’ارمغان احمد داؤد کا جواب :(قسط اول)

فاخر

محفلین
’ارمغان احمد داؤد کا جواب(قسط اول)
افتخاررحمانی فاخرؔ ، نئی دہلی
میں اس محفل میں کیوں آیا ؟ اس کا جواب میں نے بہت ہی پہلے دے دیا تھا ،تاہم ایک بار پھر اس محفل میں آنے کی غرض جان لیں کہ:’ میں یہاں صرف شاعری اور اس کے ’اسرار و رموز‘ سیکھنے کی غرض سے آیا ہوں ‘۔ جیسا کہ آپ سبھی واقف ہیں کہ میرا تعلق ہندوستان سے ہے ؛لیکن یہ ٹیکنالوجی کی کرامت کہہ لیں کہ :’ میں راست طور پرآپ سے مخاطب ہوں ‘ ۔میں ایک تصلب پسندمسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ اعتدال پسند بھی ہوں۔افراط و تفریط سے پاک مشرب و مسلک کا حامی ہوں۔ میں ایک سنی العقیدۃ حنفی، دیوبندی ،دارالعلوم دیوبند کا خوشہ چیں اور اکابر علماء دیوبند کی جوتی بردار بھی ہوں ۔ ختم نبوت کے ’ باب‘میں دیوبندی علماء کی خدمات ’زریں‘ ہیں ، جن پر بجا طور پر ہم تمام دیوبندی افراد فخر کرتے ہیں ،اپنے لیے سرمایۂ آخرت تصور کرتے ہیں اور روزِ محشر شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرخروئی کا سبب بھی سمجھتے ہیں ، متحدہ احرارِ اسلام کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور مشہورِ زمانہ ’’مقدمۂ بہاولپور ‘‘ تو ختم نبوت ﷺکے پروانوں کو یاد ہی ہوگا جس میں امام المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ باوجودمرض و نقاہت کے، ہشاش و بشاش بہاولپور تشریف لے گئے تھے ، اورعدلیہ میں کھڑے ہوکر ختم نبوت ﷺ کی وکالت کی تھی،وہاں حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے، جن کا دل سے قدر دان ہوں،(گرچہ مشربی نقطۂ نظر مختلف ہے)،لیکن میں ان کی جوتیوں کی دھول پر نثار جاؤں کہ انہوں نے ارضِ پاک حجازِ مقدس سے پاکستان کا رختِ سفر اس لیے باندھاتھا کہ قادیانی فتنہ کی سرکوبی کی جائے۔اللہ نے اس مقدمہ میں جو کامیابی عطا کی وہ بھی ’’تاریخ کا ایک حصہ ہے ۔ ‘ حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ کو باشارۂ غیبی اس کا حکم بھی ملاتھا کہ خاتم النبین حضرت محمدابن عبداللہ ہاشمی ،مکی عربی ، حجازی ﷺ کی نبوت کی خاتمیت کے تحفظ کے لیے وطن تشریف لے جائیں۔حضرت بہ امداد غیبی اس معرکہ میں کامیاب ہی نہیں ہوئے ؛بلکہ خطہ سے ہمیشہ کے لیے اس فتنہ کا سدباب فرماکر اس کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ، اللہ تعالیٰ ان کے قبر کو نور سے بھر دے اور آخرت میں شہنشاہِ کونین ﷺ کی رفاقت و معیت نصیب فرمائے آمین۔میرا قادیانی طبقہ سے سوال ہے کہ :’جب آئینِ پاکستان میں آپ کو غیر مسلم قراردیا جاچکا ہے ، آپ اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘نہیں کہہ سکتے ، آپ حرمین شریفین کی ’زیارت‘ نہیں کرسکتے ، آپ پر اسلامی نظام کے تحت ’ زکوٰۃ‘ فرض بھی نہیں ہے،الغرض قادیانیت تمام شعائراسلامی سے الگ تھلگ ہے تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قادیانی افراد خود کو ہماری صفوں میں شامل سمجھتے ہیں ؟ یہ تو ’’مان نہ مان ،میں تیرا مہمان‘‘ والی بات ہوگئی نا؟ ۔
آمدم برسرِ مطلب ! اردو محفل یوں تو اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے ہی مختص تھا ، بانیوںکے دل کے کسی گوشہ میں یہ بات نہیں ہوگی کہ اس فورم کو مروجہ قادیانی پروپیگنڈہ کی اشاعت اور اس کے تحت قادیانی افکار و نظریات کی ترویج کو بھی جگہ دی جائے ۔ تاہم اسی محفل کے ایک رکن ’جاسم محمد قادیانی‘ جو اپنے بدلے ہوئے نام کے ساتھ محفل میں ہیں ، نے وقتاً فوقتاً اپنے قادیانی نواز ہونے کا ثبوت دیا ہے ، اپنے نظریات کی ترویج کی ہے ،اورشعائر ِ اسلام پر چھینٹاکشی کی ہے، جو کہ کم از کم ہم جیسے گنہ گارمسلمان اور پروانۂ رسالت مآب ﷺ کے لیے باعث ِ اضطراب ہے ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ :’ فورم میں مجھ جیسے گنہ گارکی طرح اور بھی پروانۂ شمع رسالت ہوں گے ،جو’ جاسم محمدقادیانی‘ کی شرارت سے اضطراب و ہیجان کے شکار ہوئے ہوں گے ‘۔’جاسم محمد (قادیانی) کی اس شرارت کا کیا حل ہوگا یہ تو منتظمین فیصلہ کریں ،لیکن آزادیٔ اظہار کے تحت ہم بھی ’جواب‘ کے ’مجاز‘ ہیں ، بناء بریں ’احمدی جواب دیتے ہیں ‘ کے مصنف ارمغان احمد داؤد جو کہ از اپنی تحریر سے قادیانی ہونے کا اعلان کرتے ہیں ، کے اس ’غیر معقول ‘ سوال کا ’جواب‘ دینا بھی لازم ہے ، تاہم ارمغان احمد داؤد کا’جواب ‘ ایسا تو نہیں تھا کہ اس کا جواب الجواب لکھا جائے ؛لیکن جاسم محمدقادیانی کی شر انگیزی کے سدباب کے لیے اس سعادت سے بہرہ و رہورہا ہوں ‘۔ یہ بھی بتاتاچلوں کہ :’ ارمغان احمد داؤد نامی اس قادیانی کالم نویس کی تحریرمیری دانست کے مطابق: ’ہم سب‘ نامی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے ، اور ہم سب نامی ویب سائٹ کے مدیر کوئی اور نہیں؛بلکہ وجاہت مسعود ہیں ، جوپاکستان کے مشہور و معروف روزنامہ’ جنگ‘ کے مستقل کالم نویس ہیں، (اب پتہ نہیں ،وجاہت مسعود کی تحریر ’جنگ‘ میں شائع ہوتی ہے یانہیں، تاہم یہ واضح ہوگیا کہ:’وجاہت مسعود بھی قادیانیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں)۔الغرض ! جب بحیثیت قاری قادیانی مضمو ن نگار کی تحریر ’ہم سب ‘ ویب سائٹ پر پڑھا تویہ پایا کہ :’ جناب نے مسلمانوں پر صرف الزامات لگائے ہیں ، گالیاں دی ہیں ، دہشت گرد تنظیم سے راست تعلق بھی بتایا ہے اور اپنے آقاؤں کے مثل مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ کہنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔حتیٰ کہ اپنے زعم میں انہوں نے آئین پاکستان کی خلاف ورزی بھی کی ہے ، اور آئین کے خلاف اپنی دریدہ دہنی کا ثبوت بھی پیش کیا ہے ۔ اشتعال و اضمحلال میں یہ بھی کہہ دیا کہ :’ گمراہی کے فتوؤں سے ان کی باتیں شروع ہوتی ہیں اور کفر کے پرُ پیچ راہوں سے ہوتے یہ غیرتمندانِ ملت جوازِ قتل بھی ڈھونڈ لیتے ہیں‘ ۔ جب کہ قادیانیت کے بات میں تمام مفتیان اسلام از اول تا آخر ؛بلکہ آئندہ آنے والے تمام مفتیان کرام کا متفقہ فیصلہ ہوگا کہ :’ قادیانی ازروئے شرع خارج از اسلام ، کافر و زندیق ہیں‘۔تاہم جناب اپنے مزعومہ کے سبب وہ شگوفہ بھی چھوڑگئے ، جس کا سرا کسی طور بحث سے ملتا ہی نہیں ہے ۔
(جاری)
 

