فکر و نظر کا معرکہ فکر و نظر میں ہے

نیرنگ خوب کارگہِ شیشہ گر میں ہے
پر کیا شکستِ رنگ ترے سنگِ در میں ہے

ہے انتہائے عقل یہ سودا جو سر میں ہے
فکر و نظر کا معرکہ فکر و نظر میں ہے

صد کعبۂ مراد تری رہگذر میں ہے
منزل کا ہر سراغ نمازِ سفر میں ہے

کرباس تن پہ اور خیالِ حریرِ ناز
یوں صد ہزار شعلہ رگِ آستر میں ہے

یہ بھی بس اک خیال ہے وہ بھی بس اک خیال
کچھ برتری نہ عیب میں ہے نے ہنر میں ہے

کیا کیجیے کہ سہل ہے بس راہِ زندگی
اور سب نشاط سیرِ رہِ پر خطر میں ہے

حشر اس طرف اٹھا ہے کہ حشر اس طرف اٹھا؟
نظارگی میں دم ہے کہ رقصِ شرر میں ہے

یہ آب و خونِ چشم ہے افشردۂ حیات
'سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے'

ریحان گو ہے کارِ زیاں شاعری مگر
کاری طلسم اس شجرِ بے ثمر میں ہے
 
آخری تدوین:

منذر رضا

محفلین
واہ واہ محترم محمد ریحان قریشی صاحب۔ قلم توڑ دیا۔ خوب غزل۔ عمدہ اور پختہ خیالات کو حسین ترین الفاظ و تراکیب کا جامہ پہنا کر پیش کیا گیا۔
بس بندۂ کوتاہ فہم دوسرا اور چوتھا شعر سمجھ نہیں پایا۔ رہنمائی فرمائیے۔
 
واہ واہ محترم محمد ریحان قریشی صاحب۔ قلم توڑ دیا۔ خوب غزل۔ عمدہ اور پختہ خیالات کو حسین ترین الفاظ و تراکیب کا جامہ پہنا کر پیش کیا گیا۔
حسنِ نظر ہے آپ کا۔
دوسرا اور چوتھا شعر سمجھ نہیں پایا۔ رہنمائی فرمائیے۔
کچھ ژولیدہ سے ہیں اور بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
نیرنگ خوب کارگہِ شیشہ گر میں ہے
پر کیا شکستِ رنگ ترے سنگِ در میں ہے

ہے انتہائے عقل یہ سودا جو سر میں ہے
فکر و نظر کا معرکہ فکر و نظر میں ہے

صد کعبۂ مراد تری رہگذر میں ہے
منزل کا ہر سراغ نمازِ سفر میں ہے

کرباس تن پہ اور خیالِ حریرِ ناز
یوں صد ہزار شعلہ رگِ آستر میں ہے

یہ بھی بس اک خیال ہے وہ بھی بس اک خیال
کچھ برتری نہ عیب میں ہے نے ہنر میں ہے

کیا کیجیے کہ سہل ہے بس راہِ زندگی
اور سب نشاط سیرِ رہِ پر خطر میں ہے

حشر اس طرف اٹھا ہے کہ حشر اس طرف اٹھا؟
نظارگی میں جاں ہے کہ رقصِ شرر میں ہے

یہ آب و خونِ چشم ہے افشردۂ حیات
'سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے'

ریحان گو ہے کارِ زیاں شاعری مگر
کاری طلسم اس شجرِ بے ثمر میں ہے


:applause:
 

فرقان احمد

محفلین
محمد ریحان قریشی صاحب۔ اگر آپ سمجھا دیتے تو نوازش ہوتی، خیر۔ آپ کی مرضی۔ جتنی سمجھ آئی اسی کا لطف مقدر میں تھا شاید۔:)
منذر صاحب! مفہوم کافی حد تک واضح ہے۔ کِرباس موٹے سوتی کپڑے کو کہتے ہیں اور حریر، ریشم یا ریشمی کپڑے کو۔ اب پڑھیے، جناب!
 
محمد ریحان قریشی صاحب۔ اگر آپ سمجھا دیتے تو نوازش ہوتی، خیر۔ آپ کی مرضی۔ جتنی سمجھ آئی اسی کا لطف مقدر میں تھا شاید۔:)
دراصل ٹیگ لگ جاتا ہے شعر کے ساتھ کہ تشریح کے بغیر ناقابلِ فہم ہے خیر فرق تو کچھ خاص پڑتا نہیں۔ دوسرے شعر میں مشاہدے اور قیاس کے مابین اختلاف کی بابت اشارہ کرنا چاہا کہ اسے بھی صرف مشاہدے اور قیاس سے سمجھا جا سکتا ہے یعنی کچھ حد تک معاملہ پیراڈوکسِکل ہے جس میں غیر جانبدارانہ تجزیہ محال ہے اور ایک جنون کی سی کیفیت کی عکاسی کر سکتا ہے۔

چوتھے شعر میں خیال سادہ سا ہے: کرباس کی موٹائی زیادہ ہوتی ہے اور آج کل گرمیوں کا موسم ہے اوپر سے اگر ریشمی کپڑے کے خیالات ذہن میں ہوں تو گرمی اور بڑھ جاتی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دراصل ٹیگ لگ جاتا ہے شعر کے ساتھ کہ تشریح کے بغیر ناقابلِ فہم ہے خیر فرق تو کچھ خاص پڑتا نہیں۔ دوسرے شعر میں مشاہدے اور قیاس کے مابین اختلاف کی بابت اشارہ کرنا چاہا کہ اسے بھی صرف مشاہدے اور قیاس سے سمجھا جا سکتا ہے یعنی کچھ حد تک معاملہ پیراڈوکسِکل ہے جس میں غیر جانبدارانہ تجزیہ محال ہے اور ایک جنون کی سی کیفیت کی عکاسی کر سکتا ہے۔

چوتھے شعر میں خیال سادہ سا ہے: کرباس کی موٹائی زیادہ ہوتی ہے اور آج کل گرمیوں کا موسم ہے اوپر سے اگر ریشمی کپڑے کے خیالات ذہن میں ہوں تو گرمی اور بڑھ جاتی ہے۔
آپ کرباس سے مراد بدن کو ہی تو نہیں لے رہے یہ اس لیے پیچھے اگلا مصرعہ میں رگ آستر .... کچھ ایسا سمجھا رہا ہے! کچھ تصوف کی جھلک لگی
 
Top