احمد شاہ ابدالی اور صابر شاہ فقیر

الف نظامی

لائبریرین
سید سرفراز شاہ اپنی کتاب ارژنگِ فقیر میں لکھتے ہیں:

احمد شاہ ابدالی فوج میں ایک سپاہی تھا۔ فوج نے کسی مہم کے دوران ایک جگہ پڑاو ڈالا۔ جب رات کا کھانا serve ہو رہا تھا تو ذرا کم اچھے حلیے والا شخص وہاں آیا اور کہا
"میں بھوکا ہوں ، کھانا کھلا دو"
فوجیوں نے ڈانٹ دیا کہ یہ تو لشکر کے لیے کھانا ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے جب یہ سنا تو اپنے حصے کا کھانا اس فقیر کو دے دیا۔ کھانا کھانے کے بعد فقیر نے احمد شاہ ابدالی سے کہا
"تم نے مجھے کھانا کھلایا ، بولو کیا مانگتے ہو۔ جو مانگو گے ملے گا"
یہ سن کر سپاہیوں نے قہقہے لگائے کہ جس شخص کے پاس خود کھانے کچھ نہ ہو وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی نے politely کہا
"بہت مہربانی ، بس آپ میرے لیے دعا کر دیجیے گا"
فقیر نے رخصت ہوتے وقت کہا
"جاو! تمہیں بادشاہ بنا دیا"
اس کی بات سن کر سپاہیوں نے ایک بار پھر قہقہے لگائے۔ اس مہم میں مقابلہ بہت سخت تھا۔ لشکر کا بڑا نقصان ہوا۔ احمد شاہ ابدالی نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا جس پر بادشاہ نے ترقی دے کر اسے ایک چھوٹے درجے کا صوبیدار بنا دیا۔ اس کے بعد احمد شاہ ابدالی نے اپنے troops کی اتنی اعلی کمانڈ کی کہ بادشاہ نے اسے ترقی دے کر کمانڈر انچیف بنا دیا حتی کہ ایک ایسا وقت آیا کہ جب اس نے بادشاہ کو ہٹا کر خود حکمرانی سنبھال لی۔ تب اسے اُس فقیر کی دعا یاد آئی۔ فقیر کا پتا کرایا تو پتا چلا کہ وہ پنجاب گئے ہوئے ہیں۔ اس وقت پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی اور سکھ مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھا رہے تھے۔ فقیر سکھ مہاراجہ کے دربار میں گیا اور احتجاج کیا کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم سے باز آجاو۔ سکھ مہاراجہ نے ظلم کہ انتہا کرتے ہوئے حکم دیا کہ ابلتی ہوئی چاندی اس فقیر کے حلق میں انڈیل دی جائے۔ جس سے اس فقیر کا انتقال ہو گیا۔
جب یہ خبر احمد شاہ ابدالی تک پہنچی تو وہ غصے میں آ گیا کہ سکھ مہاراجہ نے میرے مرشد کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کیا۔ وہ افغانستان سے آیا اور پنجاب پر حملہ کیا۔ لاہور فتح کیا اور حکم دیا کہ تین دن تک سکھوں کا قتل عام کیا جائے۔ جب رات کو احمد شاہ ابدالی سویا تو اس فقیر کو خواب میں دیکھا جنہوں نے تنبیہ کی کہ تمہیں بادشاہ اس لیے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ تم انسانوں کا قتل عام کرو۔ فورا اسے بند کرو۔ احمد شاہ ابدالی نے آنکھ کھلتے ہی قتل عام بند کرنے کا حکم دیا۔
وہ فقیر صابر شاہ صاحب تھے جن کا مزار بادشاہی مسجد کی تقریبا back پر ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر آٹھ حملے کیے تھے اور ہر حملے میں قتل و غارت کی پس ثابت ہوا کہ ابدالی نے اپنے "مفروضہ" مرشد کی بات نہیں مانی۔ مزید برآں یہ کہ چوتھے حملے کے وقت واپس جاتے ہوئے ابدالی نے امرتسر میں سکھوں کے "کعبہ" گولڈن ٹیمپل کو مسمار کر کے اس پر ہل چلوا دیئے تھے جس کا بدلہ سکھوں نے بادشاہی مسجد کو اصطبل بنا کر لیا لیکن پھر بھی اس کو مسمار نہیں کیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محسن فارانی لکھتے ہیں:
ملتان میں پیدا ہونے والا احمد شاہ ابدالی جب 1747ء میں نادر شاہ کے قتل پر قندھار میں تخت نشین ہوا تو اس نے افغانستان میں اپنی بادشاہت پر اکتفا کیا تھا لیکن جب ہندو مرہٹوں کے لشکر 1759ء میں دہلی پر قابض ہونے کے بعد اٹک تک پہنچ گئے اور ان کے پیشوا نے پونا میں اعلان کیا کہ
جامع مسجد دہلی میں مہادیو کا بت نصب کیا جائے گا
تب شاہ ولی اللہ‘ نواب شجاع الدولہ اور روہیلہ سردار حافظ رحمت خان نے احمد شاہ ابدالی سے درخواست کی تھی کہ وہ آ کر ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندو مرہٹوں کے ظالمانہ تسلط سے بچائیں۔
اس کے بعد ہی احمد شاہ ابدالی نے جنوری 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں لاکھوں ہندو مرہٹوں کو شکست دے کر ہندوستان میں مسلم اقتدار کو سنبھالا دیا تھا۔

