واٹس ایپ ہیک ہونے کی تصدیق، اسرائیلی کمپنی پر الزام

جاسم محمد

محفلین
واٹس ایپ ہیک ہونے کی تصدیق، اسرائیلی کمپنی پر الزام
199918_3051006_updates.jpg

واٹس ایپ نے اپنے ڈیڑھ ارب یوزرز کو اپنے زیر استعمال ایپس کو احتیاطی تدابیر کے طور پر اپ ڈیٹ کرنے کا کہہ دیا تھا۔

واٹس ایپ نے اعتراف کیا ہے کہ ایک اسرائیلی کمپنی نے اس کی ایپ کی سیکیورٹی کی ایک بڑی خامی کا فائدہ اٹھا کر صارفین کے فونز اور دیگر ڈیوائسز کے پیغامات اور دیگر معلومات تک رسائی حاصل کی۔

فیس بک کی ملکیتی کمپنی واٹس ایپ کا کہنا ہے کہ اس حملے کا نشانہ مخصوص صارفین تھے تاہم اس معاملے کو گزشتہ جمعے کو حل کیا جا چکا ہے۔

فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اسرائیلی سیکیورٹی فرم این ایس او گروپ نے کیا یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے واٹس ایپ نے اپنے ڈیڑھ ارب صارفین کو ایپ کو احتیاطی تدبیر کے طور پر اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایت کی۔

حفاظتی نظام میں خامی حملے کا سبب بنی؟

حملہ آوروں نے مخصوص صارفین کی ڈیوائسز پر نگرانی کا سافٹ وئیر انسٹال کرنے کے لیے واٹس ایپ وائس کالنگ فیچر کو استعمال کیا لیکن اہم بات یہ ہے کہ کال کے جواب نہ دینے کی صورت میں بھی سافٹ وئیر ڈیوائسز پر انسٹال ہو سکتا تھا اور اس قسم کی کال ڈیوائس کی کال ہسٹری سے بھی غائب ہو جاتی تھی۔

واٹس ایپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی سیکیورٹی ٹیم نے سب سے پہلے اس خامی کو پکڑا اور یہ معلومات انسانی حقوق کی تنظیموں، منتخب شدہ سیکیورٹی وینڈرز اور امریکی محکمہ انصاف سے رواں مہینے شیئر کیں۔

این ایس او کا سافٹ وئیر "پیگاسز" کسی بھی ڈیوائس سے ڈیٹا لے سکتا ہے جس میں مائیکرو فون، کیمرہ کا استعمال اور لوکیشن بھی شامل ہے۔

اسرائیلی کمپنی این ایس او کا کہنا ہے کہ اس کا سافٹ وئیر صرف حکومتی ایجنسیاں ہی جرائم اور دہشت گردی کے خلاف استعمال کرنے کا حق رکھتی ہیں۔

کمپنی کا مزید کہنا تھا کہ وہ خود یہ سسٹم استعمال نہیں کرتی اور بہت سی انتظامی تصدیق کے بعد عوامی مفاد میں کیے جانے والے مشنز میں اس کے استعمال کی اجازت دی جاتی ہے اور ضررورت محسوس ہونے پر ضروری کاروائی کی جائے گی جس میں سسٹم کو مکمل طور پر بند کر دینا بھی شامل ہے۔

واٹس ایپ کا کہنا ہے کہ یہ حملے پہلے سے طے شدہ اہداف پر کیے گئے تھے، لیکن اس سلسلے میں یہ بتانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اس کی زد میں آئے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آج اس خبر کے تبصرے میں بقول میرے ایک فلسطینی دوست کے
" کیا خبر اس ورژن میں ولنریبلٹی فکس کی گئی ہے یا بنائی گئی ہے" ۔ :) :) :)
 

جاسم محمد

محفلین
جانتا ہوں۔ مافی الضمیر کو سمجھو۔
آج اس خبر کے تبصرے میں بقول میرے ایک فلسطینی دوست کے
" کیا خبر اس ورژن میں ولنریبلٹی فکس کی گئی ہے یا بنائی گئی ہے" ۔ :) :) :)

اسرائیل کیوں وٹس ایپ ہیک کرنے کی ٹیکنالوجی عرب ملکوں کو دے رہا ہے؟
15/05/2019 بی بی سی n/b Views

