جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ

آصف اثر

معطل
ڈاکٹر عبدالسلام سے بغض و نفرت کی کوئی انتہا تو ہوگی؟
کیا آپ اتنا نہی جانتے۔۔۔
یار اتنا غصہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ میں نے توصرف وضاحتی نکتہ بیان کیا ہے۔ جب میں نے اس نکتے پر اپنا مؤقف ہی بیان نہیں کیا تو آپ کا اس طرح ردعمل دینا کیا معنی رکھتا ہے۔
یہ رویہ غلط ہے۔ آپ یا تو دونوں کو موضوع پر بات کرنے دیں اور یا خود موضوع میں سنجیدہ رویے کے ساتھ حصہ لیں۔ اس طرح کے پلانٹڈ کمنٹس پر مجھے انتہائی افسوس ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یار اتنا غصہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ میں نے توصرف وضاحتی نکتہ بیان کیا ہے۔ جب میں نے اس نکتے پر اپنا مؤقف ہی بیان نہیں کیا تو آپ کا اس طرح ردعمل قابلِ مذمت ہے۔
بھئی میں نے غصہ نہیں کیا، ہاں شدید حیرانگی ضرور ہوئی تھی کہ آپ جس موضوع پر بات کرتے ہیں۔ اس سے متعلق تھوڑی بہت انفارمیشن تو رکھا کریں۔
خیر میں اپنے الفاظ واپس لے چکا ہوں۔ اگر کوئی دانستہ یا غیر دانستہ تکلیف پہنچی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
 

آصف اثر

معطل
بھئی میں نے غصہ نہیں کیا، ہاں شدید حیرانگی ضرور ہوئی تھی کہ آپ جس موضوع پر بات کرتے ہیں۔ اس سے متعلق تھوڑی بہت انفارمیشن تو رکھا کریں۔
یہی بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آپ کو کس طرح علم ہوا کہ مجھے عبدالسلام کے نوبل پرائز اور اُن کی تحقیق کا علم نہیں؟
آپ ذرا اس نکتے پر نہ کہ میرے موقف پر، دوبارہ نظر ڈالیں اور بتائیں کہ اس میں عبدالسلام کے متعلق میری ”کم علمی“ کا انکشاف آپ پر کن الفاظ سے ہورہاہے:
2۔ کیا واقعی اس تحقیق میں عبدالسلام کا کوئی حقیقی اور قابلِ قدر حصہ تھا، کہ اسے حصہ دار بنایاگیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
آپ ذرا اس نکتے پر نہ کہ میرے موقف پر، دوبارہ نظر ڈالیں اور بتائیں کہ اس میں عبدالسلام کے متعلق میری ”کم علمی“ کا انکشاف آپ پر کن الفاظ سے ہورہاہے
اگر آپ نے واقعتا ڈاکٹر عبدالسلام کا وہ تحقیقی مقالہ پڑھا ہوتا جسکی وجہ سے ان کو نوبیل انعام دیا گیا تو آپ ایسی عجیب و غریب بات نہ کہتے:
"کیا واقعی اس تحقیق میں عبدالسلام کا کوئی حقیقی اور قابلِ قدر حصہ تھا، کہ اسے حصہ دار بنایاگیا؟"
نوبل انعام کی ویب سائٹ کے مطابق اس نئی سائنسی دریافت میں ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ دیگر دو سائنسدانوں اور ان کے کولیگز کا بھی حصہ ہے اس لئے تینوں کو نوبیل انعام کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔
996b94de-ca8e-41f4-b392-cfb14cc26970.jpg

The Nobel Prize in Physics 1979
 

آصف اثر

معطل
اگر آپ نے واقعتا ڈاکٹر عبدالسلام کا وہ تحقیقی مقالہ پڑھا ہوتا جسکی وجہ سے ان کو نوبیل انعام دیا گیا تو آپ ایسی عجیب و غریب بات نہ کہتے:
"کیا واقعی اس تحقیق میں عبدالسلام کا کوئی حقیقی اور قابلِ قدر حصہ تھا، کہ اسے حصہ دار بنایاگیا؟"
نوبل انعام کی ویب سائٹ کے مطابق اس نئی سائنسی دریافت میں ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ دیگر دو سائنسدانوں اور ان کے کولیگز کا بھی حصہ ہے اس لئے تینوں کو نوبیل انعام کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔
The Nobel Prize in Physics 1979
اگر آپ مجھے بتادیتے تو میں ہی اسکرین شاٹس لے کر دے دیتا۔ اتنی تکلیف میں پڑنے کی ضرورت کیا تھی؟
آپ ابھی بھی پوائنٹ نہیں سمجھیں۔ اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک بہت کچھ سنابھی چکا ہوتا۔ صبر کا امتحان نہ لیا کریں۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
مجھے اِن سوالات سے نہیں اس بات سے غرض ہے کہ کالم میں اِن جیسے مابعدالطبیعیاتی سوالات سے انکار کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس کے ثبوت کیا ہیں؟
ثبوت اس لڑی کے شروع ہونے کے محض چار گھنٹے بعد ہی آپ کو اس تمثیل کی صورت میں مل چکا ہے کہ جس میں سائنس کو محض "جوتوں کی فیکٹری" جیسی افادیت پرستانہ مثالوں تک محدود کرتے ہوئے "اصل میں پیسہ کمانے کا فن اور ہنر" قرار دیا گیا ہے۔
۴) آپ جوتا گانٹھنے والے چھوٹے موچی ہوں یا جدید سائنسی ٹیکنالوجی کی مدد سے جوتے کا کارخانہ لگا کر بڑے موچی بنیں، یا سائنس پر ریسرچ کرنے کے نام پر مال بنائیں ۔ مذہب کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ پیسہ کمانے کے لیے، دنیا بنانے کے لیے کون سا پیشہ اختیار کرتے ہیں!!!
۵) اصل علم تو خدا اور رسول کا ہے ۔ دنیاوی لحاظ سے جوتا گانٹھنے کی سائنس ہو یا پکوڑے تلنے کی یا کسی اور قسم کی اسے مجازاً تو علم کہہ دیں لیکن یہ اصل میں پیسہ کمانے کا فن اور ہنر ہے۔
کیا اس کے بعد بھی خاص طور پر چن چن کر مثالیں اکٹھی کرنے کی ضرورت ہے؟
یا شاید آپ کو اس بات کی سمجھ نہ آنے کی وجہ وہی ہے جس کا مصنف تذکرہ کرتا ہے، یعنی "فلسفیانہ مباحث سے کامل لا تعلقی اور سائنس کی مابعد الطبیعاتی بنیادوں سے کامل ناواقفیت"؟ آپ کا "ان سوالات سے کوئی غرض نہ ہونا" اس بات کی جانب تھوڑا بہت اشارہ تو کرتا ہی ہے۔ اگرچہ میں اس بارے میں کوئی فیصلہ صادر کرنے سے پہلے مزید علامات کا مشاہدہ کرنا بہتر سمجھوں گا۔

