اردو ادب کا عطر، نکتہ آفرینی سطر سطر

15/12/2018
انشاء جی زندگی بھر مسکراتے رہے، ہنستے ہنساتے رہے اور ہنستے ہنستے دکھوں کی یہ دنیا چھوڑ گئے۔
انہوں نے کبھی کسی سے تذکرہ نہ کیا کہ وہ سرطان جیسے موذی مرض کا شکار ہیں۔ ہنسی ان کے خمیر میں تھی۔ مسکرانے کا سامان وہ راہ چلتوں کو چھیڑ کر بھی پیدا کر لیتے تھے۔ آج ایک خیرات مانگتے معصوم بچے سے ان کی چھیڑ خانی دیکھئے:
-------------------------------------------------------------------------
معصومیت: (ابنِ انشاء)

گداگروں کے متعلق یہ فرض کر لینا درست نہ ہوگا کہ سب ہی فراڈ ہوتے ہیں۔۔بعض کی مجبوریاں پیدائشی ہوتی ہیں۔۔ابھی کل ہی ایک معصوم لڑکا‘ معصوم صورت بنائے گلے میں تختی لٹکائے آیا۔۔تختی پر لکھا تھا:
"میں گونگا اور بہرہ ہوں۔۔۔راہِ مولا میری مدد کیجئے۔۔‘‘

ہم نے اسے ایک روپیہ دیا اور چمکار کر کہا۔۔
‘‘برخوردار کب سے گونگے اور بہرے ہو؟ ‘‘
بولا۔۔‘‘جی پیدائشی ہوں۔۔‘‘
 
حسد کے بجائے دعا

لطیفہ ہے کہ ایک غریب دیہاتی تها-وه معاشی اعتبار سے بہت پریشان رہتا تها-کسی شخص نے اس سے کہا کہ تم اکبر بادشاه کے پاس جاو-اس کے پاس بہت پیسہ ہے اور وه ہر مانگنے والے کو دیتا ہے-وه تم کو بهی ضرور دے گا اور تمہارا معاشی مسئلہ حل هو جائے گا-دیہاتی آدمی نے کہا کہ اکبر بادشاه کو کس نے دیا ہے-بتانے والے نے بتایا کہ خدا نے-دیہاتی نے کہا کہ پهر ہم بهی خدا ہی سے کیوں نہ مانگیں-هم اکبر سے کیوں مانگیں-

اس کے بعد وه ایک روز اپنے گهر سے نکلا اور سنسان جنگل کی طرف چلا گیا-وہاں جا کر اس نے اپنا میلا کپڑا زمین پر بچهایا اور اس پر بیٹهہ کر خدا سے دعا کرنے لگا-اس نے اپنی دیہاتی زبان میں کہا : اے اکبر کو دینے والے، مجهے بهی دیدے-وه اسی طرح دعا کرتا رہا-یہاں تک کہ جب وه فارغ هوا اور اس نے اپنا کپڑا اٹهایا تو اس کے نیچے اشرفیوں کی بهری هوئی تهیلی موجود تهی- یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ ہمارے بڑے بڑے دماغ اور اونچے پڑهے لکهے لوگ اپنے شعور اور کردار کے اعتبار سے اس سطح پر بهی نہیں ہیں جہاں مزکوره دیہاتی آدمی تها-

آج یہ حالت ہے کہ جب بهی کوئی شخص یہ دیکهتا ہے کہ دوسرا آدمی اس سے بڑهہ گیا ہے، خواه یہ بڑهنا مال کے اعتبار سے هو یاحیثیت کے اعتبار سے، تو فورا وه حسد میں مبتلا هو جاتا ہے-اس کے سینے میں بڑهنے والے آدمی کے خلاف نفرت اور جلن کی کبهی نہ ختم هونے والی آگ بهڑک اٹهتی ہے-حسد اور جلن میں مبتلا هونے والے لوگ اگر یہ سمجهیں کہ کسی کو جو کچهہ ملا ہے وه خدا کے دیئے سے ملا ہے، وہی کم بهی دیتا ہے اور وہی زیاده بهی دیتا ہے،تو وه بهی وہی کریں جو مزکوره دیہاتی نے کیا- وه پانے والے انسان کے بجائے دینے والے خدا کی طرف دوڑیں- وه خدا کو پکارتے هوئے کہیں کہ جس طرح تونے میرے بهائی کو دیا ہے اسی طرح تو مجهے بهی دیدے-اگر لوگوں میں یہ مزاج آ جائے تو سماج کی تمام برائیاں اپنے آپ ختم هو جائیں-

