میرا دوست سلّو

فیضان قیصر

محفلین
مصنفّ: ڈاکٹر فیضان قیصر
سلمان ہمارا محلے دار ہے ۔اس نسبت سے اس کے ساتھ شناسائی ہے اور اس کی دلچسپ شخصیت کے باعث اس کے ساتھ کسی حد تک دوستانہ نشتیں بھی رہتی ہیں ۔سب اسے پیار سے سلّو بلاتے ہیں۔ ہماری جب سلمان سے شناسائی ہوئی تو ہم سے اسکا تعارف سلّو کے نام سے ہی کروایا گیا تھا۔سلمان شاید سلمان خان کا فین ہوگا تبھی اس نے خود کا عرفی نام سلّو رکھ لیا یا شاید سلمان کے دوست، احباب،رشتے دار سلمان خان کے چاہنے والے ہوں گے تو انھوں نے اس کا پیار سے نام سلّو رکھ دیا ہوگا ۔خیر اس واقعے کی نہ تو کوئی تاریخی اہمیت ہے اور نہ ہی ہم کوئی تاریخ دان ۔لہذا سلمان کی سلّو بننے کی جو بھی تاریخ رہی ہو ہم اسے کارِ بے فیض سمجھ کر فی الحال اس پر لعنت بھیج دیتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں ۔
سلّو کی بعض جملہ عادات اچھے بھلے انسان کو اسکی شخصیت کے حوالے سے کنفیوژ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں-جیسے کالج میں سلّو اپنی کلاس میں ہمیشہ وقت سے پہلے پہنچ جاتا ہے- اب جوسلّو کو نہیں جانتے وہ تویقیناً یہ ہی گماں کریں گے کہ شاید یہ سلّو کی حبِ علم کی مقناطیسیت ہے جو اسے کلاس کی جانب جلدی کھینچ لاتی ہے- اگرچہ حقیقت اس کے بلکل بر عکس ہے - وقت سے پہلےکلاس میں سلّو کی موجودگی کی وجہ کسی طرح بھی تعلیمی ذوق و شوق نہیں ہے-بلکہ در اصل یہ تو کلاس کی پچھلی نشت کو فتح کرنے کا اضطراب و فکر ہے جواسے کلاس میں جلدی پہنچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ایک مرتبہ سلّو نے ہماری ران پر ہاتھ رکھ کر نہایت بے بسی سے کہا یار یہ پچھلی نشت تو کمبخت جیسے وہ انار ہو جسکے سو بیمار ہوتے ہیں ۔اس کو فتح کرنا گویا جوے شیر لانے کے برابر ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو کلاس میں سلّو کا جلدی پہنچ جانا بس ایک قسم کی مجبوری ہے-سلّو کی ایک اور امتیازی عادت یہ ہے کہ وہ رات کو جب تک کوئی کتاب نہ پڑھ لے تو نیند تو جیسے اس پر حرام ہو۔جب سلّو سے ہماری راہ رسم ابتدائی مراحل میں تھی تب ہمارے لیے یہ بات نہایت حیرت افزا تھی ۔منطق کی رو سے ایسے حالات میں حیرت زدہ ہونے کی گنجائش نکلتی بھی ہے-دیکھیے نا بھلا یہ کیا بات ہئی کہ ایک طرف توسلّوجیسا ناخلف اور دوسری طرف کتاب سے ایسا اعلی درجے کا لگاؤ کہ بندے کو بنا کتاب کھولے نیند نہ آئے۔خدا لگتی کہتے ہیں آدمی سوچے گا تو سہی کہ الہئی یہ ماجرا کیا ہے۔ بے ہر حال تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سلّو کے معمولاتِ حیات میں سے رات کا جو معمول ہے وہ کچھ یوں ہے کہ رات قریباً دو بجے تک توسلّو ٹی۔وی دیکھتا ہے یا پھر موبائل پر دوستوں سے باتیں کرتا ہے ۔سوشل میڈیا پر بھی میرا سلّو ماشااللہ بہت ایکٹیو ہے۔ مگرگھڑیال جیسے ہی رات کے دو بجنے کی نوید سناتا ہے۔