اس کے لیے ہمیں دو باتوں کو دیکھنا ہوگا۔
1۔ جس نوبل ملے تحقیق کی بات ہورہی ہے، اس سے کتنا استفادہ کیا جاسکتاہے۔
2۔ کیا واقعی اس تحقیق میں عبدالسلام کا کوئی حقیقی اور قابلِ قدر حصہ تھا، کہ اسے حصہ دار بنایاگیا؟

پہلے سے تو کوئی بھی انکاری نہیں، حالاں کہ آپ کا پوائنٹ ہی یہ ہے کہ مذکورہ تحقیق سے استفادہ پر بعض کو یقین نہیں۔ اگر یہی سے آپ کوئی مثال دیں تو نوازش ہوگی۔
۱۔ آپ سروے کر کے دیکھ لیں۔ آپ کو کافی دلچسپ نتائج ملیں گے کہ کتنے لوگ پہلے نکتے سے بھی انکاری ہیں۔
۲۔ دوسرا نکتہ بھی اسی اعتراض کی ایک اور شکل ہے کہ اس سالے نے تو کچھ نہیں کیا، بس قادیانی ہونے کی وجہ سے ہی اسے نوازا گیا ہے۔

جب میں نے اس نکتے پر اپنا مؤقف ہی بیان نہیں کیا تو آپ کا اس طرح ردعمل دینا کیا معنی رکھتا ہے۔
آسان سا حل ہے۔ اگر آپ گفتگو سے کوئی مفید نتائج اخذ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے خیالات کے ابلاغ میں واضح رہیں۔ اس طرح فضول کی غلط فہمیوں میں وقت ضائع بھی نہیں ہو گا۔ تو پھر بتائیں۔ آپ کا موقف کیا ہے؟

جس علم کی دوئی کا ریلا ڈاکٹر پرویز ہود کی عظیم کوششوں سے بہتا چلا آرہاہے، اور جس میں اُن کے حمایتی اور پیروکار دِن دُگنی رات چوگنی اضافہ فرمارہے ہیں، وہ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس مسئلے کا تعلق دراصل اِن دیسی لبرلز سے ہے، مذہبی طبقہ ویسے ہی نشانے پر ہے۔ کیوں کہ جب ایک طبقہ اپنے عقائد کو براہِ راست ڈیفنڈ نہ کرسکے تو وہ غصہ کہیں تو نکالے گا۔ آج اگر بقولِ ان دیسی لبرلز کے مذہبی طبقے کے ساتھ دوئی کا مسئلہ ایک فیصد ہے تو یہ دیسی لبرل طبقہ خود ایک کم سو فیصد اس کا شکار ہے۔ البتہ ہمارے سنجیدہ ناقدین کو اِن سے تکلیف اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ ”مذہب برگشتہ“ ہے۔
حضرت، ایک بات تو بتائیں۔ آپ کو پرویز ہود بھائی کے حوالے سے اتنا obsession کیوں ہے کہ جہاں وہ نہ ہو، وہاں بھی وہ ہی وہ نظر آتا ہے؟ کہیں آپ "وحدت الپرویز ہود" پر تو یقین نہیں رکھتے؟
جہاں تک میری نظر اور عینک ساتھ دیتی ہے، اس گفتگو کی ابتداء کسی عاصم بخشی نامی شخص کے کالم سے ہوئی ہے جس کے چہرے پر مسنون داڑھی ہے اور کالم پر لگی اس کی تصویر میں اس نے شیروانی پہن رکھی ہے۔ اس کی تحاریر کا کچھ جائزہ لیا تب بھی کوئی "دیسی لبرل" والی بات نظر نہیں آئی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو براہ مہربانی تصحیح کر یں کہ
  1. کیا کالم نگار کا نام پرویز ہودبھائی ہے؟
  2. کیا کالم نگار کو کسی اور طریقے سے "دیسی لبرل" کہا جا سکتا ہے؟
  3. کیا آپ سے مختلف رائے رکھنے والا ہر شخص "دیسی لبرل" اور "پرویز ہود کا پیروکار" ہوتا ہے؟

یہ ذکر ہوچکا ہے کہ ایسا کس تناظر میں کیا جاتاہے، اور یہ کیوں اتنا ضروری ہے۔ تکرار کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ تو پھر وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ایسے لوگوں کا انتہائی قحط رہا ہے کہ جن کا سائنس و فلسفہ میں کوئی قابل ذکر کام بھی ہو اور کسی نے ان کے ایمان کو مشکوک بھی نہ قرار دیا ہو۔ بہ الفاظ دیگر وہ اپنے دور کے "لبرل" نہ شمار کیے جاتے ہوں۔
 