کسی کی بڑائی کو دیکهہ کر اپنی کمی کا احساس ابهرنا بذات خود ایک فطری جذبہ ہے- اس جذبہ کا رخ اگر خدا کی طرف هو تو وه صحیح ہے اور اگر اس کا رخ آدمی کی طرف هو تو غلط-

حکمت اسلام
مولانا وحیدالدین خان
 

فہد اشرف

محفلین
حسد کے بجائے دعا

لطیفہ ہے کہ ایک غریب دیہاتی تها-وه معاشی اعتبار سے بہت پریشان رہتا تها-کسی شخص نے اس سے کہا کہ تم اکبر بادشاه کے پاس جاو-اس کے پاس بہت پیسہ ہے اور وه ہر مانگنے والے کو دیتا ہے-وه تم کو بهی ضرور دے گا اور تمہارا معاشی مسئلہ حل هو جائے گا-دیہاتی آدمی نے کہا کہ اکبر بادشاه کو کس نے دیا ہے-بتانے والے نے بتایا کہ خدا نے-دیہاتی نے کہا کہ پهر ہم بهی خدا ہی سے کیوں نہ مانگیں-هم اکبر سے کیوں مانگیں-

اس کے بعد وه ایک روز اپنے گهر سے نکلا اور سنسان جنگل کی طرف چلا گیا-وہاں جا کر اس نے اپنا میلا کپڑا زمین پر بچهایا اور اس پر بیٹهہ کر خدا سے دعا کرنے لگا-اس نے اپنی دیہاتی زبان میں کہا : اے اکبر کو دینے والے، مجهے بهی دیدے-وه اسی طرح دعا کرتا رہا-یہاں تک کہ جب وه فارغ هوا اور اس نے اپنا کپڑا اٹهایا تو اس کے نیچے اشرفیوں کی بهری هوئی تهیلی موجود تهی- یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ ہمارے بڑے بڑے دماغ اور اونچے پڑهے لکهے لوگ اپنے شعور اور کردار کے اعتبار سے اس سطح پر بهی نہیں ہیں جہاں مزکوره دیہاتی آدمی تها-

آج یہ حالت ہے کہ جب بهی کوئی شخص یہ دیکهتا ہے کہ دوسرا آدمی اس سے بڑهہ گیا ہے، خواه یہ بڑهنا مال کے اعتبار سے هو یاحیثیت کے اعتبار سے، تو فورا وه حسد میں مبتلا هو جاتا ہے-اس کے سینے میں بڑهنے والے آدمی کے خلاف نفرت اور جلن کی کبهی نہ ختم هونے والی آگ بهڑک اٹهتی ہے-حسد اور جلن میں مبتلا هونے والے لوگ اگر یہ سمجهیں کہ کسی کو جو کچهہ ملا ہے وه خدا کے دیئے سے ملا ہے، وہی کم بهی دیتا ہے اور وہی زیاده بهی دیتا ہے،تو وه بهی وہی کریں جو مزکوره دیہاتی نے کیا- وه پانے والے انسان کے بجائے دینے والے خدا کی طرف دوڑیں- وه خدا کو پکارتے هوئے کہیں کہ جس طرح تونے میرے بهائی کو دیا ہے اسی طرح تو مجهے بهی دیدے-اگر لوگوں میں یہ مزاج آ جائے تو سماج کی تمام برائیاں اپنے آپ ختم هو جائیں-

کسی کی بڑائی کو دیکهہ کر اپنی کمی کا احساس ابهرنا بذات خود ایک فطری جذبہ ہے- اس جذبہ کا رخ اگر خدا کی طرف هو تو وه صحیح ہے اور اگر اس کا رخ آدمی کی طرف هو تو غلط-

