بڑے ہو کر کیا بنو گے، مولانا طارق جمیل

جاسم محمد

محفلین
بڑے ہو کر کیا بنو گے، مولانا طارق جمیل
20/05/2019 محمد حنیف
محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار

گزشتہ سال دینی تعلیم حاصل کرنے والے ایک ذہین بچے سے پوچھا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ اس نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا، مولانا طارق جمیل۔

لاکھوں، کروڑوں پاکستانیوں کی طرح مولانا میرے بھی پسندیدہ مبلغ ہیں۔ نہ کبھی حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں نہ دھرنا دیتے ہیں، نہ تفرقہ پھیلاتے ہیں۔ ہر طرف محبتیں پھیلاتے ہیں، مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں اور تو اور قبر کے عذاب سے بھی کم ڈراتے ہیں۔

ان کا بیان سنیں (ان کے بیان ہر خاص و عام کے لیے یوٹیوب پر موجود ہیں) تو ایسا لگتا ہے کہ گناہ گار کسی تھری ڈی سکرین پر جنت کے مناظر دیکھ رہا ہے۔ قیامت کے دن بخشش کے ایسے وعدے کرتے ہیں کہ پاپی سیٹھ بھی اپنے آپ کو جنتی سمجھنے لگتے ہیں۔ حوروں کا سراپا ایسے بیان کرتے ہیں کہ بولی وڈ کے ستارے بھی شرما کر رہ جاتے ہیں۔

مجھے ان کی محفل میں بیٹھنے کا شرف کبھی بھی حاصل نہیں ہوا۔ صرف ایک دفعہ ایئرپورٹ پر دیکھا تھا جہاں مسافر سامان والی بیلٹ پر اپنے سوٹ کیس بھول کر مولانا کے ساتھ سیلفیاں بنوا رہے تھے۔ میرا ڈرپوک دل دور سے دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔

ہجوم بڑھتا رہا لیکن محال ہے کہ ماتھے پر ایک شکن بھی آئی ہو بلکہ ان کی شریر مسکراہٹ اور شریر ہوتی گئی اور مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ مولانا علما کے شاہ رخ خان ہیں۔ کوئی اور علم دین شاید اس تشویش میں آجائے لیکن مجھے یقین ہے کہ مولانا طارق جمیل صرف مسکرا دیں گے۔

حاسدین اکثر اعتراض کرتے ہیں کہ مولانا فلمی ستاروں، کرکٹرز اور سیٹھوں سے خاص رغبت رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال کسی نے غیر ملکی دورے کے دوران ان کی تصویر پھیلائی جس میں وہ ایک بہت ہی لمبی سی لیموزین سے اتر رہے ہیں۔ کسی نے کہا اور درست کہا کہ کون سی حدیث میں لکھا ہے کہ لیموزین میں بیٹھنا منع ہے۔

اگر ان کے میزبانوں نے اتنی بڑی گاڑی بھیج دی تو وہ کیا اب یہ کہیں کہ نہیں واپس لے جاؤ میں تو سوزوکی آلٹو میں ہیٹھوں گا۔ کسی اور بدزبان نے کہا کہ اتنی بڑی بھی نہیں تھی اس میں تو ان کے حصے کی ساری حوریں بھی فٹ نہ آئیں۔

مولانا طارق جمیل گنہگاروں اور دنیا داروں کے مولانا ہیں۔ جو صالح ہیں انھیں تبلیغ کی کیا ضرورت۔ سیاسی نفرتوں میں بٹے اس معاشرے میں شاید وہ واحد عالم دین ہیں جو عمران خان کے ڈرائنگ روم میں افطاری کے بعد امامت بھی کر لیتے ہیں اور مرحومہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ بھی پڑھا لیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کو یقیناً ایسی شخصیتوں کی ضرورت ہے جو فروعی اختلافات سے بالاتر ہوکر برکتیں بانٹ سکیں۔ ریاست کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ وہ ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔ وقتاً فوقتاً دفاعی اور سویلین اداروں میں ان کا خطاب کروایا جاتا ہے۔ چند سال پہلے ایف بی آر کے سارے بڑے بڑے دفاتر میں ان کا بیان براہ راست نشر کیا گیا اور اس خطاب کے بعد ایف بی آر کے افسران کی کارکردگی یا ان کے کمیشن پر کوئی فرق پڑا ہے یا نہیں اس میں مولانا کا کوئی قصور نہیں۔