محمد سعد

محفلین
آپ ابھی بھی پوائنٹ نہیں سمجھیں۔ اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک بہت کچھ سنابھی چکا ہوتا۔ صبر کا امتحان نہ لیا کریں۔
تو یار سمجھا دیں نا۔ سمجھ تو مجھے بھی نہیں آ رہا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔
اگر سوالات کے جوابات اور دعووں کے ثبوت دینے کے تکلف سے بچنے کے لیے دانستہ ابہام پیدا کرنا آپ کا مقصد نہیں ہے تو حوصلہ رکھیں، آپ کو بھی واضح بات کرنے سے فائدہ ہی ہو گا۔
 

آصف اثر

معطل
ثبوت اس لڑی کے شروع ہونے کے محض چار گھنٹے بعد ہی آپ کو اس تمثیل کی صورت میں مل چکا ہے کہ جس میں سائنس کو محض "جوتوں کی فیکٹری" جیسی افادیت پرستانہ مثالوں تک محدود کرتے ہوئے "اصل میں پیسہ کمانے کا فن اور ہنر" قرار دیا گیا ہے۔
کیا اس کے بعد بھی خاص طور پر چن چن کر مثالیں اکٹھی کرنے کی ضرورت ہے؟
اگر آپ اس طرح کے عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات کو ”مابعدالطبیعیاتی بنیادیں“ قرار دے رہے ہیں، تو پھر بہتر تھا آپ یہ اصطلاح استعمال ہی نہ کرتے۔ کافی افسوس ہوا۔

یا شاید آپ کو اس بات کی سمجھ نہ آنے کی وجہ وہی ہے جس کا مصنف تذکرہ کرتا ہے، یعنی "فلسفیانہ مباحث سے کامل لا تعلقی اور سائنس کی مابعد الطبیعاتی بنیادوں سے کامل ناواقفیت"؟ آپ کا "ان سوالات سے کوئی غرض نہ ہونا" اس بات کی جانب تھوڑا بہت اشارہ تو کرتا ہی ہے۔ اگرچہ میں اس بارے میں کوئی فیصلہ صادر کرنے سے پہلے مزید علامات کا مشاہدہ کرنا بہتر سمجھوں گا۔
مصنف کا دعویٰ پہلے غور سے ملاحظہ فرمائیے:
ان حالات میں فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں۔
پھر دہرا دیتا ہوں کہ مجھے اس ”مابعدالطبیعیاتی نظری بنیادوں“ سے انکاری لوگ کا ثبوت چاہیے۔ سوالات سے بھری کتابوں کے لنکس تو آپ تلاش کرہی چکے ہیں۔ مزید دس کتابوں کے لنکس دے سکتا ہوں تاکہ آپ کی لائبریری میں 3 کے بجائے 13 کتابیں دستیاب ہوسکے۔

۱۔ آپ سروے کر کے دیکھ لیں۔ آپ کو کافی دلچسپ نتائج ملیں گے کہ کتنے لوگ پہلے نکتے سے بھی انکاری ہیں۔
آپ اپنے اس سروے کی بات کرے، جس کی بنیاد پر آپ یہ دعویٰ کررہے ہیں۔

۲۔ دوسرا نکتہ بھی اسی اعتراض کی ایک اور شکل ہے کہ اس سالے نے تو کچھ نہیں کیا، بس قادیانی ہونے کی وجہ سے ہی اسے نوازا گیا ہے۔
یہ نکتہ چوں کہ آپ کے غلط دعوے کو درست کرنے کے لیے الگ کیا تھا لہذا فی الحال اسے اس تناظر میں دیکھیں۔ اس سالے کو بعد میں پھر کبھی دیکھا جاسکتاہے۔ سالہ کہیں کا۔

حضرت، ایک بات تو بتائیں۔ آپ کو پرویز ہود بھائی کے حوالے سے اتنا obsession کیوں ہے کہ جہاں وہ نہ ہو، وہاں بھی وہ ہی وہ نظر آتا ہے؟
نفسیاتی مریضوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھنا ہوتاہے۔ اول فول بکتے رہتے ہیں۔ ماحول خراب ہوتا ہے۔

کہیں آپ "وحدت الپرویز ہود" پر تو یقین نہیں رکھتے؟
جہاں تک میری نظر اور عینک ساتھ دیتی ہے، اس گفتگو کی ابتداء کسی عاصم بخشی نامی شخص کے کالم سے ہوئی ہے جس کے چہرے پر مسنون داڑھی ہے اور کالم پر لگی اس کی تصویر میں اس نے شیروانی پہن رکھی ہے۔ اس کی تحاریر کا کچھ جائزہ لیا تب بھی کوئی "دیسی لبرل" والی بات نظر نہیں آئی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو براہ مہربانی تصحیح کر یں کہ
  1. کیا کالم نگار کا نام پرویز ہودبھائی ہے؟
  2. کیا کالم نگار کو کسی اور طریقے سے "دیسی لبرل" کہا جا سکتا ہے؟
  3. کیا آپ سے مختلف رائے رکھنے والا ہر شخص "دیسی لبرل" اور "پرویز ہود کا پیروکار" ہوتا ہے؟
کیا آپ کو اتنی بحثوں اور وضاحتوں کے بعد بھی یہ سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے کہ میں پرویز ہود کو کیوں شاملِ موضوع قرار دیتا ہوں؟ اگر ایسا ہی ہے، تو آپ کو معذرت کے ساتھ دونوں کے مابین پچھلے تمام متعلقہ مباحث اور مراسلے پڑھنے ہوں گے۔
جہاں تک عاصم بخشی کا تعلق ہے تو عزتِ مآب سے میرا گِلا داڑھی، شرٹ، ٹوپی، ٹائی کا نہیں، جانبدارانہ، حقائق کے منافی اور غلط فہمیوں پر مبنی موضوع سے ہے۔ آپ براہِ کرم اتنے کھلے الفاظ کے ہوتے ہوئے مافی الضمیر کو قصدا نظر انداز نہ کریں۔ اگر یہ قصدا نہیں ہے تو پھر بات تکرار تک جائے گی اور اس کے لیے پیشگی معذرت قبول فرمائیں۔
اگر آپ مصنف کے بارے میں کچھ تحقیق بھی کرلیا کریں تو آپ کا فائدہ ہوگا۔ مصنف کے تعارف کے ذیل میں انہیں بالاتفاقِ جانبین ”ہم سب“ کی طرف سے ”دیسی لبرل“ کا فخریہ خطاب دیا جاچکا ہے۔
جہاں تک میرے نزدیک دیسی لبرل کی تعریف کا تعلق ہے، تو اس کے لیے آپ ”مذہب پسند“ نامی اپنے من پسند اصطلاح سے رجوع کرسکتے ہیں۔

