پاکستان سٹیزن پورٹل ایپلی کیشن کی ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں دوسری پوزیشن

زیک

مسافر
تمام جنگیں کیا صرف بھارت سے ہوئیں؟ سوات، فاٹا، وزیرستان وغیرہ سے جو دہشتگردوں کے علاقہ خالی کروائے وہ جنگ نہیں تھی؟ یہی کام امریکہ بہادر افغانستان میں نہیں کر سکا اور اب طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔
پرمزاح
 
اپنا ایک تجربہ سناتا ہوں۔ دو سال پہلے رمضان میں میرے گھر اور دیگر ملحقہ گھروں کی بجلی کھمبے سے خراب ہو گئی، لوکل الیکڑیشن نے کہا کہ یہ اُس کا کام نہیں بلکہ بجلی (واپڈا) والوں ہی کا ہے۔ مئی جون کا مہینہ، رات سے بجلی بند، رمضان، ایک قیامت کا سا سماں تھا، سارا دن دفتروں کے چکر لگاتے اور لائن مین کو ڈھونڈتے اور اس کا انتظار کرتے گزرا، افطاری کے قریب بجلی ٹھیک ہوئی اور "معاوضے" کے طور پر اس کو اچھے خاصے پیسے بھی دینے پڑے۔

اب سنیے دوسرا تجربہ، چند دن پہلے کی بات ہے۔ بجلی پھر غائب۔ سردیوں کے دن ہیں محسوس ہی نہ ہوا اور ہم سمجھتے رہے کہ شاید لوڈ شیڈنگ وغیرہ کی وجہ سے بجلی بند ہے۔ سہ پہر کو گھر فون کیا کہ بجلی آئی، جواب نفی میں پا کر میں نے شہباز شریف کی "روشن پاکستان" ایپ سے اپنے فیڈر کا اسٹیٹس چیک کیا تو فیڈر چالو تھا پس ثابت ہوا کہ بجلی پھر پول سے خراب ہوئی ہے، میری تو جان پر بن آئی کہ شام ہونے کو ہے کہاں بجلی والوں کے دفتروں میں دھکے کھاؤں اور لائن مین کو پکڑوں۔

اچانک اس سٹیزن پورٹل کا خیال آیا، اسی وقت انسٹال کیا اور شکایت درج کروا دی۔ اُس کے بعد حیران ہونے کی باری میری تھی، تھوڑی تھوڑی دیر سے میری شکایت کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ ہونے لگا لیکن میں اسے ڈھکوسلہ ہی سمجھتا رہا۔ یقین تب آیا جب قریب ڈیڑھ گھنٹے کے بعد موبائل پر فون آیا کہ جناب لائن مین بول رہا ہوں آپ کی بجلی ٹھیک کر دی ہے، تصدیق کروالیں اگر اب بھی کوئی مسئلہ ہو تو اسی نمبر پر مجھے مطلع کریں۔ بجلی ٹھیک ہو چکی تھی، میں نے ایک فون تک کسی کو نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی رقم صرف ہوئی۔ شام ہو چلی تھی گھر پہنچا تو ساتھ ہی بجلی والوں کے دفتر سے کسی انچارج کا فون آیا کہ اگر آپ کا مسئلہ حل ہو گیا ہے تو شکایت کو ختم کر دیں، میں نے کہا، جی بسم اللہ جناب۔

رات دس بجے کے قریب اسلام آباد سے فون آیا کہ ہم پرائم منسٹر کے شکایات سیل سے بات کر رہے ہیں، ہمیں فیڈ بیک آیا ہے کہ آپ کی شکایت حل کر دی گئی ہے، اگر یہ درست ہے تو کیا آپ کی شکایت ختم کر دیں۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے!

میری سب دوستوں، خاص طور پر اُن دوستوں سے درخواست ہے جو عمران خان کو اپنا وزیر اعظم نہیں مانتے کہ بھلے ہی نہ مانیں لیکن گورنمنٹ کو تو آپ ٹیکس دے ہی رہے ہیں سو اگر گورنمنٹ کوئی سہولت مہیا کر رہی ہے تو اسے عمران خان کی سمجھ کر نظر انداز مت کریں بلکہ استعمال کریں۔

یہ آپکا ذاتی تجربہ ہے یا پھر فیس بُک سے کاپی پیسٹ والا کام؟
 
یہ لائن بھی تو کاپی پیسٹ ہوسکتی ہے۔ اصل میں ہمارے سوشل میڈیا کا جہاں بہت فائدہ ہے وہیں یہ نقصان بھی ہے کہ بلا تحقیق بات کو آگے پھیلا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ وارث صاحب کا ذاتی تجربہ ہے تو بہت اچھی بات ہے، اور اگر یہ ذاتی تجربہ نہیں تو اس پر یقین کرتے ہوئے تھوڑا ڈر محسوس ہوتا ہے کیونکہ بحرحال ہمارے ادارے ایسے نہیں کہ اتنی جلدی ان سے کوئی اچھی امید رکھی جائے۔
 
