14 فروری بطور یوم حجاب ڈیزائن مقابلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
’’محبت‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں ہر فرد اس کا متلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ مگر قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے دیا گیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’محبت‘‘ کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا ہے۔ صورت حال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے حقیقی محبت کا اظہار کرنا چاہے تو وہ بھی تذبذب کا شکار رہتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جس سے محبت ہو اس سے محبت کا اظہار بھی کیا جائے۔ اس تمام صورت حال کا سبب فقط اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اسلام نے محبت کی تمام راہیں متعین فرما دی ہیں۔ جہاں محبت کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا ہے وہیں ہمارے معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک مثال عالمی سطح پر ہر سال 14 فروری کو ایک تہوار منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے

عالمی سطح پر ’’یومِ محبت‘‘ کے طور پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوار ہر سال پاکستان میں دیمک کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس دن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ تہوار منانے والے ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے کہ یہ دن منانے کی وجہ کیاہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ اگر ان روایات کو بھی بنیاد بنایا جائے تو ایک عقل مند اور باشعور انسان اس تہوار کو منانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اس دن کے حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں سے کوئی مستند نہیں ہے، البتہ ایک خیالی داستان جو اس حوالے سے بہت مشہور ہو چکی ہے، اسے بطور مثال ذکر کرتے ہیں: تیسری صدی عیسوی میں روم میں ’’ ویلنٹائن ‘‘ نامی ایک پادری کو ایک راہبہ سے ’’عشق‘‘ ہو گیا۔ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا اور اب بھی ممنوع ہے۔ اس نے عشق کو انتہا تک پہنچانے کے لیے ایک ڈرامہ رچایا اور اپنی معشوقہ سے کہا: ’’مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر 14 فروری کو راہب اور راہبہ (بغیر نکاح کے) صنفی ملاپ کر لیں تو ان پر کوئی حد نہیں لگے گی۔‘‘ راہبہ اس کے چکر میں آ گئی اور دونوں ’’جوشِ عشق‘‘ میں ’’منہ کالا‘‘ کر بیٹھے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر انھیں قتل کر دیا گیا۔ اس پادری کا نام ’’ویلنٹائن‘‘ بتایا جاتا ہے جسے بعد میں ’’عشاق‘‘ کی طرف سے ’’شہیدِ محبت‘‘ کا لقب دیا گیا۔ اسی عاشق راہب ویلنٹائن کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔

یہ وہ داستان ہے جس کی بنیاد پر ایک جنونی گروہ مسلم معاشرے خصوصاً پاکستان میں بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ باعثِ شرم بات تو یہ ہے کہ اس عاشق راہب اور معشوقہ راہبہ کا جس مذہب سے تعلق تھا وہ اس تہوار کو اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر مسلمان ہیں کہ بے حیائی کے اس کلچر کو دل و جاں سے قبول کیے ہوئے ہیں۔ باعثِ صد افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھایا ہوا ایک مخصوص گروہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کو یومِ تجدید محبت‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ماضی قریب تک ایسی ’’محبت‘‘ کو باعث عار سمجھا جاتا تھا مگر اب اسے باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اگر کسی کو عشق کی بیماری لگ جاتی تو وہ معاشرے میں اپنی عزت کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے اس مرض کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔ مگر آج وطن عزیز میں صورت حال یہ بن چکی ہے کہ ہمارا میڈیا اس مرض کو ایک ’’مقدس شے‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ویلنٹائن جیسی واہیات تقریبات کو رواج دیا جا رہا ہے۔

بہر حال اس حوالے سے کوئی جامع حکمت عملی تشکیل دی جانی چاہیے۔ مغرب سے گہری وابستگی اور قربت کے طوفان کو نہ روکا گیا تو مغربی فضولیات ہماری معاشرتی اقدار کو بہا لے جائیں گی۔ انگریزی تہذیب کے ایام ہماری نئی نسل کے کردار کو مسخ کر دیں گے۔ چونکہ مغرب اسلام سے بہت خائف ہے، اسی لیے وہ ہمارے معاشرے میں ایسے تہواروں کو فروغ دے رہا ہے۔ اہل مغرب کی یہ کوشش ہے کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی و عریانی کو عام کر کے مغربی ممالک کی طرح یہاں بھی عورت کو ’’تماشا‘‘ بنا دیا جائے۔

حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو لہو و لعب اور جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ اخبارات کے مالکان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کسی قسم کے اشتہارات اور پیغامات شائع نہیں کریں گے۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی گزارش ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔ نئی نسل کی جنسی آوارگی کی طرف رہنمائی کرنے کے بجائے ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں

تعلیمی اداروں کے منتظمین اور اساتذہ کرام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی نئی نسل کی اخلاقی تربیت کریں۔ انھیں حیا باختہ تہواروں کے بارے میں آگاہ کریں کہ ہمارے مذہب اور ہماری معاشرتی اقدار کا تہذیب ہے جو ہمارے صاف ستھرے چہرے کو مسخ کرنا چاہتی ہے۔

حکومت، میڈیا اور تعلیمی اداروں کے منتظمین و اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں۔ انھیں ان بے ہودہ تہواروں سے لا تعلق رہنے کی تلقین کریں اور ان دنوں ان کی خصوصی نگرانی بھی کریں کہ کہیں وہ شیطان کے جال میں پھنس کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھیں۔

یاد رکھیں! اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور تمام ذمہ داران اخلاقیات کے دشمن ان تہواروں سے صرفِ نظر کرتے رہے تو آج مغرب جس صورتِ حال سے دو چار ہے وطنِ عزیز میں اس کے پیدا ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ہمارے ہاں اس وقت محض ایک قلیل تعداد اس خطرناک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئی ہے، ہماری آبادی کی اکثریت اس آگ کی تپش سے اب تک محفوظ ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر چند جھاڑیوں کو لگی آگ کو بجھا دیا جائے، ورنہ یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی…!

:اور آخر میں اعلان
اردو ڈیزائنر موبائیل اپلیکشن کی انتظامیہ کی جانب سے ’’14 فروری بطور یوم حجاب ‘‘ کے مناسبت سے پوسٹر ڈیزائن کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا ہے، جو اچھا اور مثبت اقدام ہے، یقیناً بہت سے تخلیقی ذہن کے مالک اپنی سوچ کو اس اپلیکشن کی مدد سے اجاگر کریں گے، اسکا مقصد نوجوان نسل کو اچھائی کی طرف راغب کرنا ہے

14 فروری بطور یوم حجاب کے مناسبت سے اردو ڈیزائنر کے اپلیکشن پر پوسٹ بنائیں اور اسلام میں پردے کی
اہمیت کو اجاگر کریں اس مقابلہ سے متعلق مزید تفصیلات اردو ڈیزائنر ایپ کے مقابلے کے سکشن میں پڑھ لیں


اردو ڈیزائنر ایپ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں۔
https://play.google.com/store/apps/details?id=fida.pk.urduonpicturepro

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
 
ویلنٹائن ڈے پر تو روک لیں گے باقی پورا سال؟ کیا یہ خرافات صرف ویلنٹائنز ڈے پر ہوتی ہیں؟ کبھی ہمارے کالج و یونیورسٹیز کا ماحول تو چیک کریں جہاں ہر کونے میں ایک بلا ناغہ ایک ڈیٹ ہوتی ہے۔ جہاں کلاسز کی بجائے طلبا و طالبات مقامی ہوٹل کے کمروں میں وقت گزارتے ہیں۔
ویلنڈائن ڈے تو مفت میں بدنام ہوگیا ورنہ اس مملکت خداداد میں روزانہ کی بنیاد پر ایسی خرافات کے وافر مواقع موجود ہیں۔
 
یقین نہیں آتا ایک طرف ایک کام کر سکنے والی اپلیکیشن بنا لی اور دوسری طرف اتنی ناپختگی اور کم عقلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
 

محمد فہد

محفلین
عزت کھو دیتے ہیں محبت پانے کے لیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مل جائے محبت تو زندگی بیت جاتی ہے۔۔۔۔کھوئی ہوئی عزت پانے کے لیے۔۔۔۔
 

La Alma

لائبریرین
14 فروری بطور یوم حجاب کے مناسبت سے اردو ڈیزائنر کے اپلیکشن پر پوسٹ بنائیں اور اسلام میں پردے کی
اہمیت کو اجاگر کریں
یہ تو مرد حضرات کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ویلنٹائنز ڈے اکیلے خواتین تو نہیں مناتیں۔ مردوں کا قبلہ درست رکھنے کے لئے 14 فروری کو ایک آدھ ٹوپی یا تسبیح ڈیزائننگ کا مقابلہ بھی ہونا چاہیے۔
 
Top