کافی دلچسپ اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اور کسی کمنٹ کے پلانٹڈ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ کیسے لگایا جاتا ہے؟
یہ تو آپ عاصم بخشی سے ”مذہب پسند“ کی تعریف پوچھ کر معلوم کرلیجیے۔

مسئلہ تو پھر وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ایسے لوگوں کا انتہائی قحط رہا ہے کہ جن کا سائنس و فلسفہ میں کوئی قابل ذکر کام بھی ہو اور کسی نے ان کے ایمان کو مشکوک بھی نہ قرار دیا ہو۔ بہ الفاظ دیگر وہ اپنے دور کے "لبرل" نہ شمار کیے جاتے ہوں۔
اوپر بتاچکا ہوں کہ اصل مسئلہ کہاں پر ہے۔ پوائنٹ کلئیر ہے۔ جہاں تک قحط کا تعلق ہے تو آپ اور آپ کی کمیونٹی کمر کس لیں۔ کب تک ”مذہب پسندوں“ کے پیچھے چھپ چھپ کر اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
اگر آپ اس طرح کے عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات کو ”مابعدالطبیعیاتی بنیادیں“ قرار دے رہے ہیں، تو پھر بہتر تھا آپ یہ اصطلاح استعمال ہی نہ کرتے۔
کیا آپ کو واقعی ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادیں کیا ہیں اور مضمون نگار جب کہتا ہے کہ
"سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں"
"فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں"
تو اس کا مطلب کیا ہے؟
براہ مہربانی ذرا اپنے الفاظ میں بتائیں کہ آپ اس سب سے، خصوصاً سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں سے، کیا سمجھ رہے ہیں تاکہ کچھ پتہ چلے کہ آپ کو ابہام کہاں پر درپیش ہے۔
نیز یہ بھی بتا دیں کہ آپ کی سمجھ کے مطابق "عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات" کیا ہیں اور میں ان کو مابعد الطبیعیاتی بنیادیں کیسے قرار دے رہا ہوں۔

پھر دہرا دیتا ہوں کہ مجھے اس ”مابعدالطبیعیاتی نظری بنیادوں“ سے انکاری لوگ کا ثبوت چاہیے۔
ثبوت آپ کو اسی تھریڈ کے اندر مل چکا ہے۔ اس کے بعد آپ کا مسلسل اصرار کہ ثبوت نہیں ملا، محض دو ممکنہ وجوہات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
  1. آپ کو نکتے کی سمجھ ہی نہیں آئی۔
  2. آپ ایک بار پھر حسب عادت argumentum ad nauseam کا سہارا لینا چاہتے ہیں۔

آپ اپنے اس سروے کی بات کرے، جس کی بنیاد پر آپ یہ دعویٰ کررہے ہیں۔
یوں تو میں نے دعوت آپ کو دی تھی کہ آپ اپنی مرضی کے طریقہ کار سے سروے کر کے دیکھ لیں، جس کے لیے آپ کو اردو محفل پر بھی poll جیسے ٹول دستیاب ہیں۔
لیکن چلیں آپ مجھ پر ہی ڈالنا چاہتے ہیں تو کیوں نہ میری ذاتی زندگی کے واقعات کے بجائے کہ جن پر اعتماد کا کوئی مکینزم ہمارے پاس نہیں ہو گا، کچھ پبلک کے لیے عام دستیاب تحریری ریکارڈ چھان لیا جائے؟ ختم نبوت کے نام سے چلنے والی ایک ویب سائٹ کا یہ مضمون کیسا رہے گا؟ کچھ اقتباسات:
  • "چونکہ قادیانیت مخبروں اور غداروں کا سیاسی گروہ ہے، لہٰذا اس کی سرپرستی کرتے ہوئے سامراج نے ان کے ایک فرد کو نوبیل پرائز دیا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک رشوت ہے جو یہودیوں نے قادیانیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے دی۔"
  • "دوسرے شعبوں کی طرح نوبیل انعام میں بھی یہودیوں کی اجارہ داری ہے۔ ان کا غرور، نخوت، اور تعصب کسی ایسے شخص کو خاطر میں نہیں لاتا، جو ان کی سازشوں اور مکروہ سرگرمیوں کا حامی اور آلہ کار نہ ہو۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی، یہودیوں کے اس میرٹ پر سو فیصد پورے اترتے تھے، لہٰذا انہوں نے ایک سازش کے تحت ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل انعام سے نوازا اور اس کی آڑ میں اپنے خفیہ مقاصد حاصل کیے۔"
  • "ڈاکٹر عبدالسلام کو ہیرو بنا کر پیش کرنے والے ان عقل کے اندھوں سے پوچھنا چاہیے کہ۔۔۔ اس کی کون سی ایجاد یا دریافت ہے، جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا؟ اس کا کون سا کارنامہ ہے جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچا؟ اس کی کون سی خدمت ہے، جس سے اہل پاکستان کے مسائل میں ذرا سی بھی کمی واقع ہوئی؟ اس نے کون سا ایسا تیر مارا، جس پر اسے نوبیل انعام سے نوازا گیا؟ یہ سوالات آج تک تشنہ جوابات ہیں!"
ایسی تحاریر آپ کو جا بجا پکھری پڑی ملیں گی۔ صرف ملتے جلتے الفاظ گوگل شوگل میں تلاش کر لیں۔