ان کا کام تھا پیغام دینا۔ اب ہمارے ایف بی آر والے بھائی ہی ایسے ہیں کہ بیان سننے کے بعد سمجھا ہو گا اتنی مقدس ہستی کی صحبت میں دو گھنٹے گزرے ہیں اب تو بخشش پکی ہے۔ ٹیکس کلیکشن جیسے دنیاوی کام میں وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔

عقیدت کے اس پس منظر میں رمضان المبارک کے مہینے میں ایک ٹی وی اینکر کے پروگرام میں مولانا نظر آئے تو جم کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد صحافی بھائی سے تھوڑی ہمدردی ہوئی کیونکہ وہ بھی دینی مسائل کے بعد مولانا سے عمران خان کی حکومت کی کارکردگی پر سوال کرنے لگے۔ مولانا نے بار بار کہا کہ انھوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

شاید پہلی دفعہ یو ٹرن کی دینی حیثیت پر بات ہوئی۔ عین دین ہے کیونکہ اگر پتہ چلے کہ غلط راستے پر ہو تو لوٹ چلو۔ مولانا نے بتایا کہ ایک دفعہ انھوں نے ٹی وی چینل کے مالک سے کہا کہ اپنے چینل پر جھوٹ بند کر دو تو اس نے کہا پھر تو چینل ہی بند ہو جائے گا۔

لیکن چینل بھی کھلا ہے اور مولانا بھی سچ بولتے ہیں۔ پروگرام کے آغاز میں ہی صحافی نے پوچھا کہ پاکستان میں اسلام کا بول بالا ہے پھر بھی ہمارے حالات ایسے کیوں ہوں؟ اس پر مولانا نے نہایت درد مندی سے فرمایا کہ دنیا کی تین بڑی طاقتیں اس لیے بڑی طاقت ہیں کہ وہاں پر انصاف ہوتا ہے۔

اپنے مرغوب عالم کو ٹوکنے کی جرات نہ مجھ میں ہے نہ صحافی بھائیوں میں۔

دنیا کی تین بڑی طاقتوں کا مولانا نے نام نہیں لیا لیکن ایک امریکہ ہے جو تاریخ کا نالائق طالب علم بھی جانتا ہے کہ قتل عام پر قائم ہوئی تھی اور سراسر ظلم پر زندہ ہے۔ روس پسپائی کے بعد پھر سپر پاور بنا پھرتا ہے۔ اس کی طاقت بھی کروڑوں لوگوں کی لاشوں پر بنی تھی اور آج کل مہا سیٹھوں کی کنیز ہے۔

چین بھی ایک بڑی طاقت ہے لیکن وہ چونکہ برادر لادین ملک ہے اور ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ وہاں مسلمانوں کو کس طرح کا انصاف میسر ہے تو اس کی بات نہیں کرتے باقی بچا بھارت تو وہاں پر انصاف کے معیار کے بارے میں مولانا اپنے مداح اور بولی وڈ اداکار عامر خان سے پوچھ لیں۔

جس طرح ہم گناہ گاروں کے لیے حکم ہے کہ دین کی بات صرف علمائے دین کو کرنے دیں (حالانکہ مولانا طارق جمیل اس طرح کی پابندی کے حامی نہیں ہیں) تو کاش ہمارے علمائے دین بھی دنیاوی معاملات پر بات کرنے سے پہلے کسی تاریخ یا سیاست کی کتاب سے رجوع کر لیا کریں۔

ورنہ ہو سکتا ہے ہم سب بڑے ہو کر مولانا طارق جمیل بن جائیں، ہم سب کی آخرت سنور جائے لیکن اس دنیا میں ہم راندۂ درگاہ ہی رہیں گے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس کالم میں کوئی قابل ذکر بات تو نظر نہیں آئی ۔ نہ مولانا کے حوالے سے نہ مصنف کے ۔ البتہ کہیں کہیں مزاحیہ ضرور ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کالم میں کوئی قابل ذکر بات تو نظر نہیں آئی ۔ نہ مولانا کے حوالے سے نہ مصنف کے ۔ البتہ کہیں کہیں مزاحیہ ضرور ہے ۔
جس طرح ہم گناہ گاروں کے لیے حکم ہے کہ دین کی بات صرف علمائے دین کو کرنے دیں (حالانکہ مولانا طارق جمیل اس طرح کی پابندی کے حامی نہیں ہیں) تو کاش ہمارے علمائے دین بھی دنیاوی معاملات پر بات کرنے سے پہلے کسی تاریخ یا سیاست کی کتاب سے رجوع کر لیا کریں۔
 

جاسمن

لائبریرین
اس کالم میں کوئی قابل ذکر بات تو نظر نہیں آئی ۔ نہ مولانا کے حوالے سے نہ مصنف کے ۔ البتہ کہیں کہیں مزاحیہ ضرور ہے ۔