اس کے بعد ابدالی نے پنجاب میں دہشت گردی کرتے ہوئے سکھوں کو کچلنے کے لئے آنا پڑا تھا اگر ابدالی اقتدار کا بھوکا ہوتا تو وہ 1761ء ہی میں شاہ عالم ثانی کو معزول کر کے دہلی پر قبضہ کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور مغلوں کو سنبھلنے کا موقع دیا۔

اس نے صرف پنجاب اور کشمیر کو سکھوں کے کشت و خون اور لوٹ مار سے بچانے کیلئے اپنی سلطنت میں ضم کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے پوتے زمان شاہ نے 1799ء میں کابل میں بغاوت ہو جانے کے باعث لاہور سے واپس جاتے ہوئے یہاں کی حکومت رنجیت سنگھ کو سونپ دی۔
https://www.nawaiwaqt.com.pk/31-May-2009/96832
 

آصف اثر

معطل
اگر سکھوں کا ظلم وستم اور جارحیت نہ ہوتی تو احمد شاہ ابدالی کبھی بھی ہندوستان کا رُخ کرکے سکھوں کو سیدھا نہ کرتا۔ برصغیر کے مسلمانوں پر احمد شاہ ابدالی کا احسان ہے کہ ان کی وجہ سے انہیں سکھوں اور مرہٹوں کی غلامی سے نجات نصیب ہوئی۔ جنگ میں سپاہی قتل نہ ہوں تو کون ہوں گے۔ لہذا قتل و غارت گری کا اعتراض خود بخود کالعدم ہوجاتاہے۔ ٹیمپل کا جواب نظامی صاحب کے مراسلہ میں موجود ہے۔
البتہ حیرت اس بات پر ہے کہ جتنی بلاوجہ مذمت احمد شاہ ابدالی کی کی جاتی ہے، اتنی اصل ظالم نادر شاہ (ایران) کی نہیں کی جاتی کیوں کہ اعتراض کرنے والے اکثر وبیشتر افراد کی ہمدردیاں اور حمایت ایران کے ساتھ ہوتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ غزنوی، ابدالی، نادر شاہ وغیرہم کے ہاتھوں مرنے والوں کے لیے ایک جواز ڈھونڈا جاتا ہے اور انہی علاقوں میں انگریزوں اور امریکنوں کے ہاتھوں مرنے والوں کے لیے کوئی اور جواز ڈھونڈا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر انگریزوں اور امریکنوں نے قتل و غارت کی تو یہی کام اول الذکر حملہ آوروں نے بھی کیا!
 

آصف اثر

معطل
یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ غزنوی، ابدالی، نادر شاہ وغیرہم کے ہاتھوں مرنے والوں کے لیے ایک جواز ڈھونڈا جاتا ہے اور انہی علاقوں میں انگریزوں اور امریکنوں کے ہاتھوں مرنے والوں کے لیے کوئی اور جواز ڈھونڈا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر انگریزوں اور امریکنوں نے قتل و غارت کی تو یہی کام اول الذکر حملہ آوروں نے بھی کیا!
دراصل دونوں کے مقاصد میں خالق اور مخلوق کا فرق ہے۔ ایک طرف خدا کی زمین پر خدا کا نظام چاہتے ہیں جب کہ دوسری جانب ایک طبقہ سب کو، اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ البتہ ایران کا نادر شاہ ہو یا ابدالی کے بعد اس کے نااہل جانشین ہوں، کسی بھی غلط شخص کا دفاع کرنا شرعا، اور اخلاقا درست نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
زاہد الراشدی لکھتے ہیں:
قندھار جانا ہو اور احمد شاہ ابدالیؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضری نہ ہو، یہ میرے جیسے تاریخ کے طالب علم کے لیے ممکن ہی نہیں۔ گزشتہ دفعہ جب قندھار گیا تو احمد شاہ ابدالیؒ کے مزار پر بھی گیا۔ اس وقت مزار کے دروازے کھلے تھے اس لیے نیچے تہہ خانے میں اتر کر قبر کی پائنتی پر کافی دیر کھڑا رہا اور فاتحہ خوانی کے بعد تصور کی دنیا میں احمد شاہ باباؒ سے راز و نیاز میں مصروف رہا۔ مگر اس بار حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کے ہمراہ حاضری ہوئی تو دروازے بند تھے اس لیے باہر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کی اور ’’خلوت‘‘ میسر نہ ہونے کی وجہ سے راز و نیاز کا شوق بھی ادھورا رہ گیا۔

