میر تقی میر اور عشق ، تحریر: سعد اللہ خان سبیل

فرخ منظور

لائبریرین
میر تقی میر اور عشق
تحریر: سعد اللہ خان سبیل

قبل اس کے کہ میرؔ کی شاعری میں عشق و حسن کا جائزہ لیں ضروری ہے کہ میرؔ کی زندگی کے نشیب و فراز پر طائرآنہ نظر ڈالیں تاکہ ان کے شاعری میں عشق کی بہتات اور حسن کے اذکار کی وجوہات کا اندازہ ہوسکے ۔ میر تقی میر ؔ 1722 ء کو اکبرآباد میں پیدا ہوئے ان کے والد محمد علی اپنے زہد و تقویٰ کے باعث متقی کی نام سے مشہور ہوئے ۔ محمد علی کی پہلی شادی ممتاز شاعر سراج الدین علی خان آرزوؔ کی بڑی بہن سے ہوئی جن کے بط سے حافظ محمد حسن پیدا ہوئے دوسری بیوی کو تین اولادیں ہوئیں ۔

میر تقی اور محمد رضی کے علاوہ ایک لڑکی تھی ۔ میرؔ گیارہ برس ہی کے تھے کہ ان کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ محمد علی متقی نے اپنے بیٹے میر تقی سے کہا تھا کہ بیٹے عشق اختیار کرکہ دنیا کے اس کارخانہ میں اس کا تصرف ہے اگر عشق نہ ہوتو نظم کل کی صورت نہیں پیدا ہوسکتی
عشق کے بغیر زندگی وبال ہے دل باختہ عشق ہونا کمال کی علامت ہے سوز و ساز دونوں عشق سے ہیں عالم میں جو کچھ ہے وہ عشق ہی کا ظہور ہے ۔اس نصیحت کا اثر تھا کہ میرؔ نے زندگی اور اس کی حقیقت عشق اور معاشرے کی سچائیوں کو دیکھا ، رشتوں کا سراغ لگایا اور یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس نے میرؔ کو ایک بہترین شاعر بنادیا ۔ اپنی معروف مثنوی معاملات عشق میں میرؔ نے عشق کی بابت کہا ہے کہ
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو ، کہیں ہے کچھ
میرؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ کامیابی کی پہلی شرط عشق ہے اگر عشق نہیں ہے خلوص اور لگن نہیں ہے تو ناکامی مقدر بن ج اتی ہے اور عشق کے بغیر نہ دین میں کامیابی ہے اور نہ دنیا میں کامرانی ۔ ایک اور مثنوی دریائے عشق میں انہوں نے کہا کہ
عشق ہے تازہ کار تازہ خیال
ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال
میرؔ نے اس شعر میں عشق کو رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہتے ہیں کہ اس کے افکار و ادراک لاوسعت ہے ہر دم یہ نئی نئی راہوں سے روشناس کرواتا ہے ۔ مثنوی شعلہ شوق میں وہ کہتے ہیں کہ
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
مندرجہ بالا دو شعروں میں میرؔ نے محبت اور عشق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سچی لگن اور جستجو نے آندھیوں میں چراغ جلائے ہیں اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو ہر سمت تاریکی چھائی رہتی انسان کا ہر عمل عشق و محبت کا محتاج ہے اگر یہ صفت نہ ہوتو پھر آدمی کسی کام کا نہے۔
عشق میرؔ کی شاعری کی روح ہے اسی سے ان کی شخصیت کی تعمیر ہوئی ہے اس ایک موضؤع نے انہیں عظیم شاعر بنادیا ہے ۔ میرؔ کی شاعری کو ہم اس لئے بھی عشقیہ شاعری کہہ سکتے ہیں کہ اس میں مقامیت بھی ہے اور آفاقیت بھی تاحال میرؔ کا رنگ کسی اور شاعر میں نہ مل سکا چند ایک نے ان کی پیروی کی کوشش کی مگر ناکامی ان کے ہاتھ لگی ۔ میرؔ کی شاعری کا مخزن ان کا عشق اور اس سے پیدا ہونے والا جنون ہے جو نوجوانی میں ان پر سوار ہوا اور جس کا ذکر مثنوی خواب و خیال میں انہوں نے خود کیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اپنے شہر میں ایک پری بے مثال ان کی عزیر تھی وہ درد پردہ اس سے عشق کیا کرتے تھے ۔ اگرچہ ان کی شاعر میں جگہ جگہ غم ویاس فکر و افسردگی نمایاں ہے لیکن عشق تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا ۔ غم روزگار سے و وہ ہمیشہ دوچار رہے غم جاناں بھی اس میں شامل ہوکر ان کی شاعری کو لافانی بناڈالا ۔ میرؔ ایک جگہ کہتے ہیں کہ

لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کہئے میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سرِ الہیٰ کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
اس شعر کی روانی کا کیا کہنا اس کا ایک ایک فظ اپنے اندر معنویت کا سمندر لئے ہوئے ہے میرؔ کہتے ہیں کہ آج تک عشق کو کوئی نہ سمجھ سکا ہے اور نہ سمجھا سکا اکثر لوگ اس سلسلہ میں پوچھتے ہیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے کوئی عشق کو خدا سے تعبیر کرتا ہے اور کوئی اسے خدا کا ایسا راز قرار دیتا ہے جو صرف خدا ہی جانتا ہے ۔ عشق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے میرؔ کہتے ہیں
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں پھر رہا ہے عشق
میر تقی میرؔ کہتے ہیں کہ تمام دنیا میں عشق کا بول بالا ہے یہ دنیا اس کے قدموں میں ہے جو عشق میں مبتلا ہے ہر نفس اس جذبہ سے سرشار ہے اگر یہ جذبہ کارفرمانہ ہوتو پھر دنیا کا حصول ممکن نہیں ہے زندگی میں کوئی مزہ ہی نہیں شائد یہی وجہ ہے کہ عشق ساری کائنات میں دندناتا ہوا پھر رہا ہے ۔ میرؔ نے عشق کی کیفیت کو کچھ اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ
عشق معشوق ہے عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
ایک ہی مصرعہ میں عشق عاشق اور معشوق کا اس طرح خوبصورتی سے استعمال شائد ہی اردو کے کسی اور شاعر نے کیا ہو ۔ اس شعر میں میرؔ کہتے ہیں کہ عشق ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں عشق خود ہی فعل ہے فاعل ہے اور مفعول بھی ۔اگلے شعر میں میرعشق سے متعلق کچھ اس طرح اپنا خیال ظاہر کرتے ہیں کہ
کوہکن کیا پہاڑ ، توڑے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق
اس شعر میں وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ کسی کی کیا مجال کہ کوئی مشکل اور مشقت سے بھرا کام کر گذرے اگر عشق شامل حال نہ ہو یہاں اُس سے اِس کی لگن اور جستجو ہی وہ کام کرواتی ہے اور یہی عشق ہے ورنہ پہاڑوں کا سینہ چیرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔
اسی غزل کے ایک اور شعر میں میرؔ کہتے ہیں کہ

کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
ظاہری حسن کے علاوہ معنوی اعتبار سے بھی اس شعر کو میرؔ کا شاہکار شعر کہا جاسکتا ہے وہ کہتے ہیں کہ جب تک سر میں سودا نہ ہو کچھ کرنے کا جذبہ نہ ہو سچی لگن اور جستجو نہ ہو تو اپنے مقصد میں کامیابی نہیں مل سکتی کسی بھی کام کا آغاز کرنے سے قبل دل میں ایک خواہش جنم لیتی ہے اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے عاشق ہونا ضروری ہے یعنی اس کام سے عشق لازمی ہے ۔ میرؔ کی بڑی بحر میں کہی گئی غزل کا ایک شعر کچھ اس طرح ہے
عشق سے نظام کل ہے یعنی عشق کوئی ناظم ہے خوب
ہر شئے جویاں پیدا ہوئی ہے موزوں کرلایا ہے عشق
میر تقی میرؔ نے اس شعر میں عشق کو زندگی کیلئے لازم و ملزوم قرار دیا ہے کہتے ہیں کہ عشق جینے کا انداز سکھاتا ہے یہ ایک طرح سے منتظم اعلی ہے ایسا ناظم ہے جو کسی ادارے کی سہی رہنمائی و رہبری کرتا ہے اور یہی رہبری کامیابی کی ضامن ہوتی ہے اور اگر کہیں کسی کی زندگی میں کوئی خامی یا کوتاہی ہو رہی ہوتو یہ عشق اسے نہ صرف سہی راہ دکھاتا ہے ور اس میں بہتری بھی پیدا کرتا ہے ۔
میرؔ تقی استفسار کرتے ہیں کہ
گرعشق نہیں ہے تو یہ کیا ہے بھلا مجھ میں
جی خود بخود اے ہمدم کا ہے کو کھنچا جاتا
میرؔ کہتے ہیں کہ کسی شئے کی طرف دل مائل ہوتا ہے اور اسے پانا چاہتا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ اس شئے سے ہمیں پیار ہے اور یہی پیار ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اس کی طرف راغب کرتا ہے گویا ایک مقناطیس ہے جو کھینچا چلا جاتا ہے ۔ ایک اور مقام پر میرؔ نے اپنی ناثباتی اور لاعلمی کا کچھ یوں اظہار کیا ہے
ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملاکرے ہے
شہنشاہ غزل کہتے ہیں کہ عشق کے آداب و اطوار کا ہمیں علم نہیں ہے اور نہ ہم اس کے رموز کی جانکاری رکھتے ہیں لیکن یہ کیا کہ دل پر کوئی دستک ہی ہوتی ہے کچھ ہلچل سی محسوس ہوتی ہے شائد اسی کو عشق کہتے ہیں ۔ میر کی غزل کا ایک مقطع ہے کہ
کچھ زرد زرد چہرہ کچھ لاغری بدن کی
کیا عشق میں ہوا ہے اے میرؔ حال تیرا
مندرجہ بالا شعر میں میرؔ نے عشق مجازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو ناتوانی اور کمزوری ہے یہ عشق کا روگ ہے جس کے باعث تم اس قدر بدحال اور کمزور ہوگئے ہو ، میرؔ کا ایک اور خوبصورت مقطع کچھ ہوں ہے کہ
میر سے پوچھا جو میں عاشق ہوتو
ہوکے کچھ چپکے سے شرمائے بہت
میرؔ کہتے ہیں کہ عاشق اپنی حالت سے پہچانا جاتا ہے اور اگر کوئی ان سے اس بابت پوچھ لے تو وہ اپنی کیفیت کو لفظوں میں بیاں نہیں کرتا بلکہ اس کے چہرے سے اس کے دل کی ساری کیفیت ظاہر ہوجاتی ہے ۔ میر تقی میر عشق و محبت کو انتہائی دشوار کام قرار دیتے ہیں ان کا ایک اور مقطع یوں ہے کہ
ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
میرؔ کہتے ہیں کہ عشق محبت اور پیار ، جفاکش اور دل والوں کا کام ہے یہ اتنا سہل نہیں جیسا کہ دکھائی دیتا ہے اس کام کیلئے کافی محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے ۔میرؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری خود بہ خودان کی شاعرانہ عظمت کا معترف ہوجاتا ہے میر تقی میر ؔ کی شاعری کا اجمالی جائزہ لینے کے بعد یہ چند شعر آپ کی خدمت میں پیش کئے گئے اگر میرؔ کی تفصیلی شاعری اور ان میں عشق کے تذکرہ کا مکمل احاطہ کیا جاتا تو یہ صفحات بالکل بھی ناکافی ہوتے اسی لئے اختصار سے کام لیتے ہوئے مضمون کو یہیں اختتام پذیر کیا جاتا ہے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
میرؔ کی تفصیلی شاعری اور ان میں عشق کے تذکرہ کا مکمل احاطہ کیا جاتا تو یہ صفحات بالکل بھی ناکافی ہوتے اسی لئے اختصار سے کام لیتے ہوئے مضمون کو یہیں اختتام پذیر کیا جاتا ہے۔۔۔۔

بہت اعلیٰ فرخ منظور صاحب
سچ ہے میر کی شاعری میں عشق کا تذکرہ لازم و ملزوم ہے اور واقعی صفحات ناکافی ہوتے ۔۔۔۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا


بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا
(میر تقی میر)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
بہت خوب شئیرنگ بھیا
بہت بہت شکریہ 🥰
رہی نہ پختگی عالم میں دور خامی ہے
ہزار حیف کمینوں کا چرخ حامی ہے

نہ اٹھ تو گھر سے اگر چاہتا ہے ہوں مشہور
نگیں جو بیٹھا ہے !!گڑ کر تو کیسا نامی ہے

ہوئی ہیں فکریں پریشان !میرؔ یاروں کی
حواس خمسہ کرے جمع سو نظامیؔ ہے
 

سیما علی

لائبریرین
عشق اگر ہے مرد میداں مرد کوئی عرصے میں لائے
یکسر ان نامردوں کو جو ایک ہی تک تک پا میں اٹھائے

کار عدالت شہر کا ہم کو اک دن دو دن ہووے تو پھر
چاروں اور منادی کریے کوئی کسی سے دل نہ لگائے

پر کے اسیر دام ہوئے تھے نکلے ٹوٹی شکن کی راہ
اب کے دیکھیں موسم گل کا کیسے کیسے شگوفے لائے

بھوکے مرتے مرتے منہ میں تلخیٔ صفرا پھیل گئی
بے ذوقی میں ذوق کہاں جو کھانا پینا مجھ کو بھائے

گھر سے نکل کر کھڑے کھڑے پھر جاتا ہوں میں یعنی میرؔ
عشق و جنوں کا آوارہ حیران پریشاں کیدھر جائے
 
آخری تدوین:
Top