سلّو بیچارہ بھی سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔اوراپنی غیر نصابی سرگرمیوں سے تائب ہوکر سونے کی فکر میں جُت جاتا ہے۔رات دیر تک اس کے جاگنے کی یہ عادت کمبخت ایسی پختہ ہے کہ چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی ہوئی- اب ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی وہ بستر پر سونے کے لیے لیٹتا تھا تو پھر اسے ہول اٹھنا شروع ہوجاتے تھے کہ صبح جلدی اٹھنا ہے۔کلاس میں جلدی پہنچنا ہے۔ورنہ پچھلی نشت سے ہاتھ دھونا پڑجائیں گے۔ آگے والی نشتوں پر تو بیٹھنے کے خیال سے ہی اسکا خون خشک ہوتا تھا۔ اگرچہ سلّو قطعی طور پر توہم پرست نہیں ہے مگر اس معاملے پر اوہام سلّو کی جان کو آجاتے تھے۔اسے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ برا خیال آتا کہ اگر کبھی بد قسمتی سے اگلی نشت پر بیٹھنا پڑ گیا اور استاد نے کھڑا کرکے کوئی سوال داغ دیا تو عزت کا جنازہ نکل جائے گا۔سلّو عزت کے معاملے پر نہایت حساس واقعہ ہوا ہے لہذا بے عزتی ہونے کے خیال سے ہی اس کے جسم و جاں میں خوف کی سرد لہر ڈور جاتی تھی۔ پس ان خوفناک خیالات کے آتے ہی محترمہ نیند صاحبہ بھی ڈر کر راہ فرار اختیار کرجاتی تھیں۔ تب اس نے یاروں سے مشاورت کی۔ قدرت مہرباں تھی لہذا ایک خیر خواں دوست کی جانب سے اسے نسخہ اکسیر عطا ہوگیا ۔ اب جب نیند کو پاس بلانے کی ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے تب سلّو جلدی سے اپنے نصاب کی کوئی کتاب کھول کر پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔سلّو کو کتاب سے الفت ہو نہ ہو مگر نیند کو ضرور ہے۔ کتاب کھولتے ہی اس سے روٹھ کر دور بیٹھی نیند ڈور کر یوں قریب آتی ہے جیسے روٹھی محبوبہ منانے پر آکر اپنے عاشق کے گلے لگتی ہے۔ نیند لانے کے اس مجرب نسخے کو سلّو کئی بار آزما چکا ہے ۔ہم نے بھی جب ایک مرتبہ سلّو سے نیند نہ آنے کی شکایت کی تو اس نے جھٹ ہمیں بھی یہ نسخہ عطا کردیا ۔ہم نے نسخے کی افادیت کو لیکر ذرا تحفظات کا اظہار کیا تو سلّو نے ہمارا شانہ تھپتھپاتے ہئے ہماری تشفیِ خاطری کے لیے انتہائی عقیدت و احترام سے یہ جملہ کہا ۔ دوست اس نسخے کو ہلکا نہ جانو میرا تو اس پر ایسا پختّہ یقین ہے۔ جتنا کہ خدا کے خدا ہونے کا یقین ہے
سلّو اب ایسا بھی کوئی بے ہنر نہیں ۔ مزاجاً بڑا ہی تفّکر پسند ہے ۔گاہ گاہ اپنے افکار سے بہ صورت اقوال زریں ہمیں بھی فیض یاب کرتا رہتا ہے۔
ایک دن چائے پینے ایک کیفے میں بیٹھے تو ہمیں وہ چہرے سے کافی متفکر نظر آیا ۔دریافت کرنے پر نہایت متانت سے کہنے لگا ۔