احمد شاہ ابدالیؒ کو افغان عوام محبت و عقیدت سے احمد شاہ باباؒ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اسی عقیدت سے اس عظیم افغان فرمانروا کی قبر پر حاضری بھی دیتے ہیں جس نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں قندھار میں افغان سلطنت کی بنیاد رکھی اور صرف ربع صدی کے عرصہ میں اس کی سرحدیں دریائے آمو سے دریائے سندھ تک اور تبت سے خراسان تک وسیع کر کے ۵۱ برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔

احمد شاہ ابدالیؒ ۱۷۲۴ء میں ملتان میں پیدا ہوا۔ افغانستان کے ابدالی قبیلہ کے پوپلزئی خاندان کی سدوزئی شاخ سے اس کا تعلق ہے۔ اس کا باپ سردار زمان خان مرحوم ہرات پر ایرانیوں کے قبضہ کی مزاحمت کرتا رہا مگر ناکام رہا اور ایرانی ہرات پر قابض ہوگئے۔ اس کے بعد سردار زمان خان کے بھائی ذوالفقار خان نے ایرانیوں کے خلاف بغاوت کی مگر وہ کامیاب نہ ہوا اور ۱۷۳۱ء میں ہرات پر ایرانی قبضہ مکمل ہوگیا۔ سردار زمان خان کا بیٹا احمد خان ایرانی فرمانروا نادر شاہ کی فوج میں بھرتی ہوا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث ایک سپاہی کے منصب سے ترقی کرتے ہوئے صرف تئیس برس کی عمر میں سپہ سالار کے مقام تک جا پہنچا۔ مگر ۱۷۴۷ء میں قزلباشوں کے ہاتھوں نادر شاہ قتل ہوا توا حمد خان نے دیگر افغان فوجیوں کے ہمراہ وطن واپسی کی راہ اختیار کی، قندھار میں افغان سلطنت کی بنیاد رکھی، احمد شاہ کا لقب پایا، اور در دراں (موتیوں کا موتی) کا خطاب حاصل کیا جس کی وجہ سے اسے درانی کہا جاتا ہے۔ احمد شاہ ابدالیؒ نے ۱۷۷۳ء میں وفات پائی مگر اس دوران مسلسل معرکہ آرائی اور فوجی مہمات میں اس نے اپنی سلطنت کو دریائے آمو سے دریائے سندھ تک اور تبت سے خراسان تک وسیع کر لیا جس میں کشمیر، پشاور، ملتان، سندھ، بلوچستان، ایرانی خراسان، ہرات، قندھار، کابل اور بلخ کے علاقے شامل تھے۔

