نیب نے مریم نواز کو گرفتار کرلیا

جاسم محمد

محفلین
بلاول زرداری نے بھری ایوان میں عمران خان کو مریم نواز کی گرفتاری پر بے غیرت کہا۔ اور لفافے بجائے بلاول کو کچھ کہنے کہ اس کی ویڈیو شیئر کرنے والے کو ڈانٹ رہے ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
کب تک خود کو چھپاتے رہو گے یوتھیوں۔۔۔۔ سوچ لیں کل اپ لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا۔۔۔
ایک دو عدد جلسے کیا کئے۔۔۔ اب گرفتار۔۔۔ ہاہاہاہا
یوتھیے تو اپوزیشن سے کہہ رہے ہیں کہ آئیں بیٹھیں نیب قوانین بدلتے ہیں مگر وہ سیاسی شہید ہونا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے پھر جیسی ان کی مرضی۔
رہی مریم نواز کی گرفتاری تو ان کا کیس ۲۰۱۰ سے چل رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک دو عدد جلسے کیا کئے۔۔۔ اب گرفتار۔۔۔ ہاہاہاہا
عورتوں کے نام پر ٹی ٹی منی لانڈرنگ ہوسکتی ہے
عورت پارٹی صدر بن سکتی ہے
عورت وزیراعظم بن سکتی ہے
عورت کی لندن تو کیا پاکستان میں پراپرٹیاں نکل سکتی ہیں
عورت جلسے جلوس کرسکتی ہے

لیکن عورت کرپشن پر گرفتار نہیں ہوسکتی
بکاؤ میڈیا اور دانشوروں کا منطقی لیول چیک کریں ذرا ۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری طرف نواز شریف کی پی‌ایم‌ایل‌نون واحد بڑی پارٹی ہے جو الیکشن میں حصہ لے رہی ہے اور ساتھ وکلاء اور ججوں کی حمایت میں کم از کم کچھ بیان ہی دے رہی ہے۔ اس لئے میرا ووٹ مسلم لیگ نون کو جاتا۔
اس لئے میرا ووٹ ن لیگ کو نہیں جاتا

نوازشریف 1990 میں وزیراعظم بنا۔ اگلے سال یعنی 1991 میں چوہدری شوگرملز قائم کی گئی۔ اس مل کی لاگت 30 ملین ڈالرز تھی اور اسے ایک آفشور کمپنی کے طور پر قائم کیا گیا۔ اس کمپنی کے نام پر 15 ملین ڈالرز بحرین سے قرض حاصل کیا گیا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس قرض کی رقم پاکستان ٹرانسفر ہونے سے پہلے ہی نہ صرف مل قائم ہوچکی تھی، بلکہ اس کی مشینری وغیرہ بھی انسٹال ہوچکی تھی۔

چلیں یہ تو مانا جاسکتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ کریڈٹ پر مل گیا ہو اور قرض کی رقم موصول ہوتے ہی واپس کردیا گیا ہو۔ پندرہ ملین ڈالر کا سوال لیکن یہ ہے کہ قرضہ تو لیا 15 ملین ڈالر کا، مل لگائی تیس ملین ڈالر کی، باقی کا 15 ملین ڈالر کہاں سے آیا؟ شریف فیملی آج تک اس کا جواب نہیں دے سکی کیونکہ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ 80 اور 90 کی دہائی میں ان کی ہر فیکٹری خسارے میں چلتی رہی اور یہ ڈیفالٹر قرار دے کر بنکوں کے قرضے معا ف کرواتے رہے۔

ایک اور واردات یہ کی کہ بطور وزیراعظم شوگر ایکسپورٹ پر بھاری سبسڈی کا اعلان کیا، پھر اپنی شوگر ملز کو اربوں روپے سبسڈی کے نام پر دیئے گئے لیکن چوہدری شوگرمل نے آج تک کبھی ایک چھٹانک چینی بھی ایکسپورٹ نہیں کی۔

