احمدی جواب دیتے ہیں

جاسم محمد

محفلین
  1. مجدد
  2. مہدی
  3. مسیح موعود
  4. ظلی و بروزی نبی
بیک وقت یہ سب ہونے کے دعوے کرنے والا شخص کیا کسی منطقی پیمانے پر پورا اترتا ہے؟
دہریوں کی نظر میں مذہب منطقی نہیں ہوتے۔ یہ قادیانیوں کا مذہب ہے، وہ جانیں اور ان کے بے منطقی عقائد۔
مرزا قادیانی نے موسی، مسیح، کرشنا کا اوتار ہونے کا دعوی بھی کیا تھا لیکن اس کے باوجود ان مذاہب کے پیروکار قادیانیوں کو کچھ نہیں کہتے۔
 

یاقوت

محفلین
دہریوں کی نظر میں مذہب منطقی نہیں ہوتے۔ یہ قادیانیوں کا مذہب ہے، وہ جانیں اور ان کے بے منطقی عقائد۔
مرزا قادیانی نے موسی، مسیح، کرشنا کا اوتار ہونے کا دعوی بھی کیا تھا لیکن ان مذاہب کے پیروکار قادیانیوں کو کچھ نہیں کہتے۔
جی کچھ نہیں کہتے ہیں اسکی بھی کچھ وجوہات ہیں ۔
1۔مرزا نے جتنے بھی اوتاریت کے دعوے کیے چاہے کسی بھی مذہب کے مطابق لیکن اپنے مذہب کیلئے کبھی اس نے کسی مذہب کا نام استعمال نہیں کیا سوائے اسلام کے ۔
2۔اسلام کے سوا باقی مذاہب اپنی اصل شکل یا ہیئیت میں باقی نہیں رہے ہیں۔
3۔تزویراتی طور پر ہر مذہب میں ما سوائے اسلام کے کسی کسی نہ سطح پر "تناسخ" کی گنجائش باقی ہے جیسے ہندومت نے خود کو بچانے کیلئے بدھا اور گرونانک کو اوتار مان لیا۔لیکن اسلام ایک حقیقی ،ا بدی اور باقی رہنے والا دین ہے اس لیے اس میں اس طرح کے کلائمکس کی نہ گنجائش ہے اور نہ ضرورت۔
اس لیے اسلام کا نام لے کر جو اسلام کے بنیادی ارکان پر ضرب چلائے گا اس سے ٹکر تو پڑے گی ہی ناں۔
 

فرقان احمد

محفلین
مرزا قادیانی نے موسی، مسیح، کرشنا کا اوتار ہونے کا دعوی بھی کیا تھا لیکن ان مذاہب کے پیروکار قادیانیوں کو کچھ نہیں کہتے۔
قادیانیوں کے اصل مسائل دو ہیں۔
1۔ انہیں پاکستان میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے۔
2۔ انہیں شعائر اسلامی پر اجارہ داری سے روک دیا گیا ہے۔
یوں، وہ ریاستِ پاکستان میں عملی طور پر گھروں یا اپنی عبادت گاہوں تک محدود ہو گئے ہیں۔
ریاست ایسا کرنے پر اس لیے مجبور ہے کہ اٹھانوے فی صد مسلم آبادی اور ہر مسلک کے علمائے کرام اور حتیٰ کہ پارلیمان تک اس بات پر متفق ہو چکی ہے کہ قادیانی اپنے عقائد کی رو سے مسلم نہ ہیں۔ آپ کو ریاستی امور کے فیصلے کرنے ہوں تو کیا آپ ایک غیر مسلم اقلیت کو اجازت دیں گے کہ وہ اٹھانوے فی صد مسلم آبادی کے جذبات سے چھیڑ چھاڑ کرے یا اٹھانوے فی صد مسلم آبادی کے مطالبے کو تسلیم کر کے فتنہ فساد کی راہ روکیں گے۔
ہماری نظر میں، یہ معاملہ صرف مذہب سے متعلقہ نہیں ہے، ریاستی انتظام چلانے کے امور سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے وگرنہ اس سے قبل بہت فتنے پھیلے اور بہت خون بہا۔ اب کم از کم ریاستی سطح پر ایک معاملہ طے کر لیا گیا ہے۔ آپ اس میں رد و بدل چاہتے ہیں تو کوشش کر دیکھیے۔ ہماری نظر میں، مزاحمت شدید تر ہو گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
تاہم، ریاست پاکستان میں آئین و قانون کے مطابق وہ خود کو مسلم تصور نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر انہیں اس آئین و قانون پر نہیں چلنا ہے تو پھر انہیں اس میں تبدیلی کے لیے اکثریتی آبادی کو اپنا ہم نوا بنانا ہو گا۔ یہی ریاستوں کا چلانے کا دستور ہوا کرتا ہے۔ آپ امریکا اور کسی مغربی ملک میں اپنی مرضی کے مطابق ہر قانون تبدیل نہیں کر سکتے۔ ریاستیں اکثریتی آبادی کی خواہشات کا احترام کریں گی تو زندہ رہیں گی۔
یہ سچ ہے کہ قادیانی لیڈرشپ نے اپنا کیس انتہائی بھونڈے انداز میں لڑ کر خود ہی خراب کیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پارلیمان مذہبی تنازعات کے حل کا آئینی و قانونی پلیٹ فارم ہی نہیں ہے۔ تو پھر قادیانی لیڈران کس حیثیت سے مناظرہ کیلئے وہاں پیش ہوتے رہے؟
اصولا یہ کیس سپریم کورٹ میں لے کر جانا چاہیے تھا جہاں عدالت عظمی اس پر آئین و قانون کے تحت فیصلہ صادر کرتی۔ البتہ قادیانی لیڈران کو اکثریت سے پنگا لینے کا شوق تھا جو پورا ہوا۔
 