جاسم محمد

محفلین
جب آئینِ پاکستان میں آپ کو غیر مسلم قراردیا جاچکا ہے ، آپ اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘نہیں کہہ سکتے ، آپ حرمین شریفین کی ’زیارت‘ نہیں کرسکتے ، آپ پر اسلامی نظام کے تحت ’ زکوٰۃ‘ فرض بھی نہیں ہے،الغرض قادیانیت تمام شعائراسلامی سے الگ تھلگ ہے تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قادیانی افراد خود کو ہماری صفوں میں شامل سمجھتے ہیں ؟ یہ تو ’’مان نہ مان ،میں تیرا مہمان‘‘ والی بات ہوگئی نا؟
اس سوال کو سمجھنے کیلئے آپ کوان قانونی فیصلوں کی تاریخ پڑھنی پڑے گی:
آئینی ترمیم 1974 کے تحت قادیانیوں کو غیرمسلم ڈکلیئر کیا گیا تھا۔ یعنی سرکاری سطح پر ان کے مذہب کا خانہ مسلم سے غیرمسلم اقلیت ہو گیا تھا۔
یہاں تک تو قادیانیوں کو کوئی خاص اعتراض نہیں تھا کہ اس فیصلے سے آئین پاکستان میں ہر شہری کو دی جانی والے مذہبی آزادی ختم نہیں ہوئی تھی۔
لیکن علما کرام کو اعتراض تھا کیونکہ ان کے مطابق اب جب کہ انہوں نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت ڈکلیئر کروا دیا ہے تو ان سے مذہبی آزادی کیوں نہیں واپس لی گئی؟
اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے1984میں لابنگ کر کے صدارتی آرڈیننس 20 پاس کروایا۔ جس کے تحت ملک میں پہلی بار ایک مذہبی جماعت سے قانونا اور آئین پاکستان کے خلاف مذہبی آزادی چھین لی گئی۔
اس لئے قادیانیوں کا غیرمسلم اقلیت قرار دیئے جانا آئینی حدود کے اندر ہے اور جائز ہے۔ جبکہ ان کے خلاف قانون سازی کر کے مذہبی قدغن لگانا آئین پاکستان کی مذہبی آزادی سے متعلق شقوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ جس کا دفاع ممکن نہیں۔
 
Top