۔یار تیرا بھائی اب کوئی ایسا بھی علم بے زار نہیں ہے۔ کبھی کبھی کچھ ہم بھی پڑھ لیتے ہیں ۔ابھی پچھلے دنوں ہی فیس بک پر کسی نے پوسٹ لگائی تھی کہ ۔‘روز ایک جگہ جانے سے آدمی کی عزت میں کمی آجاتی ھے۔یقین مان یار دل پر لگی ہے یہ بات ۔اور کیوں نہ لگے ۔یار ایک طرف تو رات سونے کا مسئلہ رہتا ہے تو دوسری طرف صبح اٹھنے کا ۔ اوپر سے کالج سے بھی روز جانا پڑتا ہے۔اس پوسٹ کے پیرائے میں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ روز کا کالج جانا میری عزت نہ لے ڈوبے خیر میں کونسا ایسے عزت دارہوں کہ میری عزت میں کمی آئے ۔مجھے تو فکرِ اساتذہ ہے کیونکہ ان کے روز کالج آنے کی وجہ سے میرے دل میں موجود اساتذہ کی عزت میں خاطر خواں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔اس دوران اس کے لہجے کی سنجیدگی میں واضح اضافہ ہوگیا تھا ۔پھر اس نے پہلو بدلہ اور ہماری طرف اثبات طلب نگاہوں سے دیکھ کر بولا یار سچ بتا تجھے نہیں لگتا اس دورِ جدید کے اساتذہ کو پرانی کتابوں سے نکل کر فیس بک کی گنج ہائے گراں مایہ پوسٹوں کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے ۔ ہم نے چائے کی پیا لی سے چسکی لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ ہم اختلاف رائے کرکے کوئی مصیبت مول نہیں لینا چاہتے تھے۔
قسم سے یارفیس بک پر ہر موضوع پر جدید سے جدید اور قدیم سے قدیم پوسٹیں ہوتی ہیں ۔نصابی کتابوں میں آج کل رکھا ہی کیا ہے۔ تجھے پتہ ہے میں نے کل ہی فیس بک پر قائداعظم کی ایک جادوئی تصویر دیکھی جس کے نیچے لکھا تھا قائد کی یہ تصویر بڑی مشکل سے ہاتھ لگی ہے جلدی جلدی شئیر کریں ورنہ فیس بک سے غائب ہوجائے گی۔اخلاقیات کی تشہیر کے لیے ایسی پوسٹیں ہوتی ہیں کہ تُو دیکھے تو گنگ رہ جائے ۔ایک پوسٹ میری نظر سے گزری اس میں ایک معذور لڑکی کی تصویر تھی جس کے نیچے لکھا تھا ایشوریہ رائے کو تو سب لائک کرتے ہیں مجھے نہ کوئی لائک کرتا ہے اور نہ میری تصویر پر کوئی کمنٹ ۔تیرے بھائی نے پہلے تو فورا لائک اور کمنٹ کیا پھر جلدی سے شیئر بھی کیا۔ تجھے معلوم ہے اس تصویر پر ہزاروں لائکس کمنٹس اور شئیرز تھے۔ دیکھ فیس بک آدمی کے اندر باہمی محبت اور اخلاقیات کو کیسے فروغ دے رہا ہے ۔اسکول اور کالج میں سکھاتے ہیں یہ ؟؟ سلّو نے ہم سے پھر اثبات چاہا ۔بے دلی سے ہم نے تائید میں گردن ہلا دی۔ سلّو کا جوش بڑھ گیا تھا کہنے لگا یار کیسے بتاوں تجھے کیا کیا ہوتا ہے فیس بک پر ۔انگریزی سکھانے کے لیے بہت اعلی پوسٹس ہوتی ہیں ۔تیرے بھائی نے کل ہی ایک چیلنج پورا کیا ۔ لکھا تھا کوئی مائی کا لال گڈ ایسے لکھ کر دکھائے کہ جس میں پہلا حرف یعنی" جی" بڑا اور درمیان میں دو" او" چھوٹے اور پھر "ڈی" بڑا ہو ۔ تیرے بھائی نے دیر ہی نہیں کی جھٹ پٹ کمنٹ میں لکھ کر چیلنج پورا کر دیا تو دیکھتا جا کچھ دنوں بعد انگریزی تو میرے گھر کی لونڈی ہوگی۔اور تو اور کرنٹ افئیرز پر ایسی ایسی پوسٹیں ہوتی ہیں جو کہیں پڑھنے کو نہیں ملتیں ۔ تجھے تو پتہ بھی نہیں ہوگا یہ جو ترکی کا صدر ہے نا ! ہم نے گردن ہلائی: اور کہا- ہاں ہاں اردوان کیا ہوا اس کو؟ سلّو بولا ارے کچھ نہیں ہوا میں نے ایک پوسٹ میں پڑھا ہے وہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے اپنی فوجیں بھیج رہا ہے اب تو دیکھنا کشمیر کیسے آزاد ہوتا ہے ! آدمی کے اندرسوئے تفکر کو جگانے کے لیے بھی ایسی پوسٹیں ہوتی ہیں کہ حیرانگی کا بھی حیرانی سے منہ پھٹ جائے ۔ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ کمنٹ کے اندر تین لکھیں پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔ میں نے تین لکھ دیا ۔ ہم نے جھٹ پوچھا اچھا پھر کچھ ہو اکیا؟ْ ۔ سلّو ہماری بات سن کر فوراً بولا ۔نہیں ہوا تو کچھ بھی نہیں یہ ہی تو سوچنے کی بات ہے ۔ تیرا بھائی اس دن سے یہ ہی تو سوچ رہا ہے کہ تین لکھنے کے بعد ہوتا کیا ہے ؟؟ اب سلّو کے اندر پنہاں نام نہاد مفکر پورےجوبن پر تھا۔مگر ہم سلّو کے مفکرانہ طرزِ گفتگو کی تاب نہ لا سکے ۔ ہمارا ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا-
۔لہذا لاکھ کوشش کے باوجود ہم اپنا قہقہ دبا نہیں سکے۔ بس پھر وہ ہی ہواجسکا ڈر تھا۔ سلّو یہ کہتا ہوا وہاں سے اٹھ گیا یار تم سے تو کوئی سنجیدہ گفتگو کرنا ہی فضول ہے۔ ناراضگی کے باعث پھر کافی دن تک ہم سے نہیں ملا۔
ایک دن خود ہی کال کی ۔جوشیلے انداز میں بولا ۔کدھر ہے یار آج چائے پر مل ۔میرے ساتھ بڑا سین ہوا ہے ۔تو ملے گا تو تفصیلی بات ہوگی ۔ اور پھر فون کاٹ دیا۔ ہم بھی تفریح کی تلاش میں تھے سلّو کی باتوں سے زیادہ لطف انگیز بھلا اور کیا چیز ہوسکتی تھی ۔ لہذا وقت مقررہ پر ہم اس سے ملنے پہنچ گئے۔
چائے کی محفل سجی تو سلّو گویا ہوا۔ یار دیکھو
تمام تر کمی اور خامیوں کے باوجود ایام زیست بسر ہو رہے ہیں- مگر تو جانتا ہے عزت کے معاملے پر تیرا بھائی نہایت حساس ہے – ہم نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے "ہمم" کہا۔ پس جو دن بھی عزت سے گزر جاتا ہے میں اسی میں عافیت جانتا ہوں ۔ہم نے دوبارہ "ہمم" کہا۔ سلّو گفتگو جاری رکھتے ہئے بولا، مگر آج شاید قسمت کی دیوی مجھ پر مہربان نہیں تھی-اسلامیات کی کلاس میں پیش آنے والے آج کے واقعے نے میری عزت کو معقول حد تک خطرے میں ڈال دیا تھا- ہم نے دلچسپی دکھاتے ہوئے لقمہ دیا اچھا ایسا بھی کیا ہوا بھیا۔ سلّو ٹیبل پر ٹکا میرا ہاتھ دباتے ہوئے پرجوش لہجے میں بولا ۔ ہاں ہاں تُو سن تو وہی بتا رہا ہوں ۔ اصل میں میرے کالج میں اسلامیات کے ایک نئے ٹیچر آئے ہیں ۔چونکہ ان کو آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے اسی لیے وہ ہماری کلاس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے۔ آج انکی پہلی کلاس تھی- لیکچر کا آغاز ہوا تو استاد بلیک بورڈ پر کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئے ۔ میرے گروپ کے شریر طلباء نے حسبِ عادت شرارتوں کا آغاز کر دیا۔ جیسے ہی استاد کا منہ بلیک بورڈ کی طرف ھوا تو کلاس
