس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں محکمہ مال کی کارکردگی اورپنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی سے متعلقہ امور کا جائزہ لیاگیا۔

اجلاس میں پنجاب میں پٹواری کے عہدے کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاگیا، وزیر اعلیٰ نے پٹواری کے عہدے کا نام تبدیل کرنے کے فیصلے کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ پٹواری کو ولیج آفیسر کا نام دیا جائے گا۔

ولیج آفیسرکو 14 واں اسکیل ملے گا اور بھرتی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوگی، بھرتی کے بعد 6 ماہ کی تربیت لازم ہوگی۔

اجلاس میں وزیراعلیٰ نے ولیج آفیسرز کیلئے لیپ ٹاپ دینے کے فیصلے کی بھی منظوری دی۔

اجلاس میں حاضر سروس پٹواریوں کو 11 واں اسکیل اورگرد آور کو 14واں اسکیل دینے کی تجویزپر بھی غور کیاگیا۔

اجلاس میں فیصلہ کیاگیاکہ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے اسٹاف کی ترقی کیلئے سروس اسٹرکچر بنایا جائے گا جبکہ لاہور کی ایک تحصیل کو ریونیو کے حوالے سے ماڈل تحصیل بنانے کا فیصلہ کیاگیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
EIrt-NLn-Xs-AAZa2t.jpg

جسٹس اطہر من اللہ: مریم نواز خاتون ہیں، سزا معطل کی جاتی ہے
چیف جسٹس ثاقب نثار: مریم نواز خاتون ہیں، سزا معطلی برقرار رکھی جاتی ہے
جسٹس باقر: خاتون ہونے پر مریم نواز رعایت کی مستحق ہیں

جبکہ آسیہ مسیح خاتون ہونے کے باجود 9 سال بغیر کسی ضمانت و رعایت و جرم کال کوٹھری میں سڑتی رہی۔ یہ ہے اس ملک کا نظام انصاف۔ پھر لوگ کہتے ہیں تبدیلی کیوں نہیں آرہی
 

جاسم محمد

محفلین
قومی اسمبلی میں حکومت کی پھرتی، 15 بل پیش کیے 11 کو منظور بھی کرلیا گیا
207838_1577406_updates.jpg

فوٹو: فائل

قومی اسمبلی میں حکومت نے ایک سال میں بھی نہ ہونے والا کام ڈیڑھ گھنٹے میں کرلیا اور ریکارڈ قانون سازی کرتے ہوئے 15 بل پیش کردیے جن میں سے 11 کو منظور بھی کرلیا گیا۔

قومی اسمبلی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں حکومتی وزراء اور پارلیمانی سیکریٹریز آرڈیننس اور بل ایوان میں پیش کرتے رہے جب کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری دھڑا دھڑ انہیں منظوری کراتے رہے۔

اپوزیشن کی جانب سے اس موقع پر شدید احتجاج کیا گیا اور آرڈیننسز نامنظور کے نعرے لگائے گئے جب کہ بلز کی کاپیاں بھی پھاڑ ڈالیں، تاہم حزب اختلاف کا احتجاج ایوان کو برق رفتار قانون سازی سے نہ روک سکا۔

پارلیمانی تاریخ میں انتہائی مختصر وقت میں آج ریکارڈ 13 آرڈیننسز پیش کیے گئے، ان میں سے 9 کو بلز کی صورت میں منظور کر لیا گیا، 7 بل ایسے تھے جو وفاقی کابینہ نے گزشتہ دنوں آرڈیننسز کے ذریعے منظور کیے تھے۔

3 آرڈیننسز میں 120 دن کی توسیع کی منظوری بھی کی گئی جب کہ پیش کیے جانے والے 15 بلوں میں سے 11 بل منظور بھی کر لیے گئے۔

منظور کیے گئے بلز میں وراثتی سرٹیفکیٹ بل 2019 ، نفاذ حقوق خواتین جائیداد بل 2019 ،لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی بل 2019 ، اعلیٰ عدلیہ ڈریس کوڈ بل 2019 ،بے نامی کاروباری معاملات امتناع ترمیمی بل 2019 ،قومی احتساب بیورو ترمیمی بل2019 اورتحفظ مخبر بل 2019 شامل ہیں۔