یہ نکتہ چوں کہ آپ کے غلط دعوے کو درست کرنے کے لیے الگ کیا تھا لہذا فی الحال اسے اس تناظر میں دیکھیں۔ اس سالے کو بعد میں پھر کبھی دیکھا جاسکتاہے۔ سالہ کہیں کا۔
پھر کچھ تسلی ہوئی کہ میرا دعوی کتنا "غلط" تھا؟

اس سب سے یاد آیا، آپ نے اپنا موقف نہ سمجھے جانے کا گلہ کرنے اور میری طرف سے اپنا موقف واضح کرنے کی دعوت کے باوجود ابھی تک اس حوالے سے اپنا موقف واضح نہیں کیا کہ آپ کے نزدیک عبد السلام کی تحقیق نوبیل کے لائق تھی یا نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ آپ دانستہ ابہام رکھ کر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں؟

نفسیاتی مریضوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھنا ہوتاہے۔ اول فول بکتے رہتے ہیں۔ ماحول خراب ہوتا ہے۔
بات آپ کی درست ہے۔ کسی نفسیاتی معالج سے پوچھنا پڑے گا کہ کسی شخص کے آپ کے حواس کے اوپر اس حد تک طاری ہو جانے کو، کہ آپ کو ہر جگہ وہی نظر آئے، نفسیاتی مرض کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔

کیا آپ کو اتنی بحثوں اور وضاحتوں کے بعد بھی یہ سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے کہ میں پرویز ہود کو کیوں شاملِ موضوع قرار دیتا ہوں؟
کیا کہہ سکتا ہوں۔ مضمون یا مضمون نگار کے ساتھ تو اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ شاید خود سے اختلاف رکھنے والوں کو اپنے حواس پر طاری کر لینا آپ کی عادت ہے اس لیے۔ یا پھر اس کا نام بیچ میں گھسیڑ دینا straw-manning کے لیے مفید رہتا ہے کہ جو چاہو اس پر تھوپ دو، کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔

جہاں تک عاصم بخشی کا تعلق ہے تو عزتِ مآب سے میرا گِلا داڑھی، شرٹ، ٹوپی، ٹائی کا نہیں، جانبدارانہ، حقائق کے منافی اور غلط فہمیوں پر مبنی موضوع سے ہے۔
حقائق کے منافی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ، سائنس و فلسفہ کو علم کہلانے کے لائق سمجھتا ہی نہیں؟ آپ خود ہی اس تھریڈ پر بھی دیکھ چکے ہیں کہ کیسے اسے "محض پیسہ کمانے کے ہنر" کے ڈبے میں بند کر دیا گیا۔ ایک اور مثال آپ کو محدث فورم پر اس تحریر میں مل جائے گی جو کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے:
علم کیا ہے؟
"اس وقت اگر ہم دنیا میں نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں کئی قسم کے علوم نظر آتے ہیں۔ سائنس، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، بینکنگ، بائیو، کیمسٹری، فزکس، ہوم اکنامکس،۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ الغرض کہ ہر شعبہ کے حوالے سے ماہرین ملتے ہیں۔ اور ان کی کتب بھی سستے داموں دکانوں اور ٹھیلوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ لوگوں کا ایک جم غفیر ان علوم پر اپنا تن من دھن لٹانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔"
یہاں تک کہ آپ دار العلوم دیوبند جیسے اداروں کے فتاوی کو دیکھ لیں تو وہ بھی دو بنیادی زمرے بناتے نظر آتے ہیں (مثال):
  1. جو علوم براہ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جڑے ہوئے ہیں، وہ در حقیقت "علم" ہے۔
  2. جن علوم کی اصل "کسب معاش" ہے، وہ فن و ہنر ہے۔
کیا دنیا میں ایسا کوئی علم وجود نہیں رکھتا کہ جو قرآن و حدیث سے براہ راست نہ بھی جڑا ہوا ہو لیکن اس کا کردار "کسب معاش" سے آگے بڑھ کر اشیاء کی حقیقت جاننے کے حوالے سے کچھ ہو؟

یہ تو آپ عاصم بخشی سے ”مذہب پسند“ کی تعریف پوچھ کر معلوم کرلیجیے۔
پوچھنے لگا تھا پھر خیال آیا کہ مضمون کے پہلے جملے میں ہی لکھا ہے،
"’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے"
آپ بہرحال میرا سوال گول کر گئے کہ پلانٹڈ کمنٹ کیا ہوتا ہے اور اس کا پتہ کیسے لگایا جاتا ہے۔

جہاں تک قحط کا تعلق ہے تو آپ اور آپ کی کمیونٹی کمر کس لیں۔ کب تک ”مذہب پسندوں“ کے پیچھے چھپ چھپ کر اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے۔
میری طرف سے آپ تسلی رکھیں۔ مجھے کمر کسے ہوئے ایک ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ نہ صرف تحریر اور لوگوں کے لیے منعقد کی گئی عملی سرگرمیوں کی صورت میں بلکہ خود کی تحقیق اور دیگر سنجیدہ نوعیت کے کام کی صورت میں بھی جو کچھ ہو سکتا ہے، کرتا رہتا ہوں۔
کیا آپ بھی اپنے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں؟
 

آصف اثر

معطل
بات آپ کی درست ہے۔ کسی نفسیاتی معالج سے پوچھنا پڑے گا کہ کسی شخص کے آپ کے حواس کے اوپر اس حد تک طاری ہو جانے کو، کہ آپ کو ہر جگہ وہی نظر آئے، نفسیاتی مرض کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔
کیا کہہ سکتا ہوں۔ مضمون یا مضمون نگار کے ساتھ تو اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ شاید خود سے اختلاف رکھنے والوں کو اپنے حواس پر طاری کر لینا آپ کی عادت ہے اس لیے۔ یا پھر اس کا نام بیچ میں گھسیڑ دینا straw-manning کے لیے مفید رہتا ہے کہ جو چاہو اس پر تھوپ دو، کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
اس کو تو آپ یہاں سے سمجھ سکتے ہیں۔ پریشان نہیں ہونا۔