میں مختلف جانوروں کی آوازیں گونجنا شروع ہوگئیں ۔ کبھی کلاس میں بکرے کی "میں میں" گونجتی کبھی گائے کی "ما ما" اور کبھی کتے کی بھو بھو۔ جب بھی کلاس میں کسی جانور کی آواز گونجتی تو استاد پلٹ کے دیکھتے مگر استاد کے پلٹتے ھی سب لوگ ایسے معصوم بن جاتے جیسے ھماری معصومیت کے جھنڈے شہر بھر کی شاہرائوں پر گڑھے ھوں۔ کچھ دیر تو استاد محترم کلاس میں جاری طوفان بدتمیزی کو نظر انداز کرتے رہے۔مگر بہرحال ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے لہذا جب ضبط کی حد ھو چلی تو استاد محترم بلاآخر غصّے سے پھٹ پڑے۔انھوں نے کہا کہ اطلاع تو مجھے یہ ہی تھی کہ آپ لوگوں کی کلاس نالائقوں کا مجموعہ ہے۔مگر اس قدر نالائق ہوں گے کہ اسلامیات کے ٹیچر کو بھی نہ بخشیں گے اسکی امید نہ تھی۔ان کا پرزور مطالبہ تھا کہ شرارت کرنے والے طلباء غیر مشروط طور پر خود سے سامنے آجائیں اور معافی کے طلبگار ہوں وگرنہ وہ پرنسپل سے پوری کلاس کی شکایت کردیں گے- بھلا استاد کی ان گیڈر بھبکیوں کا ہماری کلاس کے طلباء جیسے عادی مجرموں پر خاک اثر ہونا تھا-لہذا اپنی دھمکی کو رائگاں جاتے ہوئے دیکھنے کے بعد استاد نے اعلان فرما دیا کہ وہ ایک لڑکے کے علاوہ پوری کلاس کی پرنسپل کے ساتھ چغلی کریں گے-اس لڑکے کے مذید فضائل گنواتے ہوئے استاد نے فرمایا کہ وہ لڑکا بھیڑیوں کے لشکر میں گویا بھیڑ کی مانند ہے اور اس جیسے لائق شاگرد کا ایسے نااہل طلباء کے ساتھ بیٹھنا فقط قسمت کی ستم ظریفی ہے -اور اگر وہ خود اسے لائبریری میں پڑھتا ہوا نہ دیکھ چکے ہوتے تو شاید یہ ہیرا انکی جوہری نگاہ سے اوجھل ہی رہتا- استاد محترم کے پرجوش خطاب کے وقت کلاس میں گہرا سنناٹا چھا گیا تھا- سب اس خوش نصیب لڑکے کا نام سننے کے لیے بے حد مظطرب اور ہمہ تن گوش تھے۔ میرے بھی کان تو کھڑے ہوئے مگر مجھے اس شخص کا نام جاننے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے اس بات کا کامل یقین تھا کہ جس لڑکے سے استاد محترم اس قدر متاثر نظر آتے ہیں وہ میں تو قطعی نہیں ہو سکتا یہ کہتے ہوئے سلّو نے زور دار قہقہ لگاتے ہوئے ہمارے ہاتھ پر تالی ماری۔پھر چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولا۔ دوسرا مجھے یہ یقین تھا کہ استاد محترم ضرور سرور کا نام لینگے ۔ایک سرور ہی تھا جس کا شمار ہماری کلاس کے قابل شاگردوں میں ھوتا ہے۔ لہذا جو مبیّنہ انکشاف استاد محترم کرنے والے تھے اس میں کم ازکم میرے لیے تو حیران کن کچھ بھی نہ تھا۔ خیر پھر وہ گھڑی بھی آئی کہ بلا آخر استاد محترم نے اس لڑکے کا نام منکشف کر دیا۔ مگر انکشاف کی یہ گھڑی مجھ پر گویا قیامت بن کر ٹوٹی۔ میں جو اپنی کرسی پر اطمینان سے بیٹھا تھا مجھے تو جیسے یکدم سکتہ ہوگیا ہو۔ راوی کہتا ہے کہ اس وقت میرا منہ حیرت کے باعث پھٹ گیا تھا اور آنکھوں کے ڈیلے یوں باہر کو ابل آئے تھے جیسے زمین پر ہی آگریں گے اور چہرہ ایسے سفید پڑ گیا تھاجیسے میرے جسم سے کسی نے خون چوس لیا ہو ۔ ہم نے بھی متجسس لہجے میں پوچھا اچھا ! بھائی ایسا بھی کیا ہوا تھا سلّونے بلند آواز میں گویا جیسے نعرا لگایا ہو ۔بھائی جان ٹیچر نے جس لڑکے کو کلاس کا لائق ترین شاگرد قرار دیا تھا وہ میں تھا!! ہمیں یہ سن کر واقعی حیرت کا جھٹکا لگا ۔اور ہم اسلامیات والے ٹیچر کی دماغی حالت کے حوالے سے ذرا مشکوک ہوگئے۔خیر یہ بھی خیال آیا کہ ممکن ہے سلّو ہی شیخی بگھار رہا ہو۔ خیر ہم نے شوق سے پوچھا اچھا آگے تو بتا پھر کیا ہوا