اس سارے دھندے میں ایک دبئی کا رہائشی ناصر لوطا ملوث رہا، مزے کی بات یہ ہے کہ یہ وہی ناصر لوطا ہے جو سمٹ بنک کا بھی صدر ہے جو زرداری کی منی لانڈرنگ میں استعمال ہوتا رہا۔ یعنی شدید دشمنی کے دور میں بھی نوازشریف اور زرداری کا بزنس پارٹنر ایک ہی شخص رہا ۔ ۔ ۔ ہے نا حیرانی کی بات؟

منی لانڈرنگ کا ایک پرانا طریقہ یہ ہے کہ اس میں ٹرانزیکشنز کو اتنی مرتبہ گھمایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سسٹمز اسے ٹریک کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال اس طرح ہے کہ:
2008 میں چوہدری شوگر مل سے 7 ملین ڈالرز کے شئیرز مریم صفدر کے اکاؤنٹ میں آئے، پھر وہاں سے اس نے اپنے مرحوم چچا عباس شریف کے بیٹے یوسف عباس کو ٹرانسفر کئے، پھر یوسف نے وہ رقم ناصر لوطا کو بھیجی، ناصر لوطا نے چند دن بعد وہ رقم حسین نواز کے اکاؤنٹ میں ڈالی، پھر مزید چند دن بعد یہ رقم حسین نواز نے نوازشریف کے اکاؤنٹ میں ڈالی اور پھر چند دن بعد نوازشریف نے وہی رقم واپس اپنے بھتیجے یوسف عباس کے اکاؤنٹ میں ڈال دی۔

یہ کیا ہاکی کا میچ ہورہا تھا کہ گیند سمیع اللہ سے کلیم اللہ، کلیم اللہ سے حسن سردار، حسن سردار سے قاسم ضیا اور پھر قاسم ضیا سے واپس سمیع اللہ کو واپس مل گئی۔
شریف فیملی کے کلیم کے مطابق چوہدری شوگرمل کے پچاس فیصد شئیر ناصر لوطا کے پاس تھے، چند روز قبل ناصر لوطا نے نیب کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے جس کے مطابق اس کا چوہدری شوگرملز سے کوئی تعلق نہیں بلکہ نوازشریف اسے منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کرتا رہا ہے۔

یہ ابھی ان چودہ میں سے ایک سوال ہے جو مریم صفدر سے پوچھا گیا، یعنی چوہدری شوگرمل کے شئیر کہاں سے آئے، اور رقم اکاؤنٹ میں کس نے بھیجی۔

اس کا جواب تو نہیں آیا، البتہ دانشوروں کا نہتی لڑکا والا بانچھ بیانیہ دوبارہ آگیا۔

انشا اللہ، یہ سب کے سب ذلیل ہو کر رہیں گے کیونکہ یہ حرام مال کا دفاع کررہے ہیں۔

(منقول)بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
زرداری خاندان ،شریف خاندان دونوں کے خلاف نیب کے پاس منی لانڈرنگ کے بینک ریکارڈز، وعدہ معاف گواہان سب موجود ہیں ۔ ان ٹھوس شواہد کی بنیاد پر جونہی ان ملزمان پرہاتھ ڈالا جاتا ہے تو جمہوریت خطرہ میں اور فوج مخالف بیانیہ سامنے آجاتا ہے۔ بجائے ان الزامات کا جواب عدالت میں دینے کے حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام لگ جاتا ہے۔ جس سیاسی چور کر پکڑو تو وہ کہتا ہے پہلے حکومتی وزیر یا فوجی جرنیل کو پکڑو۔ یہ ملک ہے یا بچوں کی نرسری؟
اور سب سے مزے کی بات ہے ان کرپٹ سیاسی خاندانوں کا دفاع کرنے والے کوئی انپڑھ جاہل لوگ نہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم اپوزیشن کو یکجا کرنے میں مصروف ہیں
08/08/2019 عدنان خان کاکڑ

مکار مودی نے کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کر کے اسے ہڑپ کرنے کی کوشش کی تو اس پر بجا طور پر ہمارے وزیراعظم بھنا اٹھے۔ انہوں نے ترنت قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس بلایا اور اس میں تقریر بھی کی۔ بدقسمتی سے حالات اتنے برے ہیں کہ وہ اپنی بے پناہ مصروفیات کے سبب دوسروں کی تقریریں نہیں سن سکے بس اپنی ہی سنا کر چلے گئے۔ بہرحال انہوں نے قومی یکجہتی کی ضرورت پر بہت زور دیا اور کہا کہ مودی کے کشمیر پر غیر قانونی حملے کے موقعے پر قوم کو یکجا کرنا چاہیے۔

