الحمدللہ! میں رزقِ حلال کماتا ہوں

احمد محمد

محفلین
میں ایک نہایت ایماندار، شریف النَّفس، بے ضرر اور اپنے سے کام سے کام رکھنے والا شخص ہوں جو دن رات انتہائی محنت اور دیانتداری کے ساتھ اپنے والدین اور بیوی بچوں کے لیے رزقِ حلال کماتا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اللّٰہ پاک کی ذات ہی رازق ہے اور اس نے بہرحال رزق دینے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ احسن طریقہ سے رزقِ حلال حاصل کیا جائے۔

معاشرتی معمولات میں سے چند تدابیر و تراکیب آپکی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ امیدِ واثق ہے کہ آپ ان کی اہمیّت اور ان میں پنہاں عذر جان کر ہرگز برا خیال نہ جانیں گے:-

اپنے ہنر اور ذہانت کی بدولت عمدہ اجناس آویزاں کرکے ناقص فروخت کرلیتا ہوں اور درجہ اول جنس کی نمائش کر کے اس کے بھاؤ میں درجہ دوئم اور سوئم بھی فروخت کر لیتا ہوں۔

مجبوری کے باعث بیچ بازار یا راہداری میں اپنا ٹھیلا کھڑا کر کے کاروبار کرتا ہوں۔ شاید راہگیروں کو تکلیف ہوتی ہو مگر زیادہ مصروف گزرگاہوں پر اشیأ بھی تو زیادہ اور جلد فروخت ہوتی ہیں۔

اور جب خود باقاعدہ دوکان بنا کر کاروبار کرتا ہوں تو سوائے اپنے گاہک کے، کسی کو اپنی دوکان کے سامنے ٹھیلا، سکوٹر یا سائیکل کھڑی نہیں کرنے دیتا اس سے کاروبار کا حرج ہوتا ہے تاہم کچھ گاڑیوں والے امرأ کا احساس بھی کرتا ہوں اور بعض تو پوچھے بنا ہی اپنی گاڑی کھڑی کر دیتے ہیں۔ اگرچہ راہداری دوکاندار کی ملکیت نہیں مگر ان کا بغیر اجازت ایسا کرنا کس قدر غیر اخلاقی ہے۔

کاورباری اوقات میں گاہکوں کی ہر ممکن راہنمائی بھی کرتا ہوں یہ بتلا کر کہ ان کے لیے کون سی چیز اور کتنی مقدار میں خریدنا زیادہ سود مند ہوگا۔ اکثر اشیأ کو ذاتی مستعمل ہونے کی تصدیق کے ساتھ فروخت کرتا ہوں اور کئی گاہکوں کو ان کی من پسند چیز خریدنے سے بھی باز رکھتا ہوں تا کہ انہیں نقصان سے بچایا جا سکے۔ جو چیز یا مقدار بھی تجویز کرتا ہوں اس کی فروخت میں کثیر منافع مجھے حاصل ہوتو یہ محض اتفاق ہوتا ہے۔

چونکہ جائز منافع کی کوئی شرع طے نہیں ہے اس لیے اس شرعی گنجائش کو مدّنظر رکھتے ہوئےجو ادھار کا خریدار ہو اس سے زیادہ منافع وصول کر لیتا ہوں کیونکہ ادھار کے باعث اکثر تو شرم سے بھاؤ بھی نہیں پوچھتے تو مجھے منافع زیادہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔

اکثر اوقات مختلف اشیاء کے نرخ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جیسے ہی نرخ میں اضافہ ہوتا ہے تو سرکاری فرمان کی فرمانبرداری کرتے ہوئے موجودہ ذخیرہ پر نئے نرخ لاگو کر دیتا ہوں۔ اور بعض اوقات کمپنی کی جانب سے کسی اسکیم کے تحت نرخ میں کمی آجائے تو طبیعت پر بہت گراں گزرتی ہےاور بادلِ ناخواستہ اشیاء کو پرانے پورے نرخ پر یہ بتا کر فروخت کرنا پڑتا ہے کہ ابھی پرانا ذخیرہ ہے، نئی اسکیم کا ذخیرہ تو فی الحال کمپنی نے جاری ہی نہیں کیا۔