سلّو نے لاپرواہی کے ساتھ انگڑائی لیتے ہوئے کہا بس یار کیا بتاوں حیرت کے باعث منجمد ہوجانے والے میرے حواس جب بحال ھوئے تو میں نے دیکھا کہ تقریبا پوری کلاس ہی مجھے ایسے گھورہی تھی جیسے میرے سر پراچانک سینگ نکل آئے ہوں۔ جبکہ میرے قریبی حواریوں کا رویہ بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ تھا۔ وہ مشتعل نگاہوں سے مجھے اس طرح گھور رھے تھے جیسے کلاس کے ختم ہوتے ہی مجھے کچا چبا جائیں گے۔سّلو نے اس موقع پر چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے تاسفانہ لہجے میں کہا یار سچ کہوں تو میں بھی باعث شرمندگی دوستوں سے آنکھ نہیں ملا پارہا تھا۔ اپنی سیٹ پر بیٹھے میں یہ بھی سوچ رھا تھا کہ آخر استاد محترم میرے بارے میں جھوٹ بول کر اپنی قبر کیوں بھاری کررہے ہیں ۔دل میں خیال آیا کہ جھٹ کھڑا ھو کر سب کو بتا دوں کہ استاد محترم سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ مگر نیتِ صالحہ ہونے کے باوجود میں اتنی جرات مجتمع نہیں کر پایا – کہ جھوٹ کا قلع قمع ہوتا اور سچ غالب آتا۔استادِ محترم کے کلاس سے جاتے ہی میرے دوست مجھ پر چڑھ ڈورے۔ تقریباً سب نے مجھے برا بھلا بولا ۔کسی نے دھوکے باز قرار دیا تو کسی نے بے وفا بول کے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ میں نے بہتیرا یاروں کو سمجھانے کی کوششش کی کہ استاد کو ضرور غلط فہمی ھوئی ھے ورنہ کہاں لائبریر ی کا دروازہ اورکہاں مجھ سا نالائق۔مگر دوستوں نے ایک نہ سنی سب کا یہ ہی کہنا تھا کہ تم ھم سے چھپ چھپ کے پڑھتے ھو۔ اور پھر سب مجھے چھوڑ چھاڑ کے چلے گئے۔ہم نے بھی ذرا مشکوک لہجے میں اٹکتے ہوئے دھیمے سے سلّو سے پوچھا تو کیا واقعی تم چھپ کر پڑھائی کرتے ہو؟ یہ سن کر سلّو تو جیسے تڑپ اٹھا ۔ جھٹ بولا ۔لو یار اب تم بھی مجھ پر شک کرو گے کیا؟ بھائی تو آگے سن تو لے۔میں نے یہ الجھن سلجھا لی ہے۔ہمنے چائےکا کپ ٹیبل سے اٹھایا اور پھر کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے سلّو کو کہا اچھا نا بتاو آگے کیا ہوا۔ سلّو بولا: اب میں پیچھے بیٹھے اس ساری صورت حال کا مفصّل جائزہ لے رہا تھا کہ آخر استاد نے میرے بارے میں ایسی غلط بیانی کیوں کی۔ چار سو سوچ کے گھوڑے ڈورائے - پھر یکدم دماغ میں گویا جھماکہ ہوا ہو اور یوں لگا جیسے یاداشت واپس آئی ہو۔