احمد شاہ ابدالیؒ نے ہندوستان پر نو حملے کیے اور ایک مرحلہ پر لاہور اور سرہند پر قبضہ کر کے انہیں بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ مگر اس کا سب سے بڑا معرکہ پانی پت کی تیسری لڑائی ہے جس میں اس نے جنوبی ہند کے جنونی مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کا راستہ روکا اور شمالی ہند کے اس خطہ کو، جسے آج پاکستان کہلانے کا شرف حاصل ہے، ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے نام مخصوص کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مغل بادشاہت زوال کا شکار تھی۔ اسے ایک طرف سمندر پار سے تجارت کے نام پر آنے والی کمپنیوں نے، جن میں برطانیہ اور فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنیاں سر فہرست تھیں، دھکیلنا شروع کر دیا تھا۔ دوسری طرف سے جنوبی ہند کے انتہا پسند ہندوؤں یعنی مرہٹوں کی فوج دہلی پر قبضہ کے لیے بے چین تھی۔ تیسری طرف پنجاب میں سکھوں نے اپنی قوت اور خودمختاری کے اظہار کا آغاز کر دیا تھا۔ اور اسی فضا میں ایرانی فرمانروا نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور وہ قتل عام کیا تھا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اس وقت حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی و دینی قیادت کا علم اٹھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے دہلی کی طرف ہندو مرہٹوں کی یلغار کو شمالی ہند کے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے مغل بادشاہت کو اس کے مقابل بے بس پا کر احمد شاہ ابدالیؒ سے مدد کی فریاد کی۔ مرہٹے بھی اپنے مقابلہ میں افغانوں کے وجود کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور ۱۷۵۸ء میں پنجاب کو افغانوں سے خالی کرانے کی مہم میں پشاور تک یلغار کر چکے تھے۔ اس پس منظر میں افغانوں کی یہ ابھرتی ہوئی قوت ہی عالم اسباب میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا سب سے بڑا سہارا بن سکتی تھی۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالیؒ نے ۱۷۶۱ء میں مرہٹوں کے مقابلہ کے لیے ہندوستان پر لشکر کشی کی اور پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو تاریخی شکست سے دوچار کرنے کے بعد دہلی کی حکومت ایک بار پھر مغل بادشاہ محمد شاہ کے سپرد کر کے اپنے وطن واپس لوٹ گیا۔

’’تاریخ مختصر افغانستان‘‘ کے مصنف عبد الحئی حبیبی مرحوم کا کہنا ہے کہ احمد شاہ ابدالیؒ حنفی المذہب عالم تھا، دینی احکام کا پابند اور متشرع حکمران تھا۔ اور شعر و شاعری اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتا تھا۔ پشتو میں احمد شاہ ابدالیؒ کا دیوان عبد الحئی حبیبی مرحوم نے ہی شائع کیا ہے جو اڑھائی ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے اور اس میں غزل، رباعی، قطعات، اور مخمس وغیرہ کی مختلف شعری اصناف شامل ہیں۔ تصوف و سلوک میں اپنے وقت کے دو بڑے شیوخ حضرت شاہ فقیر اللہ جلال آبادیؒ اور حضرت میاں محمد عمر پشاوریؒ سے اس کا ارادت کا تعلق تھا۔ اور سلوک و معرفت کے مسائل پر بھی اس کا شاعرانہ کلام موجود ہے جس کی شرح پشاور کے قاضی ملا محمد غوثؒ نے ’’شرح الشرح‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔

احمد شاہ ابدالیؒ کی فرمانروائی کا یہ پہلو تاریخ کی نظر میں عجیب اور ناقابل فہم ہے کہ اس نے مسلمان سرداروں اور حکمرانوں پر تسلط حاصل کرنے اور انہیں میدان جنگ میں شکست دینے کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا اور ان کے علاقوں پر مسلسل قبضہ برقرار رکھنے کی بجائے انہی کو مناسب شرائط پر ان کے علاقے لوٹا دیے۔ مؤرخ حبیبی مرحوم نے احمد شاہ ابدالیؒ کے اس طرز عمل کو تاریخی طور پر عجیب قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دہلی، بخارا، خراسان، سندھ اور بلوچستان کے حکمرانوں کے ساتھ اس نے یہی معاملہ کیا۔ اور پانی پت کا معاملہ تو ہمارے سامنے ہے کہ مرہٹوں کی خوفناک شکست کے بعد اگر احمد شاہ ابدالیؒ دہلی میں بیٹھ جاتا اور ہندوستان پر اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیتا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے اس اقدام سے نہیں روک سکتی تھی۔ بلکہ تاریخ کے میرے جیسے طالب علم کی نظر میں اس وقت احمد شاہ ابدالیؒ کے دہلی میں بیٹھ جانے کی صورت میں نہ صرف فرنگیوں کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے بلکہ سکھوں کی روز افزوں سرکشی بھی کنٹرول میں رہتی۔ لیکن احمد شاہ ابدالیؒ نے اپنی افتاد طبع اور اس کے ساتھ اپنے پیچھے قندھار میں بغاوت کے آثار دیکھ کر واپس لوٹ جانے کو ترجیح دی۔

مؤرخ حبیبی مرحوم نے احمد شاہ ابدالیؒ کے اس طرز عمل پر بحث کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے کہ ابدالیؒ کا یہ رویہ اس دنیا کے معاملات کے حساب سے نہ تھا۔ گویا حضرت شاہ صاحبؒ کے نزدیک احمد شاہ ابدالیؒ کا معاملہ تکوینیات اور عالم غیب سے تھا کہ وہ اپنے ذمہ عائد کی گئی ذمہ داری ادا کر کے اسی طرح واپس چلا گیا۔
 
