کاش ایسا کبھی ہو مرے دیس میں

فیضان قیصر

محفلین
کاش ایسا کبھی ہو مرے دیس میں
لوگ نکلیں گھروں سے یہ کہتے ہوئے
آج اپنے مسیحاؤں کے واسطے
ہم ہمارے گھروں سے نکل ائے ہیں
اور سڑکوں پہ بیٹھے مسیحاؤں سے
لوگ بولیں سنو
ہم تمھاری جگہ دھرنا دینگے یہاں
اسپتالوں میں تم لوٹ جاؤ وہاں
منتظر ہیں تمھارے کئی غم زدہ
ہیں ملول و پریشاں، دکھی، بے خطا
صبحِ نو کا انھیں جاکے پیغام دو
جاؤ کارِ مسیحائی انجام دو.
 
مدیر کی آخری تدوین:

سلیم ستار

محفلین
فیضان صاحب، آپ کی اس نظم کا مرکزی خیال اور لب و لہجہ بہت اچھا ہے۔ مجھے یہ نظم بہت پسند آئی۔

ایک آدھ جگہ معمولی سی تبدیلی سے یہ شیشے سے ہیرے میں تبدیل ہو سکتی ہے، اگر کوئ استاد اس پر توجہ دیں تو۔
 
کاش ایسا کبھی ہو مرے دیس میں
لوگ نکلیں گھروں سے یہ کہتے ہئے
آج اپنے مسیحاؤں کے واسطے
ہم ہمارے گھروں سے نکل ائے ہیں
اور سڑکوں پہ بیٹھے مسیحاؤں سے
لوگ بولیں سنو
ہم تمھاری جگہ دھرنا دینگے یہاں
اسپتالوں میں تم لوٹ جاؤ وہاں
منتظر ہیں تمھارے کئ غم زدہ
ہیں ملول و پریشاں دکھی بے خطا
صبحِ نو کا انھیں جاکر پیغام دو
جاؤ کارِ مسیحائی انجام دو.
فیضان قیصر بھائی خوبصورت نظم ہے ۔ یہ نظم بحور سے آزاد نثری شاعری ہرگز نہیں بلکہ باقاعدہ آزاد نظم ہے۔ ہم اسے اصلاح سخن کے زمرے میں منتقل کر رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

فیضان قیصر

محفلین
فیضان صاحب، آپ کی اس نظم کا مرکزی خیال اور لب و لہجہ بہت اچھا ہے۔ مجھے یہ نظم بہت پسند آئی۔

ایک آدھ جگہ معمولی سی تبدیلی سے یہ شیشے سے ہیرے میں تبدیل ہو سکتی ہے، اگر کوئ استاد اس پر توجہ دیں تو۔
پسند کرنے کا اور رہنمائی کرنے کا بے حد شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے شاید کہیں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے موضوع پر ۔
'ہم ہمارے گھروں' اچھا نہیں، 'ہم اپنے گھروں' درست محاورہ ہوتا ہے
دوسری خامی یہ لگی
ہم تمھاری جگہ دھرنا دینگے یہاں
دھرنا کے الف کا اسقاط گوارا نہیں، ترتیب بدل دیں
دیں گے دھرنا یہاں
باقی ٹھیک ہے
 

فیضان قیصر

محفلین
اچھی نظم ہے شاید کہیں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے موضوع پر ۔
'ہم ہمارے گھروں' اچھا نہیں، 'ہم اپنے گھروں' درست محاورہ ہوتا ہے
دوسری خامی یہ لگی
ہم تمھاری جگہ دھرنا دینگے یہاں
دھرنا کے الف کا اسقاط گوارا نہیں، ترتیب بدل دیں
دیں گے دھرنا یہاں
باقی ٹھیک ہے
بہت شکریہ سر- جی یہ پاکستان میں ڈاکٹرز کی ہرتال کے پس منظر میں ہی لکھی گئی تھی- آپ کی نشاندھی کے مطابق تبدیلیاں کر دی ہیں -
 
Top