منظور کئے گئے دیگر بلز میں طبی ٹریبونل بل 2019، پاکستان طبی کمیشن بل 2019، مجموعہ ضابطہ دیوانی ترمیمی بل 2019 اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل 2019 شامل ہیں۔

قومی اسمبلی نے تین آرڈیننسز میں 120 دن کی توسیع کی کثرت رائے سے منظوری بھی دے دی ان میں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی آرڈیننس 2019 ،قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی ترمیمی آرڈیننس 2019 اور تعزیرات پاکستان ترمیمی آرڈیننس 2019 شامل ہیں۔

قومی اسمبلی میں 4 بل محض پیش کیے گئے ان میں آئین میں ترمیم کا بل 2019 ، اسلام آباد علاقائی حدود کے بزرگ شہریوں کا بل 2019، تحفظ قومی شاہرات ترمیمی بل 2019 اور انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2019 شامل ہیں۔

حکومت نے ایوان میں پیش کیے گئے بلوں کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجنے اور ہر شق پر بحث کرائے بغیر فوری منظور کر لیا تاہم اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور نہ ہی اجلاس کا بائیکاٹ، محض نعرے بازی پر ہی اکتفا کیا۔

ڈپٹی اسپیکر نے ایجنڈے کے ساتھ اضافی ایجنڈے کو بھی نمٹاتے ہوئے اجلاس جمعہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا۔

نام نہاد قانون سازی کی کوئی حیثیت نہیں، خواجہ آصف
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آج جو نام نہاد قانون سازی کی گئی ہےاس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جلد بازی میں کام نمٹایا گیا اور اجلاس ملتوی کردیا جوکہ اس ادارے کی توہین ہے۔

ن لیگ کے رہ نما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس موقع پر مولانا اسعد محمود نے کہا کہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ تو علامتی ہے، ہمارا اصل مطالبہ دوبارہ انتخابات کا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ جیسے آج حکومت نے قانون سازی کی ، یہ پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
برادرِ یوسف یا برادرِ جمہوریت؟
09/11/2019 خورشید ندیم

شہباز شریف ”برادرِ یوسف‘‘ تو نہ بنے لیکن وہ ‘برادرِ جمہوریت‘ بھی نہ بن پائے۔ سیاست میں اصل رشتہ داری نسبی نہیں، نظریاتی ہوتی ہے۔ جو آج ‘برادرِ جمہوریت‘ نہیں ہے، وہ بردارِ یوسف ہی تو ہے۔

جمہوریت دو سالوں سے بے اماں و بے ردا، ملک کے کوچہ و بازار میں رسوا ہو رہی تھی۔ نواز شریف نے ‘ووٹ کو عزت دو‘ کی چادر سے اس کا سر ڈھانپ دیا۔ وہ بیٹی سمیت جیل جا پہنچے تو یہ ذمہ داری شہباز شریف کی تھی کہ وہ اس چادر کی حفاظت کرتے۔ وہ مسلم لیگ کے عَلم کو جمہوریت کی ردا بنا دیتے۔ اوباشوں کے حملوں سے اس کو محفوظ رکھتے۔ نواز شریف کا بھائی ہونے کا تقاضا تھا کہ وہ جمہوریت کو بھی اپنی عم زاد سمجھتے جس کی عزت کے تحفظ کے لیے نواز شریف نے اپنی جان داؤ پر لگا دی۔ وہ یہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکے۔

اگر وہ مسلم لیگ کا عَلم بچا لیتے تو ہم سمجھتے کہ چادر تو سلامت ہے۔ کسی وقت جمہوریت کے سر پر ڈالی جا سکتی ہے۔ افسوس یہ بھی نہ ہو سکا۔ آج گلی بازار میں نون لیگ زیر بحث ہے۔ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ نون لیگ کو ایک بار پھر مقتدر حلقوں کی باندی بنانے کی کوشش ہے۔ باندیوں کے تو اپنے سر پر چادر نہیں ہوتی۔ یہ چار گرہ کپڑا ہی ہوتا ہے جو آپ کی سماجی حیثیت متعین کرتا ہے۔ کبھی گریبان بن کر، کبھی ردا کی صورت اور کبھی عَلم بن کر۔ یہ گلیوں میں رل جائے اور بازیچۂ اطفال بن جائے تو لوگ سوال کرتے ہیں:

جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں

یہ میر ا گریباں ہے کہ لشکر کا عَلم ہے

جمعرات کو نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ راہنماؤں کا نتیجۂ فکر ملاحظہ کیجیے ”مسلم لیگ (ن) آزادی مارچ کی سیاسی اور اخلاقی مدد جاری رکھے گی‘‘۔ مزید سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ”مسلم لیگ کے کارکنوں پر آزادی مارچ میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں‘‘۔ مجھے یہ بیان پڑھ کر اہلِ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسی یاد آ گئی، جن کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کا ہم ستر سال سے اعادہ کرتے آئے ہیں۔ اگر نون لیگ نے آزادی مارچ کا اسی طرح ساتھ دینا ہے جیسے پاکستان نے کشمیریوں کا دیا تو پھر سیاسی لوگ جان سکتے ہیں کہ اس مارچ کا انجام کیا ہو گا۔ میرا خیال ہے مولانا فضل الرحمن بھی اس کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔

جمہوریت کا سر ڈھانپنے کا مطلب تصادم نہیں ہے۔ نواز شریف نے کیا تصادم کیا؟ یہ تو ایک جدوجہد ہے جو آئین اور قانون کے دائرے میں کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی قوت مزاحم ہوتی ہے تو اس کا سامنا صبر، عزیمت اور مظلومانہ عزم سے کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک قیمت ہے جو کبھی جان بھی ہو سکتی ہے۔ جو اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتا، اس کا یہ حق نہیں کہ وہ عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرے۔ پھر وہ کسی گوشۂ عافیت میں جا بیٹھے۔

نواز شریف نے مظلومانہ جدوجہد کی۔ کسی کے سر پر لٹھ نہیں ماری۔ ریاست کا کوئی قانون نہیں توڑا۔ جیل کی صعوبتوں کو قبول کیا۔ ان کی مظلومیت برگ و بار لائی۔ اہلِ اقتدار کو اندازہ ہونے لگا کہ ان کا جیل میں گزرنے والا ایک ایک دن ان کے اقتدار پر بہت بھاری ہے۔ یہ سب کچھ آسان نہ تھا۔ اس کے لیے نواز شریف کو سود و زیاں سے بے نیاز ہونا پڑا۔ مظلومیت کی طاقت اسی طرح ظہور کرتی ہے۔ وہ بیمار ہوئے تو ریاستی حلقوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ انتقام کی جگہ خوف نے لے لی۔ انہیں رہا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

ڈاکٹروں نے متفقہ طور پر کہہ دیا ہے کہ ان کا علاج تو بعد کی بات ہے، مرض کی تشخیص بھی پاکستان میں ممکن نہیں۔ یہ حکومت کے نامزد کردہ ڈاکٹرز کا بیان ہے۔ نواز شریف صاحب کو، لگتا ہے کہ اب ملک سے باہر جانا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ نون لیگ کیا کرے گی؟ کیا اُن کے بیانیے کی وارث بنے گی؟ شہباز شریف کیا جمہوریت کے بھائی بنیں گے؟ کیا اس کے سر پر چادر دیںگے؟

اس میں شبہ نہیں کہ بطور منتظم، انہوں نے بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تعصبات حائل نہ ہوں تو کسی کے لیے اس کا اعتراف کیے بنا چارہ نہیں۔ پاکستان کو گزشتہ پچاس سال میں ان سے بہتر منتظم نہیں ملا۔ لوگ ان کی دیانت کے بھی معترف ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ میرٹ کو پیش نظر رکھا ہے، جتنا موجودہ نظام میں ممکن ہو سکا۔ اس اعتراف کے ساتھ یہ بھی مان لینا چاہیے کہ وہ منتظم تو ہیں لیڈر نہیں۔ مسلم لیگ میں لیڈر نواز شریف تھے یا پھر مریم نواز ہیں۔