السلام علیکم
احمد شاہ ابدالی ایک مسلمان مجاہد تھے جنہوں نے ہندوستان کے مسلمان بھائی اور بہنوں کی عزت اور اسلام کی بالادستی قائم کرنے کیلئے ہندوستان پر حملہ کیا تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی آپس میں بھائی چارہ کو خراب کرنے کیلئے مسلمانوں کے درمیان یہودیوں اور ہندوؤں نے مستشرقین اور ایجنٹ بیجھے تھے جسکی وجہ سے مسلمان کمزور ہوگئے اور آج بھی وہ سلسلہ جاری ہے۔ میں نے احمد شاہ ابدالی کے بارے میں آپ سب لوگوں کے تبصرے پڑھے ان میں سے کئی لوگ نام نہاد مسلمان نام کا لبادہ پہنے ہوئے اسلامی تاریخ کے تحریف کرنے پر مہر ثبت کرنے کے قائل نظر آگئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر آٹھ حملے کیے تھے اور ہر حملے میں قتل و غارت کی پس ثابت ہوا کہ ابدالی نے اپنے "مفروضہ" مرشد کی بات نہیں مانی۔ مزید برآں یہ کہ چوتھے حملے کے وقت واپس جاتے ہوئے ابدالی نے امرتسر میں سکھوں کے "کعبہ" گولڈن ٹیمپل کو مسمار کر کے اس پر ہل چلوا دیئے تھے جس کا بدلہ سکھوں نے بادشاہی مسجد کو اصطبل بنا کر لیا لیکن پھر بھی اس کو مسمار نہیں کیا۔
احمد شاہ ابدالی، شاہ محمود غزنوی، شہنشاہ نادر شاہ جیسے بھگوڑے خود تو لوٹ مار، قتل و غارت کر کے ہندوستان سے چلے گئے۔ پیچھے مقامی مسلمانوں کو ہندوؤں و سکھوں کے غضب سہنے کیلئے چھوڑ گئے۔ آج بھارت میں مودی کی حکومت ان صدیوں کی نا انصافیوں کی قیمت اتار رہی ہے۔ جو مسلمان شہنشاہ ہندوستان میں کر چکے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ غزنوی، ابدالی، نادر شاہ وغیرہم کے ہاتھوں مرنے والوں کے لیے ایک جواز ڈھونڈا جاتا ہے اور انہی علاقوں میں انگریزوں اور امریکنوں کے ہاتھوں مرنے والوں کے لیے کوئی اور جواز ڈھونڈا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر انگریزوں اور امریکنوں نے قتل و غارت کی تو یہی کام اول الذکر حملہ آوروں نے بھی کیا!
یہ اس لئے کیونکہ غزنوی، ابدالی، نادر شاہی سب کے سب مسلمان حکمران تھے۔ اگر آج امریکی ، بھارتی یا اسرائیلی حکمران مسلمان ہو کر مسلم ممالک پر یلغار کردیں تو ان کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ بلکہ وہ الٹا ان کی تعریف میں قصیدے لکھیں گے۔
 