حکمت اسلام
مولانا وحیدالدین خان
لطیفہ یا حکایت؟
 
ابنِ انشاء کے متوالوں کی فرمائش پر ان کا ایک شگوفہ۔یہ بھارت ہے، آج بھی ویسا ہی ہے، جیسا انشاء جی کے زمانے میں تھا:):D:p

انڈیا، بھارت، ہندوستان؟؟؟ (ابنِ انشاء)
یہ بھارت ہے، گاندھی جی یہیں پیدا ہوئے تھے، لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے، ان کو مہاتما کہتے تھے، چنانچہ مار کر ان کو یہیں دفن کر دیا اور سمادھی بنا دی، دوسرے ملکوں کے بڑے لوگ آتے ہیں تو اس پر پھول چڑھاتے ہیں، اگر گاندھی جی نہ مرتے یعنی نہ مارے جاتے تو پورے ہندوستان میں عقیدت مندوں کیلئے پھول چڑھانے کی کوئی جگہ نہ تھی،
یہی مسئلہ ہمارے یعنی پاکستان والوں کے لئے بھی تھا، ہمیں قائدِ اعظم کا ممنون ہونا چاہئیے کہ خود ہی مر گئے اور سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کی ایک جگہ پیدا کردی ورنہ شاید ہمیں بھی ان کو مارنا ہی پڑتا۔

بھارت بڑا امن پسند ملک ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اکثر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اس کے سیز فائر کے معاہدے ہوچکے ھیں،1965 میں ہمارے ساتھ ہوا اس سے پہلے چین کے ساتھ ہوا۔ بھارت کا مقدس جانور گائے ہے ، بھارتی اس کا دودہ پیتے ہیں، اسی کے گوبر سے چوکا لیپتے ہیں، اور اس کو قصائی کے ہاتھ بیچتے ہیں، کیونکہ وہ خود گائے کو مارنا یا کھانا پاپ سمجھتے ہیں۔
آدمی کو بھارت میں مقدس جانور نہیں گنا جاتا۔ بھارت کے بادشاہوں میں راجہ اشوک اور راجہ نہرو مشہور گزرے ہیں۔ اشوک سے ان کی لاٹ اور دہلی کا اشوکا ھوٹل یادگار ہیں، اور نہرو جی کی یادگار مسئلہ کشمیر ہے جو اشوک کی تمام یادگاروں سے زیادہ مضبوط اور پائیدار معلوم ہوتا ہے ۔
راجہ نہرو بڑے دھر ماتما آدمی تھے، صبح سویرے اٹھ کر شیر شک آسن کرتے تھے، یعنی سر نیچے اور پیر اوپر کرکے کھڑے ہوتے تھے، رفتہ رفتہ ان کو ہر معاملے کو الٹا دیکھنے کی عادت ہوگئی تھی، یوگ میں طرح طرح کے آسن ہوتے ہیں، نا واقف لوگ ان کو قلابازیاں سمجھتے ہیں، نہرو جی نفاست پسند بھی تھے دن میں دو بار اپنے کپڑے اور قول بدلا کرتے تھے۔
 
گدھے اور گھوڑے (حفیظ، جگر اور جوش)

بمبئی کی ایک معروف ادب پرور اور بوڑھی مغنیہ کے یہاں محفل مشاعرہ منعقد ہورہی تھی ، جس میں جوش، جگر ، حفیظ جالندھری ، مجازؔ اور ساغرؔ نظامی بھی شریک تھے ۔
مشاعرے کے اختتام پر ایک دبلی پتلی سی لڑکی جس کی کم سن آنکھیں بجائے خود کسی غزل کے نمناک شعروں کی طرح حسین تھیں ، ایک مختصر سی آٹو گراف بک میں دستخط لینے لگی ۔
اس جہاندیدہ مغنیہ کی موجودگی میں یہ نو عمر حسینہ زندگی کے ایک تضاد کو نہایت واضح انداز میں پیش کررہی تھی ۔ چنانچہ اس تضاد کے پیش نظر جگر ؔ مرادآبادی نے آٹو گراف بک میں لکھا۔
ازل ہی سے چمن بند محبت
یہی نیرنگیاں دکھلا رہا ہے
کلی کوئی جہاں پہ کھل رہی ہے
وہیں اک پھول بھی مرجھارہا ہے

