سید عمران

محفلین
DSC00441.jpg
 

سید عمران

محفلین
آج ہمارا دلّی میں آخری دن تھا۔ آج کے دن صرف شاپنگ کرنی ہے۔ آنٹی وعدے کے مطابق پرانی دلّی کے بازار لے گئیں۔ ہم ساڑھیوں کی ایک دوکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔
دوکان دار نے پوچھا: ’’کس قسم کی ساڑھی دکھاؤں؟‘‘
’’ڈبل بارڈر والی۔‘‘ ہم نےآنٹی کے بولنے سے پہلے ہی خالہ کی پڑھائی پٹی سنادی۔
’’آپ پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘ دوکاندار نے چھوٹتے ہی کہا۔
’’دیوبند سے آئے ہیں۔‘‘ ہمیں سرعام پاکستان کا نام لینے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔
’’نہیں، آپ پاکستانی ہیں، یہاں کے لوگ ایسے نہیں بولتے۔‘‘دوکاندار چپکو قسم کا آدمی تھا، کسی صورت اپنی پاکستان شناسی پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ ہوا۔
’’آپ ساڑھی تو دکھائیں۔‘‘ آنٹی اپنے بھاری پاؤں سے ہمارا پاؤں زور کچلتے ہوئے دوکاندار سے مخاطب ہوئیں۔ یوں دوکاندار کا دھیان ہم سے اور ہمارے پاکستانی ہونے سے ہٹا اور ہمیں اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا۔ مگر یہ ہماری خوش فہمی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چائے منگوالی اور کپ ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’یہ ہمارے پاکستانی مہمانوں کے لیے۔‘‘ظالم کسی صورت ہمارا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔
ہم جواب میں یقیناً کچھ کہتے مگر کچلے ہوئے پاؤں کی ٹیسیں آنٹی کے تشدد کی یاد دلا رہی تھیں۔ ہم نے خاموشی سے چائے پینے میں عافیت جانی۔آنٹی نے گرے رنگ کی ایک چمکدار ریشمی ساڑھی پسند کی جس پر آسمانی اور فیروزی رنگ کے دو بارڈر بنے ہوئے تھے۔ شاید اسی لیے یہ ڈبل بارڈر ساڑھی کہلائی جاتی ہے۔ مگر اسے یہاں ایسا کیا کہتے ہیں جو ہم نے نہیں کہا اور یوں ہمارے پاکستانی ہونے کا پردہ فاش ہوا۔ ہم بعد میں آنٹی سے بھی پوچھنا بھول گئے۔ ساڑھی کے تینوں کلر کا کنٹراس زبردست لگ رہا تھا۔آنٹی کی پسند لاجواب تھی۔ ساڑھی خالہ کو بھی بے حد پسند آئی تھی۔ بار بار کپڑا مٹھی میں دبا کر کہتیں بالکل ملائی کی طرح نرم ملائم ہے۔

دوکاندار کو جب بھی موقع ملتا ہمیں شک بھری نظروں سے گھورنا نہ چھوڑتا۔ اٹھتے اٹھتے بھی کہنے لگا:
’’اپنے پاکستانی ہونے کا بتانے میں کچھ حرج نہیں، یہاں کوئی پکڑ تھوڑی رہا ہے۔‘‘ قبل اس کے کہ ہماری دریدہ دہنی شروع ہوتی آنٹی ہمارا بازو پکڑ کر کھینچتی ہوئی دوکان سے باہر لے آئیں۔

یہاں سے نکل کر ہم نے نانی کے لیے چاندی کا ایک چھوٹا سا پاندان لیا تاکہ نانی اسے اپنے ساتھ لے کر کہیں بھی بآسانی آجا سکیں۔ دادی کی طرح نانی بھی بہت زیادہ سوشل تھیں۔ ان کے یہاں ہر وقت کسی نہ کسی کا آناجانا لگا رہتا تھا۔ ہمیں یہاں دو چیزیں اور پسند آئیں جو پاکستان میں نہیں ملتی تھیں۔ ایک دودھ اُبالنے کا برتن اور ایک پریشر کوکر۔

