مجھے لگ رہا ہے مرا سر ہے بھاری---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
------------
فعولن فعولن فعولن فعولن
-----------
مجھے لگ رہا ہے مرا سر ہے بھاری
محبّت میں ہوتی ہے ایسی خماری
--------------
خیالوں پہ میرے تمہیں چھا گئے ہو
جدھر دیکھتا ہوں ہے صورت تمہاری
-----------
محبّت نبھانا نہیں سہل ہوتا
میں کرتا رہا ہوں سدا آبیاری
-------------
کئی روز گزرے نہ آیا پلٹ کر
بناتیرے مجھ پر بہت دن تھے بھاری
----------
زمانے نے ہم کو دئے دکھ ہزاروں
مگر پھر بھی الفت ہماری نہ ہاری
--------------
زمانے نے چاہا محبّت بُھلا دوں
رہا میں تو پھر بھی محبّت کا قاری
-----------------
جدائی محبّت میں ہوتی ہے اکثر
مگر دل پہ لگتی ہے اک ضرب کاری
---------------
فقط میں تو رب سے یہی مانگتا ہوں
یہ صورت رہے سامنے بس تمہاری
-------------
محبّت کسی سے وہ کیسے کریں گے
دلوں پر ہوس جن کے رہتی ہے طاری
---------------
محبّت کے دم سے ہے دنیا میں رونق
-----------یا
اسی کے ہی دم سے ہے دنیا میں رونق
چمن میں محبّت ہے بادِ بہاری
---------
محبّت بنا کیا مزہ زندگی کا
تبھی مجھ کو ارشد ہے خود سے بھی پیاری
 

الف عین

لائبریرین
مجھے لگ رہا ہے مرا سر ہے بھاری
محبّت میں ہوتی ہے ایسی خماری
-------------- پہلے مصرع کی نثر دو طرح ہو سکتی ہے
میرا سر بھاری ہے، مجھے لگ ریا یے
یعنی میرے سر کا وزن ہی زیادہ ہے، جو ظاہر ہے کہ آپ کا مطلب نہیں
مجھے میرا سر بھاری لگ رہا ہے
ظاہر کرتا ہے کہ سر بھاری ہونا، پیر بھاری ہونے کی طرح محاورہ ہے۔ یعنی اس مطلب کو ظاہر کرنے میں یہ بیانیہ دو عدد 'ہے' کے ساتھ غلط ہے۔ اگر مجھے لگ رہا ہے کے ساتھ ہی باندھنا چاہیں تو شاید 'آج' کے اضافے سے یہ مطلب ظاہر ہو جائے
اگر ایک ہی جملے میں کہا جائے تو 'مرا' نہیں 'اپنا' کہنا چاہیے
مجھے آج سر اپنا لگتا ہے بھاری
ایک مشورہ
دوسرے مصرعے میں سوالیہ نشان لگانا بھی ضروری لگتا ہے

خیالوں پہ میرے تمہیں چھا گئے ہو
جدھر دیکھتا ہوں ہے صورت تمہاری
----------- ٹھیک

محبّت نبھانا نہیں سہل ہوتا
میں کرتا رہا ہوں سدا آبیاری
------------- آبیاری کا تعلق نبھانے سے؟
محبت کا پودا پنپتا نہیں ہے
ہو تو قبول کیا جا سکتا ہے

کئی روز گزرے نہ آیا پلٹ کر
بناتیرے مجھ پر بہت دن تھے بھاری
---------- ربط پیدا کرنے کے لیے جو یا جب لانا ضروری ہے پہلے مصرع میں

زمانے نے ہم کو دئے دکھ ہزاروں
مگر پھر بھی الفت ہماری نہ ہاری
-------------- ٹھیک

زمانے نے چاہا محبّت بُھلا دوں
رہا میں تو پھر بھی محبّت کا قاری
----------------- نکال دو، پسند نہیں آیا

جدائی محبّت میں ہوتی ہے اکثر
مگر دل پہ لگتی ہے اک ضرب کاری
--------------- مگر کی معنویت سمجھ نہیں سکا

