ایم فل / پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان کیسے چنا جائے

ایم فل / پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان کیسے چنا جائے
فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدً

ایم فل / پی ایچ ڈی کے بہت سے طلبا کو مقالے کا عنوان چننے میں پریشانی کا شکار ہوتے دیکھا یہاں تک کہ بہت سے سپر وائزر بھی اس حوالے سے پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ اپنے طالب علموں کو کیا عنوان منتخب کرکے دیا جائے کہ وہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے معیار کا مقالہ تحریر کر سکیں اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی سپر وائزر نے ایک عنوان منتخب کردیا اور طالب علم نے اسے اپنا لیا لیکن دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے مقالہ لکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں اب اس بات کا ادراک کرنا کہ مقالہ نگار کی حقیقی صلاحیت کیا ہے اسکے اندر کتنی استعداد ہے اسکا مطالعہ کتنا ہے اسکی اندر لکھنے کی کتنی صلاحیت موجود ہے اور اسکی دلچسپی کا موضوع کیا ہو سکتا ہے ، بعض اوقات طلبا دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں اب اگر ایک مقالہ انکے سر ڈال ہی دیا گیا تو اسے کسی سے لکھوانے کی کوشش کی جائے گی فری لانسر جیسے کسی فورم سے منسلک ہوکر کسی سے پیسوں کے عوض مقالہ لکھوایا جائے گا یا پھر ادھر ادھر سے مواد اکھٹا کرنے کی کوشش ہوگی بعض صاحبان کی پہنچ کافی ہوتی ہے اسلیے انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وائیوا تو نکل ہی جائے گا۔

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ سوشل سائنسز اور پھر خاص کر اسلامیات کی فیکلٹیز میں تحقیق کا کام بہت کم ہورہا ہے اور اگر ہو بھی رہا ہے تو اسکا معیار بہر حال معیاری نہیں ہے، آجکل ایک اچھا مقالہ اپنے اندر معلومات کا انبار تو ضرور رکھتا ہے لیکن زبان و بیان کی درستی تحریر کی چاشنی استدلال کی قوت ہمیں مفقود دکھائی دیتی ہے لکھے جانے والے ایک ہزار مقالوں میں سے کوئی ایک معیاری مقالہ سامنے آتا ہے۔

جب میں نے 2015 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن سنہ میں داخلہ لیا تو اس وقت ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی جاری تھا (اب لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی ختم کردیا گیا ہے) ایم فل میں داخلہ لینے سے پہلے بلکہ ایم اے اسلامیات سے بھی پہلے بی اے کرتے وقت ہی میرے ذہن میں وہ موضوعات واضح تھے کہ جن پر میں نے مقالہ لکھنا تھا اسی لیے مجھے موضوع کا عنوان چننے ، سائناپسس تیار کرنے اور پھر اپنے موضوع کو تحریر کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

اب سوال یہ ہے کہ موضوع کا عنوان کیسے چنا جائے یا پھر سپر وائزر کسی بھی ریسرچ اسکالر کو موضوع کیسے اسائن کرے ، اس کے بنیادی محرکات کیا ہوں ؟ مقالہ نگار کی دلچسپی کا تعین کیسے کیا جائے ؟

آئیے ہم ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کورس ورک کے دوران ہی آپ پر یہ بات واضح ہو جانا ضروری ہے کہ آپ کی دلچسپی کا موضوع آخر ہے کیا ؟ اس کیلئے چند بنیادی امور سرانجام دینے انتہائی ضروری ہیں۔

یاد رہے کہ وہ موضوع کہ جس پر آپ لکھنا چاہتے ہوں ضروری نہیں کہ آپ کی دلچسپی کا موضوع بھی ہو جیسے اگر کوئی کرکٹر یا ڈاکٹر یا انجینیر بننا چاہتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس میں ان تمام شعبوں کو اختیار کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔

ایک مقالہ نگار کی دلچسپی کا موضوع کیسے تلاش کیا جائے یا وہ یہ موضوع کیسے تلاش کرے خاص کر سوشل سائنسز یا ہیومینیٹیز کا طالب علم۔

"سب سے پہلے تو سنت کے مطابق استخارہ کیجیے اور اسکے بعد استشارہ کیجے پھر درج ذیل نکات پر عمل کرنے کی کوشش کریں"

اول ؛ اس بات کا جائزہ لیجیے کہ آپ کون سی کتب پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں زبردستی نہیں ، علمیت کو ثابت کرنے کیلئے نہیں ، درسی کتب صرف امتحانات کو پاس کرنے کیلئے نہیں بلکہ وہ کتب کہ جن کو پڑھ کر آپ کو وقت گزرنے کا پتہ نہ چلے وہ کتب کہ جو آپ کو اس موضوع پر مزید پڑھنے پر راغب کریں۔