پال دانهار - بیورو چیف واشنگٹن، بی بی سی

106964874_afp.jpg

AFP
اخبار فائنینشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیکرز نے واٹس ایپ کی سکیورٹی میں پائی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند صارفین کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز تک رسائی حاصل کر کے ان میں نگرانی کے سافٹ ویئر انسٹال کیے۔

اس حملے کی تصدیق واٹس ایپ نے بھی کی اور تسلیم کیا کہ کچھ ’مخصوص صارفین‘ کو نشانہ بنایا گیا ۔اطلاعات کے مطابق یہ حملہ ایک اسرائیلی سکیورٹی فرم ’این ایس او گروپ‘ کی جانب سے بنائے گئے سافٹ ویئر سے کیا گیا ہے۔

اب اس سارے معاملے میں کڑیاں ملانے کا وقت ہے۔

واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کی کڑیاں ہیں اور مشرق وسطیٰ میں تنازع کے مرکزی کردار اسرائیل، ایران اور سعودی عرب ہیں۔

106964988_053943318.jpg

AFP
واٹس ایپ حملے میں ہوا کیا تھا؟
فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ہیکرز نے واٹس ایپ کی وائس کال سروس کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کے آلات کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں کال نہ بھی اٹھائی جائے تو بھی سافٹ ویئر انسٹال ہو جائے گا اور فون سے اس کال کا ریکارڈ بھی غائب ہو جائے گا۔

واٹس ایپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی سکیورٹی ٹیم نے پہلے اس خامی کی شناخت کی جس کے بعد یہ معلومات انسانی حقوق کی تنظیموں، چند سکیورٹی فرموں اور امریکی محکمہ داخلہ کو بھی دی گئیں۔

کمپنی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’اس حملے میں اس نجی کمپنی کی مہرِ تصدیق موجود ہے جو حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے جاسوسی کے نظام پر کام کرتی ہے جو موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم پر قابو پا لیتا ہے۔‘

فرم نے سکیورٹی کے ماہرین کے لیے ہدایات بھی شائع کیں جس میں ان خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

جبکہ اسرائیلی این ایس او گروپ، جو ماضی میں ’سائبر آرمز ڈیلرز‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا، کا ایک بیان میں کہنا تھا ’این ایس او کی ٹیکنالوجی لائسنس یافتہ ہے اور اسے حکومتوں اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے کا اختیار ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ادارہ اس سسٹم کو نہیں چلاتا اور لائسنسنگ اور چھانٹی کے کڑے مراحل کے بعد خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ عوامی تحفظ کے مشن کے دوران کیسے ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے۔ ہم غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو کارروائی بھی کرتے ہیں جس میں نظام کی بندش بھی شامل ہے۔‘

اسرائیلی فوج اور این ایس او گروپ
اسرائیلی فوج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ اسرائیل کے بہت سے صنعتی کاروباری اداروں کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ جو تعلق ان کا قومی فرض ادا کرنے کے دوران قائم ہوتا ہے وہ تاحیات قائم رہتا ہے۔

106964806__106959499_gettyimages-163658237.jpg

Getty Images
اسرائیلی فوج ہر سال نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے اور جب وہ فوج چھوڑتے ہیں تو وہ تمام مہارت اور تعلقات جو انھوں نے فوج میں کام کے دوران بنائے، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں
ایک نوجوان شخص کی زندگی میں یہ سب سے اہم وقت ہوتا ہے جو اس پر یونیورسٹی کی تعلیم سے بھی زیادہ اثر چھوڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا مخصوص گروہ ہے، جو کہ اسرائیلی فوج میں کام کرنے والوں کا خاص گروپ ہے۔

اسرائیلی فوج ہر سال نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے۔ ان کی سب سے اہم طاقت کا اندازہ لگاتے ہی اور ان کو اس جگہ بھیج دیتی ہے جہاں وہ قومی خدمت سے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہوں۔