یہاں پریشر کوکر کا ڈھکن کوکر کے منہ کی بنسبت چھوٹا ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ بھاپ کا پریشر زیادہ ہونے کی صورت میں ڈھکن کوکر کے اندر ہی گرجاتا ہے اور پھٹ کر باہر نہیں آتا۔ یوں نقصان کم ہوتا ہے۔ ہمیں یہ وزنی لگا اس لیے اسے چھوڑ دیا۔

دوسری چیز دودھ اُبالنے کا برتن تھی۔ یہ اصل میں ڈبل بوائلر قسم کی چیز تھی۔ اس کی دو تہوں کے درمیان خالی جگہ ہوتی ہے اور باہر کی طرف اوپر ایک سوراخ ہوتا ہے۔ اس سوراخ کے ذریعہ بوائلر میں پانی بھر کر سوراخ کے منہ پر پریشر کوکر کی طرح سیٹی لگا دی جاتی ہے۔ جب پانی ابلتا ہے تو سیٹی بجنے لگتی ہے۔ یہ آپ کو اطلاع دیتی ہے کہ دودھ ابلنے والا ہے آکر چولہا بند کردیں۔ یوں دودھ ابل کر ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔

پاندان اور بوائلر آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
دلّی یاترا ہوچکی تھی۔۔۔
اب لوٹ کے ہم دیوبند آئے۔۔۔

صبح جب دیوبند پہنچے تو گھر میں حسب معمول سناٹا تھا۔ کزنز اسکول کالج جاچکے تھے۔ چچی گھر کے کاموں میں مصروف تھیں۔ چچا ملازمت پر اور دادی اندر کمرے میں۔

ہم تینوں مسافر اپنا سامان اتار کر کمرے میں بچھی چاندنی پر لیٹ گئے۔ چچی گرم گرم چائے لے آئیں۔ پی کر تھکن اتری اور طبیعت میں کچھ چستی اور نشاط پیدا ہوا۔مختصر سی روداد ڈسکس ہوئی پھر چچی اٹھ کر گھر کے کاموں میں لگ گئیں اور تھوڑی دیر بعد کزنز کی آمد شروع ہوگئی۔

سب فریش ہوکر ہمارے اردگرد آ بیٹھے۔ ہمیں امید نہ تھی کہ شگفتہ بھی آئے گی۔ ہم نے اسے ستایا بھی بہت تھا۔لیکن پھر وہ بھی آگئی۔ کچھ جھجکتے، کچھ چھپتے سائیڈ میں ہوکر بیٹھ گئی۔ ہم نے سوچا محبت کی مٹی سے گندھے یہ لوگ ستانے پر بھی چاہنا نہیں چھوڑتے، توآج سے ہم انہیں ستانا چھوڑ دیتے ہیں!!!

گرما گرم موضوعِ بحث احوالِ دلّی تھا،ہم نے خوب مرچ مصالحے لگا کر سنایا، سب کا دل تڑپایا۔ کسی نے پوری دلّی نہیں دیکھی تھی۔ سب اُسی شوق سے ہماری داستان سن رہے تھے جس طرح ہم بچپن میں نانی سے کہانیاں سنتے تھے۔

دوپہر کے کھانے تک محفل جمی رہی۔ کھانے کے بعد جو سوئے تو عصر میں آنکھ کھلی۔ صحن میں چارپائیاں بچھ چکی تھیں۔ ہم بھی ہاتھ منہ دھو کر ایک چارپائی پر بچھ گئے۔ چائے کے دوران دادی نے بتایا کہ رام پور گاؤں سے دعوت آئی ہے جہاں ہمارے دور پرے کے عزیز رشتے دار رہتے ہیں۔ دعوت قبول نہ کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہ تھی لہٰذا قبول کرلی۔ لیکن آنٹی نے کہا آج آرام کرتے ہیں کل چلیں گے۔ بھلا ہماری انکار کرنے کی کیا مجال تھی ۔