یہ لائن بھی تو کاپی پیسٹ ہوسکتی ہے۔ اصل میں ہمارے سوشل میڈیا کا جہاں بہت فائدہ ہے وہیں یہ نقصان بھی ہے کہ بلا تحقیق بات کو آگے پھیلا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ وارث صاحب کا ذاتی تجربہ ہے تو بہت اچھی بات ہے، اور اگر یہ ذاتی تجربہ نہیں تو اس پر یقین کرتے ہوئے تھوڑا ڈر محسوس ہوتا ہے کیونکہ بحرحال ہمارے ادارے ایسے نہیں کہ اتنی جلدی ان سے کوئی اچھی امید رکھی جائے۔
اگر آپ وارث بھائی سے واقف ہوتیں تو یہ سوال نہ کرتیں۔
وارث بھائی اور کاپی پیسٹیے دو مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ لائن بھی تو کاپی پیسٹ ہوسکتی ہے۔ اصل میں ہمارے سوشل میڈیا کا جہاں بہت فائدہ ہے وہیں یہ نقصان بھی ہے کہ بلا تحقیق بات کو آگے پھیلا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ وارث صاحب کا ذاتی تجربہ ہے تو بہت اچھی بات ہے، اور اگر یہ ذاتی تجربہ نہیں تو اس پر یقین کرتے ہوئے تھوڑا ڈر محسوس ہوتا ہے کیونکہ بحرحال ہمارے ادارے ایسے نہیں کہ اتنی جلدی ان سے کوئی اچھی امید رکھی جائے۔
یقین تو مجھے بھی نہیں آیا تھا اور نہ ہی میرے بیوی بچوں کو (ہم میاں بیوی نے تحریک کو ووٹ دیا تھا لیکن تینوں بچے کٹر نون لیگی ہیں اور "تبدیلی آ گئی" کے نام پر اپنی ماں کو خوب تنگ کرتے ہیں، میرے منہ پر تو لحاظ کر جاتے ہیں لیکن سنا ہے کہ بعد میں آوازے کستے ہیں)۔

اور اتنے دن ہو گئے میں نے اسے کہیں شیئر بھی نہیں کیا تھا سوائے دفتری کولیگز کو سنانے کو لیکن یہ تھریڈ دیکھ کر سوچا کہ لکھ ہی دوں۔
 

محمدصابر

محفلین
میں ہمیشہ اس طرح کی ایپس اور سہولیات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ 10 نومبر کو روٹیاں خریدنے تنور پر پہنچا تو نیا نرخنامہ لگا ہوا تھا جو 11 نومبر سے نافذ ہو رہا تھا ۔ قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ تھا۔ اسی دن ایپ انسٹال کی اورلکھا کہ قیمتوں میں اس اضافے کو روکا جائے یا کم کیا جائے۔ 10نومبر کو یہ شکایت کمشنر کے پاس پہنچی جس نے اسی وقت اسے ڈپٹی کمشنر کے حوالے کر دیا۔ 14 نومبر کو ڈپٹی کمشنر صاحب نے اسے اے ڈی سی کے حوالے کرتے ہوئے لکھا کہ تین دن میں ضروری اقدامات کیے جائیں۔ 17 جنوری کو اے ڈی سی صاحب نے اسے اسسٹنٹ کمشنر کے حوالے کیا اور لکھا کہ تین دن میں اسے مثبت طور پر دیکھیں۔ 23 جنوری کو اسسٹنٹ کمشنر صاحب لکھتے ہیں کہ قیمتوں میں کمی کی ڈرائیو پہلے ہی چل رہی ہے اور جلد یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور شکایت گزار کو چاہیے کہ وہ اس دکان کا پتہ بتائے۔
بہرحال ایک ہفتہ پہلے صرف سادہ نان کی قیمتوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ اور روغنی نان و دیگر نان جو 20 روپے میں دستیاب تھے وہ اب 25 کے مل رہے ہیں۔

28 جنوری کو میں نے ایک اور کمپلینٹ درج کروائی جس میں لکھا کہ گوجرانوالہ میں بنائے گئے سگنل لیس برج کے ساتھ پیڈسٹیرین برجز کی تعمیر کے لئے بنیادوں کی کھدائی کے بعد سڑک کی مرمت نہیں کی گئی۔ جس سے ہر طرف سے آنے والی گاڑیاں پل پر چڑھنے اور اترنے سے پہلے ان کھڈوں سے ٹکراتی ہیں ۔ لہذا اس کی مرمت کی جائے۔ 29 جنوری کو سیکرٹری کمیونیکشن اور ورکس نے اس کو چیف انجینئر پنجاب ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کو سونپ دیا۔ جس نے اسی دن ایگزیکٹو انجینئر ہائی وے ڈویژن گوجرانوالہ 1 کے حوالے کر دیا۔ 31 جنوری کو اس نے لکھا کہ یہ ہائی وے روڈ کنسٹرکشن ڈویژن کا کام ہے۔ اور آج اس نے دوبارہ لکھا ہے کہ یہ ریلیف مجھے نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اور ایپلیکشن بند کر دی ہے۔ اب میں سوچ رہا ہوں۔ کہ متعلقہ محکمہ کو خود ہی گوجرانوالہ میں تلاش کر کے ایک نئی درخواست دفتر بھجوا دوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور آج اس نے دوبارہ لکھا ہے کہ یہ ریلیف مجھے نہیں دیا جا سکتا ہے۔
متفق۔ یہ شکایتی ایپ ہے، عوام اسے فرمائشی ایپ نہ سمجھے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار وزیر اعظم کے دفتر کا عام عوام سے براہ راست رابطہ قائم ہوا ہے۔ جو کہ نہایت خوش آئین بات ہے۔ ترقی یافتہ جدید مغربی ممالک کو بھی اس ایپ جیسی سہولت میسر نہیں ہے
 