دوم ؛ غور کیجیے کہ آپ کن موضوعات پر بے تکان بغیر کسی تیاری کے گفتگو کر سکتے ہیں وہ کون سے موضوعات ہیں کہ جن پر آپ کو بحث کرنا پسند ہے اور آپ کو انکے حوالے سے سوچنا نہیں پڑتا۔

سوم ؛ اپنے سابقہ مطالعے کی ایک فہرست تشکیل دیجیے خاص کر درسی کتب سے ہٹ کر ، کاغذ قلم اٹھائیں اور ایک فہرست تشکیل دیں کہ کون کون سی کتب آپ کے زیر مطالعہ آچکی ہیں اور جب یہ فرست تیار ہو جائے تو دیکھئے کہ اس میں کون سے موضوعات پر مشتمل کتب کی تعداد زیادہ ہے جلد بازی سے کام مت لیں اس فہرست کو انتہائی اطمینان سے سوچ سمجھ کر تشکیل دیں۔

چہارم ؛ یاد رہے مقالہ لکھ دینا کمال نہیں بلکہ ایسی تحقیق کا پیش کیا جانا کمال ہے کہ جو اس سے پہلے موجود نہ ہو ، ایک نیا رخ ایک نیا زاویہ ایک نیا رنگ ایک نئی بات۔

پنجم ؛ ایسا کیجیے کہ کسی لائبریری میں تشریف لے جائیں اور دیکھیں کہ آپ کے قدم غیر اختیار طور پر کس سیکشن کی جانب اٹھتے ہیں اور جس جانب آپ کے قدم اٹھیں سمجھ لیجیے کہ وہی آپ کی اصل جا اور آپ کا اصل میدان ہے۔

ششم ؛ سادہ کاغذ سنبھالیے اور لکھنا شروع کریں وہ موضوع یا وہ عنوان کہ جس پر آپ بغیر کسی تیاری کے لکھ سکتے ہیں وہی آپ کا موضوع ہے صرف لکھنا ہی نہیں یہ بھی دیکھیے کہ کیا آپ کو اس سے متعلق حوالے آسانی سے یاد آرہے ہیں اور اگر آرہے ہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ اپنے موضوع پر ہیں۔

ہفتم ؛ سب سے آسان کسی شخصیت پر مقالہ لکھ دینا ہے کیونکہ اسکی وسعت اتنی زیادہ نہیں ہوتی اور سب سے مشکل افکار و نظریات پر تحریر کرنا ہوتا ہے کوشش کیجیے کہ کوئی نیا کام کریں مکھی پر مکھی نہ ماریں۔
ہشتم ؛ اگر آپ نے کسی عنوان کا انتخاب کر لیا ہے تو آپ کو مبارک ہو لیکن یہ صرف پہلا قدم ہے اب اس فن کے کسی ماہر سے رابطہ کیجیے ضروری نہیں کہ وہ آپ کا سپر وائزر ہی ہو اپنی یونیوسٹی میں سوشل میڈٰیا پر کہیں بھی کوئی ایسی شخصیت مل جائے تو اسکا دامن تھام لیجیے اور اس سے سیکھنے کی کوشش کریں۔

نہم ؛ اگر آپ بہت ہی باصلاحیت ہیں اور آپ کے سامنے متعدد موضوعات موجود لیکن فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے تو اس موضوع کا انتخاب کریں کہ جسکی اہمیت موجودہ دور کے حوالے سے سب سے زیادہ ہو۔
دہم؛ کسی مطالعاتی دائرے کو اختیار کریں اور اگر ایسا کوئی دائرہ موجود نہیں تو اسے تشکیل دیں آپ کے بیج فیلوز ، مدرسے کے ساتھی یا وہ لوگ کے جو مطالعے میں آپ کے معاون بن سکیں اس دائرے کا حصہ بن سکتے ہیں۔
یاد رہے ریسرچ اسکالر کہلوانا اچھی بات لیکن درحقیقت ایک ریسرچ اسکالر بننا اور حقیقی ریسرچ کرنا ہی اصل کام ہے ، امید ہے کہ پیش کردہ معروضات طالبان علم کیلئے مفید ثابت ہوں گی۔

