کلام میں موسیقیت کیسے اور کیونکر لائی جاتی ہے؟

فاخر

محفلین
کوئی یہ تو بتادے ؟

بڑے بڑے شاعر سے لے کر چھوٹے چھوٹے شاعر کے کلام کو پڑھا ، کئی باتیں جو ذہن میں آئیں ان کا جواب تو خود میں نے ڈھونڈلیا ؛لیکن ایک راز کا مجھ پر انکشاف نہ ہوسکا کہ :’ آخر کلام میں موسیقیت کیسے اور کیوں کر لائی جاتی ہے ؟‘۔ کلام میں موسیقیت کے لیے کیا کوئی خاص بحر متعین ہے؟ یا مترنم کلام کے لیے فن موسیقی کے لحاظ سے کسی خاص راگ کے تحت کلام کہا جاتا ہے ؟فارسی کلام میں حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ کے کلام میں جو ترنم ہے ،شاید وہ ترنم حافظؔ کے کلام میں نہ ہو(یہ میرا خیال ہے )۔اردو میں حضرت حالیؔ، شاعر مشرق اقبالؔ ، ساحر لدھیانوی ،ساغر صدیقی مرحوم اوراحمد فرازؔ وغیرہ کے کلام میں(مجھے) ترنم نظر آتا ہے ۔ ساغر ؔصدیقی کا تو دل سے قدردان ہوں کہ انہوں نے وہ کچھ کیا ،جو بڑے بڑے شاعر کو نصیب نہ ہوسکا (اگر ساغر ؔ کو چرس کی عادت نہ لگتی اوراس کے اسیر نہ ہوتے تو یقیناً ساغر ؔصدیقی کا نام اور بھی بڑا ہوتا ) ۔الغرض ، میرا سوال یہ ہے کہ :
1:- کلام میں ترنم وہبی شی ہے یا کسبی؟ اگر کسبی ہے تو پھر اس کا کسب کس طرح ہوسکتا ہے ؟
2:- ترنم کے لیے ساز وآہنگ اور ہم وزن الفاظ کا ہونا ضروری ہے ؟
3:- کلام میں ترنم کے لیے آسان اور عوامی ذہن سے قریب تر الفاظ استعمال کئے جائیں ؟
اس سلسلے میں اساتذہ بالخصوص ،بالعموم تمام شعرا اور محفلین اپنی اپنی بے باک رائے ضرور نوازیں ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
کھانے کا وقت تھا اور کھانے سے زیادہ اہم کیا ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے کچھ خاص مطالعہ نہیں ہے۔ البتہ جو خود سمجھتا ہوں وہ عرض کیے دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ نری احمقانہ بات ہو، یا پھر کچھ جواب مل جائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
بعض بحریں بھی ایسی ہیں جن میں دیگر بحروں کی نسبت زیادہ غنائیت اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر،
فاعلاتن مفاعلن فعلن
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
 
آخری تدوین:
کچھ بحور ایسی ضرور ہیں جن میں موسیقیت زیادہ ہوتی ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ مختلف مزاج کے لوگوں کو مختلف بحور میں موسیقیت محسوس ہو۔ لیکن ضروری نہیں کہ ان بحور میں بھی تمام کلام موسیقیت لیے ہوئے ہو۔ یا جن بحور میں بالعموم موسیقیت محسوس نہ ہوتی ہو، ان میں ایسا کلام بھی پڑھنے کو مل جاتا ہے جو موسیقیت سے بھرپور ہو۔
موسیقیت میں ایک بڑا عمل دخل الفاظ کی ترتیب کا بھی ہے۔ بعض اوقات ایک مصرع انھی الفاظ کے ادھر ادھر کر دینے سے موزوں تو ہوتا ہے، مگر وہ موسیقیت نہیں دے پاتا جو الفاظ کی کسی دوسری ترتیب میں مل رہی ہوتی ہے، حالانکہ الفاظ وہی ہوتے ہیں۔

قوافی سے ہٹ کر ہم وزن و ہم قافیہ الفاظ کا استعمال موسیقیت میں اضافہ کرتا ہے۔

الفاظ کے آسان یا مشکل ہونے کا موسیقیت میں زیادہ عمل دخل معلوم نہیں ہوتا۔ بلکہ وہی بات جو پہلے کہی کہ الفاظ کی ترتیب موسیقیت بڑھاتی ہے۔

ابھی مثالیں ذہن میں نہیں، اور ڈھونڈنے کا وقت نہیں، لہٰذا محض ان متفرق خیالات پر اکتفا کیجیے۔
 

سید عمران

محفلین
کچھ بحور ایسی ضرور ہیں جن میں موسیقیت زیادہ ہوتی ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ مختلف مزاج کے لوگوں کو مختلف بحور میں موسیقیت محسوس ہو۔ لیکن ضروری نہیں کہ ان بحور میں بھی تمام کلام موسیقیت لیے ہوئے ہو۔ یا جن بحور میں بالعموم موسیقیت محسوس نہ ہوتی ہو، ان میں ایسا کلام بھی پڑھنے کو مل جاتا ہے جو موسیقیت سے بھرپور ہو۔
موسیقیت میں ایک بڑا عمل دخل الفاظ کی ترتیب کا بھی ہے۔ بعض اوقات ایک مصرع انھی الفاظ کے ادھر ادھر کر دینے سے موزوں تو ہوتا ہے، مگر وہ موسیقیت نہیں دے پاتا جو الفاظ کی کسی دوسری ترتیب میں مل رہی ہوتی ہے، حالانکہ الفاظ وہی ہوتے ہیں۔

قوافی سے ہٹ کر ہم وزن و ہم قافیہ الفاظ کا استعمال موسیقیت میں اضافہ کرتا ہے۔

الفاظ کے آسان یا مشکل ہونے کا موسیقیت میں زیادہ عمل دخل معلوم نہیں ہوتا۔ بلکہ وہی بات جو پہلے کہی کہ الفاظ کی ترتیب موسیقیت بڑھاتی ہے۔

ابھی مثالیں ذہن میں نہیں، اور ڈھونڈنے کا وقت نہیں، لہٰذا محض ان متفرق خیالات پر اکتفا کیجیے۔
صحیح کہا...
الفاظ کا چناؤ اور پڑھنے کا انداز!!!
 
مجھے قابلؔ کی شاعری میں جو موسیقیت نظر آئی، اس کا جواب نہیں
ایک نمونۂ کلام
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ، ہم کارواں تک آگئے

انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے

اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آگئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آگئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا
تم وہاں تک آتو جاؤ ، ہم جہاں تک آگئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشۂ سود و زیاں تک آگئے

قابل اجمیری
 
خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا
تم وہاں تک آتو جاؤ ، ہم جہاں تک آگئے
اس شعر کا پہلا مصرع لیجیے
خود تمھیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا

اسے یوں لکھ دیں
خود شعور آ جائے گا چاکِ گریباں کا تمھیں
تم وہاں تک آ تو جاؤ، ہم جہاں تک آ گئے

یہ بھی موزوں ہے لیکن آپ کو فرق محسوس ہو جائے گا۔ جو موسیقیت اور روانی قابلؔ کے مصرع میں ہے، وہ یہاں مفقود ہے۔
 

سید عمران

محفلین
واہ اچھے اشعار ہیں...
ہمیں بھی جو مزہ اساتذہ متقدمین کے کلام میں آتا ہے متاخرین میں نہیں...
مثلاً میر صاحب اور داغ بھیا!!!
 
آخری تدوین:
Top