غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
الف عین
عظیم
تسلیم لکھنوی کی زمین میں غزل کہنے کی جسارت

خط وہ رکھتا ہے پکڑ کر زیرپا ؟بالائے سر؟
دیکھتے رہنا پیمبر زیرپا بالائے سر

تیری پتھریلی گلی میں آہ شیدا کو ترے
لگتے ہیں پتھر ہی پتھر زیرپا بالائے سر

ذرہ ذرہ ہے منور ساقی تیری بزم میں
دِکھ رہے ہیں مجھ کو اختر زیرپا بالائے سر

دل تو میں نے دے دیا اب جو بھی درجہ دو اسے
ہے تری مرضی ستمگر ، زیرپا؟ بالائے سر؟

وصل کی ہو شب یا چاہے ہجر کی لمبی سی رات
کاٹتا ہے مجھ کو اجگر، زیرپا بالائے سر

تو بھی سوجا اے دوانے شب ہے، ناصح نے کہا
اوڑھ لی ہرشے نے چادر زیرپا بالائے سر

جنوری ہو جون ہو ازبسکہ جو بھی ہو انیس
آگ رہتی ہے برابر زیرپا بالائے سر
 
آخری تدوین:

انیس جان

محفلین
جلدی کیجیے استاجی ورنہ شعروں کی تعداد بڑھتی جائے گی مزید دو شعر

سایئہ طوبیٰ بھی اور مہرِ گیا بھی ہجر میں
ایک آتش ایک خنجر زیرپا بالائے سر

کانپتے ہیں چال سے کافر تری چرخ و زمیں
ہے بپا ہنگامِ محشر زیرپا بالائے سر
 

الف عین

لائبریرین
لو، ڈر کے مارے ابھی ہی آ گیا کہ مزید اشعار بالائے سر نہ آ پڑیں!
خط وہ رکھتا ہے پکڑ کر زیرپا ؟بالائے سر؟
دیکھتے رہنا پیمبر زیرپا بالائے سر
.... اس زمین میں خط کے دوسرے معنی کی طرف بھی دھیان چلا جاتا ہے! پیمبر بھی کیونکہ پیغمبر کے لیے زیادہ مستعمل ہے، اس لیے ایسے لفظ سے بھی بچنا چاہیے۔ مفہوم کے اعتبار سے بھی شعر پسند نہیں آیا، اسے بدل ہی دو

تیری پتھریلی گلی میں آہ شیدا کو ترے
لگتے ہیں پتھر ہی پتھر زیرپا بالائے سر
.... پتھر ہی پتھر کا یہاں استعمال کچھ درست نہیں لگ رہا ہے
لگ چکے ہیں کتنے پتھر..... کہا جا سکتا ہے

ذرہ ذرہ ہے منور ساقی تیری بزم میں
دِکھ رہے ہیں مجھ کو اختر زیرپا بالائے سر
....ردیف یہاں بھی فٹ نہیں لگتی، اسے بھی نکال دیں

دل تو میں نے دے دیا اب جو بھی درجہ دو اسے
ہے تری مرضی ستمگر ، زیرپا؟ بالائے سر؟
..... شتر گربہ ہو گیا، یوں بھی درجہ دینے کی بات زیادہ جمتی نہیں۔..... تو جہاں بھی رکھ اسے
یا اس قسم کا کوئی متبادل مصرع بہتر ہو گا

وصل کی ہو شب یا چاہے ہجر کی لمبی سی رات
کاٹتا ہے مجھ کو اجگر، زیرپا بالائے سر
..... یہ تو داغ اور تسلیم کا ہی شعر لگتا ہے!
یا چاہے کا 'یچاہے' بن جانا ناگوار لگتا ہے ، لمبی سی
میں سی بھی بھرتی ہے۔ یہ مصرع بدل دو

تو بھی سوجا اے دوانے شب ہے، ناصح نے کہا
اوڑھ لی ہرشے نے چادر زیرپا بالائے سر
... درست

جنوری ہو جون ہو ازبسکہ جو بھی ہو انیس
آگ رہتی ہے برابر زیرپا بالائے سر
.. درست
نئے اشعار
محترم اعجاز صاحب کا سنو شاگرد ہوں
ہے فصاحت کا سمندر زیرپا بالائے سر
.... اس شعر کو تو درست ہی کہوں گا!

سایئہ طوبیٰ بھی اور مہرِ گیا بھی ہجر میں
ایک آتش ایک خنجر زیرپا بالائے سر
... اصلی لکھنؤ کا شعر، واہ

کانپتے ہیں چال سے کافر تری چرخ و زمیں
ہے بپا ہنگامِ محشر زیرپا بالائے سر
یہ بھی درست
غزل درست ہو تب بھی اس قسم کی زمینوں میں شاعری پسند نہیں آتی مجھے۔ سارا زور ردیف نبھانے میں لگانا پڑتا ہے، اور نازک خیالی کی جگہ پہلوانی زیادہ نظر آتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
کیا خوب جملہ ہے نازک خیالی کی جگہ پہلوانی نظر آتی ہے......
ناسخ کا ایک شعر یاد آ گیا حالانکہ وہ پہلواںِ سخن نہیں پہلوانِ عشق کی بات کر رہے ہیں لیکن اظہار کی زبان پہلوانِ سخن کی ہی ہے
وہ پہلوانِ عشق ہوں ناسخ کہ بعد موت
برسوں مرے مزار پہ مگدر گھما کیے
 
Top