اور جب حفیظؔ صاحب کی باری آئی تو انہوں نے معصوم لڑکی کے چہرے پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے لکھا۔

معصوم امنگیں جھولی رہی ہیں دلداری کے جھولے میں
یہ کچی کلیاں کیا جانیں کب کھلنا، کب مرجھانا ہے

اس کے بعد آٹو گراف بک دوسرے شاعرں کے پاس سے ہوتی ہوئی جب جوشؔ صاحب کے سامنے آئی تو انہوں نے لکھا:
''آٹو گراف بک ایک ایسا اصطبل ہے ، جس میں گدھے اور گھوڑے ایک ساتھ باندھے جاتے ہیں۔''
 
پولیس (POLICE) کن الفاظ کا مجموعہ ہے...؟
جانئے وہ بات جس سے بہت سے لوگ آج تک ناواقف تھے،
پولیس اور بالخصوص پاکستان کی پولیس سے تو ہر شخص ہی واقف ہے لیکن کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ لفظ *POLICE* کن الفاظ کا مخفف یا مجموعہ ہے اور اس کا کیا مطلب بنتا ہے۔
اکثر لوگوں کا زندگی میں پولیس سے واسطہ بھی پڑتا ہے لیکن بہت کم لوگ ہی ایسے ہیں جنہوں نے *POLICE* کی تعریف سمجھنے کی کوشش کی ہو

سرکاری طور پر لفظ *POLICE* کو
*Polite Obedient Loyal Intelligent Courageous Efficient*
ان الفاظ کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم ان الفاظ کے الگ الگ معانی لکھیں تو وہ کچھ یوں بنیں گے۔

```Polite```
(شائستہ ، مہذب ، خوش اخلاق ، خوش مذاق)
```Obedient```
(فرمانبردار ، تابع ، مطیع ، حکم بردار ، اطاعت شعار)
```Loyal```
(خیر خواہ ، باوفا، فرض شناس ، نمک حلال ، فرمانبردار)
```Intelligent```
(عاقِل، عَقل مند، فہیم، ذہین، ہوشیار)
```Courageous```
(حوصلے والا ، ہمت والا ، دلیر ، نڈر ، دلاور ، دل گردے والا)
```Efficient```
(موثر، اثر پذیر، قابل، لائق، ذہین، اہل)
 
ابنِ انشاء کی چٹکی کا کوئی توڑ نہیں۔ جس کی لی جاتی تھی وہ روتا بھی جاتا ، ہنستا بھی جاتا تھا۔ رہے آپ ، تو آپ تو ہنسیں گے ہی۔ تو شروع ہوجائیے:
-------------------------------------------------------------------------
کبوتر جا جا جا، کبوتر جا: (ابنِ انشاء)

کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔يہ آباديوں ميں جنگلوں ميں، مولوی اسمعيل ميرٹھی کی کتاب ميں، غرض يہ کہ ہر جگہ پايا جاتا ہے ۔کبوتر کی دو بڑی قسميں ہيں۔ نيلے کبوتر ۔سفيد کبوتر ، نيلے کبوتر کی بڑی پہچان يہ ہے کہ وہ نيلے رنگ کا ہوتا ہے، سفيد کبوتر بالعموم سفيد ہی ہوتا ہے۔
کبوتروں نے تاريخ ميں بڑے بڑے کارنامے انجام ديئے ہيں۔ شہزادہ سليم نے مسماۃ مہر النساء کو، جب کہ وہ ابھی بے بی نورجہان تھيں، کبوتر ہی تو پکڑايا تھا جو اس نے اڑا ديا اور پھر ہندوستان کی ملکہ بن گئی۔ يہ فيصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصے ميں زيادہ فائدے ميں کون رہا؟ شہزادہ سليم؟ نورجہاں؟ يا وہ کبوتر؟ رعايا کا فائدہ ان دنوں کبھی معرضِ بحث ميں نہ آتا تھا۔
پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لئے کبوتر ہی استعمال کرتے تھے۔اس ميں بڑی مصلحتيں تھيں۔ بعد ميں آدميوں کو قاصد بنا کر بھيجنے کا رواج ہوا تو بعض اوقات يہ نتيجہ نکلا کہ مکتوب اليہ يعني محبوب قاصد ہی سے شادی کر کے بقيہ عمر ہنسی خوشی بسر کر ديتا تھا۔
چند سال ہوئے ہمارے ملک کی حزبِ مخالف نے ايک صاحب کو الٹی ميٹم دے کر والئی مُلک (حکومتِ وقت) کے پاس بھيجا تھا۔ الٹی ميٹم تو راستے ميں کہيں رہ گيا۔ دوسرے روز ان صاحب کے وزير بننے کی خبر اخباروں ميں آ گئی۔ کبوتر کے ہاتھ يہ پيغام بھيجا جاتا تو يہ صورت حال پيش نہ آتی۔
 