السلام علیکم
قوم اور قبیلے کی اپنی ایک پہچان ضرور ہوتی ہے لیکن دین اسلام قوم پرستی نسلی تعصب ذات پات کو غلط طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا احمد شاہ ابدالی پختون تھے انہوں نے قوم پرستی کو ہوا نہیں دی اور نا یہ اعلان کیا کہ وہ ہندوستانی ہیں یا پنجابی بلکہ انہوں نے پنجاب سے لیکر ھندوستان کے مسلمان بھائیوں کی مدد کی اسلامی جزبہ اور بھائی چارے کے تحت آج عصر حاضر کو دیکھتے ہوئے اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے کچھ لوگ قوم نسلی تعصب کو لیکر احمد شاہ ابدالی پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں جو کہ یہ ہندوؤں کا کام تھا اور ہے شاید یہ ان مسلمان بھائیوں کی غلط فہمی ناسمجھی یا تاریخ سے متعلق انکی کم علمی ہوگی پہلی بات تو یہ ہے اگر یہ نہیں تو پھر یہ بات مسلم ہے کہ خلافت عثمانیہ کی تاریخ آپ سب پڑھ کر اٹھائیں عثمانی سلطنت کی ناکامی کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ کچھ تو یہودی عیسائیوں نے انکے درمیان مستشرقین بیجھے تھے مسلمانوں کے بھیس میں جنہوں اپنا نیا اسلام متعارف کروایا تھا اور دوسری خطرناک وجہ انکے آپس میں تحت کا ہوس بھی ان کو ڈبونے میں ایک اہمیت رکھتا تھا لیکن یہ سارے عوامل انہی مستشرقین اور ایجنٹوں کے بل بوتے پر ہی ہوا اسی طرح آج ہمارے مسلمان بھائی بہن آج اسلامی تاریخ جسمیں عالم کفر نے کافی زیادہ تحریف کی ہے یا تو وہ اسی سہارے غلط پروپیگنڈہ کے شکار ہورہے ہیں یا یہ غیر اعلانیہ طور پر عالم کفر کے بیانیہ یا مستشرقین کے اتحادی بن چکے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
دراصل دونوں کے مقاصد میں خالق اور مخلوق کا فرق ہے۔ ایک طرف خدا کی زمین پر خدا کا نظام چاہتے ہیں جب کہ دوسری جانب ایک طبقہ سب کو، اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔
قتل و غارت گری سے کونسا خدا کا نظام قائم ہو سکتا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
السلام علیکم
احمد شاہ ابدالی ایک مسلمان مجاہد تھے جنہوں نے ہندوستان کے مسلمان بھائی اور بہنوں کی عزت اور اسلام کی بالادستی قائم کرنے کیلئے ہندوستان پر حملہ کیا تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی آپس میں بھائی چارہ کو خراب کرنے کیلئے مسلمانوں کے درمیان یہودیوں اور ہندوؤں نے مستشرقین اور ایجنٹ بیجھے تھے جسکی وجہ سے مسلمان کمزور ہوگئے اور آج بھی وہ سلسلہ جاری ہے۔ میں نے احمد شاہ ابدالی کے بارے میں آپ سب لوگوں کے تبصرے پڑھے ان میں سے کئی لوگ نام نہاد مسلمان نام کا لبادہ پہنے ہوئے اسلامی تاریخ کے تحریف کرنے پر مہر ثبت کرنے کے قائل نظر آگئے۔
احمد شاہ ابدالی اگر مسلمان مجاہد تھے تو ہندوستان پر بار بار حملہ کرنے والے شاہ محمود غزنوی، نادر شاہ، مغلیہ شہنشاہ کون تھے؟
 

جاسم محمد

محفلین
خلافت عثمانیہ کی تاریخ آپ سب پڑھ کر اٹھائیں عثمانی سلطنت کی ناکامی کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ کچھ تو یہودی عیسائیوں نے انکے درمیان مستشرقین بیجھے تھے مسلمانوں کے بھیس میں جنہوں اپنا نیا اسلام متعارف کروایا تھا اور دوسری خطرناک وجہ انکے آپس میں تحت کا ہوس بھی ان کو ڈبونے میں ایک اہمیت رکھتا تھا لیکن یہ سارے عوامل انہی مستشرقین اور ایجنٹوں کے بل بوتے پر ہی ہوا اسی طرح آج ہمارے مسلمان بھائی بہن آج اسلامی تاریخ جسمیں عالم کفر نے کافی زیادہ تحریف کی ہے یا تو وہ اسی سہارے غلط پروپیگنڈہ کے شکار ہورہے ہیں یا یہ غیر اعلانیہ طور پر عالم کفر کے بیانیہ یا مستشرقین کے اتحادی بن چکے ہیں۔
خلافت عثمانیہ 4 سو سال یعنی 1517 سے 1917 تک قائم رہی۔ تو یہودی ایجنٹ اتنی دیر سے کیوں نمودار ہوئے؟ ظاہر ہے جب کوئی سلطنت پہلے اندرسے کمزورہوتی ہے تو باہر سے سازشیں زور پکڑتی ہیں۔ یہ ماننے میں کیا برائی ہے کہ مشرق وسطی پر 4 سو سال لگاتار حکمرانی کے بعد سلطنت عثمانیہ طاقتور مغرب سے مقابلہ کے قابل نہ رہی تھی۔ اور جلد یا بدیر اس کا خاتمہ ہونا ہی تھا۔ بیشک یہودی کوئی سازش کرتے یا نہ کرتے۔
 