نون لیگ کے لیے آج اہم سوال یہ ہے کہ وہ 1980ء کی دہائی کی طرح محلاتی سازشوں کی سیاست کرے گی یا عوام کی؟ اگر پہلے طرز کی سیاست کرنی ہے تو پھر شہباز شریف صاحب ہی کو قائد ہونا چاہیے۔ اگر اسے نواز شریف کے بیانیے کی راہنمائی میں آگے بڑھنا ہے تو پھر مریم نواز ہی اس کی فطری راہنما ہیں۔ اگر وہ گرفتار ہو جاتی ہیں‘ جس کا پورا امکان ہے‘ تو پھر ایک اجتماعی قیادت کو یہ ذمہ داری سونپ دینی چاہیے۔

نواز شریف صاحب کی اب بھی یہ کوشش ہے کہ مسلم لیگ متحد رہے اور شہباز شریف ان کے بیانیے کو لے کر آگے بڑھیں۔ وہ شہباز شریف کو ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن صاحب سے رابطہ رکھیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کی یہ خواہش پوری ہونے والی نہیں۔ شہباز شریف صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ نواز شریف صاحب پر یہ واضح کر دیں کہ وہ ان سے غلط توقعات وابستہ کر رہے ہیں۔ ان سے وہی کام لیا جائے، وہ جس کے لیے آمادہ ہیں یا جس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پاکستان کے اہلِ سیاست کو ایک معرکہ ہر صورت میں لڑنا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ یہ معرکہ ووٹ کی عزت کا ہے۔ عوام کے حقِ اقتدار کا ہے۔ یہ معرکہ سیاست کے میدان میں لڑا جانا ہے اور ظاہر ہے کہ جمہوری اقدار اور ملک کے آئین کے مطابق۔ نواز شریف نے اس بات کو سمجھ لیا اور یوں انہوں نے اس مشن کا آغاز کر دیا ہے۔ اب اس جدوجہد کو کسی اور نے آگے بڑھانا ہے۔ شہباز شریف صاحب نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں‘ نہ اس کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ موجود نظام میں راستہ نکالنے کے قائل ہیں۔ وہ نظام جو عوامی حاکمیت کی نفی پر کھڑا ہے‘ جس میں عوام کے نمائندوں کی کوئی حیثیت نہیں۔

اس بیانیے کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ اس کی قیادت پنجاب کے پاس ہو۔ یہ ملک کی جغرافیائی، انتظامی اور ثقافتی ساخت کا تقاضا ہے۔ نون لیگ کے پاس آج ایک سنہری موقع ہے۔ سندھ، بلوچستان اور کے پی میں ایک بڑا طبقہ موجود ہے جو عوام کی حاکمیت کے بیانیے پر نواز شریف کو اپنا قائد ماننے پر تیار ہے۔ 1970ء کے بعد تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ سب صوبے پنجاب کی قیادت تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ وفاق کو مضبوط اور متحد رکھنے کا اتنا اچھا موقع شاید ہی کبھی ہاتھ آئے۔ اگر نون لیگ نے اسے گنوا دیا تو یہ قومی جرم ہو گا۔

اگر نون لیگ یہ مقدمہ نہیں لڑے گی تو پھر پنجاب سے کوئی نئی سیاسی قوت ابھرے گی۔ یہ پنجاب پر اب قرض ہے۔ بڑا صوبہ ہونے کے ناتے، یہ پنجاب کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب صوبوں کو ساتھ لے کر چلے۔ انہیں یہ احساس دلائے کہ پاکستان سب کا ہے اور یہاں ایک بلوچی، پختون یا سندھی کے ووٹ کی بھی وہی اہمیت ہے جو کسی پنجابی کے ووٹ کو حاصل ہے۔ یہ خدمت صرف ایک سیاسی جماعت ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ اس لیے میں تکرار کے ساتھ لکھتا رہا ہوں کہ ملک کو صرف سیاسی جماعتیں متحد رکھ سکتی ہیں، ریاستی ادارے نہیں۔

شہباز شریف اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے یہ تو ثابت کر دیا کہ وہ برادرِ یوسف نہیں لیکن یہ قرض ادا کرنے کے لیے کسی برادرِ جمہوریت کی ضروری ہے۔ وہ جو اس کے بے ردا سر کو ڈھانپ دے۔
 
Top