دورانِ کاروبار وقت کا بھی خاص خیال رکھتا ہوں، سوائے کھانے پینے اور دیگر ناگزیر حاجات کے، بالکل بھی اپنی جگہ نہیں چھوڑتا تاہم اوقاتِ کاروبار میں عبادت کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ رزقِ حلال کمانا بھی تو عین عبادت ہی ہے۔

ایسے کئی معاملات اور بھی ہیں جو آپ کی نظر میں غیرموزں یا نامناسب ہوں گے کیوں کہ ان میں آپ کا مفاد جو نہیں۔

مگر ان سب کے باوجود میں رزقِ حلال کماتا ہوں۔
 

imissu4ever

محفلین
السلام علیکم آپ کا انداز آپکے پوسٹ کے عنوان سے میچ نہیں کرتا ۔
ہمیں اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہئے۔ یہ وہ حال ہے کہ صبح پانی کی نہر بہہ رہی تھی کیونکہ دودھ کسی نے ڈالا ہی نہیں ۔۔۔
ہم میں سے ہر شخص مکلف ہے اپنے آپکا
مجموعی طور پر اپنے اپ کو شامل کرکے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تنقید میں ہم اوّل آتے ہیں اور تعمیر میں ہم پیچھے۔۔۔
ہم یہ سوچیں کہ ہم نے اپنی اپنی جگہ پر رہ کر کتنے لوگوں کو سہولتیں دیں !!!
 

شکیب

محفلین
میں ایک نہایت ایماندار، شریف النَّفس، بے ضرر اور اپنے سے کام سے کام رکھنے والا شخص ہوں جو دن رات انتہائی محنت اور دیانتداری کے ساتھ اپنے والدین اور بیوی بچوں کے لیے رزقِ حلال کماتا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اللّٰہ پاک کی ذات ہی رازق ہے اور اس نے بہرحال رزق دینے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ احسن طریقہ سے رزقِ حلال حاصل کیا جائے۔

معاشرتی معمولات میں سے چند تدابیر و تراکیب آپکی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ امیدِ واثق ہے کہ آپ ان کی اہمیّت اور ان میں پنہاں عذر جان کر ہرگز برا خیال نہ جانیں گے:-

اپنے ہنر اور ذہانت کی بدولت عمدہ اجناس آویزاں کرکے ناقص فروخت کرلیتا ہوں اور درجہ اول جنس کی نمائش کر کے اس کے بھاؤ میں درجہ دوئم اور سوئم بھی فروخت کر لیتا ہوں۔

مجبوری کے باعث بیچ بازار یا راہداری میں اپنا ٹھیلا کھڑا کر کے کاروبار کرتا ہوں۔ شاید راہگیروں کو تکلیف ہوتی ہو مگر زیادہ مصروف گزرگاہوں پر اشیأ بھی تو زیادہ اور جلد فروخت ہوتی ہیں۔

اور جب خود باقاعدہ دوکان بنا کر کاروبار کرتا ہوں تو سوائے اپنے گاہک کے، کسی کو اپنی دوکان کے سامنے ٹھیلا، سکوٹر یا سائیکل کھڑی نہیں کرنے دیتا اس سے کاروبار کا حرج ہوتا ہے تاہم کچھ گاڑیوں والے امرأ کا احساس بھی کرتا ہوں اور بعض تو پوچھے بنا ہی اپنی گاڑی کھڑی کر دیتے ہیں۔ اگرچہ راہداری دوکاندار کی ملکیت نہیں مگر ان کا بغیر اجازت ایسا کرنا کس قدر غیر اخلاقی ہے۔

کاورباری اوقات میں گاہکوں کی ہر ممکن راہنمائی بھی کرتا ہوں یہ بتلا کر کہ ان کے لیے کون سی چیز اور کتنی مقدار میں خریدنا زیادہ سود مند ہوگا۔ اکثر اشیأ کو ذاتی مستعمل ہونے کی تصدیق کے ساتھ فروخت کرتا ہوں اور کئی گاہکوں کو ان کی من پسند چیز خریدنے سے بھی باز رکھتا ہوں تا کہ انہیں نقصان سے بچایا جا سکے۔ جو چیز یا مقدار بھی تجویز کرتا ہوں اس کی فروخت میں کثیر منافع مجھے حاصل ہوتو یہ محض اتفاق ہوتا ہے۔

