پاکستان سٹیزن پورٹل ایپلی کیشن کی ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں دوسری پوزیشن

جاسم محمد

محفلین
زبردست!
ماشاءاللہ اور الحمداللہ۔
طالبہ لاپتہ کیس: وزیراعظم کو 'گمراہ' کرنے کی کوشش پر ڈی آئی جی لاہور برطرف
Apr 14, 2019 | 23:37
news-1555260643-2374.png


اسلام آباد:وزیراعظم عمران خان کو لاپتہ طالبہ کے مقدمہ کے حوالے سے 'دھوکا' دینے کی کوشش پر ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور ڈاکٹر انعام وحید کوعہدے سے برطرف کردیا گیا، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ان کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا ہے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک نجی یونیورسٹی کی طالبہ کی گمشدگی کے کیس میں ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور ڈاکٹر انعام سے رپورٹ طلب کی گئی تھی۔ کیس کے حوالے سے انھوں نے وزیراعظم عمران خان کو 'گمراہ' کرنے کی کوشش کی جس پرڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور ڈاکٹر انعام کو عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔
وزیراعلی عثمان بزدار نے اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل اعجاز شاہ کو معاملے پر انکوائری مکمل کرکے ایک ہفتے کے اندر رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دے دیاہے۔خیال رہے کہ ڈی آئی جی کے خلاف لاپتہ طالبہ کی والدہ پی ایم پورٹل میں شکایت درج کرائی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی 19سالہ بیٹی 5 ماہ قبل لاپتہ ہوگئی تھیں اور ان کی بازیاب کرانے کے بجائے ڈی آئی جی نے ان سے بدتمیزی کی۔رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے رائیونڈ روڈ سے یونیورسٹی کی طالبہ کی گم شدگی سے متعلق ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور کی جانب سے دیے گئے عام سے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ طالبہ4نومبر کو اپنے گھر سے یونیورسٹی کے لیے نکلی تھیں جس کے بعد وہ لاپتہ ہیں اور ان کی والدہ مقامی تھانے کے کئی چکر لگاچکی ہیں اور سینئر پولیس افسران سے بھی رابطہ کیا لیکن کوئی حل نہیں نکلا۔ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ طالبہ کی والدہ نے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے بھی ملاقات کی تھی اور انہوں نے مقدمہ درج کرکے طالبہ کو فوری بازیاب کرانے کا حکم دیا تھا۔عہدیدار کا کہنا تھا کہ مقدمے کے اندراج کے بعد ڈی آئی جی نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور جھوٹی رپورٹ کے ذریعے اس وقت کے چیف جسٹس کو بھی گمراہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ طالبہ کی والدہ نے 19 فروری کو وزیراعظم کے شکایت کے پورٹل میں شکایت درج کرادی تھی جس کے بعد وزیراعظم نے آئی جی کو لڑکی کی بازیابی کے لیے سخت احکامات صادر کیے تھے۔
کیس کی تفصیلات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ڈی آئی جی نے ایک مرتبہ پھر جھوٹی رپورٹ جمع کر کے اعلی حکام کو دھوکا دیا اور کہا کہ لڑکی اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر جاچکی ہیں۔
ڈی آئی جی کے رویے پر خاتون نے وزیراعظم کے اسٹاف افسر کو آگاہ کا کہ پولیس نے ان کے بیٹے اور قریبی رشتہ داروں کو اٹھایا اور تھانے لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا جس پر وزیراعظم نے آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو سخت احکامات دیے کہ طالبہ کو 29مارچ تک بازیاب کروایا جائے۔بعد ازاں پولیس نے 26مارچ کو طالبہ کو بازیاب کرایا اور ڈی آئی جی نے اعلی حکام کو رپورٹ دی کہ لڑکی کو اسلام آباد کے ایک نجی ہوسٹل سے بازیاب کروا کر دارالامان بھیجوانے کا حکم دیا گیا ہے۔طالبہ کی والدہ نے وزیراعظم سے شکایت کی کہ ڈی آئی جی ان کی بیٹی کو خاندان کے حوالے نہیں کررہے ہیں جس پر وزیراعظم عمران خان نے سینئر پولیس افسر کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔
----
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آخر ایسے کونسے جرنیل، برگیڈیئر، لیفٹیننٹ، میجر، کیپٹن نے پنجاب پولیس کو اس نہج تک پہنچایا کہ اب یہ چیف جسٹس پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان سے بھی سرعام جھوٹ بولنے لگی ہے؟
 
----
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آخر ایسے کونسے جرنیل، برگیڈیئر، لیفٹیننٹ، میجر، کیپٹن نے پنجاب پولیس کو اس نہج تک پہنچایا کہ اب یہ چیف جسٹس پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان سے بھی سرعام جھوٹ بولنے لگی ہے؟