دیکھیں وزیراعظم نے ٹھیک تو کہا ہے کہ مودی کے کشمیر پر حملے کے موقعے پر قوم کو یکجہتی دکھانی چاہیے۔ ہمارے وزیراعظم صرف گفتار کے غازی نہیں ہیں بلکہ کردار کے غازی بھی ہیں۔ اس وقت وہ اپوزیشن کے بڑے لیڈروں کو ایک جگہ یکجا کرنے میں مصروف ہیں۔ بجائے اس بات کے کہ وزیراعظم کی تعریف کی جائے انہیں الٹی سیدھی باتیں سنائی جا رہی ہیں۔ آخر یہ جیل پاکستان میں ہی ہے، دہلی میں تو نہیں ہے۔ پھر شور کیوں؟

آج نیب نے مریم نواز شریف کو تین بجے طلب کر رکھا تھا۔ دو بجے وہ نواز شریف سے ملنے جیل گئیں تو نیب نے یہ سوچ کر کہ انہیں اس گرمی میں گاڑی تلاش کرنی پڑے گی، انہیں لفٹ کر لیا اور اپنے پاس لے گئی۔ مریم اگر اپنی گاڑی میں جاتیں تو اس کمر توڑ مہنگائی کے زمانے میں ذاتی گرہ سے انہیں بیش قیمت پیٹرول بھی خریدنا پڑتا اور محافظوں کا بندوبست بھی کرنا پڑتا کہ زمانہ خراب ہے۔ نیب نے نہ صرف انہیں سرکاری گاڑی بلکہ سرکاری پروٹوکول بھی فراہم کیا۔

خدا جانے کیا پوچھ تاچھ کی ہو گی، کسی جھمکے کا ذکر سنا ہے۔ یہی پوچھا ہو گا کہ آپ کا یہ جھمکا کہاں سے آیا ہے، کہیں بریلی کے بازار سے تو نہیں پایا؟ یا ایسے ہی دیگر سوال کیے ہوں گے جھمکوں پر۔ بہرحال اس کے بعد کشمیر کے نازک حالات کے تناظر میں قومی یکجہتی پیدا کرنے کی خاطر وہ انہیں جیل میں لے گئے تو اس میں کیا برائی ہے۔

اب جیل میں پنجاب سے نواز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق، سندھ سے آصف زرداری اور فریال تالپور، فاٹا سے محسن داوڑ اور علی وزیر اور دیگر یکجا کیے جا چکے ہیں۔ یہ تو وہ نام ہیں جن کا ہمیں پتہ ہے، بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا کسی کو نہیں پتہ۔ پختونخوا سے مولانا فضل الرحمان کو بھی یکجا کرنے کے منصوبوں کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ حکومت صرف سیاسی قیادت ہی یکجا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ چند دن قبل مشہور صحافی اور دانشور عرفان صدیقی صاحب کو بھی اس عظیم قومی مفاہمتی منصوبے کے تحت یکجا کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن شریر صحافیوں نے شور مچا دیا۔ تاجروں کے متعلق بھی پتہ چلا ہے کہ وہ بے قرار ہوئے پھر رہے ہیں کہ اللہ جانے کس وقت وہ بھی یک جا ہو جائیں۔

کچھ عرصے قبل وفاقی وزیر کرنٹ اور پانی جناب فیصل واؤڈا نے حکومتی پالیسی بیان کرتے ہوئے تجویز بھی دی تھی کہ پانچ ہزار چنیدہ لوگوں کو رسی کی مدد سے گاڑیوں سے یکجا کیا جائے، گھمایا جائے اور بلند مقام پر فائز کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان سب گاڑیوں اور دیگر انتظامات کا تمام خرچہ حکومت ہی اٹھائے گی اور ان افراد کو یہ یکجائی مفت میں پڑے گی۔