حسیب احمد حسیب
 

فرقان احمد

محفلین
پسند کا موضوع چنیں۔
ابتدائی تحقیق کریں۔
مقالے کے عنوان کی تحدید کریں۔
خاکہ بنائیں یا ابواب بندی کریں۔
متعلقہ مواد جمع کریں۔
حوالہ جات کا ریکارڈ رکھنے کا خصوصی انتظام کریں۔
اساتذہ سے مسلسل رہنمائی لیں۔
۔۔۔۔
مقالے کا عنوان چننے کے لیے بہتر یہی ہے کہ موضوع کی حد بندی کی جائے۔ مثال کے طور پر، مقالے کا عنوان 'اردو شاعری' نہیں ہو سکتا ہے۔ 'اردو شاعری پر غالب کے اثرات' بھی شاید اب نہ چل سکے کہ اس پر بہتیرا کام ہو چکا اور کام بہت پھیلاؤ کا حامل ہو جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ ہم 'اکیسویں صدی کی اردو غزل پر غالب کے اثرات' رکھ لیں، بشرطیکہ اس موضوع میں ہماری دلچسپی ہو۔
 

جاسمن

لائبریرین
میرے ذہن میں کتنے ہی موضوعات ہی
کورس ورک کے دوران ہی آپ پر یہ بات واضح ہو جانا ضروری ہے کہ آپ کی دلچسپی کا موضوع آخر ہے کیا ؟ اس کیلئے چند بنیادی امور سرانجام دینے انتہائی ضروری ہیں۔

حق ہا!
میرے ذہن میں کتنے ہی موضوعات آتے رہتے ہیں۔۔۔اور بہت جی چاہتا ہے کہ ان پہ تحقیق کی جائے۔۔۔
ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔:)
 
میرے ذہن میں کتنے ہی موضوعات ہی

حق ہا!
میرے ذہن میں کتنے ہی موضوعات آتے رہتے ہیں۔۔۔اور بہت جی چاہتا ہے کہ ان پہ تحقیق کی جائے۔۔۔
ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔:)

ان میں سے ایسا موضوع چنیں کہ جس پر پہلے کام نہ ہوا ہو اور موجودہ دور کے اعتبار سے اسکی اہمیت دوسرے موضوعات سے زیادہ ہو۔
 
اسلامیات میں کیا تحقیق کی جا سکتی ہے؟

اسلامی علوم اپنے اندر بے انتہا وسعت رکھتے ہیں خاص کر فقہی حوالوں سے ہر گزرتے دور کے ساتھ نئے نئے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں اور ان پر تحقیق کی ضرورت بھی موجود رہتی ہے ، اسی کے ساتھ اسلام کے سیاسی ، عمرانی ، تعلیمی ، معاشی ، معاشرتی اور احیائی میدانوں میں تحقیق کی گنجائش موجود ہے اسی طرح مابعد الطبیعات کے میدان میں بھی بہت سی گفتگو کی جا سکتی ہے آپ اپنی دلچسپی کا میدان چنیں اس پر مطالعہ شروع کریں موضوع خود ہی سامنے آ جائے گا۔
 

ابو ہاشم

محفلین
مقالہ لکھنے کیلئے بنیادی اوزار ہیں تحقیق ، ایچ ای سی کے منظور شدہ معیارات کا بخوبی علم ، فن تحریر سے واقفیت اور لکھنے کی مشق
تعلیمی اداروں کے لیے نہیں، ویسے مقالہ لکھنا ہو تو ؟
اور 'فن تحریر سے واقفیت اور لکھنے کی مشق' کے لحاظ سے تو ہم بالکل کورے ہیں
 
تعلیمی اداروں کے لیے نہیں، ویسے مقالہ لکھنا ہو تو ؟
اور 'فن تحریر سے واقفیت اور لکھنے کی مشق' کے لحاظ سے تو ہم بالکل کورے ہیں

مقالہ اپنے اندر زبان و بیان کی خوبی ، معلومات کی درستی (مستند حوالوں کے ساتھ) اور جدید نکات کے بیان کیے جانے کا تقاضہ کرتا ہے۔
لکھنے کی مشق کیلئے ہی تو اردو محفل جیسا معتبر فورم بنا ہے۔
 
میرے خیال میں یہ اضافی خوبی ہو سکتی ہے اصل بات تو متعلقہ مواد، اس مواد کی درستی، اس مواد کی پیشکش اور اس میں سے نتیجہ اخذ کرنا ہے۔ کیا یہ درست کہا ہے؟