آپ کو اعتراض جھوٹ بولنے پر ہے یا سرعام جھوٹ بولنے پر ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کو اعتراض جھوٹ بولنے پر ہے یا سرعام جھوٹ بولنے پر ہے؟
دونوں۔ اخلاقی پستی کی انتہا ہے ویسے کہ ۲۰ کروڑ عوام کا منصف اعظم اور پھر وزیر اعظم ایک عام مظلوم پاکستانی کی فریاد پر فوری انصاف دلانے کا حکم صادر کرتا ہے۔ اور موقع پر موجود ریاست پاکستان کا ادنی سا ملازم بجائے اس پر عمل درآمد کرنے کے جھوٹ پہ جھوٹ بول کر معاملہ دبانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ تو خیر ایک پولیس آفیسر ہے جو شومئی قسمت گرفت میں آگیا۔ ایسے کتنے اور ہیں جو عوام کی خدمت کی بجائے محکمہ پر سانپ بن کر بیٹھے غریب و لاچار عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ اور پھر اوپر سے سرکاری خزانے سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔ نہ یہ عوام کے محافظ ہیں نہ قومی خزانے کے۔ ان چنداں برطرفیوں اور تبادلوں سے کام نہیں چلے گا۔ نظام کی اصلاح کیلئے پورا اخلاقی کلچر بدلنا پڑے گا۔ جتنا وقت لگا کر یہ اس نہج تک پہنچایا گیا ہے۔ اتنا ہی وقت اسے ٹھیک کرنے میں لگے گا۔
 
دونوں۔ اخلاقی پستی کی انتہا ہے ویسے کہ ۲۰ کروڑ عوام کا منصف اعظم اور پھر وزیر اعظم ایک عام مظلوم پاکستانی کی فریاد پر فوری انصاف دلانے کا حکم صادر کرتا ہے۔ اور موقع پر موجود ریاست پاکستان کا ادنی سا ملازم بجائے اس پر عمل درآمد کرنے کے جھوٹ پہ جھوٹ بول کر معاملہ دبانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ تو خیر ایک پولیس آفیسر ہے جو شومئی قسمت گرفت میں آگیا۔ ایسے کتنے اور ہیں جو عوام کی خدمت کی بجائے محکمہ پر سانپ بن کر بیٹھے غریب و لاچار عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ اور پھر اوپر سے سرکاری خزانے سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔ نہ یہ عوام کے محافظ ہیں نہ قومی خزانے کے۔ ان چنداں برطرفیوں اور تبادلوں سے کام نہیں چلے گا۔ نظام کی اصلاح کیلئے پورا اخلاقی کلچر بدلنا پڑے گا۔ جتنا وقت لگا کر یہ اس نہج تک پہنچایا گیا ہے۔ اتنا ہی وقت اسے ٹھیک کرنے میں لگے گا۔

منصف اور وزیراعظم خود درجہ اول کے جھوٹ بولنے والے ہیں۔ کبھی اپنے جھوٹوں کو سیاسی بیان کہا اور کبھی یو ٹرن۔ ایسے میں پولیس والے نے کیا برا کیا؟ اپنی پہلی رپورٹ سے یوٹرن لے لے۔ خلاص۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
اس پورٹل کو چلانے والی ٹیم اچھی خاصی متحرک ہے جو خوش آئند بات ہے۔ اس طرح کے مثبت کاموں سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا ہے۔
 

فلسفی

محفلین
کرپشن سے زیادہ خطرناک کام روایتی بدنیت نااہل سیاستدانوں نے جو کیا ہے وہ اس ملک کے اداروں کی تباہ کاری ہے۔ پولیس جیسے محکمے میں جرائم پیشہ لوگوں کو بھرتی کر رکھا ہے (میں ذاتی طور پر اس کامشاہدہ کر چکا ہوں، بلکہ جھیل چکا ہوں۔) جب تک اس گند کو صاف نہ کیا جائے، نظام کا درست سمت میں چلنا انتہائی مشکل، بلکہ شاید ناممکن ہے۔ آہ کیسے کیسے جانور نما انسان ہیں کہ لوگوں کے معصوم بچوں اور عزتوں تک کا سودا کرتے نہیں جھجکتے، حالانکہ اللہ پاک نے ان پولیس والوں کو حفاظت کی ذمے داری پر معمور کیا ہے۔ ایسے لوگ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں۔ ایسے معاملات میں سیاست کے بجائے حق اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل پر اداروں کی غلط بیانی کی تحقیقات کا حکم
ویب ڈیسک بدھ 20 مئ 2020
2043168-citizen-1589960656-331-640x480.jpg

یکم جنوری سے 30 اپریل تک حل کی گئی شکایات کو مرحلہ وار کھولا جائے گا فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان سیٹیزن پورٹل پر اداروں کی جانب سے شکایات میں کوتاہی برتنے کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

وزیر اعظم آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان سیٹیزن پورٹل پر شہریوں کی جانب سے کی گئی شکایتوں کے ازالے کے حوالے سے متعلقہ اداروں کی کوتاہی اور غلط بیانی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شہری اداروں کی جانب سے شکایات کے حل پر مطمئن نہیں تھے اور متعلقہ اداروں نے شہریوں کی شکایات کے حل سے غلط بیانی کی۔ وزیراعظم کی ہدایت پر ایک لاکھ 6 ہزار شکایات کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شکایات کو دوبارہ کھول کر ان کا میرٹ پر حل یقینی بنایا جائے گا، یکم جنوری سے 30 اپریل تک حل کی جانے والی شکایات کو مرحلہ وار کھولا جائے گا۔

وزیر اعظم آفس ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق سے 12 ہزار 340 ، پنجاب سے17 ہزار 661، سندھ سے 3 ہزار 256، خیبر پختونخوا سے 5 ہزار 346 جب کہ بلوچستان سے 482 شکایات دوبارہ کھولی جائیں گی۔
 
Top