کہنے والے نے بین السطور "کچھ" کہنے کی کوشش کی ہے جناب۔۔۔۔شاید ڈرتا ہے اس لیے کچھ زیادہ ہی بین کر گیا۔:)
 
کہنے والے نے بین السطور "کچھ" کہنے کی کوشش کی ہے جناب۔۔۔۔شاید ڈرتا ہے اس لیے کچھ زیادہ ہی بین کر گیا۔:)
مولانا صاحب ان دنوں کچھ ایسی گفتگو فرما رہے ہیں جو ایک سیاسی پارٹی یا موجودہ نصب شدہ حکومت (جو دن بدن مقبولیت کھوتی چلی جا رہی ہے) کو اخلاقی حمایت یا غیبی مدد مہیا کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے مولانا نے کبھی کسی حکومت یا حکمران کی اس طرح مدح سرائی نہیں کی سو کالم نگار جو ایک پائے کے صحافی ہیں وہ نپے تلے الفاظ میں یہ باور کرارہے ہیں کہ آپ کی نظریاتی وابستگی ’تبلیغی‘ جماعت سے ہے، نا کہ ’تائیدی‘ جماعت سے۔
(گئے وقتوں میں تو بس خانیوال کا ڈی سی اور ڈی پی او۔۔ یا پھر آبائی رہائش سے قریب ایک سرکاری رقبہ (جنگل) پر آبائی قبضہ برقرار رکھنے کی خواہش) ۔۔۔واللہ عالم اس بار شاید اس سے بڑھ کر کہیں اٹکے ہیں) :)
 

جاسم محمد

محفلین
اس سے پہلے مولانا نے کبھی کسی حکومت یا حکمران کی اس طرح مدح سرائی نہیں کی سو کالم نگار جو ایک پائے کے صحافی ہیں وہ نپے تلے الفاظ میں یہ باور کرارہے ہیں کہ آپ کی نظریاتی وابستگی ’تبلیغی‘ جماعت سے ہے، نا کہ ’تائیدی‘ جماعت سے۔
یعنی صحافی جن کا پیشہ ہی غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کرنا ہے، کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسلسل کسی خاص جماعت کے حق میں یا خلاف بولتے رہیں۔
جبکہ ایک معروف عالم دین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیاست سے متعلق اپنی پسند نا پسند پر کوئی تبصرہ فرمائیں ۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
گویا جاسم محمد نے ہمیں "غیبت پروگرام" میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے۔
بری بات:shameonyou:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مولانا صاحب ان دنوں کچھ ایسی گفتگو فرما رہے ہیں جو ایک سیاسی پارٹی یا موجودہ نصب شدہ حکومت (جو دن بدن مقبولیت کھوتی چلی جا رہی ہے) کو اخلاقی حمایت یا غیبی مدد مہیا کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے مولانا نے کبھی کسی حکومت یا حکمران کی اس طرح مدح سرائی نہیں کی سو کالم نگار جو ایک پائے کے صحافی ہیں وہ نپے تلے الفاظ میں یہ باور کرارہے ہیں کہ آپ کی نظریاتی وابستگی ’تبلیغی‘ جماعت سے ہے، نا کہ ’تائیدی‘ جماعت سے۔
(گئے وقتوں میں تو بس خانیوال کا ڈی سی اور ڈی پی او۔۔ یا پھر آبائی رہائش سے قریب ایک سرکاری رقبہ (جنگل) پر آبائی قبضہ برقرار رکھنے کی خواہش) ۔۔۔واللہ عالم اس بار شاید اس سے بڑھ کر کہیں اٹکے ہیں) :)
درست لیکن ایسا محض مدینے کی ریاست کے آئیکونک ماڈل کی وجہ سے ہے جس کا دعوی حکومت نے کیا۔
مولانا کا تو شیوہ یہی ہے کہ کسی کی مخالفت حتی الامکان نہیں کرتے خواہ فلم اسٹارز ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہی ان کی مقبولیت کا راز ہے ۔
کالم والے صاحب نے جتنا کچھ کہا اور جو باور کرانے کی کاشش کی وہ سب اظہر من الشمس ہی ہے۔
 