احمد شاہ ابدالی اگر مسلمان مجاہد تھے تو ہندوستان پر بار بار حملہ کرنے والے شاہ محمود غزنوی، نادر شاہ، مغلیہ شہنشاہ کون تھے؟
سلطنت غزنویہ 976ء سے 1186ء تک قائم ایک حکومت تھی جس کا دار الحکومت افغانستان کا شہر غزنی تھا۔ اس کا سب سے مشہور حکمران محمود غزنوی تھا جس کی ریاست نے ہندوستان کیخلاف جنگوں کا ایک سلسلہ جاری رکھا جسے عالم اسلام کے دشمن 17 حملوں سے تعبیر کرکے لوٹ مار کا نام دیتے ہیں یہ اسلام کے نام پر ہوئی اور اللہ کی وحدانیت اور نظام کیلئے محمود غزنوی نے انکے سومنات پر حملہ کرکے بطور بت شکن خود کو تاریخ میں امر کر دیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ آخر کیوں غزنوی کے نام نہاد سترہ حملوں کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے جب کہ صدیوں سے ہندو راجے کابل کیپیسا زابل تک قابض رہے اور بیسیوں بار افغانستان پہ حملہ آور ہوئے۔ان کے حملوں کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
 
خلافت عثمانیہ 4 سو سال یعنی 1517 سے 1917 تک قائم رہی۔ تو یہودی ایجنٹ اتنی دیر سے کیوں نمودار ہوئے؟ ظاہر ہے جب کوئی سلطنت پہلے اندرسے کمزورہوتی ہے تو باہر سے سازشیں زور پکڑتی ہیں۔ یہ ماننے میں کیا برائی ہے کہ مشرق وسطی پر 4 سو سال لگاتار حکمرانی کے بعد سلطنت عثمانیہ طاقتور مغرب سے مقابلہ کے قابل نہ رہی تھی۔ اور جلد یا بدیر اس کا خاتمہ ہونا ہی تھا۔ بیشک یہودی کوئی سازش کرتے یا نہ کرتے۔
بالکل میرا کہنا صرف یہی تھا کہ اندر کی مخالفت کو مستشرقین اور ایجنٹوں نے ہوا دیکر فائدہ اٹھایا لیکن یہ بات مصمم ہے کہ کفر اور اسلام کا جنگ تا قیامت جاری رہیگی اور انشاءاللہ ہم سب مسلمان سرخرو ہونگے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بالکل میرا کہنا صرف یہی تھا کہ اندر کی مخالفت کو مستشرقین اور ایجنٹوں نے ہوا دیکر فائدہ اٹھایا لیکن یہ بات مصمم ہے کہ کفر اور اسلام کا جنگ تا قیامت جاری رہیگی اور انشاءاللہ ہم سب مسلمان سرخرو ہونگے۔
تو اب کیوں فائدہ نہیں اٹھا رہے؟ کیا موجودہ دور کی مسلم حکومتیں بہترین کام کر رہی ہیں؟ کیا وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں؟
بھائی آپ تاریخ کو تاریخ کی نظر سے پڑھیں۔ ہر جگہ سازشی نظریات ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔
 
تو اب کیوں فائدہ نہیں اٹھا رہے؟ کیا موجودہ دور کی مسلم حکومتیں بہترین کام کر رہی ہیں؟ کیا وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں؟
بھائی آپ تاریخ کو تاریخ کی نظر سے پڑھیں۔ ہر جگہ سازشی نظریات ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔
تاریخ یہی ہے اور آپ نے جو باتیں مسلمان جنگجووں کے کیخلاف کہی ہے وہی تاریخ ہم نے نہیں پڑھی جس طرح آپ نے ان اسلام دشمن موورخین کی تاریخ کی باتیں کیں جنہوں نے اسلامی تاریخ کو مسخ کیا ہوا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
تاریخ یہی ہے اور آپ نے جو باتیں مسلمان جنگجووں کے کیخلاف کہی ہے وہی تاریخ ہم نے نہیں پڑھی جس طرح آپ نے ان اسلام دشمن موورخین کی تاریخ کی باتیں کیں جنہوں نے اسلامی تاریخ کو مسخ کیا ہوا ہے
یہود و نصاریٰ نے اپنی مذہبی کتب کو مسخ کیا ہوا ہے۔ ہندوؤں و سکھوں نے اپنی تاریخی کتب کو مسخ کیا ہوا ہے۔ کیا ہر حق سچ بات کہنے کا بیڑا صرف مسلمانوں نے اٹھا رکھا ہے جو ہر جدید میدان میں تمام اقوام سے پیچھے رہ گئے ہیں؟
’بدقسمتی سے ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود خود سے ٹی وی بھی نہیں بنا سکتے‘
 