نیز یہ بھی بتا دیں کہ آپ کی سمجھ کے مطابق "عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات" کیا ہیں اور میں ان کو مابعد الطبیعیاتی بنیادیں کیسے قرار دے رہا ہوں۔
عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات کا مطلب معاشرے میں پھیلا دیسی لبرلوں اور غیرلبرلوں کا وہ جم غفیر ہے، جن کی تعلیم کا مقصد محض روزی روٹی اور عہدے و مراعات ہیں۔ اور جس کو آپ بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ اس مقام پر آکر عاصم بخشی کو بجا طور پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ جو طلبہ فیلڈ میں ہیں اُن کی حالت پر رحم کھانے کے بجائے ایسے نکتے پر واویلا مچانے کی اداکاری کررہاہےکہ جس کو وہ خود ہی سمجھ نہیں سکے ہیں۔

کیا آپ کو واقعی ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادیں کیا ہیں اور مضمون نگار جب کہتا ہے کہ
"سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں"
"فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں"
تو اس کا مطلب کیا ہے؟
براہ مہربانی ذرا اپنے الفاظ میں بتائیں کہ آپ اس سب سے، خصوصاً سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں سے، کیا سمجھ رہے ہیں تاکہ کچھ پتہ چلے کہ آپ کو ابہام کہاں پر درپیش ہے۔
اس کے لیے تو فی الحال آپ ابہام دور کرکے یہ بتائیں کہ:
میری طرف سے آپ تسلی رکھیں۔ مجھے کمر کسے ہوئے ایک ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ نہ صرف تحریر اور لوگوں کے لیے منعقد کی گئی عملی سرگرمیوں کی صورت میں بلکہ خود کی تحقیق اور دیگر سنجیدہ نوعیت کے کام کی صورت میں بھی جو کچھ ہو سکتا ہے، کرتا رہتا ہوں۔
کیا آپ بھی اپنے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں؟
کیا آپ کی مذکورہ سرگرمیاں اور تحقیقات ”مابعدالطبیعیاتی بنیادوں“ سے متعلق ہیں یا نہیں۔
اگر ہیں تو بلاواسطہ یا بالواسطہ؟

حقائق کے منافی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ، سائنس و فلسفہ کو علم کہلانے کے لائق سمجھتا ہی نہیں؟ آپ خود ہی اس تھریڈ پر بھی دیکھ چکے ہیں کہ کیسے اسے "محض پیسہ کمانے کے ہنر" کے ڈبے میں بند کر دیا گیا۔
سید عمران صاحب کے مراسلے کو آپ دیکھ ہی غلط زاویۂ نظر سے رہے ہیں۔ اُن کا مقصد میری رائے میں محض وہی ہوسکتا ہے، جس کا ذکر میں اوپر عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات کے ضمن میں کرچکا ہوں۔ یعنی جو شے عفریت بن کر خالص علمی ماحول کو گہناتا چلا آرہاہے، اس کو یکسر نظر انداز کرکے محض ایک مبہم ترین پہلو کا واویلا پیٹنا حماقت کی انتہا ہے۔
یہاں یہ سوال پوچھنا برمحل رہے گا کہ کیا سید عمران صاحب کے ساتھ کوئی بھی اسلام پسند یہاں ایسا موجود ہوسکتا ہے جو قرآن کے غور وفکر کی سینکڑوں آیات کی روشنی میں اشیاء کی حقیقت جاننے اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کے لیے کی جانے والی سائنسی تحقیقات کا انکاری ہو؟

ایک اور مثال آپ کو محدث فورم پر اس تحریر میں مل جائے گی جو کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے:
علم کیا ہے؟
"اس وقت اگر ہم دنیا میں نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں کئی قسم کے علوم نظر آتے ہیں۔ سائنس، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، بینکنگ، بائیو، کیمسٹری، فزکس، ہوم اکنامکس،۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ الغرض کہ ہر شعبہ کے حوالے سے ماہرین ملتے ہیں۔ اور ان کی کتب بھی سستے داموں دکانوں اور ٹھیلوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ لوگوں کا ایک جم غفیر ان علوم پر اپنا تن من دھن لٹانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔"
پہلی بات تو یہ کہ عاصم بخشی کے دعوے کے لحاظ سے تو یہ دلیل ہی غلط ہے۔ مضمون نگار کا اگلا پیراگراف کچھ یوں شروع ہوتاہے:
کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔
کیا آپ بتا سکتےہیں کہ محدث فورم پر یہ شخصی مضمون رقم کرنے والا فرد کسی پاکستانی جامعہ کے مذکورہ تین شعبہ جات کا حاضر یا سابقہ طالب علم ہے؟ اگر نہیں تو دلیل آپ کی ضائع ہوگئی ہے۔ اگر ہاں تو اس کا ثبوت عنایت فرمائیں۔
اگر بالفرض ہم اس غلط دلیل کو بھی لے کر رونا شروع کردیں تو بھی ہمیں آنسو بہانے سے پہلے ہی مطمئن ہونا پڑے گا کہ یہاں بھی مضمون نگار اس پہلو کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ ایک ”جمِ غفیر“ ان ”علوم“ پر اپنا تن من دھن لٹانے کو تیار نظر آتا ہے۔ اور جب ہم اس جمِ غفیر کے حاصل کردہ ان علوم کے نتیجے پر غور کرتے ہیں تو اِن تمام علوم کا ماحصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔ یا محض مادیت پرستی ہے کوئی علمی انقلاب نہیں۔
جب کہ آپ کی قصداً گمراہ کن چشم پوشی سے پردہ بھی اسی مضمون کے اس پیراگراف میں اُٹھتا ہے، جس میں مضمون نگار نے واضح الفاظ میں اصل کی جانب اشارہ کیا ہے:
ْ [اس بات سے علم ہوا کہ دین اسلام دنیاوی فنون کے حصول کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کو دین کے تابع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ آج امت مسلمہ اسی نقطہ پر دھوکے کا شکار ہوئی ہے کہ امت مسلمہ کا ایک طبقہ دنیا میں ایسا مگن ہوا کہ وہ دین سے بالکل فارغ رہا اور ایک گروہ دین میں ایسا گھسا کہ دنیاوی سیادت و قیادت سے نا آشنا۔ امت افراط و تفریط کا شکار ہو گئی جبکہ علم دین اس چیز کا قطعاً حکم نہیں دیتا بلکہ اس علم کے ذریعے تو دنیا و آخرت دونوں میں بلندیاں نصیب ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:
”ان اللہ یرفع بھذالکتاب اقواما و یضع بہ آخرین“
بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو بلندیاں عطاء فرماتا ہے اور اس کو ترک کرنے کہ وجہ سے ان کو رسواکرتا ہے اور اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ملتی ہے۔“]

یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہمیں اس دیسی لبرل طبقے کو آؤٹ آف توجہ کرنا پڑے گا کہ یہ نفسیاتی مریضوں کا وہ ٹولہ ہے جسے اصل مسائل کا ادراک ہی نہیں ہوسکتا۔ جو مذہب مذہب کی چیخ وپکار کرکے سعی لاحاصل میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کررہے ہیں۔

یہاں تک کہ آپ دار العلوم دیوبند جیسے اداروں کے فتاوی کو دیکھ لیں تو وہ بھی دو بنیادی زمرے بناتے نظر آتے ہیں (مثال):
  1. جو علوم براہ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جڑے ہوئے ہیں، وہ در حقیقت "علم" ہے۔
  2. جن علوم کی اصل "کسب معاش" ہے، وہ فن و ہنر ہے۔
کیا دنیا میں ایسا کوئی علم وجود نہیں رکھتا کہ جو قرآن و حدیث سے براہ راست نہ بھی جڑا ہوا ہو لیکن اس کا کردار "کسب معاش" سے آگے بڑھ کر اشیاء کی حقیقت جاننے کے حوالے سے کچھ ہو؟
اس پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ذرا یہ بتائیں جب پہلے نکتے میں کہہ بھی دیا گیا کہ جو علوم براہِ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جُڑے ہوئے ہیں، وہ علم ہے اور جن امور کا ”اِصالۃً تعلق“ کسبِ معاش ہے وہ فن وہنر ہے۔ تو پھر اس پر اعتراض کیا ہے؟
1۔ پہلا ماتم تو یہ کرنا چاہیے کہ آپ کو قرآن کے لفظ کی ہی سمجھ نہیں۔ آپ شائد قرآن کو محض کتاب سمجھ رہے ہیں اور اس میں غور وفکر کی دعوت دینے والے سینکڑوں احکامات کو (معاذاللہ) محض الفاظ کا مجموعہ۔ تو اس صورت میں آپ جیسے صاحب کو پہلا نکتہ سمجھ آنا ناممکن ہے۔
2۔ دوسرا ماتم آپ کے تفہیم کی صلاحیت پر۔ جب اس فن و ہنر کے لیے ”اِصالۃً تعلق“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، پھر بھی اسے عمومی اور سطحی طور پر سمجھنے کی کوشش کسی بھی صاحب الرائے کا مزاج ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی امر کا اصل ہی جب کسبِ معاش ہو اور اس کا فلسفے سے کوئی تعلق نہ ہو، تو پھر آپ کے ڈسکارٹے اورمیکینکل انجنئیر میں کیا فرق رہ جاتاہے، اس کی وضاحت آپ ہی فرمائیے۔

پوچھنے لگا تھا پھر خیال آیا کہ مضمون کے پہلے جملے میں ہی لکھا ہے،
"’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے"۔ آپ بہرحال میرا سوال گول کر گئے کہ پلانٹڈ کمنٹ کیا ہوتا ہے اور اس کا پتہ کیسے لگایا جاتا ہے۔
جب جاسم محمد یہ فرض کربیٹھے کہ میں نے اپنے مؤقف کا ذکر کیے بغیرعبدالسلام کے متعلق نوبل لیکچر کو پڑھا ہی نہیں، مجھے یہ علم ہی نہیں کہ ان کے متعلق دو قوتوں کو ایک قوت سے منسوب کرنے کی تحقیق کی تشہیر ہوئی ہے، اور خود ہی وضاحت پوچھے بغیر میرے متعلق ایک غلط تشخص قائم کرکے اس طرح کے الٹے سیدھے کمنٹس کرے تو اسے آپ ہی کوئی اصطلاح دے دیجیے۔ نوازش ہوگی۔