یاقوت

محفلین
قادیانی(عارف کریم المعروف جاسم ) دہریے کب سے ہوئے؟
بصد معذرت ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں لیکن جب بحث ہو رہی ہو تو میری کم عقلی کا یہ ماننا ہے کہ ذاتی حملے سے گریز کرنا چاہیے۔
باقی دلائل سے دندان شکن جواب دیں بلکہ لوہے کے چنے چبوائیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ سچ ہے کہ قادیانی لیڈرشپ نے اپنا کیس انتہائی بھونڈے انداز میں لڑ کر خود ہی خراب کیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پارلیمان مذہبی تنازعات کے حل کا آئینی و قانونی پلیٹ فارم ہی نہیں ہے۔ تو پھر قادیانی لیڈران کس حیثیت سے مناظرہ کیلئے وہاں پیش ہوتے رہے؟
اصولا یہ کیس سپریم کورٹ میں لے کر جانا چاہیے تھا جہاں عدالت عظمی اس پر آئین و قانون کے تحت فیصلہ کرتی۔ البتہ قادیانی لیڈران کو اکثریت سے پنگا لینے کا شوق تھا جو پورا ہوا۔
یہ تو محض ایک نکتہء نظر ہے اور مفروضہ ہے جسے بعد از مرگ واویلا بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ :)
 

جان

محفلین
جاسم محمد صاحب اگر فرض کر لیں کہ انہیں سارے حقوق مل گئے ہیں اور ہر شخص ہر شعبے میں اپنی قابلیت دکھا سکتا ہے تو کیا یہ تنازعہ ختم ہو جائے گا؟
 
دہریوں کی نظر میں مذہب منطقی نہیں ہوتے۔ یہ قادیانیوں کا مذہب ہے، وہ جانیں اور ان کے بے منطقی عقائد۔
مرزا قادیانی نے موسی، مسیح، کرشنا کا اوتار ہونے کا دعوی بھی کیا تھا لیکن اس کے باوجود ان مذاہب کے پیروکار قادیانیوں کو کچھ نہیں کہتے۔
بات دراصل مذہبی غیرت اور عقائد کی ہے ۔ کچھ مذاہب میں کئی رسومات انسانیت سوز اور شرمناک ہیں۔ واحد اسلام ایسا مذہب ہے جو انسانیت کی تعظیم کا درس دیتا ہے ۔کسی فرد یا گروہ کے غیر اسلامی اور انسانیت سوز عمل پر سب کو الزام دینا قطعی درست نہیں ۔
دین اسلام کی تعلیمات اور علماء اکرام کی تدریس کے مطابق مسلمان ختم نبوت کے عقیدے پر مضبوطی سے عمل پہرا ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یہ تو محض ایک نکتہء نظر ہے اور مفروضہ ہے جسے بعد از مرگ واویلا بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ :)
امر واقعہ یہ ہے کہ قادیانیوں نے اپنا کیس خود پارلیمان میں لے جا کر خراب کیا تھا۔ اس لئے ان کو پارلیمان کا فیصلہ تسلیم کر لینا چاہئے کیونکہ غلطی اپنی تھی۔
لیکن جس طرح جیالے بھٹو کی پھانسی کو نہیں مانتے یا جس طرح پٹواری نواز شریف کی سزا کو تسلیم نہیں کرتے۔ گو کہ وہ بھی اکثریتی ججز کا ہی فیصلہ تھا۔ اسلئے قادیانی بھی دیگر قوم کی طرح ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں۔ ہیں تو وہ بھی پاکستانی ہی! :)
 