چونکہ جائز منافع کی کوئی شرع طے نہیں ہے اس لیے اس شرعی گنجائش کو مدّنظر رکھتے ہوئےجو ادھار کا خریدار ہو اس سے زیادہ منافع وصول کر لیتا ہوں کیونکہ ادھار کے باعث اکثر تو شرم سے بھاؤ بھی نہیں پوچھتے تو مجھے منافع زیادہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔

اکثر اوقات مختلف اشیاء کے نرخ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جیسے ہی نرخ میں اضافہ ہوتا ہے تو سرکاری فرمان کی فرمانبرداری کرتے ہوئے موجودہ ذخیرہ پر نئے نرخ لاگو کر دیتا ہوں۔ اور بعض اوقات کمپنی کی جانب سے کسی اسکیم کے تحت نرخ میں کمی آجائے تو طبیعت پر بہت گراں گزرتی ہےاور بادلِ ناخواستہ اشیاء کو پرانے پورے نرخ پر یہ بتا کر فروخت کرنا پڑتا ہے کہ ابھی پرانا ذخیرہ ہے، نئی اسکیم کا ذخیرہ تو فی الحال کمپنی نے جاری ہی نہیں کیا۔

دورانِ کاروبار وقت کا بھی خاص خیال رکھتا ہوں، سوائے کھانے پینے اور دیگر ناگزیر حاجات کے، بالکل بھی اپنی جگہ نہیں چھوڑتا تاہم اوقاتِ کاروبار میں عبادت کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ رزقِ حلال کمانا بھی تو عین عبادت ہی ہے۔

ایسے کئی معاملات اور بھی ہیں جو آپ کی نظر میں غیرموزں یا نامناسب ہوں گے کیوں کہ ان میں آپ کا مفاد جو نہیں۔

مگر ان سب کے باوجود میں رزقِ حلال کماتا ہوں۔
واحد متکلم کے صیغے کی وجہ سے پہلے ذرا کنفیوز ہوا، لیکن پھر پس پردہ طنز کا احساس ہو گیا۔
بہت ہی خوبصورت تحریر۔ مبارکباد قبول کریں۔
 

احمد محمد

محفلین
واحد متکلم کے صیغے کی وجہ سے پہلے ذرا کنفیوز ہوا، لیکن پھر پس پردہ طنز کا احساس ہو گیا۔
بہت ہی خوبصورت تحریر۔ مبارکباد قبول کریں۔
بطور لکھاری ابھی ٹھیک سے قواعد و ضوابط سے شناسائی نہیں اور نہ ہی عبور حاصل ہے اس لیے خامیوں کو درگزر فرمائیے۔

آپ احباب کی پسندیدگی اور حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔
 

احمد محمد

محفلین
وعلیکم السلام

آپ کا انداز آپکے پوسٹ کے عنوان سے میچ نہیں کرتا ۔
لکھنے کے قواعد سے لاعلمی پر نادم ہوں، بس جو سوچتا ہوں اس لیے رقم کرتا ہوں کہ اپنی اصلاح بھی ہو جائے اور آپ احباب کے طفیل سوچ کو نئے زاویوں سے آشنائی بھی۔

یہ وہ حال ہے کہ صبح پانی کی نہر بہہ رہی تھی کیونکہ دودھ کسی نے ڈالا ہی نہیں ۔۔۔
جی بہتر۔ کوشش کروں گا آئندہ لکھنے کی بجائے زیادہ پڑھنے پر اکتفا کروں۔

ہم یہ سوچیں کہ ہم نے اپنی اپنی جگہ پر رہ کر کتنے لوگوں کو سہولتیں دیں !!!
ان شاء اللہ

رہنمائی کا بے حد شکریہ
 

نسیم زہرہ

محفلین
میں ایک نہایت ایماندار، شریف النَّفس، بے ضرر اور اپنے سے کام سے کام رکھنے والا شخص ہوں جو دن رات انتہائی محنت اور دیانتداری کے ساتھ اپنے والدین اور بیوی بچوں کے لیے رزقِ حلال کماتا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اللّٰہ پاک کی ذات ہی رازق ہے اور اس نے بہرحال رزق دینے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ احسن طریقہ سے رزقِ حلال حاصل کیا جائے۔