آپ کے مراسلے میں موجود تضاد اور پچھلے دو تجربات کو سامنے رکھ کر فی الحال یہاں چند سوالات پوچھنا بہتر رہےگا۔ تاکہ تکرار در تکرار سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے قیمتی وقت کو غیرضروری دلائل پڑھ کر ضائع ہونے سے بچا سکوں۔
یوں تو میں نے دعوت آپ کو دی تھی کہ آپ اپنی مرضی کے طریقہ کار سے سروے کر کے دیکھ لیں، جس کے لیے آپ کو اردو محفل پر بھی poll جیسے ٹول دستیاب ہیں۔
لیکن چلیں آپ مجھ پر ہی ڈالنا چاہتے ہیں تو کیوں نہ میری ذاتی زندگی کے واقعات کے بجائے کہ جن پر اعتماد کا کوئی مکینزم ہمارے پاس نہیں ہو گا، کچھ پبلک کے لیے عام دستیاب تحریری ریکارڈ چھان لیا جائے؟ ختم نبوت کے نام سے چلنے والی ایک ویب سائٹ کا یہ مضمون کیسا رہے گا؟ کچھ اقتباسات:
  • "چونکہ قادیانیت مخبروں اور غداروں کا سیاسی گروہ ہے، لہٰذا اس کی سرپرستی کرتے ہوئے سامراج نے ان کے ایک فرد کو نوبیل پرائز دیا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک رشوت ہے جو یہودیوں نے قادیانیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے دی۔"
  • "دوسرے شعبوں کی طرح نوبیل انعام میں بھی یہودیوں کی اجارہ داری ہے۔ ان کا غرور، نخوت، اور تعصب کسی ایسے شخص کو خاطر میں نہیں لاتا، جو ان کی سازشوں اور مکروہ سرگرمیوں کا حامی اور آلہ کار نہ ہو۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی، یہودیوں کے اس میرٹ پر سو فیصد پورے اترتے تھے، لہٰذا انہوں نے ایک سازش کے تحت ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل انعام سے نوازا اور اس کی آڑ میں اپنے خفیہ مقاصد حاصل کیے۔"
  • "ڈاکٹر عبدالسلام کو ہیرو بنا کر پیش کرنے والے ان عقل کے اندھوں سے پوچھنا چاہیے کہ۔۔۔ اس کی کون سی ایجاد یا دریافت ہے، جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا؟ اس کا کون سا کارنامہ ہے جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچا؟ اس کی کون سی خدمت ہے، جس سے اہل پاکستان کے مسائل میں ذرا سی بھی کمی واقع ہوئی؟ اس نے کون سا ایسا تیر مارا، جس پر اسے نوبیل انعام سے نوازا گیا؟ یہ سوالات آج تک تشنہ جوابات ہیں!"
ایسی تحاریر آپ کو جا بجا پکھری پڑی ملیں گی۔ صرف ملتے جلتے الفاظ گوگل شوگل میں تلاش کر لیں۔
پھر کچھ تسلی ہوئی کہ میرا دعوی کتنا "غلط" تھا؟
اس سب سے یاد آیا، آپ نے اپنا موقف نہ سمجھے جانے کا گلہ کرنے اور میری طرف سے اپنا موقف واضح کرنے کی دعوت کے باوجود ابھی تک اس حوالے سے اپنا موقف واضح نہیں کیا کہ آپ کے نزدیک عبد السلام کی تحقیق نوبیل کے لائق تھی یا نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ آپ دانستہ ابہام رکھ کر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں؟
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ ڈاکٹر عبدالسلام کو کافر مانتے ہیں یا نہیں؟
جواب ہاں یا نہیں میں دیں۔ اگر بالفرض آپ کا جواب ”ہاں“ میں ہو، تو کیا وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتے تھے یا نہیں؟
یہ پوچھنا کیوں ضروری ہے، یہ آپ کے جواب کے بعد۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
محوِ حیرت ہوں کہ عاصم بخشی کی تحریر کون پوسٹ کر رہا ہے اور کون اس پر تبصرے کر رہا ہے!

عاصم کی فلسفیانہ تحریریں دلچسپ اور فکر انگیز ہوتی ہیں لیکن ٹرولز کو ان سے دور رہنا چاہیئے
 

الف نظامی

لائبریرین
1- معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں سیاسی و سماجی علوم کا کردار ہوتا ہے یا سائنسی علوم کا۔
موصوف کالم نگار نے سیاسی و سماجی معاملات میں مسلمانوں کے نظریات کو سائنسی علوم کی مخالفت ٹھہرا دیا۔

2- مغربی نظریہ علم epistemology اور اسلامی نظریہ علم میں فرق کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
موصوف کالم نگار نے سیاسی و سماجی معاملات میں مسلمانوں کے نظریات کو سائنسی علوم کی مخالفت ٹھہرا دیا۔
2- مغربی نظریہ علم epistemology اور اسلامی نظریہ علم میں فرق کی بنیاد وجہ کیا ہے؟
یہی تو فرق ہے:
fie-chapter2-5-728.jpg

Capture.jpg

اسلامی نظریہ میں وحی و الہام، ایمان کو علم کی حیثیت حاصل ہے۔
جبکہ مغربی نظریہ میں سائنس یا اسٹیبلشڈ فیکٹس کو ہی علم کہا جاتا ہے۔ وحی و الہام کی کوئی حیثیت نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ایک گوگل سرچ کا جواب نہیں بلکہ اس پر تحقیقی مقالہ تلاش کریں پھر آپ کی ادھوری صداقت کا ارتقا ہوگا
متعلقہ:
اسلام کا تصورِ علم
Muslim Epistemology
مقالہ کافی لمبا ہے اسے بعد میں پڑھتا ہوں۔ ان فتویٰ سے متعلق کیا کہیں گے؟ کیا یہ اسلامی نہیں ہیں؟
"اس وقت اگر ہم دنیا میں نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں کئی قسم کے علوم نظر آتے ہیں۔ سائنس، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، بینکنگ، بائیو، کیمسٹری، فزکس، ہوم اکنامکس،۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ الغرض کہ ہر شعبہ کے حوالے سے ماہرین ملتے ہیں۔ اور ان کی کتب بھی سستے داموں دکانوں اور ٹھیلوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ لوگوں کا ایک جم غفیر ان علوم پر اپنا تن من دھن لٹانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔"
یہاں تک کہ آپ دار العلوم دیوبند جیسے اداروں کے فتاوی کو دیکھ لیں تو وہ بھی دو بنیادی زمرے بناتے نظر آتے ہیں (مثال):
  1. جو علوم براہ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جڑے ہوئے ہیں، وہ در حقیقت "علم" ہے۔
  2. جن علوم کی اصل "کسب معاش" ہے، وہ فن و ہنر ہے۔
کیا دنیا میں ایسا کوئی علم وجود نہیں رکھتا کہ جو قرآن و حدیث سے براہ راست نہ بھی جڑا ہوا ہو لیکن اس کا کردار "کسب معاش" سے آگے بڑھ کر اشیاء کی حقیقت جاننے کے حوالے سے کچھ ہو؟
 
Top