مغرب کے وقت چچی رات کے کھانے کی تیاریوں میں مشغول تھیں۔ ہم چارپائی پر اُلٹے لیٹے تھے۔ پاؤں دائیں جانب والی محراب کی طرف تھے۔ نظروں کے سامنے ورن مالا یعنی ہندی قاعدہ تھا۔ ہم ہندی اکشروں کی شکل و صورت ذہن میں بٹھانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ اچانک تھک کر قاعدہ ہٹایا تو سامنے دلچسپ منظر تھا۔

چچی کچن سے گول سا چولہا اٹھا لائی تھیں۔ سلینڈر نما اس چولہے میں سامنے کی جانب نیچے کی طرف ایک سوراخ تھا جبکہ اوپر سے کھلا ہوا تھا۔ انہوں نے سوراخ میں ایک موٹی سی لکڑی ڈالی اور اوپر بھی بالکل بیچ میں ایک موٹی سی لکڑی کھڑی کرکے لگائی۔ اب چولہے میں اوپر کی جانب سے لکڑی کا باریک برادہ ڈالا اور اسے زور سے دبا دبا کر ہموار کیا۔ کئی مرتبہ اس عمل کو دہرایا یہاں تک کہ برادہ اوپر تک بھر گیا۔ ہم بڑی دلچسپی سے یہ نیا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اب انہوں نے دونوں لکڑیاں نکال لیں۔برادے میں دو سوراخ نمایاں ہورہے تھے ، ایک اوپر بالکل بیچ میں اور ایک نیچے کی جانب۔ اب انہوں نے نیچے کی جانب والے سوراخ میں جلتی ہوئی لکڑی ڈالی تو اس کی آگ اوپر والے سوراخ سے نکلنے لگی۔ یوں لکڑی کے کم استعمال سے کھانے پکانے کے لیے جلتا ہوا چولہا تیار ہوگیا۔

اس پر انہوں نے پتیلی رکھی، اس میں تیل ڈالا پھر پیاز ڈالی اور آٹا گوندھنے لگیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کبھی پتیلی میں چمچہ چلاتیں کبھی آٹے کو مُکّیاں لگاتیں۔ اس طرح اس ملٹی ٹاسکنگ سے انہوں نے کھانا تیار کر ہی لیا۔

جب سے ہم یہاں آئے تھے رات کو سونے کے سوا کبھی چچی کو آرام کرتے نہیں دیکھا تھا، نہ وہ کہیں آتی جاتی تھیں۔ سارا دن گھر کے کاموں میں پِھرکی کی طرح لگی رہتی تھیں۔ صبح سویرے اٹھ جانا، بچوں کو ناشتہ کرواکے اسکول بھیجنا، ان کے اتارے ہوئے کپڑے سمیٹنا، بستر طے کرنا، گھر کی صفائی کرنا، دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنا، کھانا لگانا، بچے ہوئے برتن دھونا، کپڑے دھونا، شام کی چائے بنانا، بچی ہوئی پیالیاں دھونا،رات کے کھانے کی تیاریاں کرنا اور پھر رات کو سونے کےلیے بستر بچھانا۔

اف خدا۔۔۔ کس قدر مشقت آمیز ہوتی ہے ان عورتوں کی زندگی۔ بچوں کی خاطر، شوہر کی خاطر، گھر والوں کے راحت و سکون کی خاطر اپنا تن من مار کے، اپنی خوشیوں کو، اپنی خواہشات کو دور کسی موت کی دادی میں اتار کر یہ مائیں کس قدر اخلاص اور لگن سے دوسروں کی زندگی کی گاڑیاں کھینچتی ہیں۔

ہم نے غور کرنا شروع کیا،سب ماؤں کا یہی حال ہوتا ہے۔ نہ دن اپنا نہ رات اپنی۔ سب کچھ دوسروں کا۔ جنہیں یہ اپنے سے بڑھ کر چاہتی ہیں۔ ۔۔

یہ شام ہمیں نئے نئے سبق سکھا رہی تھی۔ آگہی کے کئی در وا کررہی تھی۔۔۔
خدا ہماری ماؤں کی زندگیوں میں برکت دے اور آخرت کی گھاٹیاں طے کرنے میں سہولت۔۔۔
کیوں کہ ساری گھاٹیاں تو یہ یہیں طے کررہی ہوتی ہیں!!!
 
Top