برائے اصلاح

ٹھوکروں کا یہ اثر دل پر ہوا
ایک شیشہ تھا مگر پتھر ہوا

اشک آتے ہیں نہ آتا ہے لہو
ایک مدت سے نہ دیدہ تر ہوا

غیر کو آواز دی تجھ نام سے
نام تیرا یوں ہمیں ازبر ہوا

ہم سے ملنا ہو تو لو اس کا پتہ
اس کا کوچہ ہی ہمارا گھر ہوا

اب تری یادوں کے پھول اگتے نہیں
دل ہمارا آخرش بنجر ہوا

حل ہوا دیرینہ تھا اک مسئلہ
فون جب سے اپنا نامہ بر ہوا
 
Top