وہ کمپیوٹر ماہر جو ویسے تو ہر وقت اپنے گھروں کے تہہ خانوں میں بند رہتے ہیں، انھیں قومی خدمت کے لیے سائبر جنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اور جب وہ اسرائیلی فوج چھوڑتے ہیں تو وہ تمام مہارت اور تعلقات جو انھوں نے فوج میں کام کے دوران بنائے انڈسٹریل سیکٹر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وہاں وہ این ایس او گروپ جیسی کمپنیاں بناتے ہیں۔

این ایس او گروپ ہیکنگ کے سافٹ ویئرز بناتی ہے اور اسے حکومتوں کو بیچتی ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔

106964799__106955907_gettyimages-1143386128.jpg

Getty Images
واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش کرنا، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کے کردار ہیں
مگر یہ بھی اہم ہے کہ ان کو اس ٹیکنالوجی کو دیگر ممالک کو بیچنے کا برآمدی لائسنس اسرائیلی حکومت سے صرف اس صورت میں ملتا ہے جب یہ باور ہو جائے کہ اس کی فروخت سے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔

اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ایران اور خلیجی ممالک کو اس کی فروخت نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں خلیجی ریاستوں کا فلسطین اسرائیل تنازع میں اسرائیل کے خلاف ہونا ہے۔

عرب سپرنگ کے بعد خلیجی ریاستوں (ماسوائے قطر) نے مسئلہ فلسطین کو ترک کر دیا اور ایران کے خلاف اسرائیل کی طرف ہو گئے۔

اس سست رفتار تبدیلی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور ان کی جانب سے اپنی انتظامیہ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مشیر قومی سلامتی جون بولٹن جیسے متعدد ایران مخالف نمائندوں کی تعیناتی سے تیز کر دیا تھا۔

اس متعلق بہت سی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے خلیج میں اپنے نئے دوستوں سے تعلقات بنانے کے لیے این ایس او گروپ کو اپنے ان ہیکنگ سافٹ ویئرز کو خلیجی ممالک کو بیچنے کی اجازت دی ہو گی۔

اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ اطلاعات کے مطابق اس واٹس ایپ ہیکنگ حملہ کا نشانہ بننے والے وہ وکلا تھے جو خلیجی ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔ جن میں ایک سعودی نژاد اور دوسرا قطری شہری ہے۔

106964797__106655593_gettyimages-686179824.jpg

Getty Images
ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں
ایران سے سالمیت کو خطرہ
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا واحد مقصد ایران کو محدود کرنا بنا لیا ہے۔ اور وہ اسے اسرائیل کی سالمیت کے لیے واحد خطرہ قرار دیتے ہیں۔

سعودی حکمرانوں کو دو خطرات کا سامنا ہے، ایک بیرونی اور ایک اندرونی۔ بیرونی خطرے میں ایران جبکہ اندرونی خطرہ اخوان المسلمین سے ہے۔

سعودی حکمران ایران کی فوجی قوت سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ اخوان المسلمین سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان کی حکمرانی کے متبادل کے طور پر سیاسی اسلام پیش کرتے ہیں.

ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں۔

لہٰذا، اس نئی ’اناؤں کی جنگ کے محور‘ میں سب ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے خود کو مجموعی طور پر ایران کے خلاف مکمل طور پر متحد کر رہے ہیں.

بہت سی تجارت ہو رہی ہے
کچھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، کچھ تیل اور گیس کی قیمت میں ملوث ہیں اور چند سیاسی تجارت میں مصروف ہیں جیسا کہ امریکہ سعودی عرب کے لیے کر رہا ہے جب اس نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی۔

106964870_epa.jpg

EPA
اب وہی ہو رہا ہے جو عراق پر حملے سے قبل ہوا تھا۔ جو بھی خفیہ معلومات ایران کے خلاف گھما پھرا کر استعمال کی جا سکتیں ہیں انھیں ایران پر دباؤ یا قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

حالات بھی ویسے ہی بنائے جا رہے ہیں جیسے عراق جنگ کے وقت بنائے گئے تھے۔

اب فرق یہ ہے کہ اُس وقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش تھے جو اس جزوی نظریے کے حامی تھے کہ یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لائیں۔ اور اس میں صدام حسین کو نکالنا شامل تھا۔