اگر آپ وارث بھائی سے واقف ہوتیں تو یہ سوال نہ کرتیں۔
وارث بھائی اور کاپی پیسٹیے دو مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں۔ :)
لیکن پوچھنے میں حرج بھی کوئی نہیں، تصدیق ہوجائے تو اچھا رہتا ہے۔ ویسے بھی ابھی شاید ایک ماہ بھی نہیں ہوا مجھے اس فورم میں تو کیسے تمام احباب کو جان سکتی ہوں :)
 
یقین تو مجھے بھی نہیں آیا تھا اور نہ ہی میرے بیوی بچوں کو (ہم میاں بیوی نے تحریک کو ووٹ دیا تھا لیکن تینوں بچے کٹر نون لیگی ہیں اور "تبدیلی آ گئی" کے نام پر اپنی ماں کو خوب تنگ کرتے ہیں، میرے منہ پر تو لحاظ کر جاتے ہیں لیکن سنا ہے کہ بعد میں آوازے کستے ہیں)۔

اور اتنے دن ہو گئے میں نے اسے کہیں شیئر بھی نہیں کیا تھا سوائے دفتری کولیگز کو سنانے کو لیکن یہ تھریڈ دیکھ کر سوچا کہ لکھ ہی دوں۔

بہت خوب۔۔۔ بچوں کو بھی آہستہ آہستہ سمجھ آجائے گی انشاءاللہ۔ 70 سال کی خرابیوں کو درست سمت دینے کے لیے بھی کم سے کم 4 سے 5 سال لگ جائیں گے۔
اللہ پاکستان کے حق میں سب بہتر کرے گا انشاءاللہ۔
 
ویسے میرا خیال ہے مجھے بھی یہ ایپ انسٹال کر لینی چاہیے۔۔۔۔۔ 12 سال سے زیرِ تعمیر اسپتال کی شکایت بھی ہونی چاہیے۔ جہاں 12 ماہ میں میٹرو بن جائے وہاں 12 سال سے ایک اسپتال کو گرانے کے بعد دوبارہ تعمیر نہ کیا جا سکے تو اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عجیب مسئلہ ہے۔ جن کی شکایات حل ہو رہی ہیں وہ کہہ رہے ہیں ایپ ٹھیک کام کر رہی ہے۔ جن کی حل نہیں ہو رہی وہ کہہ رہے ہیں ایپ خراب ہے
 

جاسم محمد

محفلین
54278902_10156432595759527_7569507502715305984_n.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
گو کہ اس ایپ کو کبھی استعمال نہیں کیا ہے تاہم عام طور پر عامۃ الناس کی رائے بہت اچھی ہے۔ کم از کم حکومت کی طرف سے اس طرح کے آپشن فراہم کر دینا بھی ایک مثبت اقدام ہے جس کی ستائش نہ کی جائے تو بلاشبہ زیادتی ہو گی۔ آہستہ آہستہ یہ ایپ مزید بہتر ہوتی جائے گی؛ امکان غالب ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان سیٹیزن پورٹل کے توسط سے ایک اغوا شدہ بچی بازیاب کروا لی گئی۔ مظلوم ماں کی زبانی سنئے:

شکایت ملتے ہی وزیر اعظم نے پولیس کو بچی کی فوری بازیاب کا حکم دیا۔ اس پر پنجاب پولیس نے روایتی جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہہ کر کیس بند کر دیا کہ بچی بازیاب ہو چکی ہے۔ جس پر وزیر اعظم خود چل کر لاہور آئے اور پنجاب حکومت کی کھنچائی کی۔ جس کے بعد بچی بازیاب کروا لی گئی۔
جو قوم اس وقت حکومتی نا اہلی کا رونا رو رہی ہے وہ سابقہ حکمرانوں سے کیوں نہیں پوچھتے جو ملک کا ہر ادارہ اور محکمہ اتنا کرپٹ چھوڑ کر گئے ہیں کہ ان میں بھرتی افسران کو ملک کے وزیر اعظم سے جھوٹ بولتے کوئی شرم محسوس نہیں آتی۔ لیکن پھر بھی عوام کی ڈھٹائی دیکھیں کہ توقع کئے بیٹھے ہیں کہ نئی حکومت اسی فرسودہ اور کرپٹ نظام سے ان کو ریلیف فراہم کرے۔
 
Top