معاشرتی معمولات میں سے چند تدابیر و تراکیب آپکی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ امیدِ واثق ہے کہ آپ ان کی اہمیّت اور ان میں پنہاں عذر جان کر ہرگز برا خیال نہ جانیں گے:-

اپنے ہنر اور ذہانت کی بدولت عمدہ اجناس آویزاں کرکے ناقص فروخت کرلیتا ہوں اور درجہ اول جنس کی نمائش کر کے اس کے بھاؤ میں درجہ دوئم اور سوئم بھی فروخت کر لیتا ہوں۔

مجبوری کے باعث بیچ بازار یا راہداری میں اپنا ٹھیلا کھڑا کر کے کاروبار کرتا ہوں۔ شاید راہگیروں کو تکلیف ہوتی ہو مگر زیادہ مصروف گزرگاہوں پر اشیأ بھی تو زیادہ اور جلد فروخت ہوتی ہیں۔

اور جب خود باقاعدہ دوکان بنا کر کاروبار کرتا ہوں تو سوائے اپنے گاہک کے، کسی کو اپنی دوکان کے سامنے ٹھیلا، سکوٹر یا سائیکل کھڑی نہیں کرنے دیتا اس سے کاروبار کا حرج ہوتا ہے تاہم کچھ گاڑیوں والے امرأ کا احساس بھی کرتا ہوں اور بعض تو پوچھے بنا ہی اپنی گاڑی کھڑی کر دیتے ہیں۔ اگرچہ راہداری دوکاندار کی ملکیت نہیں مگر ان کا بغیر اجازت ایسا کرنا کس قدر غیر اخلاقی ہے۔

کاورباری اوقات میں گاہکوں کی ہر ممکن راہنمائی بھی کرتا ہوں یہ بتلا کر کہ ان کے لیے کون سی چیز اور کتنی مقدار میں خریدنا زیادہ سود مند ہوگا۔ اکثر اشیأ کو ذاتی مستعمل ہونے کی تصدیق کے ساتھ فروخت کرتا ہوں اور کئی گاہکوں کو ان کی من پسند چیز خریدنے سے بھی باز رکھتا ہوں تا کہ انہیں نقصان سے بچایا جا سکے۔ جو چیز یا مقدار بھی تجویز کرتا ہوں اس کی فروخت میں کثیر منافع مجھے حاصل ہوتو یہ محض اتفاق ہوتا ہے۔

چونکہ جائز منافع کی کوئی شرع طے نہیں ہے اس لیے اس شرعی گنجائش کو مدّنظر رکھتے ہوئےجو ادھار کا خریدار ہو اس سے زیادہ منافع وصول کر لیتا ہوں کیونکہ ادھار کے باعث اکثر تو شرم سے بھاؤ بھی نہیں پوچھتے تو مجھے منافع زیادہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔

اکثر اوقات مختلف اشیاء کے نرخ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جیسے ہی نرخ میں اضافہ ہوتا ہے تو سرکاری فرمان کی فرمانبرداری کرتے ہوئے موجودہ ذخیرہ پر نئے نرخ لاگو کر دیتا ہوں۔ اور بعض اوقات کمپنی کی جانب سے کسی اسکیم کے تحت نرخ میں کمی آجائے تو طبیعت پر بہت گراں گزرتی ہےاور بادلِ ناخواستہ اشیاء کو پرانے پورے نرخ پر یہ بتا کر فروخت کرنا پڑتا ہے کہ ابھی پرانا ذخیرہ ہے، نئی اسکیم کا ذخیرہ تو فی الحال کمپنی نے جاری ہی نہیں کیا۔

دورانِ کاروبار وقت کا بھی خاص خیال رکھتا ہوں، سوائے کھانے پینے اور دیگر ناگزیر حاجات کے، بالکل بھی اپنی جگہ نہیں چھوڑتا تاہم اوقاتِ کاروبار میں عبادت کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ رزقِ حلال کمانا بھی تو عین عبادت ہی ہے۔

ایسے کئی معاملات اور بھی ہیں جو آپ کی نظر میں غیرموزں یا نامناسب ہوں گے کیوں کہ ان میں آپ کا مفاد جو نہیں۔

مگر ان سب کے باوجود میں رزقِ حلال کماتا ہوں۔

جزاک اللہ
اچھی کوشش ہے معاشرے کو آئینہ دکھانے کی
 
Top