مگر امریکہ کے موجودہ صدر بالکل بھی نظریاتی شخصیت کے مالک نہیں۔ ان کے دور صدارت میں امریکی سیاست لین دین کے تعلق پر چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی خارجہ امور پالیسی میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ ہے اور اگر انھیں اکسایا نہ جائے تو وہ مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع نہیں کریں گے۔

اس کے لیے تہران پر کسی بہت برا الزام لگانے ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ انٹیلی جنس جمع کرنا ہے اور انٹیلی جنس جمع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اتحادیوں کے لیے خطے کے بہت سے لوگوں پر جاسوسی کرنے کی کوشش کریں۔

ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ٹروجن ہارس نامی وائرس کی مدد سے ہمارے سمارٹ فونز ہیک کرنا ہے جن کو ہم سب رضاکارانہ طور پر ساتھ لیے گھومتے ہیں۔

نامہ نگار پال دانهار واشنگٹن میں بی بی سی امریکہ کے بیورو ایڈیٹر ہیں اور سنہ 2010 سے 2013 کے درمیان بی بی سی مشرق وسطی کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
اسرائیل کیوں وٹس ایپ ہیک کرنے کی ٹیکنالوجی عرب ملکوں کو دے رہا ہے؟
15/05/2019 بی بی سی n/b Views

پال دانهار - بیورو چیف واشنگٹن، بی بی سی

106964874_afp.jpg

AFP
اخبار فائنینشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیکرز نے واٹس ایپ کی سکیورٹی میں پائی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند صارفین کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز تک رسائی حاصل کر کے ان میں نگرانی کے سافٹ ویئر انسٹال کیے۔

اس حملے کی تصدیق واٹس ایپ نے بھی کی اور تسلیم کیا کہ کچھ ’مخصوص صارفین‘ کو نشانہ بنایا گیا ۔اطلاعات کے مطابق یہ حملہ ایک اسرائیلی سکیورٹی فرم ’این ایس او گروپ‘ کی جانب سے بنائے گئے سافٹ ویئر سے کیا گیا ہے۔

اب اس سارے معاملے میں کڑیاں ملانے کا وقت ہے۔

واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کی کڑیاں ہیں اور مشرق وسطیٰ میں تنازع کے مرکزی کردار اسرائیل، ایران اور سعودی عرب ہیں۔

106964988_053943318.jpg

AFP
واٹس ایپ حملے میں ہوا کیا تھا؟
فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ہیکرز نے واٹس ایپ کی وائس کال سروس کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کے آلات کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں کال نہ بھی اٹھائی جائے تو بھی سافٹ ویئر انسٹال ہو جائے گا اور فون سے اس کال کا ریکارڈ بھی غائب ہو جائے گا۔

واٹس ایپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی سکیورٹی ٹیم نے پہلے اس خامی کی شناخت کی جس کے بعد یہ معلومات انسانی حقوق کی تنظیموں، چند سکیورٹی فرموں اور امریکی محکمہ داخلہ کو بھی دی گئیں۔

کمپنی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’اس حملے میں اس نجی کمپنی کی مہرِ تصدیق موجود ہے جو حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے جاسوسی کے نظام پر کام کرتی ہے جو موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم پر قابو پا لیتا ہے۔‘

فرم نے سکیورٹی کے ماہرین کے لیے ہدایات بھی شائع کیں جس میں ان خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

جبکہ اسرائیلی این ایس او گروپ، جو ماضی میں ’سائبر آرمز ڈیلرز‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا، کا ایک بیان میں کہنا تھا ’این ایس او کی ٹیکنالوجی لائسنس یافتہ ہے اور اسے حکومتوں اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے کا اختیار ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ادارہ اس سسٹم کو نہیں چلاتا اور لائسنسنگ اور چھانٹی کے کڑے مراحل کے بعد خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ عوامی تحفظ کے مشن کے دوران کیسے ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے۔ ہم غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو کارروائی بھی کرتے ہیں جس میں نظام کی بندش بھی شامل ہے۔‘

اسرائیلی فوج اور این ایس او گروپ
اسرائیلی فوج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ اسرائیل کے بہت سے صنعتی کاروباری اداروں کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ جو تعلق ان کا قومی فرض ادا کرنے کے دوران قائم ہوتا ہے وہ تاحیات قائم رہتا ہے۔