منٹو اپنی بیباک تحریروں کیوجہ سے خاصے بدنام ہیں، مگر کیا یہ تحریر بھی ویسی ہی ہے جو انہوں نے مولانا حسرت موہانی سے اپنی یاری کے بارے لکھی ہے؟
ایک فحش نگار کے قلم سے پاکیزہ اور لطیف جذبوں کی عکاسی۔ کتنا تضاد ہے ان دونوں میں۔اپنی رائے سے ضرور نوازیےگا⁦۔
************************************************
مولانا۔۔۔۔۔( سعادت حسن منٹو)

مولانا چراغ حسن حسرت، جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں۔ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔

آپ سے میری پہلی ملاقات عرب ہوٹل میں ہوئی تھی۔ ایک دن میں نے اس ہوٹل کے باہر تھڑے پر وہ ٹوکرا دیکھا جس میں بچا کھچا کھانا ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک کتا کھڑا تھا۔ ہڈیوں اور تڑی مڑی روٹیوں کوسونگھتا، مگر کھاتا نہیں تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔
شمیم صاحب نے جب حسرت صاحب سے میرا تعارف کرایا اور ادھر ادھر کی چند باتیں ہوئیں، تو میرے استفسار پر بتایا کہ اس کتے کی محبت ایک سانڈ سے ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان دو حیوانوں میں دوستی تھی۔ سانڈ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو خراماں خراماں آتا، کتا دم ہلا ہلا کر اس کا استقبال کرتا اور وہ ٹوکرا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس کے حوالے کردیتا۔ جب وہ اپنا پیٹ بھر لیتا تو جو کچھ باقی بچ جاتا اس پر قناعت کرتا۔

اس دن سے اب تک میری اور حسرت صاحب کی دوستی، اس سانڈ اور کتے کی دوستی ہے۔ معلوم نہیں حسرت صاحب سانڈہیں اور میں کتا۔ مگر ایک بات ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی سانڈ اور کتا ضرور ہے لیکن ہم میں اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ان دو حیوانوں میں شاید نہ ہوتی ہوں۔۔۔۔"
 

فہد اشرف

محفلین
منٹو اپنی بیباک تحریروں کیوجہ سے خاصے بدنام ہیں، مگر کیا یہ تحریر بھی ویسی ہی ہے جو انہوں نے مولانا حسرت موہانی سے اپنی یاری کے بارے لکھی ہے؟
ایک فحش نگار کے قلم سے پاکیزہ اور لطیف جذبوں کی عکاسی۔ کتنا تضاد ہے ان دونوں میں۔اپنی رائے سے ضرور نوازیےگا⁦۔
************************************************
مولانا۔۔۔۔۔( سعادت حسن منٹو)

مولانا چراغ حسن حسرت، جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں۔ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔

آپ سے میری پہلی ملاقات عرب ہوٹل میں ہوئی تھی۔ ایک دن میں نے اس ہوٹل کے باہر تھڑے پر وہ ٹوکرا دیکھا جس میں بچا کھچا کھانا ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک کتا کھڑا تھا۔ ہڈیوں اور تڑی مڑی روٹیوں کوسونگھتا، مگر کھاتا نہیں تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔
شمیم صاحب نے جب حسرت صاحب سے میرا تعارف کرایا اور ادھر ادھر کی چند باتیں ہوئیں، تو میرے استفسار پر بتایا کہ اس کتے کی محبت ایک سانڈ سے ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان دو حیوانوں میں دوستی تھی۔ سانڈ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو خراماں خراماں آتا، کتا دم ہلا ہلا کر اس کا استقبال کرتا اور وہ ٹوکرا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس کے حوالے کردیتا۔ جب وہ اپنا پیٹ بھر لیتا تو جو کچھ باقی بچ جاتا اس پر قناعت کرتا۔