درست لیکن ایسا محض مدینے کی ریاست کے آئیکونک ماڈل کی وجہ سے ہے جس کا دعوی حکومت نے کیا۔
بصد معذرت۔۔۔۔ اگر گذشتہ 9، 10 ماہ میں مولانا موصوف ریاست مدینہ کا کچھ دیکھ پائے ہیں تو انھیں چاہیے کہ ہم عوام کو بھی دکھائیں اور اگر نا دیکھ چکنے کے بعد بھی وہ اپنے تائیدی کلمات پر قائم رہتے ہیں تو یقیناً میرے سمیت بہت بڑی عوام کو ان کی بصیرت پر حجت قائم کرنے کا موقع مل جائے گا۔
پوری دیگ چکھنے کی ضرورت کبھی نہیں رہتی ایک دانہ ساری کہانی کھول دیتا ہے۔
مولانا کا تو شیوہ یہی ہے کہ کسی کی مخالفت حتی الامکان نہیں کرتے خواہ فلم اسٹارز ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہی ان کی مقبولیت کا راز ہے ۔
۔۔۔
 

فلسفی

محفلین
میں تو اس انتظار میں ہوں جب مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کریں گے تو "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ لگانے والے مولانا کی سیاست کا جنازہ کندھوں پر رکھ کر گلی گلی واویلا کرتے دکھائی دیں گے۔ بہت پہلے ڈاکٹر قدیر خان نے جنگ میں ایک کالم لکھا تھا کہ انھیں سیاست میں آنے کو کہا جاتا ہے تو وہ یہ سوچتے ہیں کہ ابھی پاکستانی عوام ان کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن جس دن انھوں نے سیاست میں قدم رکھا تو یہی سیاست دان جو ابھی ان کے آگے بچھتے چلے جاتے ہیں، ان کے خاندان کا کٹھا چھٹا نکال کر ان کی تذلیل کے در پر ہوجائیں گے۔ اور بے چاری عوام ان کے جھانسے میں آ کر ان کی عزت اچھالے گی۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔

تحریک لبیک، تحریک انصاف کے خلاف بولے تو ن لیگ والے اس کو کیش کرتے ہیں۔ ن لیگ کے خلاف ہو تو تحریک انصاف کیش کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کے تو کیا کہنے ۔۔۔ حقیقت میں مذہبی جماعتوں کو جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس سے نہ صرف مذہب بلکہ مذہبی لیڈر شپ بری طرح بدنام ہوئی ہے۔ غیر سیاسی مذہبی جماعتوں کو بھی زبردستی گھسیٹ کر لوگ اپنے مفاد کے لیے سیاست کے گٹر میں لے آتے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے جب مولانا طارق جمیل صاحب رائے ونڈ گئے تو "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ لگانے والے ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے اور آج انہی کے مخالف۔ اسی تبلیغی جماعت کے ایک "بٹ" صاحب میاں صاحب کے ساتھ عدالت تک جاتے رہے اور ن لیگی متوالوں سے خوب داد سمیٹی۔ عجیب ذہنی غلام ہیں وہ لوگ جو اپنے نام نہاد سیاسی پنڈتوں کے ذہن سے سوچتے ہیں۔ اپنی سمجھ بوجھ کو نہ جانے کس دن کے لیے بچا کر رکھا ہے (اگر موجود ہے تو)۔ اللہ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر گذشتہ 9، 10 ماہ میں مولانا موصوف ریاست مدینہ کا کچھ دیکھ پائے ہیں تو انھیں چاہیے کہ ہم عوام کو بھی دکھائیں اور اگر نا دیکھ چکنے کے بعد بھی وہ اپنے تائیدی کلمات پر قائم رہتے ہیں تو یقیناً میرے سمیت بہت بڑی عوام کو ان کی بصیرت پر حجت قائم کرنے کا موقع مل جائے گا۔
جب معاملہ ملکی وسائل ، اندرونی مسائل اور ان کے انتظامات تک محدود ہو تو اب تک اس کی توقع کی جاسکتی تھی کہ آپ کو کچھ نظر آنا شروع ہوتا ۔ جب بات بیرونی قرضوں ، اور ان قرضوں کے اتنے خطرناک حجم کی ہو جو ملکہ سالمیت پر سوال بن جائیں تو یہ شاید کھیلن کو چاند مانگنے کے برابر ہے ۔
البتہ اس حکومت پر تنقید کے بہت سے حقیقی میدان بھی موجود ہیں مگر وہ بحث میں کم ہی آتے ہیں ۔
 