106964806__106959499_gettyimages-163658237.jpg

Getty Images
اسرائیلی فوج ہر سال نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے اور جب وہ فوج چھوڑتے ہیں تو وہ تمام مہارت اور تعلقات جو انھوں نے فوج میں کام کے دوران بنائے، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں
ایک نوجوان شخص کی زندگی میں یہ سب سے اہم وقت ہوتا ہے جو اس پر یونیورسٹی کی تعلیم سے بھی زیادہ اثر چھوڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا مخصوص گروہ ہے، جو کہ اسرائیلی فوج میں کام کرنے والوں کا خاص گروپ ہے۔

اسرائیلی فوج ہر سال نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے۔ ان کی سب سے اہم طاقت کا اندازہ لگاتے ہی اور ان کو اس جگہ بھیج دیتی ہے جہاں وہ قومی خدمت سے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہوں۔

وہ کمپیوٹر ماہر جو ویسے تو ہر وقت اپنے گھروں کے تہہ خانوں میں بند رہتے ہیں، انھیں قومی خدمت کے لیے سائبر جنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اور جب وہ اسرائیلی فوج چھوڑتے ہیں تو وہ تمام مہارت اور تعلقات جو انھوں نے فوج میں کام کے دوران بنائے انڈسٹریل سیکٹر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وہاں وہ این ایس او گروپ جیسی کمپنیاں بناتے ہیں۔

این ایس او گروپ ہیکنگ کے سافٹ ویئرز بناتی ہے اور اسے حکومتوں کو بیچتی ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔

106964799__106955907_gettyimages-1143386128.jpg

Getty Images
واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش کرنا، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کے کردار ہیں
مگر یہ بھی اہم ہے کہ ان کو اس ٹیکنالوجی کو دیگر ممالک کو بیچنے کا برآمدی لائسنس اسرائیلی حکومت سے صرف اس صورت میں ملتا ہے جب یہ باور ہو جائے کہ اس کی فروخت سے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔

اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ایران اور خلیجی ممالک کو اس کی فروخت نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں خلیجی ریاستوں کا فلسطین اسرائیل تنازع میں اسرائیل کے خلاف ہونا ہے۔

عرب سپرنگ کے بعد خلیجی ریاستوں (ماسوائے قطر) نے مسئلہ فلسطین کو ترک کر دیا اور ایران کے خلاف اسرائیل کی طرف ہو گئے۔

اس سست رفتار تبدیلی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور ان کی جانب سے اپنی انتظامیہ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مشیر قومی سلامتی جون بولٹن جیسے متعدد ایران مخالف نمائندوں کی تعیناتی سے تیز کر دیا تھا۔

اس متعلق بہت سی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے خلیج میں اپنے نئے دوستوں سے تعلقات بنانے کے لیے این ایس او گروپ کو اپنے ان ہیکنگ سافٹ ویئرز کو خلیجی ممالک کو بیچنے کی اجازت دی ہو گی۔

اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ اطلاعات کے مطابق اس واٹس ایپ ہیکنگ حملہ کا نشانہ بننے والے وہ وکلا تھے جو خلیجی ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔ جن میں ایک سعودی نژاد اور دوسرا قطری شہری ہے۔

106964797__106655593_gettyimages-686179824.jpg

Getty Images
ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں
ایران سے سالمیت کو خطرہ
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا واحد مقصد ایران کو محدود کرنا بنا لیا ہے۔ اور وہ اسے اسرائیل کی سالمیت کے لیے واحد خطرہ قرار دیتے ہیں۔

سعودی حکمرانوں کو دو خطرات کا سامنا ہے، ایک بیرونی اور ایک اندرونی۔ بیرونی خطرے میں ایران جبکہ اندرونی خطرہ اخوان المسلمین سے ہے۔

سعودی حکمران ایران کی فوجی قوت سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ اخوان المسلمین سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان کی حکمرانی کے متبادل کے طور پر سیاسی اسلام پیش کرتے ہیں.

ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں۔

لہٰذا، اس نئی ’اناؤں کی جنگ کے محور‘ میں سب ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے خود کو مجموعی طور پر ایران کے خلاف مکمل طور پر متحد کر رہے ہیں.