زبان و بیان کی درستی ایک بنیادی چیز ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ میری نگاہ سے جتنے بھی مقالے گزرے ان میں معلومات کا اجتماع تو ہوتا ہے لیکن تحریر کے اندر کوئی خوبی نہیں ہوتی یہاں تک کہ بعض اوقات املا کی اور تذکیر و تانیث کی غلطیاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں ، اس کے بعد سب سے اہم چیز مقدمہ ہے کہ جو آپ قائم کرنے جارہے ہیں ہمارے یہاں مغالطہ یہ لگتا ہے کہ بے شمار حوالہ جات کی فراہمی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ حوالہ صرف آپ کے مقدمے کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے ، اکثر مقالوں میں حوالہ جات کی بھرمار کردی جاتی ہے اور اکثر حوالے غیر متعلق یا موضوع کے اعتبار سے غیر مفید ہوتے ہیں۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ایک مضبوط مقدمہ اچھے الفاظ میں درست حوالوں کے ساتھ بیان کردیا جائے۔
 

فاخر رضا

محفلین
کوئی بھی تحقیق برائے تحقیق نہیں کی جانی چاہیے. لوگ علم نافع کی دعا مانگتے ہیں اور وقت فضول کاموں میں خرچ کرتے ہیں
دین میں تحقیق کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ خدا و رسول سے ہم تک جو صحیح حکم پہنچا ہے اسے ڈھونڈ کر (اپنی ذاتی رائے اور ذات سے بلند ہوکر) پیش کردیا جائے. دینی معاملات اور فتاویٰ میں جہاں جہاں بزرگوں نے اپنی ذاتی رائے کا استعمال کیا ہے وہ سب کے سب فتاویٰ تحقیق کا تقاضا کرتے ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
تحقیق پہلے اسی پر کر لی جائے کہ بزرگوں کے فتاویٰ قرآن و احادیث صحیحہ کے مطابق ہیں یا نہیں. اس طرح مثالیں خوب ملیں گی
میرے خیال میں تو مصادر پر بھی بحث کی ضرورت ہے کہ کسے رکھا جائے اور کسے نہیں
خیر یہ سب میرے بس کی بات نہیں محققین کو ہی زحمت فرمانا پڑے گی
 
تحقیق پہلے اسی پر کر لی جائے کہ بزرگوں کے فتاویٰ قرآن و احادیث صحیحہ کے مطابق ہیں یا نہیں. اس طرح مثالیں خوب ملیں گی
اگر آپ فتاویٰ کا پیٹرن جانتے ہیں تو آپ پر یہ مخفی نہ ہونا چاہیے کہ ہر فتویٰ کے پس منظر میں ایک تحقیق ہی کارفرما ہوتی ہے۔ نہ کہ فقط "ذاتی رائے"۔ اور اسی تحقیق کے ضمن میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فتویٰ اس مفتی کی تحقیق میں کس حدیث یا اصول شرعی کے تحت جاری کیا گیا ہے۔
(یہاں "فتوی" سے مراد اس کی اصطلاحی تعریف ہے۔)
 

سید عمران

محفلین
تحقیق پہلے اسی پر کر لی جائے کہ بزرگوں کے فتاویٰ قرآن و احادیث صحیحہ کے مطابق ہیں یا نہیں. اس طرح مثالیں خوب ملیں گی
میرے خیال میں تو مصادر پر بھی بحث کی ضرورت ہے کہ کسے رکھا جائے اور کسے نہیں
خیر یہ سب میرے بس کی بات نہیں محققین کو ہی زحمت فرمانا پڑے گی
آپ کی بات کسی حد تک درست ہے فاخر بھائی۔۔۔
اسلاف کے جو مجتہد فیہ غیر مجمع علیہ مسائل ہیں ان میں غور کیا جاسکتا ہے۔۔۔
لیکن یہ متبحر علماء کرام کا کام ہے اور وہ وقتاً فوقتاً ضروریات کے مطابق اس پر غور کرتے رہتے ہیں۔۔۔
ایسا نہیں ہے کہ بالکل جمود طاری ہے۔۔۔
خصوصاً مفتی تقی عثمانی صاحب کے علمی کارناموں کو عرب و عجم کے بڑے بڑے علماء تسلیم کرتے ہیں!!!
 

فاخر رضا

محفلین
اگر آپ فتاویٰ کا پیٹرن جانتے ہیں تو آپ پر یہ مخفی نہ ہونا چاہیے کہ ہر فتویٰ کے پس منظر میں ایک تحقیق ہی کارفرما ہوتی ہے۔ نہ کہ فقط "ذاتی رائے"۔ اور اسی تحقیق کے ضمن میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فتویٰ اس مفتی کی تحقیق میں کس حدیث یا اصول شرعی کے تحت جاری کیا گیا ہے۔
(یہاں "فتوی" سے مراد اس کی اصطلاحی تعریف ہے۔)
کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ فتاویٰ میں ذاتی رائے کبھی استعمال نہیں کی جاتی
 
Top