آثار یہی ہیں کہ تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں سے اپوزیشن ممبران کو یکجا کرنے کو اس وقت پہلی قومی ترجیح قرار دیا جا چکا ہے تاکہ ایک طرف سے یکسوئی نصیب ہو جائے تو پھر مودی سے نمٹا جائے۔

اس ایک طرف سے یکسوئی نصیب ہونے کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ یوسفی بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دن جون ایلیا مجھے کہنے لگے کہ میرے پاس اب پینتیس کرتے اور ایک پاجامہ رہ گیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس ایک پاجامے کو بھی کسی کو بخش دیجیے تا کہ ایک طرف سے تو یکسوئی ہو‘‘۔
دیکھتے ہیں حکومت کو کب یکسوئی نصیب ہوتی ہے اور پاجامہ کس کے حصے میں آتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
EBeqWpXWwAAmcJY.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف اور زرداری خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کیسز میں دبئی کے یہ معروف بزنس مین بطور گواہ سامنے آگئے ہیں۔ دونوں سیاسی خاندانوں کی منی لانڈرنگ میں ان کا نام، بینک اکاؤنٹس اور شناختی کارڈ تک اجازت کے بغیر استعمال ہوا ہے۔ یہ بزنس مین اس وقت نیب تفتیش میں پوری طرح تعاون کر رہے ہیں۔ اور عدالت میں ملزمان کے خلاف پیش ہونے کیلئے بھی تیار ہیں۔
اب جب کہ یہ تمام منی لانڈرنگ، کرپشن کیسز اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہیں تو کبھی جمہوریت پر حملہ، کبھی سیاسی انتقام کا شور تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا رونا دھونا جاری ہے۔ جس کو ان تمام حقائق کا علم نہیں وہ ان دونوں سیاسی خاندانوں کو معصوم اور حکومت ، نیب، عدلیہ اور فوج کو ظالم ثابت کرنے کیلئے بے تاب ہے۔ کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔ اور یہ کڑوا سچ پینے کو کوئی تیار نہیں کہ اس ملک میں فوج اور اداروں کے خلاف پراپگنڈہ کر کے سالہا سال اقتدار میں رہنے والے دراصل وائٹ کالر مجرم تھے۔
 

جاسمن

لائبریرین
خٹک صاحب کب وزیراعلیٰ بنے تھے؟ :) اور، زلفی بخاری پر کیس کب سے چل رہا ہے؟ فیصل واؤڈا کو محض تفتیش کی غرض سے حراست میں لینے میں کیا امر مانع ہے؟ :) چیئرمین نیب کو ادارے کے وقار کو بحال رکھنا ہے تو اپنے قول و فعل سے اس کا ثبوت بھی دینا ہو گا وگرنہ ہر سنجیدہ ذہن میں اس نوعیت کے سوال اٹھ سکتے ہیں۔ ارے بھئی! سوالوں پر تو پہرے نہ بٹھائیے۔ :)

کمال کرتے ہیں آپ!
یہ لوگ اتنا عرصہ کرپشن کریں جتنا عرصہ ن والوں نے کی تب انہیں گرفتار کیا جائے۔۔۔اسی صورت پلڑا برابر ہو اور انصاف کا بول بالا ہو۔:)
 

آورکزئی

محفلین
پتا نہیں یہاں علیمہ خان کے متعلق دوغلی پالیسی کیوں۔۔۔۔۔۔ ان کے پاس عہدہ نہیں۔۔ یہی جواب ہوگا۔۔۔ باقی جہانگیر ترین ، واوڈا ، علیم خان کے بارے میں کچھ بھی نہیں بولونگا۔۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
پتا نہیں یہاں علیمہ خان کے متعلق دوغلی پالیسی کیوں۔۔۔۔۔۔ ان کے پاس عہدہ نہیں۔۔ یہی جواب ہوگا۔۔۔ باقی جہانگیر ترین ، واوڈا ، علیم خان کے بارے میں کچھ بھی نہیں بولونگا۔۔۔
یہ تو خیر ایک المیہ ہے اور منافقانہ رویہ بھی ہے۔
 
Top