بہت سی تجارت ہو رہی ہے
کچھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، کچھ تیل اور گیس کی قیمت میں ملوث ہیں اور چند سیاسی تجارت میں مصروف ہیں جیسا کہ امریکہ سعودی عرب کے لیے کر رہا ہے جب اس نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی۔

106964870_epa.jpg

EPA
اب وہی ہو رہا ہے جو عراق پر حملے سے قبل ہوا تھا۔ جو بھی خفیہ معلومات ایران کے خلاف گھما پھرا کر استعمال کی جا سکتیں ہیں انھیں ایران پر دباؤ یا قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

حالات بھی ویسے ہی بنائے جا رہے ہیں جیسے عراق جنگ کے وقت بنائے گئے تھے۔

اب فرق یہ ہے کہ اُس وقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش تھے جو اس جزوی نظریے کے حامی تھے کہ یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لائیں۔ اور اس میں صدام حسین کو نکالنا شامل تھا۔

مگر امریکہ کے موجودہ صدر بالکل بھی نظریاتی شخصیت کے مالک نہیں۔ ان کے دور صدارت میں امریکی سیاست لین دین کے تعلق پر چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی خارجہ امور پالیسی میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ ہے اور اگر انھیں اکسایا نہ جائے تو وہ مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع نہیں کریں گے۔

اس کے لیے تہران پر کسی بہت برا الزام لگانے ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ انٹیلی جنس جمع کرنا ہے اور انٹیلی جنس جمع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اتحادیوں کے لیے خطے کے بہت سے لوگوں پر جاسوسی کرنے کی کوشش کریں۔

ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ٹروجن ہارس نامی وائرس کی مدد سے ہمارے سمارٹ فونز ہیک کرنا ہے جن کو ہم سب رضاکارانہ طور پر ساتھ لیے گھومتے ہیں۔

نامہ نگار پال دانهار واشنگٹن میں بی بی سی امریکہ کے بیورو ایڈیٹر ہیں اور سنہ 2010 سے 2013 کے درمیان بی بی سی مشرق وسطی کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں۔
مصنف نے یہاں دو تناظر میں بات کی ہے۔ مشترکہ ایران مخالف بیانیہ اور عرب سپرنگ کے خوف سے حکومت مخالف عرب صحافیوں اور اکٹیوسٹس کی جاسوسی۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔

آپ کا اس کالم کو یہاں پوسٹ کرنے کے پیچھے کیا مدعا ہے؟
 

آصف اثر

معطل
ما فی الضمیر سے میرا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل پر الزام لگانا مضحکہ خیز ہے۔ یہ کمپنیاں اسرائیلی ماہرین ہی کے تعاون سے چلتی ہے۔ الگورتھم سے لے کر پروگرامنگ تک یہودی انجینئر اس پروسس میں شامل ہوتے ہیں۔ جب کہ جدا گانہ اداروں کا کوئی حساب نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کا اس کالم کو یہاں پوسٹ کرنے کے پیچھے کیا مدعا ہے؟
یہی کہ اس وقت اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک ایک پیج پر ہیں۔ دونوں کے مفادات برابر ہو چکے ہیں۔ اور ان کے حصول کیلئے وہ ہر قسم کے متنازعہ اقدامات جیسے واٹس ایپ ہیکنگ سے دریغ نہیں کر رہے ۔ بلکہ اس معاملہ میں ایک دوسرے کو خفیہ ٹیکنالوجیز فراہم کر رہے ہیں۔
امت مسلمہ کو یہ دن بھی دیکھنا تھا۔
 

آصف اثر

معطل
بلکہ اس معاملہ میں ایک دوسرے کو ٹیکنالوجیز فراہم کر رہے ہیں۔
مدد فراہم کررہے ہیں۔ حالاں کہ مدد کا لفظ بھی مبالغہ ہوگا۔ البتہ ورک فورس عرب ایجنسیوں کا استعمال ہوگا۔ جیسا کہ شام عراق میں ٹیکنالوجی اور تکنیکی تعاون امریکی جب کہ افرادی قوت ایرانی استعمال کی گئی۔
 
Top