ساری الجھن دور ہوگئ -دراصل ایک دن میرے گروپ سے کوئی کالج نہیں آیا تھا- میں کالج آکر اکیلے بہت بور ھو رہا تھا سوچا چلو لائبریری میں جاکر اخبار میں سے فلمی خبریں پڑھتا ہوں- اس وقت جب میں لائبریری میں فنون لطیفہ کی خبروں سے فیضیاب ھو رہا تھا اسی دوران نئے اسلامیات والے استاد لائبریری میں تشریف لےِ آئے استاد کو دیکھتے ھی میں نے جھٹ اخبار ایک طرف رکھ دیا اور "تاریخِ اسلام" نامی کتاب کواپنے سامنے کھول کے رکھ لیا ۔ استاد جب میرے قریب آئے تو میں نے ایک شریف النفس اور با ادب شاگرد ہونے کا پھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں کھڑے ھو کر سلام کیا ۔علیک سلیک ہونے کے بعد استاد نے میرا نام اور کلاس کا دریافت کیا۔ پھر وہ میز پر کھلی کتاب کی جانب متوجہ ہوئے –یہ جان کر کہ میں تاریخ اسلام کا مطالعہ کر رہا ہوں ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔استاد محترم کی جانب سے میری پیٹ ٹھونکی گئ- استاد شاباش بیٹا شاباش دل خوش کردیا کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے- اس موقع پر سلّو اور ہم نے زور دار قہقہ لگایا۔سلّو کے ہاتھ پر تالی مارتے ہوئے ہم نے کہا اچھا پھر۔ یار یہ تو واقعی زبردست سین ہوا ہے۔ سلّو نے ہنستے ہوئے کہا بس پھر جب تک استاد محترم لائبریری میں موجود رھے تب تک میں بھی تاریخ اسلام کی کتاب کو گھورتا رھا – میں نے کتاب میں اپنے انہماک کی ایسی اداکاری نبھائی گویا جس نے بھی اس وقت مجھے دیکھا ہوگا میرے زوق و شوق کو داد ضرور دی ہوگی- خیر میں تو مستقل چور نظروں سے استاد محترم کوبھی دیکھ رھا تھا اور دل ھی دل میں انکے جانے کے لیے دعاگو بھی تھا- اللہ سے کافی منت سماجت کے بعد بلاآخر میری دعا درجہ قبولیت کو پہنچی – استاد لائبریری سے چلے گئے- تھوڑی دیر بعد میں بھی لائبریری سے باہر آگیا ۔کھلی فضاء میں پہنچا تو احساس ہوا قید بھی کیسی بری چیز ہوتی ہے۔ اس بات کو کافی دن ہوگئے تھے- مگر استاد نے اب تک اسے یاد رکھاھوا تھا - استاد کے حافضے پر مجھے غصہ تو بہت آیا بھلا اس عمرمیں اتنا اچھا حاٖفضہ!! ۔ آدمی اپنی عمر کے حساب سے ھی ھر کام کرتا اچھا لگتا ھے۔ اب بھلا ایسی عمر کہ جس میں انسان میں مرض نسیان کی علامتیں ظاھر ھونا شروع ھوجاتی ہوں اس عمر میں استاد کا جوانوں ایسا حافظہ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے۔ ہم نے سلّو کو روکتے ہوئے کہا۔ کہ جو ھونا تھا ھو چکا اب تم کر بھی کیا سکتےہو۔ ہاں مگر مستقبل میں اس قسم کے حادثے سے بچنے کے لیے تمھیں اس کا مناسب سد باب ضرور کرنا چاہیے۔ہماری بات سن کر سلّو نے نہیات مدبرانہ انداز میں اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ہاں یار صحیح کہتے ہو۔ میں نے سوچ لیا ہے آیندہ چاہے جو ہو۔ کہیں بھی جاوں۔ مگر لائبریری کی طرف جانے کی اپنی یہ غلطی نہیں دہراوں گا- ہم نے بھی سلّو کے فیصلے کی تائید کی ۔ چائے ختم ہوچکی تھی۔سلّو سے رخصت لی اور زیر لب مسکراتے گھر کی جانب چل دیے۔
 
آخری تدوین:
Top