یہود و نصاریٰ نے اپنی مذہبی کتب کو مسخ کیا ہوا ہے۔ ہندوؤں، سکھوں نے اپنی تاریخی کتب کو مسخ کیا ہوا ہے۔ کیا حق سچ بات کہنے کا بیڑا صرف مسلمانوں نے اٹھا رکھا ہے جو ہر جدید میدان میں سب قوموں سے پیچھے ہیں۔
’بدقسمتی سے ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود خود سے ٹی وی بھی نہیں بنا سکتے‘
آپ نے جس پارٹی کا سمبل لگایا ہوا ہے میں اسی پلیٹ فارم سے تحصیل ناظم رہا ہوں میں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اسی توہین انصاف سے کیا تھا اپنے زندگی کے وہ قیمتی سال اسی تحریک کو صرف اس لئے دئے تاکہ ملک میں واقعی مدینہ کی طرز ریاست کی زندگی ہو ترقی ہو میرٹ ہو روزگار اور غربت کا خاتمہ ہو یہی پاکستان کی اسلامی خودمختاری ہو یہی وہ اصول ہیں جو ایک معاشرے کو ہر ایک صلاحیت رکھنے کے قابل بناتی ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کا نوجوان طبقہ اسی خواب کو لیکر پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا آپ نے پاکستان کو ترقی کے میدان میں دوسرے ممالک سے پیچھے قرار دیا تو سوال یہ بنتا ہے کہ پچھلے 23..22 سالوں سے عمران نے یہی باتیں شروع کیں ہم پیچھے ہیں کرپشن ہیں ملک میں انصاف نہیں گویا وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ملک میں اسلامی خودمختاری نہیں مدینہ طرز کی ریاست بنانے کی ضرورت ہے تو ملک کے اندر اسلام پسند طبقہ جو پاکستان کو کلمہ کے بنیاد پر بننے سے تعبیر کررہے تھے ان میں چنگاری اٹھی قبائل کیلئے آواز اٹھائی انکے نفسیات کے مطابق باتیں کیں الغرض یہ کہ پورے ملکی جغرافیائی لحاظ سے ہر طبقے کے ہر اس پہلو آبجیکٹ کو لیکر انہوں نے قوم کے ہر اس پہلو کو شائستگی سے ابھارا کہ عوام انکے دیوانے ہوگئے دھرنے جلوس لڑائی جھگڑے ہر قسم کی بدنظمی اس لئے کی گئی کہ اس ملک پر ایسے لوگ قابض ہیں جو کہ مدینہ ریاست کیخلاف ہیں کرپٹ ہیں امریکہ کے سامنے جھکتے ہیں اپنی سرزمین کو کفار کیلئے استعمال کررہے ہیں وغیرہ وغیرہ یہی وہ ٹھوس وجوہات تھیں جسکی وجہ سے زیادہ تر طبقہ نام نہاد تحریک انصاف کا ساتھ دے رہا تھا چنانچہ اگر دھرنوں جلسوں میں فخاشی وعریانی کو دیکھتے بھی تو ٹالتے کہ جب مدینہ کی ریاست بنے گی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا مگر مجھے افسوس اور گلہ ان اداروں سے بھی ہے جنہوں نے ان تمام عوامل میں عمران کو آگے لانے میں کردار ادا کیا۔ میں تقریباً 12..13سال سے پی ٹی آئی کیساتھ وابستہ رہا انمیں سے چھ سات سال میں پریکٹیکل لڑا اس پارٹی کیلئے میں نے جو کچھ دھرنوں جلسوں اور بنی گالہ میں دیکھا انمیں سے کوئی ایک عمل میں نے نہیں دیکھا جو کہ واقعی مدینہ ریاست کی عکاسی کرتا ہو اور اب موجودہ حکومت پاکستانی عوام کے سامنے تو دور کی بات پوری دنیا میں ہم تماشہ بن چکے ہیں تو کیا یہی انصاف اور ترقی کے دعویدار پی ٹی آئی عالمی سطح پر پاکستان کو آگے لے کے جائیگی؟ آپ جواب کے بجائے اگر اپنے دل سے موجودہ حالات کو مدنظر رکھوں گے تو شاید آپ صحیح اندازہ لگاؤ گے جس طرح آپ نے کہا کہ ہم عالمی سطح پر ہر محاذ پر پستی کے شکار ہیں۔میں نے پچھلی باتوں میں آپ سے کہا تھا کہ ہم مسلمانوں کیلئے سب سے بڑی المیہ باہر سے یہودیوں عیسائیوں کے بیجھے ہوئے ایجنٹ اور مستشرقین ہیں جو ہماری ریاست کے ان اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اور یہ سب کچھ وہی لوگ ہی کررہے ہیں جنکی دوحائی ہم ہر وقت دیتے ہیں۔
 
Top