فقط میں تو رب سے یہی مانگتا ہوں
یہ صورت رہے سامنے بس تمہاری
------------- درست

محبّت کسی سے وہ کیسے کریں گے
دلوں پر ہوس جن کے رہتی ہے طاری
--------------- ٹھیک

محبّت کے دم سے ہے دنیا میں رونق
-----------یا
اسی کے ہی دم سے ہے دنیا میں رونق
چمن میں محبّت ہے بادِ بہاری
--------- یوں بہتر لگ رہا ہے
اسی کی بدولت ہے گلشن میں رونق
محبت ہے جیسے کہ بادِ بہاری

محبّت بنا کیا مزہ زندگی کا
تبھی مجھ کو ارشد ہے خود سے بھی پیاری
یہ بھی دو لخت لگتا ہے، محبت پیاری لگتی ہے یا محبوبہ؟
 
الف عین
عظیم
------------
تصحیح شدہ اشعار
سر کا بھاری ہونا سب کو کھٹک رہا تھا اسلئے میں نے سر کو نکال دیا ہے
----------------
تجھے دیکھ کر ہے نشہ مجھ پہ طاری
-----------یا
نشہ مجھ پہ جیسا ہوا آج طاری
محبّت میں ہوتی ہے ایسی خماری
-------------
محبت کا پودا پنپتا نہیں ہے
میں کرتا رہا ہوں سدا آبیاری
-------------
کئی روز جب تُو نہ آیا پلٹ کر
بناتیرے مجھ پر بہت دن تھے بھاری
----------------
جدائی محبّت میں ہوتی ہے اکثر
یہ دل پر لگاتی ہے اک ضرب کاری
---------------
اسی کی بدولت ہے گلشن میں رونق
محبت ہے جیسے کہ بادِ بہاری
-----------------
ملے غم ہزاروں محبّت میں ارشد
مگر ہم نے الفت کی بازی نہ ہاری
--------------------
 

عظیم

محفلین
تجھے دیکھ کر ہے نشہ مجھ پہ طاری
-----------یا
نشہ مجھ پہ جیسا ہوا آج طاری
محبّت میں ہوتی ہے ایسی خماری
------------- نشہ کے تلفظ کے علاوہ دونوں میں ربط کمزور لگتا ہے

محبت کا پودا پنپتا نہیں ہے
میں کرتا رہا ہوں سدا آبیاری
------------- ٹھیک

کئی روز جب تُو نہ آیا پلٹ کر
بناتیرے مجھ پر بہت دن تھے بھاری
---------------- وہ دن تھے بھاری ہونا چاہیے تھا

جدائی محبّت میں ہوتی ہے اکثر
یہ دل پر لگاتی ہے اک ضرب کاری
--------------- جدائی دل پر ضرب لگاتی ہے یا محبت؟ یہ واضح نہیں لگتا

اسی کی بدولت ہے گلشن میں رونق
محبت ہے جیسے کہ بادِ بہاری
----------------- ٹھیک ہو گیا ہے

ملے غم ہزاروں محبّت میں ارشد
مگر ہم نے الفت کی بازی نہ ہاری
-------------------- یہ درست اور اچھا ہے
 
عظیم
کہاں اب محبّت میں وہ آہ و زاری
وفا کا بہانہ بنائیں شکاری
----------
نبھاتے نہیں لوگ الفت میں یاری
کریں عہد پورا یہ ان پر ہے بھاری
----------
محبّت دلوں سے کہاں پر سدھاری
بنا عشق اب ہے محظ ایک خواری
--------------- (تینوں میں سے جو مطلع آپ بہتر سمجھیں)
جدائی محبّت میں ہوتی ہے اکثر
لگاتی ہے دل پر مگر ضرب کاری
-----------
کئی روز جب تُو نہ آیا پلٹ کر
گزارے مگر دن مجھ پہ تھے وہ بھاری
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مطلع پہلا کچھ بہتر لگ رہا ہے، لیکن دوسرا بے معنی لگتا ہے۔ وفا کے ساتھ شکاری کا کیا تعلق ہے یہ سمجھ نہیں آتا
جدائی والے شعر میں 'اکثر' کی جگہ 'لیکن' استعمال کریں اور دوسرے میں
'مگر' کی بہ نسبت 'یہ اک' بہتر لگتا ہے
پلٹنے والے شعر کا دوسرا مصرع اب بھی فٹ نہیں بیٹھ رہا
 
Top