ابوعبید

محفلین
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارےپسندیدہ سیاست دان ہوں یا پسندیدہ شخصیات ۔۔ ان کے ہزاروں جھوٹ اور واہیات بے تکی باتیں کوئی نوٹ نہیں کرتا لیکن کسی عالم دین کے منہ سے ایک بات ایسی نکل جائے تو صحافی کو پورا کالم لکھنا پڑتا ہے اس کے لیے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی عالم دین کو یہ رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ انسان ہیں ۔ ان کی تمام خصلتیں انسانوں والی ہیں ۔ وہ غلط بات بھی کر سکتے ہیں ۔ ان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے حتیٰ کہ گناہ بھی ہو سکتا ہے ۔ وہ عیبوں سے پاک نہیں ہیں ۔
میں مولانا طارق جمیل کا فالوور نہیں ہوں لیکن افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہر رویے میں شدت پسند ہیں ۔
 
جب معاملہ ملکی وسائل ، اندرونی مسائل اور ان کے انتظامات تک محدود ہو تو اب تک اس کی توقع کی جاسکتی تھی کہ آپ کو کچھ نظر آنا شروع ہوتا ۔ جب بات بیرونی قرضوں ، اور ان قرضوں کے اتنے خطرناک حجم کی ہو جو ملکہ سالمیت پر سوال بن جائیں تو یہ شاید کھیلن کو چاند مانگنے کے برابر ہے ۔
البتہ اس حکومت پر تنقید کے بہت سے حقیقی میدان بھی موجود ہیں مگر وہ بحث میں کم ہی آتے ہیں ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارےپسندیدہ سیاست دان ہوں یا پسندیدہ شخصیات ۔۔ ان کے ہزاروں جھوٹ اور واہیات بے تکی باتیں کوئی نوٹ نہیں کرتا لیکن کسی عالم دین کے منہ سے ایک بات ایسی نکل جائے تو صحافی کو پورا کالم لکھنا پڑتا ہے اس کے لیے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی عالم دین کو یہ رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ انسان ہیں ۔ ان کی تمام خصلتیں انسانوں والی ہیں ۔ وہ غلط بات بھی کر سکتے ہیں ۔ ان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے حتیٰ کہ گناہ بھی ہو سکتا ہے ۔ وہ عیبوں سے پاک نہیں ہیں ۔
میں مولانا طارق جمیل کا فالوور نہیں ہوں لیکن افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہر رویے میں شدت پسند ہیں ۔
کیچڑ میں پاؤں ماریں گے تو پوشاک تو گندی ہو گی ہے۔
بدقسمتی سے جو کام مولانا نے ساری عمر نہیں کیا ، وہ کر گزرے ہیں۔
اب سیاسیوں، آزاد خیالوں، تبلیغی جماعت کے مخالفوں و دیگر مسالک کے کم پڑھے لکھوں کی ہر طرح کی الٹی سیدھی بات سننا، برداشت کرنا پڑے گی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
بدقسمتی سے جو کام مولانا نے ساری عمر نہیں کیا ، وہ کر گزرے ہیں۔
مولانا صاحب بھی ایک پاکستانی شہری ہیں۔ اور بطور ووٹر وہ اپنی ذاتی پسند، ناپسند کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی جماعت والے اب تحریک انصاف کی حمایت کرنا شروع کر دیں۔ پتا نہیں یہ غلام قوم کسی دوسرے کے دماغ کی بجائے اپنے دماغ سے سوچنا کب شروع کرے گی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہر طرح کی الٹی سیدھی بات سننا، برداشت کرنا پڑے گی۔ :)
بالکل درست ۔۔۔
اور مولانا کے لیے یہ کوئی بڑی بات بھی نہیں، ان میں اس سے کہیں زیادہ حوصلہ بلکہ مشق بھی ہے ۔
ان جیسے صحافی تو مولانا کے لیے چیونٹی اور مکھی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان جیسے صحافی تو مولانا کے لیے چیونٹی اور مکھی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عوام میں مقبول غیرسیاسی شخصیات کا سیاست پر بات کرنے سے ان کے مداحوں کی پریشانی میں اضافہ کیوں ہو جاتا ہے؟
جیسے مجھے گلوکار سلمان احمد اور جواد احمد دونوں پسند ہیں۔ البتہ سلمان احمد تحریک انصاف کے پرانے سپورٹر ہیں جبکہ جواد احمد سخت ترین ناقد۔ ایسے میں کیا مجھے جواد احمد سے اپنی پسندیدگی ختم کر دینی چاہئے؟ عوام کو سمجھنا چاہئے کہ کسی کے فطرتی ٹیلنٹ اور پیشہ ورانہ مہارت کا اس کی سیاسی وابستگی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کوئی معروف عوامی مذہبی شخصیت سیاست سے متعلق اپنی پسند ، نا پسند کا اظہار کر دے تو ان کے چاہنے والوں اور ناقدین کو آسمان سر پر نہیں اٹھانا چاہئے۔
 
Top