یاقوت

محفلین
یہ سچ ہے کہ قادیانی لیڈرشپ نے اپنا کیس انتہائی بھونڈے انداز میں لڑ کر خود ہی خراب کیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پارلیمان مذہبی تنازعات کے حل کا آئینی و قانونی پلیٹ فارم ہی نہیں ہے۔ تو پھر قادیانی لیڈران کس حیثیت سے مناظرہ کیلئے وہاں پیش ہوتے رہے؟
اصولا یہ کیس سپریم کورٹ میں لے کر جانا چاہیے تھا جہاں عدالت عظمی اس پر آئین و قانون کے تحت فیصلہ صادر کرتی۔ البتہ قادیانی لیڈران کو اکثریت سے پنگا لینے کا شوق تھا جو پورا ہوا۔

واہ کیا کہنے جب سوڈان کی تقسیم کیلئے بڑی ممی (اقوام متحدہ) میں قرارددادیں نکاح کے چھوہاروں کی طرح بانٹی جاری تھیں اور ایک مسلمان مملکت دیکھتی آنکھوں تقسیم ہوگئی ۔تب تو کسی کو یا د نہ آیا کہ بڑی آپا( عالمی عدالت) بھی موجود ہے ۔تب تو سارے عالم کفر نے سب کچھ بائی پاس کر کے سوڈان تقسیم کر دیا تب کہاں تھے اصول۔ثابت ہوا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔
 

عثمان

محفلین
یہی ریاستوں کا چلانے کا دستور ہوا کرتا ہے۔ آپ امریکا اور کسی مغربی ملک میں اپنی مرضی کے مطابق ہر قانون تبدیل نہیں کر سکتے۔ ریاستیں اکثریتی آبادی کی خواہشات کا احترام کریں گی تو زندہ رہیں گی۔
Democracy دراصل Majoritarianism نہیں ہے۔ ورنہ اقلیت اور اقلیتی رائے باقی نہ بچتی۔ ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں کے دستور میں اس فرق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
امر واقعہ یہ ہے کہ قادیانیوں نے اپنا کیس خود پارلیمان میں لے جا کر خراب کیا تھا۔ اس لئے ان کو پارلیمان کا فیصلہ تسلیم کر لینا چاہئے کیونکہ غلطی اپنی تھی۔
لیکن جس طرح جیالے بھٹو کی پھانسی کو نہیں مانتے یا جس طرح پٹواری نواز شریف کی سزا کو تسلیم نہیں کرتے۔ گو کہ وہ بھی اکثریتی ججز کا ہی فیصلہ تھا۔ اسلئے قادیانی بھی دیگر قوم کی طرح ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں۔ ہیں تو وہ بھی پاکستانی ہی! :)
مذہبی معاملات بھڑک جائیں تو ریاستی ادارے اکثریتی آبادی کی مرضی اور منشاء کے مطابق چلنے لگ جاتے ہیں اور آئین ساز ادارے بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے، دنیا کے مختلف ممالک میں قوانین مختلف ہوا کرتے ہیں۔ آئین کی ایک سی صورت نہیں ہے پوری دنیا میں؛ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے۔ قادیانی بھلے ضدی اور ہٹ دھرم ہوں، تاہم، انہیں ریاستی قوانین کے مطابق ہی چلنا ہو گا؛ یہ بات طے شدہ ہے۔ وہ بغاوت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
Democracy دراصل Majoritarianism نہیں ہے۔ ورنہ اقلیت اور اقلیتی رائے باقی نہ بچتی۔ ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں کے دستور میں اس فرق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
تاہم جمہوریت میں اکثریتی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے، بالخصوص اگر کوئی معاملہ فریقین کے مابین نزاعی صورت اختیار کر جائے۔ :)
 

یاقوت

محفلین
Democracy دراصل Majoritarianism نہیں ہے۔ ورنہ اقلیت اور اقلیتی رائے باقی نہ بچتی۔ ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں کے دستور میں اس فرق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
آپ کا کہا سر آنکھوں پر لیکن کیا ہوگا اس وقت جب ایک محدود اقلیت ہی عملی،خیالی،مجلسی اور یقینی حد تک اس گمراہ کن واہمے کاشکار ہو کہ ہم ہی اصل اکثریت ہیں اور باقی تو سب ایویں ہی ایویں ہیں۔
 
ہیں تو وہ بھی پاکستانی ہی! :)
قادیانیوں کے پاکستانی ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ،قادیانی بطور اقلیت آزادی سے اپنے مذہب پر عمل پہرا رہے سکتے ہیں ۔خود کو اپنی عبادت گاہوں تک محدود رکھتے ہوئے اپنی مذہبی عبادت کر سکتے ہیں۔
یہاں مسئلہ مذہبی ہے ۔قادیانی دنیا میں خود کو مظلوم ثابت کرنے کی ہر دم کوشش کرتے رہتے ہیں ۔اس ہی مظلومیت کا پرچار کرکے کئی ممالک میں پناہ گزین ہیں ۔
 
آخری تدوین:
Top