اس دن سے اب تک میری اور حسرت صاحب کی دوستی، اس سانڈ اور کتے کی دوستی ہے۔ معلوم نہیں حسرت صاحب سانڈہیں اور میں کتا۔ مگر ایک بات ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی سانڈ اور کتا ضرور ہے لیکن ہم میں اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ان دو حیوانوں میں شاید نہ ہوتی ہوں۔۔۔۔"
مولانا حسرت موہانی اور مولانا چراغ حسن حسرت دو الگ الگ چیز ہیں۔
 
آخری تدوین:
حکایت اب وہی جانیں جو ایمان مستحکم کی لطافت اپنے اندر جذب کرتا ہوا خراماں ہو
اور لطیفہ اسے ہے جو سوچتا ہو جو میرے پاس ہے میرا محنت ہے ضرور مگر اس کے پیچھے بهی ایک سوچ ہے اس سوچ کی معیار دینے والا بهی ایک عام
 
یوسفیات:
مشتاق احمد یوسفی کی پھلجھڑی:

پرانے زمانے کے ایک عربی زدہ استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور ان کی اپنے شاگردوں کو بھی یہی نصیحت تھی کہ جب بھی بات کرنی ہو تو تشبیہات، استعارات، محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔
ایک بار دورانِ تدریس استاد جی حقہ پی رہے تھے۔ انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اُڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جاپڑی۔
ایک شاگرد اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا:
’'حضور والا! یہ بندۂ ناچیز حقیر فقیر، پرتقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کررہا ہے۔ وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے حقِ حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں۔ چند ثانیے قبل ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے بلند ہوکر چند لمحے ہوا میں ساکت رہا اور پھر آپ کی دستار فضیلت پر براجمان ہوگیا۔ اگر اس فتنہ کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضور والا کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔‘‘
 

فہد اشرف

محفلین
یوسفیات:
مشتاق احمد یوسفی کی پھلجھڑی:

پرانے زمانے کے ایک عربی زدہ استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور ان کی اپنے شاگردوں کو بھی یہی نصیحت تھی کہ جب بھی بات کرنی ہو تو تشبیہات، استعارات، محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔
ایک بار دورانِ تدریس استاد جی حقہ پی رہے تھے۔ انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اُڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جاپڑی۔
ایک شاگرد اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا:
’'حضور والا! یہ بندۂ ناچیز حقیر فقیر، پرتقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کررہا ہے۔ وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے حقِ حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں۔ چند ثانیے قبل ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے بلند ہوکر چند لمحے ہوا میں ساکت رہا اور پھر آپ کی دستار فضیلت پر براجمان ہوگیا۔ اگر اس فتنہ کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضور والا کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔‘‘
یہ اقتباس یوسفی صاحب کی کس کتاب سے ہے؟
 
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجهہ سکے
یزداں کے واقعات سے گهبرا کے پی گیا

دقیق شے اس کے نزدیک کیا تها اس بحر کی کیفیت میں مخاطب کیسے تها اپنے دوستوں اپنے محبوب
تسلی بخش نہیں تها یزداں کے واقعات چلیں اس وقت کے زرداری نواز شریف مولانا فضل الرحمن یوں سمجها جائے جیسے آج پرانے زمانے کی تلخ واقعات سے ہمارا احساس مجروح ہوتا ہے ہوا
 
یہ اقتباس یوسفی صاحب کی کس کتاب سے ہے؟

جہاں تک میراحافظہ کام کررہاہے شایدیہ واقعہ "خاکم بدہن "یا "چراغ تلے "میں تحریرہے.جو یوسفی صاحب کی تصانیف ہیں میں سےہیں.
مکمل طور پر اس لیے نہیں بتا سکتا کہ میں اب اپنے گھر سے دور ہوں اور ان کتابوں سے بھی اس لیے ان دونوں کتابوں کو آپ کو خود دیکھنا ہوگا ۔
 
Top